لسانی تشکیلات کی تحریک اور پاکستانی اردو غزل

ڈاکٹر جابر حسین

شعبہ اردو، اسلام آباد ماڈل کالج برائے  طلباء،  F-10/4

Dr.Jabir Hussain,

Dep of Urdu, Islamabad Model College for Boys ,F-10/4

The Movement  of “Lisaani Tashkeelaat” (Language Configration/Reformation) and Pakistani Urdu Ghazal

The decade of sixty have been tremendous literary discussions, ideas and behavior in the history of Urdu literature in Pakistan..

Some Urdu Writers and  poets of  Pakistan  felt the need to organize a literary  movement to bring reforms in the poetic regulations and measurement of poetry..

This view  and the literary and creative works supporting  it were named as “Lisaani Tashkeelaat”(Language Configration/Reformation). “.

Although this movement mostly influenced Poem  and Short

 Story but its influence on Pakistani Urdu Ghazal can also be found..

This article is aimed  to find the effects of this movement on Pakistani Urdu Ghazal..

 ساٹھ کی دہائی پاکستان میں اردو شعروادب کی تاریخ میں ادبی مباحث،  خیالات اور  رویوں کے  حوالے  سے  ہل چل کی دہائی ہے۔۱۹۶۰ء سے  ۱۹۶۵ء تک پاکستان میں جدید، جدیدیت،  جدید شاعری جیسے  موضوعات بھی زیر بحث رہے۔ان موضوعات کے  پس منظر میں در اصل ایک خیال یا نظریہ کارفرما تھا جو’’لسانی تشکیلات‘‘ کے  نام سے  جاناگیا۔بعد ازاں یہ نظریہ اور اس کے  تحت کی جانے  والی ادبی و تخلیقی کاوشیں ’’لسانی تشکیلات کی تحریک‘‘کے  نام سے  موسوم ہو گئیں۔

لسانی تشکیلات کی ضرورت محسوس کرنے  والوں کا خیال تھا کہ قدیم شعری لسانی پیمانوں نے  شاعری کو ہی نہیں    شاعر وادیب کی فکری و تخلیقی قوت کو بھی متأثر کیا۔ نئی فکری و فنی جدت و سہولت اور نئے  انسانی ردِ عمل کو شعروادب میں داخل ہونے  سے  روک دیا۔مثلاً اکیسویں صدی کاشاعر خصوصاً غزل گو مجبور ہے  کہ وہ میر تقی میرؔ اور سوداؔ کے  زمانے  کے  لسانی ڈھانچوں اور پیمانوں میں اپنے  احساسات و جذبات کا اظہار کرے۔اسی طرح اکیسویں صدی کا مرثیہ گو پابند ہے  کہ وہ انیسؔ اور دبیرؔ کے  قائم کردہ اصولوں اورلسانی و جذباتی پیمانوں کے  مطابق مرثیہ لکھے۔ صدیوں کے  زمانی فاصلے  انسانی سوچ، جذبات اور احساسات کے  طرز و انداز میں کچھ تو تبدیلیاں ضرور پیدا کرتے  ہیں۔ ان تبدیلیوں کو شعروادب میں منعکس کرنے  کے  لیے  لسانی پیمانوں اور لفظیات، علائم، ترکیبات وغیرہ  کی تشکیلِ نو کرنے  کی ضرورت ہے۔ شاعری کے  قدیم اور کلاسیکی مزاج نے  شاعری کو کلاسیکی موسیقی بنا دیا ہے  جس کے  مطابق صدیوں سے  راگ کی جو درو بست اساتذہ نے  مقرر کی ہے  اُسی درو بست میں سُروں کی اُسی تعداد میں راگ گایا جائے  گا۔یہ صورت حال شعرو ادب کو بے  روح اور غیر متحرک بنا دیتی ہے۔
ان ادیبوں کا طرز فکر اور مدعا یہ تھا کہ شعر و ادب میں مافی الضمیر کے  اظہار کے  لیے  جتنے  بھی لسانی پیمانے  اب تک رائج رہے  ہیں وہ اپنے  اپنے  زمانے  کے  تقاضوں اور ضروریات کے  مطابق وجود میں آئے  ہیں۔  ہمارا زمانہ قدیم زمانے  سے  اپنی ایک الگ حیثیت رکھتا ہے۔ اس کے  تقاضے  اور لسانی ضرورتیں اور ہیں لہٰذا شعروادب کی لسانیات میں ہمیں اپنے  وقت کے  تقاضوں کے  مطابق تغیر و تبدیلی لانی چاہیے۔

اس  کا حل ۱۹۶۰ء میں بعض اہلِ فکرو تخلیق نے  تحریک کی صورت میں ڈھونڈا۔انھوں نے  ضرورت محسوس کی کہ شاعری کے  اسلوبیاتی عمل اور پیمانۂ اظہار میں تبدیلیاں لانے  کی تحریک چلائی جائے۔اس تحریک کی کامیابی اورپھیلاؤکے  مختلف امکانات پر غور کرنے  کے  بعد انھیں موضوعاتی شکل دے  کر ان پر قلم اٹھایا جائے۔ اس ضمن میں شعراء میں سے  سب سے  زیادہ بلند آواز میں لسانی تشکیلات کا نعرہ افتخار جالب نے  اپنی کتاب ‘‘مآخذ’’ کے  دیباچے  میں لگایا۔اس مقصد کے  تحت لکھے یا لکھوائے گئے  مقالات کی تعداد ۲۵ ہے جن معروف اہلِ قلم و دانش نے  مقالات لکھے  یا ان سے  لکھوائے  گئے  اُن میں ڈاکٹر سید عبد اللہ،  ڈاکٹر گوہر نوشاہی،  ڈاکٹر تبسم کاشمیری، ڈاکٹر تبسم کاشمیری، احمد ندیم قاسمی، پروفیسر فتح محمد ملک،  انیس ناگی، پروفیسر جیلانی کامران، پروفیسر صفدر میر، ظہیر کاشمیری اور افتخار جالب کے  نام شامل ہیں۔ ان تمام مقالات کو افتخار جالب نے “نئی شاعری” کے  نام سے  کتابی شکل دی۔  افتخار جالب کی  اس کتاب  اور ان کے  شعری مجموعے  ’’مآخذ‘‘ کے دیباچے  کو لسانی تشکیلات کی تحریک کے  اصل مقصد و مدعا کی تفہیم کے  حوالے  سے  بنیادی اہمیت حاصل ہے۔

۱۹۵۸ءکے  مارشل لاء ۱۹۶۵ءکی پاک بھارت جنگ اور لسانی تشکیلات کی تحریک سے  شاعری کے رائج اسلوب و الفاظ اور مقبول نظریات کے  خلاف ایک زبردست رد،  عمل سامنے  ٓیا جس سے  نہ صرف نئی بحثوں کا  آغاز ہوابلکہ غزل کی ہیٔت  و مستقبل کے  بارے  میں بعض تنقیدی حلقوں کی طرف سے  خدشات کا اظہار بھی کیا گیا۔ کم و بیش یہی صورت حال ستر(۷۰ء) کی دہائی میں بھی برقرار رہی۔ ملک کے  طول و عرض میں پھیلی سیاسی گھٹن،  سماجی بے  ضابطگیاں ،  ادبی سطح پر ہیئت واسلوب کے  مروجہ معیارات سے  انحراف،  رائج لسانی و شعری ڈھانچوں میں توڑ پھوڑ جیسے  رویوں نے  مجموعی طور پرساٹھ کی دہائی کے  تاثر کو جدلیاتی رنگ دیا۔

فنی سطح پر ساٹھ اورستر کی دہائیوں میں جو نمایاں تبدیلیاں ہوئیں ان میں اول تو نئی لسانی تشکیلات کے  اثرات ہیں جن کے  تحت فارسی مزاج کی بجائے  اردو کا پاکستانی مزاج

 وجود میں آیا۔تراکیب سے  گریز اور اضافتوں سے  بچنے  کی شعوری کوششوں نے شاعری کی

 زبان کو خاصا تبدیل کر دیا۔”[۱]

لسانی تشکیلات کی تحریک سے  محض دو سال پہلے  یعنی۱۹۵۸ء کے  مارشل لاء نے  آزادئ فکر و قلم قدغن لگانے  کی کوشش کی جسکے  نتیجے  میں ادیبوں کے  ہاں علامتوں اور استعاروں میں بات کرنے  کا رجحان فروغ پایا۔ فرد اپنے  آپ کو ہر میدان میں محبوس اور مقید محسوس کرنے  لگا۔ اظہار کے  نئے  طور طریقوں اور بیان کے  جدید و موثر انداز اپنانے  کی شعوری کوششیں عمل میں آنے  لگیں۔  اہلِ فن و قلم کے  ہاں  اظہار کا ایمائی انداز پیدا ہو گیا۔اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اردو غزل میں ترقی پسند تحریک کے  زیرِاثرجو راست طرزِاظہار رواج پا گیا تھا وہ مائل بہ زوال ہونے  لگا۔تمثال کاری، علامت سازی اور علامتوں کے  استعمال کا رجحان فروغ پانے  لگا۔اس صورت حال کا مجموعی فائدہ اردو غزل کو یہ ہوا کہ اس کی رمزیت و ایمائیت اور اشاریت کو  تقویت ملی جو کہ غزل کی داخلی اور خارجی جہات کو مزید نکھارنے  اور چمکانے  کا سبب بنی۔

اردوغزل کے  اسلوب،  موضوعات اور ڈکشن میں تغیر ضرور پیدا ہوا۔ ڈاکٹر رشید امجد نے  اپنے  مضمون”پاکستانی ادب کے  نمایاں رجحانات” میں لکھا ہے :

۱۹۶۰ء کے  قریب نئی لسانی تشکیلات کی بحث نے  نظم کو زیادہ اور اس کے  بعد افسانے  کو

 متاثر کیا۔غزل پر یہ اثر قدرے  کم پڑا۔[۲]

ادبی سطح پر موضوعات و اسلوب دونوں میں تبدیلیاں واقع ہونے  لگیں۔  غزل میں جدید موضوعات کو نئے  عہد کے  اسلوب بیان کے  مطابق برتنے  کا رجحان فروغ پانے  لگا ہے۔ پاکستان میں بعض  تخلیقی ادیبوں نے  اپنے  مشاہدات اور مافی الضمیرکے  اظہار کے  لیے  نظم و غزل کے  قدیم رائج الوقت لسانی پیمانوں میں بھی تبدیلی کی ضرورت محسوس کی۔ انھوں نے  محسوس کیا کہ ہم جو کچھ لکھ رہے  ہیں وہ ایک خاص قدیم لسانی ڈھانچے  کے  مطابق ہے۔یہ قدیم لسانی پیمانہ صدیوں پہلے  وجود میں آیا تھا اور صدیوں سے  اس نے  اردو شاعری کو خاص طور پر اردو غزل کو اپنی لپیٹ میں لے  رکھا ہے۔اس لسانی ڈھانچے  کے  سامنے  آج کا شاعر مجبور ہے  کہ وہ اپنے  دور کے  احساسات و مشاہدات و جذبات کواُس شکل و صورت اور ہیئت و لفظیات میں پیش کرے  جو اسے  قابلِ قبول ہو۔

افتخار جالب کے  نزدیک شعر و ادب کی لسانیات کی از سر نو تشکیل اس لیے  ضروری تھی کہ اب تک کی رائج الوقت زبان پر گرامر کی حکمرانی رہی ہے۔ بے  شمار تبدیلیوں سے  ہمکنار ہونے  والی اردو مختلف ادوار سے  گزرتے  ہوئے  آج جبکہ ہمارے  درمیان ہے  تو تبدیلی کا یہ عمل رکنا نہیں چاہیے۔ زبان میں موجود تمام مواد کونئے  سرے  سے  منظم ومربوط طور پربروئے  کار لایا جانا چاہیے  تاکہ شعر و ادب کی لسانیات میں وسعت آجائے۔ ان کے  شعری مجموعے  “مآخذ” کے  دیباچے  سے  ایک اقتباس ملاحظہ کیجیے :

شعر و ادب پر کب تک گرامروالے  حکمران رہیں گے۔ ان سے  نجات حاصل کرنا ہی چاہیے۔ وہ زبان جو ادبی وراثت میں مختلف ادوار کی ٹھوکروں ،  ترقیوں ،  پابندیوں اور زیبائش وآرائش سے  مختلف طبائع کی ہنگامہ پروری،  کور ذوقی یا خوش ذوقی سے ،  تخریب،  تعمیر،  محنت،  دسترس،  نارسائی،  کم فہمی اور ہیچ مدانی سے  اور سننے  والوں کی اجتماعی تلازماتی کیفیتوں ،  گردوپیش،  رنگارنگیوں ،  طوائف الملوکیوں ،  پریشانیوں اور مختلف مقامی اور غیر ملکی وسیلوں ،  امنگوں ،  سانچوں ،  حکائتوں ،  داستانوں اور ضرب المثلوں سے  ہم تک پہنچی ہے  اسے  بعینہ برقرار نہیں رکھا جاسکتا۔۔۔ لسانی طور پر جذب شدہ تمام مواد جب نئے  سرے  سے  منظم ہوگا اور آج کی معنویت قبول کرے  گا تو نئے  راہیں کھلیں گی۔ نئی آواز اور پرانی سرگوشیوں کے  ربط باہم سے  جذبات کی لسانی حدود ایک نئے  وسعت سے  ہمکنار ہوں گی۔[۳]

متذکرہ بالانقطۂ نظرنے پاکستانی اردونظم اور افسانے  پرواضح اثرات مرتب کیے۔۔ ‘‘اگرچہ افتخار جالب  کی یہ تحریک اپنی شدت کے  باعث کامیاب نہ ہو سکی تاہم غزل پر اس تحریک کے  اثرات پڑے۔’’[۴]

اس تحریک سے بعض ادیبوں میں احساس کی کم از کم زیریں سطح پرزبان سازی اور لسانی تشکیلات کی ایک لہر ضرور پیدا ہوئی۔شعری زبان اور ڈکشن کی تشکیل ِنو کا ایک  احساس جزوی طور پر  پاکستانی غزل کو ضرور عطا کیا۔ لسانی و فنی اعتبار سے  دیکھا جائے  تو لسانی تشکیلات کی تحریک  نے   غزل کی پرانی لغت میں نئے  الفاظ کی شمولیت نے  بھی غزل کی زبان کو وسعت دی۔امیجز، پیکر تراشی اور تمثال کاری نے  پرانے  استعاراتی نظام کو یکسر بدل دیا۔[۵]

چنانچہ بعض شعرا کے  یہاں اس نقطۂ نظر کو شعوری طور پر اپنانے  کا رویہ بھی سامنے  آیا اور کچھ کے  یہاں لسانی تشکیلات کی ایسی صورتیں بھی پیدا ہوئیں جو ناقابلِ قبول حد تک نامانوس نہیں۔

ظفر اقبال کے شعری مجموعے  ‘‘ گلافتاب’’ میں کیے  گئے شاعرانہ تجربات اس ضمن میں نمایاں نظر آتے  ہیں۔ یہ تجربات  خود ظفر اقبال کے  بقول ‘‘ سیلف پیروڈائزیشن ’’[۶] کی ایک صورت تھی۔سلیم احمد کے  ہاں غزل کے  جارحانہ انداز و آہنگ اور انجم رومانی کی غزل میں لفظیاتی اتار چڑھاؤ نیز جلیل الدین عالی کی غزلوں میں  ‘‘فکِ اضافت’’ کی جو صورتیں ظہور پذیر ہوئیں  انھیں بھی لسانی تشکیلات کی تحریک کے  بنیادی مدعا  کے  تناظر میں دیکھنا بے جا نہ ہوگا۔

ظفر اقبال کا شعری مجموعہ ‘‘گلافتاب’’ لسانی تشکیلات کے  حوالے  سے قابلِ توجہ ہے۔ اس مجموعے  میں شاعر نے  شعوروادراک کی سطح پر شعری لسانیات اور زبان کے  رائج الفاظ واسلوب میں تصرف کیا ہے۔اس تصرف کو ظفر اقبال نے  باقاعدہ طور پر نظریاتی اساس بھی فراہم کی۔ان کا نقطۂ نظر اس حوالے  سے یوں سامنے  آیا۔

جن چشموں سے اس(اردو) زبان  نے  ابتدا میں توانائی حاصل کی اورجو ایک مدت تک  اس پر روک دیے  گئے  تھے، میں نے انھیں پھر سے  رواں کر دیا ہے  کچھ کُلیوں کا احیا کیا ہے، کچھ وضع کیے  ہیں۔۔۔[۷]

‘‘گلافتاب’’ میں اضافت کے  رائج طریقے،  مصادر کی بناوٹ کے  مرسوم پیمانے اور بعض لسانی اصولوں سے  انحراف کی واضح صورتیں اس بات کی غمازی کرتی ہیں کہ شاعر پورے  شعور وادراک کے  ساتھ لسانی تشکیلات کے  عمل کو آگے  بڑھا رہا ہے۔ ‘‘گلافتاب’’ لسانیات کی اصطلاح میں ایک ایسا لفظ ہے  جسے Portmenseauکہا جاتا ہے۔ اس  میں در اصل دو مختلف لفظ آپس میں مل کر مرکب بننے  کے  بجائے  ایک دوسرے  میں مدغم ہو کر ایک نیا لفظ بنا لیتے  ہیں۔ ادغام کے  اسی عمل سے  ظفر اقبال نے  استفادہ کیا  اور اردو میں لفظ سازی کی سعی کی۔ادغام کایہ عمل عربی، فارسی اور انگریزی زبانوں کے  حوالے  سے  بھی  نامانوس نہیں۔

ظفر اقبال نے  اپنے  لسانی تجربات کے  لیے  جو تخلیقی مساعی کیں ان میں پہلی قابل ذکر کوشش فکِ اضافت ہے۔[۸]

الف کو حرف اضافت کے  طور پر استعمال کرنا کسی لسانی اصول سے  مطابقت نہیں رکھتا۔ ظفر اقبال کے  ہاں یہ رویہ بھی نظر آتا ہے  مثلاً

سیدھے  سیدھے  شعر کہتے  سب کو خوش آتے  ظفر
کیا کیا جائے  کہ اپنی عقل میں   افتور تھا
۔۔۔

ویراں تھی  رات چاند  اپتھر  سیاہ

 تھایا پردۂ نگار سراسر سیاہ تھا

الف کا بطور حرف اضافت استعمال کسی لسانی اصول کے  پیش نظر نہیں کیا گیا اور یہ زبان کی شکست و ریخت کے  سلسلے  میں ایک انتہا پسندانہ رویہ ہے۔[۹]

یہاں اس نکتے  کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ متذکرہ بالا رویہ اردو ہی کے  ایک شاعر کا رویہ ہے۔شاعر اپنی زبان کے  ساتھ بقولِ شمس الرحمن فاروقی اس طرح کھیل سکتا ہے  جس طرح بچہ اپنی ماں کے  بدن  سے  کھیل سکتا ہے  اور ضرورت پڑنے  پر وہ زبان میں تشدد اور توڑ پھوڑ بھی روا رکھتا ہے۔[۱۰]

اس میں شبہ نہیں کہ لسانی تشکیلات کے  تجربات کے  نتیجے  میں کچھ ایسی صورتیں بھی سامنے  آئیں جو غزل کے  قارئین و ناقدین کے  لیے  نامقبول رہیں تا ہم مجموعی طور پر ان لسانی تجربوں نے  اردو  غزل کو فائدہ پہنچایا  اور اسے  اظہار کی نئی صورتوں سے  روشناس کرایا۔ان تجربات کے  نتیجے  میں جدید غزل کو بیان کے  وہ قرینے  میسر آئے جن کے  ذریعے  اسے ماحول کی استبدادیت، سیاسی انتشار، سماجی  گھٹن، اخلاقی قدروں کے  زوال اور جنسی و معاشی مسائل جیسے موضوعات کوتمام تر شدتوں کے  ساتھ پیش کرنے  کی صلاحیت حاصل ہوئی۔

حوالہ جات

۱۔       رشید امجد، ڈاکٹر، پاکستانی ادب کے  نمایاں رجحانات[مضمون]، مشمولہ:پاکستان میں اردو ادب کے  پچاس سال، مرتب: ڈکٹر نوازش علی، اشاعت دوم  ۲۰۰۲ء، گندھارا، سید پور روڈ راولپنڈی، ص ۲۳

۲۔        ایضا، ص ۲۳

۳۔         افتخار جالب (دیباچہ)،  مآخذ،  مکتبہ ادب جدید،  لاہور،  س ن،  ص ۱۳

۴۔         ارشد محمود ناشاد، ڈاکٹر، اردو غزل کا تکنیکی، ہیٔتی اور عروضی سفر، مجلس ترقی ادب،

لاہور، ۲۰۰۸، ص۲۴۷

۵۔        رشید امجد، ڈاکٹر، پاکستانی ادب کے  نمایاں رجحانات[مضمون]، مشمولہ:پاکستان میں اردو ادب کے  پچاس سال، مرتب: ڈکٹر نوازش علی، اشاعت دوم  ۲۰۰۲ء، گندھارا، سید پور روڈ راولپنڈی، ص ۲۳

۶۔        ظفر اقبال،  شاعری میں کومک ریلیف کا معاملہ(مضمون)،  مطبوعہ: (سہ ماہی) ادبیات، جلد ۱۸،  شمارہ: ۷۶،  جولائی تا ستمبر ۲۰۰۷ء، ص۹۷

۷۔         ظفر اقبال، (فلیپ) گلافتاب، گورا پبلشرز لاہور، بار دوم ۱۹۹۵ء

۸۔        ارشد محمود ناشاد، ڈاکٹر، اردو غزل کا تکنیکی، ہیٔتی اور عروضی سفر، مجلس ترقی ادب ، لاہور ، ۲۰۰۸ء، ص ۱۷۶

۹۔         ایضاً،  ص ۱۸۲

۱۰۔        فاروقی، شمس الرحمن، طبع رواں منظر معنی اور بے  شمار امکان(مضمون)، مشمولہ: اب تک،

[کلیات ]ظفر اقبال، ص ۳۸

Leave a Reply

Be the First to Comment!

Notify of
avatar
wpDiscuz
Please wait...

Subscribe to our newsletter

Want to be notified when our article is published? Enter your email address and name below to be the first to know.