اردو مرثیہ میں رزم نگاری
پروفیسرابن کنول
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اردو کی ابتدائی اور ارتقائی صدیوں میں جن اصناف کو نمایاں اہمیت حاصل رہی ہے اُن میں مرثیہ بھی شامل ہے۔ دکنی شاعری میں جس طرح مثنوی مقبول رہی مرثیہ کو بھی شعرا نے جذبات کے اظہار کا ذریعہ بنایا۔ یوں مرثیہ ہر وہ نظم ہے جس میں کسی کو بعد وفات یاد کیا جائے، لیکن کثرت سے واقعۂ کربلا کو نظم کرنے کی وجہ سے مرثیہ سے مراد عام طور پر وہی منظوم کلام ہوتا ہے جس میں حضرت امام حسینؓ کی شہادت کے سانحہ کو بیان کیا گیا ہو۔ یہ بات تاریخ کا حصہ ہے دہرانے کی ضرورت نہیں کہ امام حسینؓ میدانِ جنگ میں یزیدی لشکر کا مقابلہ کرتے ہوئے شہید ہوئے۔ میدانِ جنگ کے انہی چند روزہ واقعات کو تمام مرثیہ نگاروں نے نظم کیا ہے۔ مرثیوں میں حضرتؓ کی مکی اور مدنی زندگی کے واقعات کہیں نظر نہیں آتے۔ ظاہر ہے جب موضوع جنگ کا ہوگا تو بیان میں گھوڑوں کے دوڑنے، تلواروں کے چمکنے، نیزوں کے چلنے، تیروں کے لہرانے، زخمیوں کے گرنے اور لہو کے اُچھلنے کے مناظر ہی شامل ہوں گے، باقی تمام موضوعات صرف واقعات کو پھیلانے میں معاونت کریں گے۔
مرثیوں کا مطالعہ ہم مختلف جہتوں سے کرسکتے ہیں۔ ان میں انسانی رشتوں سے وابستہ جذبات کا اظہار بھی ہے، تہذیب کی مرقع نگاری بھی ہے اور فطرت کے مناظر بھی ہیں، لیکن مرکزی موضوع رزم کا بیان ہے۔ مرثیہ نگاروں نے رزمیہ کو جس مقام تک پہنچایا اس کی دوسری مثال اردو میں داستان امیر حمزہ یا بوستان خیال کے سوا کہیں نہیں ملتی۔ اردو میں رزمیہ کی مثال صرف مرثیوں اور داستانوں ہی میں نظر آتی ہے، لیکن دونوں میں بنیادی فرق یہ ہے کہ داستان میں متعدد بادشاہوں اور شاہزادوں کے لشکروں کے مابین جنگیں ہوئی ہیں، لیکن مرثیے میں ایک خاندان کے چند افراد ہزارہا سپاہیوں پر مشتمل لشکر سے برسرپیکار ہیں۔ داستانوں کی لڑائیاں مہینوں اور برسوں تک جاری رہتی ہیں لیکن مرثیہ کی جنگ صرف ایک دن کی جنگ ہے، اس کے باوجود مرثیہ نگاروں کی قوتِ بیان نے اس مختصر جنگ کو شاہنامہ کے بیانِ رزم کے مقابل لاکر کھڑا کردیا ہے۔ مرثیوں کی رزم نگاری کسی طرح ایلیڈ، اوڈیسی، رامائن یا مہابھارت سے کمتر نظر نہیں آتی۔
دراصل رزمیہ یا ایپک میں خیر و شر کی جنگ کو پیش کیا جاتا ہے، اس میں اچھے اور برے کردار صف آرا ہوتے ہیں، اچھے کرداروں کی فتح ہوتی ہے۔ کربلا کی جنگ دنیا کی واحد جنگ ہے جہاں امام حسین ہارکر بھی فاتح کہلائے اور یزیدی فوج کو جیت کر بھی ذلت ملی۔ مرثیوں میں واقعات کا بیان حضرت امام حسینؓ کی مدینہ سے روانگی سے شروع ہوتا ہے۔ اس سفر میں راستے کی دشواریاں بھی رزم ہی کا حصہ ہیں۔ پھر جب میدانِ کربلا میں یزیدی فوجیں انھیں پیش قدمی سے روک لیتی ہیں اور امام حسینؓ وہیں خیمہ زن ہوتے ہیں، فرات قریب ہونے کے باوجود انھیں پانی تک نہیں ملتا، عجیب بے بسی اور بے کسی کا عالم ہے۔ جنگ سے قبل ان واقعات کو بیان کرکے مرثیہ نگاروں نے جو فضاسازی کی ہے وہ جنگ کے بیان کو اور زیادہ دردناک بنادیتے ہیں۔ رزمیہ میں صرف فوجوں کا مقابل آنا، حملہ کرنا، تلواریں چلانا، گھوڑوں کا دوڑنا ہی شامل نہیں بلکہ اطراف کا ماحول، خیموں کی آراستگی، میدان جنگ کا موسم، گرمی کی شدت، رات کی ہولناکی غرضیکہ سپاہیوں کے احساسات و جذبات کا بیان بھی رزمیہ کا حصہ ہے۔ دراصل مرثیہ نگار اپنے بیان سے ایک ایسی فضا تشکیل کرتے ہیں جو سامعین کو میدانِ جنگ کا حصہ بنادیتی ہے۔ شاہنامہ کی روایت کو لے کر چلتے چلتے اردو کے مرثیہ نگار اُس سے آگے نکلتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔
یوں مرنے والے کے اوصاف حمیدہ کو بیان کرنے والی بیانیہ نظم مرثیہ کہلاتی ہے، لیکن اردو مرثیہ میں واقعات کربلا کی شمولیت کے بعد اس کی نہ صرف ہیئت میں تبدیلی آئی بلکہ اجزائے ترکیبی بھی متعین ہوگئے، یعنی چہرہ، سراپا، رخصت، آمد، رجز، ماجرا، جنگ، شہادت اور بین، مذکورہ اجزا ہی اس بات کو ظاہر کرتے ہیں کہ مرثیہ میں رزمیہ ہی کو فوقیت حاصل ہے۔ یہ اجزا میدانِ جنگ کا منظر بیان کرتے ہیں۔ چہرہ تمہید ہے جس میں جنگ سے قبل کی منظرکشی کی جاتی ہے۔ سراپا میں شہید کی شکل و شباہت اور شوکت و وجاہت کا بیان ہوتا ہے، جنگ کے لیے جاتے وقت کی وداعی کو ’’رخصت‘‘ کہا گیا ہے۔ میدانِ جنگ میں رعب و جلال کے ساتھ آنے کو ’’آمد‘‘ کا نام دیا گیا اور اپنے حسب و نسب، بزرگوں کے کارناموں کے بیان کو ’’رجز‘‘۔ جنگ پر آنے والے کارناموں کے بیان کو ’’ماجرا‘‘ کہا گیا، پھر ’’جنگ‘‘ شروع ہوتی ہے اور آخر میں ’’شہادت‘‘ کے بعد خیموں میں ’’بین‘‘ کا منظر ہوتا ہے۔ ان سب کا تعلق رزم سے ہے، اسی لئے مرثیہ کو رزمیہ نظم نگاری کا اعلیٰ نمونہ کہا جاتا ہے۔
مرثیوں میں داستانوں کی طرح مرکبان تیز رفتار کے دوڑنے، شمشیروں کے ٹکرانے اور نیزوں کے ٹوٹنے کی آوازیں ابتدا تا اختتام موقع بہ موقع سنائی دیتی ہیں۔ انیسویں صدی کے آخر تک کے مرثیہ نگار ان آلات حرب سے اچھی طرح واقفیت رکھتے تھے جو میدان کربلا کی جنگ کے وقت استعمال ہوئے ہوں گے، اسی لئے گزشتہ صدیوں کے مرثیہ نگاروں کے بیانِ رزم میں مشاہدہ کی صداقت نظر آتی ہے۔ بیشتر مرثیہ نگار لڑائی سے قبل شہدا کی تلواروں اور گھوڑوں کی بھی تعریف کرتے ہیں:
بانکی وہ اس کی وضع کہ دشمن کے دل کو بھائی
بے ساختہ زباں سے یہ نکلے کہ ہائے ہائے
تحریر خوں کی دھار پہ دیکھے تو جان جائے
معشوق پان کھاکے کبھی جیسے مسکرائے
جوہر دکھا دیئے تو ستم برملا کیا
گویا پری نے خندۂ دنداں نما کیا
(سید محمد ہادیؔ لکھنوی)
کچھ تھم کے یوں چلی وہ عدوکش قضا نظیر
سن سے نکل کے سخت کمانوں سے جیسے تیر
کھینچی چمک نے دور تک اک نور کی لکیر
جھنکار نے بلند کیا شور دار و گیر
اس چال پر نثار ہر اک حیلہ ساز تھا
اپنی ادا پہ خود بھی جفا جو کو ناز تھا
اﷲ ری جاں نظاریٔ و انداز دلبری
ہر جا تھا غل کہ تیغ کے پیکر میں ہے پری
مشہور تھی زمانہ میں اس کی ستم گری
اس پر بھی خونِ ناحق انساں سے تھی بری
پہلے تو سن سے رو میں سوئے حلق جھک گئی
مانگی اماں جو اس سے تو خط دے کے رک گئی
(شادؔ عظیم آبادی)
زمانۂ قدیم میں جنگوں میں گھوڑے کو خاص اہمیت حاصل تھی، اسی لئے مرثیوں میں گھوڑوں کی بھی تعریفیں بیان کی گئی ہیں:
پری ہے یا کہ چھلاوا ہے یا کہ باد سحر
کہ پیچھے گھوڑے سے رہتی ہے کوسوں تھک کے نظر
پکارے رومی و شامی کہ آتا ہے یہ کدھر
اِدھر ہے یا کہ اُدھر ہے، اُدھر ہے یا کہ اِدھر
دمِ خرام بہ عقل بشر نمی آید
چو روحِ جسم لطیفش نظر نمی آید
(راجہؔ بلوان سنگھ وائی بنارس)
رزمیہ بیان میں مبالغہ کو جائز قرار دیا گیا ہے۔ مرثیوں کے علاوہ دیگر داستانوں میں مافوق الفطرت عناصر کی شمولیت بیان میں حیرت استعجاب کی فضا تیار کردیتی ہے۔ جن، دیو اور طلسمی لڑائیاں بیان کو دلچسپ بنادیتی ہیں، لیکن مرثیوں کے رزمیہ بیان کا معاملہ مختلف ہے، یہاں بیان تاریخ کا حصہ ہے، سبھی کردار حقیقی ہیں اس لئے تخیل کی پرواز کو محدود رکھ کر الفاظ کی تپش سے بیان میں ایسا اثر پیدا کرنا ہوتا ہے کہ نہ صداقت کا دامن چھوٹے اور نہ شدت میں کمی آئے۔ وہی مرثیہ نگار کامیاب نظر آتا ہے جس کے پاس الفاظ کا خزانہ ہے اور جو ایک مضمون کو سو رنگ میں باندھنے کا ہنر جانتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایک دن کی لڑائی کا بیان برسوں لڑی گئی جنگوں کے بیان سے زیادہ پُراثر نظر آتا ہے۔ جیسا کہ میں نے پہلے عرض کیا رزم کا بیان صرف جنگ تک محدود نہیں بلکہ دیگر لوازمات بھی ہیں۔ مرثیہ نگاروں نے لڑائی سے قبل و بعد مختلف موضوعات کو مرثیہ کا حصہ بنایا ہے، یہاں ممکن نہیں کہ سب کو مثال کے لئے پیش کیا جائے۔ چند ایسی مثالوں پر اکتفا کروں گا جن سے یہ ثابت ہو کہ مرثیہ ہی رزم نگاری کا بہترین نمونہ ہے۔
حضرت عباس کی آمد کو بیشتر مرثیہ نگاروں نے بڑے پُرجوش اور پُرشکوہ الفاظ میں پیش کیا ہے۔
میر ضمیر کہتے ہیں:
غل ہے میدان میں کہ عباس علی آتے ہیں
اور شجاعانِ عرب رعب سے تھرّاتے ہیں
خوف آمد ہی میں بے جان ہوئے جاتے ہیں
طائر جان، قفس جسم میں گھبراتے ہیں
غل ہے اک شور ہے، طاقت نہیں گفتار کی ہے
آمد آمد پسر حیدر کرار کی ہے
مرزا دبیر لکھتے ہیں:
کس شیر کی آمد ہے کہ رن کانپ رہا ہے
رستم کا جگر زیر کفن کانپ رہا ہے
ہر قصر سلاطین زمن کانپ رہا ہے
سب ایک طرف چرخ کہن کانپ رہا ہے
شمشیر بکف دیکھ کے حیدر کے پسر کو
جبریل لرزتے ہیں سمیٹے ہوئے پر کو
ہے شور فلک کا کہ یہ خورشید عرب ہے
انصاف یہ کہتا ہے کہ چپ، ترک ادب ہے
خورشید فلک، پرتو عارض کا لقب ہے
یہ قدرت رب، قدرت رب، قدرت رب ہے
ہر ایک کب اس کے شرف و جاہ کو سمجھے
اس بندے کو وہ سمجھے جو اﷲ کو سمجھے
عرب کی جنگوں میں یہ طریقہ تھا کہ ابتدا میں جنگ مغلوبہ سے پہلے طرفین سے ایک ایک پہلوان لڑنے کے لئے نکل آتا تھا اور لڑائی سے قبل اپنا حسب نسب اور اپنی بہادری اور شجاعت کو بیان کرتا تھا۔ میر انیس قاسم کی رجز خوانی ان الفاظ میں کرتے ہیں:
بڑھ کر رجز یہ پڑھنے لگے قاسم جری
عالم میں کون ہے جو کرے ہم سے ہمسری
ہم حیدری ہیں ہم میں ہے زور غضنفری
ہم سے ہے اوجِ پایۂ اورنگ صفدری
شہرہ ہے حرب و ضرب شہ خاص و عام کا
سکّہ ہے شش جہت میں ہمارے ہی نام کا
انیسویں صدی میں جو مرثیے لکھے گئے ان میں جنگ کے مناظر کی تصویرکشی اس انداز سے کی گئی ہے کہ سننے والوں کے دلوں پر ہیبت طاری ہوجاتی ہے۔ میدانِ جنگ کا نقشہ، آلاتِ حرب کا بیان، حریفین کے تیور، ایک دوسرے پر حملے، شمشیرزنی، نیزہ بازی، سروں کا اُچھلنا، ہاتھ پیروں کا کٹ کٹ کر گرنا، چیخ و پکار، غرضیکہ یہ تمام مناظر مرثیے سننے یا پڑھنے کے بعد فلم کی طرح سامنے آجاتے ہیں۔ انیسؔ و دبیرؔ کے علاوہ دیگر مرثیہ نگاروں کے بیانِ رزم میں بھی شدّت و حدّت دکھائی دیتی ہے۔ دراصل اردو مرثیوں اور داستانوں کا عہد سیاسی زوال کا عہد تھا، لوگ تلوار کے نہیں زبان کے غازی بن کر رہ گئے تھے۔ داستانوں میں بادشاہوں اور شاہزادوں کی فتوحات اور مرثیوں میں اسلاف کے کارناموں کا بیان سن کر اپنی پیٹھ تھپتھپاتے تھے اور خوش ہوتے تھے۔ مرثیوں میں رزمیہ بیانات کو سن کر اپنی برتری کا احساس ہوتا تھا۔
داستانوں کے مقابلہ میں مرثیے اس لیے مبالغہ کے باوجود مقبول ہوئے کہ اس کے واقعات تاریخ کا حصہ تھے اور اس میں عقیدت شامل ہے، اسی لئے مرثیوں کو سن کر یا پڑھ کر دل رو دیتا ہے اور زبان گنگ ہوجاتی ہے اور اس کے پیچھے مرثیہ نگاروں کے بیان کی قوت کارفرما ہوتی ہے۔ مرثیہ نگار کے اس طرح کے بیانات دل دہلادینے اور جوش پیدا کرنے کے لئے کافی ہیں:
یک بہ یک طبل بجا فوج کے گرجے بادل
کوہ تھرّائے زمیں ہل گئی گونجا جنگل
پھول ڈھالوں کے چمکنے لگے، تلواروں کے پھل
مرنے والوں کو نظر آنے لگی شکل اجل
واں کے چاؤش بڑھانے لگے دل لشکر کا
فوجِ اسلام میں نعرہ ہوا یا حیدر کا
شور میداں میں تھا کہ دلیرو نکلو
نیزہ بازی کرو، رہواروں کو پھیرو، نکلو
نہر قابو میں ہے، اب پیاسوں کو گھیرو، نکلو
نمازیو! صف سے بڑھو، غول سے شیرو، نکلو
رستمو دادِ وفا دو کہ یہ دن داد کا ہے
سامنا حیدر کرّار کی اولاد کا ہے (انیسؔ)
وہ گرد میں نیزوں کی سنانوں کا جھلکنا
وہ دھوپ میں تلواروں کے قبضوں کا چمکنا
بجلی کی طرح سے وہ کمانوں کا کڑکنا
اُڑنا وہ پھر بہروں کا نشانوں کا لچکنا
اونچے جو کئے بڑھ کے علم اہل جفا نے
در کھولے جہنم کے، پھر پہروں کی ہوا نے
(نقش لکھنوی)
جنگ کے بیان میں بھی مرثیہ نگار فنّی حسن کو ملحوظ رکھتے ہیں، استعارات و تشبیہات سے بیان کو جاذبِ نظر بناتے ہیں:
تیغیں کھنچیں جو ابروؤں کی رن میں ناگہاں
بڑھ کر بلند کیں صف مژگاں نے برچھیاں
چلّہ بنی جو زلف تو ابرو بنے کماں
پلکوں کے لیس ہوگئے سب تیر و بے اماں
نیزہ لیا نگاہِ جلالت شعار نے
بیرق اٹھائی سرمۂ دنبالہ وار نے
(نقش لکھنوی)
کڑکیں وہ کمانیں وہ ہوا فوج کا کڑکا
تیغوں کی سفیدی تھی کہ تھا نور کا تڑکا
گہہ بجھ گیا خورشید کا شعلہ، کبھی بھڑکا
ہر دل کو ہلا دیتا تھا سر کٹنے کا دھڑکا
نعرے تھے کہ حیدر کے دلیروں سے دغا ہے
گھوڑے بھی بھڑکتے تھے کہ شیروں سے دغا ہے
دانتوں میں شجاعانِ عرب ڈاڑھیاں دابے
وہ صورتیں خونخوار، وہ گھوڑے دو رکابے
وہ گردنیں وہ سر تھے کہ معکوس قرابے
وہ آگ کے پتلے تھے تو شبدیز شتابے
خوش آلِ محمدؐ کا بہایا تو انھیں نے
سادات کے خیموں کو جلایا تو انھیں نے
(انیسؔ)
مرثیہ نگار اپنی قوت متخیّلہ اور مبالغہ آمیزی سے جنگ کے بیان کو اس طرح پیش کرتے ہیں کہ الفاظ جوش کھاتے ہوئے محسوس ہوتے ہیں۔ یہ مرثیہ نگاروں کی خوبی ہے کہ انھوں نے کربلا کے واقعات کے بیان کو تاریخیت کے ساتھ ساتھ ادبیت بھی عطا کی ہے۔ وہ انتہائی فنکاری سے شاعری کے فنی حسن کو برقرار رکھتے ہوئے آلات حرب کی بھی تفصیل بیان کرتا ہے اور جنگ مغلوبہ کی منظرکشی بھی کرتا ہے:
’’چار آئینہ‘‘ پر آئتیں مصحف کی تھیں مرقوم
قرآن کے وہ چار ورق ہوتے تھے معلوم
اور ایسی ’’زرہ‘‘ پہنے تھا وہ خاصۂ قیوم
ہر حلقہ پہ جو چشم ملک ہوتی تھی مفہوم
’دستانے‘ بھی وہ دست مبارک میں چڑھے تھے
جو دست یداﷲ میں خیبر میں چڑھے تھے
تھا ہاتھ میں نمازی کے وہ ’دستانہ شمشیر‘
جس میں نظر آتی تھی سدا فتح کی تصویر
اور ایسی ’سپر‘ باندھے تھا وہ صاحب توقیر
جس پر نہ کرے برق کی ’تلوار‘ بھی تاثیر
غارت کن کفارہ وہ بدلی تھی سپر کی
اور آتی تھی پھر اس سے مہک باغ ظفر کی
تھا قہر خدا ’نیزۂ‘ عباس دلاور
سوراخ اسی کے ہیں فلک پر، نہیں اختر
’بوڑی‘ سے تزلزل تھا سدا گاؤ زمیں پر
پرچم تھے فزوں عقد ثریا سے فزوں تر
تھی چوب میں ’نیزے‘ کی لچک برق سے افزوں
اور نوک میں اس کی تھی چمک برق سے افزوں
تھا حلقہ بگوش ایک جہاں اُس کی ’کماں‘ کا
پست اس نے کیا مرتبہ سب کاہکشاں کا
کس طرح نشاں دیجئے ’تیروں‘ کے نشاں کا
واں تک نہ ہو داخل کبھی وہم و گماں کا
جس وقت نکل آتے تھے قندیل سے وہ تیر
تھے تیز پری میں پر جبریل سے وہ تیر
(دلگیرؔ)
مذکورہ بندوں میں دلگیرؔ نے آلاتِ حرب کی تفصیل بیان کی ہے۔ مرثیہ نگار ہر ایک کے ہتھیاروں کی صفات علاحدہ علاحدہ بیان کرتا ہے۔ مرثیہ کے علاوہ شاید ہی کسی رزمیہ میں اتنا مفصل بیان ہو۔ جنگ مغلوبہ کے وقت مرثیوں میں جس قدر جوش اور ولولہ نظر آتا ہے وہ سامعین کے بھی حوصلے بلند کردیتا ہے اور جب بین کا وقت آتا ہے تو رقت طاری ہوجاتی ہے۔ میر خلیق عنو و محمد کی لڑائی کے منظر کو اس طرح نظم کرتے ہیں:
پاس پردے کے یہ زینب جو کھڑی دیکھتی تھی
عون و محمد نے وہاں تیغ کمر سے کھولی
نیزے لے لے کے وہیں فوج ستم ٹوٹ پڑی
برق آسا صف اعدا میں در آئے وہ جری
کشتوں کے پشتے لگے لاشوں پہ لاشے ڈالے
شام کے اَبر سے برسا دیئے خوں کے نالے
بڑے بھائی نے جسے دوڑ کے ماری تر وار
گر پڑا خاک پہ دو ہوکے یکایک وہ سوار
ان پہ آ جس نے کیا نیزہ و شمشیر کا وار
سامنے سے تھا سلامت، اُسے جانا دشوار
تیغ چھوٹے کی تھی جس شخص کے سر تک پہنچی
خود و چار آئینہ کو کاٹ کمر تک پہنچی
گر سواروں پہ گرے شام کے وہ برق اجل
سو یہ چمکی کہ گئے تنگ کے نیچے سے نکل
گھوڑے دابے ہوئے جاتے تھے ہراساں وہ دَل
خوف سے جانوں کے لشکر میں پڑی تھی ہلچل
شور تھا آج ہیں حیدر کے نواسے لڑتے
ایسے دیکھے ہیں کہیں بھوکے پیاسے لڑتے
(میر خلیقؔ)
مرزا فصیح مرثیوں میں رزم کے بیان پر بے پناہ قدرت رکھتے تھے، وہ اپنے مرثیوں میں جنگ کی تیاریوں کا نقشہ بھی کھینچتے ہیں اور لڑائی کے وقت لڑنے والوں کی نقل و حرکت کو بڑی خوبی سے نظم کرتے ہیں۔
یومِ جنگ پر تیاری کا منظر دیکھئے:
ان میں جس دم صبح عاشورہ عیاں ہونے لگی
لشکر شاہ شہیداں میں اذاں ہونے لگی
اس طرف تدبیر قتل بے کساں ہونے لگی
یاں نمازیں اور کمربندی وہاں ہونے لگی
طبل جنگی کی صدا جس دم سنی معصوم نے
تب لگے تلوار کا حیدر کی قبضہ چومنے
غازیوں نے اُٹھ کے باندھے زین گھوڑوں کو کسا
اسلحہ سجنے لگا ہر اک جوان مہ لقا
جمع ہوکر سامنے شبیر کے باندھا پرا
اپنے مولا سید مظلوم کو مجرا کیا
لے کے مجرا آخری ہر اک رفیق و یار کا
پھر ہوا اسوار بیٹا حیدر کرّار کا
کیا سواری کا کروں شبیر کے عالم بیاں
ہاتھ میں عباس غازی کے تو لشکر کا نشاں
دست راست اکبر علی اور دست چپ قاسم جواں
پیش و پس سارے بہادر بیچ میں شاہ زماں
اس طرح سرور کے تھے غازی وہ سارے آس پاس
چاند کے جیسے نکلتے ہیں ستارے آس پاس
اور میدانِ جنگ کا بیان انیسؔ نے یوں کیا ہے:
صف پر صفیں، پروں پہ پرے پیش و پس گرے
اسوار پر سوار، فرس پر فرس گرے
اُٹھ کر زمیں سے پانچ جو بھاگے تو دس گرے
مخبر یہ پیک، پیک پہ مرکر عسس گرے
ٹوٹے پڑے شکست بنائے ستم ہوئی
دنیا میں اس طرح کی بھی رفتار کم ہوئی
چاروں طرف کمانِ کیانی کی وہ ترنگ
رہ رہ کے ابر شام سے وہ بارش خدنگ
وہ شور صیحۂ فرق اہلق و سرنگ
وہ لُوں، وہ آفتاب کی تابندی، وہ جنگ
پھنکتا تھا دشت کیں، کوئی دل تھا نہ چین سے
اس دن کی تاب و تب کوئی پوچھے حسین سے
گھوڑے کی وہ تڑپ، وہ چمک تیغ تیز کی
سو سو صفیں کچل گئیں جب جست و خیز کی
لاکھوں میں تھی نہ ایک کو طاقت ستیز کی
تھی چار سمت دھوم گریزا گریز کی
آری جو ہوگئیں تھیں وہ سب ذوالفقار سے
تیغوں نے منہ پھرا لیے تھے کارزار سے
لشکر میں اضطراب تھا فوجوں میں کھلبلی
ساونت بے حواس، ہراساں دھنی، بَلی
ڈر تھا کہ لو، حسین بڑھے، تیغ اب چلی
غل تھا، اِدھر ہیں مرحب و عنتر اُدھر علی
کون آج سربلند ہو اور کون پست ہو
کس کی ظفر ہو، دیکھیے کس کی شکست ہو
جیسا کہ پہلے بیان کیا جاچکا ہے کہ رزمیہ میں جنگی معرکوں کا بیان تو ہوتا ہے لیکن اس خیر و شر یا حق و باطل کی جنگ کے بیچ اخلاقیات کا درس اور جذبات کی ترجمانی بھی شامل ہوتی ہے۔ مرثیوں میں یہ تمام پہلو نمایاں نظر آتے ہیں جن کا ذکر اس مختصر مضمون میں ممکن نہیں۔ مذکورہ چند مثالوں سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ اردو مرثیہ دیگر اصناف کے مقابلے میں رزمیہ نظم نگاری کا اعلیٰ نمونہ ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پروفیسرابن کنول
صدر،شعبۂ اردو،دہلی یونیورسٹی،دہلی
Leave a Reply
2 Comments on "اردو مرثیہ میں رزم نگاری"
[…] اردو مرثیہ میں رزم نگاری […]
[…] اردو مرثیہ میں رزم نگاری […]