شیمہ رضوی اور ان کی کتاب اردو غزل اور اس کا فکری و فنی نظام
ڈاکٹر محمداکمل
اسسٹنٹ پروفیسر، شعبۂ اردو, خواجہ معین الدین چشتی اردو، عربی۔فارسی یونی ورسٹی، لکھنؤ
غزل اردو شاعری کی وہ صنف سخن ہے جو ہمیشہ مقبول اور ہر دل عزیزرہی۔ اردو غزل کے فکر و فن کی بات کی جائے تو ڈاکٹر شیمہ رضوی کی کتاب ــ’’اردو غزل اور اس کا فکری و فنی نظام‘‘ کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ ڈاکٹر شیمہ رضوی نے اردو شاعری کی ایک ایسی صنف اور اس کے فکری و فنی نظام پر قلم اٹھایا ہے جس کے بارے میں ناقدین ادب کی مختلف آرا رہی ہیں۔ کئی لوگوں نے غزل گوئی کی مخالفت اور کئی نے موافقت کی۔اردو کے پہلے نقاد الطاف حسین حالی نے اپنی کتاب مقدمہ شعر و شاعری میں غزل پر اعتراضات کئے، حالی کو اردو غزل کے مضامین کی یکسانیت سے اکتاہٹ ہوتی ہے، ان کو ایک ہی شاعر کے دیوان غزلیات میں ’چاک گریباں ‘ کا مضمون ۲۳؍ صورتوں میں بندھا ہوا دکھائی دیتا ہے، انہوں نے غزل میں سنڈاس کی بدبو محسوس کی۔ کلیم الدین احمد کے مطابق غزل نیم وحشی صنف سخن ہے۔ عظمت اﷲ خاں تو یہاں تک کہتے ہیں کہ غزل کی گردن بے تکلف اور بے تکان مار دی جائے، ساتھ ہی یہ بھی کہتے ہیں کہ قافیہ کی تلاش میں غزل کے مضمون میں بے ربطی پیدا ہوجاتی ہے، چنانچہ وہ لکھتے ہیں۔
’’(غزل کا) ایک عاشقانہ شعر ہوگا تو ایک تصوف میں رنگا ہوگا، ایک میں تعلی ہوگی توایک میں سوقیانہ پن، ایک بھرتی کا ہوگا تو ایک حکیمانہ، ایک میں معشوق مسکراتا ہے تو ایک میں رقیب کے چونچلے کرتا ہے، غرض اس غزل کا ہر شعر ایک دوسرے سے بے ربط ہوگا۔‘‘ سریلے بول، ص: ۳۶
دوسری طرف عبادت بریلوی، یوسف حسین خاں، مسعود حسن رضوی ادیبؔ اور فراقؔ گورکھپوری غزل میں حسن کاری اور اس کے جمالیاتی پہلو کے مداح ہیں۔ رشید احمد صدیقی غزل کو معیار سخن اور اردو شاعری کی آبرو مانتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں
’’غزل جتنی بدنام ہے اتنی ہی مجھے عزیز ہے، شاعری کا ذکر آتے ہی میرا ذہن غزل کی طرف مائل ہوجاتا ہے، غزل کو میں اردو شاعری کی آبرو سمجھتا ہوں۔ ہماری غزل میں اور غزل ہماری تہذیب میں ڈھلی ہے، دونوں کو سمت و رفتار، رنگ و آہنگ، وزن و وقار ایک دوسرے سے ملا ہے۔‘‘ جدید غزل، ص:۵
بہر کیف اردو غزل اتنی سخت مخالفت کے باوجود اپنی آب و تاب کے ساتھ اپنا جلوہ بکھیر رہی ہے۔ غزل ہر عہد اور ہر دور میں مقبول رہی۔ غزل کی مقبولیت کے کئی اسباب پیش کئے جاسکتے ہیں۔ جن میں سے چند ذکر کئے جارہے ہیں، غزل کا خاص موضوع عشق ہے، ہم بخوبی واقف ہیں کہ کوئی انسانی دل عشق کے جذبے سے خالی نہیں اور یہ جذبۂ عشق کسی نہ کسی شکل میں ہر فرد کے پاس ہے۔ شاعر اپنی غزلوں میں وہی بیان کرتا ہے جو اس کے دل پر بیتی ہے یا وہ اپنے احساسات و جذبات اور مشاہدات کو بیان کرتا ہے، جب عام آدمی شاعر کے دل پر بیتی ہوئی چیز یااس کے احساسات و جذبات اور مشاہدات وغیرہ کو دیکھتا ہے تو اسے یہ سب چیزیں اپنی لگتی ہیں۔ غزل میں بہت وسعت ہے، اردو غزل کا دامن دن بدن وسیع سے وسیع تر ہوتا گیا اور اردو غزل میں دنیا کے تمام مضامین بیان کئے جانے لگے۔ آج کی تاریخ میں کوئی ایسا مضمون نہیں جو اردو غزل میں بیان نہ کیا جاسکتا ہو، ہاں یہ اور بات ہے کہ غزلیہ شاعری میں جتنے بھی مضامین بیان کئے جاتے ہیں ان میں عشق کا موضوع حاوی و غالب ہے، غزل کی مقبولیت کا ایک اور سبب اس کی غنائیت ہے، اس کے علاوہ غزل کے اشعار دوسرے اصناف سخن کے بالمقابل آسانی سے یاد ہو جاتے ہیں۔
اردو غزل مختلف ادوار و رجحانات پر مشتمل ہے، غزلیہ شاعری میں ارادی یا غیر ارادی طور پرمختلف تجربات کئے گئے اور جدید نظریۂ شاعری پائی جانے لگی۔ اردو شاعری کا ابتدائی زمانہ رہا ہو یا میر و مرزا کا عہد، غالب و مومن کا زمانہ رہا ہو یاعہد سر سید احمد خاں، آزادی سے قبل کا زمانہ رہا ہو یا آزادی کے بعد کا، غزل پر کبھی زوال نہیں آیا جبکہ اردو شاعری کی دوسری اصناف پر عروج و زوال آیا۔ اردو غزل کی مقبولیت اور اس کے فکر و فن نے مصنفہ کو مائل کیا کہ وہ غزلیہ شاعری کی خصوصیات، اردو غزل کی ارتقا اور جدید غزلیہ شاعری کا تجزیہ تحریری شکل میں پیش کریں۔
’’اردو غزل اور اس کا فکری و فنی نظام‘‘ پروفیسر گیان چند کی جانب سے لکھا گیا تعارف، مصنفہ کا پیش لفظ، حصہ اول نظام غزل، حصہ دوم غزل کی ارتقائی صورت حال، حصہ سوم جدید غزل اور کتابیات پر مشتمل ہے۔ یہ کتاب ۱۹۹۰ء میں فخرالدین علی احمد میموریل کمیٹی، حکومت اتر پردیش کے مالی تعاون سے شائع ہوئی، ڈاکٹر شیمہ رضوی نے اس کتاب کا انتساب اپنے والد محترم جناب اعزاز رضوی (ایڈووکیٹ) کے نام کیا ہے۔ اصل کتاب تین مقالات پر مشتمل ہے۔ ڈاکٹر شیمہ رضوی اور ان کی مذکورہ کتاب سے متعلق پروفیسر گیان چند کا تحریر کردہ تعارف بطور تبرک شامل کتاب ہے، پروفیسر گیان چند مذکورہ کتاب کے عنوان یعنی اردو غزل اور اس کا فکری و فنی نظام کے بارے میں لکھتے ہیں۔
’’عنوان میں نظام کے لفظ سے قدرے غلط فہمی ہوتی ہے۔ کم از کم مجھے تو ہوئی، میں یہ سمجھا کہ اس میں غزل کی ہیئت یا فنی نظام تک ہی کا بیان ہوگا، لیکن مضمون میں صرف یہی نہیں بلکہ یہاں ہیئت کے ساتھ ساتھ مواد و معنی پر بھی توجہ کی گئی ہے یعنی غزل کی صنفی ہیئت کے ساتھ ساتھ اس کے موضوعی ارتقا کی بھی تفصیل کی گئی ہے۔‘‘ تعارف، اردو غزل اور اس کا فکری و فنی نظام، ص: ۱۰۔۹
پروفیسر گیان چند نے اس مختصر سے اقتباس میں ۱۶۰ـ ؍ صفحات پر مشتمل کتاب کی تلخیص پیش کردی ہے۔
ڈاکٹر شیمہ رضوی نے یہ کتاب کس کے لئے لکھی، کیوں لکھی اور کن مباحث و مسلمات اور عناصر کو موضوع بحث بنایا ہے۔ خود لکھتی ہیں۔
’’اردو غزل کیا ہے ؟ اس کے مسلمات اور قواعد کیا ہیں ؟ وہ کون سے عناصر ہیں جن سے مل کر غزل کی ایک فضا تیار ہوتی ہے، ان باتوں کو میں نے عام فہم اور سلیس انداز میں پیش کرنے کی کوشش کی ہے تاکہ وہ حضرات جو اردو غزل سے دلچسپی تو رکھتے ہیں لیکن واقفیت نہیں رکھتے بہ آسانی سمجھ لیں، مقالہ میں بحث کو ذہن نشیں کرانے کے لئے جگہ جگہ اشعار کا سہارا لیا گیا ہے۔‘‘ پیش لفظ، اردو غزل اور اس کا فکری و فنی نظام، ص: ۱۴۔۱۳
کتاب کے پہلے حصے ’نظام غزل‘ میں شیمہ رضوی مثنوی، مرثیہ، قصیدہ اور غزل کو اردو شاعری کی چار بڑی قسمیں بتاتے ہوئے کہتی ہیں کہ یہ چاروں اصناف بالواسطہ یا بلا واسطہ فارسی شاعری سے متاثر ہیں، اردو غزل پر فارسی اثرات اور ایرانی تہذیب و تمدن کا عکس نظر آتا ہے، نیز کہتی ہیں کہ فارسی قصیدے کے ابتدائی حصے تشبیب کے اشعار سے دل میں تازگی، فرحت و شادمانی اور شگفتگی پیدا ہوتی ہے۔ غزل کے اشعار سے اسی تازگی، فرحت و شادمانی اور شگفتگی کا کام لیا جاتا ہے، جب فارسی قصیدے سے تشبیب کو الگ کر لیا گیا تو اسی الگ کئے گئے تشبیب کو غزل کے نام سے جانا گیا۔
نظام غزل کی بات کرتے ہوئے رقمطراز ہیں۔
’’بنیادی طور پر اردو غزل کا مکمل نظام فارسی سے مستعار ہے، جس کے معمار سعدی شیرازی ہیں، سعدی شیرازی وہ پہلے فارسی شاعرہیں جنہوں نے وارداتِ قلبی کی ترجمانی گل و بلبل کی زبانی کی ہے۔۔۔
بنیادی طور پر غزل کا ڈھانچہ ایک تثلیث (Triangle) پر قائم ہے جو عاشق، معشوق اور رقیب سے مل کر بنا ہے، یہ غزل کی دنیا کے بنیادی اور روایتی کردار ہیں۔ ‘‘ اردو غزل اوراس کا فکری و فنی نظام، ص:۲۴
ابتدائی زمانے میں اردو غزل عشق و محبت تک ہی محدود تھی، رفتہ رفتہ اردو غزل کا دامن وسیع ہوا اور اس میں دنیا کا ہر موضوع بیان کیا جانے لگا۔ غزل ہر دور میں حالات کو دیکھتے ہوئے خود کو تبدیل کرتی رہی۔ غزل کا موضوع اگر عشق ہے تو وہاں شاعر اپنے عشق و محبت کو جذبات اور تخیلات کا سہارا لے کر خوب رنگ آمیزی کرتاہے۔ شاعر اپنے احساسات و جذبات اور قلبی واردات کو تشبیہ و استعارہ، رمز و کنایہ اور ابہام و اشارہ کا سہارا لے کر ایسی رنگ آمیزی اور خیال آفرینی کرتا ہے کہ شاعر کی آپ بیتی جگ بیتی معلوم ہونے لگتی ہے۔ ڈاکٹر شیمہ رضوی کے مطابق شاعر کسی کی پرواہ کئے بغیر اپنے احساسات و جذبات کو پیش کرتا ہے۔شاعر صرف اپنی بات کرتا ہے، خواہ اسے کوئی سمجھے یا نہ سمجھے۔ چنانچہ وہ لکھتی ہیں۔
’’غزل گو شاعر ان احساسات و جذبات کو جو اس کے دل کی وادی میں سر اٹھاتے ہیں، بے محابا بیان کرنا چاہتا ہے۔ اسے اس بات کی قطعی پرواہ نہیں ہوتی کہ وہ جو کچھ کہہ رہا ہے اسے دوسرے سمجھ بھی پائیں گے یا نہیں، وہ تو بس اپنے جذبات کے تقاضوں کو پورا کرتا ہے۔‘‘
ڈاکٹر شیمہ اپنے اس دعوے کے ثبوت میں غالب کا یہ شعر پیش کرتی ہیں۔ ملاحظہ ہو۔
نہ ستائش کی تمنا نہ صلے کی پرواہ
گر نہیں ہیں میرے اشعار میں معنی نہ سہی
اس کے بعد مصنفہ نے غزل کی امتیازی خصوصیات جن میں دروں بینی، قلبی واردات، داخلیت، معنوی تہہ داری، ریزہ خیالی اور رمز و ایمائیت کا تفصیلی ذکر کیا ہے۔ ان کے مطابق کچھ استعاروں کو شاعر خود بناتا ہے اور کہیں کہیں تلمیحات سے استعارے کاکام بھی لیتا ہے۔ غزل میں تلمیحات واردات حسن و عشق کی وضاحت کے لئے بہت ہی ممد و معاون ثابت ہوتی ہیں۔ شاعری میں تلمیحات کا بہت فائدہ ہے اور غزل کو سمجھنے کے لئے تلمیحات سے واقفیت بے حد ضروری ہے۔ انہوں نے چند تلمیحات کا ذکر اس طرح کیا ہے۔
’’حاتم کہہ کر سخاوت، رستم کہہ کر شجاعت، یوسف کہہ کر حسن، ایوب کہہ کر صبر، مریم کہہ کر پاگیزگی، زلیخا کہہ کر بے صبری، آب حیات کہہ کر ابدی زندگی، منصور کہہ کر حق کوئی، عیسیٰ کہہ کر چارہ گری، مانی و بہزاد کہہ کر مصوری، بلالی کہہ کر خوش آوازی، کعبہ کہہ کر دل، خلیل کہہ کر معمار کعبۂ دل، نمرود کہہ کر ظلم، کلیم اور موسیٰ کہہ کر ذوق نظر، طور کہہ کر روشنی اور جلوۂ خضر کہہ کر رہنما مراد لیتے ہیں۔ چنانچہ غزل سے پورے طور پر محظوظ ہونے کے لئے ان تلمیحات سے آگاہی ضروری ہے۔‘‘ اردو غزل اور اس کا فکری و فنی نظام، ص: ۳۹
ڈاکٹر شیمہ کے مطابق تلمیحات کا یہی سلسلہ غزل کا علیحدہ نظام بن گیا۔ڈاکٹر شیمہ کی نظر میں زندگی کے آداب کی طرح غزل کے بھی آداب ہیں۔ جن سے اعراض قطعی مناسب نہیں۔ غزل کے کچھ فنی تقاضے ہیں، جن کے بغیر غزل غزل نہیں رہ سکتی۔ اس ضمن میں غزل میں محبوب کے جنس کے تعین کی بات کرتی ہیں کہ جو شخص غزل کی روح سے واقف ہے وہ جانتا ہے کہ غزل میں شاعر نے محبوب کو عام طور پر مذکر بنا کر پیش کیا ہے اور غزلیہ شاعری میں محبوب کو مذکر پیش کرنے میں صدیوں کی شائستگی اور تہذیب چھپی ہوئی ہے، اس سے روگردانی اور انحراف غزل کی روح کو مجروح اور بے روح کردیتی ہے، دوسری بات واقعہ نگاری اور معاملہ بندی ہے۔ ان دونوں چیزوں کا غزلوں میں خاص خیال رکھنے کی ضرورت ہے۔ اس کے بغیر غزل معیاری نہیں ہو سکتی۔ معاملہ بندی کے سلسلے میں انہوں نے انشاءؔ، جرأتؔ، رنگینؔ اور میرؔ کا ذکر ان کے اشعار کے حوالے سے کیا ہے۔
ڈاکٹر شیمہ کہتی ہیں اور یہ کہنے میں حق بجانب ہیں کہ دہلی اور لکھنؤ کی غزلیہ شاعری کا ایک ہی نظام رہا ہے۔ ولی سے عہد غالب تک غزل کے نظام میں کوئی خاص بنیادی تبدیلی نہیں ہوئی۔ اتنا ضرور ہے کہ دہلی کی فضا اور لکھنو کے ماحول میں فرق تھا جس کا اثر غزلوں میں نمایاں طور پر دکھائی دیتا ہے۔ دہلی کی غزلوں میں حزنیہ عنصر اور لکھنؤ کی غزلوں میں نشاطیہ عنصر کی فراوانی ہے۔
شیمہ رضوی نے اردو غزل کے سلسلے میں حالی کے نظریۂ اصلاح غزل کا ذکر کرنے کے بعد علامہ اقبال کی غزل گوئی کی انفرادیت پر تفصیل سے روشنی ڈالی ہے۔ وہ کہتی ہیں
’’انہوں (اقبال) نے اپنے مقصد کی وضاحت کے لئے کچھ ایسی علامتیں وضع کیں جس نے غزل کو ایک مخصوص فلسفۂ زندگی اور نئے انداز فکر سے آشنا کیا۔ اقبال کی وضع کردہ ان علامتوں مثلاً خودی، عقل و خرد، عشق وجنون، سوز و ساز، فراق و وصال، جلال و جمال، مردِمومن، انسانِ کامل، قلندر، مرد حر، فقر وشاہین، قرار و تسکین، لذت طلب، حرکت و تڑپ، لالہ و روشنی و جگنو وغیرہ میں فلسفۂ حیات کی مختلف تاویلیں اور تعبیریں پائی جاتی ہیں۔ غزل کا یہ انداز وہ انداز ہے جس کے وہی موجد ہیں اور وہی خاتم بھی۔‘‘ اردو غزل اور اس کا فکری و فنی نظام، ص: ۶۴
اکبرؔ الہ آبادی نے اپنی شاعری میں مزاح کا پہلو پیدا کر کے سماج کی اصلاح کی کوشش کی۔ یہی وجہ ہے کہ اکبرؔ الہ آبادی نے غزل کی علامتوں اور اصطلاحات کو غیر سنجیدہ بنا کر غزل گوئی کو ایک نیا رنگ دیا۔ ڈاکٹر شیمہ خود کہتی ہیں کہ
’’ان کا ملا، صوفی اور شیخ و زاہد اقبال کے ملا، صوفی اور شیخ و زاہد سے بالکل جداگانہ شکل و صورت میں نمودار ہوتا ہے۔‘‘ اردو غزل اور اس کا فکری و فنی نظام، ص: ۷۴
ڈاکٹر شیمہ رضوی نظام غزل کی بحث کرتے ہوئے یہ نتیجہ بھی اخذ کرتی ہیں کہ ہندوستان میں ترقی پسند تحریک کی آمد کے بعد ایک بار پھر غزل کی علامتوں میں بدلاؤ آیا۔ ترقی پسند شعرا میں مجازؔ، مخدومؔ اور سردارؔ جعفری کی شاعری میں غزل کے قدیم اور روایتی نظام میں نیا پن نہیں پایا جاتا۔ البتہ فیضؔ نے غزل کے روایتی نظام کی علامتوں کو نئے معانی اور مفاہیم عطا کئے۔
اس کتاب کا دوسرا حصہ غزل کی ارتقائی صورت حال ہے۔ غزل کی ارتقائی صورت حال پر گفتگو کرتے ہوئے مصنفہ نے دکن میں غزل کے فروغ کی بات کہی ہے۔ وہ محمد قلی قطب شاہ، وجہیؔ اور ہاشمیؔ کی غزل گوئی پر روشنی ڈالتی ہیں ، ساتھ ہی یہ بھی کہتی ہیں کہ دکن کے ان مذکورہ شعرا نے غزل گوئی میں کوئی خاص اضافہ نہیں کیا، البتہ ولیؔ اور سراجؔ کے زمانے میں دکن میں غزل کی خوب ترقی ہوئی۔ شمالی ہند میں غزل گوئی نے خوب ترقی کی۔ شمالی ہند میں اردو شاعری میں ایہام گوئی کا رجحان عام ہوا پھر اس رجحان کی تردید ہوئی اور زبان کی اصلاح پر زور دیا جانے لگا۔ میر تقی میرؔ، سوداؔ اور دردؔ نے اردو غزل کو آسمان کی بلندیوں پر پہنچادیا۔ عہد میر و مرزا کوشیمہ رضوی سنہرا دور کہتی ہیں۔ لکھتی ہیں
’’زبان اور بیان کے لحاظ سے سادگی و سلاست اس دور کی نمایاں خصوصیت ہے۔ موضوعات، تصورات و خیالات، انداز بیان اور طرز ادا، لہجہ اور آہنگ سبھی حیثیتوں سے یہ دور اردو غزل کا سنہرا دور کہلانے کا مستحق ہے۔‘‘ اردو غزل اور اس کا فکری و فنی نظام، ص: ۹۸
جب دہلی کا سیاسی زوال ہوا تو بہت سے شعرا نے اودھ اور دوسرے مقامات کا رخ کیا۔ اوددھ ادب نواز علاقہ تھا۔ اودھ کے نوابین شعر و ادب سے خوب دلچسپی رکھتے تھے۔ نوابین اودھ میں شجاع الدولہ، آصف الدولہ، سعادت علی خاں، غازی الدین حیدر، نصیرالدین، محمد علی شاہ اور واجد علی شاہ وغیرہ نے شعرا کی خوب عزت افزائی کی، جس کی وجہ سے اودھ میں بہت سے شاعر و ادیب اور فنکار جمع ہو گئے۔ اودھ میں غزل گوئی کے علاوہ مرثیہ نگاری نے بھی خوب ترقی کی۔ زبان و بیان کے لحاظ سے لکھنؤ کی شاعری کا اسلوب دہلی کی شاعری سے مختلف نظر آتا ہے۔ دہلی کی شاعری داخلی اور جذباتی ہے جبکہ لکھنؤ کی شاعری خارجی اور لفظی ہے۔ دہلی کی شاعری میں سادگی اور برجستگی پائی جاتی ہے، لکھنؤ کی شاعری میں تکلف اور تصنع نے اپنی جگہ بنائی، لکھنؤ کی شاعری میں صنعت گری، الفاظ کی شعبدہ بازی، رعایت لفظی اور معاملہ بندی کا رنگ بکثرت پایا جاتا ہے۔ لکھنؤ کی غزلوں میں تین طرح کے رجحانات پائے جاتے ہیں۔ ایک رنگ ایسا ہے جس میں موضوع صاف ستھرا ہوتا ہے، بیان میں سادگی اور لہجہ میں شیرینی پائی جاتی ہے، یہ رنگ مصحفیؔ کا ہے۔ جرأتؔ کے رنگ میں معاملہ بندی، عیش پرستی اور لذت اندوزی پائی جاتی ہے۔ لکھنؤ کی غزلوں میں انشاءؔ و رنگینؔ کا پیدا کردہ ایک رنگ پایا جاتا ہے جس میں عشق کا مطلب ہوس پرسی ہو جاتا ہے اور شاعری تفنن طبع کے سوا کچھ نہیں ہوتی۔ مذکورہ خیالات کا اظہار ڈاکٹر شیمہ نے اپنی کتاب’’ اردو غزل اور اس کا فکری و فنی نظام‘‘ کے دوسرے حصے میں کیا ہے۔
کتاب کا تیسراحصہ جدید غزل ہے۔ اس حصے میں انہوں نے جدید اور قدیم کی وضاحت کرنے کے بعد جدید غزل پر بحث کی ہے۔ جدید غزل کو انہوں نے پانچ حصوں (۱) انگریزوں کی آمد سے ۱۸۵۷ء کے انقلاب تک (۲) ۱۸۵۷ء کے انقلاب کے بعد سے حالی اور ان کے معاصرین تک (۳) حالی اور ان کے معاصرین کے بعد سے فراق اور ان کے معاصرین تک (۴) فراق اور ان کے معاصرین کے بعد سے ۱۹۳۵ء یعنی ترقی پسند شعرا تک (۵) ترقی پسند شعرا سے تا حال ) میں تقسیم کرکے ان پر تفصیلی روشنی ڈالی ہے۔جدید غزل کے پہلے حصے میں بہادر شاہ ظفرؔ، غالبؔ اور مومنؔ کی شعری امتیازات کا ذکر کیا گیا ہے۔ دوسرے حصے میں حالی کی غزل میں اصلیت، سادگی، جوش اور مضامین کے وسعت کی وکالت اور داغؔ کی بات کی گئی ہے۔ تیسرے حصے میں اکبرؔ، چکبستؔ اور اقبالؔ کو اس دور کا نمائندہ شاعر قرار دے کر یہ ثابت کیا ہے کہ ان تینوں شعراکا نقطۂ نظر ایک ہے ، صرف بات کہنے کا انداز مختلف ہے۔ ساتھ ہی ریاضؔ خیرآبادی، شادؔ عظیم آبادی، حسرتؔ اور فراقؔ کی شاعری پر مثالوں کے ذریعے روشنی ڈالی ہے۔ چوتھے حصے میں ترقی پسند شاعروں کی خصوصیات بیان کرنے کے بعد ڈاکٹر شیمہ نے چند اہم ترقی پسند شعرا کا کلام بطور نمونہ پیش کیا ہے، پانچویں حصے میں نئے لکھنے والوں کی شعری خصوصیات کا ذکر کیا گیا ہے۔ ڈاکٹر شیمہ کی نظر میں نئی نسل کی ذاتی زندگی بہت ہی منتشر اور بکھری ہوئی ہے، یہی وجہ ہے کہ موجودہ غزل کی داخلیت بہت حد تک مجروح بھی ہوئی۔ غزل کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ اردو شاعری کی تمام تر اصطلاحات، ترکیبات، علامات اور مضامین فارسی سے لئے گئے ہیں، مگر نسل نو کے غزل گو شعرا نے اپنی شاعری اور لفظوں کی قوت اور حقیقت سے واقفیت کی وجہ سے اسے باطل قرار دے دیا۔ مختصراً یہ کہا جا سکتا ہے کہ نئی نسل کے غزل گو شعرا نے اردو غزل کو فارسی اور ایرانی لب و لہجہ کے بجائے ہندوستانی لب و لہجہ عطا کیا۔
ڈاکٹر شیمہ رضوی نے اس کتاب میں نہایت ہی آسان اور عام فہم زبان میں غزلیہ شاعری سے متعلق بہت سی معلومات کو یکجا کردیا ہے۔ یہ کتاب عام قاری اور طلبا کے لئے بے حد مفید ہے، کتا ب کی نوعیت معلوماتی ہے۔ اس کتاب میں جا بجا اشعار کو بطور مثال پیش کیا گیا ہے، اشعار کی کثرت کہیں کہیں طبیعت کو بوجھل کردیتی ہے۔ کتاب میں کئی مقامات پر مصنفہ کے تنقیدی اور تحقیقی رجحانات بھی پائے جاتے ہیں۔ شامل کتاب کتابیات نامکمل ہے، چوبیس اردو اور سات انگریزی کتابوں کی تفصیل نامکمل اور ادھوری ہے۔ اگر کتابیات میں نام مصنف اور نام کتاب کے ساتھ ناشر اور سنہ اشاعت درج ہوتا تو اس سے کتاب کی اہمیت مزید بڑھ جاتی۔ پھر بھی یہ کتاب اپنی زبان و بیان اور موضوع کے اعتبار سے خوب ہے۔
کتابیات
۱۔ سریلے بول، عظمت اﷲ خاں، کتاب خانہ دانش محل، لکھنؤ، ۱۹۴۰ء
۲۔ جدید غزل، رشید احمد صدیقی، اردو اکیڈمی، سندھ، کراچی، ۱۹۷۹ء
۳۔ مقدمۂ شعر و شاعری، الطاف حسین حالی، ایجوکیشنل بک ہاؤس، علی گڈھ، ۱۹۹۶ء
۴۔ اردو غزل اور اس کا فکری و فنی نظام، شیمہ رضوی، سرفراز پریس، لکھنؤ، ۱۹۹۰ء
۵۔ لکھنؤ کا دبستان شاعری، ابواللیث صدیقی، ادبی دنیا اردو بازار، دہلی، ۱۹۵۵ء
۶۔ دلی کا دبستان شاعری، نورالحسن ہاشمی، اترپردیش اردو اکادمی، لکھنؤ، ۱۹۹۲ء
۷۔ اردو غزل، یوسف حسین خاں، معارف پریس، اعظم گڈھ، ۱۹۷۴ء
۸۔ غزل اور مطا لعۂ غزل، عبادت بریلوی، ایجوکیشنل بک ہاؤس، علی گڈھ، ۲۰۰۵ء
٭٭٭
ڈاکٹر محمداکمل
اسسٹنٹ پروفیسر، شعبۂ اردو
خواجہ معین الدین چشتی اردو، عربی۔فارسی یونی ورسٹی، لکھنؤ
Leave a Reply
Be the First to Comment!