لداخ میں اردو افسانہ
محمد شریف۔ (کرگل لداخ)
ریسرچ اسکالر، شعبہ اردو
پنجاب یو نیورسٹی ، چنڈی گڈھ۔ 160014
Laddakh mein Urdu Afsana
by: Mohd SHarif
اردو میں مختصر افسانے کا آغاز بیسویں صدی میں ہوا لیکن اس قلیل مدت میں ہی ریاست جموں و کشمیر میں بہت سارے افسانہ نگار سامنے آئے جنہوں نے فنی اور جمالیاتی لحاظ سے ایسے کامیاب افسانے لکھے جن کی شہرت پورے بر صغیر میں ہو گئی۔ ریاست جموں کشمیر میں شاعری کے بعد جس صنف کو مقبولیت حاصل ہوئی وہ افسانہ ہے اردو ادب کی تمام نثری اصناف میں یہ واحد صنف ہے جو تیزی سے ترقی کی منزلوں کو طے کر کے منزل کمال پر پہنچ چکی ہے۔یہاں بھی افسانہ نگاری کا آغاز اگر چہ روایتی انداز سے ہوالیکن آہستہ آہستہ لکھنے والوں کے شعور میں با لیدگی آئی گئی اوران کی صلاحیتیں اُبھر نے لگیں۔انہوں نے اپنے افسانوں میں سماجی، سیاسی،اقتصادی،نفسیاتی اور مذہبی موضوعات کے علاوہ ریاست کی تہذیب و ثقافت کو بھی اپنے افسانوں کا موضوع بنا نا شروع کیا۔
ریاست کے دونوں خطوں کی طرح خطہ لداخ میں بھی اردو زبان وادب کی ترقی روز بہ روز بڑھتی جا رہی ہے۔ لداخ میں اردو کے قارئین بہت ہے۔لیکن اس کے باوجود اردو تخلیق کاروں کی تعداد بہت کم ہے کیو نکہ یہاں کے لوگوں کو اپنی مادری زبان میں لکھنے کا بہت شوق ہے۔ عبدالغنی شیخ نے خطہ لداخ میں تصنیف و تالیف کے حوالے سے اپنے مضامین لداخ میں اردو میں یوں تحریر کیا ہے:
’’ اگر چہ 1947 ء کے بعد پچھلی پانچ دہا ئیوں کے دوران لداخ میں ہزاروں اردو قارئین نکلے ہیں۔ لیکن خطے نے بہت کم ادیب اور قلم کار پیدا کئے ہیں۔ اس کی وجہ سے اردو ادب میں علاقائی طورپر بہت کم کام ہوا ہے‘‘۔ (1)
1947 ء سے پہلے لداخ میں اردو تصنیف و تالیف کا رواج بہت کم تھا۔ لیکن جتنے موضوعات پر مضامین اور مقالات لکھے گئے ان کے علاوہ نظمیں، غزلیں اور حمد و نعت کے موضوعات پر اشعار بھی لکھے گئے ہیں وہ خطے میں اخبارات، رسائل اور دیگر قسم کے وسائل کی کمی کے سبب شائع نہیں ہوئے اور یوں ہی زمانے کی گرد میں دب گئے۔ لیکن لداخ کے پہلے قلم کار منشی عبدا لستار نے سب سے پہلے لداخ کی تاریخ اردو میں ’’تاریخ مغربی تبت‘‘ کے نام سے لکھی۔یہ کتاب ریاست میں لکھی جانے والی پہلی تاریخ کی کتاب ہے جو ڈوگرہ حکومت نے ضبط کر لی۔رقیہ بانو نے اپنی کتاب ’’لداخ میں اردو زبان وادب‘‘ میں منشی عبدا لستار کے بارے میں یوں بیاں کیا ہے:
’’ منشی عبدالستار واحد لداخی مجاہد آزدای اور اردو کے نمایاں قلم کار گزر چکے ہیں۔ انہیں اردو زبان و ادب سے انتہائی شغف تھا۔ تقسیم ملک سے پہلے جو اخبارات لاہور، پنجاب اور جموں و کشمیر سے لیہہ آیا کرتے تھے وہ ان کا باضا بط مطالعہ کیا کرتے تھے۔ ان اخبارات کے مطالعہ سے انہیں نہ صرف تحریک آزادی میں حصہ لینے کی تحریک ملی، بلکہ انہیں اردو زبان کے تخلیقی استعمال پربھی کامل قدرت حاصل ہوئی۔ چنانچہ انہوں نے لداخ کی تاریخ ’’تاریخ مغربی تبت ‘‘ کے نام سے قلمبند کی۔ یہ تاریخ ریاست میں لکھی جانے والی اولین اردو کی تاریخی کتابوں میں شمارے ہے۔ ڈوگر ہ حکومت نے اس کتاب پر پابند عائد کر کے ضبط کر دی۔‘‘ (2)
آزادی کے بعد لداخ میں اردو نے نمایاں ترقی کی، اردو میں کتابیں لکھی گئی اور اردو قارئین کی تعداد بھی بڑھنے لگی۔ لداخ میں زبان کے نام پر رساکشی نہیں ہوئی، یہی وجہ ہے کہ آج لداخ میں ادبی،سیاسی اور ثقافتی زندگی پر اردو کا اثر ہے۔ کہا جا چکا ہے کہ لداخ میں اردو قارئین کی تعداد بہت زیادہ ہے۔لیکن لکھنے والے بہت کم ہے اب تک چند نام ایسے ہیں جنہوں نے اردو میں اپنی تصانیف چھوڑی ہیں۔ان میں کاچو اسفندیار خان،کاچو سکندر،بابو عبدالحمید، عبدالغنی شیخ، بابو عبد القیوم ، عبدا لرشید راہگیرؔ، صادق علی صادق، رضا امجد بڈگامی، جواد جالب امینی، صنم وانگچک، سیوانگ نمگیل، باقر علی باقر،اکبر لداخی وغیرہ ہیں۔لیکن ان میں سے اردو نثر کی حیثیت سے اکبر لداخی۔ عبدالغنی شیخ اورعبدا لرشید راہگیر کے نام اہمیت کے حامل ہیں۔ ان کے علاوہ کسی نے اب تک ناول اور افسانے پر کتابیں نہیں لکھیں ہیں۔
لداخ میں اردو افسانہ نگاری کا آغاز اکبر لداخی کے افسانوں سے ہوتاہے۔انہوں نے لداخ کی تہذیب و ثقافت کو اپنے افسانے اور مضامین کا موضوع بنایا۔ ان کے مضامین اور افسانے ترقی پسند رجحان کے تر جمان رسالے آزاد میں باقاعد گی سے شائع ہوتے رہے۔اکبر لداخی نے افسانے کے علاوہ دیگر مختلف عنوانات پر مضامین بھی لکھے ہیں جو تعمیر۔ شیراز ہ وغیرہ میں چھپ کر منظر عام پر آچکے ہیں۔ اکبر لداخی نے سرینگر اور ریاست سے با ہر تعلیم حاصل کی ہے۔تعلیم حاصل کرنے بعد کچھ وقت تک ریڈیو میں ملازمت کی پھر کلچر ل اکادمی میں کارکن کے طور پر بھی کام کرتے رہے۔ اس کے علاوہ سب ڈویژنل مجسڑیٹ کے عہدے پر بھی فائز رہے۔ پھر بعد میں فیملی پلا ننگ میں ایڈ منسڑیٹو آفیسر رہ چکے ہیں۔ان کے والد لداخ میں کاروبار کرتے تھے۔اکبر لداخی کے رشتہ میں کوشک بکولاجو عرصہ تک ریاست کے وزیر رہے اور بعد میں پارلمینٹ کے رکن رہے۔ ان کے رشتہ دار تھے۔
ترقی پسند تحریک سے ان کا گہرا لگاو رہا اور وہ اس تحریک کے لیے ریاست میں کام کرتے رہے۔ لداخ کے اردو لکھنے والوں میں اپنے ذوق اور رجحانات کی بدولت اکبر لداخی کافی مشہور ہیں۔انہوں نے لداخ میں پہلا افسانہ لکھا جس کا نام ’’داغ‘‘ ہے۔یہ لداخ کا پہلا افسانہ ہے۔ جس میں لداخ کی تہذیب و ثقافت کے بارے میں قیمتی معلومات فراہم ہوتی ہیں۔ ان کے بارے میں جان محمد آزاد اپنی کتاب ’’جموں کشمیر کے اردو مصنفین‘‘ میں یوں رقم کرتے ہیں:
’’ لداخ کے بیش بہا لوک گیتوں کے علاوہ آپ کے مضامین ہمیں لداخ کی تہذیب کی بعض بوالعجیوں سے بھی آگاہ کراتے ہیں۔وہ ہمیں ایسے دیہات کی سیر کراتے ہیں جہاں اگر بچے کا باپ مسلمان ہے تو ماں بودھ ہے۔ ماں مسلم ہے تو باپ بودھ ہے۔ ان علاقوں میں وہ ہمیں ایسے کرداروں سے ملاتے ہیں جن کا نام ’’علی ٹشی وانگل‘‘ہے۔ دو بھائی جن میں سے ایک مسلمان ہو گا تو ایک بودھ۔ بودھ گنپہ مرمت طلب ہو تو مسلم بودھ مل کر اور اگر مسجد کی مرمت مطلوب ہو تو بودھ مسلم مل کر اس کی تجدید کر یں گے۔ ان ہی خوبیوں کا حامل آپ کا افسانہ ’’داغ‘‘ بے حد مقبول ہوا‘‘۔(3)
اکبر لداخی نے افسانے کے علاوہ بہت سے مضامین بھی لکھے ہیں۔آپ کا ایک مضمون’’لداخ کے گیت‘‘ ماہنامہ ’’آزاد‘‘ میں 1952ء میں شائع ہوا۔ اس طویل مضمون میں آپ کے طرز بیان کی شگفتگی آپ کی تخلیقی معنویت اور جاذبیت کا واضح اظہار ملتاہے۔ اردو کے مشہور محقق اور ادیب عبدالقادر سروری اکبر لداخی کے افسانے اور مضامین کے بارے میں یوں تحریر کرتے ہیں:
’’ اکبر ادب کا ستھرا ذوق رکھتے ہیں افسانے اور مضامین بھی انہوں نے لکھے ہیں۔ان کا افسانہ ’’داغ‘‘ بہت مقبول ہوااور اس افسانے کی وجہ سے ان کی شہرت بھی ہوئی۔’’گونگ پوش‘‘کے لیے بھی وہ لکھتے تھے۔ چناچہ اس کے پہلے شمارہ ’’جون1952ء‘‘ کے لیے انہوں نے لداخی گیت کا تعارف مر تب کیا۔ یہ اس دوردراز سر زمین کے بارے میں قیمتی معلومات آفرین مضمون ہے جس سے لداخ کے سر زمین، موسم، مزاج اور لداخی کے ادبی اندازاظہار کے بارے میں قیمتی معلومات فراہم ہوتی ہیں‘‘۔ (4)
آپ کے مضامین کے باریمیں رقیہ بانو اپنی کتاب ’’لداخ میں اردو زبان و ادب‘‘ میں یوں رقم کرتی ہیں:
’’ آپ کا مضمون ’’لداخ کا لوک ادب‘‘ رسالہ تعمیر میں ستمبر9 199ء کے شمارے میں شائع ہوا تھا۔ جس سے لداخ کے بارے میں قیمتی معلومات فراہم ہوتی ہیں۔ لداخ جیسے دور دراز سر زمین کے موسم کے مزاج، تہذیب و تمدن، رسم و رواج، لداخیوں کے مزاج، لداخی ادب وغیرہ کے بارے میں بھر پور معلومات فراہم کرتے ہیں‘‘۔ (5)
ان باتوں سے یہ ثابت ہوئی ہے کہ اکبر لداخی نے سب سے پہلے اردو افسانہ اور مضامین میں لداخ کی تہذیب و ثقافت، رسم و رواج اور یہاں کے موسم کے مزاج کے بارے میں اپنی تخلیقی صلاحیت سے پوری دنیا کے لیے قیمتی معلومات فراہم کی ہیں۔ انہوں نے اپنے افسانے میں لداخی کلچر کو نمایاں طور پر ظاہر کیا ہے۔ لداخ میں اردو افسانے کا آغاز انہیں کے ہاتھوں سے ہوا لیکن ان کاکوئی افسانوی مجموعے یا ان کے افسانوں پر اب تک کوئی کتاب نہیں چھپی۔
اکبر لداخی کے بعد جس معتبر اور مشہور افسانہ نگار سے لداخ میں اردو افسانہ کا باقاعد ہ طور پر آغاز ہوا وہ عبدالغنی شیخ ہے۔جنہوں نے لداخ جیسے برفیلے علاقے میں اردوافسانوی ادب کوزندہ رکھاہے انہوں نے اپنے افسانوں میں لداخ کے اطراف میں بکھری ہوئی زندگیوں سے اپنے افسانوں کا تا نا با نا تیار کیا ہے۔وہ یہاں کے باشندوں سے متعلق واقعات کو ایک نئے انداز سے پیش کر کے لداخ جیسے علاقے کی تہذیب و ثقافت اور یہاں کی زند گیوں کے نہ صرف مختلف رنگوں سے اردو دنیاکو روشناس کر اتے ہیں بلکہ خود لداخ جیسی سنگلا خ زمین پر اردو کی آبیا ری بھی کر رہے ہیں۔نور شاہ نے لداخ کے پہلامعتبرافسانہ نگار کے بارے میں اپنی کتاب ’’جموں کشمیر کے اردو افسانہ نگار‘‘ میں یوں رقمطرازہے :
’’ عبدالغنی شیخ کا سب سے بڑا کارنامہ یہ ہے کہ انہوں نے لداخ جیسے بر فیلے علاقے میں اردو افسانوی ادب کو زندہ رکھا اور اپنے افسانوں میں لداخ کے اطراف میں بکھری ہوئی زندگی اور زندگی سے وابستہ ان گنت واقعات اور حالات کو ایک منفرد انداز سے سمیٹا اور پیش کیا‘‘ ۔ (6)
عبدا لغنی شیخ سے لداخ میں با قاعدہ طور پر اردو افسانہ نگاری کا آغاز ہوا۔ انہوں نے گزشتہ آدھی صدی سیزیادہ مدت سے لداخ میں اردو افسانہ کی شمع روشن رکھی ہے۔انہوں نے افسانے، ناول،تنقید،تاریخ،خاکے،ادبی اور علمی مضامین لکھے ہیں۔ان کی تخلیقات اورمضامین اردو کے مختلف رسائل آجکل۔شمع،بیسویں صدی،شاعر،بانو،اردودنیا،ایوناردو،ہمارے ادب،شیرازہ،تعمیر،جدید فکرو فن،سبق اردو،پمپوش،دیش وغیرہ میں شائع ہوئے ہیں۔ جان محمد آزاد نے اپنی کتاب ’’ جموں و کشمیر کے اردو مصنفین‘‘ میں عبدالغنی شیخ کے بارے میں یوں تحریر کیا ہے:
’’ پچھلی ایک دہائی کے دوارن عبدالغنی شیخ نے ادیب کے علاوہ لداخیات کے ایک مقتدر محقق کی حیثیت سے مقبولیت حاصل کی ہے۔ اس دوران آپ کے افسانے اور کہایناں ملک کے کثیر الا شاعت رسا ئل میں شائع ہو ئیں۔ شمع (دہلی) میں آپ کے نصف درجن افسانے شائع ہوئے۔ آپ کے فن میں اب خون جگر کی نقش گری صاف جھلکتی ہے۔آپ کی اختصار پسندی اور قطعیت آپ کے فن کی دو بڑی خصوصیات ہیں۔ادھر لداخ کے کلچر اور اس کی تاریخ پہ آپ کے درجنوں مضامین پابندی سے’’شیرازہ‘‘ اور ’’تعمیر‘‘ میں شائع ہوتے رہے ہیں ان مضامین کے مطالعہ سے یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ آپ لداخیات کے موضوع پہ ایک اتھارٹی کی حیثیت حاصل کر چکے ہیں‘‘۔ (7)
عبدالغنی شیخ کے چار افسانوی مجموعے چھپ کر منظر عام پر آچکے ہیں۔ پہلا افسانوی مجموعہ’’زوجیلا کے آرپار‘‘ 1970 ء میں شائع ہوا۔ اس مجموعے میں کل دس افسا نے ہیں۔جیسا کہ مجموعہ کے نام سے یہ ظاہر ہے ’’زوجیلا کے آرپار‘‘ زوجیلا کی حد بندی کشمیر کے آخری ضلع گاندر بل کے ساتھ ختم ہوئی ہے۔ یہاں سے ہی ضلع کرگل کی ابتدا ہوتی ہے۔ زوجیلا مشکل ترین درہ ہے اس کی بل کھاتی ہوئی سڑک سے گزر کر انسان ایک دوسری ہی دنیا میں پہنچ جاتا ہے۔ جہاں سے فلک بوس اور نہ ختم ہونے والے ننگے پہاڑوں کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔ اس مجموعے کی پانچ کہانیاں انہیں ننگے پہاڑوں کے بیچ بسے انسانوں کی ہے۔ جبکہ باقی پانچ کہانیاں زوجیلا کے اس پار کشمیر اور ملک کے بعض دیگر حصوں کے پس منظر میں لکھی گئی ہیں۔
’’ دوراہا‘‘ عبدا لغنی شیخ کا دوسرا افسانوی مجموعہ ہے۔ یہ مجموعہ 1993ء میں شائع ہوا۔ اس افسانوی مجموعے میں کل تیئیس (23) افسانے شامل ہیں۔ یہ سارے افسانے ملک کے اہم رسائل میں شائع ہو چکے ہیں۔اس مجموعے پر تبصرہ کرتے ہوئے راشد سہسوامی لکھتے ہیں:
’’ عبدا لغنی شیخ نے زندگی کو بہت قریب سے دیکھا ہے۔ مختلف پہلوو ں اور الگ الگ زاویوں سے دیکھا ہے۔ اور پھر ان مشاہدات کو کہانیوں کا روپ دے کر صفحہ قر طاس پر اتارا ہے۔ عبدا لغنی شیخ کے افسا نے عوامی زندگی سے لیے گئے ہیں۔ اس لیے ان کے یہاں مشاہدے کا حصہ تخیل اور تمثیل دونوں سے زیادہ ہے۔وہ آدرش واد اورپند و نصائح سے گر یز کرتے ہیں۔ جن واقعات کو عام طور سے قابل توجہ سمجھا نہیں جاتا، افسانہ نگار ان میں بھی زندگی کی پیچیدگیوں اور نفسیاتی الجھنوں کو ڈھونڈ نکا لتے ہیں۔بعض مقامات پر تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ انہوں نے چشم دید واقعات کو من و عن تحریر کی شکل دے دی ہے۔ لیکن ایسی تحریروں میں بھی اخبارات کی رپورٹ کا رنگ نہیں ہوتا۔ مصنف کو انسانی اقدار پر مکمل اعتماد ہے۔ وہ محبت، دوستی اور ہمدری کے انسانی جذبات میں گہرا عقیدہ رکھتے ہیں‘‘۔ (8)
عبدالغنی شیخ کا تیسراافسانوی مجموعہ Forsaking Paradise (اردو افسانوں کا انگریزی ترجمہ) ہے جو 2001 ء میں شائع ہوا۔ اس میں کل بارہ (12) کہانیاں ہیں۔یہ عبدالغنی شیخ کی اردو اور لداخی کہانیوں کا انگریزی ترجمہ ہے یہ ترجمہ امریکہ میں مقیم ایک خاتون ڈاکٹر اگروال نے کیا۔
دو ملک، ایک کہانی‘‘ عبداغنی شیخ کاچوتھا افسانوی مجموعے ہے۔یہ مجموعے 2015 ء میں شائع ہوا۔اس میں کل45افسانے شامل ہیں جو ہندوستان کے مختلف اردو رسائل میں شائع ہو چکے ہیں۔اس مجموعے میں شامل زیادہ تر افسانوں میں انہوں نے اپنے علاقے اوروادی کشمیر کے مسا ئل کوموضوع بنا یاہے۔اس کے علاوہ ا نہوں نے اس میں مزاحیہ اور طنزیہ افسانے بھی تحر یر کیے ہیں۔جیسے کھودا پہاڈ نکلا چوہا، ایک انار سو بیماراور اکبر بادشاہ کے دوبارہ آمد شامل ہے ان کی ہر کہانی انسانی نفسیات، زندگی کی تلخ سچائیوں اور سماج کی حقیقی صورت حال کوبڑی خوبصورتی سے پیش کرتی ہے۔
عبدالغنی شیخ نے اپنے افسانوی مجموعے میں طبقاتی کشمکش،سماجی نا برابری،رشوت خوری اور ظلم و تشدد کو موضوع بنایا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ پیار و محبت کی جھلکیاں بھی ملتی ہیں۔ شیخ کی تحریروں میں لداخی ماحول اُن کا رہن سہن، لباس کلچر،بودھی اور اسلامی تہذیب کی جھلک ملتی ہے۔ اس کے علاوہ یہاں کے سیدھے سادھے لوگوں کی زندگی کے مسائل اور نفسیاتی اُلجھنوں کے ساتھ ساتھ منظر نگاری، پلاٹ سازی، کردارنگاری، واقع نگاری کے جوہر دکھائے ہیں۔ ان کے افسانوں میں ہمیں فکر و فن کی تازگی بھی ملتی ہے۔ وہ بظاہر ایک منجھے ہوئے کہانی کار کا ہی نام ہے۔ اوروہ لداخ کے پہلا افسانہ نگار ہے جس نے تقسیم ہندسے لے کر آج تک لداخ میں اردو افسانہ کی آیباری کر رہا ہے ۔
عبدالغنی شیخ کے بعد جس افسانہ نگار نے لداخ جیسے بر فیلے علاقے میں اردو افسانہ کو کافی بلندی تک پہنچایا وہ عبدا لرشید راہگیر ہیں۔نام عبدالرشید اور قلمی نام رشیدراہگیرہے راہگیر ؔ16 فروری 1953 ء کو کرگل لداخ میں پیدا ہو ئے۔ انہوں نے ادبی زندگی کا آغاز شعر و شاعری سے کیا پھر وہ نثر نگاری کی طرف متوجہ ہو گئے اور کئی خوبصورت افسانے، مضامیں اور ناول لکھ کر ریاست کی ادیبوں میں اپنا مقام بنایا ہے۔عبدا لرشید راہگیر کو اعلیٰ خدمات کے پیش نظر سال 2007 ء میں ریاستی سطح پر بہتریں استاد کے اعزاز سے نوازا گیا۔ ریاست کے سابق وزیر اعلیٰ جناب غلام نبی آزاد نے یہ اعزاز ایک لاکھ روپے کی چک اور توضیفی سند کی صورت میں بذات خود مرحمت فرمایا۔
ان کا تعلق لداخ کے ضلع کر گل سے ہے کچھ عرصے سے سرینگر میں سکونت پذیر ہیں۔لیکن ان کے افسا نوں اور ناولوں سے پتہ چلتا ہیں کہ انہیں لداخ کی تہذیب و ثقافت سے والہانہ محبت ہے۔کیونکہ ان کے افسانوں اور ناولوں میں لداخ کی تہذیب و ثقافت کی عکاسی ملتی ہے۔ راہگیر ؔ کے افسانے، ناول،غزل اور مختلف موضوعات پر مضامین کشمیر عظمٰی، شیرازہ، کرگل نمبر اور لداخ سپیشل میں چھپتے رہتے ہیں۔ ان کا ناول ’’احساس‘‘ 2011 ء میں جے۔ کے آفسیٹ پر نٹرس جامعہ نگرہ دہلی سے چھپ کر منظر عام پر آیا۔ نور شاہ عبدا لرشید کی کہانیوں سے متعلق ’’احساس‘‘ کے پیش لفظ میں یوں رقمطر از ہیں:
’’ عبدا لرشید راہگیر کی کہانیوں کی بڑی خوبصورتی یہ ہے کہ ان میں مقامی رنگ ملتا ہے۔ مقامی حالات و واقعات ملتے ہیں اور مقامی وغیرمقامی کردار مقامی زندگی کے ان گنت پہلوؤں میں مقامی رنگ بھر تے ہیں۔ یہی بات ان کے ناول ’’احساس‘‘ کے بارے میں کہی جا سکتی ہے‘‘ (9)
رشید راہگیر کے ناول کے علاوہ ایک افسانوی مجموعہ ’’افسانہ اندھیرا سویرا‘‘ 2014 ء میں شائع ہو چکا ہے اس مجموعے میں شامل کہانیوں میں انہوں نے لداخ کے مختلف رسومات و ثقافت کے ساتھ ساتھ یہاں کے سماجی مسائل کو بڑی خوبصورتی سے پیش کیا ہے۔ان کے ساتھ ساتھ لداخ میں کچھ نئے چہرے اُبھرے جنہوں نے اردو افسانے کو نئی جہتوں سے روشناس کرایا ہے۔ ان میں محمد شفیع ساگر، رضاامجد بڈگامی،جواد جالب آمینی، شبیر مصباحی اور احمد الیاس لون وغیرہ کے نام خاص طور پر قابل ذکر ہیں ۔ان میں سے کچھ افسانہ نگاروں نے اپنی زندگی کا آغاز شعرو شاعری سے کیا۔ اور پھر اردو افسانہ کی طرف مائل ہو گئے۔
شفیع ساگر کو ادب سے محبت بچپن سے تھی۔ناول۔ افسانے اور شعرو شاعری کا شوق بہت تھا۔اس کے علاوہ کتابیں پڑھنے اورریڈیو سننے کا شوق رکھتے تھے۔ انھوں نے پہلا ناول1990 ء میں لکھاتھا اور اسی سال ساگر نے اپنا پہلا افسانہ بھی لکھا جس کا نام ’’آدھے دن کا بھائی ‘‘ ہے۔ ساگر نے افسانے دیر سے شروع کیے۔ افسانے کھبی کھبی لکھتے تھے لیکن 2015 ء میں راجوری میں سات دن کا ادبی میلا چلا۔ جہاں ان کی ملاقات وہاں کی ایک نامور شخصیت فاروق مضطر سے ہوئی جنہوں نے ساگر کوافسانے لکھنے کی صلاح دی۔ اس کے بعد انھوں نے باقاعدہ طور پر افسانے لکھنا شروع کیا۔اور ابھی بھی افسانے لکھتے ہیں۔شفیع ساگر کے افسانے مختلف اخباروں میں شائع ہوتے رہتے ہیں آپ کے چند مشہور اردو افسانوں میں بھوت کی حقیقت، آدھے دن کا بھائی، تقدیر کا کھیل، ایک نکتہ ایک سوال، مسکراہٹ اور غم، شک اور امتحان، سہاگ رات اور بازی وغیرہ قابل ذکر ہیں۔
جواد جالب آمینی اور رضاامجد بڈگامی کیافسانے کرگل نمبر اور لداخ سپیشل میں چھپتے رہتے ہیں۔رضاامجد بڈگامی کا افسانہ ’’یہ کیسا رشتہ‘‘، ’’حواس اور وفا‘‘، ’’فراق‘‘ اور جواد جالب آمینی کا ’’تقدیر ذرا دیکھو‘‘، ’’چائے پانی‘‘ وغیرہ لداخ سپیشل اور کرگل نمبر میں چھپ کر ریاست کے اردو داں طبقوں میں اپنی پہچان بنا چکے ہیں۔ ان کے علاوہ شبیر مصباحی اور احمد الیاس لون وغیر ہ نے لداخ میں افسانے کی آبیاری کر رہے ہیں۔
ان افسانہ نگاروں کے علاوہ خطہ لداخ میں اور بھی بہت سارے افسانہ نگار ہیں۔جنہوں نے اردو زبان کے علاوہ اپنی مادری زبان جیسے لداخی، بلتی، پر گی اور شیناہ زبان میں بھی افسانے لکھے ہیں۔ لیکن ان کی تحریر یں اب تک کسی رسالے میں نہیں چھپ سکی ہیں۔ کیونکہ اخبارات یا رسائل میں شائع کرنے کے لیے انھیں اپنی تحریریں سرینگر، جموں یا ملک کے دوسرے علاقوں میں بھیجنی پڑتی ہیں۔ کرگل نمبر اور لداخ سپیشل بھی سر ینگرسے شائع ہوتے ہیں اس لیے لکھنے والے اپنی تحریر بھیج نہیں پاتے اور یوں ہی ان کی تحریریں ضائع ہو جاتی ہیں۔
حوالے
1: لداخ میں اردو، مشمولہ، ص۔ 101 ، شیرازہ جموں کشمیر میں اردو ادب کے پچاس سال (کلچر ل اکادمی سر ینگرکشمیر 2004 ء) دوسرا انڈیشن
2 : لداخ میں اردو زبان وادب، رقیہ بانو، ص۔201 ، شاہد پبلیکیشن نئی دہلی، 2014
3: جموں کشمیر کے اردو مصنفین،جان محمد آزاد، ص۔181،میکاف پر نٹرس دہلی۔2004ء
4: کشمیر میں اردو، مرتب محمد یوسف ٹنیگ،(جموں اینڈ کشمیر اکیڈیمی آف آرٹ کلچر اینڈ لینگویجز سرینگر 1984ء) تیسرا حصہ، ص۔ 195 بحوالہ۔ لداخ میں اردو زبان و ادب، رقیہ بانو، ص۔215۔216۔ شاھد پبلیکیشن نئی دہلی۔2014
5: لداخ میں اردو زبان وادب، روقیہ بانو، ص۔ 215۔ شاھد پبلیکیشن نئی دہلی۔2014
6 : جموں کشمیر کے اردو افسانہ نگار، نور شاہ،ص۔87۔میزان پبلشرز،سرینگر کشمیر۔ 2011
7: جموں کشمیر کے اردو مصنفین، جان محمد آزاد، ص۔2006،میکاف پرنڑنس دہلی، 2004ء
8: دو ملک، ایک کہانی، عبدالغنی شیخ، ص۔335،اپلائڈبکس، 2015
9: پیش لفظ مشمولہ ’’احساس‘‘ عبدا لرشید راہگیر، جے۔ کے آفسیٹ پر نٹرس جامع دہلی، 2011
٭٭٭
Leave a Reply
Be the First to Comment!