اردو کی غیر روایتی تا نیثی آواز: فہمیدہ ریاض 

حمیرا حیات

ریسرچ اسکالر،شعبہ اردو، دہلی یونیورسٹی، دہلی

اردو ادب کے افق کا ایک اور ستارہ دنیائے فانی سے رخصت ہوگیا۔۲۸،جولائی ۱۹۴۵ کو ہندوستان کی سر زمین شہر میرٹھ کے ادبی خاندان میں پیدا ہونے والی شاعرہ فہمیدہ ریاض جن کا خاندان قیام پاکستان کے بعد لاہور منتقل ہوگیاتھا ۲۲نومبر ۲۰۱۸ کومختصر علالت کے بعد لاہور میں سپرد خاک ہوئیں ۔۴سال کی عمر میں سر سے والد کا سایہ اٹھ گیا اور ان کی پرورش ان کی والدہ کے زیر اثر ہوئی۔ابتدائی تعلیم کراچی میں ہوئی اور سندھ یونیورسٹی سے گریجویشن کیا۔
ادبی دنیا میں فہمیدہ ریاض کی شناخت بطور شاعرہ بالخصوص ایک نظم نگار ہوتی ہے لیکن انھوں نے غزلیں بھی کہیں اور شاعری کے علاوہ فکشن میں بھی طبع آزمائی کی ۔ وہ ایک بہترین مترجم بھی تھیں۔ انھوں نے شاعری و نثر میں کم وبیش ۱۵ کتابیں اور کئی مضامین تحریر کیے۔شاعری کا شوق انھیں طالب علمی کے زمانے سے تھا ان کی پہلی نظم احمد ندیم قاسمی کے رسالہ ’فنون‘ میں شائع ہوئی۔ شاعری کا پہلا مجموعہ ’’پتھر کی زبان ‘‘محض ۲۲برس کی عمر میں ۱۹۶۷ میں منظرعام پر آیا۔اس کے بعدمجموعہ ’بدن دریدہ‘ آیاجس پر انھیں سخت نکتہ چینی کا سامنا بھی کرنا پڑاپھر’دھوپ‘،’کیا تم پورا چاند دیکھوگے‘،’’ہمرکاب ‘اور’ آدمی کی زندگی‘ بالترتیب شائع ہوئے۔ان کا کلیات ’لب لعل وگہر‘کے عنوان سے ۲۰۱۱میں شائع ہوا۔زندہ بہار،گوداوری اور کراچی ان کے ناول ہیں۔علاوہ ازیں فارسی زبان کے شاعر رومی کے کلام کواردو میں ترجمہ کیااور سندھ زبان کے نامور شعرا شاہ عبدالطیف بھٹائی اور شیخ ایاز کے کلام کے تراجم بھی کیے ۔
تصنیف وتالیف کے علاوہ فہمیدہ ریاض کو سماجی کاموں اور سیاست میں بھی دلچسپی تھی۔فہمیدہ ریاض پاکستان میں جمہوریت اور خواتین کے حقوق کے لیے ہمیشہ کوشاں رہتی تھیں ۔جمہوریت کے خاطر انھیں جنرل ضیاالحق کے عہد حکومت میں پاکستان بھی چھوڑنا پڑا۔جیل کی صعوبتیں بھی برداشت کیں آخر کا جلا وطن کردی گئیں امرتا پریتم کے حکومت ہند سے درخواست کرنے پر فہمیدہ ریاض ہندوستان آگئیں اورعہد جلا وطنی ہندوستان میں گزارا۔ضیاالحق کے انتقال کے بعدپھر وہ ہمیشہ کے لیے پاکستان لوٹ آئیں۔۲۰۰۹ میں دو سال کے لیے چیف ایڈیٹر اردو ڈکشنری بورڈ کراچی مقررہوئی اوراسلام آباد نیشنل بک فاؤنڈیشن کی سربراہ رہیں۔فہمیدہ ریاض کو متعدد انعامات سے نوازہ گیا۔حکومت پاکستان نے انھیں ادبی خدمات کے اعتراف میں ۲۰۱۰ میں صدارتی ایوارڈبرائے حسن کارکردگی اور ستارہ امتیاز سے نوازہ،۲۰۰۵ میں المفتاح ایوارڈ برائے ادب وشاعری اور شیخ ایاز ایوارڈ ،سماجی وسیاسی کامو ں کے لیے ۲۰۱۷ ہیومن رائٹس واچ کی جانب سے ہمیت ہیلمن ایوارڈبرائے ادب دیا گیا۔
فہمیدہ ریاض نے جب شاعری کا آغاز کیا تو ترقی پسند تحریک کی لہر رواں دواں تھی۔ان کی ہم عصر شاعرات میں اداجعفری ،زہرانگارشبنم شکیل اور پروین شاکر قابل ذکر ہیں۔ ا ن سبھی شاعرات نے غزل پر توجہ دی۔لیکن فہمیدہ ریاض نے نظم معرا اور آزاد نظم کو اپنے احساسات و جذبات کا اپنا وسیلہ اظہار بنایااور اپنی تانیثی آواز،غیر روایتی خیالات کی انفرادیت کے سبب جلد مقبول عام ہوگئیں۔
فہمیدہ ریاض ایک نظریاتی شاعرہ تھیں ان کا اپنا ایک منفرد نظریہ تھا جس میں انقلابی خیالات کی روش تھی۔دراصل وہ ایک ایسے معاشرے کا خواب دیکھنے والی خاتون تھیں جہاں انسان کو انسان کے جبر سے رہائی ہوخواہ وہ کسی بھی صورت میں ہو۔انھوں نے اقتصادی،ذہنی،اخلاقی،زمینی اور جسمانی تجرباتی مسائل کو اولیت دی۔ان کے تصورات و خیالات میں بتدریج ارتقاء نظر آتا ہے۔ان کا پہلا شعری مجموعہ پتھر کی زبان میں ہمیں ایک رومانی کرب کی کیفیت نظر آتی ہے جس میں عورت کا وجود نرم ونازک احساسات اور محبت اپنی پوری رنگینی و حسیاتی نزاکتوں کے ساتھ جلوہ گر ہے۔مثلا:
سچائی ،الفت خودداری
مٹی کے کمزور کھلونے
پل بھر میں ٹوٹ جاتے ہیں
ایسی مقدس جیسے مریم
ایسی اجلی جیسے جھوٹ
فہمیدہ نے جنسی تجربے کے مابعدالطبیعاتی جہت کے ساتھ منسلک کیا ہے۔ان کے لفظیات میں حسیاتی شدت بہت اہمیت رکھتی ہے۔
ان کے کلام کی خاصیت یہ بھی ہے کہ اس میں ہندی اساطیری کا اثر نظر آتا ہے۔مثلافطری مناظر،بھرے ہوے بادل گھٹا ،چڑھتے سورج وغیرہ۔ہندوستان میں اپنی جلاوطنی کے زمانے میں ہندی زبان و ادب سے قریب رہیں جس کا اثر ان کی شاعری میں کثرت سے ملتا ہے مثلا:
دل میں کیسی رم جھم کرتی
کیسی برکھا برس رہی ہے
اس برکھا کے امرت رس سے
بھیگ چکی میں بھیگ چکی میں
لگتی چھپتی دھوپ اور بادل
یہ آکاش کے ننھے بالک
کھیل رہے ہیں ہنستے ہنستے
عورت کے وجود کو کائنات ،فطرت سے مدغم کرکے انھوں نے شاعری کو ایک نئی جہت سے آشنا کیا اور اسے ایسی وسعت بخشی جو معاشرتی بندھنوں میں اسیر اور روایات کی پابندعورت سے بالکل مختلف ہے۔ان کی شاعری صرف جنس تک محدود نہیں ہے بلکہ اس سے آگے بھی بہت کچھ ہے۔یہ عورت ان کی شاعری میں اکثر و بیشترجو کہیں نہ کہیں باغیانہ اندازمیں نہ صرف اپنے وجود بلکہ انسانی حقوق کی پاسداری کرتی ہے اور ظلم وجبر کے خلاف آوازبلند کرتی ہے۔باوجود اس کے ان کی شاعری نعرے بازی کی صورت اختیارنہیں کرتی شور نہیں مچاتی بلکہ دھیمے لہجہ میں کڑوی سچائیاں کہنے کا ہنر آزماتی ہے۔
فہمیدہ فکری لحاظ سے مارکسٹ تھیں۔وہ اصلاحی،معاشرتی اور سیاسی تحریکوں سے بھی وابستہ رہیں لہذا ان کے کلام میں بھی معاشرے کے خلاف احتجاج ملتا ہے اس احتجاج کا مقصد نئے معاشرے کی تشکیل کرنا ہے۔ دراصل وہ ایسے معاشرے و نظام کی خواہش مند ہیں جومساوات ،اور عدل وانصاف پر مبنی غریب ،پسماندہ طبقے ،کسان،مزدور کے حقوق کی علمبردار ہیں۔فہمیدہ سیاسست کو زندگی سے جدا نہیں کرتی کیونکہ وہ ترقی پسند شاعرہ تھیں اور اس وقت ترقی پسند ادب کا تقاضہ بھی تھا۔وہ سیاست کو زندگی سے الگ نہیں بلکہ اس کا بنیادی جز سمجھتی ہیں اور تخلیقی فن سے اس کا گہرا ربط پیش نظر رکھتی ہیں۔وہ ایک قلم کار کو اپنے ارد گرد کے ماحول ،خواہ سیاسی،سماجی ،اقتصادی سے باخبر رہنا اور اپنی تخلیق میں دنیا کے سامنے رکھنا اہم فریضہ سمجھتی ہیں ۔ وہ تغیر پر یقین رکھتی ہیں اور اس بدلاؤ کے لیے وہ حوصلہ و ہمت دینے کی سعی کرتی ہیں تاکہ معاشرے میں مثبت تبدیلیاں آئیں۔اس میں شک نہیں کہ ان کی شاعری کا آہنگ انقلابی ہے مگر یہ نعرہ بازی قطعا نہیں ہے ۔ان کی نظم ساحل کی چند سطریں ملاحظہ ہوں:
اتنا گمنام اتنا تنہا
بے خانماں سا یہ ایک بچہ
جس کا کوئی گھر کہیں نہیں ہے
جس کی وارث زمین نہیں ہے
جیسے جھوٹی غذا کا دونا
ساحل پہ کہیں پڑا ہوا ہے
جیسے گیلی ہوا کی زد میں
میلے کاغذ کا ایک ٹکڑا
معاشی وسائل پر ناجائز قبضہ کرنے والوں کے خلاف ڈٹ جانے کا حوصلہ ان کی شاعری میں رواں دواں نظر آتا ہے۔اپنی شاعری کے ذریعے وہ مفلس اور فاقہ کش کسان و مزدور کو یاد دلاتی ہیں کہ یہ غربت اور پسماندگی ان کا مقدر نہیں ہے ان کی محنت کاپھل انکو ہی ملنا چاہیے کوئی دوسرا اس پھل کو کھانے کا حقدار نہیں ہے۔مثلا:
وہ دھرتی جو سدا تمھاری سیوا کرتی جائے
سر پر ہاتھ دھروگے تم۔بیٹھی ہے آس لگائے
دن ڈوبا ہل پاس کھرا ہے دیکھو یہ اینائے
اس کی کوکھ میں بیج تمھارا دوجا کیوں پھل پائے
یہی ماتا،یہی ہے پتنی،یہی تمھاری بیٹی
پاس وڈیروں کے مت چھوڑوبڑی اداس رہے گی
فہمیدہ کی شاعری میں زمینی محبت بنیادی اہمیت رکھتی ہے۔جہاں ان کے پرکھوں نے زندگیاں گزاری اور پیوند خاک ہوئے اس سر زمین سے بہت زیادہ وابستگی محسوس کرتی ہیں ۔اس زمین کے کلچر وہاں کے روایات سے بھی محبت کرتی ہیں ۔دراصل جو وقت انھوں کے جلا وطنی کے دوران ہندوستان میں بتایا اس کا اثر صاف ظاہر ہوتا ہے ۔یہی وجہ ہے کہ ان کے یہاں مہاجر کا تشخص بڑا پائیدار اور مضبوط ہے ۔وہ اپنے ماضی میں خود کو بہت مطمئن محسوس کرتا ہے۔حال کی زمین اس کے لیے بڑی الجھنوں کا مسکن ہے۔نظم مہاجر کی چند سطریں ملاحظہ ہوں:
یہ نیلے پیلے غبارے
خود اپنے زور سے پھوٹ گئے
نااندیش کی بلندی سے
دھجیاں،ربڑکی مردہ کھال کی طرح گریں
کس تیزی سے
بے جان ربڑ کے یہ ٹکڑے
کس سمت ٹھکانہ پائیں گے
ان کی کلام کی انفرادیت کی ایک اور جہت ممتا کا رنگ ہے ۔بچے اور ممتا ان کا مستقل موضوع ہے جس کا ثبوت ان کے کلام میں موجود لوریاں ہیں۔ممتا کا موضوع کوئی نیا موضوع نہیں ہے اور یہ شاعرات کا مشترک موضوع بھی رہا ہے مگر فہمیدہ ریاض کےیہاں یہ موضوع الگ نئی سوچ کے ساتھ پیش کیا گیا ہے ۔یہ لوریاں بچوں کو خوابیدہ زندگی گزارنے کا درس نہیں دیتی اور نہ ہی لفظوں کا میٹھا رس گھول کر دنیاسے غافل کرتی ہیں بلکہ نیند سے جگا کر زندگی کی حقیقتوں اور پریشانیوں کا سامنا کرنے کی دعوت دیتی ہیں۔جب وہ اس موضوع پر قلم اٹھاتی ہیں تو وہ اپنی بیٹی کو زمانے سے مصالحت کا درس نہیں دیتیں بلکہ مخالف حالات سے ڈٹ کر مقابلہ کرنے کی تلقین کرتی ہیں کیونکہ وہ عورت کو بزدل نہیں دیکھنا چاہتی ۔وہ اپنی پوری صلاحیتوں کے ساتھ زندہ رہنے کا درس دیتی ہیں۔انسانی اقدار و احترام کی تربیت دیتی ہیں۔مثلا:
بھیڑیے سے نہیں ڈرنا
میری جان جم کے لڑنا
کبھی مت ہونا نراس
ویرتا سکھاوں تجھ کو
شیرنی بناؤں تجھ کو
ڈر نہ پھٹکے پاس
سن میری ننھی نویلی
نہیں ہوگی تو اکیلی
سنگ ہونگے بانہہ بیلی
تیرے سنگی تیرے میت
تیرے ساتھ ساتھ ہوں گے
ہاتھ میں کئی ہاتھ ہوں گے
یہی ہے میری اک آس
ان کی شاعری میں ہمیں عورت کا انوکھا روپ نظر آتا ہے۔ایک ایسی عورت جو روایت سے ہٹ کر چلنے پر یقین رکھتی ہے ایک ایسی عورت جو نظام اور اس کے ارتقاء میں ایک گہرا شعور رکھتی ہے اور اپنے وجود کو فطری اور غیر مصنوعی صورت میں پہچاننے کی سعی کررہی ہے۔ مثلا:
پھر بھی ہاتھ بارش کے
مجھ کو ڈھونڈ لیتے ہیں
میرے روئیں روئیں کو
چھو کے چھوڑجاتے ہیں
ایک لرزش پیہم
اب کہاں چھپوں جاکر
جانتی ہوں یہ بوندیں
میرے دل پہ برسیں گی
وہ عصری آگہی رکھنے والی فعال عورت کی شخصیت کو اجاگر کرتی ہیں۔ان کے یہاں گھٹے ہوئے فرسودہ ماحول اور جبرواستبداد کے خلاف صدائے احتجاج کرتا ہوا نظریاتی پہلو سامنے آتا ہے جس کی عمدہ مثال ان کی نظم ’کیا تم پورا چاند نہ دیکھوگے‘میں واضح ہوتا ہے۔یہ ایک طویل نثری نظم ہے جس میں ایسا غم نہاں ہے جہاں دبے کچلے عوام،فاقہ کش،مفلس کو زندگی کا حق حاصل کرنے کا حوصلہ موجود ہے۔یہاں فہمیدہ ریاض عورت کا نیا روپ لے کر سامنے آتی ہیں جو صرف نسائی مسائل تک محدود نہیں بلکہ پورے معاشرے کے دکھوں کو اپنے احساسات میں لپیٹے ہوئے حساس فرد ہونے کے ناطے اچھائی برائی کا شدید احساس رکھتی ہے جو انسانی اور قومی مسائل کو اولین اہمیت دیتی ہے۔مثلا:
ممکن تو یہی ہے باغباں
ہزار گلابوں کا چمن کھلے
بارش کی بوچھا رمیں
ایک شاخچہ بھی تشنہ نہ رہے
میں اسی دن کے لیے گاتی ہوں
گاتی رہوں گی
ہر آخری گیت ۔امید کا گیت
یہ شاعر کے دل کا فرمان ہے۔
مختصر یہ کہ فہمیدہ ریاض نے منفرد موضوع و لب ولہجہ کے ذریعے اردو شاعری کے دامن کو وسیع کیا ہے۔وہ پاکستان کی پہلی شاعرہ تھیں جنھوں نے بلا خوف تحریک آزادی نسواں اور ترقی پسند تحریک کے امتزاج کوشاعری میں پیش کیا۔جس کے سبب ان کی تخلیقی اور سیاسی خیالات پر دشنام طرازی ،بارش سنگ ہوتی رہی مگر یہ باحوصلہ خاتون نے اپنے عزم سے قدم پیچھے نہیں کیے اور اپنا تخلیقی سفر ہر حال میں جاری رکھا۔
٭٭٭

Leave a Reply

Be the First to Comment!

Notify of
avatar
wpDiscuz
Please wait...

Subscribe to our newsletter

Want to be notified when our article is published? Enter your email address and name below to be the first to know.