جوشؔ کی باغیانہ شاعری
پروفیسر فہمیدہ منصوری
صدر شعبۂ اُردو ،ماتا جیجا بائی گورنمنٹ گرلز پی جی کالج
موتی طویلہ اندور (ایم۔پی) انڈیا
جوشؔ ( ۵دسمبر ۱۹۹۸ ء، ۲۲ فروری ۱۹۸۱ء)کا نام پہلے غلام شبیر اور بعد میں شبیر حسن خاں رکھا گیا۔ جوش نے پہلے اپنا تخلص شبیر اور پھر جوش ؔاختیارکیا۔ ان کی سنۂ ولادت کے بارے میں بہت سی رائے منظرعام پر آئی۔لیکن پروفیسر احتشام حسین لکھتے ہیں کہ شبیر حسن خاں جوش ملیح آبادی ضلع لکھنؤ میں بقول خود ۱۸۹۸ء میں پیدا ہوئے عقیل احمد کے مطابق بھی ۵دسمبر ۱۸۹۸ء ہی ان کی تاریخ ولادت ہے۔رواج زمانہ کے مطابق گھر میں فارسی، عربی اور اردو کی تعلیم حاصل کر نے کے بعد لکھنؤ، سیتاپور، آگرہ کے مختلف اسکولوں میں رہ کر سینئر کیمبرج تک پہنچے۔ ایم۔ اے کے لئے ۱۹۱۲ء میں M.A.Oکالج علی گڑھ میں داخلہ لے کر ممتاز ہاؤس کے کمرہ نمبر ۴۲ میں قیام کیا۔نو برس کی عمر سے شعر گوئی کی آغاز ہو چکا تھا۔ پہلا شعر
شاعری کیوں نہ راس آئے
کہ یہ میرا فن خاندانی ہے
فقیر محمد گویا کے فرزند محمد احمد خاں اور ان کے بیٹے بشیر حسن خاں جن کے نور نظر شبیرحسن خاں جوش ہیں۔ گویا چوتھی پشت شاعری کرتے گزری تھی۔بایں ہمہ جوش کی تربیت میں ان کی والدہ کا اہم رول رہا وہ حضرت علی سے والہانہ لگاؤ رکھتی تھیں اور مرثیہ خوانی کا خاصہ شوق فرماتی۔ نانا جاگیردار خواجہ محمد خاں کے اثرات جوشؔ کی شاعری میں عود کر آئے ہیں۔
عزیز لکھنؤی کی شاگر ی اختیار کی مگر جلد ہی مانند اقبالؔفارغ التحصیل ہو گئے تھے۔ شادی کے بعد جب مالی دشواریوں کا سامنا ہوا تو اقبالؔکی سفارش پر مہاراجہ حیدرآباد کرشن پرشاد نے دارالترجمہ میں نوکری دی مگر آزاد طبیعت کو یہ بات راس نہ آئی۔ وہاں سے دہلی آئے اور رسالہــ کلیم جاری کیا۔ پھر آجکل کے ایڈیٹر بنے۔ فلمی دنیا سے وابستہ بھی ہوئے لیکن مستقیل مزاجی نہ ہونے سے کسی ایک مقام پر نہ ٹہرسکے۔دوران ملازمت حیدرآباد میں کئی دشواریوں کا سامنا بھی کرنا پڑا مگر وہاں کے علماء سے ان کی ِ ’ــصلاح جو طبیعت نے استفادہ بھی کیا۔اس کا فرا خ د لی سے اعتراف ’’یادوں کی برات‘‘ میں اس طرح کرتے ہیں :
’’میری یہ بڑی نمک حرامی ہوگی کہ اگر میں اس امر کا اعتراف نہ کروں کہ شعبۂ دارالترجمہ کی وابستگی نے مجھ کو بے حد علمی فائدہ پہنچایااور خصوصیت کے ساتھ علامہ عبادی ‘علامہ طباطبائی اور مرزا محمد ہادی رسوا کے فیضانِ محبت نے مجھ بے سود کو میرے جہل پر مطلع کرکے مجھ کو ذوق ِمطالعہ پر مامور کیا۔‘‘ ( جوش ملیح آبادی۔ ’’یادوں کی برات‘‘ ( خودنوشت)صفحہ۔ ۱۷۵ )
یہاں یہ امر قابل غور ہے کہ جوش کے والد ماجد کے انگریزوں سے کافی دوستانہ مراسم رہے۔ اس لئے ا ن کے انتقال کے بعد حکومت برطانیہ نے جوش کو سرکاری ملازمت کی پیش کش کی اور یو پی کے گورنر سر ہارکورٹ ہٹلر نے جوش سے پوچھا آپ ڈپٹی کلکٹر بننا چاہتے ہیں یا اسپیشل مینجر کو رٹ آف وارڈ؟ اس کے جواب میں پہلے تو جوشؔ خاموش رہے مگر بارہا اصرار پر جواب دیا کہ میں آپ کی ملازمت نہیں کرنا چاہتا کیونکہ ’’ـــ آپ کی حکو مت غاصبانہ ہے۔‘‘ ہٹلر کو اس جواب کی توقع نہ تھی۔ اس نے جوشؔ کو باہر لے جا کر یونین جیک کی طرف اشارہ کرکے کہا یونین جیک پر سے جب خو ن کادھارا گزرجائے گا، ہندوستان آزاد ہو جائے گا۔ اس بات کا جواب جوشؔ نے مسکراتے ہوئے یوں دیا:
’’ہندوستان کی رگوں میں اتنا خون ہے کہ اس کے صرف ایک صوبے کا نہیں صرف ایک ضلع کا خون اس چھریرے کو آسانی کے ساتھ غرق کردے گا۔‘‘ (جوش ملیح آبادی۔ ’’ یادوں کی برات‘‘ صفحہ۔ ۱۳۱ )
حیدرآبادسے ملازمت ترک کرنے کے بعد وطن واپسی کے دوران جوشؔ جھانسی سے اتر کر دتیہ جانے کا ارادہ کر بیٹھے کیونکہ وہاں ان کے عزیز دوست قاضی صاحب موجود تھے۔ جوشؔ کے سامنے تذکرہ ہوا تو بہت خوش ہوئے لیکن اس کے ساتھ بر ٹش نظریہ اپنانے اور اخبار ـ’سلطنت، کے اجراء کی شرط سے ناراضگی کا اظہار کیا اور دھول پور چلے گئے۔
جوشؔ کی شخصیت و مزاج سے قطع نظر ان کے کلام پر نظر ڈالنے پر علم ہوتا ہے کہ ان کی کل تخلیقات ۲۰ ہیں جن میں دو نثری کاوشیں ہیں ایک ـ’’روح ِادب‘‘ نثرونظم دونوں پر مشتمل ہے جوشؔ کا اپنے وطن ملیح آباد سے والہانہ لگاؤ رہا۔ نظم ’’قصر سحر ‘‘ کی تخلیق اس بات کی ضامن ہے۔ اس نظم کے ہر بند سے محبت کے نغمے پھوٹتے نظرآتے ہیں۔ مناظر ِ ِِ ِِقدرت، وادیاں، چشمے ، دریا، خورشید سبھی ان کے احباب ہیں۔ بقول جوشؔ یہ انہیں دھوکہ نہیں دے سکتے انسان کی فطرت سے زیادہ انہیں منا ظر فطرت اور اشیائے فطرت پر بھروسہ ہے۔ چند اشعار ملاحظہ کیجیے :
چھو ڑکر انسان کو میں فطرت کاشیدا ہوگیا
خوبی قسمت کہ فوراً ربط پیدا ہوگیا
میرا ہمدم ‘ سبزہ زار ‘ کوہ ‘ صحرا ہوگیا
دوست میرا چشمۂ گلزار‘ دریا ہوگیا
مجھ کو حلقے میں لیا تبسم نے خورشید کے
شام غم رخصت ہو ئی جلوؤں میں صبح عید کے
دوست ایسے ہیں جو دھو کہ نہیں دیتے کبھی
جھو ٹ سے واقف نہیں ہیں اس رفیقوں میں کو ئی
وقت آتا ہے تو کھل جاتی ہے ہنس کر چاندنی
صبح ہوتے ہی چٹک جا تی ہے کلیاں باغ کی
ان کے وعدے وقت پر ایفانہ ہوں ممکن نہیں
کون سی وہ رات ہے جس کے سر پر دن نہیں
ان مناظر قدرت سے انہیں محبت ہے جس کا جواب ان کے پاس ہے کہتے ہیں :
’’جنگل اور گلشن میں ملنے والے پیار میں کوئی عیاری نہیں ہے بلکہ خلو ص دل کا مظہر ہیں۔ ‘‘(بحوالہ ڈاکٹر فضل امام ’’شاعر آخرالزماں جوشؔ ملیح آبادی‘‘صفحہ۔ ۴۶)
جوشؔکے یہاں فلسفہ کی گہرائی نہ ہو مگر انسانی فلاح وبہبود کی گرج ضرورہے۔وہ انسانی حقوق کے لئے اپنی آواز بلند کرتے ہیں۔ ان پر ہونے والے ظلم واستبداد کے خلاف صف آرا ہونے کا پیغام دیتے ہیں۔ پھر وہ چاہے مزدور ہو یا کسان ‘محبت کش ہو یا غلام۔ ہندوستان میں بسنے والا ہر شخص جو انگریزوں کے ظلم وستم کا شکار ہے۔ جوش اس کے ہم نوا ہیں۔ ان کی نظر میں کاشتکار ’ارتقاء کاپیشوا‘ ہے۔ ’تہذیب کا پروردگار‘ہے۔ یہ کام امراء وسلاطین کے بس کا نہیں۔
ہندوستان کی جنگ آزادی میں جوش ؔ کی شاعری اہم رول اداکرتی ہے ‘ان کا پیغام مردہ دلوں میں توانا روح بیدار کرتی ہے۔ شکستہ دل نئے عزم کے ساتھ اٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔ اس وقت ان کا پیغام ملکی حدود سے گزر کر بین الاقوامی ہو جاتا ہے جس میں کل عالم انسانی کا درد ‘عالمی بھائی چارا بن کر نمودار ہوتا ہے۔ ایسے موقع پر کچھ حد تک تلخ کلامی بھی سرایت کر جاتی ہے مگر تھوڑے وقفہ کے بعد اصلاح کاری کا جذبہ داخل ہو جا تا ہے۔ مشہور مورخ ادبیات اعجاز حسین کا بیان ہے :
’’وہ اپنے کلام سے دنیا کو خواب غفلت سے بیدار کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ وہ اقبال کی طرح حسن عمل کی طرف متوجہ کرتے ہیں اور دنیا کو غلامی سے نجات دلاکر اپنے پیروں پر کھڑے ہونے کی تعلیم دیتے ہیں۔ ‘‘ (’’ تاریخ ادب اردو‘‘ صفحہ۔۸۵ )
جدید اردو شاعری کی تحریک کا آغاز ہواتوتقریباًتمام شعراء نے فطری مناظر کو اولیت دی۔ جب وطن پرستی کی بات آئی تو بقول کلیم الدین احمد:
’’ جوشؔاس راہ میں سب سے آگے نکل گئے۔ اس موضوع پر ان کی نظم ’وطن‘ ۱۹۱۸ ء کا ہر مصرعہ عظمت ہندوستان کا مظہر ہے۔ ‘‘ (ساقی جوش نمبر ۱۹۶۳ء کلیم الدین احمد ـ’جوش‘ صفحہ۔ ۵۱)
اے وطن پاک وطن روح ِرواں احرار
اے کہ خوابیدہ تری خاک میں شاہانہ وقار
اے کہ ہر خار ترا روکش صد روئے نگار
جوش ؔ کی شاعری کے دو مخصوص پہلو ہیں۔ پہلا رومانیت دوسرا گھن گرج جسے ہم انقلابی آن بان سے تعبیر کرسکتے ہیں۔ اس انقلابی شاعری کا محور انگریز دشمنی ہے جو ۱۹۱۸ء سے ملتی ہے۔ ’روح ادب ‘ اور ’نقش ونگار ‘ میں بھی انقلابی تصور ملتا ہے لیکن ’شعلۂ وشبنم‘ کے اولین حصہ ’آتش کدہ‘ کی ساری نظمیں انقلاب کی مجسم تصویر ہیں۔ جوشؔ نے رومان سے انقلاب کی جانب اپنی شاعری کا رخ موڑا ہے۔ اس لئے ان کی انقلابی شاعری میں بھی رومانی اثرات نظر آتے ہیں۔ نظم ’نعرہ ِشباب‘ میں بوڑھے لیڈروں سے خطاب کرتے ہوئے انقلاب کی جانب اس طرح گامزن ہوئے :
ہٹ کہ اب سعی و عمل کی راہ میں آتا ہو ں میں
خلق واقف ہے کہ جب آتا ہوں چھا جاتا ہوں میں
اے قدامت پہ کھلی ہے سامنے راہ ِ فرار
بھاگ وہ آیا نئی تہذیب کا پروردگار
ان کانعرہ ہے
کام ہے میرا تغیر نام ہے میرا شباب
میرا نعرہ انقلا ب ‘ انقلاب ‘ انقلاب
ولولوں سے برق کی مانند لہراتا ہوا
موت کے سائے میں رہ کرموت پر چھاتا ہوا
’’شعلۂ وشبنم ‘‘کے ’آتش کدہ‘ کی بیشتر نظمیں بغاوت کے جذبے سے سرشار ہونے کے ساتھ آزادی کی تڑپ سے بھرپور ہیں جوشؔ کے خیال میں انقلاب ایک جاوداں کردار ہے اور وہ کردار بذاتِ خود جوشؔ ہیں۔
نظم ’پیمان محکم ‘ ۲۳ اشعار پر مشتمل ہے جس کے ہر شعر میں قسمیہ طور پر اس بات کااعتراف ہے کہ ہندوستان تو ہمیں جب جب پکارے گا ہر فرد تیری ہونٹوں کی جنبش ختم ہو نے سے پہلے تیری آواز پر لبیک کہے گا۔ بیداری عوام کے لئے انہوں نے ’بیدار ہو ‘ ’ہشیارہو‘ ‘ اور’ صدائے بیداری ‘جیسی نظمیں تخلیق کی۔
اے مرد غافل فتنہء اغیار سے ہشیار ہو
ہشیار ہو ‘ ہشیار ہو‘ ہشیار ہو
اے مرد غافل ہشیار کی تکرار نظم کے اشعار میں روانی کے ساتھ عوام میں ایک عزمصمم اور جوش پیدا کرتا ہے۔
’شکست زنداں کا خواب ‘ان کا وہ نظم ہے جس میں جوش ؔنے زندانیوں کے حوصلہ کی داد دی ہے اور یہ بتایا کہ اگر یہ اپنی ضد پر آجائیں تو دنیا کا کوئی قید خانہ ان کو مقید نہیں کر سکتا۔انگریزوں کو متنبہ کر تے ہوئے جو شؔ کہتے ہیں کہ عوام میں اگر آزادی کی امنگ بپا ہو گئی تو تمام تر تدابیر ناکارہ ثابت ہو جائیں گی۔ ’’بے نور ہے چہرہ سلطاں کا ‘‘ اس بات کی علامت ہے کہ اب شاہاں وقت مراد فرنگیوں کے چہرے سے رونق ختم ہو نے والی ہے نظم ’’بغاوت ‘‘ میں جوشؔ نے اپنے باغیانہ تیور پوری آب وتاب کے ساتھ ظاہر کئے ہیں دیکھئیے :
ہاں بغاوت ‘آگ ‘ بجلی‘موت ‘ آندھی میرا نام
میرے گرِدوپیش ‘ اجل ‘میری جلو میں قتل عام
جنگ کے میدان میں میری سیف کی اﷲ وی ضو
خاک بن جاتی ہے بجلی برف دے اٹھتی ہے لو
پوری نظم ولولہ انگیز یو ں اور شررفشانی سے تعبیر ہے۔جوانانِ وطن ان کی امید کا مرکز ہیں وہ چاہتے ہیں کہ وطن کی آزادی کے لئے قربا ن ہو نے کے لئے تیار رہیں ، انگریزوں کی غلامی، ذلت و تحقیر سے بھری زندگی سے نجات پانے کے لئے نوجوانوں کو خونی کفن بھی پہننا پڑے تو بہ خوشی پہن لیں۔ جوشؔ ’بغاوت‘ کی زبان سے نوجوانان ِوطن کویہ حوصلہ افزا کلمات سے نوازتے ہیں
اے جواں مردوں یہ ذلت کس لئے سہتے ہو تم
مرد ہو کرٹھوکروں کی زد پہ کیوں رہتے ہو تم
یا پھر
اے جواں مردوں خدارا باندھ لو سر سے کفن
سر برہنہ پھر رہی ہے عزت ِقوم و وطن
یا پھر ان کا یہ عزم
یا تو اب تاج پہنیں گے یا خو نی کفن
کہیں جوشؔ ہند وستانی عوام کو ان کے ماضی بعید کا رناموں کی یاد دلا کر ان کے نامور اجداد کے شاندار دور کا احساس دلاتے ہوئے حوصلہ و عزم اور بیداری پیدا کرنے کی سعئی کرتے ہیں جو کسی محکوم کے لئے آزادی کے حصول کی شرط اولین ہے۔جوشؔا لفا ظ کے بادشاہ کہلاتے ہیں۔ الفاظ کے بر محل استعمال سے بلند آہنگی، حوصلہ کی فراخی اور طنطنہ پیدا کرنا ان کا خاصہ ہے۔ مخصوص تراکیب، تکرار لفظی کے ذریعہ گھن گرج اور غنائیت ان ہی کو زیب دیتا ہے۔ نامانوس اور عوامی الفاظ بھی ان کی نظموں میں اس طرح مستعمل ہیں کہ سماعت کو ناگوار نہیں لگتے :
’آثار انقلاب ‘، ’ایسٹ انڈیا کمپنی کے فرزندوں کے نام، ‘ ’ماتمِ آزادی ‘ انقلابی نظموں کی مثال ہیں۔ انگریزوں سے نجات پانے کے لئے ہندوستان میں جو تحریک آزادی جاری تھی اس میں شدت پیدا کرنے اور عوام میں تحریک پیدا کرنے کے لئے جوشؔ نے شاعری کومظبوط آلۂ کارجا نا۔ ۱۹۲۹ء میں کانگریس کے لاہور اجلاس میں مکمل آزادی کی قراردادپاس ہوئی۔ ۲۶جنوری ۱۹۳۰ء کو وطن پرستوں نے یوم آ ٓزادی کی شکل میں منایا تو جو شؔ نے آزادی کامل کا تصور مدّنظر رکھ کر نظم ــ’’خریدار تو بن ‘‘ تخلیق کی۔‘‘( روحِ ادب‘‘ صفحہ۔ ۲۱ )
’ایسٹ انڈیا کمپنی کے فرزندوں کے نام ‘دوسری عالمی جنگ چھڑنے پر جوشؔ کے اشہب قلم سے صفحہ قرطاس پر آئی اس سلسلے میں جوشؔ کا بیان ہے :
’’لکھنؤ کے گورنر کی تقریر ریڈیو پر سن رہا تھا۔جس میں اہل ہند سے اپیل کی گئی تھی کہ وہ انسانیت کے مستقبل کو بچانے کی خاطر جنگ عظیم میں برطانیہ کی مدد پر کمر بستہ ہو جائیں اس وقت میں نے یہ نظم ’ایسٹ انڈیا کمپنی کے فرزندوں سے خطاب‘کے نام سے پندرہ منٹ کے اندر کہہ ڈالی۔ ‘‘ ( یادوں کی برات صفحہ۔ ۲۰۴ )
اس نظم میں انگریزوں پرطنز کرتے ہوئے جوشؔ لکھتے ہیں۔
سخت حیراں ہوں کہ محفل میں تمہاری اور یہ ذکر
نوع انسانی کے مستقبل کی اب کرتے ہو فکر
جب یہاں آئے تھے تم سوداگری کے واسطے
نوع انسانی کے مستقبل سے کیا واقف نہ تھے ؟
ہندیوں کے جسم میں کیا روح آزادی نہ تھی
سچ بتا کیا وہ انسانوں کی آبادی نہ تھی
نظم کے بقیہ اشعار بھی انگریزوں کے ظلم و ستم کے بیاں ‘ جلیاں والا سانحہ ‘رانی جھانسی‘ٹیپو سلطاں اور دیگر رہنمائے وطن کے ایثارو قربانی کی داستاں بیان کرتے ہیں۔ یہ نظم ۱۹۳۹ ء میں ماہ نامہ ’نیا ادب‘ میں پہلی مرتبہ شائع ہوئی۔ اس نظم کی مقبولیت کو دیکھتے ہوئے فوری طور پر پابندی عائد کر دی گئی اتر پردیش میں کانگریس کی حکومت ہونے سے ’نیاادب اور کلیم‘ کا شمارہ ضبط نہ ہوا۔ مگر ۱۹۴۰ ء میں سید سبط حسن نے ’آزادی کی نظمیں ‘ عنوان سے ایک کتاب شائع کی جس میں یہ نظم بھی شامل تھی۔ اس لئے ’آزادی کی نظمیں ‘بھی ضبط کر لی گئی۔ جوشؔ کی تمام حرکت و عمل پر نگرانی ہونے لگی ان کے مکان کی تلاشی تک ہوئی۔
اس نظم کے آخر ی اشعار پر ہی میں اپنی بات کو ختم کرتی ہوں جس میں جوشؔ کے با غیانہ تیور اپنے عزم مصمم کے ساتھ جلوہ گر ہیں :
خیر اب سوداگروں اب ہے تو‘اس بات میں
وقت کے فرمان کے آگے جھکا دو گردنیں
اب کہانی وقت لکھے گا نئے مضمون کی
جس کی سرخی کو ضرورت ہے تمہارے خون کی
وقت کا فرمان اپنا رخ بدل سکتا نہیں
مدت ٹل سکتی ہے یہ فرمان ٹل سکتا نہیں
اوریہ فرمان ِآزادی وطن ہے۔ جوش ؔ کے یہاں آزادی کا جذبہ ہے افکار خریت ہے ‘ بغاوت کی لہریں ہیں جو عوام کو آزادی کے لئے اکساتی ہیں۔ آزادی کی تحریک میں جن شیدائے وطن کا نام لیا جا تاہے ان میں جوشؔ کے ان عملی اقدام کو تاریخ کبھی فراموش نہیں کر سکتی شبیر حسن خاں جوش نہ صرف اردو ادب بلکہ جنگ ِآزادی کے اہم ترین رکن ہیں اور رہیں گے۔
٭٭٭٭٭٭٭
Postal Address:
Prof. Fehmeeda Mansoori
Mata jijabai Govt Girls PG College
Moti Tabela Indore (MP)
Pincode : 452007
Mobile No:9893242447
Leave a Reply
2 Comments on "جوشؔ کی باغیانہ شاعری"
[…] جوشؔ کی باغیانہ شاعری […]