اسلامی ثقافت کی تشکیل میں ہندوستانی ثقافت کے عناصر
مسلمانوں کے علمی، ثقافتی اور تہذیبی سرمایے میں ہندوستانی تہذیب و ثقافت کے کون سے اجزاء اور عناصر شامل ہیں یعنی اسلامی تہذیب و ثقافت کی تعمیر و تشکیل میں ہندی ثقافت کا کیا حصہ رہا ہے؟ اس کے بہت سے گوشے اور جہات ہیں۔ لیکن میری یہ مختصر سی تحریر ان عناصر پر مبنی ہوگی جن میں مسلمانوں نے اسلام کی ابتدائی صدیوں میں ہندوستانی علوم و فنون اور اس کے تہذیبی ورثے سے اخذ و استفادہ کیا ہے اور ان کو اپنی ثقافت اور علوم و آداب کا جز بنایا ہے۔
جس طرح انسانی زندگی کی ضروری اشیاء اور سامانوں کا تبادلہ شخصی، ملکی اور بین الاقوامی پیمانے پر ہمیشہ ہوتا آیا ہے اسی طرح آراء، عقائد و افکار اور علوم و فنون کا بھی تبادلہ اور ان کی درآمد و برآمد ہمیشہ رہی ہے۔ ترقی یافتہ اور ترقی پذیر (چاہے ماضی کے مختلف ادوار میں ترقی کا معیار کچھ بھی رہا ہو) ملکوں کے درمیان اشیاء اور علوم و فنون کا تبادلہ اور ان سے اخذ و استفادہ عہدِ قدیم سے نوعِ انسانی کا معمول رہا ہے۔ دوسری قوموں اور دوسرے ملکوں سے ان کی پیداوار و مصنوعات اور ان کے علوم و افکار اور ان کے تہذیبی اور تمدنی مظاہر سے اخذ و استفادہ نسلِ انسانی کی ہمہ جہتی اور ترقی کے لیے ضروری رہا ہے۔
رومن امپائر جو اپنی ایک قدیم اور شاندار تاریخ رکھتی ہے، اپنی فوجی صلاحیت اور اداری و انتظامی اہلیت کے اعتبار سے اپنے زمانے میں غیرمعمولی اہمیت رکھتی تھی لیکن علوم و فنون اور افکار و نظریات سے اس کا دامن خالی تھا، اس کے اقل و قلیل افراد میں خطابت، شاعری اور فنونِ لطیفہ کی جو واقفیت پائی جاتی تھی وہ یونان سے مستفاد اور اس کی مرہونِ منّت تھی۔ تقریباً دو سو سال قبل مسیح جب اپنی فوجی اور حربی صلاحیت میں ممتاز و فائق ہونے کی وجہ سے یونان پر اپنا اقتدار قائم کیا اور اس کو اپنی مملکت کا ایک جز بنایا تو یونانی علوم و فنون اپنی جملہ اقسام و فروعات کے ساتھ رومی سوسائٹی میں پھیلے اور رومن حکومت علم و فن اور آداب و ثقافت میں بھی ایک ممتاز درجہ تک پہنچ گئی۔ یونانی علوم و ثقافت کے رومی مملکت میں داخل ہونے کی دوسری راہ اسکندریہ تھی۔ سکندر مقدونی کے ہندوستان سے واپسی پر عراق میں انتقال کے بعد اس کے جنرلوں نے اس کی وسیع سلطنت کے مختلف حصّوں پر اپنا قبضہ جمایا اور اس سلسلے سے اس کے ایک یونانی جنرل بطلیموس نے مصر پر قبضہ کیا اس وقت آگسٹرسیزر کے زمانے تک یونان کے اس بطلیموسی خاندان نے مصر پر فرماں روائی کی ہے۔ اس خاندان نے یونانی علوم و فنون اور اس کے آداب و ثقافت کو اسکندریہ منتقل کیا۔ مشہور اور تاریخی کتب خانہ اسکندریہ جو علومِ عقلیہ اور علومِ تجربیہ اور حیاتِ انسانی کے مختلف شعبوں سے متعلق یونانی افکار و خیالات کی کتابوں کا مرکز بن گیا اور بعد میں اس کتب خانے نے علوم و فنون کی اشاعت میں بڑا اہم کردار ادا کیا ہے۔ یہ کتب خانہ صرف ایک لائبریری نہیں تھا بلکہ یہ اعلیٰ تعلیم کی ایک یونیورسٹی بھی تھا اور علم و تحقیق کے میدان میں کام کرنے والوں کے لیے ایک اکیڈمی بھی۔ آگسٹرسیزر نے جب اپنے آخری حریف انٹونی اور اس کی داشتہ یا بیوی بطلیموسی خاندان کی آخری ملکہ کلیوپٹرا کو شکست دی ہے تو اس دن سے مصر باقاعدہ رومی سلطنت کا ایک حصّہ بن گیا اور اس کتب خانے کے ذریعے یونانی علوم و ثقافت، رومی مملکت میں عام ہوئے اور اس طرح رومن امپائر ہمہ جہتی، ترقی کے ایک بلند معیار پر پہنچ گئی۔
دینِ اسلام جس کے ہم پیرو ہیں، نبیِ کریمؐ کے ذریعے سب سے پہلے اس کی اشاعت عرب میں ہوئی۔ اس دین کے اوّلین مخاطب عرب تھے۔ قبلِ اسلام عربوں کی تاریخ سے ہمیں یہ معلوم ہوتا ہے کہ کتاب کے نام سے ان کے یہاں کوئی چیز موجود نہیں تھی۔ قرآن جس طرح اﷲ تعالیٰ کی آخری کتاب اور آخری وحی ہے اسی طرح قرآن عربی زبان کی پہلی کتاب ہے اس لیے لازمی طور پر اسلام سے پہلے عربوں کے پاس علوم و فنون اور منظم آراء و افکار کا کوئی مدوّن مجموعہ جسے کتاب کہا جاسکے نہیں تھا۔ انسانی ضرورت اور نسلِ انسانی کی بقا کے لیے جن منتشر اور متفرق اور ضروری معلومات کی ان کو ضرورت تھی وہ زبانی اور روایتی طور پر ان کے پاس محفوظ تھی اور ایک نسل سے دوسری نسل میں منتقل ہوتی رہتی تھی۔ تیر اندازی اور شہسواری کسی انسان کے معیاری ہونے کے لیے ان کے یہاں کافی تھی۔ امثال و حِکم اور شاعری کا بھی پتا چلتا ہے اور اسی طرح علاج و معالجے کا بھی ان میں رواج تھا لیکن ان میں سے کسی چیز نے منظم و مرتّب اور مدوّن ہوکر علم اور فن کا درجہ نہیں اختیار کیا تھا۔
زبان اور اس کی مشہور صنف، شعر و شاعری سے ان کو ضرور دلچسپی تھی اور ان میں خطابت بھی تھی اس لیے ان کے یہاں شاعری بہت ہی واضح اور نمایا ں شکل میں موجود تھی۔ زبان کے معاملے میں وہ بڑے حساس تھے اسی وجہ سے وہ اپنے علاوہ دوسروں کو زبان کے معاملے میں کمتر سمجھتے تھے، یہ ان کا ثقافتی ورثہ تھا آنحضورؐ کی تعلیمات اور ہدایات نے جن کا سرچشمہ وحیِ الٰہی اور کتاب اﷲ تھی، ان کو نئی مذہبی اور دینی ثقافت سے روشناس کیا، وہ ایمان لائے اور مسلمان کہلائے اور شرک و بُت پرستی سے توبہ کی، اپنے اعمال میں نبوی احکام پر عمل کیا اور اس کے نتیجے میں ایک مہذب اور شائستہ قوم دنیا کے سامنے آئی۔ آنحضورؐ کے وصال کے وقت ان کے پاس دینی حیثیت سے ایک مکمل صحیفہ قرآن تھا اور دوسرا سنتِ نبوی اور اس معاملے میں ان کو کسی سے کچھ لینا نہیں تھا بلکہ دینا تھا۔ آنحضورؐ کے وصال کے بعد چند برسوں کے اندر انتہائی حیرت انگیز طریقے سے انھوں نے ایران کی ساسانی حکومت کو بالکلیہ شکست دے دی اور اس کے حاکم اور مقتدرِ اعلیٰ بن گئے اور رومی سلطنت کو اس کے زرخیز علاقوں شام و مصر سے بے دخل کردیا۔ ان کی مقبوضات میں اب صرف جزیرہ نمائے عرب ہی نہیں تھا بلکہ ساسانی حکومت کے پورے مقبوضات جو مدائن سے دریائے جیحون تک پھیلے ہوئے تھے، شامل ہوگئے اور شمال مغرب میں شام و مصر بھی اسلامی حکومت کا جز بن گیا۔ اب اسلامی مملکت میں ایک تہذیب، ایک ثقافت اور ایک مذہب کے حاملین اور قائلین نہیں رہ گئے تھے، مجوسی، بودھ، ستارہ پرست، ملحدین اور یہود و نصاریٰ اس مملکت کے باشندے تھے اور ان سب کی الگ الگ مذہبی عقائد و روایات کے ساتھ الگ الگ ثقافت اور تہذیب تھی، قیصر و کسریٰ سے حاصل کیے ہوئے مفتوحہ ممالک میں علومِ عقلیہ اور تجربیہ کے جاننے والے اور اسی طرح حیاتِ انسانی سے متعلق دوسرے علوم و فنون کے ماہرین اور فضلاء موجود تھے۔ ان کے مقبوضات میں اسکندریہ تھا جو ایک زمانے تک مشرق و مغرب میں یونانی اور عقلی علوم کے پھیلنے کا ذریعہ بنا۔ مسلم حکومت کے مقبوضات میں تہران، نصیبین، رہا اور جندیساپور تھے جہاں پانچ چھ سو سال سے علمِ طب، علمِ نجوم، علم الاعداد و الحساب اور دوسرے علومِ عقلیہ کے فضلاء موجود تھے۔ جنگوں اور فتوحات کے اثرات اور ان کی شدت ختم ہونے کے بعد جب اطمینان اور سکون کا زمانہ ہوا تو تبادل ثقافتی اور علوم و آداب کے لین دین کا عمل شروع ہوا، مسلمانوں کے پاس مذہب تھا اور جامع اور مکمل صورت میں تھا اس لیے ظاہر ہے دین و مذہب سے متعلق معلومات کے لیے ان کو کسی سے کچھ لینے کی ضرورت نہیں تھی لیکن ان کو فنِ طب کی ضرورت تھی، فنِ نجوم کی ضرورت تھی، علم الاعداد و الحساب کی ضرورت تھی اور ابتداءً ان ضرورتوں نے ان کو مجبور کیا کہ ان علوم سے متعلق مستند علماء اور فضلاء سے جو مسلمانوں میں موجود نہیں تھے، استفادہ کریں اور ان مستند کتابوں سے بھی فائدہ اٹھائیں جو ان علوم سے متعلق دوسری زبانوں میں ہیں اور اس استفادے کی واحد شکل یہ تھی کہ ان کتابوں کا عربی میں ترجمہ کرایا جائے چنانچہ یہ عمل جزئی اور انفرادی طور پر بنی اُمیّہ کے عہد میں شروع ہوا۔ تاریخی روایات ہمیں بتاتی ہیں کہ مسلمانوں نے اس معاملے میں حقیقت پسندی کا ثبوت دیا اور پوری وسعتِ قلب کے ساتھ غیر مسلموں سے ان علوم میں استفادہ کیا اور ان کے ترجمے کا حکم دیا۔
اموی عہد میں اس سلسلے میں جزئی اور انفرادی کام ہوئے۔ طب اور کیمیا کی کتابوں کا ترجمہ ہوا ہے اگرچہ پہلی صدی ہجری کے آخر میں سندھ مسلمانوں نے فتح کرلیا تھا لیکن سندھ سے اموی پایۂ تخت دمشق کی دوری کی وجہ سے مسلمانوں اور سندھیوں کے باہمی اختلاط کے مواقع کم رہے اس لیے افادہ و استفادہ کا عمل بھی بہت ہی قلیل اور مختصر رہا ہے لیکن عباسی عہد میں جب کہ خلیفہ منصور کے زمانے میں بغداد کی تعمیر مکمل ہوگئی تو اب اسلامی حکومت کا دارالسلطنت عراق، عجم میں آگیا اور سندھ، بغداد کا فاصلہ کم ہوگیا۔ ۱۴۲ھ میں عباسی خلیفہ منصور نے ہشام بن عمر و تغلبی کو سندھ کا گورنر بنایا اور اس نے کابل و کشمیر کو بھی فتح کیا۔ اب اس کے گورنروں اور ہندوستانیوں کے درمیان اختلاط اور آمد و رفت میں اضافہ ہوا اور درحقیقت اسی زمانے سے زیادہ واضح اور نمایاں طور پر ہندی ثقافت اور ہندی علوم و فنون و آداب کا اثر مسلم ثقافت پر ہوا ہے۔ ہمیشہ سے عربوں نے ہندوستان کو اہمیت، اہلیت اور اعتراف کی نظر سے دیکھا ہے اور ہندوستان کو علمی و ثقافتی حیثیت سے اہم مقام دیا ہے۔ مشہور مصنف جاحظ نے لکھا ہے کہ علم الحساب، علمِ نجوم، علمِ طب، مجسمہ سازی، فنِ تصویر کشی اور بہت سی قابلِ ذکر صنعتوں میں ہندوستانیوں کی مہارت مشہور ہے۔ مسعودی نے اپنی معرکۃ الآراء کتاب ’مروّج الذہب‘ میں لکھا ہے کہ ہندوستان قدیم زمانے سے حکمت اور علومِ عقلیہ میں درجۂ کمال پر ہے اور ہندوستانی اپنی فکری، سیاسی اور تجرباتی امور میں دوسری قوموں سے بہت ممتاز ہے۔ اسی طرح اصفہانی نے لکھا ہے کہ ہندوستانیوں کو علم الحساب، علمِ طب، مجسمہ سازی، تلوار سازی، موسیقی اور شطرنج کا غیر معمولی علم اور مہارت ہے۔ قفطی نے اپنی کتاب ’تاریخ الحکماء‘ میں لکھا ہے کہ ہندوستان کے فلسفہ اور دیگر علوم و فنون میں ان کی مہارت کا اعتراف ساری دنیا نے کیا ہے۔
جیساکہ میں پہلے تحریر کرچکا ہو ں کہ علمِ ریاضی اور طب میں ہندوستان کو ایک بلند مقام حاصل تھا اور اسلامی حکومت کے دائرے کی وسعت کی وجہ سے مسلمانوں کو علمِ طب، علمِ نجوم اور علمِ ریاضی کی شدید ضرورت تھی اس لیے مسلمانوں نے اپنے ابتدائی عہد میں ان ہندی علوم سے پورا فائدہ اُٹھایا اور اپنے علم و ثقافت میں اس سے مدد لی، یہاں تک کہ ہندی علوم و فنون کے یہ حصّے مسلم ثقافت میں گھُل مل گئے۔
اسلام کی ابتدائی صدیوں میں ہندی ثقافت کا داخلہ تین راہوں سے ہوا ہے اور ان کی تفصیل درجِ ذیل ہے:
(۱)ایران اور ہندوستان ایک دوسرے کے قریب تھے اور حسنِ اتفاق کہ ایران اور ہندوستان کے درمیان خشکی کا راستہ تھا سمندر کا نہیں کیونکہ عام طور پر اس زمانے میں سمندر کے سفر کو ہندو صحیح نہیں سمجھتے تھے۔ ان ملکوں کے درمیان قربِ مسافت کی وجہ سے تہذیبی اور ثقافتی تبادلے ہوئے ہیں اور خاص طور پر بودھ مذہب جب ہندوستان سے باہر شمال مشرق میں تبت، چین یہاں تک کہ برما اور جاپان میں پہنچا ہے اور شمال مغرب میں کشمیر، افغانستان، خراسان اور سمرقند و بخارا تک پہنچا ہے تو عرصے تک اس مذہب کو ماننے والے ایرانی حکومت کے مقبوضات میں مقیم رہے ہیں۔
بلخ کا مشہور معبد نوبہار جس کے متولی اور منتظم برامکہ تھے، خراسان میں تھا۔ اس طرح ہندوستانی تہذیب و علوم کا بودھ مذہب کے ماننے والوں کے ذریعے داخلہ ایران میں بھی ہوا اور وہ ایرانی ثقافت کا جز بنے اور جب عباسی سلطنت کے قیام کے بعد مسلم عرب ثقافت میں ایرانی ثقافت داخل ہوئی ہے تو اس وقت ایرانی ثقافت کے ساتھ ساتھ ہندی ثقافت کے وہ عناصر بھی مسلم ثقافت میں داخل ہوئے جو ایرانی ثقافت کا جز ہوچکے تھے۔ اس کی واضح مثال ’کلیلہ دمنہ‘ ہے۔ ابن المقفع نے اس کا ترجمہ فارسی زبان سے عربی میں کیا اور یہ بات مسلّم ہے کہ اس کے بعض ابواب کو چھوڑکر اس کا بڑا حصّہ ہندوستان سے ایران پہنچا تھا اور وہاں فارسی زبان میں ترجمہ ہوا اور پھر فارسی زبان سے ابن المقفع نے عربی میں منتقل کیا۔ ہندی ثقافت کا اثر اسلامی ثقافت پر بالواسطہ ہے اور مورّخ کے لیے یہ کام بہت مشکل ہوگا کہ ایرانی ثقافت کا تحلیل و تجزیہ کرکے ہندی ثقافت کے عناصر کی نشان دہی کرے اور پھر بتائے کہ یہ عناصر ایرانی ثقافت کی راہ سے مسلم ثقافت میں داخل ہوئے۔
(۲) محمد بن قاسم کے سندھ فتح کرنے کے بعد بہت سے سندھ کے باشندے مسلمان ہوئے ہیں اور ان کی ایک تعداد دمشق اور عرب کے دوسرے شہروں میں پہنچی ہے اور اسی طرح فتحِ سندھ کے بعد عرب ملکوں میں سندھی باندیوں کا داخلہ بھی ہوا ہے، یہ بھی ہندی تہذیب و تمدن کے عربوں کے تہذیب و تمدن میں داخلے کا ذریعہ ہوا ہے۔ ان نومسلم مردوں میں سے بعضوں نے اسلامی علوم و فنون بھی حاصل کیے اور اسلام کی دینی ثقافت میں اضافے کا ذریعہ بنے مثلاً بعض سندھی ا لاصل نومسلموں کا شمار محدثین میں ہے یہاں تک کہ بعض ہندی الاصل کا نام ہمیں عربی شعرا کی فہرست میں ملتا ہے۔ ابوعطاء سندھی، اموی اور عباسی عہد کے شاعروں میں ہیں اور ان کے اشعار کا کچھ حصّہ آج تک عربی ادب کی تاریخوں میں محفوظ ہے۔ اسی طرح ابن الاعرابی کا علم و ادب اور شاعری میں بہت بڑا مقام ہے اور ان کے باپ کا اسلامی نام زیاد تھا۔ سندھی غلام کی حیثیت سے وہ عرب میں آئے اور ان کے لڑکے ابن الاعرابی نے غیرمعمولی شہرت حاصل کی۔ ابن الاعرابی کے مشہور شاگردوں میں ثعلب اور ابن السکیت ہیں اور ان دونوں کا تلمّذ اس بات کی واضح دلیل ہے کہ ابن الاعرابی کا عربی زبان و ادب اور شعر میں کیا درجہ اور مقام تھا۔ اسی طرح ابومعشر نجیح سندھی فنِ حدیث اور خاص طور پر مغازی سے متعلق احادیث جاننے میں ان کا بلند مقام ہے۔ مشہور صحابی حضرت عبداﷲ ابن عمرو کے مشہور شاگرد اور غلام حضرت نافع اور دوسرے علمائے تابعین کے یہ شاگردوں میں ہیں۔ جاحظ نے لکھا ہے کہ سندھ کے باشندے مالی معاملات اور حساب و کتاب رکھنے میں بڑے ماہر اور واقف کار ہوتے ہیں اور یہی جاحظ آگے لکھتا ہے کہ بصرہ میں ہر صرّاف کا خزانچی سندھی ہوتا ہے۔
(۳) تیسرا ذریعہ براہِ راست ہندوستانی علوم و فنون کا مسلم عرب ثقافت میں داخلہ ہے، میری مراد اس سے یہ ہے کہ خاص ہندوستانی علوم و فنون اور ان کی کتابیں مسلم ثقافت میں داخل ہوئی ہیں اور ان کا داخلہ کس طرح ہوا اور کون کون ہندوستانی علوم عرب ثقافت میں شامل ہوئے اس کی تفصیل خاصی طویل ہے۔ مولانا سیّد سلیمان ندوی نے اپنی محققانہ کتاب ’عرب و ہند کے تعلقات‘ میں ہندوستانی علوم و فنون کے عرب مسلمانوں کے یہاں پہنچنے کی تاریخ و کیفیت اور عربوں کے ان اعترافات کی تفصیلات بیان کی ہیں جو انھوں نے ہندوستانی علوم و فنون کی اہمیت و افادیت اور ہندوستانی علماء و فضلاء کی اپنے فنون میں مہارت کے متعلق ذکر کیے ہیں۔ ان سب کو سیّد صاحب نے بڑی تفصیل سے لکھا ہے۔ میں اس وقت اس کتاب کے دو حوالے تحریر کروں گا یہ حوالے گرچہ ذرا طویل ہیں لیکن موضوعِ بحث پر بہت ہی واضح روشنی ڈالتے ہیں چنانچہ وہ کتابِ مذکور کے صفحہ ۱۲۴پر بعنوان ’سنسکرت سے ترجمے کا آغاز‘ تحریر فرماتے ہیں:
’’عربوں میں دوسری زبانوں سے علمی کتابوں کے ترجمہ کرانے کا خیال پہلی صدی ہجری کے وسط سے ہوچکا تھا، مگر چوں کہ اب تک حکومت کا مرکز شام تھا اس لیے یونانی و سریانی زبانوں کا غلبہ رہا لیکن جب عراق میں عباسی خلافت کا تخت بچھا تو ہندوستان اور ایران کی زبانوں کو بھی اپنے جوہر دکھانے کا موقع ملا۔ چنانچہ جب منصور کے علم دوستی کا چرچا پھیلا تو ۱۵۴ھ (۷۷۱ء) میں سندھ کے ایک وفد ڈیپوٹیشن کے ساتھ ہیئت اور ریاضیات کا ایک فاضل پنڈت سنسکرت کی سدھانت لے کر بغداد پہنچا۔ (کتاب الہند، بیرونی، ص۲۰۸، لندن) اور خلیفہ کے حکم سے دربار کے ایک ریاضی داں ابراہیم فزاری کی مدد سے اس نے اس کا ترجمہ عربی میں کیا‘‘۔ (اخبار الحکماء، قفطی، ص۱۷۷، مصر)
یہ پہلا دن تھا کہ عربوں کو ہندوستان کی قابلیت اور دفاع داری کا اندازہ ہوا۔ پھر ہارون نے اپنے علاج کے لیے یہاں سے وید بُلوائے جنھوں نے عربوں میں ہندوستان کی علمی عظمت اور بڑائی کی دھاک بٹھا دی۔ اس کے بعد برامکہ کی سرپرستی میں طب، نجوم، ہیئت اور ادب و اخلاق کی کتابوں کا ترجمہ سنسکرت سے عربی میں ہوا۔ اس نے ہندوستان کی شہرت اور نیک نامی کو اور چار چاند لگادیے‘‘۔
اسی کے بعد متّصلاً ’عربوں میں ہندوستان کی وقعت‘ کے عنوان سے ہندوستانیوں کے متعلق عربی کے مشہور انشاپرداز اور بہت سی کتابوں کے مصنف جاحظ کا قول نقل فرماتے ہیں:
’’لیکن ہندوستان کے باشندے تو ہم نے ان کو پایا ہے کہ وہ جوتش (نجوم) اور حساب میں بڑھے ہوئے ہیں اور ان کا ایک خاص ہندی خط ہے اور طب میں بھی وہ آگے ہیں۔ اور طب کے بعض عجیب بھید ان کو معلوم ہیں اور سخت بیماریوں کی دوائیں خاص طور سے ان کے پاس ہیں پھر مجسموں اور اسٹیچو بنانا، رنگوں سے تصویر پیدا کرنا اور تعمیر وغیرہ میں ان کو کمال ہے۔ پھر شطرنج کے وہ موجد ہیں جو ذہانت اور سوچ کا بہترین کھیل ہے۔ تلواریں عمدہ بناتے ہیں اور ان کے چلانے کے سب کرتب جانتے ہیں۔ زہر اتارنے اور درد دور کرنے کے منتر جانتے ہیں ان کی موسیقی بھی دل پسند ہے، ان کے ایک ساز کا نام کنکلہ ہے جو کدو پر ایک تار کو تان کر بجاتے ہیں اور جو ستار کے تاروں اور جھانجھ کا کام دیتا ہے۔ ان کے ہاں ہر قسم کا ناچ بھی ہے۔ ان کے ہاں مختلف قسم کے خط ہیں۔ شاعری کا ذخیرہ بھی ہے اور تقریروں کا حصّہ بھی ہے۔ طب، فلسفہ اور ادب و اخلاق کے علوم بھی ان کے پاس ہیں۔ انھیں کے ہاں سے ’کلیلہ دمنہ‘ کتاب ہمارے پاس آئی۔ ان میں رائے اور بہادری اور جو بعض خوبیاں ان میں ہیں چینیوں میں بھی نہیں۔ ان میں صفائی اور پاکیزگی کے بھی اصاف ہیں۔ خوبصورتی، نیک نیتی اور خوش قامتی اور خوشبوئی بھی ہے اور انھیں کے ملک سے بادشاہوں کے پاس وہ عود آتی ہے جس کی نظیر نہیں اور فکر کا علم انھیں کے پاس سے آیا ہے اور ان کو ایسے منتر معلوم ہیں جن کو یہ زہر پر پڑھ دیں تو زہر بیکار ہوجائے پھر نجوم کے، حساب کے وہی موجد ہیں۔ ان کی عورتوں کو گانا اور مردوں کو پکانا خوب آتا ہے۔ صرّاف اور روپے کے کاروبار کرنے والے اپنے پیسے اور خزانے ان کے سوا اور کسی کے حوالے نہیں کرتے جتنے (عراق میں) صرّاف ہیں سب کے ہاں خزانچی خاص سندھی کا لڑکا ہوگا کیوں کہ ان کو حساب و کتاب اور صرّافی کے کاموں سے فطری مناسبت ہے پھر یہ ایماندار اور وفادار ملازم بھی ہوتے ہیں‘‘۔
(رسالہ فخر السودان علی البیضان جاحظ، مجموعہ رسائل جاحظ، ص۸۱، مطبوعہ ۱۳۲۴ھ، مصر)
ان دو طویل حوالوں کے بعد اب میرے نزدیک دو تین اور ضروری باتیں ایسی رہ جاتی ہیں جن کا ذکر ضروری ہے۔
ہندوستانی علوم و فنون کے اسلامی مملکت میں داخل ہونے کا سب سے بڑا ذریعہ برامکہ ہیں اور جیساکہ یہ بات تحقیق سے معلوم ہوچکی ہے کہ یہ خاندان ہندی الاصل والنسل ہے اور بلخ کے مشہور معبد نوبہار کا اسلام لانے سے پہلے متولی اور منتظم رہا ہے اور یہ معبد بودھ مذہب والوں کا خراسان کے علاقے میں بہت بڑا مرکز تھا اس لیے برامکہ کو ہندوستان اور اس کے علوم و فنون کی اہمیت و نافعیت کا اچھی طرح علم تھا اور وقتاً فوقتاً مختلف مواقع سے ہندو علماء و فضلاء کو دربارِ خلافت میں بلائے جانے کی تقریب پیدا کرتا تھا۔ ہارون رشید کا چچازاد بھائی جب بہت بیمار ہوا ہے اور یونانی فنِ طب کے ماہرین اور اطباء نے مایوسی ظاہر کی ہے تو یحییٰ بن خالد برمکی کے مشورے سے ہندوستانی طبیب علاج کے لیے بلایا گیا اور اس کے علاج سے مریض تندرست ہوا اور یہ علاج اس بات کی تقریب ہوا کہ اس دارالترجمہ میں ہندی اور سنسکرت کی کتابوں کو عربی میں منتقل کرنے کی خدمت لی جائے۔ یحییٰ بن خالد برمکی نے ہندوستانی مذاہب پر ہندی مصنف سے کتاب لکھوائی، یہ کتاب اگرچہ اب ناپید ہے لیکن چوتھی صدی ہجری تک موجود رہی ہے اور ابن الندیم نے اپنی مشہور کتاب ’الفہرست‘ میں جو ۳۷۷ھ کی تصنیف ہے، اس کا خلاصہ نقل کیا ہے۔
بہلا ہندی، منکاہندی صالح بن بہلہ اور ابن دہن کے نام ان ہندی علماء اور فضلاء میں آتے ہیں جنھوں نے عربوں میں علم و ثقافت کو پھیلایا۔ صالح بن بہلہ وہی شخص ہے جس کو جعفر بن برمکی نے ہارون رشید کے چچازاد بھائی کے علاج کے لیے پیش کیا تھا جب کہ عیسائی طبیب جبرئیل بختشیوع نے مایوسی ظاہر کردی تھی۔ ابن دُہن، برامکہ کے قائم کردہ شفاخانے کا افسرِ اعلیٰ تھا۔ ان ناموں کا اصل ہندی تلفظ کیا ہے اور اصل ہندی میں یہ نام کیا ہیں اس کا پتا لگانا بہت مشکل ہوگیا ہے، ان ماہرین فضلاء کے نام عربی کتابوں سے حاصل کیے گئے ہیں اور ظاہر ہے کہ عربوں نے ان ناموں کو اپنے لہجے اور تلفظ کے مطابق بنانے کے لیے تبدیلی کی ہے۔ وہ خاص علوم جو براہِ راست مسلم عرب ثقافت میں ہندوستانیوں سے پہنچے ہیں ان کی تفصیل یہ ہے:
(۱) علم الحساب والاعداد جس کو غلطی سے علم الہندسہ کہا جاتا ہے (۲) علمِ نجوم و ہیئت۔ عربی علمِ نجوم و ہیئت میں بعض ہندی اصطلاحات آج تک رائج ہیں (۳) علمِ طب (۴) علم بیطاری یعنی جانوروں کے علاج کا علم (۵) زہروں کا علم (۶) موسیقی (۷) علم السیاسہ (۸) منتر، کرتب اور جادو (۹) کہانی اور افسانے اور اخلاق و حکمت ہیں۔
ان علوم و فنون پر مشتمل ہندی کتابوں کے ترجمے عربی زبان میں ہوئے اور ان کے مترجمین ہندوستانی تھے۔ میں صرف ایک واقعہ تحریر کرنا چاہوں گا کہ عباسی خلیفہ منصور کو پُرخوری کی وجہ سے سوئے ہضم کی شکایت ہوگئی تھی اور یونانی طب کے ماہرین اطبّاء اس کے علاج سے عاجز آگئے تھے، اس وقت اس کا علاج ہندوستانی طبیب نے کیا۔ ہندوستانی فضلاء کا ایک وفد ۱۵۴ھ میں منصور کے دربار میں آیا اور اس وفد میں فلکیات کا ایک بڑا ماہر ہندوستانی تھا اور اس کی اس فن کی مشہور کتاب ’سدھانت‘ تھی جو فلکیات کی اہم کتاب سمجھی جاتی ہے۔ منصور کے حکم سے اس کتاب کا عربی زبان میں ابراہیم بن حبیب فزاری نے ترجمہ کیا اور اسی کتاب کے اصول پر زیچ تیار کی گئی اور یہ کتاب وزیچ ہی مسلمانوں میں عہد مامونی تک معمول بہ رہی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈاکٹر جعفر احراری
ایسوسی ایٹ پروفیسر
شعبۂ اردو ذاکر حسین دہلی کالج
(دہلی یونی ورسٹی)
Leave a Reply
4 Comments on "اسلامی ثقافت کی تشکیل میں ہندوستانی ثقافت کے عناصر"
A very useful and informative article which fulfill all relavent information to readers. I like it.
http://persianpast.com/%D8%AA%DB%81%D8%B0%DB%8C%D8%A8-%D9%88-%D8%AA%D9%85%D8%AF%D9%86-%D9%BE%D8%B1-%D9%85%D8%AE%D8%AA%D8%B5%D8%B1-%D9%85%DA%AF%D8%B1-%D8%AC%D8%A7%D9%85%D8%B9-%D9%86%D9%88%D9%B9/
[…] اسلامی ثقافت کی تشکیل میں ہندوستانی ثقافت کے عناصر← […]
[…] اسلامی ثقافت کی تشکیل میں ہندوستانی ثقافت کے عناصر […]
MaShaAllah
Very useful article