اردو میں ادبی ترجمے کی روایت

Click Here for PDF File

Click Here for PDF File

     ادبیاتِ عالم میں ’طبع زاد ‘ اور ’ ترجمہ‘ کی اصطلاحیں رائج ہیں۔عام طور پر انہیں ایک دوسرے کی ضد بھی سمجھا جاتا ہے۔ترجمہ چوں کہ دوسری زبان سے ماخوذیا مستعار ہوتا ہے اس لیے اس میں ایک حد تک غیریت کا احساس باقی رہتا ہے۔اس غیریت کے احساس کے سبب ہی ’طبع زاد ‘ کے مقابلے ’ ترجمہ‘ کو ثانوی حیثیت حاصل رہی ہے۔لیکن دوسرے فنون کی طرح ترجمہ نگاری بھی ایک فن ہے اور ادب میں اس کی حیثیت مسلم ہے۔ترجمہ ایک ایسا فن ہے جس کے بغیر دوسری زبانوں کے علوم و فنون سے آشنائی نہیں ہوسکتی اور اس کے بغیر کوئی بھی زبان جدید اور ترقی پذیر ہونے کا دعویٰ بھی نہیں کر سکتی۔ترجمہ ہی وہ فن ہے جس کے ذریعے سے ایک قوم دوسری قوم کے ذخیرۂ علم وادب سے آشنا ہوتی رہی ہے۔

     ترجمہ کی تعریف مختلف اصحابِ فن نے مختلف انداز سے کی ہے۔بعض اہلِ علم کا خیال ہے کہ کسی تحریر ، تصنیف یا تالیف کو کسی دوسری زبان میں منتقل کرنے کا عمل ترجمہ کہلاتا ہے۔بعض کی نظر میں ترجمہ کسی متن  کو دوسری زبان میں منتقل کرتے ہوئے اس کی تعبیر پیش کرناہے۔بعض حضرات کا یہ بھی خیال ہے کہ ایک علمی یا ادبی پیکر کو دوسرے پیکر میں ڈھالنے کا عمل ترجمہ کہلاتا ہے۔گو کہ ترجمہ کی تعریف مختلف انداز سے کی گئی ہے لیکن اس بات پر سب متفق ہیں کہ ترجمہ نگاری کا عمل ایک مشکل اور پیچیدہ عمل ہے۔کہا جاتا ہے کہ یہ ایک ایسا عمل ہے جس میں مترجم اپنے آپ کو مصنف اور متن کے درمیان سے ہٹا لیتا ہے یعنی مصنف ماضی کی آواز کو اپنے عہدمیں شامل کر لیتا ہے مگر خود کو درمیان میں نہیں لاتا۔ترجمہ نگاری کے فن کے حوالے سے یہ بھی خیال ظاہر کیا جاتا ہے کہ جس طرح اداکار، گلوکار یا موسیقار لکھے ہوئے جملوں کو آواز یا اشارہ فراہم کرتا ہے اسی طرح مترجم بھی لکھے ہوئے مضمون یا متن کو ایک نیا لباس پہناتا ہے اور اس کی صورت کو بدل کر اس میں ایک نئی روح ڈالتا ہے۔اصل متن کی داخلی ساخت،آہنگ و اسالیب کو برقرار رکھتے ہوئے اسے دوسری زبان میں منتقل کرنا بہت مشکل کام ہے۔اس لیے ترجمہ کے فن کو ایک پیچیدہ اور پُر اسرار فن بھی قرار دیا گیا ہے۔بغور دیکھا جائے تو اس عمل میں ایک شخصیت دوسری شخصیت میں ڈھلتی ہوئی نظر آتی ہے اور یہی وہ معیار ہے جس پر مترجم کو ایک فنکار کا درجہ دیا جاتا ہے۔ترجمہ کے فن پر اظہارِ خیال کرتے ہوئے ابے کیلانی نے لکھا ہے کہ

’’اچھا ترجمہ وہ ہے جو اصل کے ساتھ موازنہ کیے بغیر پڑھا جا سکے۔‘‘

     ترجمہ کی کامیابی کا راز اسی میں مضمر ہے کہ وہ اصل متن سے زیادہ دلکش ہو اور اس کو پڑھ کر ایسا معلوم ہو کہ وہ ترجمہ نہیں بلکہ طبع زاد تحریر ہے۔ اس معیار سے دیکھا جائے تو ترجمہ ایک مشکل ترین آزمائش بن جاتا ہے اور یہ خصوصیت پیدا کرنا ہر ایک کے بس میں نہیں ہو سکتا۔ایک معروف مترجم پروفیسر عبدالرؤف نے انہیں مشکلات کے پیشِ نظر یہ خیال ظاہر کیا تھا کہ

“Translation is like a young girl, if faithful not beautiful, if beautiful not faithful.”

     ترجمہ کو کامیاب اور دلکش بنانے کے لیے اصل عبارت کی خوبی اور مطلب کو جوں کا توں باقی رکھنا بے حدضروری ہے۔عام طور پر ایسادیکھنے کو نہیں ملتا لیکن اردو میں بعض ایسے ترجمے ضرور ملتے ہیں جن میں یہ خوبی پائی جاتی ہے۔دنیا کی مختلف زبانوں کے علوم و فنون کو اردو زبان میں منتقل کیاجاتا رہا ہے جس سے ہمارے ادبی سرمایے میں کافی اضافہ ہوا ہے لیکن اچھے اور کامیاب ترجمے کی کمی اکثر محسوس کی جاتی رہی ہے اور کامیاب ترجمے خال خال ہی دیکھنے کو ملتے ہیں۔ترجمہ کے فن کی پیچیدگی اور مشکلات کے سبب اردو ادب میں ترجمہ کی کمی کا احساس ہمیشہ سے باقی رہا ہے۔

     ترجمہ نگاری کے ذیل میں ادبی ترجمہ کو بھی خاصی اہمیت حاصل رہی ہے۔ادبی تراجم میں ادبی محرکات اور ادبیت کا خاص خیال رکھا جاتا ہے۔ غیر ادب کے ترجمے میں اصل متن اپنا مخصوص معنی دینے کے بعد اپنا تاثر کھو دیتا ہے جب کہ ادبی ترجمے میں اصل متن اپنا مخصوص معنی دینے کے باوجود زندہ رہتا ہے۔اس لحاظ سے دیکھا جائے تو ادبی تخلیقات کا ترجمہ کسی بھی دوسری تحریر کے ترجمے سے زیادہ مشکل مگر دلکش ہوتا ہے۔ ادبی تخلیقات کا ترجمہ کرتے وقت الفاظ اور اس کے مفہوم کے ساتھ ساتھ اس تہذیبی سیاق کو بھی پیش نظر رکھا جاتا ہے جن میں اس کی تخلیق ہوئی ہے۔ادبی تراجم میں نثر سے زیادہ نظم کے ترجمے میں دقت پیش آتی ہے۔نثری متون کے مفہوم تک رسائی جس طریقۂ کار یا اصول کے تحت ہوتی ہے اس کے بالکل برعکس نظم کے ترجمے وجود میں آتے ہیں۔اس لیے کہ نظم کی قواعد اصولی اعتبار سے بالکل جدا ہوتی ہے۔دوسری اہم بات یہ بھی ہے کہ نظم کی تعمیر تخیل،محاکات اور جذبات کے اتار چڑھاؤ سے ہوتی ہے جب کہ نثر کی تعمیر میں جذبات کی شدت اورتخیل کی پرواز کا گراف بہت سطحی ہوتا ہے۔ اب تک ادبی تراجم کے بہت سے نمونے وجود میں آ چکے ہیں جن سے ہمارے ادبی سرمایے میں بیش بہا اضافے ہوئے ہیں۔غیر ملکی زبانوں کے ادبی ترجمے سے لیکر خود اپنے ملک کی بیشتر زبانوں کے ادب کا ترجمہ بھی وجود میں آ تا رہا ہے جن سے فکر میں توسیع ہوئی ہے۔

ٹرانسلیشن لاطینی زبان کا لفظ ہے۔اس کے لغوی معنی ’ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جانا یا پار لے جانا،کے ہیں۔ عربی، فارسی اور اردو لغات میں اس کے معنی ،دوسری زبان میں نقلِ کلام،تفسیر و تعبیر،دیباچہ اور کسی شخص کا بیان،احوال یا تذکرہ،درج ہیں۔ فارسی اور اردو میں یہ لفظ عربی کے توسط سے آیا ہے ۔ لاطینی زبان کے ادبیات جب عربی زبان میں منتقل ہوئے تو عرب والوں نے لفظ ٹرانسلیشن کے لیے ’ ترجمہ‘ کا لفظ اختراع کیا۔ اشتقاقِ لفظی کے اعتبار سے بعض علماء کا خیال ہے کہ یہ لفظ ’ تُرْ جِمْ ‘ سے بنا ہے جس کے معنی التباس کرنا یا خلط ملط کرنا، کے ہیں۔بعض علماء کے نزدیک اس کا اشتقاق ’ تَرْجِمْ ‘ ہے جس کے معنی مشکوک یا مخلوط کے ہیں۔بعض لوگوں کا خیال ہے کہ یہ ’ رَجِمْ ‘ سے ماخوذ ہے اور بعض اسے ’ تَرَجَمَ ‘ سے مشتق قرار دیتے ہیں۔حالانکہ ’ رَجِمْ ‘ سے اسے مشتق قرار دینا اس معنی میں درست نہیں ہے کہ اس کے معنی گناہِ کبیرہ کے ہیں۔ لفظ ’ ترجمہ ‘ کا ماخذ جس عربی لفظ سے قریب تر ہے وہ ’ رَجَمَ ‘ یا ’ تَرَجَمَ ‘ ہے ۔ جس کے معنی پتھر یا کنکری مارنے کے ہیں۔حج کے موقعے پر شیطا ن کو کنکری ماری جاتی ہے ۔ یہ کنکری شیطان کو اس کی لعنت کی وجہ سے ماری جاتی ہے یا شہابِ ثاقب کی وجہ سے جو اس پر گرتے ہیں ۔ اس لیے شیطا ن کو ’ رجیم‘ اور شہاب ِ ثاقب کو ’ رجوم‘ کہا گیا ہے ۔ قرآنِ کریم میں اسی لیے فرمایا گیاہے :

oاِلَّا مَنْ خَطِفَ الْخَطْفَۃَ فَاَ تْبَعَہ‘ شِہَابٌ ثَاْقِبٌ o

(یعنی جو شیطا ن آسمان سے کچھ خبر لے کر بھاگتا ہے تو ایک دہکتاہوا شعلہ اس کے پیچھے لگ جاتا ہے ۔)

     ترجمے کا تعلق اصل تصنیف یا عبارت سے تقریباً وہی ہے جو شہابِ ثاقب کا نجوم و کواکب سے ہوتا ہے جس طرح ایک ہی سیارے سے مختلف وقتوں میں ایک سے زائد شہابِ ثاقب نمودار ہوتے رہتے ہیں اسی طرح مختلف ادوارِ ادب میں ایک ہی کارنامے سے بار بار ترجمے نمودار ہوتے ہیں۔دوسرے لفظوں میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ جس طرح کوئی بھی شہابِ ثاقب حتمی اور آخری نہیں ہوتااسی طرح کسی بھی ترجمے کو حرفِ آخر نہیں کہاجاسکتا ۔غالباً یہی وجہ ہے کہ ’ترجمہ ‘کو’ رَجَمَ ‘یا ’ تَرَجَمَ ‘سے مشتق قرار دیا گیاہے ۔

     عصرِ حاضر میں آمدورفت میں وسعت اور سرعت آجانے کی وجہ سے دنیاکی مختلف زبانیں بولنے والوں میں ارتباط و اختلاط بڑھتا جارہاہے اور اس لیے ایک دوسرے کوسمجھنے کی کوشش بھی تیز سے تیز تر ہوتی گئی ہے۔ دوسروں سے استفادہ کرنے کی ایک صورت ترجمہ بھی ہے ۔ زبان کے پھلنے پھولنے میں بھی ترجمہ ایک اہم کردار اداکرتا ہے ۔نئی اصنافِ ادب کا ورود ہمیشہ ترجمے کے ذریعے ہی ممکن ہوسکا ہے ا س لیے اس کی ضرورت سے انکار نہیں کیا جا سکتا ۔ترجمے کی ضرورت اس لیے بھی اہم ہے کہ اس کے ذریعے طور طریقے ،مذہب ،ادب اورتہذ یب کوسمجھنے میں آسانی ہوتی ہے۔انسانی تہذیب کی ترقی میں ترجمہ ایک اہم رول ادا کرتا ہے ا س لیے قوموں اور زبانوں کے درمیان باہمی افہام و تفہیم اور ربط و ضبط کی راہیں کھولنے کے لیے ترجمہ کی ہی مدد لی جاتی ہے ۔ ادبیات عالم میں تاریخی ادوار اور لسانی تمدن کی شناخت و بازیافت کاواحد ذریعہ ترجمہ رہاہے۔ اس لیے ترجمہ کو اخذو استفادہ کی ایک شکل بھی قرار دیا گیا ہے کیوں کہ ا س کی ضرورت اس وقت پیش آتی ہے جب کسی چیزکا فقدان ہو ۔اس فقدان کی تکمیل اس وقت تک ممکن نہیں ہوسکتی جب تک کہ اس چیز کی طرف رجوع نہ کریں۔ رجوع کے ساتھ ہی ذہن ترجمے کی طرف منتقل ہو جاتا ہے اور اس وقت ترجمے کی ضرورت کا احساس ہوتا ہے ۔نا واقفیت کی منزل سے گزرتے وقت ترجمے کی ضرورت کا احساس بار بار ہوتا ہے اور اسی کے زیر اثرترجمے کا فن پروان چڑھتا ہے۔ ترجمے کی ضرورت کے ساتھ ساتھ ہمیں اس کی اہمیت کا بھی اندازہ ہوتاہے ۔ ترجمے کے ذریعے نہ صرف الفاظ اور زبان کی نشوونما میں اضافہ ہوتاہے بلکہ علوم و فنون میں بھی اضافہ ہوتا ہے اور ذہن میں کشادگی پیدا ہوتی ہے۔ اس کے ذریعے سے نئے نئے اسالیبِ بیان ظاہر ہوتے ہیں۔دوسری زبانوں کے ذخیرۂ ادب سے آشنائی ہوتی ہے ۔زبان کا منصب طے ہوتا ہے۔ اسلوبی خصائص اور تہذیبی بو باس کااندازہ ہوتاہے ۔ معاشرتی اور ذہنی تحریکیں تر جمے کے ذریعے ہی وجود میں آئی ہیں اور زبانوں اور تہذیبوں کے درمیان ایک رشتہ ارتباط قائم ہواہے ۔ترجمے کے ذریعے ہی آج مشرق و مغرب کے درمیان کی دوری ادبی اور لسانی اعتبار سے کم ہو پائی ہے ۔ان کے افکار و خیالات سے آشنا ئی ہوئی ہے اور ایک دوسرے کوسمجھنے میں اس قدر کامیاب ہو پائے ہیں ۔دوسرے ادب کے خزانوں کا سراغ ہمیں ترجمے کے ذریعے ہی مل پایا ہے ۔انفرادی اور اجتماعی دونوں اعتبار سے ہم نے جو ترقی اور تعمیر کی ہے وہ ترجمے کے ذریعے ہی ممکن ہو سکاہے ۔بطورِ فن ہم بھلے ہی ترجمے کو طبع زاد کے مقابلے کم تر سمجھتے ہوں مگر اس حقیقت سے انکار نہیں کیاجاسکتا کہ ترجمہ نے کچھ ایسے کام انجام دیے ہیں جو طبع زاد تصنیف بھی نہیں دے سکتی تھی ۔چند مثالیں تو ایسی بھی ہیں جنہیں ترجمے کے ذریعے ہی قبولیت حاصل ہوئی ہے اور اس طبع زاد تصنیف کو شاہ کا ر کی حیثیت حاصل ہوئی ہے ۔ اردو زبان و ادب میں ادبی تراجم کے ذریعے ہی بہت سی اصناف متعارف ہوئی ہیں۔ نثر میں ڈرامہ ،ناول ، افسانہ ،خاکہ ، انشائیہ ،مکتوب،رپورتاژ، وغیرہ مغربی ادبیات سے ترجمے کے ذریعے ہی ہمار ی زبان میں آئے ہیں۔اس کے ساتھ ساتھ نظم میں آزاد نظم ،ترائیلے ،ہائیکو،سیڈو کا، ماہیے ،مثلث و دیگر اصنافِ سخن ترجمے کے ذریعے ہی اردو زبان و ادب میں آئی ہیں۔ مغربی علوم وادبیات کے علاوہ خود مشرقی ادبیات سے بھی ہم نے بہت کچھ حاصل کیا ہے ۔عربی ،سنسکرت اور فارسی ادبیات کا بہت کچھ سرمایہ ہماری زبان میں منتقل ہوچکا ہے ۔مثنوی اور داستانوں میں ہم نے سب سے زیادہ ان تینوں زبانوں سے استفا دہ کیا ہے ۔ہائیکو اور سیڈوکا جیسی جاپانی صنفِ سخن تک ہماری رسا ئی ترجموں کے ذریعے ہی ہو پائی ہے ۔گویا ترجمے نے ہمارے ادب کو مختلف انداز سے روشناس کرایا ہے اور اس کے دامن کو وسیع سے وسیع تر کیا ہے۔

     ترجمے کی روایت اردو ادب میں مغرب سے آئی ہے ۔مغرب میں ترجمے کے بالعموم دو طریقے رائج رہے ہیں۔ انہیں دو طریقوں کا عام چلن تقریباً ہر زبان وادب میں دیکھنے کو ملتا ہے۔ اس لیے اردو میں بھی یہی رائج ہے ۔ایک آزاد ترجمہ اور دوسرا لفظی ترجمہ ۔ بعض اہلِ علم نے ترجمے کے ایک اور طریقے ’’بامحاورہ ترجمہ‘‘ کا ذکر کیا ہے،لیکن اس کی مثالیں خال خال ہی نظر آتی ہیں۔ترجمے کا یہ طریقہ غیر معروف ہے اور موجودہ دور میں شاذ و نادر ہی اس کی مثال دیکھنے کو ملتی ہے۔اس طریقے کے غیر معروف ہونے یا ناکام ہونے کی ایک وجہ یہ ہے کہ ہر زبان کے اپنے محاورے اور اس کے اپنے اپنے تقاضے ہوتے ہیں جسے کامیابی کے ساتھ ایک زبان سے دوسری زبان میں منتقل کرنا دشوار ہی نہیں بلکہ تقریباً ناممکن ہے۔ آزاد ترجمہ میں مترجم اصل متن کے نچوڑ یا مفہوم کو اپنی زبان میں منتقل کرتا ہے مگر اس بات کاخیال رکھتا ہے کہ نفسِ مضمون باقی رہے اور اس کی روح مجروح نہ ہو ۔لفظی ترجمہ میں مترجم اصل عبارت کے ہر لفظ کا ترجمہ کرتاہے اور یہاں بھی یہی کوشش پیشِ نظر رہتی ہے کہ نفسِ مضمون باقی اور روح زندہ رہے ۔ان دونوں طریقوں میں ایک ہی مقصد پوشیدہ ہوتا ہے کہ اصل تخلیق کودوسری زبان کے قارئین تک اس طرح پہنچایا جائے کہ اس کی معنوی اور ظاہری ہیئت میں وحدت قائم رہے ۔بعض اصحابِ علم کا خیال ہے کہ مترجم آزاد ترجمہ میں اصل تصنیف کے تخلیقی اور جمالیاتی عناصر پر زیادہ زور دیتا ہے جب کہ لفظی ترجمہ میں اصل متن کی معنویت پیشِ نظر رہتی ہے اور یہی وہ مرحلہ ہے جہاں ہم دونوں قسم کے طریقۂ ترجمہ میں فرق کر سکتے ہیں۔دونوں طریقۂ کار کے اپنے اپنے حدود ہیں اوراپنے اپنے مسائل بھی۔بہر حال اردومیں بھی ترجمے کی یہ دونوں قسمیں دیکھنے کو ملتی ہیں۔آزاد ترجمہ میں مترجم مفہوم کی ادائیگی کے لیے اپنے لفظیات پر بھروسہ کرتا ہے جب کہ لفظی ترجمہ میں مترجم کو اصل متن کے لفظیات پر ذہنی ورزش کرنی پڑتی ہے ۔اس لحاظ سے لفظی ترجمے میں بہت سی رکاوٹیں پیدا ہوجاتی ہیں اور آزاد ترجمہ کے مقابلے اس میں نفسِ مضمون کا باقی رکھنا ذرا مشکل ہو جاتا ہے ۔ اس لیے بالعموم یہ دیکھا گیا ہے کہ ادبی تراجم میں مترجم زیادہ تر آزاد ترجمہ کو ہی ترجیح دیتا ہے۔

     ترجمہ کی بے شمار مشکلات ہیں اور اس کے مسائل کااحساس بھی ہر کسی کو نہیں ہو پاتا ۔ان مشکلات و مسائل کااحساس بھی انہیں حضرات کو ہوتا ہے جنہوں نے سنجیدگی اور انہماکی سے اردو میں دوسری زبانوں کی تخلیقات کو ترجمہ کیا ہے یا پھر انہیں جو اصل متن اور تراجم کا تنقیدی اور تقابلی مطالعہ کرتے ہیں۔ترجمہ کے سلسلے میں سب سے پہلی مشکل اصطلاحا ت کے سلسلے میں پیش آتی ہے ۔ یہ مشکل سائنسی علوم کے سلسلے میں زیادہ محسوس ہوتی ہے کیونکہ اصطلاح ایک معین معنی دیتی ہے اور اس کے لیے ایسا متبادل لفظ ہونا چاہئیے جو اسی طرح مخصوص معنی دیتی ہو۔ سائنسی اصطلاحا ت کے علاوہ قانون اور عدالتوں کے فیصلے کے ترجموں میں بھی یہ مشکل دیکھنے کو ملتی ہے ۔ادبی ترجمے میں زیادہ مشکل شعری اصطلاحات کے ذیل میں آتی ہے ۔اصطلاح سازی کے سلسلے میں بعض ماہرین کا کہناہے کہ اصطلاحا ت کا ترجمہ نہیں کرنا چاہئے اور انہیں جو ں کا توں اپنا لینا چاہئے ۔ مگر یہ فیصلہ درست نہیں ہے کیونکہ اصطلا حوں سے جو مشتقات بنتے ہیں ان کو جوں کا توں اردو میں اپنا لینے سے بڑی قباحت پیدا ہوجائے گی ۔دوسری بات یہ کہ اب اصطلاحوں کی اتنی کثرت ہو گئی ہے کہ اردو میں ان کے بے محابا استعمال سے عبارت بڑی عجیب وغریب نظر آئے گی ۔ترجمے کی مشکلات کا اندازہ تو اسی سے ہو سکتاہے کہ کسی غیر زبان کی شاعری کواپنی زبان میں منتقل کرنے کی کوشش کی جائے اور اس طرح کی جائے کہ ترجمہ کی جانے والی زبان کے فنی مزاج اور مخصوص ادبی محاسن سے مرتب ہونے والی فضا بھی بر قرار رہے اور ترجمے کے الفاظ سے بھی ویسا ہی اثر مترشح ہو جو اس زبان کی شاعری سے ہوتاہے ۔اس طرح ترجمہ کی دشواری پوری طرح عیاں ہو جائے گی۔ترجمہ کا صحیح درک نہیں ہونے کے سبب فاش غلطیوں کا اندیشہ بھی رہتا ہے ۔انگریزی کے بعض اصطلاحات کے اردو ترجمے یوں بھی دیکھنے کو ملتے ہیں جو قطعی طور پر غلط ہیں:

 بڑا ہاتھ      Big Hand

 نیلی چھپائی            Blue Print

 بند ہونٹ                    Lip Lock

ننگا معاہدہ  Nude Contract

    بعض وقت اردو میں متبادل الفاط ہونے کے باوجود یہ طے کر پانا مشکل ہو جاتا ہے کہ کون سا لفظ زیادہ مناسب ہے مثلاً انگریزی لفظ اگریمنٹ یا ٹریٹی کے لیے اردو میں سمجھوتا یامعاہدہ کا لفظ استعمال ہوتا ہے لیکن یہ طے نہیں ہے کہ اگریمنٹ کے لیے معاہدہ اور ٹریٹی کے لیے سمجھوتا ہی استعمال ہوگا ۔ اسی طرح انٹیپی ڈنٹ یا فریڈم اور لبرٹی کے لیے اردو میں حریت یا آزادی کا لفظ استعمال ہوتا ہے، پاور،’فورس‘ اور’اسٹرینتھ‘ کے لیے طاقت یا قوت کا استعمال ہوتا ہے،پروپیبلیٹی اور پوسیپلیٹی کے لیے امکان کا لفظ استعمال ہوتا ہے لیکن یہ طے نہیں ہے کہ کس کے لیے کون سا لفظ مناسب ہوگا۔ جملوں کی ساخت کے اعتبار سے الفاظ کے معنی بھی بدل جاتے ہیں اس لیے ترجمہ کرتے وقت اس بدلی ہوئی صورت کا احساس اگر مترجم کونہیں ہے تو پھر ترجمہ اغلاط کا مجموعہ ہو کر رہ جائے گا۔

     بعض وقت یہ مشکلات اس وقت پیش آتی ہیں جب اصل متن کے لیے کوئی متبادل الفاظ نہ ہوں۔ ایسی صورت میں ماہرین کا خیال ہے کہ اس لفظ کو جوں کاتوں لکھ دیاجائے ۔دوسری اہم بات یہ ہے کہ لفظی ترجمہ ہر جگہ مناسب بھی نہیں ہوتا ۔اقبال نے اپنے ایک شعر میں ’پھول کی پتی ‘ کی ترکیب استعمال کی ہے جوفارسی کے ’برگِ گل‘ کا اردو ترجمہ ہے ۔ا س ترجمہ پریہ اعتراض کیا گیا ہے کہ پھول کی پنکھڑی ہوتی ہے پتی نہیں۔بہر حال اس قسم کی بے شمار مشکلات ہیں جوترجمہ کرتے وقت سامنے آتی ہیں۔وضع اصطلاحات سے یہ مسائل دور ہوئے ہیں مگر پوری طرح اب بھی چھٹکارہ نہیں ملاہے۔ کسی دوسری زبان کے الفاظ اور لسانی تشکیلات میں پوشیدہ مفاہیم اور تجربے تک پہنچنا اورپھر اس کی روح کو زندہ رکھتے ہوئے اسے دوسری زبان کے پیکرمیں ڈھالنا اتنا آسان نہیں ہے جتنا بظاہر معلوم ہوتا ہے ۔اس لیے ماہرین کا خیال ہے کہ کسی زبان میں ترجمہ خواہ کتناہی اچھا کیوں نہ ہو اصل عبارت کے حسن اور اثر پذیری کو نہیں پہنچ سکتا ۔

     ادبی ترجموں کی افا دیت میں ترجمے کی نوعیت اور اس کے معیار کا بڑا دخل ہوتا ہے اور اس کا تمام تر انحصار مترجم کی ذہنی وفکری صلاحیت نیز علمی و ادبی استعداد پر ہوتا ہے ۔ اس لیے ترجمہ کرنے والے کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ دونوں زبانوں پر دسترس رکھتا ہو ۔ اصل تصنیف کی زبان ،اس کے ادب اور اس کی قومی تہذیب سے پوری طرح واقف ہو ۔ مترجم کو اسی بنا پر دو زبانوں اوردو قومو ں کے درمیان لسانی اور ثقافتی سفیرکانام بھی دیا گیا ہے ۔ مترجم کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ دوسری زبان میں پیش کردہ خیالات سے واقف ہو نیز الفاظ، تراکیب اور اصطلاحیں وضع کرنے کی استعداد رکھتا ہو۔مترجم کو دونوں زبانو ں کے ادبی سرمائے اوراس کے مخصوص مزاج سے کماحقہ واقفیت ہونی چاہئے۔ اس میں ادبی قدروں کا ادراک بھی ہونا چاہئیے اور ان تمام مسائل پر بھی اس کی نظر ہونی چاہئیے جو ادب میں رو نما ہوئے ہیں۔ادب کے سماجی ، ثقافتی اور عمرانی رشتوں کا شعور بھی ایک مترجم کے لیے نہایت ضروری ہے ۔اگر کوئی مترجم ادب کی قدروں اور ادب و زندگی کے گہرے رشتوں سے ناواقف ہے تو وہ اس ادب کی زیریں سطح کو دیکھنے میں کامیاب نہیں ہوسکے گا جس کا وہ ترجمہ کر رہا ہے اور نہ ہی وہ اس ادب کی اصل روح تک رسائی حاصل کرسکے گا ۔اس لیے ایک اچھے ترجمہ نگار کے لیے ضروری ہے کہ وہ دونوں زبانوں کے الفاظ ،محاورے اور تراکیب پر اپنی گہری نظر رکھے ۔ اس کے علاوہ دونوں ادب کے مخصوص مزاج اورا س کے مظہر کو بھی ملحوظ رکھے۔ایک کامیاب ترجمہ نگار ترجمہ کے عمل سے گزرتے ہوئے کبھی کبھی تخلیقی مراحل سے بھی گزرتا ہے۔ترجمہ کے عمل میں وہ مصنف کے مطمحِ نظر کو واضح کرنے کے لیے جو الفاظ استعمال کرتا ہے ،جو تراکیب وضع کرتا ہے ،جو پیرایۂ بیان اختیار کرتاہے، وہ اصل تخلیق کے مطابق ہوتے ہوئے بھی انفرادی حیثیت کاحامل ہوتاہے اور مترجم کی خلاّقانہ کاوش پر دلالت کرتاہے۔ ترجمہ نگار مصنف کی بات یا خیال کو ایک نئے انداز اور نئے اسلوب میں پیش کر کے گویااپنی ایک انفرادی شان پیدا کرتاہے۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو ترجمہ نگار کوبیک وقت دوہری ذمہ داری سے گزرنا پڑتا ہے ۔یہ دوہری ذمہ داری اس سے ادب کی زبان پر قادر ہونے کے ساتھ ساتھ ترجمہ کی زبان پر وسیع مہارت حاصل کرنے کا بھی مطالبہ کرتی ہے ۔ان تمام شرائط سے بڑھ کرجو سب سے اہم شرط ہے وہ ترجمہ نگار کی دلچسپی ،اس کا شوق و انہماک ہے ۔اگر یہ نہیں ہے تو دوسری تمام شرطیں کامیاب ترجمہ کی ضمانت نہیں ہو سکتی ۔ایک کامیاب مترجم کے لیے جن باتوں کاجاننا ضروری ہے وہ یہ ہیں :

۔۱۔کامیاب مترجم وہی ہے جو غیر زبا ن کے شاعر اور ترجمے کے قاری کے مابین براہ راست تعلق پیدا کردے اور ترجمہ کو پڑھتے وقت قاری کو مترجم کا وجود نہ کھٹکے ۔

۔ ۲کامیاب ترجمہ وہی ہے جو مفہوم اور تاثیر کے لحاظ سے اصل سے قریب تر ہو ۔اگر ترجمہ مفہوم اور تاثیر میں اصل سے آگے بڑھ جاتا ہے تو یہ ترجمہ کی خامی ہوگی اور پیچھے رہ جانا بھی خامی ہے اور ہو بہو ہونا انتہائی مشکل ہے۔

۔ ۳۔ترجمہ کا ہر قاری کچھ نئے پن کا متلاشی ہوتاہے اورہرلمحہ وہ چاہتاہے کہ یہ مال ’درآمد ‘ کیا ہوا ہے۔ اس کا احساس اسے ہوتا رہے لہذا ہر ترجمے میں مفہوم اور تاثیر میں ایک لطیف سی اجنبیت کا ہونا لازمی ہے ۔

۔۴۔اگر کسی ایک ہی شاعر کی کئی نظموں کا ترجمہ کرنا ہو تو مترجم کے لیے ضروری ہے کہ وہ اس کے کلام سے مخصوص اندازِ فکرکی نظموں کا ترجمہ کرے تاکہ اس کی انفرادیت ترجموں میں بھی متحرک دکھائی دے ۔

۔۵۔شعری اصناف کا تعلق احساس سے ہوتا ہے اور اس کی تاثیرکا زیادہ تر انحصار وقتی ذہنی رجحان اور ماحول پر ہوتا ہے ۔ ایک ہی شعر ایک خاص ذہنی کیفیت اورماحول میں جتنا متاثر کرتا ہے اگر کسی دوسرے ماحول میں پڑھا جائے تو اس کی تاثیر کی شدت میں زبردست فرق پڑھ جاتا ہے ۔اس لیے ایک ہی شعر کاالگ الگ ماحول اور کیفیت میں الگ الگ مفہوم نکالا جا سکتا ہے ۔ مترجم کے لیے سب سے بڑا مسئلہ یہی ہے کہ وہ کس مفہوم کا ترجمہ کرے کہ قاری اس سے محظوظ ہوسکے ۔اس سلسلے میں مترجم کا اوّلین فرض یہ ہے کہ وہ ترجمہ کئے جانے و الے شاعر کے الفاظ سے اپنے ترجمے کو قریب رکھے او ر اصل متن سے جو مفہوم نکلتاہو قریب قریب وہی مفہوم اپنے ترجمے کے الفاظ سے بھی ظاہر کرے ۔

     اردو زبان میں ترجمے کا آغازو ارتقاء کے بارے میں وثوق سے کہنا مشکل ہے کہ اردو زبان میں کس ادبی زبان کا ترجمہ پہلے پہل کیا گیا۔اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ اس موضوع کو سنجیدہ مطالعہ اور علمی تحقیق کے قابل کبھی سمجھا ہی نہیں گیا۔ اب تک کی دریافتوں کے مطابق اردو زبان میں جو ترجمے ملتے ہیں ان کی نوعیت بھی جدا جدا ہیں۔ بعض مذہبی نوعیت کی ہیں، بعض ادبی نوعیت کی اور بعض سائنسی علوم سے تعلق رکھتی ہیں۔ یہاں ادبی تراجم کا تذکرہ مقصود ہے اس لیے انہیں ترجموں کا ذکر کیا جائے گا جن کا تعلق کسی نہ کسی اعتبار سے ادب سے ہے۔ ابتدا میں اردو ترجمے عربی اور فارسی زبان سے ہوئے ۔ اس کی بھی دو قسمیں ہیں ایک منظوم دوسرا منثور۔ یہ کہنا بہت مشکل ہے کہ پہلے نظم میں ترجمہ ہوایانثر میں۔ بہر حال ملاّوجہی (متوفی ۷۱۔۱۶۵۶ء ) جوقطب شاہی عہد کا شاعر اور نثر نگار تھا، اس نے فتاحی نیشاپوری کے فارسی قصّہ ’حسن ودل‘ کا اردو ترجمہ ’سب رس‘ کے نام سے کیا تھا۔ ملاّوجہی کا ہی ایک معاصر شاعر غواصی تھا جس نے عربی کے مشہور ومعروف قصّہ ’الف لیلیٰ‘ کامنظوم ترجمہ’ سیف الملوک وبدیع الجمال‘ کے نام سے کیا۔ ان کی ایک اور مثنوی ’مینا ستونتی‘ ہے۔ غالباً یہ بھی کسی سنسکرت قصہ سے ماخوذ ہے۔ اسی دور کا ایک اور شاعر ابن نشاطی تھا جس نے مثنوی’ پھول بن‘ لکھی۔ اس مثنوی کو ایک فارسی قصہ ’بساتین الانس‘ سے ترجمہ کیا گیا ہے۔ اسی دور میں غلام علی نے فارسی سے ’پدماوت‘ کا ترجمہ اردو میں کیا۔ سترہویں اور اٹھارہویں صدی میں بھی عربی، فارسی اور سنسکرت کے قصّے اردو میں ادبی ترجمے کے مرکز بنتے رہے۔ ’الف لیلیٰ‘ عربی زبان کی داستان تھی جو فارسی کے توسط سے اردو میں آئی۔بیتال پچیسی،سنگھاسن بتیسی، گل بکاؤ لی وغیرہ اپنی اصل کے اعتبار سے سنسکرت کی ہی داستانیں ہیں جو اردو میں ترجمہ ہوئیں۔ داستان امیر حمزہ ، طلسمِ ہو ش ربا،چہار درویش وغیرہ اپنی اصل کے اعتبار سے فارسی کی داستانیں ہیں جو اردو میں منتقل ہوئیں۔ اسی طرح ۵۹۔۱۷۳۲ء کے درمیان عیسوی خاں نے ملاّواعظ کاشفی کے ’اخلاقِ محسنی‘کو’ قصہ مہرافروزو دلبر‘ کے نام سے ترجمہ کیا۔ محمد حسین عطا خاں تحسین نے ۷۵۔۱۷۶۸ء کے درمیان فارسی قصہ ’چہار درویش‘ کا اردو ترجمہ’ نوطرزِ مرصع‘ کے نام سے کیا۔ اسی زمانے میں ملاّ حسین واعظ کاشفی کی فارسی تصنیف ’روضتہ الشہدا‘ کا اردو ترجمہ فضل علی فضلی نے’ کربل کتھا‘ کے نام سے کیا۔گو ترجمہ نگاری کے اس فن کو اُس وقت ایک نئی جہت ملی جب ہندوستان میں انگریزوں کی آمد ہوئی۔ ا نگریزی سے اردو میں ترجمہ شدہ پہلی کتاب بنجمن شلزکا ’ انجیلِ مقدس‘ ہے جس کی اشاعت ۱۷۴۸ء میں ہوئی تھی۔ انگریزوں کی آمد کے بعد انگریزی زبان سے مقامی زبانوں میں ترجموں کا سلسلہ شروع ہوا۔فورٹ ولیم کالج کا قیام جب ۱۸۰۰ء میں ہوا تو تراجم کے منظم سلسلے بھی شروع ہوئے لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ اس کالج نے انگریزی کی کسی کتاب کا ترجمہ اردو زبان میں نہیں کیا بلکہ ان کے پیش نظر عربی ، فارسی اور سنسکرت زبانیں رہیں اور اردو میں انہی زبانوں کی معروف کتابوں کو ترجمے کے ذریعے منتقل کیا جاتا رہا ۔یہ بات بھی قابل غور ہے کہ اس کالج نے زیادہ ترعلومِ مفیدہ کو ہی اپنے مقصد کا حاصل سمجھا اورانہی کتابوں کو ارد و زبان میں منتقل کیا۔کہانی اور شاعری جن کا تعلق خالص ادب سے ہے ان پر بہت کم توجہ دی گئی ۔

     اس میں کوئی شبہ نہیں کہ فورٹ ولیم کالج نے اردوکے تخلیقی ادب میں تصنیف و تالیف کا کوئی اہم کارنامہ سر انجام نہیں دیااورڈاکٹر گلکرسٹ نے کا لج کے طلباء کی تعلیمی ضروریات کوپورا کرنے کے لیے زیادہ تر کلاسیکی زبانوں کی مشہور اور معروف کتابوں کوہی اردو میں منتقل کرنے کی کوشش کی ۔ تاہم اس حقیقت کو نظر انداز کرنا ممکن نہیں کہ گلکرسٹ نے پہلے پہل اردو نثر کا ادب پیداکیا ۔ گلکرسٹ سے پہلے اردو نثر کی باقاعد ہ روایت موجود نہیں تھی۔ بلا شبہ کچھ تراجم بکھری ہوئی صورت میں ضرور ملتے ہیں لیکن ان میں سے بیشتر میں زبان غرابت کا شکار ہو گئی ہے۔اس کے ساتھ ساتھ اہم بات یہ ہے کہ فورٹ ولیم کالج کے کارناموں میں لفظی تراجم پر زور نہیں دیا گیابلکہ مفہوم کو اردو کا جامہ پہنانے کی سعی کی گئی ۔چنانچہ مترجمین متبادل الفاظ کے انتخا ب میں نہ صرف آزاد رہے بلکہ تخلیقی تسلسل کو برقراررکھنے اور قصے کو ہندوستانی معاشرت کا نمائندہ بنانے کے لیے روز مرہ کو ملحوظِ نظر رکھنے کی کوشش کی ۔یہی وجہ ہے کہ میر امن کی باغ وبہار،حیدر بخش حیدری کی طوطا کہانی ،نہال چند لاہوری کی مذہبِ عشق وغیرہ کے تراجم میں زبان لڑکھڑانے کے بجائے رواں دواں نظر آتی ہے ۔

     ترجمے کی روایت کو ایک نئے موڑ سے آشنا کرانے میں دلی کالج (۱۸۲۵ء)نے بھی نمایاں کام انجام دیا ۔ورنیکلر ٹرانسلیشن سوسائٹی ‘ قائم کی گئی اور جدید کتابوں کی تالیف و ترجمے کے ذریعے ہندوستانی زبانوں کو ترقی دینے کی کوشش کی گئی ۔اس سوسائٹی نے انگریزی سے ترجمہ کرنے پر زور دیا اور آزاد ترجمے کو ترجیح دی ۔ فورٹ ولیم کالج کے مقابلے میں یہاں زیادہ وسیع پیمانے پر ترجمے کے کام انجام دئے گئے لیکن یہاں بھی ادبی کتابوں کے تراجم دوسرے علوم کے تراجم کے مقابلے بہت کم ہوئے۔دلی کالج کے چند معروف ادبی تراجم میں اما م بخش صہبائی کا ترجمہ’ حدائق البلاغت‘ ماسٹر پیارے لال کا ترجمہ ’دربار ِ قیصری ‘اور ان کے علاوہ دیگر ادبا کے تراجم قصہ چہار درویش ،کلیلہ ودمنہ ،شکنتلا ،بدرِ منیر وغیرہ اہم ہیں ۔سید اعظم علی اکبرآبادی جو مرزا غالب کے دوستوں میں سے تھے ،نے بھی’ سکندر نامہ‘ کا ترجمہ اردو میں کیا ۔اسی زمانے میں خواجہ اما ن نے ’بوستانِ خیال‘ کے نام سے میر تقی خیال کی فارسی داستا ن کی دس جلدوں میں سے پانچ جلدوں کا ترجمہ کیا۔اردو میں انگریزی کی منتخب نظموں کا پہلا ترجمہ ’جواہرِ منظوم ‘ کے نام سے قلق میرٹھی نے اسی زمانے میں کیا۔اسی زمانے میں گارساں دتاسی کے خطبات کابھی اردو میں ترجمہ کیا گیا ۔

     ترجمے کی اس روایت میں سر سید کی تحریک کو بھی بڑا دخل ہے۔سر سید کی سائنٹفک سوسائٹی نے ترجمے کی اس روایت کو آگے بڑھایا لیکن سیاسی اختلافات کے سبب ادبی تراجم کے اعلیٰ نمونے نہیں پیش کر سکی ۔چند ادبی تراجم جنہیں قبولِ عام حاصل ہوا ان میں عنایت اﷲ دہلوی کے تراجم ہیں ۔انہوں نے انگریزی ادب کی دقیق کتابوں کو اردو میں منتقل کرنے کی کامیاب کوشش کی۔ان میں دانتے کی ڈیوائن کامیڈی ، اناطولے فرانس کی تائیس،فلابئیرکی سلامبو ،کپلنگ کی جنگل بک اور شیکسپئر کے ڈرامے شامل ہیں ۔

     ۱۸۶۵ء میں جب انجمن پنجاب لاہور کا قیام عمل میں آ یا تو اس کے تحت بھی ترجمے کے عمل کو فروغ دینے کی کوشش کی گئی لیکن یہاں بھی ادبی کتب میں زیادہ دلچسپی نہیں لی گئی اور سائنسی کتب کے ترجمہ پر زور دیا گیا ۔ ۱۸۶۵ء میں ہی روہیل کھنڈ میں ایک لٹریری سوسائٹی کا قیام عمل میں آیا تھا۔ اس سوسائٹی میں بھی علمی اور مغربی علوم کی کتابوں کو اردو میں ترجمہ کیاگیا لیکن ادبی کتب کے ترجمے پر اس سوسائٹی نے بھی توجہ نہیں دی۔ اسی طرح چھوٹی چھوٹی انجمنوں کے تحت بھی ترجمے کی روایت کوآگے بڑھانے کی کوشش کی جاتی رہی ۔۱۹۰۳ء میں انجمن ترقی اردوکے قیام سے ارد وترجمے کی روایت کو ایک نئی جہت ملی یہاں ادبی تراجم کے ساتھ ساتھ وضع اصطلاحات پر زیادہ توجہ صرف کی گئی۔تاریخ ادبیاتِ ایران،خطباتِ گارساں دتاسی،تاریخ عہد انگلشیہ ،مشاہیر یونان و روم وغیرہ اس انجمن کے یادگار تراجم ہیں ۔اردو میں ترجمے کی اس روایت کو منظم بنانے میں جامعہ عثمانیہ کا خاصہ اہم کردا ر رہا ہے ۔ ا س کا قیام ۱۹۱۸ء میں عمل میں آیا اور یہاں تقریباً ۵۰۰کتابوں کے ترجمے کئے گئے ۔ جامعہ عثمانیہ کے دارالترجمہ میں سائنسی کتب کے علاوہ ادبی اور نصابی کتابوں کے بھی ترجمے ہوئے۔

     ۱۹۳۶ء کے بعد اردو ادب میں ادبی اور تنقیدی تراجم میں اضافہ ہوا ۔مغربی تنقیدی کتابوں کے بہت سے ترجمے اردو زبان میں پیش کئے گئے۔عزیز احمدنے ارسطوکی بوطیقا کا ترجمہ ’فن ِ شاعری‘ کے نام سے کیا جس کو انجمن ترقی اردو نے۱۹۴۱ء میں شائع کیا۔۱۹۶۸ء میں محمد ہادی حسن نے مغرب کی ایک تنقید ی کتاب کا ترجمہ ’مغربی شعریات ‘ کے نام سے کیا ۔ارسطوکی کتاب بوطیقا کا ترجمہ شمس الرحمن فاروقی نے بھی ’ترجمہ ‘کے نام سے ۱۹۷۸ء میں کیا۔۱۹۷۶میں جمیل جالبی کی ترجمہ شدہ کتاب ’ارسطو سے ایلیٹ تک‘ شائع ہوئی ۔ ’ایلیٹ کے مضامین‘ کے نام سے جمیل جالبی نے ایلیٹ کے انگریزی مضامین کو اردو میں منتقل کیا جو ۱۹۷۸ء میں شائع ہوئی ۔۱۹۷۷ء میں ہڈسن ولیم ہنری کی ادبی کتا ب کا ترجمہ عصمت جاوید نے کیا جو اردو رائٹرز گلڈ الہ آباد سے شائع ہوا ۔اس دور میں ترجمے کی رَو پہلے سے کہیں زیادہ تیز ہوگئی ۔نیاز فتح پور ی نے گیتانجلی کا ترجمہ ’عرضِ نغمہ ‘ کے نام سے کیا ۔سجاد حیدر یلدرم اور حامد اﷲ افسر کے چند ترجمہ شدہ افسانے شائع ہوئے ۔جلیل قدوائی ، صادق الخیری، منصور احمد ، حامد علی خان ،محمد مجیب ،فضل حق قریشی،خواجہ مہدی علی خان وغیرہ نے مغربی افسانوں کو اردو میں ترجمہ کرنے کی اہم ذمہ داری نبھائی ۔ل،احمد نے فرانسیسی ادیبہ کی خود نوشت ’کیسانونا ‘کو ’نئی صبح ‘ کے نام سے ترجمہ کیا ۔گوپی ناتھ امن ۱۹۶۱ء میں راجندر پرساد کی خود نوشت کو اردو میں ’اپنی کہانی‘ کے نام سے ترجمہ کیا۔ان کے علاوہ محمد علی صدیقی نے ’کروچے کی سر گزشت ‘اور اختر حسین رائے پوری نے’ گورکی کی آپ بیتی ‘کے نام سے ترجمہ کیا۔ان کے علاوہ اور بہت سے نام ہیں جن کا ذکر اس ذیل میں کیا جا سکتا ہے۔

     مغرب کے تخلیقی ادب کے تراجم جس پیمانے پرارد و میں ہوئے اس سے اردو ادب کا دامن وسیع سے وسیع تر ہوگیا ۔۱۹ویں صدی نصف سے جو مغرب کے تخلیقی ادب کے تراجم سا منے آنے شروع ہوئے تو یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے ۔پروفیسر قمررئیس نے لکھاہے کہ

 ’’۔۔۔۔کم و بیش ۱۹۳۰ء تک اردو شعرو ادب وکٹورین عہدکے انگریزی ادب کے سائے تلے پلتا اور لگ بھگ اسی سانچے میں ڈھلتارہا ۔‘‘(مقدمہ ترجمہ کا فن اور ترجمہ کی روایت از قمر رئیس )

     ۱۹۳۰ء کے بعد دوسری زبانوں سے ترجمے شروع ہوئے اور اس دور کے تقریباً تمام ادیبوں نے فرانسیسی ،روسی ،ترکی،اطالوی ،چینی اور امریکی ادب کے شاہکاروں کو اردو زبان میں منتقل کرنے کی کوشش کی ۔ اس دور میں ترجمہ بطور فن اپنی جڑیں مضبوط کر چکا تھا ۔مشرق و مغرب کی بیشتر زبانوں کے تراجم آج ہمارے ادب میں موجود ہیں لیکن اس کا ایک کمزور پہلو بھی ہے ۔ہمارے یہاں مختلف علاقائی زبانیں بولی جاتی ہیں جن کی اپنی ایک تاریخ و تہذیب اور اپنا ایک ادب ہے ۔ان علاقائی زبانوں کے ادبیات کے ترجم پر زیادہ توجہ نہیں دی گئی ہے اور میرے خیال میں اس عمل کو غیر اہم سمجھ کر نظر انداز کیاجاتا رہاہے ۔غالباً یہی وجہ ہے کہ ہم دیگر ممالک کی تہذیب اور ان کے ادبیات سے جس قدر واقف ہیں اپنے ملک کے دوسرے علاقوں کی تہذیب اور ادبیات سے واقف نہیں ہیں۔ اس سلسلے میں بعض کوششیں کی گئی ہیں مثلاً نیشنل بک ٹرسٹ، ساہتیہ اکادمی اور دیگر اداروں نے کچھ علاقائی ادب کے تر اجم شائع کئے ہیں ۔بعض تراجم انفرادی کوشش کے نتیجے میں بھی سامنے آئے ہیں لیکن یہ ناکافی ہیں ۔اس سلسلے میں ابھی مزید پیش رفت کی ضرورت ہے۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ ترجمے میں معیارکا بھی بڑا دخل ہوتاہے ۔اچھے اور معیاری ترجمے خال خا ل ہی نظر آتے ہیں ۔ترجمہ نگاری کے معیار پر بھی غور کرنے کی ضرورت ہے ۔اردو ادب کی تخلیقات میں تیزی آجانے کے سبب ترجمہ نگاری کی رفتار میں کمی آئی ہے۔ چندرسا ئل میں بھی کچھ ترجمے دیکھنے کو مل جاتے ہیں۔ موجودہ چند برسوں میں ترجمے کا جو اہم کام منظرِ عام پر آیاہے ان میں ڈاکٹر ارجمند آرا کی ــ’جویندہ پایندہ‘ ہے جو رالف رسل کی آپ بیتی کا انگریزی سے اردو میں ترجمہ ہے۔اسی طرح ڈاکٹر ارشاد نیازی نے پنڈت نارائن شرما کی کتاب ’ہتوپدیش‘ کا ہندی سے اردو میں ترجمہ کیا ہے۔انہوں نے راجندر یادو کی منتخب ہندی کہانیوں کا بھی اردو میں ترجمہ کیا ہے جو حال ہی میں نیشنل بک ٹرسٹ سے شائع ہوئی ہے۔

٭٭٭

ڈاکٹر احمد امتیاز

اسسٹنٹ پروفیسر

شعبۂ اردو، دہلی یونیورسٹی، دہلی

 

اردو ریسرچ جرنل میں شائع شدہ مواد کی بغیر پیشگی اجازت کے دوبارہ اشاعت منع ہے۔ ایسا کرنا قانوناً جرم ہے۔

Leave a Reply

6 Comments on "اردو میں ادبی ترجمے کی روایت"

Notify of
avatar
Sort by:   newest | oldest | most voted
abushaheem khan
Guest

Prof.Ibne Kanwal& Dr.Ahmad Imtiyaz s write ups were really read worthy others are also.
Congratulation Uzair for keeping such a lovely academic discourses alive and enviable
shaheem sagar

abushaheem khan
Guest

thanks

لیاقت
Guest
خوب تر
trackback

[…] اردو میں ادبی ترجمے کی روایت […]

trackback

[…] اردو میں ادبی ترجمے کی روایت […]

راشد امین ندوی
Guest
راشد امین ندوی
بہت شاندار مضمون
wpDiscuz
Please wait...

Subscribe to our newsletter

Want to be notified when our article is published? Enter your email address and name below to be the first to know.