’’مٹی کا دیا ‘‘: ایک تجزیاتی مطالعہ
بلال احمد تانترے
ریسر چ اسکالر
شعبہ اردو، جامعہ ملیہ اسلامیہ نئی دہلی
مرزا ادیب (۱۹۱۴۔۱۹۹۹)نے اردو نثر کی بہت سی اصناف میں فن کے جوہر دکھائے ہیں۔ ان کے ادبی کارنامے موضوع اور ہئیت کے اعتبار سے اپنے اندر بے پناہ وسعت رکھتے ہیں۔ انہوں نے جس صنف کو بھی اظہار کا ذریعہ بنایا اس میں ان کی فکری گہرائی اور فنی پختگی نے ایسے خوبصورت نقش ابھارے جنہوں نے ایک طرف متعلقہ صنف پر مثبت اثرات مرتب کیے اور دوسری طرف ادب کی دنیا میں ان کی بھی ایک منفرد پہچان قائم کی ۔مرزا ادیب نے اپنے ادبی سفرمیں خود کو کسی مخصوص صنف تک محدود نہیں رکھا ۔انہوں نے افسانے ،ڈرامے ،خاکے ،تبصرے،کالم اور مضامین لکھے ،بچوں کے لیے بھی ادب تخلیق کیا اورکئی ادبی و نیم ادبی رسالوں کی بھی ادارت کی نیزتنقید اور اقبالیات کے موضوع پر بھی قلم اٹھایا لیکن اردو ادب میں ان کی بنیادی پہچان دیگر ادبی جہات کے مقابلے میں افسانہ نگار اور ڈرامہ نگار کی حیثیت سے زیادہ مستحکم ہوئی۔انہوں نے کئی تصانیف و تالیفات یاد گار چھوڑی ہیں ۔’’صحرا نورد کے خطوط‘‘ اور ’’صحرانورد کے رومان ‘‘ان کے دو ایسے ادبی شاہکار ہیں جن سے ادب سے شغف رکھنے والا کوئی بھی شخص ناواقف نہیں ہوسکتا ۔آج تک ان دو کتابوں کے کئی ایڈیشن شائع ہوئے ہیں ۔ان میں شامل کہانیوں کے تراجم بھی د نیا کی مختلف زبانوں میں ہوئے ہیں ۔ان کہانیوں کو آج بھی اسی شوق کے ساتھ پڑھاجاتا ہے جس طرح اشاعت کے پہلے دنوں میں پڑھا جاتا تھا ۔ان کی مقبولیت میں کسی بھی زمانے میں کمی نہیں آئی۔یہ آج کے قارئین پر بھی، جس کے اردگرد کا ماحول اور معاشرہ دونوں وہ نہیں ہیں جو مرزاادیب کے زمانے میں تھا گہرا تاثر چھوڑتے ہیں ۔ مرزا ادیب اگر ان دو کتابوں کے علاوہ کچھ نہیں لکھتے تب بھی ادب میں انہیں وہی وقار حاصل ہوتا جو آج ہے ۔’’صحرا نورد کے خطوط ‘‘ اور ’’صحرا نورد کے رومان‘‘ ان کے دو ایسے ادبی کارنامے ہیں جن کی بدولت انہیں ادب کی دنیا میں صدیوں تک فراموش نہیں کیا جاسکتا ۔
’’مٹی کا دیا‘‘ مرزا ادیب کی خودنوشت سوانح عمری ہے ۔یہ پہلی بار جولائی۱۹۸۱میں شائع ہوئی۔اشاعت سے پہلے اس خودنوشت سوانح عمری کے کچھ حصے سیارہ ڈائجسٹ ،اردو ڈائجسٹ ،قومی ڈائجسٹ اور ماہِ نو جیسے مختلف ادبی رسائل وجرائد میں شائع ہوئے تھے ۔
مرزادیب نے اپنی خودنوشت سوانح عمری کے ابتدائی ابواب میں اپنے بچپن کے ایام ، تعلیم وتربیت ،والدین اورگھریلوماحول کے علاوہ اپنے خاندان کے سبھی لوگوں کا بھر پور تذکرہ کیا ہے۔ انھوں نے اپنی داستانِ حیات کا آغازخودنوشت کے عین فنی تقاضے کے مطابق اپنی پیدائش کے متعلق تفصیلات بہم پہنچانے سے کیا ہے :
’’شہر لاہور کا بھاٹی دروازہ بہت پرانا بھی ہے اوربہت مشہور بھی۔ اس کے اندر ہی محلہ ستھاں اور محلہ ستھاں کے مرکزی علاقے کوچوک دیوی دتا کہاجا سکتاہے ۔ چوک دیوی دتا کے پہلو سے ایک گلی نکلتی ہے جو کچھ دور جاکر ذرا اپنا رخ بدل کر ایک چھوٹی سی گلی کی صورت اختیار کر لیتی ہے۔ کسی زمانے میں یہ گلی ’’مغلاں‘‘کہلاتی تھی۔ اس کی وجہ تسمیہ غالباًیہ تھی کہ یہاں میرے دادا جان میرزا غلام حسین نے دومکان خرید رکھے تھے اوراپنی گلی کے علاوہ ارد گرد کی آبادی میں بھی انہیں بڑااثرورسوخ حاصل تھااس گلی میں داخل ہوں تو چند مکانوں کے بعد بالکل سامنے ایک دومنزلہ گھر نظرآتاہے جو کافی پرانا ہوچکا ہے مگر آج بھی اس کی اپنی ایک شان ہے اپنا ایک جلال ہے اورایک دن اور یہ دن ہے ۴؍اپریل ۱۹۱۴ء کا۔
یہی وہ دن ہے جب اس مکان کے آخری کمرے میں جسے گھر والے ’’پرلا اندر‘‘ کہتے تھے میں نے زندگی کا پہلا سانس لیا تھا۔‘‘ ۱
مرزا ادیب نے اپنے پچپن کے حوالے سے جو حالات وواقعات تحریر کیے ہیں اس سے پتہ چلتاہے کہ ان کا بچپن ایک ایسے گھرانے میں گزرا ہے جس کے درو دیوار پر مفلسی نے گہرے پہرے ڈالے ہوئے تھے۔ خاندان میں کوئی پڑھا لکھا نہیں تھا ، ماں باپ سے لے کر دوسرے رشتہ داروں تک سبھی علم کے نور سے بے بہرہ تھے ۔ ان کے ذہن و دل پر فرسودہ روایات کا گہرا غبارچھایا ہوا تھا ۔پوراخاندان بے حسی کی ایک مجسم تصویر بنا ہوا تھا ۔اس کے چاروں طرف اندھیرا ہی اندھیرا تھا،تنگ دستی کا ،بھوک پیاس کا ،قدامت پرستی کا،جمود و تعطل کا ۔غرض ان کے ارد گرد کا ماحول اتنا تاریک تھا کہ وہ کسی بچے کوایک روشن مستقبل کی ضمانت نہیں دے سکتا تھا ۔
بچپن میں دادی کے گھر منتقل ہوئے تووہاں بھی انہیں بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ۔ دادی نے پڑھائی کے بجائے ایک بڑھئی کے پاس کام سیکھنے بھیجا جوان سے زیادہ تر حقہ تازہ کرنے ، آگ جلانے اورچلم بھر نے کا کام لیتا تھا۔ بڑھئی کے بعد دادی نے انہیں ایک لوہار کے سپردکیا لیکن وہ یہاں بھی زیادہ دیر تک نہ رہ سکے ۔ اس کے بعد خاندان والوں نے انہیں لاہور کے بھاٹی دروازہ کے پرائمری اسکول میں داخل کیا۔یہ ان کی پہلی کامیابی تھی کیوں کہ خاندان میں ان سے پہلے کسی نے اسکول نہیں دیکھا تھا ۔ بعد میں انہوں نے کالج میں بھی تعلیم حاصل کی لیکن اس سفر میں انہیں جن مشکلات کا سامنا کرنا پٖڑاہوگااس کا صحیح اندازہ وہی لگا سکتا ہے جس نے اسی طرح کے ماحول اور حالات دونوں کو عملی سطح پر جھیلا ہو۔
مرزا ادیب نے اپنی تعلیمی زندگی کاتفصیل سے تذکرہ کیاہے۔ انھوں نے پرائمری اسکول سے لے کر کالج تک کی زندگی کے متعلق بھر پور معلومات بہم پہنچائی ہے۔ انھوں نے اس عہد کی تعلیم وتربیت کے طریقوں اورطلبہکے ساتھ اساتذہ کی سخت گیریوں کا بھی تذکرہ کیاہے جس سے ان کے عہد کے اسکولوں اوراساتذہ کی مکمل تصویرآنکھوں کے سامنے پھرجاتی ہے۔انہوں نے اپنے کالج کے ان اساتذہ کا ذکر بھی پوری عقیدت اور ارادت کے ساتھ کیاہے جن سے ان کو کالج کے ایام کے دوران استفادہ کرنے کا موقع ملا یا جنہوں نے ان کی تربیت میں اہم کردار ادا کیا ۔
تعلیم و تربیت کے ذیل میں مرزا ادیب نے اپنی والدہ کا تفصیل سے تذکرہ کیا ہے اور ان کے بارے میں جو حالات تحریر کیے ہیں ان سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ ایک نیک اور روشن خیال خاتون تھیں۔ اس کی زندگی اگرچہ دکھوں ،پریشانیوں اور تنگ دستی کے حصار میں بندھی ہوئی تھی لیکن اس کے باوجود وہ تمام عمر ایثار کے جذبے سے معمور رہیں ۔اس میں زندگی کو بانٹنے اوراسے دوسروں کے روشن مستقبل کے لیے واقف کرنے کی بے پناہ قوت موجود تھی ۔اس کے اردگرد کے لوگ اور ماحول دونوں پر پرانی روائتوں کا آلودہ غبار چھایا ہوا تھا لیکن ایسے حالات میں بھی، پڑھی لکھی نہ ہونے کے باوجود اس کا ذہن روشنی سے منور تھا ۔اس کی زندگی میں دکھ درد کے میلے صبح شام جلوہ نما رہتے تھے لیکن اس نے خود کو کبھی بکھرنے نہیں دیا ۔اس نے ہر ایک کو اہمیت دی جو اس کے قابل بھی نہیں تھا اسے بھی عزت بخشی ۔اسے دوسروں کا خیا ل اپنی ذات سے زیادہ رہتا تھا ۔گھر میں سب کو کھانا کھلاکر جو کچھ بچ جاتا اس سے اپنا پیٹ بھر لیتی تھی۔ اس نے اپنی ذات پر کبھی کچھ خرچ نہیں کیا ۔بیمار ہوتیں تو ڈاکٹر یا حکیم کے پاس جانے کے بجائے گھریلو نسخوں سے اپنا علاج کرتی ۔تنگ دستی اور غربت میں زندگی بسر کرنے کے باوجود اس نے کبھی کسی سے کچھ طلب نہیں کیا اور نہ ہی کبھی کسی کے سامنے قسمت کی شکایت کی۔اس نے جس حال میں بھی زندگی بسر کی صبر وسکون سے سرشار رہیں ۔اس کو زندگی میں مختلف مقامات پرمختلف حالات میں مختلف کردار ادا کرنے پڑے ۔لیکن وہ ہر مقام پر گہرا تاثر چھوڑنے میں کامیاب رہیں ۔وہ ایک اچھی بیٹی ،نیک بیوی اور شفیق ماں تھی ۔اس نے قدامت پرست ماحول میں بھی بچوں کی تعلیم پر توجہ دی ۔مرزا ادیب کی تربیت پر اس نے زیادہ دھیان دیا ۔ہر چند کہ ان کے شوہر اور گھر کے دوسرے لوگوں کو تعلیم میں کوئی دل چسپی نہیں تھی ۔اس نے مرزا ادیب کی تعلیم کے سبھی اخراجات خود پورے کیے فیس ادا کرنے سے لے کر کتابیں خریدنے تک لیکن اپنے بیٹے کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کرنے میں کوئی کمی نہیں چھوڑی ۔ ان کے احسانات بہت وسیع ہیں ۔اگر وہ نہ ہوتیں تو دلاور علی کبھی مرزاادیب نہ بنتا ۔اگر ان کا سایہ مرزا ادیب کے سر پر نہ ہوتا تو وہ علم کے نور سے بے بہرہ رہ کر کسی مستری ،لوہار یا بڑھی کے ہوکر رہ گئے ہوتے اس طرح اردو ادب بھی ’’صحرا نورد کے خطوط‘‘ اور’’صحرانوردکے رومان ‘‘جیسے ادبی شاہ کار کارناموں سے محروم رہ جاتا ۔
مرزا ادیب نے اپنی والدہ کا ذکر جذبات میں ڈوب کر کیا ہے ۔انھوں نے اپنی والدہ کی زندگی کے ہر گوشے کو اجاگر کیا ہے ۔ان کے مزاج ،کردار ،پسند و ناپسند سب پہلوؤں پر بڑی عقیدت کے ساتھ روشنی ڈالی ہے ۔آپ بیتی کے اس حصے پر جس میں والدہ کا خاکہ موجودہے، جذباتیت کی گہری فضا چھائی ہوئی ہے ۔ اس میں ماں کی ممتا او ر ایک نیک اور صالحہ اولاد کی اپنی ماں سے محبت کا بھر پور اظہار ہوتا ہے ۔نیزوالدہ کا کردار اس انداز میں سامنے آتا ہے کہ وہ سب کے لیے ایک آئیڈیل کی حیثیت اختیار کرجاتا ہے ۔ اس کی زندگی اور اس کا ہر عمل قاری کو اس طور پر متاثر کرتا ہے کہ وہ ہر سطح پر اس سے اپنی ہمدردی کا اظہار کرنے لگ جاتا ہے ۔مرزا ادیب نے اپنی والدہ کا محض ایک خاکہ پیش نہیں کیا ہے بلکہ ان پر لفظوں اورخوبصورت جملوں کے ذریعے سے اپنی محبتوں اور گہری عقیدتوں کے پھول نچھاور کیے ہیں ۔خاکے کے آخر میں اس محبت اور عقیدت کا دل چسپ اظہار ہوتا ہے :
’’مری امی اس دنیا میں نہیں ہیں ،مگر یہ کس کا ہاتھ ہے جو مایوسیوں کے ہجوم میں میرے سر پر آہستہ آہستہ پھرنے لگتا ہے ؛
یہ کس کی انگلیاں ہیں جو میرے گیلے گالوں کو چھونے لگتی ہیں اور سارے آنسو خشک ہوجاتے ہیں ؛
یہ کس کا چہرہ ہے جو تاریکیوں میں طلوع ہوکر ہر طرف روشنی بکھیر دیتا ہے ؛‘‘ ۲
(ص ۲۹۷)
مرزا ادیب نے کالج کے زمانے تک کی زندگی تنگ دستی اور مالی پریشانیوں میں بسر کی۔ یہی وجہ ہے کہ انھوں نے کالج میں اپنی تعلیم مکمل کرنے کے فوراًبعد ہی روزگار کے لیے تگ ودوکا آغاز کیا۔ ان کے لیے حصولِ معاش ہمیشہ ایک اذیت ناک مسئلہ رہا۔ اس کے اسباب پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’یہ نہیں کہ یہ مسئلہ اس وجہ سے اذیت ناک تھا کہ مجھے فاقے کرنے پڑتے تھے یا تن ڈھانپنے کو کپڑا میسر نہیں ہوتاتھا۔ یہ صورت نہیں تھی۔ جس گھر میں پیدا ہواتھا وہ خاندان کی ذاتی ملکیت میں تھا۔ زرعی اراضی سے اتنی آمدنی ہوجاتی تھی کہ افرادِ خانہ کی بنیادی ضرورتیں پوری ہوسکیں گر چہ یہ ضرورتیں ناپ تو ل اور کھینچا تانی کے حساب سے ہی پوری ہوتی تھیں۔ اگر گھر میں کوئی دنیاوی امور کی سوجھ بوجھ رکھنے والا اور کاروبار ی معاملات کو سمجھنے والا فرد موجود ہوتاتھا تو اچھی خاصی گزراوقات ہو سکتی تھی۔ خوش حالی کا دور دورہ ہو سکتا تھا۔ مگر مصیبت یہ تھی کہ دونوں تایا جی ایسے معاملات میں صفر کا درجہ رکھتے تھے۔ رہ گئے ابا جی تو وہ گفتگو کرنے کا ڈھنگ ہی نہیں جانتے تھے۔ امی بے چاری کا بہت کم اختیار تھا۔ ان کو جو کچھ ملتاتھا۔ اس سے گھر کا خرچ ہی پورا ہوتاتھا۔ ستم بالائے ستم یہ کہ اس آمدنی کی سطح بھی بالعموم یکساں نہیں رہتی تھی۔کبھی کبھی مزارع ٹھیکے کی مقررہ رقم دیتا ہی نہیں تھا تو گھر میں اقتصادی بحرا ن آجاتا تھا۔ ایسے موقع پر امی ایک ایک پیسہ کر کے جمع کی ہوئی رقم سے گھر کا خرچ بڑی مشکل سے چلاتی تھیں۔‘‘۳
اس اقتباس کی روشنی میں مرزا ادیب اوران کے گھر کی مالی پریشانیوں کا اندازہ بخوبی لگایا جاسکتاہے ۔ ’’مٹی کا دیا‘‘ کے مطالعے سے پتہ چلتاہے کہ مرزا ادیب نے تلاش معاش کے سلسلے میں سب سے پہلے دسمبر 1935میں پنجاب بک ڈپو کے مالک چودھری برکت علی کے کہنے پر ادبی ماہ نامہ ’’ادب لطیف‘‘ کی ادارت پچیس روپے ماہوار تنخواہ پر قبول کی۔ یہ ان کی زندگی کاایک اہم فیصلہ تھا اور یہیں سے باضابطہ طورپر ان کی عملی اور ادبی زندگی کا آغاز بھی ہوتاہے ۔ اس لمحے کو یاد کر تے ہوئے لکھتے ہیں:
’’وہ لمحہ میری زندگی کا ایک فیصلہ کن لمحہ تھا۔ یہ وہ لمحہ تھا جب میں نے ایک نہایت اہم فیصلہ کرلیا۔ جب میں نے اپنے لیے وہ راستہ اختیار کرلیا جو دوسرے سب راستوں سے الگ تھلگ تھا۔ اس راستے پر چلتے ہوئے باربار کانٹوں سے میرے پاؤں زخمی ہوگئے۔ لگا اب چل نہیں سکوں گا۔ کبھی کبھی میں نے اپنی امی کی آنکھوں میں مایوسی کے سایے بھی دیکھے۔ اپنے خوابوں کے پھولوں کو زہر بھری ہوا کے جھونکوں سے مرجھا تے ہوئے بھی پایا۔ کبھی کبھی کسی شاداب راستے نے بھی مجھے اپنی طرف بلایا۔ مگر میراسفر جاری رہا۔ ایک بعیدی افق پر جھلملاتی ہوئی روشنیاں ہمیشہ مجھے آگے ہی آگے بڑھنے کی ترغیب دیتی رہیں اور میں برابر چلتا رہا۔ اب تک چل رہاہوں وہ بعیدی آج بھی روشنیوں سے معمور ہے آج بھی اس کے سینے سے روشنیاں پھوٹ رہی ہیں۔‘‘ ۴
’’ادب لطیف‘‘ کی ادارت نے مرزا ادیب کی تخلیقی صلاحیتوں کو جلا بخشی۔ انھوں نے اس رسالے کی ادارت کے دوران کئی افسانے اورڈرامے لکھے۔ جب بھی رسالے کا کوئی خاص نمبر چھپتا تواس میں مرزا ادیب کی تخلیقات بھی شائع ہوتی تھیں ۔ اس رسالے کے ذریعے سے مرزادیب کو اپنے ہم عصر مشاہیرِ ادب سے تعلقات استوار کرنے میں بھی آسانی ہوئی۔ ’’ادب لطیف‘‘ سے الگ ہونے کے بعد مرزا ادیب نے ساٹھ روپے ماہوار تنخواہ پر ’’مصور‘‘ کی ادارت کی۔ ’’مصور‘‘ ایک فلمی ہفت روزہ تھا۔ اس رسالے میں فلموں سے متعلق خبریں اور اشتہار ات چھپتے تھے۔ اس رسالے کا ادب سے بہت کم تعلق تھا۔ مرزا دیب نے اپنی ادارت میں اس رسالے کو ادبی رنگ دیا۔ اس میں فلموں سے متعلق خبروں کے ساتھ ساتھ نظمیں ، افسانے، غزلیں اور تنقیدی مضامین شائع کرنے کا سلسلہ شروع کیا۔
مرزاادیب نے اپنی خودنوشت سوانح عمری میں ترقی پسند تحریک پر بھی اظہارِ خیال کیاہے۔ ان کے نزدیک یہ کوئی یورپی یا بیرونی تحریک نہیں بلکہ ایک داخلی ، ملکی اور قومی تحریک تھی۔ انھوں نے غالب کی شاعری اور سرسید احمد خان کے رفقا کو اس تحریک کا پہلا سنگ میل قرار دیاہے۔مرزا ادیب نے ترقی پسند تحریک کے ذیل میں جن خیالات کا اظہار کیا ہے اور جو حالات تحریر کیے ہیں اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ ادب اور سیاست کو دو الگ الگ خانوں میں رکھتے تھے اور سیاست کو ادب پر کسی بھی صورت میں مسلط ہونے کے حق میں نہیں تھے ۔وہ سیاست کی اہمیت کو بھی سمجھتے ہیں لیکن اسے ادب سے دور رکھنے کی تلقین کرتے ہیں ۔ان کا خیال ہے کہ سیاست جب ادب میں در آتی ہے تو اس سے ایک طرف اس کا اپنا وجود ختم ہوجاتا ہے تو دوسری طرف ادب اس کے بوجھ تلے دب جاتا ہے جس سے اس پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں اورپھر سیاست سے وابستہ لوگ اسے ایک آلہ ٔ کار کے طور پر استعمال کرتے ہیں کہیں اپنے مقاصد کی حصول یابی میں تو کہیں کسی سیاسی تحریک کو جلا بخشنے کی صورت میں ۔مرزا ادیب ان دونوں صورتوں کو ادب کے لیے مضر تصور کرتے ہیں ۔
مرزا ادیب کے ہاں ترقی پسند تحریک کانظر یہ وہ نہیں ہے جو عام طور پر پیش کیا جاتا ہے ۔وہ اس تحریک کو محض ایک ادبی تحریک تصور کرتے تھے۔ ان کا ماننا تھا کہ یہ ضروری نہیں ہے کہ ہر ملک کے اندر ادب میں ترقی پسند ی کے نظریات یکساں ہوں کیوں کہ ہر ملک کا اپنا ایک کلچر ہوتا ہے جو دوسر ے ملک کے کلچر سے مختلف ہی نہیں ہوتا بلکہ اس کے اپنے کچھ تقاضے بھی ہوتے ہیں اور ان تقاضوں کو تحفظ بخشنا اس ملک کے ادیبوں کی ذمہ داری ہے کیوں کہ ان کے تصور میں ادیب کا قلم اپنے ملک کے عوام کی امانت ہے :
’’ہم جو پاکستان کے ادیب ہیں ۔ہمارے قلم اپنے عوام کی امانت ہیں ۔ہمیں اپنے قلم سے اس کلچر کا تحفظ کرنا ہے جو ہمارے عوام کا کلچر ہے ۔
اسلام ہمارے کلچر کا پاکستانی کلچر کا سب سے بڑا حصہ ہے ۔ہم کیوں کر اسلام سے صرف نظر کرسکتے ہیں
ہمارے ادیب اس حقیقت کو جتنی جلدی ہو تسلیم کر لیں بہتر ہے
مگر یہ اسلام کسی تاریک خیال ملا کا اسلام نہیں ہے ۔یہ وہ اسلام ہے جسے وقت کے ساتھ ساتھ بدلتے ہوئے تقاضوں کے پیش نظر اجتہاد کی ضرورت رہتی ہے۔
اسلام کی فطرت متحرک ،جمود دشمن اور اجتہاد پسند ہے ۔اسلام میں بڑی کشادگی اور وسعت ہے ۔شرط صرف ایک ہے کہ کوئی تحریک ،کوئی تغیر اور کوئی اجتہاد اسلام کے ان اساسی ضوبط پر اثر انداز نہ ہو جن کے مآخذ قرآن مجید اور احادیث ِ نبوی ہیں۔‘‘۵
مرزا ادیب کا ماننا ہے کہ ترقی پسند تحریک جو کہ ایک ادبی تحریک تھی ، ان لوگوں کی وجہ سے ایک سیاسی تحریک بن کر رہ گئی جو سیاست کے راستوں سے ادب کی دنیا میں داخل ہوئے تھے اور ان میں سے زیادہ تر ادب کے تقاضوں سے یا تو پوری طرح واقف نہیں تھے یا اسے ثانوی اہمیت دیتے تھے ۔انھوں نے’’ ادب لطیف ‘‘کی ادارت کے دوران گو اس تحریک کا پورا ساتھ دیا اور تحریک سے وابستہ ادیبوں کی تحریروں کو اپنے ادبی مجلے میں شائع بھی کیالیکن انہوں نے تحریک کی ان تخریبی کاروائیوں کا کبھی ساتھ نہیں دیا جو ان کے نظام فکر کے مطابق ادب اور قوم دونوں کے لیے مناسب نہیں تھیں ۔۱۹۴۹ء میں پاکستان کے ترقی پسند ادیبوں کی پہلی آل پاکستان کانفرنس میں دو قراردادیں پاس ہوئیں۔ان میں سے ایک قرارداد کی رو کے مطابق پاکستان کی ہر صوبائی زبان ملک کی قومی زبان بننے کا حق رکھتی ہے جب کہ دوسری قرارداد میں کہا گیا تھا کہ جو رسالے ترقی پسند تحریک سے وابستہ ہیں ان میں ان ادیبوں ،شاعروں اور دوسرے قلم کاروں کی تحروں کو جگہ نہ دی جائے جو اس تحریک کے مخالف ہیں ۔مرزا ادیب نے ان دونوں قراردادوں کی مخالفت کی جس کی بنیاد پر انھیں ترقی پسند تحریک کی تنظیم سے نکال دیا گیا ۔ان کا خیال تھا کہ اگر پاکستان کی ہر صوبائی زبان کو قومی زبان بنے کا حق دیا جائے تو اس سے ملک لسانی بنیادوں پرانتشار کا شکار ہوسکتا ہے اور مختلف حصوں میں بھی منقسم ہوسکتا ہے ۔وہ صر ف اردو کو پاکستان کی قومی زبان تسلیم کرتے ہیں کیوں کہ ان کہ نظر میں یہی وہ زبان ہے جو ملک کے عوام اور سبھی صوبوں کولسانی سطح پر متحد رکھ سکتی ہے ۔ دوسری قرار داد کی انھوں نے اس لیے مخالفت کی کیوں کہ وہ اس تحریک سے وابستہ ان انتہا پسندانہ ذہنیت رکھنے والے لوگوں کی طرح ایک طرف آزادیٔ رائے کا نعرہ دینے اور دوسری طرف اپنے مخالفین کی آواز دبانے پر یقین نہیں رکھتے تھے ۔
مرزا ادیب نے ترقی پسند تحریک پر جس زوایے سے روشنی ڈالی ہے اس سے ان کے احساسات و نظریات کو سمجھنے میں آسانی ہوتی ہے اور ان کے قومی و ملی جذبے پر بھی روشنی پڑتی ہے نیز اسلام سے ان کی وابستگی کا بھی اظہار ہوتا ہے ۔ اس میں ان کے محب ِ وطن ہونے کے خوبصورت اشارے بھی ملتے ہیں اور اپنے ملک کی سلامتی اور اس کے استحکام کے لیے ان کی نیک خواہشات کا بھی اظہار ہوتا ہے ۔ اس سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ انہیں اپنے ان اصولوں ،جو ان کے اپنے عقیدے اور ان کے نجی قومی و ملی جذبوں سے وابستہ تھے کی پاسداری کا احساس زندگی کے دیگر معاملات کی پاسداری سے زیادہ تھا او ریہی وجہ ہے کہ انہوں نے ان اصولوں پر کھبی بھی کسی تحریک ،کسی انجمن یا کسی ادارے کو اثرانداز نہیں ہونے دیا۔
۱۹۵۹میں جب صدرجنرل ایوب خان کے دورمیں پاکستان رائٹرز گلڈ قائم ہوا تو شروع میں بہت سے ادیبوں کی طرح مرزادیب بھی اس کے مخالف تھے۔ گلڈ کے متعلق دوسرے مخالفین کی طرح ان کے ذہن میں بھی کئی شکوک وشبہات تھے لیکن جب انہوں نے گلڈ کے اغراض و مقاصدپر کھلے ذہن سے نگاہ ڈالی تو ان کے سبھی شکوک و شبہات دور ہوئے ۔ اس حوالے سے لکھتے ہیں:
’’آج سے کم وبیش بیس برس پیش تر جب رائٹرزگلڈ کی بنیاد رکھی گئی تو کئی اہلِ قلم نے ٹوٹ کر اس کی مخالفت کی ۔ ان میں میں خود بھی شامل تھا۔ چنانچہ ’’ادب لطیف‘‘ کے اداریوں میں کئی بار اس نوتشکیل ادارے پر اعتراض کیے گئے تھے اوریہ سوچ کر اعتراض کیے گئے تھے کہ گلڈ ملک کی برسرِ اقتدار شخصیت کی ایماپر معرضِ وجودمیں آیا ہے اس کا مقصد صرف یہ ہے کہ ہمہ مقتدر حکمران فیلڈمارشل محمد ایوب خان کی حمایت کی جائے اور یہ حمایت اس بناپر بہت مؤثر ہوگی کہ ادیبوں کی طرف سے ہوگی جو عوامی ذہن کو متاثر کرنے کی بڑی صلاحیت رکھتے ہیں ۔
میں نے اورمیری رائے کے لوگوں نے یہ تاثر اس وجہ سے قائم کیا تھا کہ گلڈ کیبنیاد رکھنے والوں میں قدرت اﷲ شہاب کو سب سے زیادہ اہمیت حاصل تھی اور وہ اس وقت ایوب خان کے دستِ راست تصور کیے جاتے تھے۔ مگر آہستہ آہستہ شکوک وشبہات کی دھنددور ہوگئی۔ اور میں گلڈ کے قریب جا پہنچا۔‘‘ ۶
مرزا ادیب کا ماننا ہے کہ اگر گلڈ کو صحیح خطوط پر چلایا جاتا تو اس کے ذریعے سے ادیبوں کی معاشی حالت میں کافی حد تک سدہار آسکتاتھا۔ انہوں نے گلڈ کے حوالے سے جو باتیں کی ہیں ان سے محسوس ہوتاہے کہ وہ گلڈ کے کاموں سے متفق تھے۔ پاکستان رائٹرز گلڈ کے توسط سے ہی انہیں دوبار مشرقی پاکستان (موجودہ بنگلہ دیش) جانے کا موقع ملا تھا۔ ان لمحات کو یاد کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’گلڈ کے توسط سے مجھے دوبار اس سرزمین پر جانے کاموقع ملا جو نوبرس پہلے پاکستان کے ایک بازو کی حیثیت سے مشرقی پاکستا ن کہلا تی تھی اس سر زمین کے دریاؤں، پہاڑوں، جنگلوں کی یادیں میرے دل کی گہرائیوں میں زندہ ہیں۔ وہاں جن بہت پیارے لوگوں سے ملاقاتیں ہوئیں ان کے نقوش ذہن پر ثبت ہیں اورثبت رہیں گے۔
اس دیس میں میں نے جو کچھ دیکھا ، جوکچھ مشاہدہ کیا، جو کچھ محسوس کیا وہ میری زندگی کا ایک حصہ بن گیا ہے۔ پاکستان کے مختلف گوشوں سے آکر ادیب ایک جگہ جمع ہوگئے تھے۔ ان کے اپنے اپنے نظریات تھے ، اپنے اپنے تصورات تھے۔
ادب میں ہر ایک کا اپنا مقام تھا۔ مگر جب ہم مل بیٹھتے تھے آپس میں باتیں کرتے تھے کسی مسئلے پر سوچ بچار کرتے تھے تو میری روح میں ایک اہتراز کی سی کیفیت پیدا ہوجاتی تھی۔ مجھے محسوس ہوتاتھا کہ یہ ہماری اپنی برادری ہے ہم محبت کے ایک رشتے سے ایک دوسرے کے ساتھ وابستہ ہیں اور محبت کایہ رشتہ ناقابلِ شکست ہے یہی تو ہمارا قیمتی اثاثہ ہے ۔ ہمارا گراں بہاورثہ ہے۔ ‘‘۷
ادیبوں کو اپنی برادری کہنا مرزا ادیب کے اخلاص اور اپنے ہم عصر مشاہیرِ ادب سے ان کی گہری محبت ، ہمدردی ، عقیدت اور ارادت کا آئینہ دار ہے ۔ انھوں نے جس انداز میں مشرقی پاکستان (موجودہبنگلہ دیش) کو پاکستان کے ایک بازو کی حیثیت سے یاد کیاہے اس سے محسوس ہوتاہے کہ انہیں بھی اپنے ملک کے دوسرے محبینِ وطن کی طرح پاکستان کے ٹوٹنے کا بڑادکھ تھا۔
’’مٹی کا دیا‘‘ کا وہ حصہ جس میں مرزا ادیب نے اپنے بچپن کے زمانے کے لاہورکا ذکر کیاہے ان کی خودنوشت سوانح عمری کا ایک خوبصورت حصہ ہے ۔’’ذکر کچھ پرانے لاہور کا ‘‘ اور ’’ پرانے لاہور کے چند فقیر‘‘ اسی موضوع سے متعلق ہیں ۔ان دونوں ابواب میں مرزا ادیب نے لاہور کا جو نقشہ کھینچا ہے اور جو حالات و واقعات تحریر کیے ہیں وہ معلوماتی بھی ہیں اور بہت دل چسپ بھی ۔ان کے تحریر کردہ حالات کی روشنی میں ایک طرف قاری کوالفاظ کی اوٹ سے تقسیم ہند سے قبل کے لاہور کو دیکھنے کا موقع ملتا ہے اور دوسری طرف اس شہر کی تہذیبی ومعاشرتی زندگی کے خوبصورت نقشے بھی اس کے سامنے ابھرتے ہیں ۔ہندو ؤ ں اور مسلمانوں کے مابین اتحاد واتفاق کی خوبصورت مثالیں بھی سامنے آتی ہیں ،لوگوں کے مشاغل ،ان کی تفریح ِطبع کے ذرائع ،دسہرہ، دیوالی ،حولی اور بسنت کے تہواروں میں مسلمانوں کا شریک ہونا ،محرم میں ہندوؤ ں کا سبیل لگانا ۔۔۔اس عہد کے لاہور کی خوبصورت ہی نہیں بلکہ ایک ایسی تصویر پیش کرتے ہیں جس کے ہر رنگ پر محبت کے سو رنگ چڑھے ہوئے ہیں ۔دلچسپ بات یہ ہے کہ مرزا ادیب نے کم و بیش ساٹھ سال کی عمر میں حافظے کی مدد سے یہ منظر ابھارے ہیں ۔ان کے پاس نہ کوئی ڈائری تھی نہ کوئی دستاویز جن سے مدد لیتے لیکن اس کے باوجود انہوں نے اپنے بچپن کے لاہور کی تصویر کا ہر گوشہ اسی صورت میں دکھایا ہے جس میں وہ ساٹھ سال پہلے موجود تھا ۔محلے ،گلی کوچے،بازار ،مدرسے ،اسکول اور لوگوں کی توہم پرستی کا ایک ایک واقعہ ان کے ذہن میں محفوظ ہیں ۔انھوں نے جس انداز میں لاہور کا ذکر کیا ہے اس سے ایک طرف ان کی یاداشت اور دوسری طرف اس کرۂ ارض سے ان کی محبت کا اظہار ہوتا ہے جو ساٹھ ستر سال گزر جانے کے بعد بھی ان کی یادوں کی دنیا میں اسی طرح آباد ہے جس طرح سے انھوں نے اسے بچپن میں دیکھا تھا ۔
مرزا ادیب نے اپنی خودنوشت سوانح عمری میں اپنی داخلی اورخارجی دونوں دنیاؤں کی تصویر یں دکھائی ہیں۔ انھوں نے دوسرے خودنوشت سوانح نگاروں کی طرح خودنمائی اورخودستائی سے کام نہیں لیا ہے۔ بقول پروفیسر جیلانی کامران :
’’مرزاادیب نے اپنی سوانح عمری میں ذاتی قدآوری اور خودنمائی کو یکسر رد کیا ہے اور جہاں تک ان سے ممکن ہوا ہے انہوں نے اپنی سوانح حیات کا ہر رنگ پھیکا رکھا ہے اور کردار کی عکاسی کرتے ہوئے ہر بڑا لہجہ اور ہر وہ شے جس سے کردار کو بڑھایا جاسکتا تھا حذف کیا ہے ۔‘‘ ۸ (ص۴۰۵)
خودنوشت سوانح عمری کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس میں اظہار سے زیادہ اخفا کے امکانات موجود رہتے ہیں لیکن ’’مٹی کادیا ‘‘ پر اس بات کا اطلاق نہیں ہو سکتا کیوں کہ مرزا ادیب نے اپنی ذات سے وابستہ تمام معاملات کو اصل صورتوں میں پیش کیا ہے ۔انہوں نے جھوٹ نہیں بولے ہیں نہ اپنی ذات کے بارے میں اور نہ ہی اپنی خاندان کی روایات کے تذکرے میں ۔وہ ہر مقام سے سلامت روی کے ساتھ گزرے ہیں ۔ان کے باپ دادا ،بہن بھائی ،دوست احباب جیسے تھے سب کو ویسا ہی دکھایا ہے ۔انہوں نے کسی کی ذات پر عزت و وقار کے جھوٹے پردے نہیں ڈالے ہیں اور نہ ہی اپنے گھر کے حالات کی تصویر کشی میں کسی اخفا کے عمل سے کام لیا ہے ۔انھوں نے زندگی میں پیش آنے والے تمام حالات وواقعات نیز ان سے پیدا ہونے والے احساسات وجذبات کا ذکر سچائی اورصداقت کے ساتھ کیاہے۔بقول ڈاکٹر سید عبداﷲ :
’’مرزا ادیب نے ہر معاملے میں سچ بولا ہے ۔اپنے ماں باپ ،دادا،دادی ،بیوی ،استاد ،رسالوں کے مالک دوست احباب سب کے بارے میں سچ بولا ہے اگر چہ منکسر المزاجی ہر حال میں ساتھ رہی ہے ۔اپنی کمزوریاں بھی ،بڑے وقار اور شرافت سے بیان کردی ہیں ۔اور بعض لوگوں کی طرح یہ نہیں کیا جو اپنے عیوب کی فہرستیں بنا کر اور ان سے مرقعے سجا کر ،اپنے لیے تفوق اور برتری کا انوکھا راستہ نکال لیتے ہیں ‘‘ ۹ (ص۳۹۹)
مرزا ادیب ایک منکسرالمزاج شخص تھے ۔ان کی طبیعت میں انکسار بہت تھا ۔انہوں نے پوری زندگی عاجزی اورسادگی کا لباس پہن کر بسر کی ۔انہوں نے کبھی کچھ ہونے کا دعویٰ نہیں کیا حتیٰ کہ ادب کے معاملات میں بھی نہیں جن میں انہیں اونچا مقام حاصل تھا، دنیا کے امور میں تو ان کا کاسۂ حیات ہمیشہ محرومیوں سے بھر ا رہاویسے بھی اس کے معیار اور تقاضوں میں جن چیزوں کو کلیدی حیثیت حاصل تھی مرزاادیب کی زندگی ان کے متضاد کی حیثیت رکھتی تھی۔ ’’مٹی کا دیا ‘‘مرزا ادیب کی زندگی کے اسی خالی پن اور ان کی شخصیت کے اسی انکسار بھرے وصف کا بھی ایک دل چسپ اظہار ہے ۔اس میں ان کی شخصیت کے انکسار بھرے عوامل پیش لفظ کے پہلے جملے ’’ میں کیا اور میری آپ بیتی کیا ‘‘سے ہی ہماری نظروں کے سامنے اس طرح ابھرنے شروع ہوجاتے ہیں کہ آپ بیتی کے پہلے ہی مرحلے پر ان کے اندر کی ناآسودگی کی آوازیں سنائی دینے لگتی ہیں ۔
انسان کی ابتدائی زندگی اس کے مستقبل کومتعین کرنے میں اہم کردار ادا کرتی ہے ۔شخصیت کی تعمیر و تشکیل میں بھی یہ زمانہ اہمیت رکھتا ہے ۔انسان جس ماحول اور جن لوگوں کے سائے میں پرورش پاتا ہے اس کا اثر اس کی زندگی پر ضرور پڑتا ہے ۔اس کے مزاج ،اس کے ذہن اور اس کی نفسیات سب پر اس کے گرد وپیش کے حالات اپنے اثرات مرتب کرتے ہیں ۔بعض اوقات انسان انہی اثرات کے عین مطابق زندگی بسر کرتا ہے اور جن روایات کے سائے میں اس نے سانسیں لی ہوتی ہیں اس کی زندگی ان روایات کے پرتو کا عملی روپ دھار لیتی ہے ۔اسی لیے کہا گیا ہے کہ انسان اپنے ماحول کا نتیجہ ہوتا ہے ۔لیکن’’ مٹی کا دیا‘‘اس بات کی نفی کرتی ہے کیوں کہ اگر انسان اپنے ماحول کا پرتو یا اس کا نتیجہ ہوتا تو دلاور علی ،دلاور علی ہی رہتاکبھی مرزا ادیب نہ بنتا۔ اس کی ابتدائی زندگی کے چاروں سمت اتنا گہرا اندھیرا چھایا ہوا تھا کہ اس میں روشنی کے آثار کی کوئی صورت موجود نہ تھی اور نہ ہی فضا ایسی تھی جوکسی ادیب یا مفکر کو جنم دیتی ۔بقول پروفیسر جیلانی کامران :
’’یہ سوانح عمری سوانح حیات کی روایت سے انحراف کرتی ہے ۔شخصیت اور کردار کے بارے میں گریز کرتی ہے اور ماحول کے چال چلن کا مطالعہ کرتی ہے اور شاید یہ بات بھی پوچھتی ہے کہ انسانی زندگی کے بنانے میں ماحول کا ہاتھ زیادہ ہے یاروایت کا ؟اور کیا انسان جو کچھ بننا چاہتا ہے وہ خود بن سکتا ہے ۔خود بخود بن جاتا ہے یا ماحول اور روایت کے علاوہ کوئی اور قوت بھی ہے جو ایسی زمینوں سے بھی پھول اگاسکتی ہے جہاں پھول کے اگنے کی کوئی صورت بھی نظر نہیں آتی ۔‘‘۱۰( ص ۴۰۷)
’’مٹی کا دیا‘‘ زبان و بیان کے لحاظ ایک دلچسپ خودنوشت سوانح عمری ہے ۔اس کا اسلوب بیانیہ ہے۔ لیکن مرزا ادیب نے متعدد مقامات پر واقعے کو پُراثر اور بیان میں زور پیداکرنے کے لیے علامتوں اورمکالمہ نگاری سے بھی بھر پور کام لیاہے ۔تشبیہات و استعارات کا بھی استعمال کیا ہے ۔خاکہ نگاری، منظر نگاری اور کردار نگاری سے بھی استفادہ کیا ہے ۔ متعدد مقامات پر واقعے کے بیان میں افسانوی فضا بھی قائم کی ہے لیکن یہ فضا اتنی گہری نہیں ہے کہ خودنوشت پر افسانے یا ناول کا گمان ہونے لگے ۔
مجموعی طور پر ’’مٹی کا دیا ‘‘ ایک اہم اور دل چسپ خودنوشت سونح عمری ہے ۔یہ مرزا ادیب کی زندگی اور ان کی شخصیت کی مکمل تصویر پیش کرتی ہے ۔ یہ ایک تخلیق کار کی نہیں بلکہ اس فرد کی داستان ِ حیات ہے جس نے اپنے لیے گھنے اندھیروں میں بھی روشنی کے امکانات تلاش کیے ۔اس کے مطالعے سے زندگی کا اصل مفہوم اور اس کے نشیب وفرازکی رنگینیوں کا صحیح ادراک حاصل ہوتا ہے ۔یہ اس شخص کا زندگی نامہ ہے جس نے خود تو مٹی کے دیے کے سائے میں آنکھ کھولی لیکن آنے والے وقت میں اس کی فہم و فراست نے اپنے منتخبہ میدان کو ستاروں سے منور کیا ۔اس خودنوشت سوانح عمری میں ادب سے دلچسپی رکھنے والوں کے لیے ہی نہیں بلکہ شعبہ ہائے زندگی کے دوسرے معاملات سے وابستہ لوگوں کے لیے بھی بہت کچھ موجود ہے ۔
حواشی
۱ : مٹی کادیا،مرزاادیب ، سنگ میل پبلی کیشنز لاہور، پاکستان،۱۹۸۴، ص ۱۳
۲ : ایضاً،ص۲۹۷
۳ : ایضاً،ص۳۲۵
۴ : ایضاً،ص۳۲۸
۵ : ایضاً،ص۳۶۴
۶ : ایضاً،ص۳۷۹
۷ : ایضاً،ص۳۸۲
۸ : مرزاادیب:شخصیت اور فن ،مرتبہ، رشید امجد مقبول اکیڈیمی لاہور ،پاکستان ۱۹۹۱،ص۴۰۵
۹ : ایضاً،ص۳۹۹
۱۰ : ایضاً،ص۴۰۷
٭٭٭
Leave a Reply
Be the First to Comment!