علّامہ اقبالؔ کی شاعری میں فارسی شعراء کی چند جھلکیاں
ثنا کوثر شعبۂ اردو، علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی علی گڑھ
شاعر مشرق ،حکم الامت اور ترجمانِ حقیقت جیسے القاب پانے والے سر علّامہ اقبالؔ اردو ادب یا ہندوستان کے نہیں بلکہ پوری دنیا کے شاعر ہیں۔ ان کے متعلق صرف یہ کہنا کہ وہ عظیم شاعر ہیں یقینا کم معلوم ہوتا ہے۔کیوں کہ وہ ایک مفکر اور فلسفی بھی ہیں۔انھوں نے اپنے فکرو فن سے قوم میں بیداری پیدا کی اور اسلام میں پھیلی تاریک فضا کو ہر چند روشن کیا۔ان کی شاعری کی عظمت اور فلسفیانہ خیالات کا سکّہ پوری دنیا میں رائج ہے۔اقبال کی شاعری کو چار ادوار میں تقسیم کیا گیا ہے۔ابتدا سے ۱۹۰۵ء ، ۱۹۰۶ء سے ۱۹۰۸ء ، ۱۹۰۹ء سے ۱۹۲۴ء اور ۱۹۲۵ء سے ۱۹۳۸ء تک۔ان کے شعری مجموعے اردو اور فارسی دونوں زبانوں میں ہیں۔اردو میں بانگ دِرا، بالِ جبریل، ضربِ کلیم اورارمغانِ حجاز اور فارسی میں اسرار خودی، رموزِ بے خودی، پیام مشرق، مثنوی مسافر،زبور عجم،جاوید نامہ وغیرہ ہیں۔ ان مجموعوں میں شامل تمام تر کلام قوم کی اصلاح و تربیت کے لیے ہیں۔
اقبالؔ نے اپنے فکر و فلسفہ میں بہت حد تک فارسی شاعری سے بھی استفادہ کیا ہے۔انھیں مولانا روم سے بہت گہری عقیدت تھی۔ مولانا روم کی’ مثنوی معنوی ‘سے اقبال ؔنے خودی کا فلسفہ اخذ کیا اور عقل پرستی کے لیے مولانا روم کا جہاد اور جذبہ عشق کی طرف ان کے رجحان کو اپنے فلسفہ میں شامل کیا ہے ۔ اقبال ؔاور رومیؔ مجموعی نظامِ فکر کے اعتبار سے یکساں ہیں۔اقبالؔ نے اپنے کلام میں ملّتِ اسلام کو خاص زاویہ نظر سے دیکھنے کی کوشش کی ہے۔انھوں نے اسلام پر ہو نے والے اعتراضات کا محض جواب ہی نہیں دیا بلکہ اسلامی فکر کی باقاعدہ مثبت تشریح کی ہے۔انھوں نے صوفیہ اکرام کے حوالوں سے اور دوسرے شعرا کے شعر کی تضمین میں نظمیں لکھ کر اپنے خیالات کے ساتھ ساتھ دوسرے شاعروں کے خیالات کو بھی پیش کیا ہے۔
اقبالؔ نے فارسی شعرا کے اشعار کی تضمین میں بہت سی نظمیں لکھیں ہیں۔جن شعراء میں صائبؔ، بیدل،ؔ کلیمؔ، فیضیؔ، عرفیؔ، خاقانیؔ، رومیؔ، ملک قمیؔ، ملّا عرشیؔ، رضی دانش وغیرہ ہیں۔ یہ نظمیں بانگ دِرا اور ضربِ کلیم میں شامل ہیں۔اقبال نے مسلمانوں کو مذہب اور تہذیب کو پہچاننے کے لیے ہر طرح سے درس دیا۔جن فارسی شعرا نے مسلم قوم کی بیداری کے لیے لکھا اقبال نے انھیں پسند کیا اور اسے اپنی شاعری میں شامل بھی کیا ہے۔انھوں نے جب بھی کوئی نظم لکھی اس میں تعلیم و تدریس کا پہلو نمایاں رکھا ہے۔
اقبالؔ نے فارسی کے شاعر صائب کے ایک شعر کی تضمین میں نطم لکھی جس کا شعر یہ ہے:
ہماں بہتر کہ لیلی در بیاں باں جلوہ گر باشد
ندارد تنگنائے شہر تاب حسن صحرائی
یہاں صائب کی حسن صحرائی سے مراد لیلیٰ کے فطری حسن سے ہے۔یعنی اس کا حسن کسی سامانِ آرائش کا محتاج نہیں ہے۔اور اقبال کی اس سے مراد اسلام کی قدرتی دلکشی سے ہے۔کیوں کہ اسلام دینِ فطرت ہے۔جبکہ اس زمانے میں مسلم قوم مردہ ہو چکی ہے، لہذا ہمیں تبلیغ کی ضرورت ہے۔اسی پس منظر میں اقبال نے پوری نظم لکھی ۔اس کا پہلا شعر یہ ہے:
کہاں اقبالؔ تو نے آ بنایا آشیاں ا پنا
نوا اس باغ میں بلبل کو ہے سامانِ رسوائی
اس شعر میں اقبا لؔ خود سے مخاطب ہوتے ہوئے قوم کی پسمانندگی کا ذکر کرتے ہیں۔ اور پوری نظم میں مایوسی ظاہر کرتے ہیں کہ ہماری قوم بے حس ہو چکی ہے۔ اقبال کا قوم کے لیے اس طرح کا اظہار بھی قوم کا ساتھ چھوڑنا نہیں بلکہ قوم کو ان کے حالات سے آگاہ کرنا ہے۔ اسی طرح ابو طالب کلیمؔ کا شعر:
سر کشی باہر کہ کردی ، رام او باید شدن
شعلہ ساں از ہر کجا بر خاستی ،آنجا نشیں
اس شعر میں کلیمؔ نے بہترین نقطہ بیان کیا ہے کہ یہ مناسب ہے تو اس شخص کی پھر اطاعت کر جس کے خلاف تو نے سر کشی کا شیوہ اختیار کیا تھا،یعنی مراد( ﷺ)، اور تو اس شعلہ کی طرح جہاں سے اٹھا تھا وہی بیٹھ جا یعنی اسلام کی اطاعت کر۔
اقبالؔ کو اس شعر نے بے حد متاثر کیا۔انھوں نے اس شعر کی تضمین میں جو نظم لکھی، اس میں اسلام کی اطاعت اور سنتِ نبوی کی پیروی کی تعلیم دی ہے کہ اے مسلمانوں تمہاری زندگی میں غیر اسلامی نظریات نے جگہ لے لی ہے اور اس میں تبدیلی لانے کی ضرورت ہے، تبھی تمہاری ترقی ممکن ہے۔ کیوں کہ تمہارے عمل میں وہ صداقت نہیں ہے جس کی بنا پرتم سب کے سامنے کلمہ حق تھے۔اس نظم کے اشعار ملاحظہ ہوں:
خوب ہے تجھ کو شعارِ صاحب یثربؑ کا پاس
کہہ رہی ہے ز ندگی تیری تو مسلم نہیں
دیکھ تو اپنا عمل تجھ کو نظر آتی ہے کیا
وہ صداقت جس کی بے باقی تھی حیرت آفریں
اقبالؔ جدید تعلیم کے حامی تو تھے مگر انھوں نے کبھی اس بات کو نہیں سراہاکہ ہماری قوم جدید تعلیم حاصل کرکے اسلامی فرائض کو نظر انداز کر دے۔انھوں فارسی شاعر ملّا عرشیؔ کے شعر کی تضمین میں ایک نظم ’’تعلیم اور اس کے نتائج ‘‘ لکھی ،جس میں کہتے ہیں :
خوش تو ہیں ہم بھی جوانوں کی ترقی سے مگر
لبِ خنداں سے نکل آتی ہے فریاد بھی ساتھ
ہم سمجھتے تھے کہ لائے گی فراغت تعلیم
کیا خبر تھی کہ چلا آئے گا الحاد ساتھ
اقبالؔ نے مغربی طریقہ تعلیم سے کہیں زیادہ قرآن و احادیث ،ادبیات اسلامی،کتب تصوّف اور صوفیہ اکرام سے استفادہ کیا ہے۔انھوں نے مغربی فلسفہ سے بہت کچھ اخذ کیا ہے لیکن وہ کبھی بھی مشرقی تہذیب کو مٹتے ہوئے نہیں دیکھنا چاہتے تھے۔اسی لیے انھیں ’’شاعر مشرق‘‘ کے خطاب سے بھی نوازہ گیا۔ اس کا رنگ ان کے یہاں دیکھا جا سکتا ہے :
یہی درس دیتا ہے ڈوبتا ہوا سورج ہم کو
مغرب کی جانب جاؤ گے تو ڈوب جاؤ گے
اس کے علاوہ اقبالؔ نے دوسرے موضوعات مثلًا مذہب کو بھلا کر دنیا میں گرفتار ہونے والے نقائص کی طرف بھی توجہ مرکوز کرائی ہے۔ فارسی خاقانیؔ نے اپنی شاعری میں یہ واضح کیا ہے اور اس بات پر توجہ مرکوز کی ہے کہ دنیا میں انسانیت ختم ہو چکی ہے اور شیطانی کھیل جاری ہے۔اس لیے ضروری ہے کہ ہم اس دنیا کے قانون سے واقف ہوں کہ آخر اس میں کیا لذّت ہے؟جو دنیا والے اس میں گرفتار ہو جاتے ہیں۔
اقبالؔ، خاقانیؔ سے بے حد متاثر تھے ۔اور ان کی مثنوی ’’ تحفتہ العرقین‘‘کو پسند کرتے تھے۔اقبال ؔنے ان کے خیالات کو سمجھنے کی کوشش کی ،اور ان کے اس نقطہ کو کہ دنیا میں ابلیسیت تو باقی ہے اور آدمیت ختم ہو چکی ہے، پر خاص توجہ کی ہے۔
وہ محرم عالم مکافات
اک بات میں کہ گیا ہے سو بات
خود بوئے چنیں جہاں تواں برد
کابلیس بماند و بوالبشر مُرد!
اسی طرح اقبالؔ نے دوسرے شاعر فیضیؔ کے اس خیال ،جس کا مقصد یہ تھا کہ اگر ہمیں اسلام میں رہنا ہے تو مسلمان بن کر ہی رہ سکتے ہیں۔اس موضوع پر ایک نظم’’ تہذیب حاضر ‘‘ تحریر کی:
حرارت ہے بلا کی بادۂ تہذیب حاضر میں
بھڑک اٹھا ہے بھبوکا بن کے مسلم کا تن خاکی
نئے اندازپائے نوجوانوں کی طبیعت نے
یہ رعنائی، یہ بیداری، یہ آزادی ، یہ بیباکی
حیاتِ تازہ اپنے ساتھ لائی لذتیں کیا کیا
رقابت، خود فراموشی، ناشکیبائی، ہوسناکی
علاوہ ازیں اقبالؔ نے عرفیؔ، بیدلؔ،ملک قمیؔ وغیرہ کے خیالات کو بھی اپنی شاعری میں شامل کیا ہے۔اسی لیے انھیں کسی ایک نظم کے سبب پیامی ، قومی اور مذہبی شاعر نہیں کہا جاتابلکہ ان کا مکمل کلام قوم کی بیداری کے لیے ہے۔
Leave a Reply
1 Comment on "علّامہ اقبالؔ کی شاعری میں فارسی شعراء کی چند جھلکیاں"
Salam,
سورج ہمیں ہر شام یہ درس دیتا ہے کہ
مغرب کی طرف جاؤ گے تو ڈوب جاؤ گے
Aap ne zikr kia ha ye kalam Allama Iqbal ha, kya koi sanad / reference ha iske, hame ye kahe nai mila Allama ki kitabu se.
Meharbani karke references bheje. Shukriya