اختر مسلمی اوران کی وابستگیاں
ڈاکٹر ابوشہیم خان
اسسٹنٹ پروفیسر، شعبئہ اردو و فاسی
ڈاکٹر ہری سنگھ گور سنٹرل یو نیو رسٹی، ساگر، مددھیہ پردیش 470003، shaheemjnu@gmail.com
[ ـ مختصرتعارف۔۔۔۔ عبیداللہ معروف بہ ـاختر مسلمی کا آ بائی وطن پر وانچل کا مشہور گائوں پھر یہا ضلع اعظم گڈ ھ اتر پر دیش تھا لیکن ان کے والد نے اسی ضلع کے دوسرے گائوں مسلم پٹی میں بغرض ملازمت سکونت اختیار کر لی تھی۔ ـاختر مسلمی اسی گائوں میں یکم جنوری 1928 کو پیدا ہوئے اور ابتدائی تعلیم گائوں کی دینی درس گاہ سے حاصل کی۔اس کے بعد مزید تعلیم کے لیے مشہور دینی درس گاہ مد ر ستہ الا صلاح سرائے میر میں داخلہ لیا اور اپنی باقی ماندہ زندگی سرائے میر کے لیے وقف کر دی25 جون 1989 کو اس دار فانی سے رخصت ہوئے اور سرائے میر ہی ان کا دائمی مسکن ٹھہرا۔مر حوم کے کلام کے دو مجمو عے ’’موج نسیم‘‘ اور ’’موج صبا ‘‘ ان کی زندگی میں شائع ہوئے اور 2013 میں ان کے غیر مطبو عہ کلام’’جام و سنداں ‘‘کو بھی شامل کر کے ان کے نواسے اور جوا ہر لال نہرو یو نیور سٹی نئی دہلی کے فارغ التحصیل فہیم احمد نے ان کی کلیات ’’کلیات ـاختر مسلمی ‘‘ مرتب کی بڑ ھتی عوامی مقبو لیت کے پیش نظر 2017 میں اس کلیات کا دوسرا ایڈ یشن بھی شائع کیا گیا۔ ]
’’ــکلیات ـاختر مسلمی ‘‘ میں ایسے مقامات اکثر آتے ہیں جہاں اختر مسلمی کا لہجہ مو عظانہ اور انداز صو فیانہ ہو تا ہے۔ وہ مشاہدہ حق کی گفتگو بھی بادہ و ساغر کے توسط سے کرتے ہیں۔ اس لیے ان کا شمار ایسے شاعروں میں ہوتا ہے جن کی زبان رندانہ اور مضمون عارفانہ ہو تا ہے۔ گر چہ ادب میں پندو مو عظت کی یا کسی بھی مو ضوع کی حیثیت ثانوی ہو تی ہے لیکن تخلیق کار کا تجربہ او ر اس کا خلاقانہ بیان غیر اہم کو بھی اہم بنا دیتا ہے۔اردو ادب کی شعری روایت میں ایسے بہت سے صوفی شعراء ہیں جنہوں نے صو فیانہ رموز و نکات کے ساتھ ساتھ زمانے کی عیاری، عدم رواداری، بے حسی، منافقت، سطحیت، مادہ پرستی، خود غرضی، بے مروتی اور بے ضمیری جیسے عام سماجی مسائل کو بھی اپنی شاعری کا مو ضوع بنا یا اور اپنے شعری تجربوں اور خلاقانہ بیان سے ان سماجی مسائل کے ساتھ ساتھ کسی بھی ہنگامی رد عمل احساس، اور فکر و جذ بے کو بھی دوام بخشا۔ مخا لفین غزل اور حامیان نظم ادب سے معاشرتی اصلاح، ذ ہنی بیداری، اجتماعی شعور اور دانشور نہ اظہار کی روایت کو فروغ دینے کا جو کام لینا چا ہتے تھے چند عاشقان غزل نے بھی ادب کے اسی افادی پہلو کو اپنا مطمح نظر بنا یا۔ اسے یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ تخلیق کاروں کی ایک بڑی تعداد حالی، عندلیب شادانی، جوش ملیح آبادی اور کلیم الدین احمد وغیرہ کی غزل پر تیار کردہ فرد جرم سے اتفاق نہیں رکھتی تھی اور نظم جدید اور ترقی پسند تحریک کے بعض نکات سے شدید اختلاف کے باعث ا ن سے با ظابطہ وابستگی کے حق میں بھی نہیں تھی لیکن ان تحریکات کے اصل منہج یعنی ادب کی افادیت کے قائل اور شارح تھی۔ کلیات ـاختر مسلمی کا بھی مطالعہ اسی تناظر میں کیا جا سکتا ہے۔
اختر مسلمی کی شخصیت اورشاعری کا خمیر جن عناصر کا مرکب ہے ان میں مختلف اور کبھی کبھی متضاد رویوں کے متناسب امتزاج کو خاص اہمیت حاصل ہے۔ اسی لیے ان کی شخصیت اورشاعری دونوں غلو اور افراط و تفریط سے پاک ہیں۔ ویسے تو غلو کا شما ر تو حسن بیان کی قدروں میں ہوتا ہے۔ کلام میں مزید حسن و لطافت، اثر اور مزید معنی پیدا کرنے کا ذریعہ ہو تا ہے اور بیان کی سطح پر کسی بھی شاعر کے لیے ان صنعتوں سے اغماز ممکن نہیں ہے۔ اختر مسلمی بھی بیان کی سطح پر ان صنعتوں سے استفادہ کرتے ہیں لیکن خیال کی سطح پر وہ غلو اور افراط و تفریط سے اپنے کلام کو محفوظ رکھتے ہیں کیو ں کہ شاعری ان کے ہاں لفظوں کا گورکھ دھندا یا وقت گذاری کے لیے دلچسپ کھیل نہیں ہے بلکہ ذوق جمال کی تسکین کے ساتھ ساتھ صا لح اقدار کی تشریح و تبلیغ کا ایک مو ثرذر یعہ ہے۔ اختر مسلمی کا شناخت نامہ جن عناصر سے ترکیب پاتا ہے ان میں خیال و جذبے کی پاکی کے علا وہ غم جانان اور غم دوراں کے ساتھ تکلم اور ترنم کے امتزاج کو نمایاں حیثیت حاصل ہے۔ ان کے ظاہر و باطن اور فکر و عمل دونوں سطحوں پرتوازن ایک خاص محرک ہے۔ اختر مسلمی کے ہاں انتہا پسندی کسی بھی صورت میں جائز نہیں ہے۔وہ کسی بھی چیز کے بیان میں حدود سے تجاوز نہیں کرتے۔یہ حدود خود ساختہ بھی ہیں اور اقداری بھی۔اس لیے کبھی کبھی یہ گمان گذرتا ہے کہ ان کا تخئیلی عمل بھی شتر بے مہار نہیں ہے بلکہ اس پر بھی اخلاق و اقدار کے پہرے ہیں۔ بہر حال اس کا مطلب یہ ہر گز نہیں ہے کہ ان ہاں فکر کی بلندی اور ادب کی بالا دستی نہیں ہے۔ بقول ڈاکٹر ناطق اعظمی
’’ اختر صاحب مزاج دان غزل ہیں، تغزل کی روح کے محرم ہیں۔ ان کے تئیں غزل ایک خاص انداز بیان کا نام ہے۔وہ صرف لب و رخسار، گل و بلبل، قد و گیسو کی بات نہیں کرتے بلکہ زندگی کے تلخ اور ٹھوس حقائق کو بھی غزل میں سمونے کی کامیاب کوشش کرتے ہیں۔ حسن و ؑشق کی باتیں ہوں یا غم روزگار کا تذکرہ کہیں بھی ٖ غزل کی روح مجروح نہیں ہونے دیتے۔ ان کے یہاں نہ تو شب ہجرکا ذکر جنسی تشنگی کا نوحہ بنتا ہے۔نہ زندگی کے مسائل انقلابی نعروں میں تبدیل ہوتے ہیں۔ ان کا اپنا ایک مخصوص انداز بیاں ہے جس میں تغزل کی چاشنی غم روزگار کی تلخیوں کو بھی شیریں بنا دیتی ہے ‘‘
اختر مسلمی بنیادی طور پر ٖغزل کے شاعر ہیں لیکن ان کے ہاں غزلوں کے علاوہ حمد، نعت، منقبت، مناجات، سہرے اور تہنیتی غزل نما نظمیں بھی پائی جاتی ہیں لیکن ان کی حیثیت ثانوی ہے۔ غزل ہی ان کی پہچان ہے۔ کیو ں نہ ہو اختر مسلمی نے اس زمانے کی سب سے معتوب صنف سخن یعنی غزل کی آبیاری میں اپنی پوری زندگی صرف کر دی۔ انھو ں نے اس زمانے میں غزل میں طبع آزمائی شروع کی جب مشرقی شعر یات کی تقر یباً نو سو سالہ روایت کے قابل ذکر حصوں کو فرسودہ، مشکوک ، نیم وحشی اور قابل گردن زدنی قرار دینے کی کوشش کی جا رہی تھی۔ غزل پرحالی کا احتجاج اور نظم جدیدکی ترقی غزل جیسی سخت جان، پختہ، اوررچی ہوئی صنف کے لیے تو نشاتہ ثانیہ ثابت ہوئی اور فانی بدایونی، حسرت موہانی اور علامہ اقبال نے غزل میں ایک نئی معنو یت ایک نیا وزن اور ایک نئی بلاٖغت پیدا کرکے غزل کو بیسویں صدی کے ذوق سے قریب تر کر دیا اور اسے ایک جنس گراں مایہ کی حیثیت بخش دی۔ لیکن 1936 کے آس پاس غزل پر پھر سے اعترا ضات کا جو سلسلہ شروع ہوا وہ کافی دیر پا اور چو طرفا ثابت ہوا۔ ایک طرح سے اردو شاعری کی عام فضا پر غزل کا تسلط منقسم ہوگیا۔ اختر انصاری اپنی کتاب ؛ غزل اور غزل کی تعلیمـــ میں لکھتے ہیں کہ
’’ اسی زمانے میں یہ مسئلہ بھی ترقی پسند نقادوں کے زیر غور رہا کہ آیا غزل ترقی پسند شاعری کی صنف کی حیثیت سے زندہ رہ سکتی ہے یا نہیں۔ بعض نقادوں کا خیال تھا کہ غزل اپنی بنیادی سرشت کے لحاظ سے ایک ایسی صنف ہے جو فراری، رومانی اور انفرادی جذ بات ہی کی تر جمان بن سکتی ہے، اور جدید ترقی پسند خیالات اور رحجانات کی کسی طرح متحمل نہیں ہو سکتی، بعض کی رائے اس کے بر عکس تھی۔ اب غالباً یہ تسلیم کیا جا چکا ہے کہ غزل نظم کی دوسری اصناف کے دوش بدوش سماجی زندگی کے ٹھوس حقائق اور جدید ترقی پسند انہ، انقلابی اور عوامی رحجانات کی حامل بن سکتی ہے اور اس میں نئے ذہنی مطالبات سے ہم آہنگ ہونے کی پوری صلاحیت ہے ‘‘
اختر مسلمی کا ذوق شعر گوئی ان ہی سما جی و ادبی تاریخی سیاق میں پروان چڑھتا ہے اور وہ پوری زندگی سماجی اور مذ ہبی اقدا ر کی تعبیر و تشریح کو اپنے شعری اظہار کا ذریعہ بناتے ہیں اور زوال پذیر معاشرہ کے ہر اس اخلاقی مسئلے پر اظہار خیال کرتے ہیں جن کا ازالہ ایک صالح اور صحت مند معاشرے کے لیے از حد ضروری ہوتا ہے۔ شاعری ان کے لیے ذریعہء عزت و جاہ اور معاش نہیں بلکہ وجہ وجو د و بقا ہے
اختر کہوں نہ شعر تو دم گھٹ جائے مرا
وابستہ زندگی ہے مری شاعری کے ساتھ
اختر مسلمی کی تقریباً پوری زندگی اپنے آبائی ضلع اعظم گڈھ اور اس کے گردو نواح میں گذری۔ اس خطے کی عام سماجی چلن کے بر خلاف وہ روزگار کے لیے بھی اس مد ینتہ العلوم سے کبھی باہرنہیں نکلے۔ لہذا ان کی ذہنی تربیت اور ذوق شعر گوئی کو ایک مخصوص رنگ دینے میں اس خطہ کی علمی اور مذہبی فضا کا بہت اہم رول ہے۔ ان کی کلیات میں ایسے اشعار لا تعداد ہیں جن سے ادب اور زندگی کے مابین رشتوں کے بارے میں ان کی رائے اور اپروچ کا علم ہوتا ہے۔وہ اکثر یہ کہتے ہو ئے نظر آتے ہیں کہ
کیا سنواریں گے یہ فنکار زمانے کا چلن
ان کا کردار بھی سنورے نہ اگر فن کی طرح
مسند عیش پہ ہنسنا تو کوئی بات نہیں
سیکھ اے دوست سر دار بھی خنداں ہونا
اختر مسلمی کی شاعری کا بنیادی حوالہ انسانی تہذیب خصو صاً مشرقی تہذیب ہے۔ وہ فکری سطح پر ہر اس نظر یہ کی حمایت کرتے ہیں جو بنی نو ع انسان کے اشرف المخلو قات ہونے، اس کی عزت نفس کوہمیشہ مقدم رکھنے اور ماد ی ترقی کے بجائے غیر ماد ی فلاح کے مو قف کی وکالت کرتا ہو۔ان کے یہاں بہترین انسان وہ ہے جوحق گو و بے باک، اصول پسند، عاقبت اندیش اور غیر مصلحت کوش ہو۔ ان کوعام انسانوں میں جب یہ اقداری خصا ئص نظر نہیں آتی ہیں تو ان کا لہجہ ترش اورانداز بیان جا رحانہ ہو جاتا ہے۔وہ کہتے ہیں کہ( متفرق اشعار)
دیکھا اتر کے دل میں تو سب بے ضمیر تھے
چہرے لگائے یوں تو بہت پارسا ملے
رہا اب اور کیا باقی زوال آدمیت میں
کہ طینت ہو گئی ہے ما ئل تخریب انساں کی
بیداد کا ساماں کرتا ہے مائل بہ جفا ہو جاتا ہے
اظہار تمنا کرتے ہی انسان خدا ہو جاتا ہے
فریب کاریء انساں سے ڈر لگے ہے مجھے
پیام امن کے عنواں سے ڈر لگے ہے مجھے
جامہ آج کے انسانوں کا کیا پو چھو ہو کیسا ہے
خلق و مروت کے تانے ہیں بغض و حسد کے بانے ہیں
آج کے دور میں نا ممکن ہے دانے ہوں اور دام نہ ہو
طائر دل یہ خوش فہمی ہے دام نہیں ہیں دانے ہیں
ہر طرف بغض و عداوت کی گھٹا چھائی ہے
دہر میں شمع محبت کو فروزاں کر دیں
ہے اخوت کا اثر جن کے دلوں سے مفقود
ان درندہ صفت انسانوں کو انساں کر دیں
کس قدر انو کھا ہے شیوہ اہل دنیا کا
میٹھی میٹھی باتوں میں تلخیاں دبی رکھنا
اختر مسلمی کی شاعری میں انسانوں کے اصل اور حقیقی مراتب کے ساتھ ساتھ اس کی جبلت اور عملی رویوں کے بیان کوخاص اہمیت حاصل ہے۔محولہ بالا اشعار انسان کے ظاہر و باطن، قول و فعل اور اصول و عمل کے مابین تضاد اور فرق کی وضاحت کرتے ہیں۔ انسان اپنے حقیقی منصب سے ہٹ کر کس قدر سازشی، خود غرض، فریبی، منافق، بے ضمیر اور تخریب پرست ہو گیا ہے اور یہ برائیاں سماج میں اس سطح تک سرایت کر گئی ہیں کہ عام انسان انھیں برائیاں سمجھتا بھی نہیں ہے۔ یعنی یہ برائیاں قبیح اور قابل نفر عمل نہ ہو کر ان کی حیثیت عام انسانی رویوں اوروطیروں کی ہو گئی ہے۔اختر مسلمی انسانوں کے اس طرح کے منفی رویوں اور اخلاقی زوال پر کڑھتے ہیں اور بار بار احساس دلاتے ہیں کہ وہ اپنے اصل مقام و مرتبے کو پہچانیں اور بنیادی انسانی اقدار کو اپنانے اوراس کو عام کرنے والے بنیں کیو ں کہ سود و زیاں کا احساس، طالع آزمائی، زود طلبی اور سہل پسندی سچے عاشق کا وطیرہ نہیں ہوتا ہے۔کلا سیکی غزل کی طرح ان کا بھی محبوب ستم گر، جفا کوش اور بے وفا تو ہے لیکن وہ عاشق کی مجہو ل کیفیات کا بیان کرنے کے بجائے اسے ہمت اور حوصلہ دیتے ہیں۔ محبوب اور زمانے سے ملے ہوئے متاع غم کو لطف زندگی کے لیے ضروری سمجھتے ہیں۔ وہ کسی بھی صورت میں صبر و ایثار اور وضع داری سے دست بردار نہیں ہوتے بلکہ وہ بھی ایک سچے عاشق ہیں جو
ــــــ ’’ عشق کی صعو بتوں اور دشواریوں اور راہ محبت کے شدائد اور آلام سے کبھی آزردہ اور مضطرب نہیں ہو تا۔ اس کو محبوب کی چشم قہر و عتاب میں لطف و عنایت اور اس کے جور و ستم میں لذت و حلاوت ملتی ہے۔وہ اس کی پیہم جفائوں کا آرزو مند رہتا ہے اور زخم کھا کر بھی مسکراتا ہے اور اپنی زبان پر کوئی حرف شکایت اور کلمہء فریاد نہیں لاتا۔آہ و فغاں کو عشق کی تو ہین اور محبت کی رسوائی خیال کرتا ہے ‘‘
مزید یہ کہ اختر مسلمی عظمت رفتہ پر آنسو بہاتے ہیں اور اس کی بازیابی کی کوشش ہر فرد کے لیے ضروری سمجھتے ہیں۔ وہ سماج پر تنقیدی نظر ڈالتے ہیں اور اس کی برائیوں پر پردہ ڈالنے کے بجائے اسے آشکارہ کرتے ہیں تاکہ ایک صالح معاشرہ تشکیل پا سکے۔ وہ ایک ایسے مثالی سماج کا خواب دیکھتے ہیں جہاں اخوت و محبت، ایثار و خلوص کا دور دورہ ہو۔انسان ایک دوسرے کے زخموں پر مرہم رکھنے والے ہوں۔ مو جودہ طرز معاشرت اور تہذ یب نو میں انسان کے اجتماعی شعور اور احساس کا شیرازہ جس طرح منتشر ہو گیا ہے اور ہر فرد خود اپنی ذات میں سمٹ کر رہ گیا ہے۔ ان کی زند گیوں سے اقدار جس طرح سے بے دخل ہو گئے ہیں اختر مسلمی ان کا بین کرتے ہیں اور انسانوں سے اپنے اصل کی طرف لوٹنے اور مثالی سماج کے اصولوں پر کار بند ہونے اور عظمت رفتہ کی بازیابی کی کو شش کی تو قع کرتے ہیں۔ سماج پر ان کی تنقید کسی مصلح کے لا ئحہ عمل کا حصہ نہیں ہے۔یعنی ان کے کلام کی حیثیت صرف پند و مو عظت کی نہیں بلکہ غزل کی روایت کے تسلسل کی ہے۔اختر مسلمی کی شاعری کا کلیہ یہ ہے کہ وہ مو ضوع اور اندازبیان کو یکساں اہمیت دیتے ہیں۔ اور شاز ونادر ہی اس کلیہ سے انحراف کرتے ہیں۔ ان کی شاعری کے خاطر بہ حصہ کا مطالعہ اس کلیے کی رروشنی میں کیا جا سکتا ہے۔لیکن سکہ بند ناقدین نے ابھی تک اس جانب کوئی خاص توجہ نہیں دی ہے۔ کلیات اختر مسلمی کے 2013 میں منظر عام پر آنے کے بعد ان کی مقبو لیت اور شہرت کا دائرہ وسیع ہوا اور علمی حلقوں میں ان کی شاعری خصو صاً غزل گوئی پر بات کا سلسلہ شروع ہوا ہے۔ظاہر ہے اس کی وجہ اختر مسلمی کے سچے جذبات اور متنوع تجربات کے ساتھ ساتھ غٖزل کی رسومیات کی پوری پابندی ہے جو آ ج بھی ان کی معنویت کو برقرار رکھے ہوئے ہے۔ مثلاً تہذیب نو اور موجودہ طرز معاشرت پر ان کے ظاہرکردہ خدشات روز بروز اور زیادہ صحیح ثابت ہو رہے ہیں۔
نہ جانے حشر کا میداں ہے کہ دنیا ہے
جسے بھی دیکھئے تنہا دکھائی دیتا ہے
اندھیرے لاکھ غنیمت ہیں اس اجالے سے
جدید شمع فروزاں سے ڈر لگے ہے مجھے
تہذ یب نو کے لوگ وہ خوش پوش ہو گئے
بار لباس سے بھی سبکدوش ہو گئے
کون رہتا ہے مکانوں میں مکینوں کی طرح
آدمی شہر میں چلتے ہیں مشینوں کی طرح
ہر ایک چہرہ مجھے سو گوار لگتا ہے
میں دیکھتا ہوں جسے بے قرار لگتا ہے
یہ کیا کیا نئی تہذیب نے کہ اب انساں
خود اپنے گھر میں غریب الدیار لگتا ہے
کسی کو فکر نہیں زخمیوں کے مرہم کی
جسے بھی دیکھئے نامہ نگار لگتا ہے
اتار دے گا نقاب اپنی انتخاب کے بعد
یہ شخص آج بڑا خاکسار لگتا ہے
اختر مسلمی ایک مخلص اور سچے محب وطن کی طرح تہذیب نو کے منفی پہلوئوں اور انجام کار کے ساتھ ساتھ وطن کی صورت حال پر بھی بے اطمئنا نی اور مختلف خدشات کا اظہار کرتے ہیں۔ وہ وطن عزیز میں ایسی فضا کے تعمیر کے خواہش مند ہیں جس میں تمام لوگ ہم آہنگی اور رواداری کے ساتھ رہ سکیں اور ملک کی اجتماعی ترقی کی کوشش کر سکیں۔ کسی کو کسی پر فو قیت حاصل نہ ہوسب کو مساوی حقوق اور یکساں آزادی حاصل ہو۔ ملک کی آزادی اس کے قیام اور اس کو خو ش حال بنانے کی سب کی کو ششوں کو بلا تفریق سراہا جائے اور کسی طرح کے تعصب کو روا نہ رکھا جائے۔اگر ایسا نہیں کیا گیا تو ملک میں یگانگت کی فضا مکدر ہو گی۔عوام میں بے اطمئنانی اور بے چینی پیدا ہو گی۔لاکھ قر با نیوں کے باوجود ملک کی تیرہ نصیبی کبھی ختم نہیں ہو گی اور ملک کبھی بھی لالہ زار نہیں ہو سکے گا۔ وہ بار بار اس بات کا اعادہ کرتے ہیں کہ اگر ہم ملک و ملت کی ترقی اور بھلائی چاہتے ہیں تو تمام اہل وطن ملک کی بہتری کے لیے پیش کی گئی قر بانیوں کو تسلیم کریں اور ملکی اتحاد اور یگانگت کو اپنے ذاتی مفاد پر تر جیح دیں۔ ان کی کلیات میں ملک، چمن، باغباں ، نشیمن، عند لیب، آشیانہ، گلستاں، گلشن جیسے استعارے بکثرت استعمال ہو ئے ہیں۔ ان کے کلام میں ان استعاروں کے استعمال کی کثرت سے اختر مسلمی کی ذہنی اور فکری منا سبتوں ، سمت بند یوں اور قومی تر جیحات کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔مندرجہ ذیل متفرق اشعار اختر مسلمی کے جذ بہ ایثار و قربانی کا ایک نمو نہ ہیں۔۔
جو باہم عند لیبان چمن دست و گریباں ہیں
تو ایسی کشمکش میں فکر ہے کس کو گلستاں کی
اب اس سے بڑھ کے ستم اور ہم پہ کیا ہو گا
کہ ہم چمن کے لیے ہیں چمن کسی کے لیے
چمن کی تیرہ نصیبی نہ مٹ سکی پھر بھی
جلا چکا ہوں نشیمن بھی روشنی کے لیے
اے چمن والو ہمیں سے ہے چمن کی زینت
کاٹ کر پھینک نہ دو ہم کو ببو لوں کی طرح
نہاں ہے خوئے صیادی ہمارے باغبانوں میں
عنادل باغ کے غافل نہ بیٹھیں آشیانوں میں
بس اک احساس آزادی سے دل ہے مطمئن ورنہ
قفس کا رنگ پیدا ہو گیا ہے آشیانوں میں
چمن میں ان کو وحشت ہے ہماری ہم نشینی سے
جنھیں کل تک تھابے حد انس ہم سے قید خانوں میں
لالہ و گل سے پو چھئے سرو و سمن سے پوچھئے
میری چمن نوازیاں حسن چمن سے پوچھئے
کر گئیں سر خرو اسے کس کے لہو کی سر خیاں
یاد نہ ہو جو آپ کو خاک وطن سے پوچھئے
میری نوائے حریت گونجی اسی فضا میں تھی
کوہ و دمن سے پوچھئے گنگ و جمن سے پوچھئے
تہذیب نو اور حب الوطنی کے مو ضوعات پر ان خو بصو رت اشعار کے بعد اختر مسلمی کی شاعری کے جو نکات خاص تو جہ کے طالب اور ان کے تشخص کی تشکیل کا غالب عنصر ہیں ان میں اردوشاعری خصو صاً غزل کی رسو میات کی پوری پابندی، ان کی فکری وابستگیا ں اور اسا تذہ شعراء کی اتباع کو خاص اہمیت حاصل ہے۔ جہاں تک اردوشاعری خصو صاً غزل کی رسو میات کی پابندی کا سوال ہے تو اختر مسلمی اردو شعری روایت کا پورا احترام کرتے ہیں۔ یہ احترام فکر، زبان اور انداز بیان کے ساتھ اسلوب اور ہیئت کی سطح پر بھی ہے۔وہ کسی بھی سطح پر روایت سے بغا وت کو بہتر نہیں سمجھتے۔ وہ نئے، غیر مانوس اور کم مستعمل لفظیات سے مکمل احتراز کرتے ہیں۔ سیدھے سادے تجربات کو بڑے آسانی سے عام فہم زبان میں پیش کرتے ہیں۔ ان کے کلام میں خیال اور بیان یا اسلوب کی سطح پر کوئی پیچیدگی نہیں آتی ہے۔ تجربات چو ں کہ عمومی نوعیت کے ہوتے ہیں اس لیے تجربات کے نتائج اور ان کے انداز پیش کش کے با رے میں پیش گوئی ممکن ہو تی ہے اور ان کے ہاں تجربات کو شعری پیکر میں ڈھالنے کی سطح پر تمام طرح کی تحیر زدگی اور ڈراما ئیت خارج از امکان ہے۔ اختر مسلمی مادہ پرستانہ رسو مات سے گریز اور ملتوں کے نفاق کو ختم کر کے انھیں اجزائے ایماں بنانے کے قائل ہیں۔ شاعری ان کے لیے تفنن طبع کا ذریعہ نہیں بلکہ مقصد جلیلہ کے حصول کی وکیل ہے۔یہ اپنی شاعری کے ذریعہ قارئین تک خاص پیغام کی تر سیل چاہتے ہیں اور انھیں اعلی مقام کا حوالہ دے کر اپنے اعمال کے محاسبے کی یاد دہانی کراتے ہیں۔ اختر مسلمی کے ہاں فکری سطح پر ایک وحدت پائی جاتی ہے اور یہ وحدت تسلسل بیانی کی متقاضی ہو تی ہے۔اس لیے اختر مسلمی کے یہاں غزل مسلسل کی تعداد کافی ہے۔غز ل کا ہر شعر عموماً منفرد، خود مکتفی اور قا ئم بالذات ہوتا ہے لیکن غزل مسلسل میں ہر شعر منفرد اور خود مکتفی نہیں ہوتا بلکہ تمام اشعار سلسلہ بہ سلسلہ مربوط ہوتے ہیں۔ اس تسلسل میں کسی خیال کے ساتھ ار تقاء خیال بھی پا یا جائے گا یا مختلف اشعار میں کسی ایک مفہوم کومختلف انداز میں پیش کیا جائے گایعنی مفہوم ایک ہو گا لیکن پیرائے بیان مختلف ہو گا۔ اختر مسلمی کسی ایک مفہوم کومختلف انداز میں پیش کرنے کا ہنر جانتے ہیں۔
اختر مسلمی کا ایک اورعمل جو انھیں دوسرے ہم عصر شعرا سے منفرد کرتا ہے وہ اسا تذہ شعراء کی قابل ستا ئش اتباع ہے۔ان کی کلیات میں بہت سی غزلیں ایسی ہیں جو علامہ اقبال، اقبال عظیم، حفیظ بنارسی، نذیر بنارسی، حفیظ جونپوری اور حسرت جے پوری وغیرہ جیسے شعرا کی زمینوں میں کہی گئی ہیں۔ ایسی غزلوں میں اتباع صرف لفظیات، لب و لہجہ، ہیئت، بحر او ر ردیف و قافیہ کے انتخاب کی سطح پر نہیں ہے بلکہ فکر کی سطح پر بھی ہے۔فکر و فن دونوں سطحوں پر وہ اسا تذہ سے رجوع کرتے ہیں اور شعری روایات اور رسو میات کی اتباع کو شعر گوئی کے لیے ضروری سمجھتے ہیں۔ پچھلے صفحے پر ان کی ایک غزل کے چند اشعار درج ہیں :
نہاں ہے خوئے صیادی ہمارے باغبانوں میں
عنادل باغ کے غافل نہ بیٹھیں آشیانوں میں
بس اک احساس آزادی سے دل ہے مطمئن ورنہ
قفس کا رنگ پیدا ہو گیا ہے آشیانوں میں
خبر کیا تھی بہار گلستاں یہ دن بھی آئے گا
ستائے گی قفس کی یاد ہم کو آشیانوں میں
خدا کی شان اس پر آج ہے الزام غداری
ابھی کل تک جو تھا رسم وفا کے راز دانوں میں
چمن میں ان کو وحشت ہے ہماری ہم نشینی سے
جنھیں کل تک تھابے حد انس ہم سے قید خانوں میں
یہ غزل انھوں نے ایک طرحی مشاعرے میں پڑھی تھی۔مصرعہ طرح علامہ اقبال کی ایک بہت ہی مشہور نظم ’’ تصو یر درد‘‘کا مصرعہ’’عنادل باغ کے غافل نہ بیٹھیں آشیانوں میں ‘‘تھا۔ علامہ اقبال کی اس نظم کے کئی اشعار زبان زد عام و خاص ہیں۔ ایک طرح سے ان اشعار کی حیثیت ضرب المثل کی ہو گئی ہے۔نظم ’’تصو یر درد‘‘کے چند اشعار ملا حظہ ہوں۔
نہیں منت کش تاب شنیدن داستاں میری
خموشی گفتگو ہے بے زبانی ہے زباں میری
چھپا کر آستیں میں بجلیاں رکھی ہے گردوں نے
عنادل باغ کے غافل نہ بیٹھیں آشیانوں میں
نا سمجھو گے تو مٹ جائو گے اے ہندو ستاں والو
تمہاری داستاں تک بھی نہ ہو گی داستا نوں میں
علامہ اقبال کے علاوہ اختر مسلمی کی زندگی دوسرے شعرا سے بھی کئی سطحوں پر متاثر نظر آتی ہے۔کلیات اختر مسلمی میں ایسی بے شمار غزلیں ہیں جہاں پر اساتذہ کے نقوش بڑی آسانی سے نشان زد کیے جاسکتے ہیں۔ کچھ ایسے ہی مقامات کی نشان دہی درج ذیل غزلوں کے توسط سے کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔
اختر مسلمی
اعجاز نگا ہوں کا دکھا میں کیوں نہیں دیتے
ہم عشق کے ماروں کو جلا کیوں نہیں دیتے
ہنستے ہیں بہت اہل خرد اہل جنوں پر
پردہ رخ زیبا سے اٹھا کیوں نہیں دیتے
منصب ہے یہ ہم خاک نشینوں کی بدولت
یہ تخت نشیں ہم کو دعا کیوں نہیں دیتے
احمد فراز
خاموش ہو کیوں داد جفا کیوں نہیں دیتے
بسمل ہو تو قاتل کو دعا کیوں نہیں دیتے
منصف ہو اگر تم تو کب انصاف کرو گے
مجرم ہیں اگر ہم تو سزا کیوں نہیں دیتے
حسرت جے پوری
جب پیار نہیں ہے تو بھلا کیوں نہیں دیتے
خط کس کے لیے ر کھے ہیں جلا کیوں نہیں دیتے
کس واسطے لکھا ہے ہتھیلی پہ مرا نام
میں حرف غلط ہوں تو مٹا کیوں نہیں دیتے
اقبال عظیم
یہ جھو ٹے خدا مل کر ڈبو دیں گے سفینہ
تم ہادی برحق کو صدا کیوں نہیں دیتے
دیوار کا یہ عذر سنا جائے گا کب تک
دیوار اگر ہے تو گرا کیوں نہیں دیتے
حفیظ بنارسی
کیا جرم ہمارا ہے بتا کیوں نہیں دیتے
مجرم ہیں اگر ہم تو سزا کیوں نہیں دیتے
کیوں ہاتھ میں لرزہ ہے تمہیں خوف ہے کس کا
ہم حرف غلط ہیں تو مٹا کیوں نہیں دیتے
اختر مسلمی
نہ سمجھ سکی جو دنیا یہ زبان بے زبانی
ترا چہرہ خود کہے گا مرے قتل کی کہانی
یہ عذاب آسمانی یہ عتاب نا گہانی
ہیں کہاں سمجھنے والے مرے آ نسوئو ں کو پانی
تجھے ناز حسن پر ہے ، مجھے ناز عشق پر ہے
ترا حسن چند روزہ مرا عشق جاودانی
نذیر بنارسی
یہ عنا ئتیں غضب کی یہ بلا کی مہر بانی
میری خیریت بھی پو چھی کسی اور کی زبانی
ترا حسن سو رہا تھا مری چھیڑ نے جگا یا
وہ نگاہ میں نے ڈالی کہ سنور گئی جوانی
مری بے زبان آنکھوں سے گرے ہیں چند قطرے
وہ سمجھ سکیں تو آنسو نہ سمجھ سکیں تو پانی
اختر مسلمی
مصلحت پوش بہت کم سخنی ہو تی ہے
کتنی معیوب دریدہ دہنی ہو تی ہے
کم ہی پایا ہے یہ شیرینی رہی ہو شیریں
بیشتر تلخ ہی شیر یں سخنی ہو تی ہے
اس کی زلفوں ہی پہ موقوف نہیں ہے اختر
بیٹھ جاتا ہوں جہاں چھائوں گھنی ہو تی ہے
حفیظ جو نپوری
بیٹھ جاتا ہوں جہاں چھائوں گھنی ہو تی ہے
ہائے کیا چیز غریب الو طنی ہو تی ہے
نہیں مرتے ہیں تو ایذا نہیں جھیلی جاتی
اور مرتے ہیں تو پیما ں شکنی ہو تی ہے
مندرجہ بالا اشعار کے علاوہ کلیات اختر مسلمی میں ایسی کئی غزلیں مل جا ئیں گی جن پر قدیم اور جدید شعراء کا راست دیکھا جا سکتا ہے۔ان اشعار کے مطالعے سے یہ بھی واضح ہو جاتا ہے کہ اختر مسلمی نے یہ اثر صرف زبان و بیان یا لفظیات کی حد تک قبول نہیں کیا بلکہ شعری وسائل کو برتنے میں وہ اسا تذہ سے زیادہ متاثر نظر آتے ہیں۔ مجھے ان کی وہ غزلیں زیادہ رواں، خوش آہنگ اور پر از تغزل معلوم ہوتی ہیں جو اسا تذہ کی اتباع میں کہی گئی ہیں۔ شعری وسائل کو برتنے میں اسا تذہ سے استفادہ کے علاوہ اختر مسلمی کے شناخت نامے کا ایک اہم عنصر ان کی فکری و سماجی وابستگیاں ہیں۔ وہ کسی بھی تخلیق کے دونوں پہلو ئوں ادبیت و افا دیت کے قائل ہیں۔ ان کے نزدیک دونوں پہلو ایک دوسرے کا تکملہ ہیں۔ وہ ادب کے ذریعہ ایک صالح معاشرہ کی تشکیل کے خوا ہاں تو ہیں لیکن ادبیت سے سمجھو تہ کیے بغیر۔منجملہ اختر مسلمی کے بارے میں یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ ان کے ظاہر و باطن، قول و فعل اور فکرو عمل میں کوئی تضاد نہیں ہے۔وہ ادب کے کسی ایک پہلو کے مطالعے کے قائل نہیں بلکہ اس کی کلیت کے حامی ہیں۔
حوالہ جات:
کلیات اقبال (صدی ایڈیشن) ایجوکیشنل بک ہائوس، مسلم یونی ورسٹی مارکیٹ، علی گڑھ
ا ردو غزل :۔ یوسف حسین خاں۔ انجمن ترقی اردو ہند، علی گڑھ
اردو غزل کے پچاس سال :۔ عبد الا حد خان خلیل۔ نامی پریس لکھنؤ
اردو شاعری پر ایک نظر :۔ کلیم الدین احمد۔ بک امپوریم سبزی باغ، پٹنہ
غزل اور غزل کی تعلیم۔ اختر انصاری۔ قومی کو نسل برائے فروغ اردو زبان نئی دہلی
غزل کی سر گزشت۔ اختر انصاری۔ ایجو کیشنل بک ہائوس، علی گڑھ
جدید اردو شاعری۔عبادت بریلوی۔ایجو کیشنل بک ہائوس، علی گڑھ
کلیات اختر مسلمی۔۔مرتب۔فہیم احمد۔وائز پبلیکیشنس جامعہ نگر نئی دہلی
ایضاً 98,103,106
ایضاً 109,123,168
ایضاً 195, 214, 226
ایضاً 258,298 250,
ایضاً 302
Leave a Reply
2 Comments on "اختر مسلمی اوران کی وابستگیاں"
[…] 64. اختر مسلمی اوران کی وابستگیاں […]
[…] اختر مسلمی اوران کی وابستگیاں […]