فکر اقبال کی عصری معنویت خواتین کے  حوالے  سے

ڈاکٹر نصرت جبین

یونی ورسٹی آف کشمیر، انڈیا

علامہ اقبال

اقبال کا شمار اردو کے  اہم ترین شاعروں میں ہوتا ہے۔موضوع کے  اعتبار سے  وہ اردو کے  بیشتر شعراء سے  مختلف ہیں۔ خاص طور پر خواتین کے  حوالے  سے  ان کے  جو تصورات ہیں وہ اردو شاعری میں اقبال سے  پہلے  مفقود ہیں۔  سوائے  چند ایک شعراء کے۔

 اردو کی قدیم شاعری میں عورت کو صرف شہوانیت کی نگاہ سے  دیکھا جاتا تھا۔ فراق اور ملن کے  لمحات ہی اردو شاعری میں عورت کے  حصے  میں آئے  تھے۔ اردو غزل اور مثنوی کا تو خمیر ہی عورت کی جازبیت اور محبوبیت کے  عناصر سے  اُٹھا تھا۔ قلی قطب شاہ سے  لیکر حالی تک عورت صرف اسی ایک پہلو سے  دیکھی اور سمجھی اور پیش کی گئی۔ ایک المیہ یہ بھی رہا عورت کے  ساتھ کہ اس کو اردو شاعری کے  ابتدائی زمانے  میں صرف مرد نے  پیش کیا خود عورت بحیثیت ادیبادبی منظر نامے  پر کہیں نہیں تھی۔عورت کے  قلم سے  اس کے  احساسات و جذبات کا اظہار نہیں ہو رہا تھا بلکہ یہ کام مرد کر رہا تھا۔عورت کے  ظاہری خدو خال کے  علاوہ اس کو کسی اور ذاویے  سے  پیش ہی نہیں کیا جاتا تھا۔ ولی دکنیؔ کا ایک مشہور شعر ہے ؎

مفلسی سب بہار کھوتی ہے

مرد کا اعتبار کھوتی ہے

اردو شاعری نے  عورت کو معاشرے  کا کوئی فرد سمجھا ہی نہیں تھا۔ ولی جیسا اردو کا اہم شاعر جب مفلسی کی بات کرتا ہے  تو صرف مرد کے  متعلق کہتا ہے  کہ مفلسی مرد کا اعتبار اور وقار کم کرتی ہے  جب کہ عورت بھی اس معاشرے  کا حصہ ہے  مصیبت یا پریشانی کوئی بھی ہو متاثر اس سے  دونوں ہوتے  ہیں۔  اس سے  ہم بخوبی اندازہ لگا سکتے  ہیں کہ اردو شعراء کے  ہاں عورت کی کیا حیثیت تھی۔معاشرے  میں خالی مرد کی حیثیت کو اجاگر کرنا یا صرف مرد کو ہی مخاطب کرنا اقبال کے  ہاں بھی اس کی مثالیں موجود ہیں۔  بال جبریل میں اقبال کی دو اہم نظمیں ایک ’’ فرشتے  آدم کو جنت سے  رخصت کرتے  ہیں  ‘‘ دوسری ’’روح ارضی آدم کا استقبال کرتی ہے ‘‘ دونوں میں مخاطب صرف مرد ہے  عورت نہیں۔ جب کہ قرآن میں اﷲ تعالیٰ نے  اس واقعہ کا ذکر کرتے  ہوئے  بہت سی جگہوں پر آدم ؑ اور حواؑ دونوں کو مخاطب کیا ہے۔ جیسے  سورہ بقرہ آیت نمبر ۳۵۔دونوں نظموں میں اقبال نے  سرے  سے  ہی حواؑ کے  وجود کو ہی غائب کر دیا ہے۔

 برصغیر میں  مغلیہ سلطنت کا زوال پزیر ہوجانا۔  ہندستان پر مغربی تیذیب کی یلغار نے  نئے  سوال اور نئے  مسائل سامنے  لائے  ہندوستانی مسلمان اس نئے  دور مین خود کو اجنبی محسوس کرنے  لگا تو اردو شاعری میں سرسید تحریک کی وساطت سے  حالی کی آواز اُبھری:

’’مولانا الطاف حسین حالیؔ نے  ادبی اصلاح کا بیڑا اُٹھایا۔  وہ جدید اردو شاعری اور تحریک ِ جدید کے  ایک سر گرم رکن تھے۔ وہ اصلاح قوم کے  دقیع علمبردار بھی تھے۔ وہ پہلے  شاعر تھے  جنہوں نے  عورت کو انسانی معاشرے  کی ایک با عزت صنف سمجھا۔ اور اسے  انسانی معاشرے  کے  لیے  ایک اہم رکن جانا۔  عورت کو اس کی اہمیت کا احساس دلاتے  ہوئے  اور قدیم شاعری کے  مروجہ مخصوص انداز سے  ہٹ کر کیا ؎

’’اے  ماؤں۔  بہنو۔ بیٹیو۔ قوموں کی عزت تم سے  ہے۔‘‘ ایک طرف عورت کو اس کی اہمیت بتائی اور دوسری طرف ’’مناجات ِ بیوہ‘‘ لکھ کرعورتوں کے  مصائب اور بنیادی انسانی حقوق کی طرف توجہ دلائی۔‘‘(۱)

سرسید تحریک سے  پہلے  ہندوستانی مسلمان مجموعی طور پر صرف مشرقی علوم سے  استفادہ کرتے  تھے۔ سرسید تحریک چونکہ مغربی علوم و تہذیب سے  کچھ ذیادہ ہی مرعوب ہوکر مشرقی علوم تہذیب کو ہیچ سمجھ کر مغربی علوم کے  حصول پر ذور دینے  لگی۔ اس سب کا اثر خواتین کی تعلیم و تربیت پر بھی پڑا۔ سرسید واضح طور خواتین کو مغربی یا جدید تعلیم دینے  کے  حق میں نہیں تھے۔ خودکہتے  ہیں  :

’’جب لڑکوں کی تعلیم کے  نظام نو پر مخالفت کا ایسا طوفان کھڑا کیا گیاتو لڑکیوں کی تعلیم وتربیت پر عجب نہیں کہ پورا بیڑا ہی غرق ہوجائے۔‘‘(۲)

’’سرسید کی تحریروں اور تقریروں کا گہرائی سے  مطالعہ کرنے  پر یہی نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے  کہ وہ تعلیم نسواں کے  مخالف نہیں تھے۔ مگر اس وقت کے  حالات ان کو اس بات کی اجازت نہیں دے  رہے  تھے  کہ تعلیم نسواں کی شروعات کرکے  وہ علماء کے  سامنے  ایک نیا محاز کھولیں۔ ‘‘ (۳)

شہناز نبی اپنی کتاب ’’فیمینزم تاریخ و تنقید‘‘ میں لکھتی ہیں  :

’’ہندوستان میں عورت کا تعلیمی سلسلہ ہی بہت دیر سے  شروع ہوا۔ ودیا ساگر،  راجہ رام موہن رائے  اور سرسید تحریک کے  زیرِ اثر ہندوستانیوں میں انگریزی تعلیم حاصل کرنے  کا رجحان تو عام ہو گیا لیکن اس کی برکتیں عورتوں تک تاخیر سے  پہنچیں۔  مادری زبانوں میں بھی عورتوں کی تعلیم لائق توجہ نہیں تھی۔ رہی عورتوں کے  تخلیقی سفر کی بات،  خصوصاً اردو میں  ،  تو اس کی شروعات بھی بیسویں صدی سے  پہلے  ممکن نہ ہو سکی۔ تذکروں کے  ذریعہ حاصل ہونے  والی معلومات کے  تحت ہم یہ ثابت کرکے  خوش تو ہوسکتے  ہیں کہ عورتوں نے  ۱۸ ویں صدی سے  اردو مین شعرو شاعری شروع کر دی تھی۔ (ماہ لقابائی چندا) اور انیسویں صدی کے  اواخر میں انہوں  نے  سنجیدہ اور اصلاحی مضامین نیز فکشن لکھنے  کی طرف بھی قدم بڑھایا تھا۔ ( محمدی بیگم،  حجاب امتیاز علی،  نذر سجاد) لیکن اس طرح کی کوششیں کسی روایت کا حصہ تو نہ بن سکتی ہیں۔ مگر کسی تحریک کی غماز نہیں۔  ان خواتین کی تحریروں میں  ،  ان کے  پیش رؤں کی طرح ( جو ظاہر ہے  کہ مرد تھے )،  عورتوں کے  حقوق سے  متعلق کوئی نظریہ نہیں ملتا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نذیر احمد نے  عورتوں کے  تعلیم یافتہ ہونے  پر ذور بھی دیا تو اس لئے  کہ عورتوں کو گھر سنبھالنا ہوتا ہے۔‘‘ (۴)

یہ پس منظر تھا خوتین کے  متعلق اس ادب اور اس سرزمیں کا جس سے  علامہ اقبال کا تعلق تھا۔ اقبال اسلامی تہذیب و تربیت کے  پروردہ تھے۔ اس کا تعلق جس گھر سے  تھا اس کا مزاج تھا عارفانہ۔

یہی وجہ ہے  کہ اقبال نے  اردو شاعروں کے  متعلق کہا  ؎

ہند کے  شاعر و صورت گرو افسانہ نویس

آہ بیچاروں کے  اعصاب پہ عورت ہے  سوار

اقبال یورپ سے  پڑھے  تھے  مغرب میں اس وقت کی جو تعلیمی،  سماجی،  معاشی اور سیاسی صورت حال تھی اس سے  بخوبی واقف تھے  انیسویں کے  اواخر اور بیسویں کے  اوائل میں پورے  یورپ میں  عورتیں تعلیم،  سیاسی نمائیندگی،  کام کاج کے  حالات،  صحت،  جنسیت،  مادریت اور قانونی حقوق اور کچھ علاقائی حقوق کے  تعلق سے  پرچار کر رہی تھیں۔  اور مختلف وقتوں میں خواتین کے  حقوق اور ان کی بیداری کے  لیے  مختلف اہم رسالے  اور کتابیں منظر عام پر آتی رہیں تھیں۔ جن میں A Vindication Of Rights Of Women 1792 (میری وول سٹون کرافٹ) The Subjection of Women 1869 ( جان اسٹورٹ مل)،  The Second Sex, A Room Of Ones Own۔  یہ وہ اہم اور تاریخ ساز کتابیں ہیں جنہوں نے  عورتوں کے  ساتھ ہونے  والے  استحصال پر کھل کر لکھا اور تانیثیت جیسی ایک منعظم تحریک کی بنیاد گزار بنیں اس کے  علاوہ سیاسی مفادات اور عمل دخل نے  بھی اس تحریک یعنی تانیثیت کو دوسرے  لفظوں میں ہم کہہ سکتے  ہیں خواتین کی حالت ِ زار کو بہتر کرنے  میں اہم رول ادا کرنا شروع کیا۔

’’انیسویں صدی کے  اواخر اور بیسویں صدی کے  اوائل میں عورتوں کے  حقوق کے  لیے  آواز یں بلند ہونے  لگیں ۔  اس دور کو تانیثیت کی پہلی لہر First wave feminism کہا گیا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عورتوں کو مردوں کے  برابر تنخواہ دینے  کی مانگ شروع ہوئی۔ خاندان اور سماج میں عورت کی حیثیت،  شادی بیاہ میں اس کی مرضی،  جائیداد میں اس کا حق،  بچوں پر اس کا اختیاروغیرہ موضوعات پر بحث و مباحث کا سلسلہ دراز ہوا۔‘‘ (۵)

علامہ اقبال ان تمام تحریکات،  تخلیقات اور عملی اقدامات سے  بخوبی واقف تھے۔ مشرقی عورت کے  حالات خصوصاً مسلمان عورت کا جو طرز زندگی تھا وہ اس سے  بھی تو ناواقف نہیں تھے۔ ان حالات اور اس تناظر میں اقبال کا تصور نسواں قابل توجہ ہے۔اقبال کے  کلام میں عورت کے  مقام و منصب کا جائزہ لینے  کے  لیے  ان کی مختلف تحریروں کو گہرائی اور وقت نظر کے  ساتھ جانچنے  کی ضرورت ہے۔ ۱۹۲۸ء کے  اواخر میں اقبال مسلمانان مدارس کی دعوت پر جنوبی ہند کے  دورے  کے  لیے  گئے۔ اپنے  اس دورے  میں آپ نے  مشہور و معروف تین لیکچر کے  ساتھ ساتھ انہوں  نے  ۷ جنوری ۱۹۲۹ء کو مدارس میں ’’انجمن خواتین مدارس‘‘ کی طرف سے  ایک تقریب میں علامہ نے  شرکت کی اور مسلم خواتین مدارس کے  سپاسنامے  کے  جواب میں ایک بصیرت افروز تقریر ’’اسلام میں عورت کا مقام‘‘ کی۔ اس کے  علاوہ انہوں  نے  اپنی دوسری نثری تحریروں اور اپنے  ایک مشہور لیکچر ’’ملت ِبیضا پر ایک عمرانی نظر‘‘ ۱۹۱۱ء علی گڑھ میں اپنے  تصور نسواں کی وضاحت کی ہے۔ علامہ کی پہلی تصنیف علم الاقتصاد اگر چہ ایک مخصوص موضوع سے  بحث کرتی ہیمگر اس میں بعض جگہ ضمناً عورت کا ذکر آیا ہے۔ اقبال کے  ابتدائی مقالات میں ’’قومی زندگی‘‘ ۱۹۰۴ء مسئلہ حقوق نسواں کے  متعلق ایک نہایت ہی گراں قدر مضمون ہے۔ اقبال کی ایک نسبتاً کم معروف کتاب Stray Reflection میں بھی کسی حد تک اقبال نے  اہنے  تصور نسواں پر روشنی ڈالی ہے۔ اس کے  علاوہ اقبال جب دنوں گول میز کانفرنس کے  سلسلہ میں لندن میں مقیم تھے  انہوننے  عورت کے  حقوق و مسائل سے  متعلق ایک مضمون انگریزی جریدے  میں شائع کیا تھا۔

اپنے  اردو شعری کلام میں اقبال نے  کئی جگہوں پر عورت کے  متعلق اظہار خیال کیا ہے۔ ’’بانگ درا‘‘ میں اقبال نے  فاطمہ بنت عبداﷲ اور والدہ مرحومہ کی یاد میں دو نظمیں لکھی ہیں اس کے  علاوہ ظریفانہ میں عورت کے  موضوع سے  متعلق تین رباعیاں  بھی موجود ہیں۔  ’’ضرب کلیم‘‘ میں  عوررت کے  عنوان سے  ایک پورا باب ملتا ہے  جو نو(۹) نظموں پر مشتمل ہے۔’’ارمغان حجاز‘‘ میں دختران ملت کے  زیر عنون آٹھ (۸) رباعیات ملتی ہیں۔  ’’رموز بیخودی‘‘ میں تین عنوانات اس مقصد کے  لیے  وقف کئے  گئے  ہیں۔  اور مثنوی’’پس چہ باید کرو‘‘ میں فصل پنجم (حکمت فرعونی) میں اس موضوع پر اقبال نے  روشنی ڈالی ہے  اس کے  علاوہ ’’ضاوید نامہ‘‘ میں افلاک کی سیر کے  دوران مختلف انداز اور طریقوں سے  عورت کے  تصور کو پیش کیا ہے۔

یہ بات قرآن و سنت سے  واضح ہے  کہ کہ عورت کو اسلام نے  وہ تمام حقوق دے  رکھے  ہیں جو عورت کی فطرت کے  عین مطابق ہیں۔  اور اگر یہ بھی واضح ہے  کہ اقبال کی شاعری کا منبع و مرکز قرآن وسنت ہے  مگر خواتین کے  متعلق اقبال کے  جو تصورات ہیں وہ اسلامی تصورات کے  ساتھ مشرقی یا عورت کے  روایتی طرز زندگی کے  ساتھ گھل مل گئے  ہیں۔ عورت کے  متعلق اقبال کی مشہور نظم ’’عورت ‘‘ کا آخری شعر توجہ طلب ہے ؎

مکالمات ِفلاطون نہ لکھ سکتی،  لیکن

اسی کے  شعلے  سے  ٹوٹا شرار افلاطون

(نظم،  عورت،  ضرب کلیم)

اقبال جیسے  دور اندیش اور دیدہ ور شاعر کا عورت کے  متعلق یہ نظریہ وہ دنیا میں کوئی قابل قدر یا قابل تعریف کام انجام نہیں دے  سکی کیوں  ؟ کیوں کہ وہ عورت تھی۔عصری تناظر میں دیکھا جائے  تو بے  شمار خواتین کی مثالیں دی جاسکتی ہیں۔  جنہوں نے  اپنے  اپنے  میدانوں میں مردوں سے  اعلیٰ اور عمدہ کارنامہ انجام دیے  ہیں۔  اور یہ غلط ثابت کردیا ہے  کہ عورت افلاطون نہیں بن سکتی۔

’’اقبال نے  اگرچہ عورت کی تعریف کی ہے  یا اس کی خوبیوں کا ذکر کیا ہے  اس نظم کا آخری شعر اس کا نچوڑ ہے۔ شعر میں مرد کے  مقابلے  میں عورت کی کمتری کو اسی انداز سے  بیا ن کیا ہے  جو روایتی طور پر ہمارے  دماٖغوں میں عورت کے  بارے  میں پیدا ہو چکا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔ اگر اقبال نے  مندرجہ بالابات اسی طرح کہنی تھی اور اس نے  یہ مناسب نہ سمجھا کہ عورت مکالمات افلاطون جیسا کوئی کام سر انجام دے  تو اس صورت میں عورت کی بزرگی کی بجائے  اس کی کمتری ظاہر ہوتی ہے  بلکہ افلاطون سے  مخاطب ہوکر کہتا۔  خود اس کی افلاطون کی عظمت کا راز عورت کی ذات میں پنہاں و پیوست ہے۔‘‘ (۶)

اقبال نے  یہ کہہ کر ثابت کردیا ہے  کہ عورت بغیر دماغ کے  مخلوق ہے۔ اقبال اس حقیقت کا بھی اظہار کرسکتے  تھے  کہ اس کے  افلاطون نہ بننے  کی وجہ اسکی کم ذہنی صلاحیتیں نہیں ہیں بلکہ اس میں انسانی تاریخ کا وہ اہم رول خاص کر مرد کا کہ جس نے  ہمیشہ عورت کو دبا ئے  رکھا۔ اس سے  وہ ماحول اور تعلیم و تربیت نہیں دی گئی جس سے  اس کی فطری صلاحیتیں بھی ابھرتی اور وہ بھی افلاطون بن کر دکھاتی۔  ان کے  سامنے  عائشہؓ کی مثال موجودتھی جس سے  تعلیم و تربیت ملی بے  باک اظہار رائے  کا موقع دیا گیا اسی کا نتیجہ تھا کہ دین اسلام کے  مشکل سے  مشکل مسئلے  پر ان سے  رجوع کیا جاتااور ان کا فرمانا مستند تھا۔

تانیثی تحریک کی اہم خاتون A Room Of One’s Own کی مصنفہ ورجینا وولف کے  مطابق انسانی تاریخ نے  عورت کو وہ موقع ہی فراہم نہیں کئے  کہ وہ پورے  اعتماد کے  ساتھ اپنی صلاحیتوں کا استعمال کرتی۔ وہ لکھتی ہیں  :

’’اگر شیکسپئیر کی کوئی بہن ہوتی اور وہ بھی اسی طرح۔ ذہین اور شعر وادب کا ذوق بھی رکھتی،  تب بھی وہ شیکسپئیرنہیں بن سکتی تھی کیونکہ اس کے  لیے  کسی بھی لاطینی اسکول کا دروازہ نہیں کھولا جاتا،  جس کا عظیم مگر ناکردہ گناہ یہ ہوتا کہ وہ عورت ہوتی۔‘‘  (۷)

ترقی پسند تحریک کے  ایک شاعر نے  کہا  ؎

حیراں کرتی ہیں مجھے  اس کی نکتہ دانیاں

اس شاعر نے  اردو شعراء کی اس روایت کو یکسر بدل دیا ہے  کہ عورت کے  پاس صر؛ف دل ہے  دماغ نہیں ،  صرف جسم ہے  روح نہیں بلکہ پہلی بار اردو شاعروں نے  عورت کو دماغ کے  ساتھ پیش کیا ہے  اوراقبال جیسے  شاعر نے  اردو کی اسی روایتی اور لاعلم سوچ کو برقرار رکھتے  ہوئے  عورت کو صرف جسم کے  ذاویے  سے  دیکھا۔  فرق صرف اتنا ہے  کہ اس نے  صرف بچے  جننا یا ماں بننا اور بچے  کی تربیت سے  وابسطہ کرکے  دیکھا اور دوسرے  شعراء نے  جنسی لذت کے  لیے  اس کو موضوع بنایا۔

جاوید نامہ میں اقبال نے  نبیہ مریخ کی زبان سے  یورپ کی عورتوں کا نقشہ کھینچا ہے۔ خاص کر یورپ میں  جو تانیثیت کی تحریک چل رہی تھی اس کی ترجمانی اقبال نے  اس عورت سے  کرائی ہے۔ حکیم مریخی نے  اقبال کو بتایا کہ یہ عورت فرنگستان کی رہنے  والی ہے  اور نبوت کی مدعی ہے۔ اس کا پیغام صنف نازک کو مرد کی غلامی سے  آزاد کرانا ہے۔ وہ چاہتی ہے  کہ عورتیں تجرد کی زندگی بسر کریں تاکہ پرورش اطفال کی زحمت سے  محفوظ رہیں۔  اس نظم میں  اقبال نے  نبیہ مریخ کے  منہہ سے  خواتین کے  متعلق طویل تکرار کرائی ہے۔

پہلے  یہ بات انسانیت کی پوری تاریخ میں  مجموعی طور پر عورت نے  ماں بننے  سے  انکار نہیں کیا۔ تانیثیت کے  جتنے  اسکول یا نظریات ہیں وہ ایسے  نظریوں کی مخالفت کرتی ہیں۔

(۱) مارکسی  تانیثیت(Marxist Feminism)

(۲) انتہا پسند تانیثیت(Radical Feminism)

(۳) تحلیل نفسی تانیثیت(Psyo-analytic Feminism)

(۴) سماجی تانیثیت(Socialist Critcism)

(۵) وجودی تانیثیت(Existensialist Feminism)

(۶) مابعد جدید  تانیثیت(Post Moder Feminism)

ان میں سے  کوئی بھی نظریہ اس کا حامی نہیں ہے  کہ ماں بننا عورت کے  ساتھ ظلم ہے۔ یا عورت مجموعی طور پر ماں بننے  سے  انکار کر رہی ہے۔ بلکہ تولیدی عمل تو عورت کو فطرت کی طرف سے  ملا ہوا ایک ایسا انعام یا نعمت ہے  جو مرد کو نہیں ملا ہے۔ یہی تو ایک ایسی خوبی ہے  جو عورت کو مرد سے  ممتاز کرتی ہے  اور یہی تو وہ ممتاز صفت ہے  جہاں مرد اپنے  تخلیقی جوہر سامنے  لانے  کے  لیے  عورت کا مرہون منت ہے۔

Shulamith Firestone جو انتہا پسند  تانیثیت(Radical Feminism) کی ایک اہم رکن تھی۔ انہوں  نے  The Dielectic of Sex (1970) کتاب لکھی۔ انہوں  نے  اس کتاب میں مارکس اور اینگلز کے  کلاس فری (class free) سماج کے  نظریات کا دوبارہ جائزہ لیا اور یہ کہا کہ انہوں  نے  sex class پر کوئی توجہ نہیں دی۔

’’شولامت نے  تاریخی جدلیت کو  تانیثی نقطہ نگاہ سے  دیکھا اور مطالعے  میں معاشیات کو اہم قرار دینے  کے  بجائے  جنس کو اہم قرار دیا۔‘‘ (۸)

فائر اسٹون کے  ان نظریات کی  تانیثی تحریک کے  تمام علمبرداروں نے  سخت تنقید کی اور اس کے  sex less نظریے  کورد کر دیا۔

’’Andrienne Rich کا کہنا ہے  کہ مرد عورت کی تولیدی طاقت سے  ڈرتے  ہیں۔  کائینات کی ہر زندہ شے  کی جنم داتاعورت کا مالک و مختار بنا رہنا چاہتا ہے۔ عورت ہے۔وہ تخلیقی قوت رکھتی ہے۔ بچہ اپنی ماں کا محتاج ہوتا ہے۔ اس لیے  بچپن سے  ہی وہ ماں کو اپنے  قبضے  میں رکھنا چاہتا ہے۔ ایک مرد بھی اسی لئے  عورت کا مالک و مختار بننا رہنا چاہتا ہے  کہ عورت کے  پاس تخلیقی قوت ہوتی ہے۔ رچ کے  علاوہ دوسری Radical Feminism بھی نئی تکنالوجی سے  خوش نہیں ہیں۔  ان کا خیال ہے  اسطرح بچہ پیدا کرنے  کی صلاحیت،  جو عورت سے  مخصوص ہے،  اس سے  چھن جائے  گئی۔‘‘ (۹)

ایک اور ریڈکل فیمنسٹ (Radical Feminist) Dworkin Corea کے  نزدیک نئی سائینسی تکنالوجی عورتوں سے  ان کے  ماں بننے  کے  اختیارات چھیننا چاہتی ہے  وہ اس کو عورتوں کے  خلاف مرد حاوی معاشرے  کی سوچی سمجھی کوشش تصور کرتی ہے۔ لکھتی ہیں  :

”Why are men focussing all this technology on women’s generative organs — the source of her procreative power? Why are they collecting our eggs ? why do they seek to freez them? why do  men want to control the production of human beings? why do they talk so often about producing ‘perfect babies’? why are they spliting the functions of mother hood into smaller parts? does that reduce the power of the mother and her claim to the child.” (10)

      تانیثیت کے  تمام نظریات کا مطالعہ کرنے  کے  بعد یہ واضح ہوجاتا ہے  کہ عورت بچے  کم تو پیدا کرنا چاہتی ہے  یا اس کام میں اپنی مرضی چاہتی ہے۔مرد کی ذور زبر دستی نہیں مگر عورت تولیدی عمل سے  انکار نہیں کر رہی ہے۔ بلکہ تخلیقی قوت کو وہ اپنی ایک خصوصیت سمجھتی ہے  اور بچے  کم پیدا کرنے  کی کوشش صرف عورت کی ہی نہیں ہے  اس کا تو جسم استعمال ہوتا ہے۔ اس کا وقت اور اس کا سارا آرام اُڑ جاتا ہے۔ یہ صعوبتیں  تو ماں برداشت کرتی ہے  اس لیے  تو اسلام نے  اس کے  قدموں تلے  جنت ٹھہرائی یا اس کو حسن سلوک میں والد سے  تین درجہ افضل ٹھہرایا،  اﷲ کی طرف سے  دی ہوئی اس عظمت سے  اندازہ لگایا جاسکتا ہے  کہ یہ دور کتنا صبر آزما ہوتا ہے  تو یہ فیصلہ کرنے  کا اختیار بھی عورت کو ہی ہونا چاہیے  کہ وہ کتنے  بچے  پیدا کرنا چاہتی ہے۔  اس سارے  عمل میں مرد کا رول نہ ہونے  کے  برابر ہوتا ہے۔ اور یہ بھی حقیقت ہے  کہ بچہ پیدا کم کرنے  والی بات عورت،  مرد کی ہم نوا ہوکر کہہ رہی ہے  کہ اولاد کم پیدا کی جائے۔ ’’فلک مریخ ‘‘ کی نظم میں اقبال عورت سے  نبوت کا دعوی کرانا اور یہ کہلوانا کہ وہ ماں نہیں بننا چاہتی ہے۔ ایک عجیب سی بات محسوس ہوتی ہے۔ ایسا لگتا ہے  کہ اقبال نے  ایسی بات کہہ کر عورت کے  ساتھ نا انصافی کی ہے  دراصل یہ کہہ کر اقبال نے  شاعرانہ مبالغہ سے  کا م لیا ہے۔ کیونکہ تاریخ گواہ ہے  کہ آج تک انسانی تاریخ میں عورت نے  کبھی بھی ماں بننے  سے  انکار نہیں کیا ہے  جب کہ ماں بن کر ہی ہر عورت خود کو مکمل محسوس کرتی ہے  اور نہ ہی پوری انسانی تاریخ میں کبھی عورت نے  نبوت کا دعوی کیا ہے۔

ایک اور نظم ’’عورت اور تعلیم‘‘ میں اقبال فرماتے  ہیں  :

’’تہذیب ِفرہنگی ہے  اگر مرگ امومت ہے

حضرت انسان کے  لیے  اس کا ثمر موت ہے۔

جس علم کی تاثیر سے  زن ہوتی ہے  نازن

کہتے  ہیں اُسی علم کو ارباب نظر موت

بیگانہ رہے  دین سیاگر مدرسۂ زن

ہے  عشق و محبت کے  لیے  علم و ہنر موت

اقبال کے  نزدیک مغربی تعلیم کا سب سے  بڑا نقص یہ ہے  کہ اس تعلیم سے  عورت اپنی نسوانی فطرت سے  محروم ہوتی جا رہی ہے۔ اقبال کے  ہاں چونکہ عورت کی تخلیق صرف اور صرف امومت کے  لیے  ہے۔ اور ان کے  نزدیک تو مغربی تعلیم یافتہ عورت ماں بننے  سے  کتراتی ہے  اس لیے  وہ ایسی تعلیم کے  بہت خلاف ہیں۔  اقبال لڑکیوں کو مذہبی تعلیم دینا چاہتے  ہیں ان کے  نزدیک خواتین کے  لیے  انگریزی تعلیم ضروری نہیں ہے  ان کے  نزدیک حقیقی تعلیم نسواں وہی ہے  جو عورت کو امورِ خانہ داری کے  لئے  تیار کرے۔ لکھتے  ہیں  :

’’ہم اپنی عورت کو ابتدا میں ٹھیٹھ مذہبی تعلیم دیں۔  جب وہ مذہبی تعلیم سے  فارغ ہو چلیں تو ان کو اسلامی تاریخ،  علم تدبیر خانہ داری اور علم الاصول ِحفظ صحت پڑھایا جائے۔ ‘‘(۱۱)

مسلمان نوجوان مرد کے  لیے  اقبال

تو شاہین ہے  پرواز ہے  کام تیرا

یا

ستاروں سے  آگے  جہاں اور بھی ہے

کی بات کرتے  ہیں تو آج کے  دور میں ایسی بلندی پانے  کے  لیے  مسلمان نوجوان کے  پاس جدید سے  جدید اور تمام مغربی علوم کا حصول ضروری ہونا چاہیے۔ ان کے  بغیر ستاروں سے  آگے  کی بلندی حاصل نہیں ہو سکتی ہے۔ تو شاہین ایسی بلندی پر ہوگا تو دوسری طرف اس کا نصف بہتر اقبال کی تعلیمات کے  مطابق خالی ٹھیٹھ مذہبی تعلیم اور امور خانہ داری سے  واقف ہو کر ایسے  شاہین کے  لیے  جسمانی تسکین تو فراہم کرے  گی،  بچے  بھی جنے  گی مگر اس کی فکری اور ذہنی سطح پر وہ اس کی آسودگی کا سامان فراہم نہیں کر پائے  گی یہ رشتہ صرف جسمانی ہوگا ذہنی اور فکری نہیں یعنی مکمل نہیں  ہوگا۔ اور اس کے  نتائج وہی ہوں گے  کہ تربیت سے  تیری میں انجم کا ہم قسمت ہوا۔یعنی اقبال کی بتائی ہوئی آیڑیل ماؤں کی آغوش میں پلے  ہوئے  شاعر مشرق اور شبلی نعمانی جیسے  عالم دین نوجوان بھی محترمہ عطیہ فیضی جیسی ذہین جدید اور مغربی تعلیم یافتہ خواتین سے  نہ صرف متاثرہوں گے  بلکہ ان کے  لیے  اپنے  دل میں نرم گوشہ بھی رکھے  گیں۔  اور ایسے  اشعار بھی تخلیق کیے  جائیں گے  جیسے ؎

جستجو جس گل کی تڑپاتی تھی اے  بلبل مجھے

خوبی قسمت سے  آخر مل گیا وہ گل مجھے

(نظم وصال،  بانگ درا)

نتیجے  کے  طور پر گھر کی چار دیواری میں رہنے  والی وہ معصوم اور کم تعلیم یافتہ عورت حق تلفی کا شکار ہوگی جو صبح سے  شام امور خانہ داری میں منہمک ہے۔بحیثیت ماں بھی آج کے  دور میں جو عورت اعلیٰ اور جدید تعلیم یافتہ نہیں ہوگی تو وہ اس ننھے  بیٹے  کے  ان سینکڑوں  ،  ہزاروں سوالوں کا کیاجواب دے  پائے  گی جس کو بقول اقبال ستاروں سے  آگے  جانے  کے  لئے  کسی جدید تعلیمی ادارے  میں داخل کرایا ہوگا  اور ان کے  ذہن میں  آنے  والے  ان سینکڑوں جدید سوالوں کا جواب جب اس کی ماں نہیں  دے  پائے  گی اس کے  لئے  بھی وہ عورت بحیثیت ماں نامکمل ہوگی۔بقول اقبال  ؎

جس قوم نے  اس زندہ حقیقت کو نہ پایا

اُس قوم کا خورشید بہت جلد ہوا ذرد

 ( نظم۔ عورت کی حفاظت،  ضرب کلیم)

٭٭٭

حوالہ جات

(۱) ماہنامہ ’’قومی زبان‘‘ کراچی،  نومبر،  ۱۹۸۲،  انجمن ترقی اردو پاکستان،  ’’علامہ اقبال اور عورت‘‘ راحیلہ طیب

(۲)مسلم تعلیم نسواں کے  سو سال،  چلمن سے  چاند تک،  ڈاکٹر راحت ابرار،  ایجوکیشنل پبلیشنگ ہاؤس دہلی،  ۲۰۱۱،  ص ۳۳

(۳) ایضاً، ص  ۳۵

(۴) فیمنزم تاریخ و تنقید،  شہناز نبی،  رہروان ادب،  ۲۸/۷۱،  رپن لین،  کولکاتا،  ص ۱۴

(۵)ایضاً،  ص  ۱۳،  ۱۲

(۶) سعید بدر،  ’’اقبال شناسی اور ہمایوں  ‘‘ بزم اقبال لاہور،  (سن ندارد) ص  ۲۲۷

(۷) بحوالہ تانیثیت ایک سیاقی مطالعہ،  پروفیسر عتیق اﷲ،  ص  ۳۵

(۸)  فیمنزم تاریخ و تنقید،  شہناز نبی،  رہروان ادب،  ۲۸/۷۱،  رپن لین،  کولکاتا،  ص  ۳۳۹

(۹) فیمنزم تاریخ و تنقید،  شہناز نبی،  رہروان ادب،  ۲۸/۷۱،  رپن لین،  کولکاتا،  ص  ۳۴۱،  ۳۴۲

(۱۰) بحولہ، فیمنزم تاریخ و تنقید،  شہناز نبی،  رہروان ادب،  ۲۸/۷۱،  رپن لین،  کولکاتا،  ص  ۳۴۲

(۱۱)محمد بدیع الزماں  ’’نگاہ مرد مومن سے  بدل جاتی ہیں تقدیریں  ‘‘ دانش بُک ڈپو فیض آبادیوپی،  ۱۹۹۴،  ص  ۲۰۵تا ۲۰۶

٭٭٭٭

Leave a Reply

Be the First to Comment!

Notify of
avatar
wpDiscuz
Please wait...

Subscribe to our newsletter

Want to be notified when our article is published? Enter your email address and name below to be the first to know.