اردو انشائیہ کی روایت اور موجودہ صورت حال
بلال احمدڈار
ریسرچ اسکالر، شعبہ اردو، مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی حیدرآباد
7006566968
Urdu Inshaiya ki Riwayat…
by: Bilal Ahmad Dar
اردو ادب میں انشائیہ کب اور کیسے وجود میں آیا بہت ہی توجہ طلب موضوع ہے جس پر کافی بحثیں ہوچکی ہیں۔ لیکن یہ فیصلہ کرپانا بہت ہی مشکل ہے کہ پہلا انشائیہ نگار کون ہے؟ جب ہم مغرب میں انشائیہ کے حوالے سے بات کرتے ہیں تو ہماری نظر فرانسیسی ادیب مونتین پر پڑتی ہے۔ مونتین کو مغرب میں انشائیہ کا موجد و بانی قرار دیا جاتا ہے۔ فرصت کے لمحات میں انھوں نے اپنے تجربوں اور مشاہدوں کی روشنی میں مختلف عنوانات پر اپنے غیر مربوط خیالات کو سپرد قلم کیا۔اپنی اس کوشش اور آزمائش کواس نے ایسے (Essay) کا نام دیا۔ ان کی انشائیہ نگاری کا سورج ہر دورمیں چمکتا ہی رہا اور ہردور میں اسے پڑھنے والوں کا ایک حلقہ میسر آتا رہا مگر حقیقت یہ ہے کہ انشائیہ میں مونتین کو اولیت کے باوجود اسے حتمی،مثالی یا حرف ِ آخر نہیں دیا گیا ۔ انشائیہ کے ارتقا اور روایت میں ان کی حیثیت ابتدائی نوعیت کی ہے۔ مونتین کی تقلید میں بہت سے انشائیہ نگار ابھر کر سامنے آگئے جن میں فرانسس بیکن ایک اہم انشائیہ نگار مانے جاتے ہیں۔ بیکن نے 1597ء میں دس ایسیز پر مشتمل ایک کتاب Essayکے نام سے طبع کی۔ان کے انشائیوں کی خاص بات اختصار پسندی ہے۔ انھوں نے اپنے مضامین میں غیر ضروری مباحث کے بجائے دلیل و برہان سے کام لیاہے۔ بیکن کے بعد انگریزی ایسے نگاروں میں ابراہم کاولے کو بہت ہی نمایا ں مقام حاصل ہے۔ا نھوں نے مکمل طور پر مونتین کے انشائی فن کی روح کے مطابق لکھا۔مغرب میں انشائیہ کو فروغ دینے میں انگریزی اخبارات و جرائد نے بھی اہم خدمات انجام دیں۔ رچرڈ اسٹیل اور ایڈیسن نے اپنے جرائد ٹیٹلر اور اسپکٹیٹر کے زریعہ نئے نئے تجربوں سے اس صنف ِ ادب کو فروغ دیا۔ ایڈیسن اور اسٹیل کی ایسے نگاری نے انگریزی ایسے پر گہرے اثرات مرتب کئے اور اس کا دامن ہر طرح کے پھولوں سے مالا ما ل کردیا۔ اس کے بعد انگریزی ادب میں ایسے نگاروں کا ایک جمِ غفیر دکھائی دیتا ہے جنھوں نے زندگی کے مختلف موضوعات پر بھرپور انشائیے تحریر کئے جن میں چارلس لیمب، ورجینا وولف، مکالے، کارلائل، رسکن، میتھو آرنلڈ، ہربرٹ ریڈ، گارڈنر وغیرہ قابل ذکر ہیں۔
اردو ادب میں لفظ انشائیہ انگریزی لفظ Essay کے معنوں میں ہی استعمال ہواہے۔ انگریزی میں رسمی یا غیر رسمی، شخصی، سماجی، تنقیدی، سیاسی یا مذہبی وغیرہ ہر طرح کے مضامین کے لئے یہی لفظ استعمال ہوا ہے۔ انگریزی ادب میں لائٹ ایسے یا پرسنل ایسے یا آرٹیکل کو مجموعی طور پر ایسے ہی کے زمرے میں رکھا جاتا ہے۔ اردو میں پہلے پہل ایسے کے لئے اردو زبان کا لفظ مضمون استعمال کیا جاتا تھا بعد میں اس لفظ کو اردو والوں نے متعدد معنوں میں استعمال کیا اور ہر قسم کے ادب پاروں مثلاََ علمی،تنقیدی،سوانحی،رسمی یا غیر رسمی وغیرہ کے لئے لفظ ـ’مضمون‘ کا استعمال کیا جانے لگا۔ انگریزی لفظ ایسے کی طرح اردو لفظ ’مضمون‘ بھی وسعت اور جامعیت کے اعتبار سے ہر طرح کے موضوعات کو اپنے دامن میں سمیٹنے لگا۔ مضمون میں طنزیہ اور مزاحیہ ادب پارے بھی جگہ پا گئے۔ علمی مقالوں،مذہبی اور سوانحی مقالوں ،شخصیات کے خاکوں، مراسلوں، جلسوں اور جلوسوں کی رپورتاژ، روزنامچوں اور اداریوں کو مجموعی طورپر مضمون ہی کہا جاتا تھا۔ لیکن یہ حالت زیادہ دیر تک قائم نہ رہی۔ جوں ہی اردوزبان میں وسعت آگئی اور اس میں مختلف ناموں کے تحت نئی اصناف نے جنم لینا شروع کیا اور بعض اصناف مغربی ادب کے زیر اثر اس میں پنپنے لگیں۔وقت گزرنے کے ساتھ اردو ادب میں بعض ایسے ادب پارے تخلیق کئے جانے لگے جو غیر رسمی انداز بیان اور ایک منفرد اسلوب کی بنا پر مراسلوں، مقالوں، کیفیہ، سوانحی مضامین، اداریہ، خاکہ، روزنامچہ وغیرہ سے بالکل مختلف نوعیت کے حامل تھے۔ اس نوعیت کے مضامین کو لائٹ ایسے،انشائے لطیف، لطیف پارہ، مضمون لطیف ، طیفیہ، مراقبہ، افکارِ پریشاں وغیرہ کا نام دیا جانے لگا۔ بعد میں لائٹ ایسے یا انشائے لطیف جیسے مضامین کو ہی انشائیہ کا نام ملا اور اردو ادب میں انشائیہ ایک تناور درخت کی صورت میں ابھر کر پروان چڑھنے لگا۔ دیگر اصناف کی طرح انشائیہ کو بھی ایک صنف کی حیثیت سے تسلیم کیا جانے لگا۔ اردو میں آکر ایسے نے پہلے مضمون کاچولا اختیار کیا اور مضمون کے ہی بطن سے انشائیہ نے جنم لیا۔ انشائیہ ترقی کے مختلف مدارج طے کرتے کرتے اپنی تکنیک،ہیئت اور اسلوب کے اعتبار سے نثری ادب میں ایک الگ صنف کی حیثیت سے پہچانا جانے لگا۔
اردو انشائیہ کی اصطلاح ایک مخصوص صنف ادب کے لیے استعمال ہوتی ہے جس کا ایک خاص داخلی مزاج ہے۔ اردو میں بلا شبہ انشائیہ انگریزی سے آیا لیکن کچھ محققین کے مطابق اردو انشائیہ بھی اتنا ہی قدیم ہے جتنا کہ انگریزی انشائیہ ۔ جس دور میں Essayکو رواج دیا گیا، اردو میں بھی اسی طرح کے مضامین لکھے جارہے تھے۔ اس لیے کسی نے انشائیہ نگاری کی روایت کی ابتداملا وجہی سے کی ہے اور کسی نے سرسید سے اور کسی نے سجاد حیدر یلدرم سے ۔ جاوید وششٹ نے اپنی کتاب’ انشائیہ اور انشائیہ پچیسی‘میں ملا وجہی کی کتاب’ سب رس ‘کو انشائیہ کا نقش اول قرار دیا ہے ۔ وجہی کا دور وہی ہے جو جو عالمی ادب کے پہلے انشائیہ نگار مونتین اور انگریزی ایسے کے موجد بیکن کا ہے۔ کچھ نقاد سرسید احمد خان کو اس صنف کا موجد قرار دیتے ہیں جن میں سید ظہیر الدین مدنی، ڈاکٹر وحید قریشی، نیاز فتحپوری، ڈاکٹر محمد زکریا، پروفیسر جمیل آزر، پروفیسر نظیر صدیقی اور ڈاکٹر سلیم اختر شامل ہے۔ یہ لوگ سرسید کو ایک باقاعدہ انشائیہ نگار تسلیم کرتے ہیں۔ ڈاکٹر سلیم اختر لکھتے ہیں:
’’سرسید پہلے ادیب ہیں جنھوں نے انگریزی ایسے کی بدیسی صنف کی قلم کو گلشنِ اردو میں لگایا۔ انہوں نے انگریزی ایسے کا مطالعہ کر رکھا تھا وہ اس کے مزاج داں بھی تھے ۔ انہوں نے طبع زاد لکھنے کے ساتھ ساتھ انگریزی ایسے کے تراجم بھی کیے۔ الغرضــ!اس نئی صنف سے وابستہ فنی اور اسلوبیاتی امکانات دریافت کرنے کی سعی کی۔‘‘ (انشائیہ کی بنیاد:ڈاکٹر سلیم اختر،ص:71)
خواجہ احمد فاروقی ماسٹر رام چندر کی تقدیمی حیثیت کو لائقِ احترام قرار دے کر لکھتے ہیں کہ ماسٹر رام چندر نے اردو مضمون یعنی ایسے سے متعارف کروایا۔ ماسٹر رام چندر قدیم دلی کالج کے نامور اساتذہ میں سے تھے۔ خواجہ احمد فاروقی ان کو مضمون نگاری،ترجمہ نگاری اور سیرت نگاری میں چراغ ِ راہ تسلیم کرتے ہیں۔ بعض ناقدین مرزا غالب کے خطوط پر انشائیہ نگاری کا گمان کرتے ہیں جن میں وہ اپنے دوستوں سے محو کلام ہے اور تکلف کا کوئی پردہ ان کے درمیان نہیں۔ ڈاکٹر غلام حسین ذولفقار اس حوالے سے لکھتے ہیں کہ بے تکلفانہ گفتگو کا پیرا یہ، مجلسی زندگی کی یہ جذبات اور ماحول کے دلکش مرقع غالب کے بعض خطوط کو افسانے اور انشائیے کے قریب لے آتے ہیں۔ اردو انشائیہ کے ضمن میں محمد حسین آزاد کا نام بھی کافی اہمیت کا حامل ہے۔ وہ سرسید کے معاصرین میں سے تھے اور اپنے منفرد اسلوب کی بنا پر اردو ادب میں ممتاز مقام رکھتے ہیں۔ انھوں نے قدیم و جدید کے امتزاج سے ایک ایسا دلکش اسلوب اختیار کیا جو صرف انہی سے مخصوص ہے۔ ڈاکٹر محمد صادق نے آزاد کی تحریروں کو تمثیلی انشائیے قرار دیا ہے۔ اردو کے کچھ انشاپرداز جن کے ہاں کسی نہ کسی صورت میں انشائیہ مل جاتا ہے ان میں مولوی ذکاء اﷲ، مہدی افادی، سجاد حیدریلدرم، سجاد انصاری، خلیق دہلوی، خواجہ حسن نظامی قابل ذکر ہے۔
یوں تو اردو میں انشائیہ کی عمر سواسال سے بھی زیادہ ہے لیکن بحیثیت ایک منفرد نثری اصناف اردو انشائیہ اپنے تمام فنی محاسن کے ساتھ بیسویں صدی کی شروع کی دہائیوں میں ابھر کر سامنے آتا ہے۔ جب ڈاکٹر وزیر آغا نے اردو انشائیے کو بیسویں صدی کی پانچویں دہائی کی پیدا وار قرار دے کر ایک نیا تنازعہ کھڑا کردیا تو بہت سے انشائیہ پڑھنے والے اس کے نوخیز ہونے پر حیرت کا اظہار کرنے لگے۔ یہ بات تو درست ہے کہ انشائیہ اردو ادب میں سرسید کے بعد باقاعدہ طور پر وارد ہوچکا تھا لیکن سرسید کی مقصدیت کے ردعمل میں اس صنف کے اچھے نمونے بھی مزاح کی پھلجڑیوں اور طنز کی جراحتوں میں دب کر رہ گئے۔ رشید احمد صدیقی،پطرس بخاری اور کرشن چندر کے ہاں طنزو مزاح سے بھرپور انشائیے ملتے ہیں جنھیں جدید انشائیہ کی قبیل میں شامل نہیں کیا جاسکتا۔ جمیل آذر اپنے مضمون ’’ انشائیہ کی کہانی ‘‘ میں لکھتے ہیں:
’’انشائیہ کے بکھرے ہوئے نقوش تو ہمیں قدما کے یہاں بھی مل جاتے ہیں بالخصوص غالب کے مکاتیب کے چند ٹکڑے ، سرسید کے کچھ مضامین ، ابوالکلام آزاد کی تصنیف غبار خاطر کے چند مضامین اور کرشن چندر کے ایک دو مضامین انشائیہ کے ابتدائی نقوش کی نمائندگی کرتے ہیں، انشائیہ کے فطری ارتقا میں ہم ان تینوں کو نظر انداز نہیں کرسکتے لیکن انشائیہ کو اردو ادب میں بطور ایک علیحدہ صنف ادب کے وزیر آغا نے متعارف کروایا۔‘‘ (’’انشائیہ کی کہانی: جمیل آزر،ماہنامہ صریر ،سالمنامہ جون،جولائی 1998،ص:52‘‘)
بیسویں صدی کی ابتدائی تین دہائیوں میں سامنے آنے والے انشائی نثرنگار نہ تو سرسید کی مقصدیت اور اصلاح پسندی کے زیر اثر تھے اور نہ ہی ایڈیسن اور اسٹیل کے۔پھر ان کا براہِ راست اور جدید ترین ادب کا مطالعہ اردو نثر کی وسعت کے ساتھ مل کر نئے مسائل و موضوعات سے آشنا کررہا تھا۔ اس کا اثر ان کے اسلوب میں بھی صاف نظر آتا ہے۔ اس وقت ہندوستان کے سیاسی اورسماجی حالات میں بھی کافی سدھار آچکا تھاجس کے باعث انشائی نثر نگاروں کے ہاں سکون،طمانیت اور شگفتگی کا عنصر پہلے کی نسبت بڑھ گیا تھا۔ اسی لئے فرحت اﷲ بیگ سے لے کر ملا رموزی تک استدلالیت اور اصلاح پسندانہ سنجیدگی کی جگہ شگفتگی اور زیر لب تبسم نے لے لی۔ فرحت اﷲ بیگ کے ہاں خوش طبعی ان کی تحریر کی اساس ہے۔’ ’اونہہ‘‘ اور’’ پٹنا‘‘ ان کی انشائی رنگ کی تحریریں بہت ہی اہم ہیں۔ خواجہ حسن نظامی کے مجموعہ ’’مضامین حسن نظامی‘‘ اور ’’سی پارۂ دل‘‘ میں اختصار،شگفتگی اور غیر رسمی انداز جیسے انشائی عناصر کے حوالے سے الو،دیا سلائی،جھینگر کا جنازہ اور آنسو کی سرگزشت جیسی تحریریں اہم اور قابل ذکر ہیں۔ منشی خلیق دہلوی کے ہاں بھی ’’میں ‘‘ سے بھرپور انشائیے مل جاتے ہیں ۔ سجاد انصاری کی’’ محشر خیال‘‘ میں انشائی عناصر پر مشتمل تحریریں مل جاتی ہیں۔ رشید احمد صدیقی، کرشن چندر، فکر تونسوی، مشتاق یوسفی، شوکت تھانوی ، کنہیا لال کپور، پطرس بخاری وغیرہ کی تحریریں بھی انشائیہ کے زمرے میں شمار کی جاتی ہیں۔
اگر تاریخی اعتبار سے دیکھا جائے تو جدید انشائیہ کی طرف آزادی کے بعد خصوصی توجہ دی گئی۔ ڈاکٹر انورسدید نصیر آغا کے مضمون ’’بہار کی ایک شام‘‘ کو اردو کا پہلا مکمل انشائیہ مانتے ہیں اور اپنی کتاب’ انشائیہ اردو ادب ‘میں فٹ نوٹ دے کر اس بات کی صراحت کرتے ہیں کہ نصیر آغا درحقیقت وزیر آغا کا ہی ہمزاد تھا اور وہ اس قلمی نام سے ادبی دنیا میں مختلف نوعیت کے مضامین لکھ رہے تھے۔ اسی دور میں جب ڈاکٹر وزیر آغاانشائیے کا نام لئے بغیر انشائی مضمون لکھنے میں مصروف تھے، ان کے معاصرین میں نظیر صدیقی اور مشکور حسین یاد بھی اپنے اسلوبیاتی فرق کے ساتھ اس صنف کی آبیاری کر رہے تھے۔ ڈاکٹر وزیر آغا،مشکورحسین یاد اور نظیر صدیقی جس قسم کے مضامین لکھ رہے تھے انھیں اختر اورینوی کا اختراع کردہ نام انشائیہ ملنے میں کافی وقت صرف ہوا۔ پاکستان کے قیام کے تقریباََ چودہ سال بعد ڈاکٹر وزیر آغا کے انشائیوں کا پہلا مجموعہ ’’خیال پارے‘‘ منظر عام پرآیا اور اس مجموعے کو پاکستان میں انشائیہ نگاری کا نقطہ آغاز قرار دیا جا سکتا ہے۔ ڈاکٹر وزیر آغا نے ہی انشائیہ کی اصطلاح کو متعارف کروایا اور اس صنف کے مختلف پہلوؤ ں کو واضح کرنے کے لئے متعدد مضامین سپرد قلم کئے۔ انھوں نے انشائیہ کو باقاعدہ ایک صنف کے طور پر متعارف کرواکر اس کی شناخت قائم کی اور اس کی انفرادیت کو ہر طرح سے نمایاں کیا۔ ان کے انشائیوں کے چار مجموعے ’’خیال پارے‘‘،چوری سے یاری تک‘‘،دوسرا کنارہ‘‘ اور سمندر اگر میرے اندر گرے‘‘کے نام سے منظر عام آچکے ہیں بلکہ اب تو ان کے انشائیوں کا کلیات بھی ’’پگڈنڈی سے روڈرولر ‘‘ تک بھی شائع ہوچکا ہے جس میں ان کے یہ چاروں مجموعے شامل ہیں۔
جس وقت وزیر آغا کا مجموعہ’خیال پارے‘ شائع ہوا اسی سنہ میں نظیر صدیقی کا مجموعہ ’شہرت کی خاطر‘ بھی منظرعام آیا جب کہ تیسرے اہم جدید انشائیہ نگار مشکور حسین یاد کی کتاب ’جوہر اندیشہ‘ 1975ء میں اشاعت پذیر ہوئی۔ جدید انشائیہ نگار انشائیے کوPersonal Essay، essay light اورEssayکے طور پر الگ الگ برتتے ہیں لہذا ان کے ہاں نقطہ نظر کے ساتھ ساتھ اسلوب کا بھی اختلاف پایا جاتا ہے۔ ڈاکٹر وزیر آغا ،نظیر صدیقی اور مشکور حسین یاد کے بعد انشائیے کو اظہار کے منفرد وسیلے کے طور پر آزمایا گیا ہے اور رفتہ رفتہ انشائیہ لکھنا ایک شائستہ، سستہ اور شگفتہ عمل قرار پایا جس میں شرکت کے لیے بہت سے ادبا ء بے تاب نظر آنے لگے۔ اگر یہ کہا جائے کہ اس دور میں انشائیے کی تحریک پروان چڑھی تو بے جا نہ ہوگا۔ مذکورہ تین انشائیہ نگاروں کے دوش بدوش ڈاکٹر داؤد رہبر، جاوید صدیقی، غلام علی چودھری حسین کاظمی ، ممتاز مفتی ، امجد حسین، جسٹس رستم کیانی کے نام کافی نمایاں نظر آتے ہیں۔
وزیر آغا اپنے انشائیوں میں متنوع موضوعات لانے کے ساتھ انھیں اسلوبیاتی اعتبار سے شگفتہ بنانے کی سعی کرتے نظر آتے ہیں جس میں ان کی کامیابی تسلیم کی جا سکتی ہے۔ مشکورحسین یاد کے مجموعے ’جوہر اندیشہ‘ کے مضامین سنجیدہ اور فکری ہیں۔ ان مضامین میں اصلاح کا جذبہ بھی کارفرما نظرآتا ہے۔نظیر صدیقی نے انشائی مجموعے ’شہرت کی خاطر‘کے مقدمے میں انشائیے کی شعریات پر بحث کی ہے۔ اس مجموعے میں طنزومزاح کی کارفرمائی زیادہ نظر آتی ہے۔ نظیر صدیقی کے انشائیوں میں طنز کی گہری کاٹ شگفتگی کے ساتھ نظر آتی ہے۔ انھوں نے اپنے انشائیوں میں معاشرتی برائیوں اور ناہمواریوں کے خلاف آواز بلند کی ہے۔ مشتاق قمر ایسے انشائیہ نگار ہیں جنھوں نے طنزومزاح کو چھوڑ کر انشائیے کی اصل روح تک پہنچنے کی کوشش کی ہے۔ان کے انشائیوں میں سوچ کی ہلکی سی لہر ملتی ہے۔انھوں نے محض تفنن طبع کے لیے انشائیے نہیں لکھے بلکہ انھوں نے انشائیہ کی شعریات کو ملحوظ رکھا۔ان کی شخصیت کا پرتو ان کے انشائیوں میں صاف طور پر نظر آتاہے۔ان کے مجموعے ’ہم ہیں مشتاق‘ کو اردو انشائیہ نگاری کی تاریخ میں اہمیت حاصل ہے۔
غلام جیلانی اصغرکے انشائیے دلکش اسلوب اور تازگی ٔ فکر سے لبریز ہے۔ان کے انشائیوں سے ان کے مطالعے کی وسعت،تجربے کی گہرائی اور شوخی و ظرافت نمایاں ہوتی ہے۔ انھوں نے منفرد موضوعات پر انشائیے لکھے۔ ان کے انشائیوں میں سنجیدگی نہیں بلکہ ہلکے پھلکے انداز کے موضوعات ملتے ہیں۔ اختصار ان کے انشائیوں کی خاص خصوصیت ہے۔ جمیل آذر کے انشائیوں میں ان کی شخصیت کا اظہار بڑے ہی خوبصورت اور دلکش انداز میں ملتا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ ان کی شخصیت کے اظہار کے لیے انشائیہ سے بہتر کوئی صنف نہیں ہوسکتی۔انھوں نے اپنے انشائیوں میں زندگی کے عام مسائل کو اپنے موضوع کا اظہار بنایا۔انھوں نے نہایت ہی سیدھے سادے انداز میں اپنے عہد سے روشناس کرایا ہے۔وہ غیر محسوس انداز میں خرابیوں کی طرف متوجہ کراتے ہیں۔ان کا انشائی مجموعہ ’’شاخِ زیتون ‘‘ تاریخ انشائیہ نگاری میں بہت ہی اہمیت کا حامل ہے ۔ان کے انشائیوں میں گھر اور وطن سے محبت کا احساس بہت نمایا ں ہے۔نکتہ آفرینی ان کے انشائیوں کی خاص خوبی ہے۔اکبر حمیدی جیسے معروف شاعر نے جب انشائیہ نگاری کو اپنی توجہ کا مرکز بنایا تو انھوں نے چندخوبصورت انشائیے تحریر کئے ۔ان کے انشائیوں کا پہلا مجموعہ ’جزیرے کا سفر‘ 1985 ء میں منظر عام آیا۔
1975ء سے لے کر اب تک کے دور کو بجا طور پر اردو انشائیے کی مسلسل کامرانیوں کا دور قرار دیاجاسکتا ہے۔اس کی مقبولیت کی بڑی وجہ یہ ہے کہ یہ ایک امتزاجی صنف نثر ہے جس میں شعر جیسا حسن موجود ہے۔ آزادی کے بعد ہندوستان کے مقابلے میں پاکستان میں انشائیہ نے ترقی کے منازل طے کیں۔ جس وقت پاکستان میں انشائیہ کی تحریک اپنے شباب پر تھی اس وقت ہندوستان کے صرف تین انشائیہ نگار اس صنف کے تحت اپنی تحریریں سپرد قلم کر رہے تھے جس کا اعتراف ڈاکٹر وزیر آغا نے ان الفاظ میں کیا ہے ـ:
’’ پاکستان میں انشائیہ نگاری ایک تحریک کی صورت اختیار کر چکی ہے جب کہ بھارت میں تا حال صرف تین انشائیہ نگار وں نے اس میدان میں قدم رکھا ہے ان میں دو منجھے ہوئے ادیب ہیں یعنی احمد جمال پاشا اور رام لعل نابھوی لیکن تیسرا ایک نوجوان انشائیہ نگار محمد اسداﷲ ہے ۔‘‘(پیش لفظ،بوڈھے کے رول میں:محمد اسداﷲ)
احمد جمال پاشا کا نام اردو میں غیر افسانوی نثر کے حوالے سے تعارفِ محتاج نہیں۔احمد جمال پاشا نے جب ادبی دنیا میں قدم رکھا تو لوگ انگشت بدنداں ہوگئے۔ انھوں نے اپنی طالب علمی کے زمانے ہی میں ’’کپور ایک تحقیقی و تنقیدی مطالعہ ‘‘ جیسا کامیاب مضمون لکھ کر لوگوں کو سوچنے پر مجبور کردیاتھا۔مگر’’ ادب میں مارشل لا ء‘‘ اور’’ رستم امتحان کے میدان میں ‘‘ لکھنے کے بعد ان کی ادبی حیثیت مسلم ہوگئی۔بیسویں صدی کی ساتویں دہائی میں احمد جما ل پاشا کی تخلیقی صلاحیت اپنے شباب پر تھی۔ان کی کافی تعداد میں کتابیں زیورطبع سے آراستہ ہوکر منظر عام پر آئیں۔ پاشا کے جو انشائیے ہندوستان و پاکستان کے متعدد رسائل میں شائع ہوتے رہے ان میں ’چیخنا‘،’کچھ تنقید کے بارے میں‘،’بور‘ ،’ہجرت‘ ،’بے ترتیبی‘، ’شور‘، ’اصولوں کی مخالفت میں‘،’چغلی کھانا‘،’تنہائی کی حمایت میں‘ اور ’کچھ بلیوں کے سلسلے میں ‘وغیرہ مگر اس کے ساتھ ہی ساتھ کچھ ایسے مضامین بھی ملتے ہیں جو مضمون کے زمرے میں شامل ہیں لیکن وہ انشائیے سے قریب ہیں ان میں انشائیہ کی خصوصیات غالب ہیں اورانہیں بھی انشائیہ میں شامل کیا جاسکتا ہے۔ ان میں مونچھیں،نیا پیسہ،ٹائم ٹیبل،آنی جانی قیامت،ناپسندیدہ لوگ وغیرہ مضمون شامل ہیں۔احمد جمال پاشا کو انشائیہ کے فن میں مہارت حاصل تھی ۔احمد جمال پاشا جب انشائیہ تخلیق کرتے تھے تو وہ کسی عام موضوع کو لے کر موضوع کا زاویہ بدل کر اس کے اندر چھپے ہوئے پہلوؤں کو اجاگر کرتے ۔احمد جمال پاشا کے چند انشائیوں کے اقتباس نمونے کے طور پر پیش کئے جاتے ہیں۔انشائیہ ’بے ترتیبی‘ کا یہ اقتباس ملاحظہ کیجئے:
میری نگاہوں کے سامنے لامحدود نیلگوں آسمان کتابِ فطرت کی طرح کھلا ہوا ہے جس پر بے شمار ستارے اور سیارے انتہائی بے ترتیبی کے ساتھ چمک ،جل اور بجھ رہے ہیں با لکل فوج کی طرح میدانِ جنگ میں بکھرے ہوئے ،پھیلے ہوئے،اس بے ترتیبی میں عجب شانِ ترتیب ہے۔چھوٹے،بڑے دور،قریب،مدھم،روشن،بلب کی طرح بھڑ کتے اور فیوز ہوتے،روشنی کی لکیر بناتے ہوئے غائب ہوجانے والے تارے۔‘‘
’’چیخنا ‘‘بھی ان کا ایک کامیاب انشائیہ ہے جو اپنے منفرد انداز کی وجہ سے کافی شہرت حاصل کرچکا ہے۔اقتباس ملاحظہ کیجئے:
’’چیخنا دراصل ایک اضطراری عمل ہے۔ ہم کسی بھی خلاف توقع بات پر بہ آسانی چیخ سکتے ہیں کیونکہ چیخنا ہمارا پیدائشی حق ہے۔چیخنا عین جمہوری عمل ہے ،جمہوریت اور جمہور کا فرض ہے صرف چیخنے اور چخوانے کے لئے ہم پارلمینٹ اور اسمبلیاں بناتے ہیں،الیکشن لڑتے ہیں۔‘‘
احمد جمال پاشا دنیا کی بے ترتیبی سے بھی ناخوش ہیں ۔ انہیں یہ بے حسی کا عمل لگتا ہے۔ انسانی فطرت میں بے ترتیبی ہو یا آسمانی بے ترتیبی ، زمینی بے ترتیبی ہو یا مکانی بے ترتیبی ادب کی بے ترتیبی ہو بہرحال انھیں اس بے ترتیبی سے گلہ اور شکوہ ہے۔ پاشا نے چیخنے جیسے موضوع اور مہمل عمل کو بھی موضوع بنا دیا ہے۔ انھوں نے چیخنے کے عمل کی مختلف تہوں کو ابھارا ہے اور اس میں بات سے بات پیدا کی ہے۔
رام لعل نابھوی کا نام بھی انشائیہ میں کافی اہمیت کا حامل ہے۔ان کے انشائیوں کا مجموعہ ’’آم کے آم ‘‘منظر عام پر آیا جس میں سولہ انشائیے شامل ہیں۔رام لعل موضوعات کے انتخاب میں کافی غورو فکر اور سوجھ بوجھ کا مظاہرہ کرتے ہیں۔انھوں نے مجرد کو جسم بناکر پیش کیا ہے بالخصوص ’’ انتظار ‘‘ فیشن ،مسٔلہ،تنہائی وغیرہ کو انہوں نے بڑے فنکارانہ انداز میں مجسم کیا ہے۔اس کے بعد جو انشائیہ نگار نمودار ہوئے ان میں سید آوارہ،اندرجیت لال،حسنین عظیم آبادی،مجتبیٰ حسین،پروفیسرخورشید جہاں،یوسف ناظم ، جاوید وششٹ، طالب زیدی ، منظور عثمانی ، عابد معز، مرزامحمد زمان آزردہ وغیرہ شامل ہیں جنھوں نے اپنی تحریروں سے انشائیہ کے فروغ میں اہم رول ادا کیا۔موجودہ دورمیں اس صنف کی آبیاری میں ادیبوں کی ایک لمبی قطار نظر آتی ہے جن میں کچھ ادیب دوچار انشائیے لکھ کر نام کما چکے ہیں اور کچھ انشائی مجموعے شائع کرکے اس صنف میں ہندوپاک میں شہرت حاصل کرچکے ہیں۔ ڈاکٹرمحمد اسداﷲ موجودہ دور کے وہ انشائیہ نگار ہیں جس کے انشائیے ہندوستان سے زیادہ پاکستان میں شہرت کی دہلیز پار کر چکے ہیں۔ محمد اسداﷲ انشائیے کے فن سے پوری طرح واقف نظر آتے ہیں۔ انھوں نے بہت جلد فنی ہفت خواں طے کرکے اردو انشائیہ میں ایک بلند مقام حاصل کرلیا ہے۔ان کے یہاں انشائیہ من کی موج ہے جس میں فکر ،بصیرت اورمسرت کے ذہنی دریچے وا ہوتے ہیں۔محمد اسد اﷲ کے انشائیوں کا پہلا مجموعہ ’’ بوڈھے کے رول میں 1991ء میں شائع ہوا جس میں ان کے مشہور ومعروف انشائیے ’انڈا‘،نیچر کی گود میں‘،ڈائری‘،نافرمانی‘،بوڈھے کے رول میں ‘،ٹائم پاس کرنا‘عینک،دستخط وغیرہ شامل ہیں جو ان کے بیدار ذہنیت کا پتہ دیتے ہیں۔ 2015 ء میں ان کے انشائیوں اور طنزیہ و مزاحیہ مضامین کا دوسرا مجموعہ ’’ڈبل رول ‘‘ شائع ہوا جس میں ان کے گیارہ انشائیے شامل ہیں۔اسی سال ان کی انشائیہ پر اور ایک کتاب ’’انشائیہ کی روایت مشرق و مغرب کے تناظر میں‘‘ منظر عام پر آئی جس میں انھوں نے انشائیہ کو ایک منفرد صنف ادب کے طور پر پیش کرنے کی کامیاب کوشش کی ہے۔اس کے ساتھ ہی انھوں نے طنزیہ و مزاحیہ مضمون اور انشائیے کے فرق کو بحسن و خوبی واضح کیا ہے۔
2017ء ہی میں ان کی انشائیہ نگاری پر ایک اور کتاب ’’یہ ہے انشائیہ‘‘ شائع ہوئی جس میں انھوں نے کچھ انشائیہ نگاروں کے مضامین بھی شامل کیے ہیں جو انشائیہ کے فن اور تنقید پر مشتمل ہے جن میں وزیر آغا کا مضمون ’اردو انشائیہ کی کہانی‘،انور سدید کا مضمون ’انشائیہ اور عصری آگاہی ،مشکورحسین یاد کا مضمون ’انشائیہ بطور ایک اصطلاح ادب،ڈاکٹر سلیم ا ختر کا مضمون ’ انشائیہ :مبادیات ‘،رشید امجد کا مضمون ’کچھ انشائیہ کے بارے میں‘ شامل کیے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ مختلف انشائیہ نگاروں کے 26انشائیوں کا انتخاب کیا ہے ۔کتاب کے آخر میں مغربی انشائیوں کے تراجم اور مراٹھی زبان کے تراجم بھی شامل کئے گئے ہیں۔
اس کے علاوہ بھی بہت سارے انشائیہ نگارہیں جو اس صنف کی آبیاری،ترقی اور فروغ کے لئے تحریریں تخلیق کر رہے ہیں اور پہلے کے مقابلے میں موجودہ دور میں اس صنف کے تحت لکھنے والوں کی تعداد میں روز بہ روز اضافہ ہوتا جارہا ہے اور یہاں کے ادیب اس صنف کو پاکستان کے دوش بدوش کھڑا کرنے کی کوشش میں دل و جان سے محنت کر رہے ہیں ۔آج انشائیہ موضوعاتی،فکری اور معنوی لحاظ سے وسعت پذیر ہے اور اس کی اب تک کی رفتارسے پتہ چلتا ہے کہ اس کا مستقبل شاندار اور تابناک ہے۔نوجوان قلمکاروں کی رغبت اور دلچسپی اس صنف کے حوالے سے بڑ ھتی جارہی ہیں اور یو ں لگتا ہے کہ موجودہ صدی انشائیہ کے لئے مفید اور کارآمد ثابت ہوگی۔
٭٭٭٭
Leave a Reply
Be the First to Comment!