میر تقی میر: مستند ہے اس کا فرمایا ہوا

محمد کمیل ترابی

 ریسرچ اسکالر شعبہ اردو،دہلی یونی ورسٹی 9999637359

اردوشاعری کے متعدد عالمگیر شہرت کے حامل شعراء میں ایک ناقابل فراموش شخصیت میر تقی میر کی ہے۔ ادب نواز طبقے نےانہیں خدائے سخن ،ملک الشعراء ،سرتاج الشعراء اور امام المتغزلین کے القابات سے نوازا۔میرنے اردو میں غزلوں کے چھ دیوان رقم کئے ہیں۔رباعیات، قصائد،مثنویات ،مراثی اور دوسرے اصنافِ سخن پر مشتمل ایک اور دیوان ہے۔وہ الفاظ کے خالق اور غزل کے شہنشاہ تسلیم کئے جاتے ہیں ۔میر کے اشعارلوگ بطور سوغات لے جایا کرتے تھے،یہ قبولیت اردو کے کسی دوسرے شاعر کو نصیب نہیں ہوئی ۔مضامین کی جدت اور نازک مزاجی نے ان کے کلام میں انفرادیت پیدا کر دی ہے۔یہی وجہ ہے کہ میر تقی میر وہ استاد الاساتذہ ہیں جن کو اردو کے بڑے بڑے شاعروں نے نہ صرف سراہا بلکہ ان کی شاعری کی برملا تعریف و توصیف بھی کی ۔مرزا غالب ،سودا،ذوق،حسرت موہانی اورحالی نے برملا معتقد میر ہونے کا اعتراف کیا۔نمونہ کے طور پر یہ اشعار ملاحظہ ہوں ؂
غالب اپنا یہ عقیدہ ہے بقولِ ناسخ
آپ بے بہرہ ہے جو معتقدِ میر نہیں
ریختے کے تمہیں استاد نہیں ہو غالب
کہتے ہیں اگلے زمانے میں کوئی میر بھی تھا
نہ ہوا پر نہ ہو ا میر کا انداز نصیب
ذوق یاروں نے بہت زور غزل میں مارا
حالی سخن میں شیفتہ سے مستفید ہوں
غالب کا معتقد ہوں مقلد ہوں میر کا
شعر میرے بھی ہیں پُر درد و لیکن حسرت
میر کا شیوہ گفتار کہاں سے لاؤں
حسرت موہانی نے کہا تھا کہ ’’ میر کا شیوۂ گفتار کہاں سے لاؤں‘‘ در اصل یہ میر کا شیوۂ گفتار ہی ہے جو انھیں دیگر شعرا سے ممتاز کرتاہے۔ میر عوام کی گفتگو میں استعمال ہونے والے الفاظ و محاورات کو اپنے اشعار میں بخوبی کھپادیا کرتے تھے۔ایک مثال دیکھتے چلیں:
مت اِ ن نمازیوں کو خانہ سازِ دیں جانو
کہ ایک اینٹ کی خاطر یہ ڈھاتے ہیں گے مسیت
اس شعر میں لطیف بات یہ ہے کہ پہلے مصرع میں ’’ خانہ سازِ دیں ‘‘ جیسی فارسی ترکیب کا استعمال کیا گیا ہے، جبکہ مصرعِ ثانی میں ’’ ڈھاتے ہیں گے مسیت‘‘ کا فقرہ خالص عوامی زبان کا حصہ ہے۔میر کا فن یہ ہے کہ دونوں چیزوں کی یکجائی سے شعر کے حُسن میں اضافہ ہی ہُوا ہے۔ ’مسیت‘ لفظ ’مسجد ‘ کی بگڑی ہوئی شکل ہے اور کسی لفظ کو ناقابلِ شناخت حد تک بگاڑ دینے کا فرض صرف عوام ہی بہتر طور پر انجام دے سکتے ہیں ۔ میر کے یہاں زبان کے اس آزادانہ استعمال کے حوالے سے شمس الرحمان فاروقی نے ’’ شعرِشور انگیز ‘‘ جلد اول کے دیباچے میں تحریر کیا ہے:
’’اپنے معاصروں اور پیش روؤں کے بر خلاف ،میر نے زبان کے ساتھ آزادیاں بہت کثرت سے روا رکھی ہیں ۔ میر کسی لفظ سے گھبراتے نہیں، اور موقع پڑنے پر وہ دور دراز کے لفظ ، یا نامانوس لفظ (یعنی شاعری کی زبان کیلئے نامانوس لفظ) یا بالکل عوامی لفظ بے خوفی سے استعمال کرلیتے ہیں۔ الفاظ کے استعمال کے معاملہ میں میر ہمارے سب سے زیادہ adventurous یعنی مہم جُو شاعر ہیں۔ اور چونکہ ہماری زبان کے الفاظ کا بڑا ذخیرہ پراکرت الفاظ پر مبنی ہے، اس لئے بادیُ النظر میں میر کا کلام ہمیں آسان اور گھریلو معلوم ہوتاہے۔ ‘‘
میر نے نامانوس الفاظ کا استعمال بھی بے خوفی سے کیا ہے، جس کی مثال کے طور پر یہ مطلع دیکھا جاسکتا ہے ؂
شبِ ہجر میں کم تظلُّم کیا
کہ ہمسایگاں پر ترحُّم کیا
اس کے علاوہ میر نے اپنے اشعار میں کچھ الفاظ کاایسے مخصوص معنوں میں استعمال کیا ہے جن میں وہ عام طور پر استعمال نہیں کئے جاتے اور اس بنا پر پہلی قرأ ت میں ان کا مفہوم قاری کی سمجھ میں نہیں آتا۔ یہ شعر دیکھیں ؂
آنکھو ں سے تری ہم کو ہے چشم کہ اب ہووے
جو فتنہ کہ دنیا میں برپا نہ ہُوا ہوگا
یہاں مصرعِ اولیٰ میں ’چشم ‘ کے معنی آنکھ نہیں بلکہ’ امید‘ یا’ آس ‘ ہیں۔
ایک اور شعر اسی قبیل کا ملاحظہ فرمائیں ؂
ان صحبتوں میں آخر جانیں ہی جاتیاں ہیں
نے عشق کو ہے صرفہ ،نے حُسن کو محابا
اس شعر کے مصرعِ ثانی میں ’صرفہ‘ کے معنی ’خرچ‘ وغیرہ کے نہیں ، بلکہ تأمل یا افسوس کے ہیں۔
شاعرانہ صنعتوں کا میرنے بہت استادانہ استعمال کیا ہے۔یہاں ’لف و نشر ‘ کے حوالے سے مثال پیش کی جاتی ہے ؂
ایک سب آگ ، ایک سب پانی
دیدہ و دل عذاب ہیں دونوں
یہ لف و نشر ِ غیرِ مرتب کی مثال ہے۔ اسی کی ایک دوسری مثا ل دیکھیں جس میں یہی مضمون باندھا گیا ہے ؂
ایک سے ہے خرمنِ غم، دانۂ اشک ایک سے
دیدہ و دل الغرض دونوں کا حاصل ایک ہے
اور لف و نشر ِ مرتب کی اس مثا ل کو بھی دیکھا جائے ؂
گیسؤ و رخسارِ یار آنکھو ں ہی میں پھرتے ہیں
میر یہ لیل و نہار دیکھئے کب تک رہے
میر کے عاشقانہ جذبات و احساسات کے بارے میں لوگ مختلف الآرا نظر آتے ہیں ۔کوئی پیدائشی افسردہ اور غمگین شخصیت کا حامل قرار دیتا ہے ،کوئی ناکامئیِ عشق کا الزام لگاتا ہے ،تو کوئی ماحول کی نامساعدی و ناسازی کے پیشِ نظر امامِ غم کا خطاب عطا کرتا ہے۔لب ِ لباب یہ ہے کہ اکثریت نے ان کی شاعری کو مرثیہ نگاری سے مشابہ قرار دیا ہے اور اس کی وجہ ان کی زندگی میں بچپن سے لیکر جوانی تک لگاتار آفات وحادثات کا رونما ہونا ہے،جس کے نتیجے میں غمِ دل اور غمِ دوراں نے ان کی شاعری کو اپنے قبضہ میں لے لیا، ان کی شاعری اسی شکست زندگی کا ماتم ہے۔عام طور پر یہ خیال کیا جاتا ہے کہ شاعر ہمیشہ اپنے ماحول کی شکست و ریخت کو اپنی روح میں جذب کرتا ہے اور اسی سے اپنی شاعری کے لئے غذا فراہم کرتا ہے۔ایک کامیا ب شاعر کے لئے ضروری ہوتا ہے کہ وہ بلند حوصلہ کا مالک ہو،تاکہ وہ گردشِ روزگار سے نباہ کر سکے۔ اس زاویہ نگاہ سے میر سے کامیاب کوئی نہیں ۔میر کے یہاں درد و الم اور شاعری کی مکمل ہم آہنگی ملتی ہے۔ان کا سوز و غم نہ صرف انھیں رلاتا ہے بلکہ دوسرے بھی اس پر آنسو بہاتے ہیں،میر کی شاعری قلبی واردات و احساسات کی شاعری ہے اس کی وجہ سے بعض ناقدین نے انھیں قنوطی قرار دیا ہے۔ان تمام وجوہات کے باوجود میر کا غم ذاتی نہ ہوکر آفاقی نظر آتا ہے۔ان کی غزلوں میں گھٹن کے بجائے ہمیں دردمندی اور اپنائیت نظر آتی ہے۔انھوں نے خارجی ماحول کی عکاسی میں گہرے فنی شعور کا ثبوت دیا ہے۔ان کا کلام دور ازکار استعارات ،بعید از قیاس مبالغے اور خلاف ِ عادت امور سے پاک ہے۔بھونڈے اور بے جا تکلف و تصنع اور فضول لفاظی کا نام و نشان نظر نہیں آتا۔وہ قلبی واردات و کیفیات کو نہایت سادہ او ر صاف زبان میں پیش کرتے ہیں ۔ماحصل یہ ہے کہ ان کے بعض اشعار بہ لحاظِ سلاست و روانی سہل ِ ممتنع کی ایک عمدہ مثال ہے۔یہ کچھ اشعار ملاحظہ ہوں ؂
تھا میر بھی دیوانہ، پر ساتھ ظرافت کے
ہم سلسلہ داروں کی زنجیر ہلا جاتا
جس سر کو غرو ر آج ہے یاں تاج وری کا
کل اس پہ یہیں شور ہے پھر نوحہ گری کا
آفاق کی منزل سے گیا کون سلامت
اسباب لٹا راہ میں یاں ہر سفری کا
دل کی ویرانی کا کیا مذکور ہے
یہ نگر سو مرتبہ لوٹا گیا
شام سے کچھ بجھا سا رہتا ہے
دل ہوا ہے چراغ مفلس کا
میر کی ساری غزلوں میں میر کا خونِ جگر جھلکتا ہے۔میر نے اپنی پوری زندگی ناکامیوں میں بسر کی۔بچپن میں ہی والدین کا سایہ سر سے اٹھ گیا،خاندان والوں نے بے رخی اختیار کر لی،عشق کی چوٹ الگ سے سوغات میں مل گئی اور رہی سہی کسر بے روزگاری نے پوری کر دی۔یہی وجہ ہے کہ میر کے اشعار ناکامیوں کے مرجھائے ہوئے غنچے معلوم ہوتے ہیں جن کو موجِ بہار اور بادِ صبا کھلانے سے قاصر ہے۔ان کی شاعری میں نیم شب کی بے خوابی کی فریادیں ،آہِ دل سوز کی پُر سوز و پُر درد شرر باری،اشک ہائے گرم و آتش ہائے دروں کی اضطرابی پورے َشد ومد کے ساتھ جلوہ گر ہو کر قاری کو خیالستانِ سوگوار میں مستغرق کر دیتی ہے۔میر کے اشعار کی داخلیت جسے فراق گورکھپوری نے ’’بھیتری چوٹ‘‘کا نام دیا ہے ۔ہمارے دل کو تڑپاتی ہے اور نشتر کی طرح دل میں پیوست ہو جاتی ہے۔میر کے یہاں بقول امداد اثر ؂
’’سوز و گداز ،نشتریت ،رنگینی،شیر ینی اور شوخی وغیرہ کی کیفیتیں بدرجۂ کثیر پائی جاتی ہیں ۔‘‘
میرعشق کی واردات کو ایسی دلکشی اور حسن کے ساتھ بیان کرتے ہیں کہ لوگ آپ بیتی میں جگ بیتی کا مزہ پاتے ہیں یہ اشعار خود اس بات کا ثبوت پیش کرتے ہیں ؂
ہمارے آگے ترا جب کسو نے نام لیا
دل ستم زدہ کو ہم نے تھام تھام لیا
روشن ہے اس طرح دلِ ویراں میں ایک داغ
اجڑے نگر میں جیسے جلے ہے چراغ ایک
مصائب اور تھے ،پر دل کا جانا
عجب اک سانحہ سا ہو گیا ہے
جب نام ترا لیجئے تب چشم بھر آوے
اس زندگی کرنے کو کہاں سے جگر آوے
مندرجہ بالا اشعار سے صرف میر کی دلی حالت کا ہی اندازہ نہیں ہوتا ہے اگر آپ غور کریں تو زخمِ دل کے ساتھ دلی کی تباہ و بربادی کا بھی بھر پور مرثیہ ہے کیونکہ میر کو دلی سے بھی بے پناہ محبت تھی۔نادر شاہ درانی اور احمد شاہ ابدالی کے حملوں نے دہلی کی آٹھ سو سالہ پُرانی تہذیب کی بنیادوں پر ضرب لگائی تھی، یہ زخم میر کے لئے کسی ناسور سے کم نہ تھا۔وہ دلی کی کاہش پذیری کا حال اپنی آنکھو ں سے دیکھتے رہے ۔وہ ایک حساس دل لئے ہوئے تھے ان واقعات سے الگ تھلگ کیسے رہ سکتے تھے۔جس دور اور حالات سے میر گذرے تھے ان کا غم و الم ا ن کے مزاج میں پوری طرح رچ بس گیا تھا ۔یوں میر نے اس دور کے درد بھرے حالات کی ترجمانی کر کے اپنی ذاتی محرومیوں کو آفاقی پیرہن عطا کیاجس سے ان کی غزل کا رشتہ عوام کی زبان سے جڑ کر وسیع تر ہو گیا۔یہ اشعار ملاحظہ کریں ؂
کچھ موجِ ہوا پیچاں اے میر نظر آئی
شاید کہ بہار آئی زنجیر نظر آئی
دلی کے نہ تھے کوچے اوراق مُصَوَّر تھے
جو شکل نظرآئی تصویر نظرآئی
دلی میں آج بھیک بھی ملتی نہیں انھیں
تھا کل تلک دماغ جنھیں تخت و تاج کا
جو اس شور سے میر روتا رہے گا
تو ہمسایہ کاہے کو سو تا رہے گا
دہلی کے ابتر حالات کی وجہ سے میر کا ہجرت کر کے لکھنؤآنا کسی صدمے سے کم نہیں تھا۔وہ لکھنؤ آ کر بھی دہلی کی یاد میں آہیں بھرتے رہے،ان کے بہت سے اشعار اسی درد کی غمازی کرتے ہیں ؂
لکھنؤ دلی سے آیا یاں بھی رہتا ہے اداس
میر کی سر گشتگی نے بے دل و حیراں کیا
یہ الگ بات ہے کہ میر کی شہرت لکھنؤ آتے ہی چہار سو ہو گئی۔میر کے چند اشعار ملاحظہ ہوں جو لکھنؤ آنے کے بعد انھوں نے پہلی بار ایک مشاعرے میں پیش کئے ،یہ اشعار ان کے دیوان میں تو نہیں ہے لیکن مولانا محمد حسین آزاد اور بعض ادیبوں نے انہی کا تحریر شدہ دیکھا اور سنا ہے اور آزاد نے ’’آب حیات ‘‘ میں اس کا ذکر بھی کیا ہے ؂
کیا بود و باش پو چھو ہو پورب کے ساکنو
ہم کو غریب جان کے ہنس ہنس پکار کے
دلی جو ایک شہر تھا عالم میں انتخاب
رہتے تھے منتخب ہی جہاں روزگار کے
جس کو فلک نے لوٹ کے ویران کر دیا
ہم رہنے والے ہیں اسی اجڑے دیار کے
یہاں یہ بات بھی قابلِ غور ہے کہ دبستانِ لکھنؤ اور دبستانِ دہلی دونوں منفرد رنگ و آہنگ کے حامل تھے۔جہاں شعراء لکھنؤ نے اپنی تمام تر توجہ شعر کی ظاہری ساخت پر صرف کی اور جذبات نگاری کو پسِ پشت ڈال کر تصنع،تکلف اور لفظی مرصع کاری کو اہمیت دی۔رعایت لفظی ،تشبیہ و استعارہ کے پُر تکلف استعمال سے شاعری گداز ،گھلاوٹ اور اثر آفرینی سے محروم ہو گئی ۔انھوں نے خارجیت کو داخلیت پر اور الفاظ کو معنی پر تر جیح دی ۔وہیں دوسری طرف دبستان دہلی کی شاعری داخلیت پسندی پر مبنی ہے۔جس میں سوز و گداز ،درد مندی،تصوف ،حسن و جمال ،خوبصورت تشبیہات ،سادگی اور خطابیہ انداز پایا جاتا ہے۔بہت سے دہلوی شعراء جب لکھنؤ آئے توانھوں نے اپنے آپ کو لکھنوی رنگ میں رنگ لیا۔لیکن میر کے دل و دماغ میں لکھنؤ پہونچنے سے پہلے ہی داخلیت اور شاعرانہ رمزیت کا رنگ پختہ ہو چکا تھا،اس لئے ان پر دبستانِ لکھنؤ کا رنگ اثر انداز نہ ہو سکا۔میر کی شاعری سب سے جدا ،گفتگو کا انداز مختلف اور سخن نرالا تھا۔میر اپنی شاعرانہ خوبیوں سے بخوبی واقف تھے اور انھیں اس پر بہت ناز بھی تھا۔ اس قبیل کے چند اشعار ملاحظہ ہوں ؂
نہیں ملتا سخن اپنا کسو سے
ہماری گفتگو کا ڈھب جداہے
شعر میرے ہیں گو خواص پسند
پر مجھے گفتگو عوام سے ہے
ریختہ رتبے کو پہنچایا ہوا اس کا ہے
معتقد کون نہیں میر کی استادی کا
سارے عالم پر ہوں میں چھایا ہو ا
مستند ہے میرا فرمایا ہوا
میرایک حسّاس تخلیقی ذہن کے مالک ہیں۔ فن میں شگفتگی،لطافت،شیرینی،کیف و سرور پیدا کرنے کا ہنر جانتے ہیں۔ان کو زبان و بیان پر بے پنا ہ قدرت حاصل ہے۔میر کے آئینہ خیا ل میں وہی جلوے زیادہ واضح ،صاف اور روشن ہیں جو براہِ راست ان پر اثر انداز ہوتے ہیں ۔گویا ان کا ایک ایک شعر ان کی زندگی کی تفسیر ہے۔ان کی غزلوں میں اگر پہلا مصرعہ واقعہ کو اس کے نشیب و فراز کے ساتھ بیان کرتا ہے تو دوسرا مصرعہ پہلے کی توضیح اتنے دلکش انداز میں کرتا ہے کہ منظرنگاری اور جذبات نگاری کے تقاضے پورے ہوتے ہوئے نظر آتے ہیں،ایسا محسوس ہوتا ہے کہ دوسرا مصرعہ پہلے کیلئے ہی بنا ہے۔انکے یہاں شاعری کے تمام لوازمات سوزو گداز، رنگ و نور، رس، آہنگ،حسن و جمال،تنوع،دلکشی، دلآویزی، شیرینی، لطافت،لطف و سرور ،صداقت و شرافت، ہمہ گیری اور معنویت جیسی تمام خوبیاں یکجا ہو گئیں ہیں۔ وہ اپنی شاعری میں اپنی ذاتی زندگی کے تجربات کو بے جھجھک پیش کرتے ہیں۔اورکسی بھی خاص سانحہ کو اس طرح پیش کرتے ہیں کہ وہ جمالیاتی تجربہ بن جاتاہے ۔مثلاً ؂
کہتے تو ہو یوں کہتے، یو ں کہتے جو وہ آتا
سب کہنے کی باتیں ہیں کچھ بھی نہ کہا جاتا
پھوڑا سا ساری رات جو پکتا رہے گا دل
تو صبح تک تو ہاتھ لگایا نہ جائے گا
تڑپے ہے جب کہ سینے میں اُچھلے ہے دو دو ہاتھ
گر دل یہی ہے میر تو آرام ہو چکا
میرنے تشبیہات کا زیادہ استعمال کیاکیونکہ تشبیہ سے اشعار کا مفہوم سمجھنے میں آسانی ہو تی ہے۔جبکہ استعارے ان کے یہاں بہت کم پائے جاتے ہیں ،شاید اس کی وجہ استعارے کا ابہام ہے۔تغزل کے عناصر میں تکلف اور تصنع کا عکس نہیں پڑتا اسی لئے دور از کا ر تشبیہات و استعارات کے استعمال سے میر نے اپنے تغزل کا چہرہ مہرہ نہیں بگاڑا ۔حدیث دل بیان کرنے کے لئے جس صاف ستھرے ،پیچیدگی سے پاک انداز بیان کی ضرورت ہے ،میر نے وہی اسلوبِ بیان اپنایا،پھر اسے اپنے نرم و نازک لہجے کی شیرینی سے اتنا پُراثر بنادیا کہ وہ قاری کومسحور کر لے۔ ان کے یہ چند اشعار اسی بات کی گواہی دے رہے ہیں ؂
میر ان نیم باز آنکھوں میں
ساری مستی شراب کی سی ہے
نازکی اس کے لب کی کیا کہئے
پنکھڑی اک گلاب کی سی ہے
شام سے کچھ بجھا سا رہتا ہے
دل ہوا ہے چراغ مفلس کا
ترے فراق میں جیسے خیا ل مفلس کا
گئی ہے فکر ِ پریشاں کہاں کہاں میری
میر کا کلام عشقِ مجازی کے بیان سے بھرا پڑا ہے ، لیکن عشقِ حقیقی کے بیان سے خالی بھی نہیں۔ در اصل عشقِ مجازی کی منزلیں طے کرتے ہوئے ہی وہ عشقِ حقیقی کی منزل تک پہنچتے ہیں۔ گو کہ شاعری کا یہ موضوع ان کے ہم عصر خواجہ میر درد کا خاص میدان ہے، لیکن میر نے بھی اس کو نہایت عمدگی کے ساتھ نبھایا ہے۔ ان کے کلام میں تصوف و معرفت کے اشعار جا بجا بکھرے پڑے ہیں ؂
تھا مستعارحُسن سے اس کے جو نور تھا
خور شید میں بھی اس ہی کا ذرہ ظہور تھا
پہنچا جو آپ کو تو میں پہنچا خدا کے تئیں
معلوم اب ہُوا کہ بہت میں بھی دور تھا

اُس کے فروغ ِ حُسن سے جھمکے ہے سب میں نور
شمعِ حرم ہو یا ہو دیا سوم نات کا
عالم کسی حکیم کا باندھا طلسم ہے
کچھ ہو تو اعتبار بھی ہو کائنات کا
میر اور غالب کے ہا ں ایسے اشعار بھی مل جاتے ہیں جو بیک وقت عشقِ مجازی اور عشقِ حقیقی دونو ں پر منطبق ہوتے ہیں۔ میر کہتے ہیں ؂
ہم خاک میں ملے تو ملے لیکن اے ندیم
اس شوخ کو بھی راہ پہ لانا ضرور تھا
تھا وہ تو رشکِ حورِ بہشتی ہمیں میں میر
سمجھے نہ ہم تو فہم کااپنے قصور تھا
غالب کا شعر بھی دیکھتے چلیں ـ:
جب وہ جمالِ دل فروز، صورتِ مہرِ نیم روز
آپ ہی ہو نظارہ سوز ، پردے میں منہ چھپائے کیوں
بابائے اردو مولوی عبدالحق نے میر کی شاعری کا تجزیہ کرتے ہوئے لکھا ہے :
’’میری رائے میں کسی شاعر کے کلام کا اتنا بڑا معیا ر اس کے کلام کی تاثیر ہے اور اگر اس معیا ر پر میر صاحب کا کلام جانچا جائے تو ان کا مرتبہ اردو شعرا ء میں سب سے اعلی پایا جاتا ہے۔ان کے اشعار سوز و گدازاور درد کی تصویریں ہیں۔۔۔۔ان کا ہر شعر ایک آنسو ہے اور ہر مصرع خون کی ایک بوند ہے۔‘‘
میر کو لفظو ں کے انتخاب اور ترتیب دونوں کا ہنر خوب آتا تھا۔ان کے اشعار نرمی کے ساتھ غنائیت، موسیقیت اور ترنم سے لبریز ہوتے ہیں۔غرض نغمگی اور موسیقیت میر کی شاعری کا ایک امتیازی پہلو ہے۔جو ان کے یہاں بالخصوص طویل بہروں میں نمایاں ہوتا ہے ؂
الٹی ہو گئیں سب تدبیریں کچھ نہ دوا نے کا م کیا
دیکھا اس بیماریٔ دل نے آخر کام تمام کیا
جگر میں طاقت کہاں ہے اتنی کہ درد ِ ہجراں سے مرتے رہئے
ہزاروں وعدے وصال کے تھے کوئی تو جیتے وفا کروگے

پتہ پتہ بوٹا بوٹا ، حال ہمارا جانے ہے
جانے نہ جانے گل ہی نہ جانے باغ تو سارا جانے ہے
باتیں ہماری یاد رہیں پھر باتیں ایسی نہ سنیے گا
پڑھتے کسی کو سنئے گا ، تو دیر تلک سر دُھنئے گا
غزلوں کے علاوہ میر نے قصیدہ ،واسوخت،مثنوی،رباعی اور مرثیہ جیسی اصناف پر بھی طبع آزمائی کی ہے ۔ان میں مثنویاں خصوصیت سے قابلِ ذکر ہیں،لیکن مضمون کی طوالت کا خوف مجھے اس کی اجازت نہیں دیتا۔اس لئے اس شعر کے ساتھ اتمام حجت کرتا ہوں کہ ؂
سہل ہے میر کا سمجھنا کیا
ہر سخن اس کا، اک مقام سے ہے
٭٭٭

Leave a Reply

Be the First to Comment!

Notify of
avatar
wpDiscuz
Please wait...

Subscribe to our newsletter

Want to be notified when our article is published? Enter your email address and name below to be the first to know.