ہنگاموں کے بیچ کی خاموشی
سال ۲۰۱۴رخصت ہوگیا،نئے سال کا آغاز ہوچکا ہے ۔ سالِ گزشتہ میں ہم نے کیا کیا اور آنے والے سال میں ہمیں کیا کرنا ہے ہر شعبہ سے تعلق رکھنے والے اپنے اپنے انداز میں محاسبہ کرتے ہیں۔ ادب کے قاری ہونے کی وجہ سے ہمیں دیکھنا ہوگا کہ سال ِگزشتہ میں ہماری ادبی سرگرمیاں کیا رہی ہیں۔ کون سی ایسی معرکۃ الآرء کتاب سامنے آئی جس کے دور رس اثرات آنے والے دنوں میں محسوس کیے جائیں گے۔ ایک سال کی مدت بہت زیادہ نہیں ہوتی ہے۔ شاہکار تخلیقات برسوں میں سامنے آتی ہیں۔ ہر سال ’آگ کا دریا‘ یا ’شعر شورانگیز‘ جیسی کتابیں سامنے نہیں آتیں۔گزشتہ سال بہت ہنگامہ خیز تھا۔ حالی اور شبلی صدی تقریبات پورے برصغیر ہندوپاک میں بڑے جوش وخروش کے ساتھ منائی گئیں۔ خواجہ احمد عباس اور کرشن چندر کی صدی تقریبات بھی پورے اہتمام کے ساتھ منائی گئیں۔رسالوں نے خصوصی نمبرات شائع کیے۔ ان کی یاد میں محفلیں منعقد کی گئیں۔ یہ وہ شخصیات تھیں جنہوں نے اپنے اپنے میدان میں وہ کارہائے نمایاں انجام دیئے جن کا ثانی تاریخ نہیں پیش کرسکی۔ حالی اور شبلی نے اردو تنقید کی بنیاد رکھی۔ اردو نثر کو سوانح نگاری اور تاریخ نگاری کا ہنر سکھایا۔ جب کہ کرشن چندر خواجہ احمد عباس نے اردو فکشن کو وقار بخشا۔ اردو کی ان عظیم شخصیات کو یاد کرتے وقت ہماری گردنیں عقیدت سے جھک جاتی ہیں۔ یہ ساری ادبی سرگرمیاں لائق ستائش ہیں لیکن کیا یہ المیہ نہیں ہے کہ ہماری ساری کوششیں سمٹ کر مرحومین کی یاد آوری تک رہ گئی ہیں؟ ان کی یاد میں بڑے بڑے سمینار، اور اس کے بعد خاموشی۔ اس سے نہ اردو ادب کا بھلا ہوا ہے اور نہ ہونے والا ہے۔ اس سے پہلے ہم نے سردار جعفری کو یاد کیا تھا اس سے بھی پہلے فیض اور منٹو کو اتنے ہی جوش وخروش کے ساتھ یاد کیا گیا تھا۔ نئے سال میں ہم اردو والے کسی اور اہم ادیب کی صد سالہ جشن منانے میں مصروف ہوجائیں گے۔کیا کبھی ہم نے سوچا کہ ان سمیناروں پر جو لاکھوں روپئے خرچ ہوتے ہیں ان کا فائدہ اردو زبان وادب کو ملتا ہے؟ ہم نے حالی اور شبلی کی صد سالہ تقریبات منائی اور ان کے اس اہم پیغام کو بھلادیا کہ ماضی کو یاد کرنے سے زیادہ اہم کام مستقل کے لیے لائحۂ عمل تیار کرنا ہے۔ وہ لوگ ماضی میں نہیں حال میں جیتے تھے اورمستقبل کی تعمیر کرتے تھے۔ یہ انہیں بزرگوں کا قول ہے کہ یاد ماضی انہی اقوام کے لیے مفید ہے جو اس سے سبق لے کر اپنے مستقبل کو سنواریں۔
برصغیر ہندوپاک میں اردو زبان کی صورتحال کوئی بہت زیادہ اطمینان بخش نہیں ہے۔ اسکولوں سے اردو ختم ہوتی جارہی ہے۔ ملک کے بیشتر کالجوں میں اردو اساتذہ اردو ڈپارٹمنٹ کو ساتھ لے کر ریٹائر ہورہے ہیں۔ جی ہاں، اترپردیش اور ملک کے دوسرے حصوں کے اکثر کالجوں میں جہاں اردو زبان کی تدریس ہوتی تھی دھیرے دھیرے ختم ہوتی جارہی ہے۔ پرانے اساتذہ کے ریٹائر ہوتے ہی وہاں سے اردو زبان کا صفایا کردیا جاتا ہے۔ پہلے کہا جاتا تھا کہ مسلمان کوئی زبان جانے یا نہ جانے اردو ضرور جانتا ہے اب یہ بات بھی غلط ہوگئی ہے۔ اردو کی قدیم آبادیوں سے بھی اردو بے دخل ہورہی ہے۔ انہیں کوئی اردو سکھانے والا نہیں ہے۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ ہم ہنگامہ آرائی کے بجائے اردو سناشی کی مہم شروع کرتے۔ لوگوں کے بیچ میں جاکر انہیں اردو زبان کی اہمیت بتاتے۔ انہیں سمجھاتے کہ اردو سے عدم واقفیت کی وجہ سے وہ کیا کھورہے ہیں؟دہلی کے مختلف علاقوں میں قائم اردو خواندگی مرکز اردو سناشی میں ایک کردار ادا کررہے ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے ان مراکز کو اور فعّال بنایا جائے۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ ملک کی دوسری اردو اکامیاں بھی اردو کے لیے اسی قسم کا پرگرام بناتیں۔
اردو کو فروغ دینے کے لیے آج جس قسم کی کوششیں ہورہی ہیں وہ شاخوں کو پانی دینے کے مترادف ہے۔ اﷲ کے واسطے اس رویہ میں تبدیلی لائیں۔ اردو کے بنیادی مسائل پر توجہ دیں۔ سمینار جلسے جلوس سب اپنی جگہ اہم ہیں لیکن ان سے بھی زیادہ اہم کام اردو خواندگی کو فروغ دینا ہے۔ جن اسکولوں اور کالجوں سے اردو بے دخل ہورہی ہے وہاں اسے دوبارہ بحال کرنا ہے۔نئے اسکولوں اور کالجوں میں اردو کو داخل کرنا ہے۔ اگر ہم نے اردو کے ان بنیادی مسائل پر توجہ نہ دی توآنے والا مؤرخ لکھے گا کہ’ روم جل رہا تھا اور پیرو بانسری بجارہا تھا‘۔
رسالہ کیسا لگا؟ ہمیں آپ کی آراء کا انتظار رہے گا۔
عزیراسرائیل
(مدیر اعلیٰ)
Leave a Reply
9 Comments on "ہنگاموں کے بیچ کی خاموشی"
[…] ہنگاموں کے بیچ کی خاموشی← […]