مولانا ابوالکلام آزاد کے اسلوب نثر کا تنوع
ڈاکٹر محمد اسلم جامعی
صدر شعبہ اردو، ماں شاردا پی۔ جی۔ کالج
بندکی فتحپور، کانپور منڈل
مولانا ابوالکلام آزاد نے ادبی اور دانشورانہ زندگی کا آغاز اپنی صحافیانہ سرگرمیوں سے کیا تھا۔ اس صحافت میں مولانا کی شخصیت کے ناگزیر اجزا سیاست، سماجی سوجھ بوجھ اور مذہب کے عناصر شامل تھے۔ صحافت سے شروع ہونے والے ادبی سفر کے مختلف مراحل تاریخ، تذکرہ، تفسیر انشائیہ نما مکاتیب تھے۔ ادبی اور اسلوبیاتی نقطئہ نظر سے مولانا آزاد کا پہلا دور لسان الصدق، الوکیل، الہلال، البلاغ سے ہوتا ہوا تذکرہ پر ختم ہوتا ہے۔ تذکرہ ہی وہ کتاب ہے جس میں ان کے علمی اور تخلیقی اسلوب نگارش کے دوسرے دور کے آغاز کی بھی نشاندہی کی جا سکتی ہے۔ تذکرہ کا تاریخی اور کسی حد تک صحافیانہ انداز تحریر مولانا کی اس موثر نثر کا نقطئہ عروج ہے جو لسان الصدق سے لے کر الہلال تک عربی اور فارسی کے الفاظ وتر ا کیب جاوبے جاشمولیت، بلند آ ہنگی اور مرعوب کن ہیبت و جلال کے باعث اس ناہمواری، غرابت اور اجنبیت کا بھی بہت کم احساس ہونے دیتی ہے جو ان کی ابتدائی نثر میں خاص نمایاں ہے۔ اس دور کی نثر میں ان کی خطیبانہ بلند آہنگی اور علمی شان اپنے ہزار رنگ جلوئو ں کے ساتھ بکھری پڑی ہے۔ اس میں جذبے کی شدت بھی ہے اور دعوت و عزیمت کی علویت بھی – یہ نثر مطالعہ، ذہنی استحضار اور قومی و ملی تشخص کا بھی احساس دلاتی ہے۔ تاہم مولانا کی تحریروں کی یہ تمام خصوصیات اپنی عصری معنویت رکھنے کے باوجود ترجمان القرآن اور غبار خاطر کی نثر کے درجہ کمال تک نہیں پہنچتی۔ یہ وہ درجہ کمال ہے جس کا نقطئہ آغاز ’تذکرہ‘ کے بعض حصوں میں نظر آتا ہے، مگر تذکرہ کی نثر کا بھی غالب رجحان نہیں بن پاتا۔ اس طرح تذکرہ کی نثر مولانا کے ادبی سفر میں ایک موڑ، ایک تبدیلی اور ایک انحراف کے ابتدائی آثار کی نمائندگی کرتی ہے۔ تذکرہ میں اپنے بزرگوں اور ان کے متعلقین کے احوال وکوائف بیان کرتے ہوئے جب مولانا ’خودنوشت سوانح ‘ کا رنگ اختیار کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو ان کی نثر میں ایک ایسی تخلیقی شان پیدا ہو جاتی ہے جس میں شعری اور تخلیقی اظہار کے مختلف عناصر کو ایک ساتھ دیکھا جا سکتا ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ:
’’کبھی سرو کی بلند قامتی پررشک آیا تو سربلندی و سرفرازی کے لیے دل خون ہوا۔ کبھی سبزئہ پا مال کی خاکساری وافتادگی پر نظر پڑ گئی تو اپنے پندارو خود پرستی پر شرم آئی۔ کبھی بادصبا کی روش پسند آئی تو اقامت گزینی سے وحشت ہوئی آوارگی ورہ نوردی کی دل میں ہوا سمائی۔ کبھی آب رواں کی بے قیدی وبے یقینی اس طرح جی کو بھائی کہ پابندیوں اور گرفتاریوں پر آنکھوں نے آنسوؤں اور دل نے زخموں کے ساتھ ماتم کیا جب کبھی مسکراتے دیکھا تو اپنی آنکھوں نے بھی رونے میں کمی نہ کی اوردرختوں کو جب کبھی جنبش ہوئی، شاخوں نے جھوم جھوم کر وجد کیا، تو اپنی سنگینی اور بے حسی بھی ضرور یاد آگئی۔‘‘
اقتباس میں رعایت لفظی، حسن تراکیب اور نت نئے انداز میں تشبیہی پیکروں کے ابھارنے کا انداز مولانا کے ابتدائی پر شکوہ طرز نگارش اور علمی دبازت سے یکسر مختلف ہے۔ اس اسلوب تحریر کو علمی سے زیادہ تخلیقی اسلوب کے زمرے میں رکھا جا سکتا ہے۔ لیکن ایسا بھی نہیں ہے کہ تذکرہ کے بعد مولانا کے جو نثری اسالیب ملتے ہیں وہ پورے طور پر مندرجہ بالا نثر ہی کے اسلوب کی توسیع ہیں ۔ یہ اقتباس دراصل اس تبدیلی کا اشاریہ ہے جو مولانا کی علمیت، بلند آہنگی اور خطابت کے ساتھ ان کی نثر میں تخلیقی اور شعری عناصر کے شمولیات کا پتہ دیتی ہے۔ یہی سبب ہے کہ صرف غبار خاطر میں ہی نہیں بلکہ ترجمان القرآن میں بھی موصوف کو جہاں کہیں مسائل و مباحث پر تفصیل سے اظہار خیال کا موقع ملا ہے، انہوں نے اپنی علمیت کے ساتھ سلاست بیان اور تخلیقی شان کے جو ہر ضرور دکھائے ہیں ۔ یہ وہی سلاست بیان اور تخلیقی اسلوب نثر ہے جس کو بالعموم مولانا کے نثر نگاری کے پورے سیاق و سباق میں دیکھنے کے بجائے صرف غبار خاطر کے تناظڑ میں دیکھنے اور پرکھنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اس طرز تنقید کا نتیجہ یہ نکلا کہ مولانا کی نثری کاوشوں کا دائرہ کار، عموماً مولانا کے انشائیہ نما مکاتیب اور مکتوب نما انشائیوں کے دائرے میں حصار بند کر کے دیکھا جانے لگا۔ البتہ جن معدودے چند نقادوں نے مولانا کی ابتدائی نثر کو موضوع بحث بنانے کی کوشش کی، انہوں نے پس منظر پر اتنی توجہ صرف کی کہ اصل منظر نامہ دھندلا ہوکر رہ گیا۔ مولوی عبدالحق اور محمد حسن عسکری نے آزاد کی نثر کو اردو نثر کے بنیادی سلسلہ نسب سے دور قرار دیا اور اس پر غیر ضروری صناعی کا الزام عائد کیا۔ ڈاکٹر سید عبداللہ نے ان کے بر خلاف ایک اور ہی زاویۂ نگاہ اختیا ر کیا۔ ان کو مولانا آزاد کا بنیادی اور سچا اسلوب، الہلال اور البلاغ میں نظر آیا اور غبار خاطر ان الفاظ میں پژمردہ اور تھکے ہوئے اسلوب کی نمائندہ کتاب ٹھہری کہ:
’’ان کے بلند پایہ ادبی کارناموں میں غبار خاطر ہی ایک ایسی کتاب ہے جو ابو الکلام کی اصلی نثر سے بہت دور ہے۔ اس میں ابوالکلام کی تصویر بہت مدھم اور دھیمی ہے۔ اس میں ابوالکلام کا قلم بیمار اور ضعیف معلوم ہوتا ہے۔ … پھر یہ بات بھی ہے کہ غبار خاطر میں ابوالکلام کی وہ علمی شان بہت کم نمودار ہوئی ہے جس کے طفیل وہ عزت و عظمت کے مستحق بنے تھے اور سچ یہ ہے کہ غبار خاطر، اس داعیۂ عظیم اور جذبۂ شدید سے بھی خالی ہے جس کے شعلے الہلال میں مشتعل ہو کر اقصائے ہند میں آگ لگا چکے تھے۔ اردو ادب میں ابوالکلام کا امتیاز خاص ان کی بارعب اور پر جلال نثر ہے جس کی روح، قوت اور توانائی، سخت کوشی اور دشوار پسندی میں مضمر ہے۔ ‘‘
تاہم غور طلب بات یہ ہے کہ اگر یہ نقائص غبار خاطر کی نثر کے ہیں تو ترجمان القرآن کی نثر کے بھی ہیں اور ان تمام مکاتیب و مضامین کی نثر کے بھی جو نثر مولانا آزاد کی ذہنی وفکری پختگی اور ایک کہنہ مشق نثر نگار کے اعتدال و توازن کے عہد کی سچی اور جینویں نمائندگی کرتی ہے۔ ظاہر ہے کہ صورت حال ایسی نہیں ۔ اس لیے کہ غبار خاطر کا اسلوب نگارش کسی اچانک تبدیلی کا نتیجہ نہیں ہے۔ یہ اسلوب اس تدر یجی ارتقاء کی آخری کڑی ہے جس کا سلسلہ جیسا کہ عرض کیا جا چکا ہے کہ تذکرہ کے بعض مقامات سے شروع ہو گیا تھا اور جس اسلوب کو ترجمان القرآن لکھنے کے زمانے میں استحکام حاصل ہوا۔ یہی سبب ہے کہ ترجمان القرآن اور غبار خاطر کے نثری اسلوب میں بعض حیرت انگیز مما ثلتیں ملتی ہیں۔ بسا اوقات یہ مما ثلتیں موضوعات اور مضامین کی بھی ہیں ۔ مگر دونوں کتابوں میں مولانا کا اسلوب نگارش موضوع گفتگو سے ہی فیضان حاصل کرتا دکھائی دیتا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ موضوعاتی مناسبت اور مما ثلت کے ساتھ ان کے مخصوص اسلوب کی تشکیل کے عناصر بھی جس طرح دونوں جگہ یکساں ہیں اسی طرح تذکرہ سے پہلے کے اسلوب سے بڑی حد تک مختلف اور ممتاز بھی ہیں ۔ سہولت کی خا طر ایک ہی موضوع پر اظہار کے دو نمونے ترجمان القرآن اور غبار خاطر سے پیش کیے جا سکتے ہیں یہ وہی موضوع ہے جس پر تذکرہ کے ایک اقتباس کو پیش کرکے آغاز گفتگو میں مولانا کے بدلے ہوئے انداز نثر کا اندازہ لگانے کی کوشش کی گئی ہے۔ مولانا غبار خاطر میں ایک جگہ اپنے گزرے ہوئے دنوں کا حساب ان الفاظ میں کرتے ہیں :
’’… جس نامراد ہستی کو چودہ برس کی عمر میں زمانہ کی آغوش سے اس طرح چھین لیا گیا ہو، وہ اگر کچھ عرصہ کے لیے شاہراہ عام سے گم ہو کر آوائہ دشت و حشت نہ ہوتی تو اور کیا ہوتا … اگر چہ قدم قدم پر ٹھوکروں سے دو چار ہونا پڑا اور چپہ چپہ پر رکاوٹوں سے الجھنا پڑا مگر طلب ہمیشہ آگے آگے ہی کی طرف بڑھائے لے گئی اور جستجو نے کبھی گوارہ نہیں کیا کہ درمیانی منزلوں میں رک کر دم لے لے۔ بالآخر دم لیا تو اس وقت جب منزل مقصود سامنے جلوہ گر تھی اور اس کی گردراہ سے چشم تمنائی روشن ہو رہیتھی۔چوبیس برس کی عمر میں جب کہ لوگ عشرت شباب کی سر مستیوں کا سفر شروع کرتے ہیں ، میں اپنی دشت نوردیاں ختم کرکے تلوؤں کے کانٹے چن رہا تھا۔‘‘(غبار خاطر، ۱۰۳)
ترجمان القرآن کے مقدمے میں مولانا اصول تفسیر سے بحث کرنے کے بعد ایک مفسر کی حیثیت سے جہاں ذہن اور زندگی کی نا قابل عبور وادیوں کو سر کرنے کا تعلی آمیز ذکر کرتے ہیں اور در پردہ اپنی اہلیت کا اعتراف کراناچاہتے ہیں وہاں بھی ان کے اسلوب بیان میں علمیت کے ساتھ ساتھ وہی تخلیقی شان ہے جو غبار خاطر میں جگہ جگہ دیکھنے کو ملتی ہے :
’’۔۔۔۔۔میرے لیے وقت کی جدید راہیں بھی ایسی ہی دیکھی بھالی ہیں جس طرح قدیم راہوں میں سارے کانٹے نہ چبھ چکے ہوں اور میری روح کا کوئی اعتقاد ایسا نہیں ہے جو انکار کی ساری آزمائشوں میں سے نہ گزر چکا ہو۔ میں نے زہر کے گھونٹ بھی ہر جام سے پیئے ہیں اور تریاق کے نسخے بھی ہر دار الشفا کے آزمائے ہیں ۔ میں جب پیاسا تھا، تو میری لب تشنگیاں دوسرں کی طرح نہ تھی اور جب سیراب ہوا تو میری سیرابی کا سر چشمہ بھی شاہراہ عام پر نہ تھا۔،،
(ترجمان القرآن، مقدمہ، ۱۹)
یہ بظاہر ایک درماندہ مسافر کی گرد سفر ہے، مگر در حقیقت تمام متخالف رجحا نات اور عوامل سے ثابت و سالم نکل آنے کا فن کا رانہ اعلان بھی ہے۔ یہ اعلان غبار خاطر کے متذکرہ بالا اقتباس میں بھی ہے، مگر اس میں وضاحت ہے، بلند آہنگی ہے اور کہیں کہیں خودستائی کی چو ٹ پڑتی نظر آتی ہے۔ ترجمان القرآن کے ان جملوں مٰیں جو کچھ ہے وہ تحت البیان میں ہے۔ مگر جو بات دونوں اقتباسات میں مشترک ہے وہ ان کی تخلیقی شان ہے۔ اس تخلیقات کو پیدا کرنے کے لیے شعری وسائل کا بھی سہارا لیا گیا ہے اور شعریت سے الگ ہو کر بیانیہ میں خود کلامی کی کیفیت بھی پیدا کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ یہ کوشش شعوری ہے یا غیر شعوری اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس لب و لہجے میں بات کہنے کی کوشش سے ہر چند کہ مولانا کی صحافتی نثر بھی خالی نہیں اور ابتدائی زمانے کی بعض دوسری تحریریں بھی، مگر اس نوع کی ابتدائی تحریروں پر ان کا بوجھل اسلوب غالب ہے۔ عربی اور فارسی کے الفاظ اور تراکیب جگہ جگہ غرابت لفظی پیدا کرتے ہیں اور کم و بیش وہی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے جسے بعض اہل نظر مصنوعی طرز نگارش سے موسوم کر چکے ہیں ۔ دور اول کی اس قسم کی تحریروں کے برخلاف ترجما ن القرآن میں ان کا اسلوب فطری اظہار اور غیر مصنوعی سلیقۂ گفتار کا احساس دلاتا ہے۔ ترجمان القرآن میں مولانا کی نثر عربیت زدگی سے نجات یافتہ بھی ہے اور ساتھ ہی قرآنی آہنگ سے لبریز بھی۔ مولانا کی نثر میں عربیت زدگی اور عربی لہجہ یا قرآنی آہنگ کے فرق کو محسوس کرنے کے لیے مولانا کے اداریوں سے لے کر تذکرہ کے بیشتر حصوں کو اول الذکر مثال کے طور پر اورترجمان القرآن اور غبار خاطر کی نثر کو مؤخر الذکر آہنگ سے مملو ہونے کی مثال کے طور پر پیش کیا جا سکتا ہے۔ قرآن کریم میں زجرو توبیخ، عبرت ونصیحت اور استفہام و استعجاب کے جن لہجوں سے ہم دو چار ہوتے ہیں ان کی جھلک ان اقتباسات میں دیکھی جا سکتی ہے۔ مولانا غبار خاطر میں ایک جگہ حکایت بادئہ تریاک کے ذیل میں قدرت خدا وندی کے بوقلموں جلوؤں کا نظارہ اس طرح کرتے ہیں :
’’اندھیری راتوں میں جب آسمان کی قندیلیں روشن ہو جاتی ہیں تو صرف قیدخانے کے باہرہی نہیں چمکتیں ، اسیران قید و محن کو بھی اپنی جلوہ فروشیوں کا پیغام بھیجتی رہتی ہیں ۔ صبح جب تباشیر بکھیرتی ہوئی آئے گی اور شامجب شفق کی گلگوں چادریں پھیلانے لگے گی تو صرف عشرت سراؤں کے دریچوں ہی سے اس کا نظارہ نہیں کیا جائے گا، قیدخانے کے روزنوں میں لگی ہوئی نگاہیں بھی انہیں دیکھ لیا کریں گی۔ فطرت نے انسان کی طرح کبھی یہ نہیں کیا کہ کسی کو شاد کام رکھے ، کسی کو محروم کردے ، وہ جب کبھی اپنے چہرے سے نقاب الٹتی ہے تو سب کو یکساں طور پر نظارئہ حسن کی دعوت دیتی ہے۔ یہ ہماری غفلت اندیشی ہے کہ نظر اٹھا کر دیکھتے نہیں اور صرف اپنے گردوپیش میں کھوئے رہتے ہیں ۔ ‘‘ (غبار خاطر، ص ۶۹)
نثر کا یہ لہجہ جہاں مولانا کے خطیبانہ طرز اظہار کا نمونہ ہے وہیں لفظوں کی نشست و برخاست اور جملوں کا درو بست اس قرآنی اسلوب سے بھی ہم آہنگ ہے جس کو تفسیر قرآن لکھنے کے دوران مولانا نے دریافت کیا تھا اور بعد کے زمانے میں اپنے مخصوص، پختہ اور منفرد اسلوب کی شکل میں استحکام بخشا تھا۔ اس بات کی توثیق ترجمان القرآن کے مختلف مباحث کی نثر سے کی جا سکتی ہے۔ سردست ایک ایسے نمونے پر اکتفا کیا جاتا ہے جس کا انداز تحریر محولہ بالا اقتباس سے بڑی حد تک مما ثل ہے :
’’چیونٹی اپنے بل میں رینگ رہی ہے ، کیڑے مکوڑے ، کوڑے کرکٹ میں ملے ہوئے ہیں مچھلیاں دریا میں تیر رہی ہیں ، پرند ہوا میں اڑ رہے ہیں ، پھول باغ میں کھل رہے ہیں ، ہاتھی جنگل میں دوڑ رہا ہے اورستارے فضا میں گردش کر رہے ہیں ۔ لیکن فطرت کے پاس سب کے لیے یکساں طور پر پروش کی گود اور نگرانی کی آنکھ ہے اور کوئی نہیں جو فیضان ربوبیت سے محروم ہو۔یہ کیوں ہے کہ پہلے سورج کی شعائیں سمندر سے ڈول بھر بھر کر فضا میں پانی کی چادریں بچھا دیں ، پھر ہوائو ں کے جھونکے انہیں حرکت میں لائیں اور پانی کی بوندیں بنا بنا کر ایک خاص وقت اور خاص محل میں برسا دیں … :کیوں ایسا ہوا کہ پہلے پہاڑیوں کی چوٹیوں پر برف کے تودے جمتے ہیں ۔ پھر موسم کی تبدیلی سے پگھلنے لگتے ہیں ، پھر ان کے پگھلنے سے پانی کے چشمے ابلنے لگتے ہیں ، پھر چشموں سے دریا کی جدولیں بہنے لگتی ہیں ، پھر جدولیں پیچ و خم کھاتی ہوئی دور دور تک دوڑ جاتی ہیں اور سینکڑوں ہزاروں میلوں تک اپنی وادیاں شاداب کر دیتی ہیں۔ ‘‘
(ترجمان القرآن ص ۳۶، ۳۸)
یہ نثر غبار خا طر کے انشائیے کی نثر نہیں بلکہ ترجما ن القرآن کے اس حصے کی نثر ہے جس میں مولانا نے ربوبیت باری کی وضاحت کرتے ہوئے اپنے علمی، استدلالی، اور تخلیقی اسلوب کو قرآنی آہنگ کے زیر و بیم سے ہم آہنگ کر دیا ہے۔ اس اسلوب میں کبھی خطاب کی لذت ملتی ہے، تو کبھی رجزیہ انداز کی حرکت، اس میں دیکھی ہوئی دنیا کو نئے زاویوں سے دکھانے کی کوشش بھی ہے اور حافظے اور حواس کو مہمیز کرنے کی ترغیب بھی۔ یہ اگر صرف خطابیہ انداز پر مبنی نثر ہوتی تو اس میں صرف تکرار اور بلند آہنگی سے کام لیا گیا ہوتا۔ جب کی اس میں حقائق کو کسی کلیہ کے تابع کر دیا جاتا ہے۔ ترجمان القرآن میں نثر کے ایسے نمونے ان گنت ہیں اور غبارخاطر کی نثڑ واضح طور پر اسی نثری اسلوب کی توسیع ہے۔ غبار خاطر میں مولانا اگر اپنے مکتوب الیہ سے ہم کلام ہوتے ہیں تو مکالماتی فضا پیدا کر دیتے اور جب آزادانہ طور پر مکتوب یا انشائیہ کو اپنے خیالات کے اظہار کا وسیلہ بناتے ہیں تو ان کا انداز خود کلامی کا ہو جاتا ہے۔ اس طرح غبار خاطر کا معتدبہ حصہ مکالمے اور خود کلامی کے لب و لہجے کا بھی احساس دلاتا ہے۔ مگر یہ لب و لہجے مولانا کے بنیادی علمی، استدلالی اور خطیبانہ لہجے پر مستزاد کی حیثیت رکھتا ہے ، تاہم یہی مستزاد عنصران کی نثر کو تخلیقی نثر کی بعض نئی جہات سے بھی آشنا کرتا ہے۔ ان جہات کا سراغ سب سے پہلے تو ترجمان القرآن کی نثر میں کیوں کر لگایا جا سکتا ہے اس کی مثالیں پیش کی جا چکی ہیں ۔ اب ذرایہ دیکھنے کی کوشش کی جائے کہ کہیں ترجمان القرآن اور غبار خاطر کے متذکرہ بالا اقتباسات میں اسلوبیاتی مماثلت محض اتفاقی تو نہیں ہے ؟اس سلسلے میں موضوعاتی یکسانیت ہماری زیادہ مدد کر سکتی ہے۔ ترجمان القرآن اور غبار خاطر کے زمانی بُعد کو ذہن میں رکھنے کے بجائے اگر دونوں کو ایک ساتھ پڑھا جائے تو اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ تقریبا ً پندرہ بیس سال کے فرق سے لکھی جانے والی تحریروں میں موضوع اور اظہار کی ہم آہنگی دونوں کتابوں کو کس حد تک ایک دوسرے سے قریب کر دیتی ہے۔ یہ بات تو کسی کی نگاہ سے مخفی نہیں کہ مولانا آزاد نے خواہ صحافیہ مضامین لکھے ہوں ، تقریر کی ہو، مختلف موضوعات پر کتابچے لکھے ہوں ۔ انشائیہ نگاری کی ہو، خطوط لکھے ہوں یا تفسیر قرآن لکھی ہو، وہ ہر جگہ اپنے عالمانہ اور مذہبی منصب پر فائز نظر آتے ہیں ۔ اس لیے اگر ترجمان القرآن کے مباحث و موضوعات حتی کہ اسلوب تحریر کی گونج ان کے بعد کی تحریروں میں نمایاں معلوم ہوتی ہے تو کوئی حیرت کی بات نہیں ۔ اب رہی موضوعاتی مناسبت اور تعلق کی بات، تو ترجمان القر آن میں ربوبیت کی کوئی بحث پڑھ جائیے اور غبار خاطر میں خالق و مخلوق کے رشتے پر مختلف خطوط پر نگاہ ڈالیے تو اندازہ ہو جائے گا کہ ہر جگہ ترجمان القرآن کی گونج کیو ں کر سنائی دے رہی ہے۔ اسی طرح خدا کے وجود، توحید اور تخلیق عالم کے موضوعات کا معاملہ بھی ہے۔ مندرجہ زیل دو مثالوں کی مدد سے اس موضوعاتی مماثلت کو بخوبی سمجھا جاسکتا ہے۔ مولانا غبار خاطر میں لکھتے ہیں کہ :
’’ یہ کیا بات ہے کہ انسان خدا کے ما ورا ئے تعقل اور غیر شخصی تصور پر قانع نہیں رہ سکا اور کسی نہ کسی شکل میں اپنے فکر واحساسات کے مطابق ایک شخصی تصور پیدا کرتا رہا۔ اس کی علت بھی یہی ہے کہ انسان کی فطرت کو بلندی کے ایک نصب العین کی ضرورت ہے اور اس ضرورت کی پیاس بغیر ایک مشخص اور علائق نواز تصور کے بجھ نہیں سکتی۔ حقیقت کچھ بھی ہو لیکن یہ جب کبھی اس کے سامنے آئے گا تو تشخص کی ایک نقاب چہرہ پر ضرور ڈال لے گا۔ یہ نقاب کبھی بھاری رہی، کبھی ہلکی ہو گئی، کبھی ڈرانے والی رہی، کبھی لبھانے والی بن گئی۔ لیکن چہرہ سے کبھی اتری نہیں ، اور یہیں سے ہماری دیدئہ صورت پرست کی در ماندگیاں شروع ہوگئیں ۔ ‘‘
(غبار خاطر ص ۱۱۹ )
اسی موضوع پر ترجمان القر آن میں وہ اس طرح اظہا ر خیال کر چکے ہیں :
’’عقل انسانی کا ادراک محسوسات کے دائر ے میں محدود ہے ، اس لیے اس کا تصور اس دائرے سے با ہر قدم نہیں نکال سکا۔ وہ جب کسی اًن دیکھی اور غیر محسوس چیز کا تصور کر لے گی تو نا گزیر ہے کہ تصور میں وہی صفات آئیں گی جنہیں وہ دیکھتی اور سنتی ہے اور جو اس کے حاسئہ ذوق و لمس سے باہر نہیں ہے ، … اس صورتحال کا نتیجہ یہ تھا کہ جب کبھی ذہن انسانی نے خدا کی صورت بنانی چاہی تو ہمیشہ وہی بنائی جیسی صورت خود اس نے اور اس کے احوال و ظروف نے پیدا کر لی تھی۔ جوں جوں اس کا معیار فکر بدلتا گیا وہ اپنے معبود کی شکل و شباہت بدلتا گیا۔ اسے اپنے آئینہ تفکر میں ایک صورت نظر آئی تھی، وہ سمجھتا تھا یہ اس کے معبود کی صورت ہے ، حالانکہ وہ اس کے معبود کی صورت نہ تھی خود اسی کے ذہن صفات کا عکس تھا۔ فکر انسانی کی سب سے پہلی درماندگی یہی ہے جو اس راہ میں پیش آئی۔‘‘
(ترجمان القرآن ص۱۳۲)
ہر چند کہ ان دونوں اقتباسات میں موضوع کی یکسانیت بھی ہے اور دونوں پر مولانا کے مخصوص اسلوب نثر کی چھاپ بھی ہے۔ مگر یہ دونوں نمونے ان کے ممتاز ترین انداز نگارش کی نمائندگی نہیں کرتے۔ ان دونوں نمونوں میں جو مناسبت ہے وہ مواد کی ہے ، لفظیات کی ہے اور طرز فکر کی ہے۔ یہ مناسبت بھی اسی مفروضے کو پایۂ اعتبار تک پہنچاتی ہے کہ غبار خاطر میں سامنے آنے والی بعد کی تحریروں میں اسی فکری، علمی اور ادبی شخصیت کا ارتفاع نظر آتا ہے ، جس کی تشکیل کے عناصر ترجمان القرآن لکھنے کے عمل کے ساتھ ساتھ اعتدال و استحکام کی منزل تک پہنچنے میں کامیاب ہو چکے تھے ، ورنہ کیا سبب ہے کہ ’غبار خاطر‘ میں زیر بحث آنے والی ’دیدئہ صورت پرست کی درماندگی ‘ کا مسئلہ ترجمان القرآن میں ’فکر انسانی کی پہلی درماندگی‘ کے لفظوں میں بہت سے دکھائی دیتا ہے۔ کیا یہ محض اتفاقی ہے کہ فطرت کے یکساں فیضان قدرت کا نکتہ، غبار خاطر میں نظام قدرت کے تحت جاری و ساری مساوات اور نظارئہ حسن فطرت کی بلا تفریق دعوت کے عنوانات سے بار بار ہمارے ذہن کو ترجمان القرآن کے مباحث و مسائل کی طرف متوجہ کرتا ہے۔ کیا اس نوع کی ان گنت مما ثلوں کے باو جود اس حقیقت سے انکار آسان ہے کہ ترجمان القرآن سے حاصل ہونے والی بصیرت ہی مولانا آزاد کے بعد کے اسلوب نگارش اور اسلوب فکر کے لیے سر چشمۂ فیض کی حیثیت رکھتی ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ مولانا آزاد کی ابتدائی علمی و ادبی کا وشیں بھی اپنی معاصر علمی و ادبی سر گرمیوں کے سیاق و سباق میں درجۂ اول کے درجے میں شمار کی جانے لگی تھیں ، مگر خود مولانا کی اپنی ذہنی، فکری اور ادبی ارتقاء میں وہ کون سا مر حلہ تھا جسے نقطۂ عروج کا نام دیا جا سکتا ہے ؟ اس سوال کا جواب بالعموم غبار خاطر کے حوالے سے دینے کی کوشش کی جاتی ہے، یا پھر ان کے اسلوب نگارش کے مطالعہ میں ارتقائی مراحل کو ہی نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ مولانا آزاد نے شروع سے ہی علمی اور صحافتی دنیا میں اپنی انفرادیت کے نقوش مرتسم کر دئیے تھے ، مگر کیا ایسا نہیں ہے کہ ان کی انفرادیت ابتدا ہی سے ان کے خاندانی پس منظر، علم و فضل اور مجتہدانہ انحراف کی رہین منت تھی۔ اور اگر ایسا ہے تو یہ اس بات کا ثبوت بھی ہے کہ مولانا کے اظہار کے تمام وسائل میں ان کی نا پختہ انفرادیت بھی اس حد تک حیرت خیز اور مرعوب کن تھی کہ ان کی ابتدائی ناہموار نثر اور بوجھل اسلوب تحریر کو ہی برسوں تک ان کے بنیادی اسلوب کا نام دیا جاتا رہا۔ اس خلط مبحث کا نتیجہ یہ نکلا کہ مولانا کے ابتدائی زمانے کی نثری کاوشوں پر جو فیصلے صادر کیے گئے ان کا اطلاق مولانا کے متوازن، معتدل اور اسلوبیاتی نقطۂ نظر سے عمدہ ترین نمونوں پر بھی کر دیا گیا۔ جب کہ ان کے قدرے رواں اور نکھرے ہوئے نثری نمونے تذکرہ کے بعد کی تحریروں میں سامنے آنا شروع ہوئے۔ چوں کہ اس نوع کے ممتاز منفرد نثری اسلوب نگارش کی نمائندگی سب سے پہلے ترجمان القرآن سے اور بعد میں غبار خاطر سے ہوتی ہے۔ اس لیے مولانا آزاد کی نثر نگاری کے ارتقاء کو ان کے ذہنی اور ادبی سفر کے پورے سیاق سباق میں رکھ کر دیکھا جانا چاہیے۔ در اصل ترجمان القرآن سے پہلے کی نثر ان کے اسلوب بیان کی تشکیلی دور کی نمائندگی کرتی ہے اور ترجمان القرآن کے بعد ان کی نثر نگاری خواہ وہ رام گڑھ کے تحریری خطبۂ صدارت (کانگریس) کی نثر ہو، یا غبار خاطر کی، ترجمان القرآن کے پختہ علمی اور تخلیقی اسلوب کی توسیع ہے۔
ترجمان القرآن کے اسلوب بیان کی جو مثالیں پہلے پیش کی جا چکی ہیں ، ان میں علمی خطیبانہ اور عربی آہنگ زیادہ نمایاں ہے جب کہ تخلیقی انداز بیان کو محض زیریں لہروں کے طور پر ہی محسوس کیا جا سکتا ہے۔لیکن اسی تفسیر میں اس تخلیقی نثرکے بھی بعض عمدہ نمونے ملتے ہیں جن کی تشکیل میں شعری اور جمالیاتی محر کات زیادہ اہم کردار ادا کرتے معلوم ہوتے ہیں ۔ یہ نمونے علمی اور استدلالی شان سے بھی محروم نہیں اور ان میں اثر انگیز ی اور سحر طرازی کی غیر معمولی قوت بھی پنہاں ہے :
’’ جس دنیا میں سورج روز چمکتا ہو، جس دنیا میں صبح ہر روز مسکراتی ہو اور شام ہر روز پردئہ شب میں چھپ جاتی ہو، جس کی راتیں آسمان کی قندیلوں سے مزین اور جس کی چاندنی حسن افروزیوں سے جہاں تاب رہتی ہو۔ جس کی بہار، سبزئہ و گل سے لدی ہوئی ہو اور جس کی فصلیں لہلہاتے ہوئے کھیتوں سے گرانبار ہوں ، جس دنیا میں روشنی اپنی چمک، رنگ اپنی باقلمونی، خوشبو اپنی عطر بیزی اور موسیقی اپنا نغمہ و آہنگ رکھتی ہو۔ کیا اس دنیا کا کوئی باشند آسائش حیات سے محروم اور نعمت معیشت سے مفلس ہو سکتا ہے۔‘‘
(ترجمان القرآن ص ۷۴)
’’ اگر سمندر میں طوفان نہ اٹھتے تو میدانوں کو زندگی و شادابی کے لیے ایک قطرئہ بارش میسر نہ آتا۔ اگر بادل کی گرج اور بجلی کی کڑک نہ ہوتی تو بار ان رحمت کا فیضان بھی نہ ہوتا۔ اگر آتش فشاں پہاڑوں کی چوٹیاں نہ پھٹتیں تو زمین کے اندر کا کھولتا ہوا مادہ اس کرہ کی تمام سطح کو پارہ پارہ کر دیتا۔ تم بول اٹھو گے ، یہ مادہ پیدا ہی کیوں کیا گیا ؟لیکن تمہیں جاننا چاہیے کہ اگر یہ مادہ نہ ہوتا تو زمین کی قوت نشونما کا ایک ضروری عنصر مفقود ہو جاتا۔ ‘‘
(ترجمان القرآن ص۶۶۹)
’’… ہر وقت، استعداد ڈھونڈ رہی ہے اور ہر تاثیر اثر پذیری کے انتظار میں ہے ، جونہی کسی وجود میں بڑھنے اور نشو نما پانے کی استعداد پیدا ہوتی ہے معاًتمام کارخانۂ ہستی اس کی طرف متوجہ ہو جاتا ہے۔ سورج کی تمام کار فرمائیاں ، فضا کے تمام تغیرات، زمین کی تمام قوتیں ، عناصر کی تمام سرگرمیاں مصرف اس انتظار میں رہتی ہیں کہ کب چیونٹی کے انڈے سے ایک بچہ ہوتا ہے اور کب دہقان کی جھولی سے زمین پر ایک دانہ گرتا ہے۔‘‘
(ترجمان القرآن ص۳۹)
ان اقتباسات میں شعری اور جمالیاتی محر کات کی کار فرمائی نے کیوں کو سحر کارانہ تاثر کا اعجاز پیدا کیا ہے اس کا راز در اصل، قرآنی لب و لہجہ کے ساتھ قوت متخیلہ کی شمولیت میں مضمر ہے۔ یہی تخیلی قوت سمندر کے طوفان اور بارش کے قطرے کو، بادل کی گرج اور فیضان رحمت کو، پہاڑون کی آتش فشانی اور سطح زمین کے توازن کو، اور چیونٹی کے انڈے سے نکلنے والے بچے اور دہقان کی جھولی سے گرے ہوئے دانے ، جیسے غیر متعلق اور قدرے متخالف مظاہر فطرت کو، ایک دھاگے میں پرو دیتی ہے۔ تخیل کی یہی کارفرمائی ہے جو تفسیر قرآن میں قرآنی آہنگ کے ساتھ انصاف اور تخلیقی اپج رکھنے والے ذہن کی ہمہ جہت بصیرت کو ایک ساتھ، اسلوب فکر اور اسلوب نثر کا حصہ بنا دیتی ہے۔ ان اقتباسات میں حسی پیکروں کی مدد سے قاری کے جملہ حواس کو متحرک کرنے کی طاقت بھی ہے اور بعض مجر د حقائق اور مجسم بنا کر پیش کرنے کی تمثیلی شان بھی۔ ترجمان القرآن کی علمی اور تخلیقی نثر کے ان نمونوں کو سامنے رکھ کر، اگر غبار خاطر کے ان حصوں کا مطالعہ کیا جائے جن میں خطیبانہ انداز اظہار کے ساتھ ساتھ شعری اور جمالیاتی طریق کار کی کارفرمائی نمایاں ہے، تو بہ آسانی محسوس کیا جا سکتا ہے کہ مولانا نے ترجمان القرآن میں متعین ہونے اسلوب کو بعد میں کن جہات سے آشنا کرنے کی کوشش کی ہے۔
’’کار باہر نکلی توصبح مسکرا رہی تھی، سامنے دیکھا تو سمندر اچھل اچھل کر ناچ رہا تھا، نسیم صبح کے جھونکے احاطے کی روشنی میں پھرتے ہوئے ملے۔ یہ پھولوں کی خوشبو چن چن کر جمع کر رہے تھے اور سمندر کو بھیج رہے تھے کہ اپنی ٹھوکروں سے فضا میں پھیلاتا رہے۔‘‘
(غبار خاطر، ص۲۲)
جس مرقع میں سورج کی چمک، درختوں کا رقص، پرندوں کا نغمہ، آب رواں کا ترنم اور پھولوں کی رنگیں ادائیں ، اپنی اپنی جلوہ طرازیاں رکھتی ہوں … فطرت کی اس بزم نشاط میں تو وہی زندگی سج سکتی ہے جو ایک دہکتا ہوا دل پہلو میں اور چمکتی ہوئی پیشانی چہرے پر رکھتی ہو اور جو چاندنی میں چاند کی طرح نکھر کر، ستاروں کی چھائو ں میں ستاروں کی طرح چمک کر، پھولوں کی صف میں پھولوں کی طرح کھل کر اپنی جگہ نکال سکتی ہو۔‘‘
(غبار خاطر، ص ۷۶)
’’ احاطہ کے شمالی کنارے میں ایک پرانی ٹوٹی ہوئی قبر ہے ، نیم کے ایک درخت کی شاخیں اس پر سایہ کرنے کی کوشش کر رہی ہے مگر کامیاب نہیں ہوتیں۔ ‘‘
(غبار خاطر، ص ۷۶)
’’ مغربی رخ کے تمام کمرے کھلے اور چشم براہ تھے ، قطار کا پہلا کمرہ میرے حصے میں آیا، میں نے اندر قدم رکھتے ہی پہلا کام یہ کیا کہ چار پائی پر کہ بچھی ہوئی تھی، دراز ہو گیا۔ نو مہینے کی نیند اور تھکن میرے ساتھ بستر پر گری۔‘‘
(غبار خاطر، ص۳۰)
غبار خاطر کے شعری اور جمالیاتی طریق کا ر کے جو نمونے ان چند اقتسابات میں ملتے ہیں ان کا سلسلہ مزید مثالوں سے دراز تر کیا جا سکتا ہے اور بتایا جا سکتا ہے کہ جہاں مولانا نے تاج محل کے درو دیوار اور گنبد و مینار کو اپنی ستار نوازی اور نغمہ سرائی سے مسحور اور عالم وجد میں دکھانے کی کوشش کی ہے، یا جہاں چڑیاچڑے کی کہانی میں ایک نو آموز طائر بچے کو قوت پرواز سے آشنا ہوتے ہوئے دیکھا ہے وہاں اور اس طرح کے دوسرے غیر معمولی نثر پاروں میں ، محولہ بالا مثالوں کی طرح، ان کی تخلیقی جو ہر کے کیا کیا عناصر اپنا رول ادا کرتے نظر آتے ہیں۔ تاہم مختصراً یہ ضرور عرض کیا جا سکتا ہے کہ اس نوع کے تمام نثر پاروں میں حسن تعلیل، تمثیل نگاری، پراڈوکس کا استعمال اور بصری اور سمعی پیکراس حد تک شامل ہو گئے ہیں کہ جگہ جگہ نثر اور شاعری کی تفریق تک مٹتی ہوئی معلوم ہوتی ہے۔ ظاہر ہے کہ اس کی توجیہ سوائے اس کے اور کچھ نہیں ہو سکتی کہ وہ نثر نگار جو تفسیر اور اصول تفسیر کی سخت پابندیاں میں بھی اپنے مخصوص علمی اور تخلیقی اسلوب نگارش کے جوہر دکھا چکا ہے وہ اپنے مکاتیب اور انشائیوں جیسی آزاد اصناف میں اپنی افتاد طبع اور جمالیاتی شعور کو استعمال کر کے نثر اور شعر کی روایتی حد فاصل کو کیوں عبور نہیں کر سکتا۔ اس موقع پر اگر ڈگلس (I.H. Douglas) کے ایک تجزیے کے دو نتائج کی مدد لیں تو بات مزید واضح ہو سکتی ہے۔وہ مولانا کے دانش ورانہ اور مذہبی مزاج کے بارے میں اپنی رائے دیتے ہوئے مولانا کے ذہن کو اس طرح سمجھتا ہے۔
’’آزاد کے انداز نگارش اور شعری پیکر تراشی سے پتہ چلتا ہے کہ ان کے سوچنے سمجھنے کا انداز جذباتی زیادہ ہے اور عقلی کم ہے۔‘‘
یا
’’ مذہب کے سلسلے میں آزاد کا ادراک ایک منضبط ذہن کے ماہر دینیات کا نہیں بلکہ ایک شاعر انہ ذہن رکھنے والے شخص کا ہے۔‘‘
(I.H. Douglas , An Intellectual and Religious Biography)
ان دونوں باتوں سے مولانا آزاد کی نثر نگاری پر کسی براہ راست فیصلے کا تو ثبوت نہیں ملتا مگر بالواسطہ طور پر اس تخلیقی ذہن کو سمجھنے میں پوری مدد ملتی ہے جو جذبے کی شمولیت اور شاعرانہ پیکر تر اشی کے وسیلے سے اپنی نثر میں ایک نوع کی تخلیقی شان پیدا کر دیتا ہے، اور یہی ذہن جب مذہبی مباحث میں اپنے ذہن کی اس مخصوص روکو شامل کر دیتا ہے تو ترجمان القرآن کی نثر بھی اپنے تمام علمی اور استدلالی رنگ و آہنگ کے باوجود ایک تخلیق کار کے قلم کا کرشمہ دکھائی دینے لگتی ہے، چنانچہ آزاد جیسے انوکھے نثر نگار کے انداز فکر میں ہی نہیں بلکہ اسلوب اظہار میں بھی علمی روایت اور تخلیقی مزاج کی کارفرمائی ایک ساتھ مشاہدہ کی جا سکتی ہے۔ روایت اور انفرادیت کی اس آمیزش کا پہلا اور بھر پورنمونہ ترجمان القرآن کے اسلوب تحریر میں اس لیے بھی نظر آتا ہے کہ ترجمان القرآان کے مباحث کا موضوع مولانا کے رویتی انداز فکر کی نمائندگی کرتا ہے اور ان محر کات کو بھی روبہ عمل لانے کا موجب بنتا ہے جو مولانا آزاد کی افتا د طبع اور جمالیاتی ذوق کا حصہ تھے۔
محو لہ بالا تجزیے اور اسلوبیاتی موازنے کے بعد اس بات کے خاصے شواہد سامنے آجاتے ہیں کی مولانا آزاد کا بنیادی اور مرکزی اسلوب نگارش رجمان القرآن میں کیاں کر ظہور پذیر ہوا ہے اور ترجمان القرآن کے بعد کی تحریریں ،بالخصوص غبار خاطر کی نثر، کس طرح اس اسلوب کی توسیع کرتی ہیں۔
حوالہ جات :
(۱) ابو الکلام آزاد، عبد القوی دسنوی
(۲) اردو کی ترقی میں مولانا آزاد کا حصّہ، ڈاکٹر ابو سلمان شاہ جہاں پوری
(۳) کثرت تعبیر، ابو الکلام قاسمی
ڈاکٹر محمد اسلم جامعی
صدر شعبہ اردو، ماں شاردا پی۔ جی۔ کالج
بندکی فتحپور، کانپور منڈل
89/209/2B Model Tower Dalel Purwa Road
Kanpur Nagar, UP-208001
Mob. No. : 9936098225
Email: jamaeeaslam@gmail.com
Leave a Reply
Be the First to Comment!