اقبال اور تصوف – تطبیق کا مسئلہ
ڈاکٹر طاہر حمید تنولی
…………………………………………………………………
اقبال اور تصوف ایک ایسا موضوع ہے جس پر بہت لکھا گیا ہے۔اس موضوع پر بات کرنے والوں میں دونوں طرح کے موقف کے حاملین شامل ہیں۔ یہ بھی لکھا گیا کہ اقبال کا تصوف سے تعلق ہی نہیں ہے بلکہ اقبال نے تو تصوف کو اسلام کی سر زمین پر ایک اجنبی پودا قرار دیا ہے(۱)، حالانکہ یہ بات ایک مغالطے پر مبنی ہے، علامہ نے ایسا کبھی نہیں کہا،(۲) اور یہ کہ علامہ نے تصوف کو ہی ان تین بنیادی عوامل میں سے ایک قرار دیا جو مسلمانوں کی اجتماعی زندگی کے زوال کا باعث بنے: یہ عوامل ملوکیت ، ملائیت اور تصوف ہیں۔(۳) بال جبریل میں علامہ نے فرمایا:
کسے خبر کہ سفینے ڈبو چکی کتنے
فقیہ و صوفی و شاعر کی ناخوش اندیشی(۴)۔
لیکن اس کے ساتھ ایک موقف یہ بھی ہے کہ اقبال کا نہ صرف تصوف سے تعلق ہے بلکہ اقبال خود بھی ایک صاحب حال صوفی ہیں اور اس کے لیے بھی ہمارے پاس اقبال کی زندگی ، اقبال کے علمی آثار اور شاعری میں بیسیوں شواہد موجود ہیں۔
جب تصوف کی بات ہوتی ہے تو ہمارے سامنے تصوف کی تین جہات آتی ہیں۔ تصوف کا ایک پہلو تعمیر اخلاق ہے یعنی تصوف کا مقصود انسانی شخصیت میں اخلاقی اوصاف و محاسن پیدا کرنا ہے جیسا کہ تصوف کی امہات الکتب اور صوفیہ کی تعلیمات سے ظاہر ہے۔ دوسری جہت میں تصوف ماورائے حواس حقائق کے مشاہدے کا وہ منہج ہے جس کے ذریعے وہ دینی حقائق جو عام آدمی کے لیے صرف معلومات کی حیثیت رکھتے ہیں صوفی کے لیے مشاہدہ بن جاتے ہیں۔ یہ وہی جہت ہے جس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے مولانا روم فرماتے ہیں کہ عالم اور دانش ور آثار قلم پر سفر کرتا ہے جبکہ صوفی اور صاحب حال آثار قدم سے رہنمائی لے کرسفر کرتا ہے۔ تصوف کی تیسری جہت وہ ہے جہاں یہ ایک نظام فکر اور تعبیر کائنات کے ایک اصول کے طور پر سامنے آتا ہے۔ اقبال کے ہاں تصوف کی نوعیت کیا ہے اور اقبال تصوف کے کس پہلو کو اہمیت دیتے ہیں اور کس پہلو کو نظر انداز کرتے ہیں یہ بات بڑی قابل غور ہے۔
کیا اقبال کا تصوف سے تعلق ہے؟ یہ ایسی کھلی حقیقت ہے جس کا کسی بھی صورت انکار نہیں کیا جا سکتا۔ سید سلیمان ندوی کے نام ایک خط میں علامہ فرماتے ہیں کہ میرا تعلق سلسلہ قادریہ سے ہے اور میں شیخ عبد القادر جیلانی کے سلسلہ میں بیعت ہوں۔(۵) گویا یہ اقبال کی اپنی تحریر ہے جو ہمیں تصوف سے اقبال کی وابستگی کے بارے میں معلومات فراہم کرتی ہے۔ اقبال نے اپنے افکار کے ابلاغ کے لیے بھی تصوف کو ایک وسیلہ اور ذریعہ بنایا۔ تصوف کی اکثرلفظیات ہمیں اقبال کے کلام اور شاعری میں نظر آتی ہے۔ بال جبریل ہی کو لیں اس کا پہلا شعر ہی توضیح کے لیے ہمیں تصوف کی طرف متوجہ کرتا ہے۔
میری نوائے شوق سے شور حریمِ ذات میں
غلغلہ ہائے الاماں بت کدہ صفات میں(۶)۔
اقبال کے کئی اشعار ایسے ہیں جن کی توضیح و تشریح کے لیے ہمیں تصوف کی طرف رجوع کرنا پڑتا ہے اور پھر اقبال نے اپنی بنیادی اقدار اور آئیڈیلز کو بھی تصوف سے اخذ کیا اور ہمارے سامنے رکھا ہے جیسا کہ علامہ فرماتے ہیں:
شوکت سنجر و سلیم تیرے جلال کی نمود
فقر جنید و بایزید تیرا جمال بے نقاب(۷)۔
اقبال تصوف کو دین کی حقیقت تک رسائی کا ذریعہ سمجھتے ہیں:۔
پس طریقت چیست اے والا صفات
شریعت را دیدن در اعماق حیات(۸)۔
صوفیہ سے اقبال کا تعلق اقبال کی زندگی کے کئی واقعات سے ہمارے سامنے آتا ہے۔ حضرت مجدد الف ثانی کے مزار پر حاضری، مولانا روم کی رہنمائی میں روحانی سفر جو جاوید نامہ کی صورت میں ہمارے سامنے آتا ہے صوفیہ کے ساتھ اقبال کے تعلق کو بیان کرتا ہے۔ اس لیے علامہ اقبال ایک جگہ فرماتے ہیں:
شنیدم آں چہ ز پاکان امت
ترا بہ انداز رندانہ گفتم(۹)۔
تصوف کے باب میں اقبال کا امتیازی حوالہ یہ ہے کہ اقبال نے تصوف کو دینی حقائق سے آگہی اور شناسائی کا ایک وسیلہ قرار دیا ہے۔ خطبات اقبال اقبال کی فکر کی بنیادی تصنیف ہے۔ ریکنسٹرکشن آف ریلیجیس ٹھاٹس میں اقبال کے فلسفیانہ افکار ہمیں ایک ایسی منظم صورت میں ملتے ہیں جو فرد کی انفرادی اور قوم کی اجتماعی اور تہذیبی زندگی کا احاطہ کرتے ہیں۔ یہاں اقبال نے دو خطبات کا موضوع ہی مذہبی تجربہ یا اس کے متعلقات کو بنایا ہے۔ مذہبی تجربہ یا تصوف کے بغیر ایک امر محال ہے۔(۱۰)۔
خطبات کے دیباچے میں علامہ فرماتے ہیں کہ اس میں شبہ نہیں کہ تصوف کے صحیح مکاتب نے اسلام میں مذہبی تجربے کے ارتقاء کی سمت کو درست کرنے اور اس کی صورت گری کے سلسلے میں نمایاں کام کیا ہے، مگر ان مکاتب کے بعد کے دور کے نمائندے جدید ذہن سے لاعلم ہونے کی بنا پر اس قابل نہیں رہے کہ نئے فکر اور تجربے سے کسی قسم کی تازہ تخلیقی تحریک پا سکیں۔ وہ انہی طریقوں کو جاری رکھے ہوئے ہیں جو ان لوگوں کے لئے وضع کئے گئے تھے جن کا ثقافتی نقطہ نظر کئی لحاظ سے ہمارے نقطہ نظر سے مختلف تھا۔قرآن کہتا ہے کہ ’’تمہاری تخلیق اور قیامت کے دن دوبارہ اٹھایا جانا ایک نفس واحد کی تخلیق و بعثت کی طرح ہے‘‘۔ حیاتیاتی وحدت کا زندہ تجربہ جو اس آیت میں بیان ہوا ہے آج ایسے منہاج کا تقاضا کرتا ہے جو موجودہ دور کے ٹھوس ذہن کے لیے عضویاتی طور پر کم شدت رکھتا ہو مگر نفسیاتی لحاظ سے زیادہ موزوں ہو۔(۱۱)۔
اب یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جس تصوف کی علامہ بات کر رہے ہیں اور جو آج کے ذہن کے لیے اور آج کے دور کے لیے مذہبی تجربے کو یقینی بنائے اس کی صورت کیا ہو؟ یہاں ہمیں ایک ایسے التباس اور مشکل کا سامنا کرناپڑتا ہے جس سے گزرے بغیر ہم اس عقدے کو حل نہیں کر سکتے۔ اقبال کی فکر تصور خودی پر استوار ہے۔ وہ اپنے آپ کو سر الوصال کی بجائے سرالفراق کہتے ہیں جیسا کہ خواجہ حسن نظامی کے نام علامہ کی تحریروں میں یہ بات آئی ہے اور دوسری طرف اقبال صوفیانہ تصورات اور تصوف کے بنیادی اور کلیدی اصولوں کی تفہیم کے لیے صوفیہ کی طرف ہی رجوع کرتے ہیں۔
علامہ اکابر صوفیہ سے ہی متاثر ہو کر مرد کامل کا تصور اخذ کرتے ہیں۔ سید عبدالواحد معینی نے ’’مقالاتِ اقبال‘‘ میں ایک دلچسپ مکالمہ کے عنوان سے محمد دین فوق سے علامہ کا ایک مکالمہ نقل کیا ہے۔ اس میں علامہ فرماتے ہیں:
میرا خیال ہے کہ وہ پاک نفوس جن کو اﷲ تعالی نے خاص دل و دماغ عطا کیا ہے اور تزکیہ نفس میں صاحب کمال ہیں تیر از کمان رفتہ اور آب از جو رفتہ واپس لاسکتے ہیں۔(۱۲)۔
اقبال کے علمی آثار میں تصوف کے بارے میں بیسیوں بکھرے ہوئے نکات اور حقائق کے ساتھ ساتھ ایک منظم اور مربوط تحریر گلشن راز جدید ہے جو ہمیں اس حقیقت سے آشنا کرتی ہے کہ اقبال تصوف کے بنیادی اصول اور تصورات کی تفہیم کے لیے اکابر صوفیہ کی تعلیمات سے استفادہ کرتے ہوئے آگے بڑھتے ہیں۔
علامہ کی تصنیف گلشن راز جدید سے پہلے گلشن راز کا تذکرہ ضروری ہے جو محمود شبستری نے لکھی اور اس طرح لکھی کہ ایک مرتبہ جب وہ اپنے شیخ سے ملنے کے لیے آئے تو ان کے شیخ کے پاس کوئی سائل بیٹھا تھا جو کچھ سوالات لے کر آیا تھا۔ ان کے شیخ نے سائل کو جوابات کے لیے محمود شبستری کے سپرد کیا۔ محمود شبستری اپنے شیخ کے حکم کی تعمیل میں سائل سے سوالات سنتے گئے اور اسی وقت ان سوالات کے جوابات لکھواتے گئے اور یہ جوابات شعری شکل میں تھے۔سائل کے کیے گئے پندرہ سوالات کے جوابات جب مکمل ہوئے تو یہ گلشن راز کی صورت میں ایک کتاب کی شکل میں ڈھل چکے تھے۔ انہی پندرہ سوالات میں سے علامہ نے گیارہ سوالات کو اٹھایا اور ان کا بہ اندازِ جدید جواب دیتے ہوئے گلشن راز جدید تصنیف کی جس میں علامہ نے کئی حوالوں سے ان سوالات کے جوابات گلشن راز سے مختلف انداز میں دیئے۔ یہاں صرف ایک سوال کے جواب میں سے کچھ اشعار بطور حوالہ پیش کیے جاتے ہیں۔ یہ گلشن راز کا بارہواں اور گلشن راز جدید کا چوتھا سوال ہے۔سوال یہ ہے:
قدیم و محدث از ہم چوں جدا شد
کہ ایں عالم شد آں دیگر خدا شد(۱۳)۔
قدیم اور محدث ایک دوسرے سے کیسے جدا ہوئے، کہ محدث جہان بن گیا اور قدیم خدا رہا۔
اس سوال کا جواب دیتے ہوئے محمود شبستری فرماتے ہیں:
قدیم و محدث از ہم جدا نیست
کہ از ہستی است، باقی دائما نیست
ہم آں است و ایں مانند عنقا است
جز از حق جملہ اسمے بے مسما است
عدم موجود گردد ایں محال است
وجود از روی ہستی لا یزال است
جہاں خود جملہ امر اعتباری است
چو آں نقطہ کاندر دور ساری است
یکی گر در شمار آید بہ ناچار
نگردد واحد از اعداد بسیار
حدیث ما سوی اﷲ رہا کن
بہ عقل خویش ایں را زآں جدا کن
چو شک داری در آں کایں چوں خیال است
چو با وحدت دویی عین ضلال است
عدم مانند ہستی بود یکتا
ہمہ کثرت ز نسبت گشت پیدا
وجود ہر یکے چوں بود واحد
بہ وحدانیت حق گشت شاہد(۱۴)۔
قدیم اور محدث ایک دوسرے سے جدا نہیں ہیں۔ کہ یہ تو ہستی سے ہی موجود ہیں اس کے علاوہ اسے بقا نہیں ہے۔
سب کچھ وہی ہے۔ اور یہ تو نہ ہونے کے برابر ہے۔ حق کے علاوہ جو کچھ بھی ہے صرف نام ہی نام ہے اس کے علاوہ کچھ نہیں۔
عدم کا باوجود ہو جانا ایک امر محال ہے۔ بروئے ہستی وجود کو زوال نہیں۔
یہ تمام جہاں محض ایک اعتباری وجود ہے۔ اس کی مثال ایسے ہی ہے جیسے ایک نقطہ حرکت کے باعث ایک دائرہ نظر آتا ہے۔
اگر ایک کسی وجہ سے شمار میں آنے لگے تو بہت اعداد کے باعث وحدت کثرت میں نہیں بدلتی۔
’ما سوی اﷲ باطل‘ کی حدیث کے مفہوم کو سمجھ اور اپنی فہم میں اسے اس سے الگ اور ممتاز جان۔
اگر تجھے اس میں کچھ شک در آئے کہ یہ صرف خیال ہے تو جان لے کہ وحدت کے ساتھ دوئی کا تصور کھلی گمراہی ہے۔
ہستی کی طرح عدم بے مثال ہے کثرت کا یہ سارا منظر صرف نسبت کے باعث پیدا ہوا ہے۔
چونکہ وجود صرف وجود واحد ہے، وحدانیت پر تو خود حق گواہ ہے۔
علامہ گلشن راز جدید میں اس سوال کا جواب یوں دیتے ہیں:
خودی را زندگی ایجاد غیر است
فراق عارف و معروف خیر است
از و خود را بریدن فطرت ما است
تپیدن نارسیدن فطرت ما ست
نہ مارا در فراق او عیارے
نہ او را بے وصال ما قرارے
نہ او بے ما نہ ما بے او! چہ حال است
فراق ما فراق اندر وصال است
جدائی خاک رابخشد نگاہے
دہد سرمایہ کوہے بہ کاہے
جدائی عشق را آئینہ دار است
جدائی عاشقاں را سازگار است
من و او چیست؟ اسرار الہی است
من و او بر دوام ما گواہی است
بخلوت ہم بجلوت نور ذات است
میان انجمن بودن حیات است
گہے از سنگ تصویرش تراشیم
گہے نادیدہ بر وے سجدہ پاشیم
چہ سودا در سر ایں مشت خاک است
ازیں سودا درونش تابناک است
خودی را تنگ در آغوش کردن
فنا را با بقا ہم دوش کردن
بہ بحرش گم شدن انجام ما نیست
اگر او را تو در گیری فنا نیست
خودی اندر خودی گنجد محال است
خودی را عین خود بودن کمال است(۱۵)۔
تخلیق، خودی کی زندگی کا تقاضا ہے، عارف و معروف کا فرق خیر کا بعث ہے۔
اپنے آپ کو اﷲ تعالی سے جدا رکھنا، تڑپنا اور (مقصود تک ) نہ پہنچنا ہماری فطرت ہے۔
نہ اس کے فراق سے ہماری قدر وقیمت (کم ہوتی)، نہ اسے ہمارے وصل کے بغیر قرار ہے۔
نہ وہ ہمارے بغیر، نہ ہم اس کے بغیر۔ یہ کیا صورت حال ہے؛ ہمار فراق، فراق اندر وصال ہے۔
جدائی آدم خاکی کو نگاہ عطا کرتی ہے، یہ تنکے کو پہاڑ کی سطوت عطا کرتی ہے۔
جدائی عشق پیدا کرنے کا سبب بنتی ہے، جدائی عاشقوں کو راس آتی ہے۔
’’میں‘‘ اور ’’وہ‘‘ کیا ہیں؛ اﷲ تعالی کے اسرار ہیں، میرا اور اس کا الگ الگ وجود ہمارے دوام کا ثبوت ہے۔
خلوت اور جلوت دونوں جگہ ذات باری تعالی کا نور ہے، انجمن میں ہونا ہی زندگی ہے۔
کبھی ہم پتھر سے اس کی تصویر تراشتے ہیں اور کبھی اسے دیکھے بغیر سجدے کرتے ہیں۔
مشت خاک کے سر میں یہ کیا سودا سمایا ہے؟ اسی سودا سے تو اس کا اندرون روشن ہے۔
خودی کو پوری طرح اپنا لینا، گویا فنا اور بقا کو اکٹھا کردینا ہے۔
اﷲ تعالیٰ کے بحر میں گم ہو جانا ہمارا انجام نہیں ہے، اگر تو اسے اپنا لے، تو پھر تیرے لیے فنا نہیں۔
خودی کا خودی میں سما جانا محال ہے، خودی کا اپنا آپ بننا ہی اس کا کمال ہے۔
ان دونوں جوابات کے مفہوم میں فرق اور تفاوت عیاں ہے۔ یہاں یہ امر واضح ہو جاتا ہے کہ علامہ کی فکر کا بنیادی نکتہ تصورِ خودی ہے۔ خودی کی تعمیر، دریا میں رہتے ہوئے بطور گوہر اپنی انفرادیت کو باقی رکھنا اور اس انفرادیت کو باقی رکھتے ہوئے ارتقا کی منزلوں کو طے کرنا اس تصور کا ایک بنیادی خاصہ ہے۔ جبکہ دوسری طرف اگر ہم صوفیہ کی تعلیمات اور خود گلشن راز کی تعلیمات کو دیکھیں تو ان سے مراد اپنی ہستی کو من حیث الکل ہستیِ مطلق میں فنا کرنا ہے اور فنا کا یہ عمل ایک ایسا مکمل اور مسلسل عمل ہے کہ اس کے نتیجے میں حق کی ہستی کے مقابل سالک کی ہستی کوئی وجود نہیں رکھتی۔ جیسا کہ عطار نے کہا:
تو مباش اصلاً کمال ایں است و بس
تو ز تو گم شو وصال ایں است و بس(۱۶)۔
اصل کمال یہ ہے کہ تو باقی نہ رہے اور تو اپنے آپ سے گم ہو جا کہ وصال یہی ہے۔
اقبال اور تصوف پر لکھنے والے اکثر مصنفین نے بھی اس الجھن کے حل کو مرکز توجہ نہیں بنایا۔ ڈاکٹر ابو سعید نور الدین کی کتاب ’’اسلامی تصوف اور اقبال ‘‘ اس موضوع پر بنیادی کتاب ہے۔ اس میں انہوں نے ’علامہ اقبال اور مسلک تصوف‘ کے عنوان سے ایک باب قائم کیا ہے (۱۷) اس باب میں انہوں نے اقبال کے مسلک تصوف سے متعلق مختلف نکات مثلاً مولانا روم سے اقبال کا تعلق اور عقیدت (۱۸) اقبال کے نزدیک مرشد سے تعلق اور وابستگی کی اہمیت (۱۹) اقبال کے سلسلۂ قادریہ سے تعلق (۲۰) اور اقبال کی اپنے فرزند آفتاب اقبال کو کسی سلسلہ طریقیت میں مرید کروانے کی خواہش کا ذکر کیا ہے۔(۲۱) مگر اس مسئلے کے حل کا کوئی تذکرہ نہیں جو اس تحریر میں ہمارا موضوع ہے۔
اسی موضوع پر ڈاکٹر ابواللیث صدیقی نے ایک کتاب ’’ اقبال اور مسلک تصوف‘‘ کے عنوان سے لکھی۔ انہوں نے بھی اس کتاب میں ’اقبال اور مسلک تصوف ‘ کے عنوان سے ایک باب شامل کیا۔ اس باب میں اقبال کے تصوف سے متعلق مختلف افکار اور متعلقات کو موضوع بنایا گیا ہے۔ مثلاً مولانا روم سے اقبال کا تعلق (۲۲) عقل و عشق کا موازنہ (۲۳) تصور فقر(۲۴) اور قرب الٰہی(۲۵) وغیرہ۔ جب مولانا روم سے اقبال کے تعلق کا ذکر آیا تو ڈاکٹر صاحب نے لکھا کہ اقبال نے روم سے یہ نکات اخذ کیے:
انسان یعنی مرد کامل یا مرد مومن کی تلاش،
سست عناصر ہمراہیوں سے بیزاری،
جلال و جمال – یعنی طاقت و رعنائی کے مثالی کرداروں کی آرزو اور سعی مسلسل (۲۶)۔
پورے باب میں جہاں دیگر تفصیلات موجود ہیں اس الجھن کا کوئی حل نہیں ملتا کہ اکابر صوفیاء کے طرز فکر اور علامہ کے نقطہ نظر میں تفاوت کا حل کیا ہے۔ تاہم علامہ کے ملفوظات کے حوالے سے ڈاکٹر سعید اﷲ کا بیان کردہ علامہ کا یہ بیان اس باب میں نظرآتا ہے۔
انا الحق کے معنی یہ نہیں کہ میں خدا ہوں بلکہ اس کو یوں سمجھنا چاہیے کہ انا ہی اصل چیز ہے۔ بندہ اگر خدا میں گم ہو گیا تو اس نے اپنی ہستی مٹا دی۔(۲۷)
یہ بیان اس تفاوت اور بعد کو نمایا ں کر رہا ہے۔ جو اکابر صوفیا اور علامہ کی فکر میں ہے ۔ ’اقبال اور تصوف ‘کے عنوان سے ہی ایک وقیع کتاب پروفیسر آل احمد سرور کی ہے۔ اس کتاب کا امتیاز یہ ہے کہ اس موضوع پر اس کتاب میں نامور اہل علم اور اقبال شناسوں کی تحریریں جمع کر دی گئی ہیں۔ ان میں یہ اہل علم شامل ہیں:
مولانا سعید احمد اکبر آبادی، پروفیسر پی این پشپ، کمال احمد صدیقی، جگن ناتھ آزاد، مفتی جلال الدین، ڈاکٹر حامد کاشمیری ،قاضی غلام محمد، ڈاکٹر عالم خوندمیری، محمد یوسف ٹینگ، میکش اکبر آبادی، ڈاکٹر فصیح احمد کمالی۔(۲۸)
تاہم یہ کتاب بھی ہمیں درپیش مسئلے کا کوئی جواب فراہم نہیں کرتی۔
چونکہ ہم نے بطورمثال محمود شبستری کی گلشن راز اور گلشن راز جدید سے ایک مثال دی ہے۔ دونوں کے فکری بعد کا تذکرہ کرتے ہوئے محمد بقائی ماکان لکھتے ہیں:
شبستری کا مقصود یہ ہے کہ: عارف واقعی کسی است کہ ہمہ ہستی و وجود خود در برابر خدا در باز دو بہ این ترتیب خود را پاک گرداند۔ در ایں صورت فقط اوی تو اند بہ سر وحدت واقف شود وتنھا اوست کہ بہ وحدت باو پروردگار نائل می آید و حقیقت وحدت وجود را درمی باید
چوں ذاتت پاک گردد از ھم شین
نمازت گرد و آنگہ قرۃ العین
نماند درمیانہ ہیچ تمیز
شود معروف و عارف جملہ یک چیز
از دید گاہ اقبال عرفان راستین آن است کہ ایں جہان راگذران و در معرض فنا و زوال می بیند:
جہان یکسر مقام آفلین است
دریں غربت سرا عرفان ہمیں است
ولی درمیان این پدیدہ کلی مرگ، فقط ’’من‘‘ بشری است کہ از تلاشی و فنا مبرا و فراتر از آن است …… ’من‘ در مرحلہ نہائی در وجود مطلق محو وزائل نمی شود بلکہ از او باقی می ماند و فردیت خود را نگاہ می داررد‘‘(۲۹)۔
یعنی علامہ تشکیل کردار اور تعمیر ذات کی اسی منزل کی طرف بڑھنا چاہتے ہیں جس کی طرف صوفیہ نے رہنمائی کی مگر اس کے لیے وہ طریق اختیار نہیں کرتے جو اکابر صوفیہ کا طریق ہے۔ اگر اکابر صوفیہ کی تعلیمات کو دیکھیں تو ان آج بھی سے وہ رہنمائی میسر آتی ہے جس کو پیش نظر رکھتے ہوئے ہم آج کے دور کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے تصوف کا وہ منہج وضع کر سکتے ہیں جس کی ضرورت اقبال نے خطبات کے دیباچے میں بیان کی ہے۔ اکابر صوفیہ کا یہ قول اس سے بہت متعلق ہے۔
اللھم کمل اوقاتی وتمم اناتی بحیث تخالصہ عن تشویشات خطراتی ووساوس خناسی(۳۰)۔
اے اﷲ میرے اوقات کو کامل اور میرے انات کو اتمام یافتہ فرما دے اس طرح کہ میرے احوال کی تشویش اور میرے خناس کے وساوس کو اپنے لیے خالص کر دے۔
یہاں اگر ہم اس قول کا تجزیہ کریں تو انسانی فکر اور ارتقا کا وہ راستہ ہمارے سامنے آتا ہے جس کو طے کرنے کے لیے آج کے علوم خصوصاً نفسیات، جینٹکس اور جدید فزکس بڑی حد تک (ہماری)معاونت کرتے ہوئے نظر آتے ہیں اور اس منہج کو اختیار کرتے ہوئے ہم اس تصوف کا وہ طریق وضع کر سکتے ہیں جو آج کے ذہن کی ضروریات کو بھی پورا کرتا ہو، دینی حقائق کو ایک حقیقت کے طور پر بھی ہمارے سامنے لاتا ہو، غیر محسوس حقیقتوں کو ہماری زندگی کے محسوس حقائق بھی بناتا ہو اور اس مذہبی تجربے کی طرف بھی ہمیں رہنمائی کرتا ہو جس کا تذکرہ ہمیں اقبال کے پہلے دو خطبات میں ملتا ہے لیکن اس تک پہنچنے کا راستہ اقبال ہی کا ایک قول ہے۔علامہ نے ریکنسٹرکشن ۔۔۔ کے دیباچے ہی میں کہا کہ جوں جوں علم آگے بڑھتا ہے اور فکر کے نئے اْفق کھلتے چلے جاتے ہیں اس امر کا امکان ہے کہ شاید کتنے ہی دوسرے نظریات، ان خطبات میں پیش کئے گئے خیالات سے بھی زیادہ محکم ہوں جو آئندہ ہمارے سامنے آتے رہیں گے۔ ہمارا فرض یہ ہے کہ ہم فکر انسانی کے ارتقا پر بڑی احتیاط سے نگاہ رکھیں اور اس کی جانب ایک بے لاگ تنقیدی رویہ اپنائے رکھیں۔(۳۱)۔
ہمارے سامنے اقبال کی تمنا بھی ہے، آرزو بھی ہے، اقبال کا دیا ہوا معیار بھی ہے اور وہ امکان بھی کہ جس کے ذریعے سے ہم اقبال کی آرزو کو تصوف کا جدید منہج وضع کرتے ہوئے پورا کر سکتے ہیں۔ وہ منھج جو اقبال کی آرزو کو پورا کرنے کا باعث بھی ہو ، آج کے دور کے سوالات کا جواب بھی ہو اور ہماری زندگی میں اکابر صوفیہ کی تعلیمات کی تاثیر بھی پیدا کرے اور اس کے ساتھ ساتھ دین کے بنیادی تصورات اور معتقدات پر ہمارا ایسا یقین پیدا کر دے کہ حقائق محسوس اور حقائقِ غیر محسوس دونوں ہماری زندگی میں یکساں حیثیت کی حقیقتیں بن جائیں، جیسا کہ علامہ بانگ درا میں فرماتے ہیں:
تعلیمِ پیرِ فلسفہ مغربی ہے یہ
ناداں ہیں جن کو ہستیِ غائب کی ہے تلاش
محسوس پر بنا ہے علوم جدید کی
اس دور میں ہے شیشہ عقائد کا پاش پاش
مذہب ہے جس کا نام، وہ ہے اک جنونِ خام
ہے جس سے آدمی کے تخیل کو انتعاش
کہتا مگر ہے فلسفہ زندگی کچھ اور
مجھ پر کیا یہ مرشدِ کامل نے راز فاش
’’باہر کمال اندکے آشفتگی خوش است
ہر چند عقلِ کل شدہ ای بے جنوں مباش‘‘(۳۲)۔
مگر اس منزل کے حصول کے لیے پہلے اکابر صوفیہ اور علامہ کے طریق میں تطبیق کے امکانات کو تلاش کرنا ہو گا کہ ان میں موجود تفاوت رفع ہو سکے۔ اس تفاوت کو رفع کیے بغیر مرد کامل کی تشکیل کی وہ منزل کس طرح مل سکتی ہے جو حاصل تو طریق صوفیہ کا ہے مگر اس کے لیے جو راستہ اختیار کیا جا رہا ہے وہ اکابر صوفیہ کے طریق سے مختلف ہے۔
حوالہ جات
۔۱- غلام احمد پرویز، تصوف کی حقیقت، طلوع اسلام ٹرسٹ، ۲۵، بی گلبرگ ۲، لاہور، اگست ۲۰۰ء، ص ۳۲۲۔
۔۲-شیخ عطاء اﷲ، اقبالنامہ، اقبال اکادمی پاکستان، لاہور، ص ۱۱۲۔
3-Latif A. Sherwani, Speeches, Writings and Statements of Iqbal, Iqbal Academy Pakistan, 2009, p. 231-232.
۔۴-علامہ محمد اقبال، کلیات اقبال (اردو)، اقبال اکادمی پاکستان، لاہور، ۲۰۰۷ء، ص ۳۶۶۔
۔۵-شیخ عطاء اﷲ، اقبالنامہ، ص ۱۱۲۔
۔۶-علامہ محمد اقبال، کلیات اقبال (اردو)، ص ۳۴۵۔
۔۷-ایضاً، ص ۴۴۱۔
۔۸-علامہ محمد اقبال، کلیات اقبال (فارسی)، شیخ غلام علی اینڈ سنز، ۱۹۸۵ء، ص ۸۲۷۔
۔۹-ایضاً، ص ۹۸۶۔
10- Allama Muhammad Iqbal, Reconstruction of Religious Thought in Islam, Institute of Islamic Culture, 2009, p. 2-3, 105.
11- Ibid, p. xxi-xxii.
۔۱۲- سید عبدالواحد معینی، مقالات اقبال، شیخ محمد اشرف، لاہور، ۱۹۶۳ء ص ۱۱۰۔
۔۱۳- شیخ محمود شبستری، گلشن راز، مرکز تحقیقات فارسی پاکستان، اسلام آباد، ۲۰۰۷ء، ص ۹۲؛ علامہ اقبال، کلیات اقبال (فارسی)، ص ۵۴۹۔
۔۱۴- شیخ محمود شبستری، گلشن راز، ص ۹۳-۹۲۔
۔۱۵- علامہ اقبال، کلیات اقبال (فارسی)، ص ۵۴۹۔
۔۱۶- فرید الدین عطار، منطق الطیر، مرکز نشر دانشگاہے، ایران، ۱۹۴۰ء، ص ۱۲۔
۔۱۷- ڈاکٹر ابو سعید نور الدین ، اسلامی تصوف اور اقبال ‘ اقبال اکادمی پاکستان ، کراچی، ۱۹۵۹ء ص ۲۲۹
۔۱۸- ایضاً، ص ۲۳۱
۔۱۹- ایضاً، ص ۲۳۷
۔۲۰- ایضاً، ص ۲۳۰
۔۲۱- ایضاً، ص ۲۳۸
۔۲۲- ڈاکٹر ابو اللیث صدیقی، اقبال اور تصوف، اقبال اکادمی پاکستان لاہور، ۱۹۷۷ء ص ۱۹۷
۔۲۳- ایضاً، ص۲۳۰
۔۲۴- ایضاً، ص۲۳۸
۔۲۵- ایضاً، ص۲۷۹
۔۲۶- ایضاً، ص۱۹۷
۔۲۷- ایضاً، ص۳۴۰
۔۲۸- آل احمد سرور، اقبال اور تصوف، اقبال انسٹی ٹیوٹ، کشمیر یونیورسٹی سری نگر، ۱۹۸۰ء
۔۲۹- محمد بقائی ماکان، تصوف در تصور اقبال – شبستری و کسروی، انتشارات فردوس، خیابان دانشگاہ، کوچہ متیرا، تہران، ۱۳۸۰، ص ۱۰۳-۱۰۲
۔۳۰- محمد عبد الرحمن چھوہروی، مجموعہ صلوات الرسولؐ، جزو ۲۳، دار العلوم اسلامیہ رحمانیہ، ہری پور، ص ۲۹۔
31- Allama M. Iqbal, Recostruction of Religious Thought in Islam, p.xxii.
۳۲- علامہ اقبال، کلیات اقبال (اردو)، ص ۲۷۵۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
Leave a Reply
4 Comments on "اقبال اور تصوف – تطبیق کا مسئلہ"
[…] اقبال اور تصوف – تطبیق کا مسئلہ […]
[…] اقبال اور تصوف – تطبیق کا مسئلہ […]