’تونے  اے  اقبال پائی،  عاشقِ شیدا کی موت‘

ڈاکٹر اشرف گورکھپوری

شعبہ اردو دہلی یونی ورسٹی، دہلی

موبائل نمبر۔  9311827240

 email ashrafalimehadvi@gmail.com

پنڈت جواہر لال نہرو نے  کہا تھا کہ

علامہ اقبال

’’ قوم اپنے  شاعروں اور فلسفیوں سے  پہچانی جاتی ہے  نہ کہ اربابِ سیاست سے۔ سر محمد اقبال کا درجہ بحیثِ شاعر اور فلسفی دور حاضر کے  متوقع ارباب سیاست سے  کہیں اعلیٰ ہے۔یہ حق بہ جانب ہوگا کہ انکی یاد میں ہدیۂ عقیدت پیش کریں اور ان کے  کلام سے  ہدایت حاصل کریں  ‘‘۔

راقم الحروف کا مقالہ بھی ایسی ہی ایک ہدیۂ عقیدت ہے  جو خراج تحسین کی شکل میں آپ کی پیش خدمت ہے۔اقبال پر کچھ کہنے  اور سننے  سے  قبل عبدالماجد دریابادی کایہ قول بھی نقل کرتا چلوں جسے  انہوں نے  اقبال کی رحلت کی خبر سن کر کہی تھی:ـ۔

’’اقبال کی ستائش میں زبان کھولنا در پردہ اپنی مدح و ستائش کرنا ہے  اور اس کا اعلان کرنا ہے  کہ ہم بھی صاحبِ بصیرت،  اہلِ ینش اور جوہر شناس ہیں۔ ــ‘‘

بہت کم شخصیتیں ایسی گزری ہیں  جو اپنی حیات اور بعد مرگ شہرت و ناموری کی معراج پرجا پہنچتی ہوں ۔  ان میں سے  ایک ایسے  ہی نابغئہ روزگار شخصیت علامہ اقبال کی ہے  جن کی شہرت کا آفتاب ہمہ وقت اوجِ ثریہ پر مقیم رہا۔اقبال کا شمار نہ صرف اسلام کے  اکابر شعرا میں ہوتا ہے  بلکہ وہ وطن کے  ان شیدائیوں میں سے  ایک تھے  جو بڑے  بڑے  لیڈروں پر فوقیت رکھتے  تھے۔ زندگی کے  تمام شعبئہ حیات پر ان کی گہری نظر تھی۔  ہر ایک شعبئہ جات میں ان کی قدر کی جاتی تھی اور انشا اللہ تا ابد کی جاتی رہے  گی۔ہر زمانے  کا یہ دستور رہا ہے  کہ کچھ لوگ ایسے  بھی ہوتے  ہیں جوکہ تعصب اور جانب داری کی بدولت اعتراف سے  زیادہ اعتراض کو فوقیت دیتے  ہیں اورایسے  ہی لوگوں نے  اپنی فطرت کی غمازی کرتے  ہوئے  اقبال پر تنقید بھی کیاہے۔  ان سب کے  باوجود اقبال کی شخصیت ایک ایسے  پابئہ گل کی ہے  جن کی خوشبو سے  ہر طرح کی فضا مشک بار ہوتی رہی ہے۔ علامہ کی انہیں خصوصیات کا ذکر کرتے  ہوئے  علی اختر نے  یہ اشعار کہے  ہیں  :۔

اے  کہ ترے  نورسے  رخشاں ہوئی صبحِ وطن

   تونے  کی ویرانیِ ہستی میں تعمیرِ چمن

سازِ مشرق میں سمو دی نغمئہ مغرب کی لے

تونے  بھر دی نئے  پیالوں میں صہبائے  کہن

اب بجھا سکتی نہیں جس کو ہوائے  روزگار

تونے  سینوں میں لگا دی زندگی کی وہ لگن

مدتوں کرتی ہے  گردش جستجو میں کائنات

تب کہیں ملتا ہے  ایسا محرمِ رازِ حیات

موت ایک فطری اور حقیقی عمل ہے  اس سے  کوئی بھی متنفر نہیں ہے۔یہ ایک ایسی حقیقت ہے  جس سے  کسی کو بھی انکار نہیں ۔  جب بھی موت کے  متعلق کسی سے  دریافت کیاجاتا ہے  تو تقریباً اس کا ایک ہی جواب ملتا ہے۔

موت سے  کس کی رستگاری ہے

آج وہ، کل ہماری باری ہے

کسی بھی چیز میں پائیداری نہیں ہے۔ ہر وہ شئے  جو وجود رکھتی ہے  ’کل من علیہا فان‘ کے  مطابق ایک روز ضرور فنا ہوجائے  گی۔ باقی رہ جانے  والی ذات تو صرف خدائے  باری ِرحمت کی ہے۔

آغاز کسی شئے  کا نہ انجام رہے  گا

آخر وہی اللہ کا ایک نام رہے  گا

اس زمین پر لاکھوں کروڑوں آئے  اوراپنی وجود کی ہستی سے  خیر باد کہہ گیے  آج ان میں سے  بہت ساروں کا نام ونشاں تک باقی نہیں ہے۔زمینِ چمن ہر روز نئے  نئے  لالہ زاروں سے  گلزار ہوتی رہتی ہے  اور پرانے  پھول کھلے  اور مرجھا کر خاک میں پنہاں ہوگیے۔ انہیں پنہاں نشینوں میں میں چراغِ دودِ محفل علامہ اقبال بھی تھے۔جن کے  متعلق انہیں کا یہ قول

ہزاوں سال نرگس اپنی بے  نوری پہ روتی ہے

بڑی مشکل سے  ہوتا ہے  چمن میں دیدہ ور پیدا

سو فیصد صادق آتا ہے۔

علامہ اقبال کی شخصیت رتبے  میں مہر و ماہ سے  کم نہ تھی۔  وہ شعاعِ امید کے  ساتھ ساتھ رجائیت کے  خورشیدِ انور بھی تھے۔بیداریِ قوم وملت کے  لیے  انہوں نے  بانگیں دیں  تو بے  حس اور مردہ دلوں کو گرمانے  کے  لیے  ضربِ کلیمی سے  بھی کام لیا۔جوانوں میں جوش و جنوں کی ترغیب دی تاکہ خرد غلامی سے  آزاد ہوکر عشق کی پیروکاربن جائے۔ مگر آہ ملتِ اسلامیہ کی تمناؤں کے  مرکز، قوم کی کشتی کے  نا خدا،  مردہ دلوں میں زندگی کا لہو دوڑانے  والے ، خودی کے  پیامبر اور فخر ایشیا نے  خود کو بھی موت کے  پردہ میں چھپا لیاجس پر منوہر لال ہادی مرثیۂ اقبال میں لکھتے  ہیں

مو ت کیا ہے  صورت ظاہر کا چھپ جا ناکہیں

 اس سے  ہو جا تے  ہیں لیکن جو ہر شاعر مبیں

 مو ت پا کر جا ودانی ہو گئی ہستی تری

 موت نے  پیـغام تیرا کردیاہے  سرمدی

اقبال کا سانحۂ رحلت سب کے  لیے  باعثِ رنج و الم تھا۔ یہ خبر جس نے  بھی سنی سرد آہیں بھریں ،  دعائیں دیں  اور کچھ نہ کچھ ضرور اظہارِ غم و اندوہ کیا۔اقبال کے  طرفداروں کا حلقہ کافی وسیع تھا اور آج بھی ان کی شخصیت آفاقی حیثیت کی حامل ہے۔ ہر کسی نے  ان کی وفات پر تعزیت پیش کی اور ان کی مرگِ ناگہانی پر خوب آنسو بہائے۔جگہ جگہ تعزیتی جلسوں کا انعقاد کیا گیااور ان کی موت سے  ہونے  والے  علمی اور ادبی خسارے  کا تخمینہ پیش کیا گیا۔ شاعروں اور ادیبوں نے  مرثیے  لکھے  تو دوستوں اور رشتہ داروں نے  خطوں کے  ذریعہ تعزیت کی جن میں اکبر الہٰ آبادی،  فیض احمد فیض،  محمد دین تاثیر،  حفیظ ہوشیارپوری،  منشی درگا سہائے  سرور جہاں آبادی، تلوک چند محروم، جاں نثا ر اختر، احمد ندیم قاسمی،  جگن ناتھ آزاد، احسان دانش، سیماب اکبر آبادی وغیرہ خاص ہیں۔

شکیل بدایونی اسی زمانے  کے  ابھر تے  ہوئے  ایک نوجوان شاعر تھے۔ انہوں نے  بھی علامہ کی داغِ مفارقت پرایک پردرد غزلیہ مرثیہ’ نوحہ ٔاقبال‘ کے  نام سے  لکھاجس کے  چند اشعار پیشِ خدمت ہیں۔

ملک سخن کا تاجور حال اٹھ گیا

دنیا سے  اہل علم کا اقبال اٹھ گیا

اے  مرگ ناگہاں تجھے  کیا کہہ کے  روئیں

دنیا سے  اعتبار مہ و سال اٹھ گیا

شاعر، ادیب، فلسفی، عارف، خداشناس مجموعہِ کمال تھا، اقبال اٹھ گیا

 اقبال بنیادی طور پر ایک فلسفی ہیں  اور فلسفے  کے  اسرارو رموز کا انکشاف ان کا شیوہ ہے۔  انہوں نے  زندگی کے  نہاں خانوں کو بڑی جامعیت کے  ساتھ پیش کیا ہے۔ان کے  کلام میں حیات وممات کے  تقریباًتمام پہلوؤں کی بازگشت سنائی دیتی ہے  جس پر ایک پوری thesisقائم کی جا سکتی ہے۔اقبال موت کی عالم گیریت سے  سب کو باخبر کرتے  ہوئے  نظر آتے  ہیں ، کہتے  ہیں  بوئے  گل ہو، باغ ہو یا پھر گلچیں  ہر ایک شئے  اسی کی اسیر ہے۔یہ رختِ ہستی کے  پرزے  اڑاتی ہے  تو زندگی کے  شراروں کو بجھا کر رکھ دیتی ہے۔اسی کی آنکھوں میں نیستی کا جادو ہے  جو فنا ہو جانے  کا پیغام دیتی ہے  اور یہ کہنے  کو مجبور کر دیتی ہے  کہ

زندگی انسان کی ہے  مانندِ مرغِ خوشنوا

 شاخ پر بیٹھا کوئی دم،  چہچہایا اڑ گیا

آہ! کیا  آئے  ریاضِ دہر میں اور کیا گئے

زندگی کی شاخ سے  پھولے  کھلے  مرجھا گئے

اقبال ابر ِ نیساں کی طرح افقِ ہند پر نمودار ہوئے  اور اپنے  علم و ہنر کے  خزانے  سے  موتیاں برسا ئے  اوربذریعہ شاعری قوم کی کایا کو پلٹا، صداقت کادرس دیاتو شجاعت کے  ہنر سکھائے۔ اپنے  گنجینٔہ علم وحکمت سے  خطہ ٔ ہند کو مالا مال کیاتو اپنے  مقدس نغموں  سے  بیداری کا صور پھونکا۔اور با لآخر ایک روز قلزمِ ہستی سے  ابھر نے  والا یہ سیمابی حباب بھی ابدی سفر کو نکل گیا جسے  ہم سب موت کے  نام سے  جانتے  ہیں۔ یہ خسارہ عظیم تھا جس کی تلافی قطعی ممکن نہیں۔  مذکورہ انہیں تمام باتو ں کااعتراف سکندر علی وجدؔنے  اقبال کے  مرثیے ’حضرت اقبال ‘ میں  اس طرح کیا ہے۔

قوم کی کایا پلٹ دی شعرکے  اعجاز سے

ہوگئے  کمزور واقف لذتِ پرواز سے

صدق کے  دریا بہا ڈالے  پرواز سے

خرمنِ باطن  جلایا  شعلٔہ آواز  سے

داغِ محکومی کو آبِ اشک سے  دھوتا رہا

ملک وملت کی تباہی پر سدا روتا رہا

سکندر علی وجد اپنی اس نظم میں اقبال کے  کمال ِ فن کوسراہتے  ہوئے  اصل موضوع کی طرف راغب ہوتے  ہیں اور ان کی موت سے  ہونے  والے  خسارے  کو اس طرح پیش کرتے  ہیں۔

تونے  اے  اقبال پائی عاشقِ شیدا کی موت

جاں نثارو  غم گسارِ ملتِ بیضا کی  موت

موت ہے  تری زبان و قوم کی آقا کی موت

سوز و ساز وداغ و عشق بے  پروا کی موت

کون اب عقل و جنوں کی گتھیاں سلجھائے  گا

کون سوزِ دل سے  قلب وروح گرمائے  گا

کچھ لوگوں کو یہ شکایت رہی ہے  کہ اقبال نے  اپنے  پیغام کوصرف اور صرف مسلمانوں تک محدود رکھا اور ملی قومیت کی بنا پر مسلمانوں کو وہ فرقہ بندی کی تعلیم دیتے  رہے ، پر اس بات میں ذرا بھی صداقت نہیں ہے۔  اقبال ایک مصلح قوم تھے۔ رواداری کی تعلیم کو فروغ دینا ان کا شعار تھا۔ وہ شیدائیِ وطن تھے  تواختلاطِ رنگ وبو کے  مشیر ان کا پیغام ہر خواص وعام اور ملت و مذہب کے  لیے تھا۔ وہ بلا تفریق قوم وملت کی بیداری کو عام کرتے  رہے  اور خود کو حجازی لے  پر سجا کر نغمۂ ہندی  سناتے  رہے۔بہارِلالہ وگل ان کی فطرت کے  آئینہ دار تھے  جس کی بدولت انہوں نے  ادب کی ژولیدزلفوں کو سنواراتو وادیِ کون ومکاں  کے  کوچوں کو مہکایا۔ انہیں تمام باتوں کا اعتراف ماہرالقادری نے  اپنی نظم ’اقبال علیہ رحمہ‘میں اس طرح کیا ہے۔

دلوں کی وادیوں میں پھول برساتا ہوا آیا حجازی لے  میں نغمٔہ ہندی گاتا ہو آیا

کہا لبیک اس کے  شعر پر کلیوں نے  ہنس ہنس کر

     نسیمِ صبح کے  ماند اٹھلاتا ہوا آیا

بہارِ لالہ وگل اس کی فطرت کا تھا آئینہ  وہ

بوئے  گل سے  ہر وادی کو مہکاتا ہواآیا

قلندر کی زباں سے  دی اس نے  تعلیمِ آزادی   مجاہد کی طرح تلوار چمکاتا ہوا آیا

کلیمی ضرب کی تاثیر تھی اس کے  تکلم میں

وہ ہر فرعون کی قوت سے  ٹکراتا ہوا آیا

وہ شاعر، مردِ خود آگاہ، تہذیبِ فرنگی کو  حجازی تیغ کا آئینہ دکھلاتا ہوا آیا

21اپریل 1938کی تاریخ عالم ِفانی کا وہ حسرت ناک دن ہے  جس نے  مشرق کے  افق سے  رنگینی چھین لی۔ فضائے  شاعری سے  کشش مفقود ہوگئی۔ اقبال جس نے  اپنی رفاقتوں سے  انگنت اور بے  حساب دلوں کو اپنا لیا تھا اس کی موت نے  سب کی آنکھیں کھول دیں۔ خبرِ موت نے  بیکس کی فغاں کی طرح جگر کو تارتار کر دیا۔شاعری کی دیوی بے  سرو پا ہوگئی اور حقیقت نے  افسانے  کا روپ اختیار کرلیا۔تسخیر ِقلوب جس کی شاعری کا جزوِلاینفک تھی وہ بعدالموت سرد مہری کی شکار ہو گئی۔ یوں تو اس کی شوریدہ سری اور دلو ں کی تلاطم خیزیاں  جب تک دنیا میں بذریعہ شاعری قائم رہے  گی وہ ہماری دلوں میں  زندہ و جاوید رہے  گا۔پر افسوس صد افسوس موت نے  اس کا سلسلۂ شب وروز منقطع کردیااوراس کے  فن و فلسفہ کے  زورِ بیان پر خاموشی چھاگئی۔ اقبال کا دائرہ عمل خود ان کی اپنی ذات تک ہی محدود نہیں تھابلکہ زمان ومکان سے  بھی بالا تر تھا۔ ان کی زندگی دوسروں  کے  لیے  وقف تھی اور ان کا کلام ہدایت و ایقان کا سرچشمہ تھا۔

ان کی مفارقت بذات خود ایک فلسفہ ہے  جس کو سوچنے  اور اس پر سر دھننے  سے  دماغ نکمہ ہو جاتا ہے، اس کی فکر سے  دل مغموم ہوجاتا ہے  اور یقین کی حس ساکت و صامت ہوجاتی ہے۔خیال طوفان کی طرح شورشِ غم ابھارتے  ہیں  اور انسان بے  ساختہ یہ کہنے  کو مجبور ہوجاتا ہے  کہ شایدزندگی کا لطف اسی میں ہے  کہ اپنی خوشی آئے  نہ اپنی خوشی چلے۔

علاوہ ازیں  ان کی فطرت کی غماز یہ ہے  کہ انہوں نے  اپنی آتشِ نوائی سے  ظلمتوں کے  پردے  چاک کیے  اور پھر اپنی شعلہ بیانی سے  نوجوانوں میں اس قدر ولولہ پیدا کر دیاکہ خاک کی چٹکی میں پرواز آگئی اورپھر اس سکانِ زمیں یعنی انسان کے  چرچے  آسمانوں میں ہونے  لگے۔اقبال کو جب ہم اس نقطئہ نظر پر پرکھتے  ہیں تو ہم ان کو بلندی کے  اسی مقام پر پاتے  ہیں۔ وہ شاعر قدرت ہیں  اور یہ قدرت ہی ان کو ان کی بلند پروازی میں مدد کرتی ہے۔ ان کی انہیں تمام پہلوؤں پر روشنی ڈالتے  ہوئے  مخدوم محی الدین اقبال کے  نام اپنی ایک نظم میں لکھتے  ہیں۔

اس اندھیرے  میں کون آتشِ نوا گانے  لگا

جانبِ مشرق اجالا سا نظر آنے  لگا

عالمِ بالا پہ باہم مشورے  ہونے  لگے

  آسمانوں پر زمیں کے  تذکرے  ہونے  لگے

گیت سننے  کے  لیے  خلق ِخدا ٓنے  لگی

گردنوں کو جنبش دے  کر یہ فرمانے  لگی

نغمٔہ جبریل ہے  انسان کا گانا نہیں

صورِ اسرافیل ہے  دنیا نے  پہچانا نہیں

اقبال کو دمہ کی  بیماری تھی زندگی کے  آخری ایام میں دقت کافی بڑھ گئی تھی۔  قبلِ فوت گزشتہ تین مہینوں سے  بسترِ مرگ پر ہی رہے۔ تکلیف اور درد کے  باعث آہ تو بھر تے  تھے  لیکن موت کی ہولناکی سے  بالکل ہی نہیں گھبراتے  تھے  اور یہ کہتے  کہ ’میں موت سے  نہیں گھبراتا۔  میں مسلمان ہوں اور خندہ پیشانی سے  اس کا خیر مقدم کرتا ہوں  ‘۔اقبال آج بظاہر ہماری آنکھوں کے  سامنے  نہیں ہیں ۔ وہ جسم جس کی فنا کی تعلیم سے  دل مغموم ہے  اور آنکھ اشک بار ہے  وہ مر کر بھی ہم سب کے  بیچ موجود ہے  جس کے  لیے  صرف یہی کہا جا سکتا ہے  کہ

مرنا بھلا ہے  اس کا جو اپنے  لیے  جیے

جیتا ہے  وہ جو مر چکا انسان کے  لیے

٭٭٭٭

Leave a Reply

Be the First to Comment!

Notify of
avatar
wpDiscuz
Please wait...

Subscribe to our newsletter

Want to be notified when our article is published? Enter your email address and name below to be the first to know.