ترقی پسند تحریک اور تصورِ انسان دوستی
محمد صفدر ضیائی
ریسرچ اسکالر، شعبہ اردو ، گورنمنٹ کالج یونی ورسٹی، فیصل آباد
رابعہ اقبال
ریسرچ اسکالر، شعبہ اردو ، گورنمنٹ کالج یونی ورسٹی، فیصل آباد
Abstrct:
Basic Concept of Progressive writers in Russia retrived from the Marxsim Philosophy and basic rules of this movement were most similer to this concept. Progressive Movement play role in the lives of human being to promote the basic needs of thiers and also provide power to their internal feelings and livelihood. It play most important role to providing basic fcilities of life to peoples in all over the world.
انقلابِ روس جن بنیادی نظریات کے رد عمل میں منظر عام پر آیا تھا ‘ان کے پس پردہ ایسے محرکات کارفرما تھے جن میں انسان کی حیثیت بنیادی تھی۔انسان کی سوچ اور آزادیٔ اظہار کی خاطر جو نظریات پروان چڑھ رہے تھے ان کی سرحدیں صرف اس کے گرد و پیش میں ہی نہیں بلکہ دیگر ممالک کو بھی اپنے حصار میں لے رہی تھیں جن کی وجہ سے بڑھتی ہوئی انسانی فکر اور تدبر نے اس دور کے انسان اور ہر فرد میں یہ جذبہ کوٹ کوٹ کر بھر دیا تھا کہ وہ اپنی خاطر‘ اپنی علیحدہ حیثیت اور آزادی کی خاطر آواز اٹھائے اور اس کے حصول کو یقینی بنائے تاکہ پسے ہوئے طبقات میں خود اعتمادی اور انانیت کے احساس کروٹیں بدلیں اور انسان کو اس کے اصلی روپ میں انسانی شعور کے تقاضوں کے تحت دیکھا جائے اور اس طرح اسے اس کی کلیدی حیثیت حاصل ہو سکے۔
اس نوع کے نظریات نے متذکرہ بالا دور کے ہر انسان کے ذہن میں وہ لہر پھرا دی تھی جو اس سے ملتے جلتے مقاصد مگر اسی نوعیت کے بنیادی مقاصد کے ساتھ اپنے اپنے حقوق کے حصول کے لیے آوازیں بلند کرنے کا پیش خیمہ ثابت ہوئے۔یہ نظریاتی روجیسے ہی پاکستان اور ہندوستان میں داخل ہوئی تو ان ممالک کے جن ادبا نے سب سے پہلے اس کے اثرات قبول کیے وہ ترقی پسند ادیب کہلائے۔انسانی ہمدردی اور غربت و افلاس کے مارے ہوئے انسانوں کا ساتھ دینے کے لیے اور ان کے حقوق کے حصول کو یقینی بنانے کے لیے جن لوگوں نے قلم اٹھایا ان کا اندازِ تحریر روایتی اندازِ تحریر سے ذرا مختلف ثابت ہوا اور اسی بنا پر لوگوں میں انہیں اجنبیت کے ساتھ ساتھ مقبولیت بھی حاصل ہوئی۔
یہ لگ بھگ وہی دور تھا جب مشرقی ممالک میں رومانی تحریک کا طوطی بولتا تھا اور اس نظریہ کے ادبا اپنی یوٹوپیائی دنیا کے بامِ عروج پر تھے۔اسی طرز پر قارئین ایک خاص ذہنیت اور ٹیسٹ کے مطابق خیالی دنیا میں ڈوبے حقیقت اور اصلیت سے کوسوں دور کے خواب دیکھنے میں مصروف تھے‘ ادبا کا ایک نیا گروہ ابھر کر سامنے آیا اور ایک نئی سوچ نے جنم لیا جس سے یوٹوپیائی دنیا کے قارئین ایک دھچکے کے ساتھ نئے رویوں کو خیر مقدم کرنے کے متوجہ ہوئے اور ابتدا میں انہوں نے خیر مقدم کرنے کے بجائے خوب تنقیدی نگاہ سے دیکھاجس کا رد عمل یہ ہوا کہ ’’انگارے‘‘ کو سنسرکی پابندیوں کے نذر کر دیا گیا اور اس پر شدید ہنگامی صورت حال سامنے آئی۔ترقی پسندوں کے ابتدائی بنیاد گزاروں سجاد ظہیر‘ احمد علی‘رشید جہاں وغیرہ کو محبوس ہونا پڑا۔اس ضمن میں ڈاکٹر انور سدید رقم طراز ہیں:
’’انگارے کے مصنفین چونکہ دلیل کا کام جذبات سے لینا چاہتے تھے اس لیے مشرق کے ثقہ مزاج نے انہیں قبول کرنے سے انکار کردیا اور نیاز فتح پوری اور عبدالماجد دریا بادی جیسے مصنفین نے اس کتاب کی مخالفت میں مضامین اور اخبار ’’مدینہ‘‘ اور ’’سرفراز‘‘ نے مخالفانہ ادارئیے لکھے۔ چنانچہ مارچ ۱۹۳۳ء میں کتاب کو ضبط کر لیا گیا۔‘‘ ۱
سجاد ظہیر اور احمد علی نے لکھنؤ یونیورسٹی کے ایک گوشے میں انجمن ترقی پسند مصنفین کا ابتدائی لائحہ عمل ترتیب دیا۔احمد علی اپنے مضمون’’ترقی پسند مصنفین اور تخلیقی مصنف‘‘میں لکھتے ہیں:
’’محمود الظفر نے میرے اور رشید جہاں کے مشورے سے ۱۹۳۳ء میں انجمن ترقی پسند مصفین کے قیام کا اعلان کیا۔چونکہ ۳۲۔۱۹۳۳ء اس کے باقی بانیوں کے سامنے جو مقصد تھا وہ بالکل ادبی تھا اور اس میں سیاسی رجحانات زیادہ نہ تھے کہ’’ہم ان تمام اہم مسائل زندگی پر آزادیٔ رائے اور تنقیدی حق چاہتے ہیں جو نسلِ انسانی کی بالعموم اور برصغیر کے لوگوں کو بالخصوص درپیش ہے۔‘‘ ۲
۳۶۔۱۹۳۵ء میں انجمن ترقی پسند مصنفین کے دستور پر جب غور کیا جا رہا تھا تو ان دنوں اس اجلاس میں انجمن کے نصاب سے متعلق حصہ لینے والوں میں اہم ناموں میں ملک راج آنند‘سجاد ظہیر‘احمد علی‘رشید جہاں‘ڈاکٹر تاثیر‘ڈاکٹر عبدالعلیم نامی‘ڈاکٹر اختر حسین رائے پوری‘مجنوں گورکھ پوری‘ڈاکٹر اعجاز حسین اوررگھوپتی سہائے شامل تھے۔
مجنوں گورکھ پوری رگھو پتی سہائے فراق ‘ اعجاز حسین اور اختر حسین رائے پوری ایسے لوگوں میں شامل ہیں جو کمیونسٹ پارٹی کا رکن بھی نہیں تھے اور نہ ہی اشتراکی نظام سے دل چسپی رکھتے تھے۔اقبال سنگھ اور ڈاکٹر ملک راج آنند اس اہمیت کے حامل ہیں کہ انہوں نے ترقی پسند افسانہ لکھنا شروع کیا۔اقبال سنگھ کے ابتدائی افسانہ’’When one is it‘‘ لکھا اور ملک راج آنند نے ’’مرغ زار‘‘،’’فطرت کا دل‘‘ اور ’’A Kashmir Idyll ‘‘لکھ کر دیہات نگاری کو ترقی پسند تحریک میں لانے کا فارمولا ایجاد کیا۔’’فطرت کا دل‘‘ سے اقتباس ملاحظہ ہو:
’’دن بھر مطلع صاف رہا تھا لیکن شام ڈھلتے ہیں بادل گھر آئے تھے اور بارش کے آثار پیدا ہو گئے تھے ۔رہ رہ کر بجلی چمک رہی تھی اور بادل گرج رہے تھے۔ یوں معلوم ہو رہا تھا جیسے کوئی ہیبت ناک دیو چنگھاڑ رہا ہو اور اس کے نوکیلے دانتوں کی چمک سے بجلی کوند رہی ہو۔دفعتاًبادلوں کی وحشت ناک گڑگڑاہٹ وادی میں گونج اٹھی اور کسانوں کی لڑکیاں مرغی کے چوزوں کی مانند سہم کر اپنی اپنی پھوس کی جھونپڑیوں میں دہک گئیں۔‘‘ ۳
اقبال سنگھ نے اپنے افسانوں میں بے روز گار مرد اور عورتوں کے ہجوم کھمباٹا اینڈ کھمباٹا لمیٹڈ‘ طرزکا کارخانہ‘بہتا ہوا خون اور مل کے منیجنگ ڈائریکٹر کا کرداری مطالعہ کرتے ہوئے سماجی موضوعات پر نفسیاتی تجزیہ کیا اور اس طرح یہ طرزِ تحریر پریم چند کے ’’دامل کا قیدی‘‘ سے ہوتا ہوا آج کے نو ترقی پسند افسانہ نگار تک پہنچا ہے۔ابتدائی دنوں ہی سے ترقی پسند افسانہ میں مسئلہ رہا کہ انفرادی اور اجتماعی طور پر جماعت کے مرتبہ عقائد کو بار بار دہرا یا گیا اور وہ بھی اس طرح کہ جماعت کے عقائد سے ذرا بھر بھی تبدیلی نہ ہونے پائے۔اس کے باوجود ترقی پسند تحریک نے اردو افسانے کو متعدد جاندار آوازیں بخشیں۔
ان افسانہ نگاروں میں ڈاکٹر راج آنند‘ دیوندر ستیارتھی‘خواجہ احمد عباس ‘اخترحسین رائے پوری‘ کرشن چندر‘ عزیز احمد ‘ چغتائی‘ راجندر سنگھ بیدی‘ احمد ندیم قاسمی‘ شمشیر سنگھ اور بلونت سنگھ کے نام نمایاں ہیں۔دیوندرستیارتھی کی پہچان ترقی پسندی اور وطن پرستی ہے۔دیوندرستیارتھی وطن پرستی کے حوالے سے اہم نام ہے۔ان کے افسانوں کا ہرلمحہ تبدیل ہوتا ہوا دیہاتی لینڈ اسکیپ ہمیشہ قابل توجہ رہا۔ ان کی تحریروں میں ہندوستانی مٹی کی خوشبو اور گیتوں کے مدھر امڈ امڈ پڑتی ہے۔ان کے ہاں جنسی الجھنیں ‘معاشی ناہمواریاں اور عورت اہم موضوعات رہے ہیں۔
خواجہ احمد عباس نے اپنے افسانوں میں تدبیر کاری کی سطح پر کیمرا تکنیک اور بیان کی سطح پر صحافیانہ اپج سے کام لیا جس کے سبب ان کے افسانوں میں کبھی تصنع کی فضا محسوس ہوئی اور کبھی انتہاء کی صاف گوئی اور بے باکی کھلنے لگی ان ہر دو طرح کی خامیوں اور خوبیوں کے ضمن میں خواجہ احمد عباس کو کرشن چندر کا پیش رو کہنا چاہیے۔کرشن چندر نے اپنے افسانے کے ذریعے موضوعی سطح پر اس روایت کو بڑھایا جو پریم چند سے ہوتی ہوئی کرشن چندر کے سینئر ہم عصر علی عباس حسینی تک پہنچی تھی اور جس میں کرشن چندر نے اپنے بہترین افسانوں خصوصاً مہالکشمی‘ دس کا نوٹ‘ جوتا اور چند روز کی دنیا میں اردو کی اس پھیلتی ہوئی روایت کو اپنی تکنیکی مہارت اور بیان سے مزید سنوارا۔اس روایت میں کرشن چندر کی ایک منفرد خوبی اس کی جرأتِ فکر ہے۔ کچھ یہ سبب ہے کہ اس کے افسانے ۳۵ برس پر محیط معاشرتی اور سیاسی کروٹوں کے ترجمان بن گئے۔
اختر حسین رائے پوری کی اوّلین شہرت ترقی پسند تحریک میں نقاد کی ہے ان کا مضمون ’’ادب اور دنیا ‘‘اردو ادب میں ترقی پسند تنقید کی بنیاد ہے۔ا ختر حسین رائے پوری نے بطور افسانہ نگار اپنی پہچان محبت اور نفرت کے افسانوں سے بنائی۔اختر حسین رائے پوری کی افسانہ نگاری کا آغاز ’’زبان بے زبانی‘‘ سے ہوا۔ وہ اپنے افسانوں میں حقیقت پسند ی اور رومان کو انوکھے انداز میں پیش کرتے ہیں۔
عزیز احمد نے ترقی پسند افسانوی انداز سے ذرا ہٹ کر لکھا۔انہوں نے تنگ حصار کو تمثیل‘ داستان اور اساطیر کے ذریعے توڑنے کاجتن کیا۔عزیز احمد کے افسانوں میں تمثیل کے ذریعے عاشق اورمحبوب بہت جلد ہی ایک دوسرے پر کھل جاتے ہیں اور اکثر ہی عاشق حد درجے کاتیز اور فعال ہے جب کہ محبوب سست روی کا شکار نظر آتا ہے۔
چغتائی نے افسانہ نگاری کا آغاز ۱۹۳۵ءمیں کیا اس دور کے اہم لکھنے والوں میں نیاز فتح پوری اور مجنوں گورکھ پوری اور حجاب امتیاز علی کے نام نمایاں ہیں۔یہ دور رومان پسندوں کا دور تھا۔چغتائی نے افسانوں کے ذریعے سے ایک نئی سوچ فراہم کی جن کی اولین مثالوں میں افسانہ’’نیرا‘‘اہم پیش رفت ہے۔چغتائی نے ایسے بے مثال افسانے لکھے جن کی آواز اردو افسانے میں ہمیشہ گونجتی رہے گی۔
راجندر سنگھ بیدی ایک ایسا افسانہ نگار ثابت ہوا ہے جن کے اندازِ تحریر پر لکھنے والے بہت ہی کم کم پیدا ہوئے ہیں۔ ان کے افسانوں میں داخلی اور خارجی پہلو بہت حد تک نمایاں نظر آتے ہیں۔ وہ داخلی اور خارجی چیزوں کو اس طرح پیش کرتے ہیں کہ یہ سب کچھ زندگی معلوم ہوتی ہے۔اس طرح کی چیزیں ان کے افسانوں سے حاصل کی جا سکتی ہے۔صرف ایک سگریٹ ‘ ایک روز قیام چورستے کے پاس‘ گرم کوٹ ‘اور ’بولو‘شامل ہیں۔
احمد ندیم قاسمی اور بلونت سنگھ نے اپنے افسانوں میں دیہات کو بہت ہی خوب صورت انداز میں بیان کیا ہے جس کی وجہ شاید یہ ہے کہ ان کا تعلق پنجاب سے تھا۔ احمد ندیم قاسمی اور بلونت اپنے پہلے مجموعوں ’’چوپال‘‘ اور ’’جگا‘‘ کے بعد حقیقت نگاری کی طرف آئے اور رومان میں توازن پیدا ہوا‘ پھر جا کر ندیم نے ’پرمیشر سنگھ‘ اور بلونت نے ’ارداس‘ لکھا۔
روس میں ترقی پسندی کا جو نظریہ متعارف کرایا گیا تھا ہمارے یہاں پہنچتے ہوئے وہ اپنی اصلی شکل کھو چکا تھا اور ان ادبا نے اس سے جو مطلب اخذکیا وہ کسی حد تک کارل مارکس کے نظریہ ’’مارکسزم‘‘ سے مشابہ تھا۔اس ضمن میں ممتاز حسین کا بیان بڑی حد تک واضح ہے:
’’ترقی پسند تحریک کی بنیاد اس طبقے کے فلسفے پر تھی جو باہر سے لایا گیا تھا یعنی مارکسزم پر تھی۔‘‘ ۴
سجاد ظہیر خود ایک سیاسی اور نظریاتی فکر کا شخص تھا جس کا یہ اثر ہوا کہ تحریک میں بڑی حد تک سیاست کا عمل دخل ہونے لگا جس کے حوالے سے کئی طرح کا رد عمل بھی سامنے آیا۔اسی حوالے سے احمد علی کا بیان بھی کافی وضاحت پیش کرتا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ’’ترقی پسندوں کا یہ نظریہ تھا کہ ترقی کے معنی اشتراکیت کی طرف بڑھنا ہے۔‘‘(۵) انور سدید اپنی کتاب ’’اردو ادب کی تحریکیں‘‘ میں رقم طراز ہیں:
’’تحریک کے اوّلین محرک سجاد ظہیر چونکہ کمیونسٹ تھے اس لیے مقاصد کی ذیل میں مارکسی نظریات کو زیادہ اہمیت ملی اور اس تحریک کی جہت روزِ اوّل سے ہی کمیونزم اور اشتراکیت کی طرف مڑ گئی۔‘‘ ۶
ہمارے یہاں ترقی پسندوں کے تحت جتنا ادب تخلیق ہوا وہ اسی نظریہ کے اثرات تلے پروان چڑھتا رہا‘ حتیٰ کہ آج تک وہی نظریہ چل رہا ہے جس کے تحت ترقی پسند ادیب انسان کے جذبات کی عکاسی اپنے قلم اور الفاظ کے بندھن میں کر رہے ہیں۔
ترقی پسندوں نے بڑی محنت اور دل جمعی کے ساتھ اپنے افکار کو منظر عام پر پیش کیا جن میں صاف ظاہر یا پھر علامیہ انداز میں ہر دو سطح پر غلاموں کی آزادی‘ آجر اور اجیر کے درمیان حائل بنیادی رکاوٹ‘ پسماندہ طبقہ کی بحالی اور دست رسی‘داخلی مسائل ‘ عورت کی محرومی‘ ناداری‘ بچوں کی کم عمری میں ملازمت اور انسانی استحصال وغیرہ جیسے موضوعات زیرِ بحث رہے۔اس نظریہ کے پرچار کرنے والے مختلف اصناف میں طبع آزمائی کر رہے تھے جن میں افسانہ نگار‘ ناول نگار‘ نظم گو‘غزل گو اور مضمون نویس شامل تھے۔
اردو افسانے کا آغاز رومانی موضوعات سے ہوتا ہے۔ سجاد حیدر یلدرم کے افسانوں کا اصل رنگ رومانی ہے لیکن اس کا آغاز بہر حال ہر رنگ و آہنگ کے باوجود بھی اصلاح کرنے والا ہی رہا۔افسانہ جس موضوع پر بھی لکھا گیا اس کا موضوع انسان رہا۔اردو افسانے نے غلامی‘ سیاسی‘ ذہنی و جذباتی زلزلوں اورمعاشرتی پسماندگی سے معمور دنیا میں آنکھ کھولی ‘ اس حوالے سے ڈاکٹر انوار احمد لکھتے ہیں:
’’ اپنے آغاز میں ہی یہ اپنے لب و لہجے‘ طرز احساس اور تدبیر کاری کے اعتبار سے دو واضح منطقوں میں تقسیم ہو گیا ایک منطقہ رومان کا تھا‘ جہاں خواب و خیال اپنی رنگینیاں بکھیرتے اور شیرینیاں بانٹتے دکھائی دیتے ہیں یہاں فرد اپنی ذہنی و جذباتی آزادی اور فطری مسرت کی حفاظت کے لیے کوشاں دکھائی دیتا ہے ‘ جو حقیقی دنیا میں پارہ پارہ ہو رہی تھی اس دائرے میں ماورائیت ‘ جنسی و نفسیاتی شعور کی لپک اور انفرادیت کا زعم گونجتا دکھائی دیتا ہے‘ جب کہ دوسرے منطقے میں بے بسی اور مجبوری کسمساہٹ اور تلملاہٹ کو پروان چڑھارہی تھی ‘ نو آبادیاتی نظام سے نفرت‘ اس کی آلۂ کارقوتوں ‘ اداروں اور کارکنوں سے بیزاری‘ غلامی ‘ غربت ‘ محرومی اور جہالت کو تقدیر ِانسانی جاننے پر آمادگی سے گریز اور ماضی سے بے تعلقی‘ غراہٹ سے مشابہ لب ولہجے کو پروان چڑجا رہی تھی۔‘‘ ۷
اردو افسانے کے حوالے سے منشی پریم چند کا نام خاصی اہمیت کا حامل ہے انہوں نے دیہات سے شہر میں نقل مکانی کے دوران زندگی کے دو رخے تجربے کی بنا پر جس نوعیت کا ادب تخلیق کیا وہ ترقی پسندی اور انسانی اعمال و افعال کی سچی تصویر بن گئے۔پریم چند کا یہ اندازِ تحریر انہیں ترقی پسند ادیب بنانے میں خاصا کارگر ثابت ہوتا ہے۔اس حوالے سے سید احتشام حسین اپنے ایک مضمون’’اردو افسانہ ایک گفتگو‘‘ میں لکھتے ہیں:
’’منشی پریم چند نے غربت اور افلاس میں آنکھ کھولی تھی۔ عنفوان شباب میں جب وہ ملازمت کے لیے اپنے گاؤں سے کانپور جیسے شہر میں آئے تو دیہات ان کی شخصیت کا جزو بن چکا تھا چنانچہ جب انہوں نے افسانہ نگاری شروع کی تو اس پس منظر نے ان کی تحریک کو کروٹ دینے میں بہت مدد دی۔ پریم چند اپنی ادبی زندگی کے اوّلین دور میں ایک خواب کار تھے۔‘‘ ۸
ادیب کو اﷲ تعالیٰ کی جانب سے ایسی حسیات ودیعت ہوتی ہیں جن کی بنا پر وہ معاشرتی رویوں اور سماجی ناہمواریوں کو بالکل مختلف اور الگ زاویے سے دیکھتا ہے۔پریم چند کا ایک چھوٹے دیہات سے کانپور جیسے بڑے شہر میں جانا اور پھر شہری زندگی کے تقابل میں دیہاتی غربا کی زندگیوں کا بغور مطالعہ کرنا ان کے اور ادب کے لیے نئے موضوعات کا پیش خیمہ ثابت ہوا۔اس ضمن میں ڈاکٹر انور سدید رقم طراز ہیں:
’’انہوں نے بھوک بیماری ‘ بیکاری‘ جہالت اور توہم پرستی کو کہانیوں کا موضو ع بنایا اور ایک عام فرد کی ذہنی الجھنوں ‘ سماجی بندشوں ‘ معاشرتی پیچیدگیوں اور ان سے پیدا ہونے والے سکھوں اور غموں کو اجاگر کرنے کی کوشش کی۔پریم چند کی عطا یہ ہے کہ انہوں نے حقیقت کی نقاب کشائی کی اور انسان کو صداقت کا کھردرا چہرہ دیکھنے پر آمادہ کیا۔‘‘ ۹
ترقی پسند تحریک کی پہلی کانفرنس ۱۵ اپریل ۱۹۳۶ء کو لکھنؤ میں منعقد ہوئی اس تحریک کا صدارتی خطبہ منشی پریم چند نے دیا۔یہ خطبہ تحریک کا اہم ترین خطبہ قرار پایا ۔ترقی پسندادیبوں کے نزدیک جو مقاصد تھے وہ خالصتاً ایسا ادب تخلیق کرنے سے متعلق تھے جو انسانی حقوق اور ہمدردی کے عکاس ہوں۔اس تحریک کے زیرِ اثر تخلیق کیا جانے والا سارا ادب اسی نظریہ کے تحت تخلیق کیا گیا۔ترقی پسند تحریک کی پہلی کانفرنس میں منشی پریم چند نے صدارتی خطبے میں چند اہم نکات کی نشاندہی کرائی۔ انہوں نے کہا:
’’اس کانفرنس میں پڑھی جانے والی چیزوں میں سب سے اہم منشی پریم چند کاخطبۂ صدارت تھا جس میں انہوں نے ادب کی دائمی قدروں کو اجاگر کیا اور حسن‘ صداقت‘ آزادی اور انسان دوستی کو اعلیٰ ادب کا لاینفک قرار دیا۔‘‘ ۱۰
پہلی کانفرنس میں ہونے والے اس خطبہ میں پریم چند کے الفاظ اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ انہوں نے جس نوع کے ادب کی تخلیق کا بیڑا اٹھایا تھا وہ ادب پروری کے ساتھ ساتھ انسان دوستی کو بھی اپنے دائرہ میں محصور کرتا تھا۔اس تحریک کے چند بنیادی مقاصد کو سید اختر حسین رائے پوری نے بھی واضح کرنے کی کوشش کی جو اسی طرز کے ہیں۔ڈاکٹر اختر حسین رائے پوری نے اپنے مقالہ’’ادب اور انقلاب‘‘ میں چند اہم نکات ایسے بیان کیے جو ترقی پسند تحریک اور اس کے مقاصد و اہم امورکا پیش خیمہ ثابت ہوئے۔
’’اول: صحیح ادب کا معیار یہ ہے کہ وہ انسانیت کے مقصد کی ترجمانی اس طریقے سے کرے کہ زیادہ لوگ اس سے اثر قبول کر سکیں۔ اس کے لیے دل میں خدمت ِ خلق کا جذبہ پہلے ہونا چاہیے۔
دوّم:ہر ایماندار اور صادق ادیب کا مشرب یہ ہے کہ قوم و ملت اور رسم و آئین کی پابندیوں کو ہٹا کر زندگی‘ یگانگی اور انسانیت کی وحدت کا پیغام سنائے۔
سوم:ادیب کو رنگ و نسل اور قومیت اور وطنیت کے جذبات کی مخالفت اور اخوت اور مساوات کی حمایت کرنی چاہیے اور ان تمام عناصر کے خلاف جہاد کا پرچم بلند کرنا چاہیے جو دریائے زندگی کو چھوٹے چھوٹے چوبچوں میں بند کرنا چاہتے ہیں۔‘‘ ۱۱
ترقی پسندوں کے ہاں تخلیق ہونے والے ادب نے مجموعی طور پرجو تاثرپیدا کیا وہ ان کے ابتدائی نعرہ کی شکل اختیار کر گیا‘ یعنی تخلیق ہونے والا ادب روایتی انداز سے منحرف ہو کر ادب برائے ادب کی بجائے ادب برائے زندگی کا پرچار کرنے لگا۔ اس نوع کے ادب میں جس قدر ادیب اہم تھا اسی قدر قاری کی اہمیت بھی مسلّم تھی۔
حوالہ جات
۱۔انور سدید‘اردو ادب کی تحریکیں‘ کراچی:انجمن ترقی اردو پاکستان‘ ۲۰۱۰ء‘ص:۴۶۷
۲۔حامد بیگ‘ مرزا‘ اردو افسانے کی روایت‘اسلام آباد:دوست پبلی کیشنز‘۲۰۱۰ء‘ ص:۸۳
۳۔فطرت کا دل ‘بحوالہ:مرزاحامد بیگ‘ اردو افسانے کی روایت‘اسلام آباد:دوست پبلی کیشنز‘۲۰۱۰ء‘ ص:۸۴
۴۔ممتاز حسین‘ متحدہ محاذ‘ مشمولہ: سویرا‘ شمارہ ۱۰۔۱۱‘ ص:۱۴۸
۵۔احمد علی‘ ترقی اور ترقی پسندی‘مشمولہ: نیادور‘اپریل‘۱۹۴۵ء‘ ص۷۔۸
۶۔انور سدید‘اردو ادب کی تحریکیں‘ کراچی:انجمن ترقی اردو پاکستان‘ ۲۰۱۰ء‘ص:۴۷۸
۷۔انوار احمد ‘ اردو افسانہ ایک صدی کا قصہ‘ فیصل آباد:مثال پبلشرز‘ ۲۰۱۰ء‘ص:۲۲
۸۔احتشام حسین‘ سید‘ اردو افسانہ ایک گفتگو‘ ادبی دنیا ‘ دو ر پنجم‘ شمارہ سوم‘ ص۱۶۸
۹۔انور سدید‘ اردو ادب کی تحریکیں‘کراچی:انجمن ترقی اردوپاکستان‘اشاعت ہفتم:۲۰۱۰ء‘۴۶۵
۱۰۔انور سدید‘اردو ادب کی تحریکیں‘ ص:۴۷۶
۱۱۔اختر حسین رائے پوری‘ادیب اور انقلاب‘بحوالہ اردو ادب کی تحریکیں‘ انور سدید‘ کراچی:انجمن ترقی اردو پاکستان‘ ۲۰۱۰ء‘ص۴۶۹
٭٭٭٭
Leave a Reply
Be the First to Comment!