ماہر غالبیات ، محقق و شاعر : کالی داس گپتارضاؔ

داؤد احمد

اسسٹنٹ پروفیسر،شعبۂ اردو

فخرالدین علی احمد گورنمنٹ پی۔جی کالج محمودآباد،سیتاپور(یو۔پی)

8423961475

               کالی داس گپتا رضاؔ کی شخصیت ان کے قلمی کارناموں تحقیق وتدوین شاعری و نثری تصانیف اور خاص کر غالب شناس کی حیثیت سے جانی پہچانی جاتی ہے۔ان کی ایک ہی کتاب ’’دیوان غالب تاریخی ترتیب سے ‘‘ان کو زندہ رکھنے کے لئے کافی ہے مگر خود رضاؔ صاحب کی ذات سے ،ان کے علمی و تحقیقی وجودسے ،ان کے ادبی مذاق سے اور وسیع علم و آگہی سے عوام الناس کو مستفیض ہونے کا موقع نہ جانے کتنی کتابوں سے گراں تر و لا محدود ہے۔

               شاعر،ادیب ،محقق پہلے بھی تھے اب بھی ہیں آئندہ بھی رہیں گے مگر ایسی ہستیاں جو جامع علوم و فنون ہوکر صحن علم و ادب کے پودوں کی آبیاری کر سکیں ان کا وجود اب کم سے کم ہوکر رہ گیا ہے ۔ گپتا رضاؔ صاحب بہت مصروف تھے ۔پابند وقت ،ضبط و نظم کے غلام روزی روٹی کے لئے کبھی کبھی ان کو باہر جانا پڑتا ورنہ دفتر میں مستعد و مشغول بکار ہوکربیٹھنا پڑتا تھا مگر گھر اور دفتر کہیں بھی اگر ادب کا کوئی سوار یا پیادہ راہ گیر یا آوارہ و مجنوں ان تک پہنچ جاتا تو اس کی پذیرائی آؤ بھگت وہ ہمیشہ سیر چشمی اور کشادہ پیشانی سے کرتے تھے ۔اپنی مخصوص مسکراہٹ و استقبالیہ جملوں سے۔ادیبوں اور شاعروں کی کمک ان کا سب سے عزیز مشغلہ تھا اس میں بڑے چھوٹے کی کوئی تفریق نہیں تھی ۔ان کی سادگی و نرم دلی سے کوئی جان نہیں سکتا کہ یہ کون ہیں،کیا کرتے ہیں ۔ایک شریف انسان ،درد مند ، وضعدار ، عدالت پسند،علم وادب کا خادم۔ اگر حق و حقیقت کی عینک سے دیکھا جائے تو بہت سی خوبیوں اور صفات میں ان کا ہم پلہ نظر نہیں آئے گا۔ایک محفل میں علی سردار جعفری نے کالی داس گپتا رضاؔ کا تعارف پیش کرتے ہوئے فرمایا تھا :

               ’’کالی داس گپتا رضاؔ اپنے پیشے کے اعتبار سے بیوپاری ہیں لیکن اگر دوسری طرف دیکھا جائے تو یہ کتابیں جمع کرنے والے ،شعر کہنے والے،تحقیق کرنے والے مشہور شاعر و ادیب ہیں ۔ تو ہم انھیں یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ زندہ رہنے کے لئے بیوپار کرتے ہیں اور زندگی کو حسین بنانے کے لئے ادب کی خدمت کرتے ہیں ، یہ اس گنگا جمنی ملی جلی تہذیب کی نشانی ہیں جس پر ہندوستان کو فخر ہے۔‘‘

               حقیقت یہ ہے کہ کالی داس گپتا رضاؔخاندانی بیوپاری ضرور تھے لیکن اردو تحقیق اور غالب سے انھیں عشق تھا۔ ان کی اپنی ذاتی لائبریری میں ہزاروں کتابیں تھیں ۔انھوں نے بیش قیمت اور کمیاب کتابوں کی فراہمی کے سلسلے میں ہزاروں لاکھوں روپے صرف کئے بالخصوص غالب کے تو وہ عاشق اور دیوانے تھے۔ان کے جنوں کا یہ عالم تھا کہ وہ شب و روز غالب تحقیق میں سرگرداں رہتے اور انھیں کسی دوسری بات کی فکر نہیں رہتی ۔ان کا انداز و اسلوب بھی سلجھا ہوا اوراستدلالی تھا۔ان کی وسعت تلاش و مطالعہ اور قوت حافظہ پر سبھی لوگ عش عش کرتے ۔ان کی نثر کی خوبیوں کے بارے میں شمس الرحمٰن فاروقی نے لکھا ہے :

               ’’ رضا کی نثر بہت سادہ ،پاکیزہ ، افراط و تفریط سے پاک، طنز و تعریض کے کانٹوں سے مبرا اور تعلی سے معرا تھی۔ ان کے انداز میں قطعیت اور لہجے میں اعتماد کی صلابت ضرور تھی اور ایسا ہی ہونا چاہئے۔ ․․․․رضا کی نثر میں علمی وقار تھا اور اس وقار کی پشت پناہی کے لئے وہ اپنے گہرے اور وسیع علم کی بیجا نمائش نہیں کرتے تھے بلکہ علمیت ان کے متن سے از خود تراوش کرتی تھی ۔ حوالوں اور شواہد کی فضول کثرت ان کے یہاں نہ تھی ،لیکن وہ کوئی بات بے دلیل نہ کہتے تھے۔‘‘ (سہ ماہی اسباق، پونہ، رضا نمبر)

               گپتا رضاؔ صاحب ایک مخصوص سانچے کے ڈھلے آدمی تھے ان کو اپنے بزرگوں سے جو سنسکار ملا تھا اسے انھوں نے پوری طرح سے سنبھال کر رکھا تھا۔وہ مختلف علوم وفنوں پر قدرت رکھتے تھے۔جس کا اظہار شاید و باید ہی کرتے تھے اور جس کو معلوم ہوتا وہ تعجب میں پڑجاتا۔بیس سال نیروبی میں رہ کر بھی وہ پیسہ کمانے کے ساتھ ساتھ کچھ نہ کچھ حاصل کرتے رہے اور شعرونثر کی صورت میں لوٹاتے رہے۔علم الاصنام،جیوتش،موسیقی ساز و آواز ان کے مخصوص علوم تھے ۔وہ فارسی کے اچھے اسکالر تھے اور عربی کے قدرداں۔اردو ادب کی توبات ہی نہ پوچھئے۔غالبیات سے زیادہ لگاؤ تھا ،دیگر شعراء کی شاعری کا رس انھوں نے بوند بوند پیا تھا۔داغؔ،ذوقؔ،چکبستؔ،وآتشؔ پر تو ان کی کتابیں شائع ہو چکی ہیں ۔اس کے ساتھ ساتھ رثائی ادب پر بھی ان کی گہری و تفصیلی نظر تھی ۔لکھنؤ اسکول کے شعرا رندؔ،صباؔ،رشکؔ اور بحرؔ کے بہت سے عمدہ اشعار ان کے نوک زبان تھے۔

               رضاؔ صاحب کی ترقی پسندوں سے بنتی تھی ،سردار جعفری کی علمیت و ذہانت و فن کے وہ قدرداں تھے ۔مجروحؔ کی بھی تعریف کرتے تھے ،کیفیؔ کے بارے میں بھی ان کے خیالات اچھے تھے مگر ظ انصاری کے لئے کبھی کوئی میٹھی بولی نہیں بولے،ان کو ظ انصاری کی فارسی دانی پر بھی یقین نہیں تھا۔

               کالی داس گپتا رضاؔ کی ساری زندگی کتابوں کے مطالعے،کتابوں کی تصنیف،کتابوں کی تالیف و تدوین اور اشاعت میں گزری۔کتابوں سے انھیں جنون کی حد تک پیار تھا ۔ان کی اپنی ذاتی لائبریری میں نادر و نایاب کتابوں اور مخطوطوں کا ذخیرہ موجود تھا۔یہ کتابیں رضاؔ صاحب نے بڑی دقتوں اور زر کثیر خرچ کرکے جمع کی تھیں ۔وہ جان سے بڑھ کر اپنی کتابوں کی حفاظت کرتے تھے ۔

               رام لعل نابھوی نے لکھا تھا’’رضاؔ صاحب سونے کا چمچہ منھ میں لیکر پیدا ہوئے تھے‘‘لیکن رضاؔ صاحب کو سونے اور چاندی پر کبھی کوئی غرور نہ تھا۔وہ کتابوں کی دولت ہی کو سب سے بڑی دولت تصور کرتے تھے ۔وہ بے کتابی کا ایک لمحہ بھی اپنے لئے برداشت نہیں کر سکتے تھے ۔ ۱۹۸۰؁ء میں ایک بار انھیں یوں محسوس ہوا جیسے ان کے پاس کوئی بھی کتاب نہیں ہے ۔ان کی کتابوں کا نایاب ذخیرہ ان سے چھین لیا گیا ۔ایسے عالم میں ان پر کیا گزری اس کا اظہار ان کی نظم کے بند سے ہوتا ہے۔

بے کتابی کا ایک لمحہ

ابھی سب کچھ تھا،ابھی کچھ بھی نہیں

ادھ کھلی آنکھوں کی بے رحم جھپک

آدھے لمحے کا بھی وقفہ نہ ملا

لے اڑا کون اسے ،کس کو وہ دھن پیارا تھا

               کالی داس گپتا رضاؔ نے اپنی لکھی ہوئی ساٹھ سے زائد کتابیں اپنے ورثے میں چھوڑیں۔جن میں ان کی تحقیق،تدوین اور تخلیق کے ساتھ کچھ تنقیدی مضامین کا حصہ بھی ہے۔غالب ان کا پسندیدہ موضوع تھا۔ صرف غالب کے تعلق سے ان کی تقریباً بیس تحقیقی و علمی کتابیں شائع ہوکر منظر عام پر آچکی ہیں۔ ان کتابوں میں متعلقات غالب(۱۹۷۸)، انتخاب آتش و غالب(۱۹۸۰)،غالبیات چند عنوانات(۱۹۸۲)، دیوان غالب عکسی(۱۹۸۶)،آب حیات میں ترجمہ غالب(۱۹۸۷)، دیوان غالب کامل تاریخی ترتیب سے(۱۹۸۸)، غالبیات چند شخصی و غیر شخصی حوالے(۱۹۸۹)، غالب درون خانہ(۱۹۸۹)،پنج آہنگ میں مکاتیب غالب(۱۹۸۹)، غالب کے بعض تصانیف کے بارے میں(۱۹۹۰)، دیوان غالب متداول تاریخی ترتیب سے(۱۹۹۱)، اسد اﷲ خاں غالب مرد(۱۹۹۱)، غالب کا ایک مشاق شاگرد بال مکند بے صبر(۱۹۹۲)،اتتخاب رقعات و اشعار غالب(۱۹۹۲)، غالبیات کچھ مطالعے اور مشاہدے(۱۹۹۸)، غالب مختصر حالات ،انتخاب کلام معاشرہ(۱۹۹۸) اور تفہیم غالب کے دو حرف(۱۹۹۹) وغیرہ شامل ہیں۔ان کے علاوہ ان کی دیگر تحقیقی و تنقیدی کتابیں استاد داغ دہلوی، چکبست اور باقیات چکبست ، خاقانی ہند ذوق دہلوی،سہو و سراغ بھی اہمیت کی حامل ہیں۔ ان کی شخصیت اور ادبی خدمات کے اعتراف میں کئی رسائل و جرائد کے نمبر اور گوشے شائع ہوئے جن میں رسالہ’’تناظرــ‘‘ ’’اسباق‘‘ اور ’’اردو دنیا‘‘ کے کالی داس گپتا رضا نمبر کو بڑی اہمیت حاصل ہے ۔ چند ادیبوں اور محققوں نے کالی داس گپتا رضا کی شخصیت اور تحقیقی و علمی خدمات پر کتابیں بھی لکھی ہیں ، ان میں تارا چند رستوگی،شمیم طارق، ساحر شیوی،ظفر ادیب اور محمود ذکی وغیرہ کی کتابیں کافی مشہور ہوئیں۔کالی داس گپتا رضا کی تحقیقی خدمات پر ہند و پاک کے ممتاز مشاہیر اہل قلم نے مضامین لکھے ہیں ،ان میں قاضی عبد الودود، گیان چند جین،مالک رام ،گوپی چند نارنگ ،رشید حسن خاں،شمس الرحمٰن فاروقی وغیرہ کے نام اہم ہیں۔ غالب کو رضانے الگ الگ زاویوں سے تلاش کیا اور موضوع سخن بنایا۔رضا صاحب اپنی ذات میں علم و فن کا ایک ایسا دریا تھے جو ٹھہر ٹھہر کر بہتا ہے۔انھوں نے کبھی اپنے ضرف کو موجوں کے حوالے نہیں کیا۔وہ چاہتے تو اپنی کتابوں کی اشاعت تعداد بڑھانے کے لئے مسلسل کتابیں چھاپ سکتے تھے۔ان کے پاس علم،دولت اور ذرائع کسی چیز کی کمی نہیں تھی لیکن انھوں نے کتابوں کا جو نادر ونایاب ورثہ چھوڑا ہے وہ آج کتب خانوں کی زینت ہے۔با الخصوص غالب پر کام کرنے والوں کے لئے ان کے حوالے مستند سمجھ کر قبول کئے جاتے ہیں۔ایک دیوان غالب نسخۂ رضا اور دوسرا دیوان غالب تاریخی ترتیب سے بہت اہم اور قابل فخر کارنامے ہیں۔رضا صاحب ایسی ہی کتابوں کے دلدادہ تھے ۔ایسی ہی کتابوں کے متلاشی تھے ۔ایک ادبی ساہوکار کی حیثیت سے انھوں نے کتابوں کی ذخیرہ اندوزی کرنے پر ہی اکتفا کیا ۔کتابیں ان کی روح میں بسی تھیں ان کے ذہن کی الماریوں میں سجی تھیں۔ ان کے احساسات و تخیلات میں کتابیں تتلیوں کی طرح منڈلاتی پھرتی تھیں۔یہی وجہ ہے کہ ان کی غزلوں میں بھی کتابوں پر بہت سے اشعار موجود ہیں۔

چاہو توحساب دیکھ لینا

رکھی ہے کتاب دیکھ لینا

پہچان ہماری کب ہے مشکل

خستہ سی کتاب دیکھ لینا

               ان کی ادبی ساہوکاری کا سارا لیکھا جوکھا آپ کو ان کی کتابوں میں مل جائے گا ۔آپ سارا حساب چیک کر لیں۔کتنا کھرا ہے ،کتنا کھوٹا ہے ،کتنی تحقیق ہے،کتنی تخلیق ہے ۔اس کا سارا حساب ان کی کتابوں میں حواشی اور بین السطور کے ساتھ درج ہے۔انھوں نے اپنی شناخت کا وسیلہ بھی کتاب ہی کو بتایاہے۔وہ بھی ایک خستہ سی کتاب ،خستہ کتابیں عموماً نادر و نایاب ہوا کرتی ہیں جن کی حفاظت کے لئے شائقین کتب کیا کیا جتن نہیں کرتے۔

               رضا ؔ صاحب نے عشق کو زندگی دی اور زندگی کے ہاتھوں میں کتاب تھما دی ۔اب آپ کو جو دیکھنا ہے اس کتاب میں دیکھ سکتے ہیں۔ ؂

غم دل سنانے میں جاؤں کیوں،شہہ عاشقی کی جناب میں

یہ تو لفظ لفظ سے ہے عیاں مری زندگی کی کتاب میں

جو پڑھے اسے کوئی با صفا ،اسے درس ملتا ہے عشق کا

وہ فسانہ درج ہے اے رضا تیری زندگی کی کتاب میں

               رضاؔ صاحب پرانی تہذیب کے پروردہ تھے پنجاب کے جس مربیانہ و مشفقانہ ماحول میں ان کی پرورش ہوئی۔زندگی بھر وہ اسے فراموش نہ کر سکے وہ جب بھی اپنے ماضی کی کتاب کا ورق ٹٹولتے ،اپنے پرکھوں کو یاد کرکے جھومنے لگ جاتے۔

دوستو ! لے لو مرے ہاتھ سے پرکھوں کی کتاب

نیند آنکھوں میں ہے ،جی ڈولے ہے ،سر جھومے ہے

لکھ چکا ہوں میں سبھی خواب ،روایت ،حسرت

وقت باقی ہے کوئی باب نیا بھی لکھوں

               رضاؔ صاحب کی غزلوں کے بعض مصرعوں میں اگرچہ براہ راست کتاب کا ذکر موجود نہیں لیکن شعر میں اس قبیل کے لفظوں کا استعمال ہوا ہے جس سے کتاب کی عدم موجودگی بھی اپنی موجودگی کا بھر پور احساس دلاتی ہے،مثلاً

اوراق لئے ، قلم ڈبویا

خط لکھ لکھ کے ضمیر دھویا

تم نے سنواری مانگ ہماری شان بڑھی

وید پڑھے پنڈت نے ہم نے گیان لیا

یہ جریدۂ ہستی ،ہر زما نہ نکلے گا

ہر فسانہ پھیلے گا آخری شمارے تک

               رضاؔ صاحب کی مادری زبان پنجابی تھی لیکن اردو ان کے اظہار اور احساسات کی ترسیل کی زبان تھی ۔جو ان کو بہت محبوب تھی ۔اس کے بین بین وہ ہندی الفاظ سے بھی شغف فرماتے تھے۔لیکن کبھی کبھی ۔ایک شعر ملاحظہ کریں۔جس میں ہندی لفظ’پوتھی اور شگن‘ کا کیسا خوبصورت اور با معنی استعمال ہوا ہے۔اور من کو مارنے کا محاورہ بھی اس میں موجود ہے :

شگون لے چکے ہم، پوتھیاں بچار چکے

برا ہی وقت اگر ہے تو من کو مار چکے

               کتاب ہر حال میں رضاؔ صاحب کے ذہن میں موجود رہتی۔جتنی کتابیں ان کے کتب خانے میں تھیں ان سے کہیں زیادہ کتابیں ان کے ذہن کی الماری میں سجی تھیں۔ایک رباعی ملاحظہ کریں :

ہے عمر اخیر اور نہ دیکھو بھالو

آنکھوں میں ہیں خواب انھیں کو پا لو

جی کھولو،قلم ہاتھ میں لو،الٹو ورق

محفوظ ہے جو ذہن میں وہ سب لکھ ڈالو

               رضاؔصاحب نے یہ رباعی اپنی ذات سے مخاطب ہوکرہی کہی تھی۔

               کالی داس گپتا رضاکی ادبی دنیا میں شناخت ایک شاعر کی بھی ہے۔ ان کی شاعری زندہ ومحرک شاعری تھی، وہ استاد شاعر جوش ملسیانی کے شاگرد تھے جن کی ہمیشہ انھوں نے بڑی قدر کی اور ان کا نام بہت احترام سے لیا ۔کالی داس گپتا رضا نے غزلیں بھی کہیں اور رباعیاں بھی ۔ ان کا رشتہ دبستان داغ سے تھا ۔جوش ملسیانی داغ کے شاگرد تھے اور اسی کا فیض تھا کہ کالی داس گپتا رضا بھی زبا ن و بیان پر قدرت رکھتے تھے ۔ ان کی غزلوں میں بے ساختگی ، روانی اور تسلسل ہے ۔ ان کے شعری مجموعے ’’شعلہ ٔ خاموش ‘‘(۱۹۶۸) ، ’’شورش پنہاں ‘‘(۱۹۷۰)،’’شاخ گل ‘‘(۱۹۷۴) اور ’’غزل گلاب ‘‘(۱۹۹۲) میں شائع ہوئے ۔انھوں نے غزل،نظم،قصیدہ،رباعی ہرصنف میں داد سخن دی اور بدلتے ہوئے زمانے کے بدلتے ہوئے رنگ سے بے خبر نہیں رہے ۔ان کی نثر بھی بہت رواں اور جاذب و مستند تھی۔بقول ایک نقاد وہ لکھنے کے فن سے واقف تھے خواہ وہ تحقیقی مقالہ ہو یا ہلکی پھلکی تحریر ،خط نہایت پختہ و پاکیزہ تھا ،غالب ؔ ان کے پسند تھے مگر وہ خود بھی ایک محشر خیال تھے۔

               کالی داس گپتا رضا کی پیدائش ۲۵؍اگست ۱۹۲۵؁ء کو ہوئی تھی ۔ان کا قیام ہندوستان کے مختلف شہروں میں رہا ۔تجارت کی غرض سے ان کا مشرقی افریقہ بھی جانا ہوا مگر بعد میں ان کی زندگی عروس البلاد ممبئی میں گزری جہاں ان کے دوست ادیبوں کا ایک بڑا حلقہ تھا ۔وہ اپنے علمی و تحقیقی کام میں منہمک رہتے ۔رضا کی زندگی میں بھر پور پذیرائی ہوئی اور یہ روشن ستارہ ۲۱؍ مارچ ۲۰۰۱؁ء کو ہمیشہ ہمیش کے لئے غروب ہوگیا ۔ اردو شعر و ادب سے جو والہانہ لگاؤ اور وارفتگی کالی داس گپتا رضا کو تھی اس کی دوسری مثال کم ہی ملتی ہے ۔وہ پیشے سے تاجر تھے لیکن ان کا علمی و تحقیقی ذوق ایسا رچا ہوا تھا کہ وہ ہمہ وقت علمی وتحقیقی کاموں میں منہمک رہتے ۔زندہ دلی ،یار باشی اور چلبلا پن آخر وقت تک ان میں باقی رہا۔موت سے پہلے کی دہائی ان کی ذاتی زندگی کے لئے سخت کشمکش اور رلا دینے والی تھی۔اندرونی و بیرونی مصائب انھیں گھیرے ہوئے تھے مگر وہ تمام برے دن انھوں نے مسکراکر کاٹ دئے اور کبھی بھی مایوس و مضمحل دکھائی نہیں دئے نہ خود کبھی اس کا ذکر کیا ۔ بلا شبہ کالی داس گپتا رضا ہماری گنگا جمنی تہذیب کے امین اور پاسدار تھے جنھوں نے محبت اور خیر سگالی کے جذبات کو عام کیا۔

Leave a Reply

Be the First to Comment!

Notify of
avatar
wpDiscuz
Please wait...

Subscribe to our newsletter

Want to be notified when our article is published? Enter your email address and name below to be the first to know.