میواتی شاعری میں زراعت
عزیز سہسولہ
ریسرچ اسکالر ۔جے این یو نئی دہلی
پتہ: روم نمبر ۱۰۹ ، پیریار ہاسٹل جے این یو ۔ نئی دہلی ۱۱۰۰۶۷
Agriculture in Mewati poetry
by: Aziz Sahsola
9868565081
azizsahsola@gmail.com
ہندوستان کی تقریبا ستّر فیصد سے زیادہ آبادی گاؤں دیہات میں رہتی ہے ۱ جن میں سے تقریبا ۶۲فیصد لوگ زراعت کا پیشہ اختیار کیے ہوئے ہے ۲ ۔ ہندوستان ایک ایسا ملک ہے کہ یہاں کے کسی بھی علاقے کو اس کا زراعتی کلچر مکمل طرح سے متاثر کرتا ہے۔شمالی ہندوستان میں واقع میوات کے میو خالص چھتری النسل ہے جن کا آبائی پیشہ ہمیشہ سے زراعت ہی رہا ہے۔میوات میں مثل مشہور ہے ’’ میو کو پوت ہل کو چوٹیا ای پکڑنو جانے ہے‘‘یعنی میوکو صرف ہَل چلانا ہی آتا ہے۔ روز ازل سے ہی میوات کی اپنی ایک ممتاز تہذیب رہی ہے۔ یہاں کے تمام شعرا اور لکھاری اپنی تہذیب سے کبھی دور نہیں رہے۔ ان تمام لوگوں نے جن موضوعات پر شاعری کی اور مختلف گیت لکھے ان میں زراعت ایک بہت اہم موضوع رہا ہے۔
میوات میں کسان کو کاشتکار یا زمیندار کہا جاتا ہے اور اس کا کام زمیندارا ، کھیتی یا کاشتکاری کہلاتا ہے۔ کسان کے متعلق کہا جاتا ہے کہ کسان کبھی بھی سست اور آرام طلب نہیں ہوسکتا ۔ جفاکشی اور مشکل سے مشکل حالات میں کام کرنااس کی فطرت میں شامل ہے۔ وہ ہر وقت کھیتی باڑی کے لیے تیار رہتاہے:
آلَس نیند کسان کو‘ کھووے، چور کو‘ کھووے کھانسی
ٹَکا بیاج باباجی کو ‘ کھووے، تِرِیا کو‘ کھووے ہانسی
زراعت کا کام بہت مشقت طلب ہے۔ موسم کی تیز دھوپ ہو ، بارش ہو یا پھر کڑاکے کی سردی، کسان کو سب کچھ سہنا پڑتا ہے۔ جو کسان ان کو سہن نہیں کر سکتا اس کی قابل رحم حالت کا ذکر اس دوہے میں کیا گیا ہے:
آسوجا کی تاوڑی، جوگی ہوگا باٹ
میو فقیری لے گیا، بَنِیانّے لے لی کھاٹ
کانٹو برو بَبول کو اور ساجھی کو کام
سَوت بری ہے چو‘ن کی اور بھادو کی گھام
کھیت کا مالک کسان جب اپنے ہاتھوں سے کھیتی کرتا ہے تب ہی زیادہ پیداوار ہوتی ہے۔ موقعے پر اپنا دھن ہی کام آتا ہے نہ کہ کسی کا ادھار دیا ہوا۔اسی لیے میوات میں مشہور ہے:
کھیتی کیاری چاکری اور گھوڑا کا تنگ
اپنے ہاتھ سنبھالیے لاکھ لوگ ہوئیں سنگ
میو قوم مویشی پالن کرتی ہے جس کے لیے زراعت بہت ضروری ہے ۔ کھیتوں میں سے چارا وغیرہ لاکر مویشیوں کو کھلایا جاتا ہے جس سے ان کو دودھ و گھی وغیرہ حاصل ہوتا ہے جو یہاں کے باشندوں کی عام خوراک ہے۔ایک میو شاعر کھیتی کی اہمیت و فوائد کا ذکر کچھ اس انداز میں کرتاہے:
کھیتی میں رَس بہت ہے، اُپجے بھاری نِیار
سات طور سُلاکھنا، بھینس بندھایو چار
بھینس بندھایو چار کہ کھاوے چھاچھ ملیدو
نِربھے پَیلو ڈنڈ، بندھے دَیہی پہ گودو
ہو تن سو ہُسیار، کام سب کرو اگیتی
چھوڑ سوچ، سَسپنج، رنج، غم، کر لیو کھیتی ۳
زراعت کے مذکورہ بالا فوائدواہمیت اپنی جگہ مسلّم مگر زراعت کا کام بہت محنت کا کام تصور کیا جاتا ہے جس میں انسان شب وروز لگا رہتا ہے اور یہ چکرّ پورے سال چلتا ہے۔ اسی لیے کھیتی خصم سیتی جیسی بہت سی مشہور کہاوتیں وجود میں آئی ہیں۔
قدرت اور مٹی سے کسان کا ایک اٹوٹ رشتہ ہوتاہے۔ زراعتی زندگی میں خواہ کھیتوں کی جُتائی، بُوائی اور سینچائی کا کام ہو یا لاؤنی اور کھلیان کے کام کاج ہوں، زراعت سے متعلق جانور ہوں یا کسان کے گھریلوکام کاج ہوں، اس کا کھان پان اور پہناوا ہو یامذہبی و سماجی زندگی ہو، وہ شب وروز کے ان کاموں میں کہاوتوں ، محاوروں، پہیلیوں اور ضرب الامثال کا استعمال کرتا ہے جن میں زندگی تجربات پیوست ہیں۔ ایک مثال ملاحظہ ہو:
بَیاہات تیرے پاؤں تیرے مِنَخ کی سی دیہہ
تو کِیں بھیگے بانْدرا، اوپر برسے مینہہ
یہ سن کر بندر بَیا کے گھونسلے کو برباد کردیتا ہے:
سیٖکھ وائی کو‘ دیجیے جاکو‘ سیٖکھ سُہائے
سیٖکھ دیٖنی بانْدرہی گھر بیا کو جائے
زراعتی امور کے لیے بیلوں کی اہمیت کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔ قدیم زمانے میں صرف بیلوں سے ہی کھیتی باڑی کی جاتی تھی ۔ میوات میں آج بھی وہی انسان سب سے زیادہ امیر اور سرمایہ دار خیال کیا جاتا ہے جس کے پاس زرعی زمین زیادہ ہو۔ میوات میں ایک کہاوت مشہور ہے ’’ وا کے نو بَیل چلا ہاں‘‘ یعنی اس کے پاس زرعی زمین اتنی زیادہ ہے کہ اس کی جتائی ، بوائی اور کاشت کے لیے ایک دو بیل کافی نہیں ہیں بلکہ پورے نو بیلوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ بیلوں کا ہَل میں آہستہ آہستہ اور کنویں سے سینچائی کرتے وقت درمیانی رفتار سے چلنا اچھا سمجھا جاتا ہے لیکن کولہومیں تیل پلائی تیز رفتاری سے ہی ممکن ہوتی ہے۔ اس سے متعلق کہا گیا ہے:
ہَل ہولے ہولے چلے، کنووں مَنْدری چال
کولہو بھائی تب پِلے جب چلے چِرپَری چال
کھیت میں ہل چلاتا ہوا کسان اور بیلوں کی جوڑی کے بارے میں ایک پہیلی مشہور ہے:
رَگّو چلے رَگ پَگ
تین مونْڈ دس پَگ
کھیت کی جُتائی کے بعد اسے برابر کرنے کے لیے مَیج (پٹیلا) لگائی جاتی ہے تاکہ ڈھیلوں کو ختم کرکے مٹی کو ہموار کیا جا سکے۔ اس کے بارے میں لوک میں مشہور ہے کہ:
راجو رب کو ناؤں لے مَن میں کر لے چَیت
گناہ معاف ہو جاں گے جوں مَیج سنوارے کھیت
مَیج کھینچنے میں چاربیل لگتے ہیں نیز دو کسان اس پر کھڑے ہوجاتے ہیں ۔ چار بیلوں اور دو کسانوں کو ملا کر کل بارہ آنکھیں، بیس پیر اور چھیانوے دانت ہوتے ہیں۔ یہ سب کھیت میں کئی بار گزرتے ہیں مگر مَیج پھرنے کے بعد ان کے نشان تک کہیں دکھائی نہیں دیتے ۔ اس کے بارے میں ایک بہت خوبصورت پہیلی مشہور ہے:
بارہ نَینا بیس پَگ اور چھیانوے دَنْت
یہاں ہوکے اتنے گئے کھوج نہ پایو کَنْت
باجرہ ، مکئی، جوار، گوار، تِلّی (تِل)، مونگ اور اُرَد وغیرہ سات قسم کی چیزوں کو ساتوں توُڑ کہا جاتا ہے۔ کاتک (کارتک ایک ہندی مہنیے کا نام ہے )کی اچھی فصل ہونے کی امید میں کسان کی بیٹی ایک لوک گیت کے ذریعے سے اپنی خواہش کا اظہار اپنے والد سے اس طرح کرتی ہے:
گَھڑا دے بابُل ہَتھ پھول
بھارو ہووے گو باجرو
نِپجَنگا ساتو توڑ
کھیت میں جب کسان بُوائی کرتا ہے تو ہر طرح کے بیج کی بُوائی کا ڈھنگ الگ الگ ہوتا ہے ۔ اس بات کو چالاک کسان کہاوتوں کے ذریعے ہی بتا دیتا ہے:
سَن گہرو، بَن بَیگلو، مینڈک پھُدّی جوار
پینڈ دوپَینڈو باجرو، کرے دَلِدَّر پار
چھِیدا چھِیدا جَو چنا ، چھِیدی بھلی کپاس
جن کی چھِیدی ایٖکھ ہے اُن کی چھوڑو آس
چنے کی فصل کے مختلف مدارج کے بارے میں یہ میواتی کہاوت بہت مشہور ہے جو تقریبا ہر کسان سے سنی جا سکتی ہے:
چھوٹو ہو تب چھُٹّم چھُٹّا ، بڑو ہُیو تب لال
بوڑھو ہُیو تب بھارو ناچو، گھال گلا میں ٹال
مِلو رہے تو پُرُش ہے ، الگ ہوئے تو ناری
سونے کو سو رنگ ہے چَتُر لیؤ وِچاری
فصلوں میں ارہر کے پودے کی عمر سب سے زیادہ ہوتی ہے۔ یہ اساڑھ میں بوئی جاتی ہے اور جیٹھ ماہ میں کاٹی جاتی ہے ۔ ا س کے دورانیہ، رنگ روپ اور کھیتی کے بارے میں کہا جاتاہے:
پِیلی پِیلی تیٖتری کیسر کو سو رنگ
گیارہ دیور پھر گئے گئی جیٹھ کے سنگ
بڑی جِٹھانی سَبَن کی جھَبَر جھابرو اَنگ
پِیلی لوگڑی چھیٖنٹ کی لَکھی دیورانی دَنگ
پیاز سبزی اور سلاد کی شکل میں کام آتی ہے ۔ ایسی کوئی سبزی نہیں ہے جس میں پیاز کا استعمال نہیں ہوتا۔ یہ نقدی فصل بھی کہلاتی ہے۔ پیاز کسان کے ہر کھان پان کی ساتھی ہے۔ سبزی نہ ہونے کی صورت میں کسان پیاز روٹی سے ہی کام چلاتاہے۔ پیاز کے پودے کی بناوٹ کے بارے میں ایک پہلی معروف ہے:
اوپر کو تو جھَلّر مَلّر نیچے کو ہے گَٹّھ
یا پہیلی کو نام بتا نہیں دوں گو لَٹّھ
کھیتی کرنا اور اسے سنبھالنا تو مشکل کام ہے ہی اس کے علاوہ پکی ہوئی فصل کو صحیح سلامت گھر لے جانا بھی کم مشقت طلب کام نہیں ہے۔ فصل کی بوائی سے اس کی کٹائی اور اکٹھا کرنے کے دوران کسان کو قدرتی آفات کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے۔ کبھی کبھی اس کی ساری محنت قدرتی مصائب کے باعث رائیگاں چلی جاتی ہے۔ اسی لیے میوات میں کہا جاتا ہے:
کھڑی کھیتی گِیابھَن گائے
جب جانو جب ہات آ جائے
قحط، زیادہ بارش اور ژالہ باری جیسی قدرتی آفات کے علاوہ مختلف کیڑوں مکوڑوں اور بیماریوں سے کسان خوفزدہ رہتاہے ۔ مانسون میں تاخیر ہونے سے بھی فصل متاثر ہوجاتی ہے ۔ دیر تک بارش نہ ہونے کی وجہ سے ہَڑوائی یا ہاڑِیا ہوا چل جائے تو کسان بہت دکھی ہوجاتاہے۔ ایک کسان کی بیوی اس کا یہی دکھ ایک گیت میں اس طرح بیان کرتی ہے:
ہَڑِیا چل گی پون
بلم بیٹھا کو روٹی کون دیے گو
عوام میں یہ مشہور ہے کہ ہَڑِیا ہوا بارش نہیں ہونے دیتی۔ ہر کسان کی یہی خواہش ہوتی ہے جلد از جلد بارش ہوخواہ کثرت بارش سے اسے نقصان ہی کیوں نہ اٹھانا پڑے۔ منقول ہے کہ ایک بنجارے کی نو سو گائے ، بیٹا او ر بہوپانی میں بہہ گئے پھر بھی اس نے یہی کہا:
نو سو موڑی بہہ گئی، اور پُتّر سَنگ جوئے
مینہا تو برسا بھلا، رب کرے سو ہوئے
میوات علاقے میں ہر گھر میں کسان لوگ گائے بھینس پالتے ہیں اور ہر ایک کے یہاں دھینا(دودھ گھی کا ہونا) ہوتا ہے۔ کچھ غریب لوگ اس سے محروم بھی رہ جاتے ہیں۔ اس دھینا کی خاطر کسان کو گائے کی لات بھی سہنی پڑتی ہے۔ جس کی وجہ سے کہ کہاوت معرض وجود میں آئی ہے:
گائے نِیانہ کی ، بہو ٹھکانہ کی
دودھ دینے والے جانوروں میں سب سے اچھا اور طاقتور دھینا بھینس کا ہی مانا جاتا ہے ۔ میوات میں کہتے ہیں:
دھینا بھینس کو چاہے سیر ای ہو
ہونی چَہیے چھایہ چاہے کیر ای ہو
چلنا گَیلا کو چاہے پھیرای ہو
بیٹھنو بھائین کو چاہے بَیر ای ہو
ہرموسم میں الگ الگ فصلیں بوئی جاتی ہیں۔ بوائی کے وقت گھر میں سب مل جل کر مشورہ کرتے ہیں کہ کس کھیت میں کیا بونا ہے۔ میوات میں مردوں کے شانہ بہ شانہ عورتیں بھی زراعت کا کام کرتی ہیں۔ کھیتوں کی بوائی کے لیے اب تو ٹریکٹر اور دیگر مشینوں کا استعمال کیا جاتا ہے مگر پہلے جب ہل بیل کا استعمال کیا جاتا تھا تو مرد ہل چلاتا تھا اور عورت اس کے پیچھے پیچھے بیج ڈالتی ہوئی چلتی تھی۔ مندرجہ ذیل گیت میں بیوی شوہرسے کہہ رہی ہے کہ انہیں کیا کیا بونا چاہیے :
ٹَیول کے نیچے بودے راجا جوار چَری کی
نیہنی نیہنی بوند پڑا ہاں
جوار باجرہ بہت بورا ہاں
اَر سُنیو میرا راجا، کھیت بہت پڑاہاں
جلدی جلدی چلا بَیلن نے ، دنیا آگے نکلے رے
ٹَیول کے نیچے بودے راجا جوار چَری کی
مونگ، چولا اور آرہڑ بوئی
تِل کی وا میں آڑ لگائی
اچھی فصل ساؤنی جا میں لگری جھڑی رے
ٹَیول کے نیچے بودے راجا جوار چَری کی ۴
بوائی کے بعد فصل میں نرائی کرنا بہت ضروری ہوتاہے تاکہ فصل اچھی ہو سکے۔ نرائی کرنا بہت مشقت طلب کام ہے ۔ میوات میں یہ کام صرف عورتیں ہی کرتی ہیں۔ اساڑھ اور بھادوں وغیرہ کے موسم میں فصلوں میں نرائی کرنا نہایت مشکل ہوتا ہے۔ ایک تو گرمی ، اوپر سے بارش کی وجہ سے سب کچھ بھیگا ہونا مزید ہوا کا رک جاناجس کی وجہ سے کھیتوں میں کام کرنے والیاں پسینے میں شرابور ہو جاتی ہیں۔ اسی مضمون کا ایک گیت ملاحظہ کیجیے:
پسینومیرو نوٗئی ٹپکے، نوئی ٹپکے ری
تو راجا میرا کدی نہ لایو چپّل
کدی نہ چلے میڈم بن کے، میڈم بن کے رے
تو سیّاں میرا کدی نہ لایو لڈّو
کدی نہ گایا گلّا بھر کے رے، گلّا بھر کے رے
تو پیا میرا کدی نہ لایو گھیور
کدی نہ کھایا جی بھرکے رے، جی بھر کے رے
پسینومیرو نوٗئی ٹپکے، نوئی ٹپکے ری ۵
ایک عورت کا شوہر اس کے ساتھ کھیتوں میں اس کا ہاتھ نہیں بٹاتا تو وہ اس کی خوب خوشامد اور منت سماجت کرتی ہے لیکن میاں صاحب ہیں کہ اس کی بات پر کان ہی نہیں دھرتے ۔ وہ صرف اپنے حْقّے میں مست رہتے ہیں۔ وہ اسے ملامت کرتے ہوئے کہتی ہے:
کھیتی کر لے ، اَر کھیتی کر لے رے
میری جان کا جلاوا کھیتی کر لے
اَر حقّہ چھوڑ کے چل میرے گیلے
کھیت دیکھ کے آواں
کھیتی کر لے ، اَر کھیتی کر لے رے
میری جان کا جلاوا کھیتی کر لے
اَر اُوڑ پاس لو‘ وامیں جوار باجرو
رے بیج میں تِل کو پیڑ
نگوڑا کھیتی کر لے، اَرکھیتی کر لے
میری جان کا جلاوا کھیتی کر لے
جوار باجرہ دیکھن چلی رے میں
بیچ میں پایو مور
نگوڑا کھیتی کر لے، اَرکھیتی کر لے
میری جان کا جلاوا کھیتی کر لے
مور چُگے ہے رے، اَر چڑیا چُگ ری
اور چرے ہیں ڈھور
نگوڑا کھیتی کر لے، اَرکھیتی کر لے
میری جان کا جلاوا کھیتی کر لے ۶
فصل کے کاٹنے کو میوات میں لاؤنی کے نام سے موسوم کرتے ہیں۔ فصل کی کٹائی گھر کے بڑے افراد مل جل کر کرتے ہیں۔ یہ وہ وقت ہوتا ہے جب سب کے چہرے کھلے ہوتے ہیں کیونکہ فصل کے اٹھنے کے بعد سب کی خواہشات کی تکمیل ہونے والی ہوتی ہے۔ لاؤنی میں سب میں ہنسی مذاق بھی ہوتا رہتا ہے۔ناشتہ اور دوپہرکا کھانا کھیتوں میں ہی پہنچا دیا جاتا ہے۔ شام کے وقت سب لوگ کھیتوں سے گھر واپس آتے ہیں۔ ہمارے سماج میں دیور بھابھی کا رشتہ بڑا مقدس خیال کیا جاتا ہے جس میں ہنسی مذاق اور شرارت ضرور شامل ہوتی ہے مگر ان کی محبت خالص اور بے لوث ہوتی ہے۔ لاؤنی کرتے وقت دیور دیگر تمام لوگوں سے پیچھے رہ جاتا ہے تو وہ اپنی بھابھی سے مدد طلب کرتا ہے۔ ایسے میں اس کی بھابھی اس سے مذاق کرتے ہوئے کہتی ہے:
برفی کُھواوے تو لِواؤں تیری مانگ
یا گِہوں چَنا کا کھیت میں
آنکھ مارے تو لِواؤں تیری مانگ
یا گِہوں چَنا کا کھیت میں
ناک رِگڑے تو لواؤں تیری مانگ
یا گِہوں چَنا کا کھیت میں
برفی کُھواوے تو لِواؤں تیری مانگ ۷
جوائنٹ فیملی میں کھانا پینا، کام کاج، کاروبار،مکان اور کھیتی باڑی وغیرہ سب کچھ مشترکہ ہوتا ہے ۔ ایک عورت جب اپنے شوہر کے ساتھ نِیالی (گھر والوں سے الگ ) ہوئی تو اس نے اپنے شوہر سے مطالبہ کیا کہ گھر الگ الگ ہونے کے ساتھ ساتھ زمین اور کام کاج بھی الگ الگ ہونا چاہیے۔ اب ساجھے کے کام کرنے کی طبیعت نہیں کرتی۔ سب سے پہلے کھیت کھلیان علیحدہ علیحدہ ہونا چاہیے:
جنگل میں نِیالی جھونپڑی تَنوا دے میرے راجا
رے جنگل میں نِیالی جھونپڑی
ارے تو تو جاواہل پہ گھنی رات سِدوسی
دونوں جِٹھانی موسو‘ دِنّوں بحثی
اَرا اِن میں نائیں بَجَنگا اپنا باجا
جنگل میں نِیالی جھونپڑی تَنوا دے میرے راجا
رے جنگل میں نِیالی جھونپڑی
الگ سو‘ ایک کنووں بنوادے
بجلی کو یاپے پمپ لگوا دے
تولو‘ پکاؤں گی ترکاری نِت تاجا
جنگل میں نِیالی جھونپڑی تَنوا دے میرے راجا
رے جنگل میں نِیالی جھونپڑی ۸
میواتی شاعری کے مختلف موضوعات میں سے زراعت ایک اہم موضوع ہے جس کو سبھی میواتی شعرا نے اپنے کلام میں برتا ہے۔میواتی شاعری کی سنگل واٹی صنف میں زراعت کا استعمال کثرت سے کیا گیا ہے ۔ زراعت میواتی تہذیب کا ایک جزء لاینفک ہے چنانچہ جب تک میواتی تہذیب اور شاعری باقی رہے گی زراعت کا ذکر ہوتا رہے گا۔
حوالہ جات
۱۔انڈین سینسس
۲۔ایگری کلچرل سینسس ۲۰۱۱
۳۔اعجاز احمد، میوات اے ریٹروسپیکٹیو، ایم ڈی اے،۲۰۱۳، ص ۱۱
۴۔ڈاکٹر ماجد میواتی، میواتی لوک گیتوں میں سماج اور سنسکرتی، نیہاپرکاشن، دہلی، ۲۰۱۰، ص ۶۲
۵۔ایضا ، ص۶۳
۶۔میری جان کا جلاوا کھیتی کر لے، اپنا میوات ، یوٹیوب چینل
۷۔ڈاکٹر ماجد میواتی، میواتی لوک گیتوں میں سماج اور سنسکرتی، نیہاپرکاشن، دہلی، ۲۰۱۰، ص۶۴
۸۔جٖیون سنگھ مانوی، دادا ہِمتا دِوس پروگرا، ۲۰۱۸
Leave a Reply
Be the First to Comment!