سید اشرف جہانگیر سمنانی کی تصنیفات پر ایک نظر

                محبوب یزدانی حضرت مخدوم سید اوحد الدین اشرف جہانگیر سمنانی(پ۶۸۸ھ۔م۱۴۰۵ھ) کا شمار اپنے وقت کے جلیل القدر صوفیا میں  ہوتا ہے۔ آپ کا سلسلۂ نسب سمنان کے سلطان ابن سلطان ساداتِ نور بخشیہ سے جا ملتا ہے۔ آپ کے متعلق یہ بھی کہا جاتا ہے کہ آپ مادرزاد ولی تھے۔ قرآت سبعہ کے ساتھ آپ حافظ قرآن تھے۔ چودہ سال کی عمر میں  آپ نے تمام علوم و فنون میں  مہارت تامہ حاصل کرلی۔ آپ کی بڑائی، بزرگی اور مناقب کے بارے میں  شیخ عبدالرحمان چشتی صاحب ’’مرآۃ الاسرار‘‘ رقم طراز ہیں : ’’آن سلطانِ مملکت دنیا ودیں ، آں   سر حلقۂ عارفانِ ارباب یقیں ، آں   محبّ ومحبوب ربانی، غوث الوقت حضرت میر سید اشرف جہانگیر سمنانی قدس سرہ۔ آپ یگانۂ روزگار تھے اور شانِ رفیع ، ہمت بلند، کرامات وافر کے مالک تھے۔‘‘

                سید اشرف جہانگیر سمنانی حضرت شیخ علاالحق ہندوی ابن اسد لاہوری کے مرید و خلیفہ خاص تھے۔ سلطان المشائخ حضرت خواجہ نظام الدین چشتی محبوبِ الٰہی کے بعد چشتی سلسلۂ مشخیت وہدایت کو آپ ہی نے از سرِ نو زند و تابندہ کیا۔ محبوب یزدانی سید اشرف جہانگیر سمنانی کثیر التصانیف بزرگ گذرے ہیں ۔ مکتوبات اشرف ، لطائف اشرف، شرح فصوص الحکم، علوم اشرفیہ، منادی اشرفیہ، ترجمان قرآن بہ زبان فارسی، رسالہ تصوف واخلاق، الرسالہ قبریہ، تفسیر نور بخشیہ، حجۃ الذاکرین، رسالہ غوثیہ، فوائد العقائد، دیوانِ اشرف، بحرالذاکرین، بشارت الاخوان، کنز الاسرار، رسالہ تحقیقاتِ عشق، اشرف الانساب، فوائد الاشرف وغیرہ آپکی اہم تصانیف ہیں ۔

                غوث العالم محبوب یزدانی سید اشرف جہانگیر سمنانی سامانی ؓ کو رب تعالیٰ نے اپنی ملکیت میں تصرف کا اختیار عطا کیا ہے۔ صاحبِ تصرف صوفیاء وہی ہوتے ہیں  جنھیں  اللہ تعالیٰ مقامِ غوثیت سے سرفراز فرماتا ہے۔ قرآن کریم کی یہ آیت ’’یختص برحمتہ من یشائ‘‘ ترجمہ: اللہ تعالیٰ اپنی رحمت کے ساتھ جسے چاہتا ہے خاص کردیتا ہے۔ (سورۃ بقرۃ آیت ۱۰۵۔سورۃ آل عمران آیت ۷۴)

                جب بندہ مقامِ قرب حاصل کرلیتا ہے تو رب تعالیٰ اس بندہ کو اذنِ عام عطا کرتا ہے۔ پھر وہی بندہ اللہ کے حکم سے لوگوں  کی دادرسی فرماتا ہے۔ برگزیدہ صوفیوں  کیلئے اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں  ارشاد فرماتا ہے: ’’رجال لا تلھیھم تجارۃ ولا بیع عن ذکر اللہ‘‘۔ ترجمہ: وہ مرد جنھیں  غافل نہیں کرتا کوئی سودا اور نہ کوئی خریدوفروخت اللہ کی یاد سے۔

                سید اشرف جہانگیر سمنانی نے اپنے معتقدین ومریدین سے فرمایا کہ بعض صوفیاء کرام کی صحبت حاصل کرو، بلکہ ایسے شیخ کامل کی صحبت اختیار کرو جو شریعت وطریقت کا جامع ہو اور حال وقال سے مزین ہو۔ کیونکہ مریدین شیخ کے حال کا آئینہ ہوتے ہیں ۔ ’’شیخ کا حال‘‘ بھی مریدین سے کچھ نہ کچھ ضرور ظاہر ہوتا ہے۔ ہاں  اگر مرید پر کوئی آسمانی حال وارد ہواہو جو مرید ہی کو نصیب ہواہو تو ایسی صورت میں بعض اوقات مرید اپنے شیخ کے درجہ سے بڑھ جاتا ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کا فضل وکرم اور احسان ہے کہ جسے چاہتا ہے اپنی رحمت کے لیے مختص کردیتا ہے۔

                حضر ت مولانا نظام الدین یمنی نقل کرتے ہیں  کہ حضرت شیخ محی الدین ابن عربی طواف خانہ کعبہ میں  مشغول تھے کہ آپ نے دیکھا ایک شخص نہایت تیز روی کے ساتھ طواف خانۂ کعبہ کررہا ہے۔ اورجب آدمیوں  کے ہجوم سے گذرتا ہے بغیر کسی کو ہٹائے ہوئے ہوا کی طرح نکل جاتا ہے اور آگے بڑھ جاتا ہے۔ مجھ کو حیرت ہوئی کہ اس شخص کو جسم ہیں  یا محض روح بشکل جسم نظر آتی ہے۔ جب وہ طواف کرچکے تو میں  نے ان کو سلام کیا۔ انھوں  نے سلام کا جواب دیا۔ دریافت کرنے پر معلوم ہوا کہ اس وقت آپ حضرت ابابکر سبطی ہیں ۔

میں  نے پوچھا کہ آپ کو معلوم ہے کہ اس وقت غوثِ زمانہ کون ہیں ؟

فرمایا کہ میں  ہوں ۔ اور میرے بعد سید جلال ہوں  گے اور ان کے بعد سید اشرف ہونگے۔

                جس طرح غوث الاعظم محبوب سبحانی کے زمانہ ظہور سے قبل کے مشائخ نے آپ کے آنے کی بشارت دی اسی طرح حضرت محبوب یزدانی سید اشرف جہانگیر سمنانی کے ظہور سے پہلے کے اولیائے کرام نے آپ کے ورود مسعود یعنی ظاہر ہونے کی پیشین گوئی فرمائی۔ حضرت محبوب یزدانی اپنے مکتوب میں  اس واقعہ کو اس طرح بیان فرماتے ہیں  کہ میرے جد حضرت سید شمش الدین محمود نور بخشی قدس سرہُ، حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکی۔۔۔۔۔چشتی کے زمانہ میں  ہندوستان کی سیر کو تشریف لائے اور سلطان شمش الدین التمش کے گھر مہمان ہوئے سلطان موصوف جو قطب صاحب کے مرید اور خلیفہ تھے۔ ان سے تعریف کی کہ میرے گھر ایک مہمان سید عالی خاندان ملک ایران کے رہنے والے تشریف لائے ہیں  ۔ وہ مرتبۂ ولایت میں  نقبا کے درجے کو پہونچے ہوئے ہیں ۔ قطب صاحب نے فرمایا کہ ایسے مہمان عظیم الشان کو تم نے اپنے گھر ٹھہرا لیا۔ ان کو ہمارے گھر ٹھہرانا چاہئیے تھا۔ میں تو ان کو خواجگانِ چشت سے سمجھتا ہوں ۔

                دوسرے دن حضرت سید شمش الدین محمود حضرت قطب صاحب کے گھر مہمان ہوئے۔ حضرت قطب صاحب نے سے فرمایا کہ میں  آپ کو خوش خبری سناتا ہوں  کہ آپ کی ذریت میں  ایک غوث جہانگیر پیدا ہونگے اور وہ میرے سلسلے کو جاری کریں  گے اور خطہ یوض جس کو اودھ کہتے ہیں ۔ اس میں  پچھم حدود قصبہ جائس اور سترک سے لے کر پورب دریائے کوسی تک اس درمیان میں  ان کا ظہور کامل ہوگا۔حضرت محبوب یزدانی کا وجود مبارک باعث اجراء شریعت اور طریقت تھا۔ علم شریعت میں  آپکے شاگردوں  کی تعداد کثیر ہیں ۔ آپ کے ارشد تلامذہ میں  حضرت علامہ ومولانا الشاہ سید عبدالرزاق نورالعین ابن سید عبدالغفور حسن جیلانی ابن ابوالعباس احمد جیلانی فرزند و صاحب سجادہ حضرت محبوب یزدانی تھے۔ انھوں  نے تحصیل علوم کی تکمیل کے بعد حضرت سے دستار فضیلت حاصل کی۔ حضرت محبوب یزدانی کا علم عجیب خداداد تھا کہ روئے زمین میں  جہاں  تشریف لے گئے وہیں  کی زبان میں  وعظ فرمایا اور اسی زبان میں  کتاب تصنیف کرکے وہاں  کے لوگوں کیلئے علمی اثاثہ چھوڑ آئے۔ بہت سی کتابیں  آپکی مختلف زبانوں  میں  ہیں  مثلاً عربی ، فارسی، سوری، ترکی، اردو، زنگی وغیرہ۔ آپنے مختلف ملکوں  کی زبانوں  میں  تصنیف وتالیف فرمائی۔ حضرت محبوب یزدانی نے جس قدر تصانیف کثیرہ تحریر فرمائی ہیں  وہ زمانہ کے دست و برد سے محفوظ نہ رہ سکیں ۔ ’’فقیر نظام یمنی نے دو جلدیں  حضرت کے ملفوظات کتاب لطائف اشرفی اور کتاب الاسرار اور رقعات (مکتوبات) حضرت کے جمع کئے ہیں ۔ محبوب یزدانی سید اشرف جہانگیر سمنانی کی چند تصانیف کا تعارف مختصراً پیش کیا جاتا ہے:

(۱) مکتوبات اشرفی: یہ مکتوب کا مجموعہ ہے اس کے اول مرتب اور جامع حضرت نظام الدین یمنی ہیں ۔ جامع ثانی جانشین مخدوم اشرف سیدنا عبدالرزاق نورالعین ہیں ۔ یہ مکاتیب محبوب یزدانی کا گراں  قدر سرمایہ ہونے کے ساتھ قارئین کیلئے ذریعہ فلاح ونجات ہیں ۔ مکتوبات اشرفی میں  حق تعالیٰ کی شانِ ربوبیت کا ادراک حاصل ہوتا ہے۔ تصوف کی رمزیت ، ماہیت ، حقیقت کو سمجھنے کیلئے اس کا مطالعہ نہایت ضروری ہے۔

                اس میں  وحدت الوجود اور وحدت الشہود کے فلسفہ کو بھی زیرِ بحث لایا گیا ہے۔ علما کے اصرار اور تقاضے پر بعض دقیق فقہی مسائل کے علاوہ صوفیانہ مسائل کی توجیہ، تعبیر او رتشریح مخصوص انداز سے کی گئی ہے مثلاً خواجہ خسرو، ابوسعید ابوالخیر، شیخ شرف الدین وغیرہ کے اشعار پر سیر حاصل گفتگو کی گئی ہے۔ سید اشرف جہانگیر سمنانی کے مکاتیب دریائے معرفت کا دُرِ نایاب اور درجات عالیہ کے حصول کا ذریعہ سمجھے جاتے ہیں ۔

                مکتوبات اشرفی کا مخطوطہ آج بھی تصوف کے دیوانوں  اور خانقاہ کے سجادہ نشینوں  کے پاس محفوظ ہے۔ کراچی پاکستان سے دوجلدوں  میں  مکتوبات اشرفی کا اردو ترجمہ سنہ ۲۰۰۰ء میں  شائع ہوا ہے۔ اس کے مترجم شاہ محمد ممتاز اشرفی ہیں ۔ حالانکہ یہ ترجمہ مکتوب نگاری کی روح کی اصلیت سے دور ہے، پھر بھی مترجم کی حوصلہ افزائی ضروری ہے۔

                لطائف اشرفی کے جامع حضرت نظام الدین یمنی ہیں  جنھیں  محبوب یزدانی کی خدمت و صحبت کا شرف زمانۂ دراز تک حاصل رہا ہے۔ لطائف اشرفی درحقیقت تصوف کی اہم کتابوں  کا نچوڑ اور عطر ہے۔ اس کی اہمیت اور مقبولیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ یہ تصوف کی دیگر کتابوں  سے قاری کو بے نیاز کردیتی ہے۔ یہ حضرت محبوب یزدانی کی تعلیمات کا مظہر بھی ہے۔مسلمان بادشاہوں  کے زمانے میں  اہل علم اس کتاب کو لکھ کر شاہی نذرانہ میں  پیش کرتے تھے‘‘۔ دنیا کے بیشتر قدیم اور عظیم کتب خانوں  اور میرے پاس ایک ایک قلمی نسخے موجود اور محفوظ ہیں ۔

                لطائف اشرفی کے شروع میں  مقدمہ ہے۔ آخر میں  خاتمہ ہے اور ساٹھ لطائف ہیں  جن کی تفصیل اصل کتاب میں  دیکھی جاسکتی ہے۔ چند لطائف کے نام ذیل میں  اس طرح ہیں :

(۱) لطیفہ در بیان توحید۔(۲) لطیفہ در بیان معرفت اور ولایت۔ (۳) لطیفہ درمعرفت عارف وجاہل۔ (۴) لطیفہ در معارف صوفی و ملامتی و ذکر غوث و ابدال واوتاد وغیرہ (۵) لطیفہ در معجزہ وکرامت و استدراج میں  فرق۔ (۶) لطیفہ دراہلیت شیخی مرشد و مرید کے آداب۔ (۷) لطیفہ در اصطلاحات تصوف۔ (۸) لطیفہ در حقیقت و معرفت وراہِ سلوک۔ (۹) لطیفہ در اذکار سکھانے کی شرطیں ۔ (۱۰) لطیفہ در شرائط تفکر و مراقبہ۔ (لطیفہ در مشاہدہ و یقین وغیرہ۔

                آپ کے عہد کے جلیل القدر علماء اور آپکے ارشد شاگردوں  میں  مولانااعظم ، حضرت مولانا علامہ الہدی علام الدین جائسی، حضرت مولانا عماد الدین ہروی وغیرہ کا نام آتا ہے۔وہ کہتے ہیں  کہ اسمائے الٰہی اور تسخیر کواکب میں  حضرت نے کتاب تالیف فرمائی۔ حسب ارشاد امام عبداللہ یافعی اور بموجب بشارت روحانی حضرت شیخ الشیوخ شیخ شہاب الدین سہروردی ؒ کی کتاب عوارف المعارف پر شرح لکھی۔ فصوص الحکم کی شرح بھی آپ نے روم کے زمانۂ قیام میں  تصنیف کی۔ اور اس کتاب کو شیخ نجم الدین کے سامنے پیش کیا اور عرض کی کہ میں  نے اس شرح کو بحکم روحانیہ پاک شیخ اکبر لکھا ہے۔

                محبوب یزدانی نے اہل عرب کی تعلیم کے واسطے کتاب قواعد العقائد عربی زبان میں  تصنیف کیا۔ رسالہ اشرف الفوائد اور فوائد الاشرف ملک گجرات میں  تصنیف فرمایا اور کتاب اشرف الانساب بحر الانساب سے منتخب کرکے عراق وخراسان اور ماوراء النہر کے سفر میں  تصنیف کی۔ رسالہ مناقب خلفاء راشدین اصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فضائل میں  تصنیف فرمایا۔ ’’بشارت الاخوان‘ سیف خاں  کے بپاس خاطر تصنیف فرمایا۔ اور رسالہ تجویزیہ در تجویز لعن بر یزید جونپور میں  علماء کے مباحثہ کے بعد تحریر فرمایا اور موافق عقیدۂ صاحب عقائد نسفی ’کنز الدقائق‘ فن تصوف میں  تصنیف فرمایا۔رسالہ ’’حجۃ الذاکرین‘‘ بنگالہ میں  تصنیف فرمایا۔ اس رسالہ میں  پانچوں  وقت بعد ادائے فریضہ نماز تین بار بآوازِ بلند کلمہ طیبہ کا ثبوت احادیث اور تفاسیر سے تحقیق کرکے پیش فرمایا۔ اس رسالہ کو نصیحت نامہ کے نام سے بھی موسوم کرتے ہیں ۔

                علم تفسیر میں  کتاب تفسیر ربح سامانی اور کتاب تفسیر نور بخشیہ تصنیف فرمائی۔ جسمیں  تصوف کے بیشتر مسائل مثل خواجہ روز بیان بقلی ؒ بکمال خوبی درج کیے۔ اور کتاب فتاوائے اشرفیہ بزبان عربی محض بپاس خاطر مخدوم حضرت نور العین ؒ تحریر فرمایا۔ دراصل یہ کتاب فقہ کی مستند کتابوں  کو انتخاب ہے اور یہ حنفی مسلک کے مطابق ہے۔ دیوانِ اشرف ایک مبسوط کتاب منظوم ہے۔ جس کو اہلِ زمانہ مثلِ دیوانِ حافظ لسان الغیب مانتے ہیں ۔حضرت نورالعین نے فرمایا کہ جس وقت امیر تیمور گورگانی، حضرت محبوب یزدانی کی خدمت میں  حاضر ہوئے اور عرض کی کہ تفتمش خاں  پر فوج کشی کرنا چاہتا ہوں  حضور فال نیک دیکھ کر بتلایئے۔ حضرت کے سامنے آپ کا دیوان رکھا ہوا تھا اس میں  فال دیکھی یہ شعر برآمد ہوا؎

از آیت وحدیث دوقرن اند بیقرانی         اے بادشاہ کوش کہ صاحبِ قرآن شوی

                لقب صاحبقرانی امیر تیمورکو محبوب یزدانی کے دیوان کے فال سے عطا ہوا۔فال دیکھنے کے بعد حضرت محبوب یزدانی امیر تیمور کی فتح اور نصرت کیلئے فاتحہ پڑھی اور دست بدعا ہوئے۔ چنانچہ آپکی دعا کی برکت سے سلطان صاحب قِران نے دشمن پر فتح حاصل کی۔

                خاتمہ کتاب مکتوبات اشرفی میں  حضرت نورالعین سے منقول ہے کہ حضرت محبوب یزدانی نے فرمایا کہ اس فقیر کو سند علم قرآت کی معناً پانچ پشتوں  تک اپنے آبا و اجداد سے علی الاتصال پہونچی ہے۔ میرا عمل قرأت عاصم اور نافع پر ہے ۔ اور یہ بھی فرمایا کہ میرے زمانۂ سلطنت میں  میرے خاندانِ سادات نوربخشیہ سے ستّر حافظ قرآن اور قاری فرقان ایک زمانے میں  موجود تھے۔

                خلاصۂ کلام یہ کہ غوث العالم حضرت محبوب یزدانی مخدوم سید اشرف جہانگیر سمنانیؓ عہد وسطیٰ کے ہندوستان میں  ایک عبقری شخصیت بن کر نمودار ہوئے اور اپنے علم و فضل ، عمل وکردار، تصنیف وتالیف اور خدمت خلق اور خلق کی حاجت روائی کے سبب اور حضرت آدم کی اولاد کی آدمیت کو خالق سے ملانے اور اس کی بخشش ونجات کیلئے پُل کا کام کرنے اور سماجی ہم آہنگی کو قایم رکھنے کے سبب مرتبہ غوثیت تک پہنچے۔ آپ نے چشتی سلسلہ کا احیاء کیا اور ایک نئے سلسلہ سلسلۂ اشرفیہ کی بنیاد ڈالی اور اپنی تعلیمات اور تصرفات کو مستحکم وعام کرنے کیلئے آستانہ روح آباد کچھوچھہ شریف کو مرکزی حیثیت عطا کی۔ آپ کا آستانہ آج بھی حاجت مندوں  کے لئے باعث برکت و رحمت ہے۔

حوالہ جات:

مقالہ کی تکمیل کیلئے جن کتابوں  سے استفادہ حاصل کیا گیا وہ ذیل میں  اس طرح ہیں ۔

۱۔              مکتوبات اشرفی  حصہ اول ودوم ، مترجم:مولانا الشاہ سید محمد ممتاز اشرفی، مطبوعہ و ناشر: دارالعلوم اشرفیہ رضویہ گلشن بہار

                اورنگی ٹاؤن، کراچی: پاکستان:۲۰۰۰ء

۲۔            صحائف اشرفی حصہ اول ،مرتبہ: سید محمد علی حسین اشرفی میاں ، ناشر : ادارہ فیضان اشرف سنی دارالعلوم محمدیہ ، ممبئی:۱۹۹۶ء

۳۔            لطائف اشرفی جلد ہفتم، مترجم: حضرت مولانا محمود عبدالستار بھولے پور، ہنور۔ ناشر: دانش بکڈپو، ٹانڈہ امبیڈکر نگر۔

                یوپی۔ مطبوعہ نشاط آفسیٹ پریس ، ٹانڈہ :۲۰۰۴ء

۴۔             رسالہ المیزان: صوفیا نمبر جلد اول زیر اہتمام: صوفی فاؤنڈیشن، انڈیا۔ ناشر: تنویر احمد اشرفی

۔۔۔۔۔۔

پروفیسر سید شفیق احمد اشرفی

خواجہ معین الدین چشتی اردو عر بی فارسی یونی ورسٹی، لکھنؤ

Leave a Reply

1 Comment on " سید اشرف جہانگیر سمنانی کی تصنیفات پر ایک نظر"

Notify of
avatar
Sort by:   newest | oldest | most voted
trackback

[…]  سید اشرف جہانگیر سمنانی کی تصنیفات پر ایک نظر […]

wpDiscuz
Please wait...

Subscribe to our newsletter

Want to be notified when our article is published? Enter your email address and name below to be the first to know.