تہذیبی ارضیت نگار—قاضی عبدالستّار-ناولوں کے حوالے سے
پروفیسر صغیر افراہیم
شعبہ اردو، علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی، علی گڑھ
قاضی عبدالستّار ادبی حلقوں میں ایک زندہ داستانوی اور افسانوی کردار کی سی شہرت رکھتے ہیں۔ ان کا قلم گذشتہ پچاس پچپن سال سے نت نئے تخلیقی مرقعے کھینچتا چلا آ رہا ہے جن میں جمالیاتی احساس کے ساتھ فنا کی وادی میں گُم ہوتی ہوئی ایک تہذیب کے تئیں Pathosاور چُھپے ہوئے کرب کو تلاش کیا جا سکتا ہے۔ وہ ایک فرد کی حیثیت سے ایسی ثقافت اور تہذیب کا اعلیٰ نمونہ ہیں جو دُھندلا رہی ہے اور اگلے وقتوں کی یاد بنتی جا رہی ہے۔ ان کے طویل ادبی سفر کا جائزہ لیا جائے تو اس میں ایک پوری تہذیبی تاریخ تہہ بہ تہہ نظر آئے گی، اور وہ بلند پیشانی والی شخصیت بھی جس کے ہونٹوں اور آنکھوں کی مسکراہٹ کبھی اپنے دائرے سے آگے نہ بڑھی جیسے اس مسکراہٹ نے اپنے لیے حد مقرر کرلی ہو اور آج بھی پاسبان کی طرح اس حد کی حفاظت کر رہی ہو۔
قاضی عبدالستّار کی خوش بیانی اور گُل افشانیٔ گفتار سے کسی کو لاکھ اختلاف ہو لیکن آج کے مُبصّر اور کل کے مُورخ کو ان کے مخصوص انداز کا اعتراف کرنا ہی ہوگا۔ ان کے اسلوبِ بیان نے ایک نئے ادبی مزاج کی تعمیر و تشکیل کی ہے۔ وہ عہد حاضر میں برِّ صغیر کے ممتاز، معتبر اور بُزرگ ناول نگار ہونے کے ساتھ ساتھ ایسی قوتِ تخلیق کے مالک ہیں جس کی ضوفشانی ہنوز برقرار ہے۔
قاضی عبدالستار نے پہلا ناول ۱۹۵۳ء میں ’’شکست کی آواز‘‘ کے نام سے لکھا جو ادارۂ فروغ اردو، لکھنؤ سے جنوری ۱۹۵۴ء میں شائع ہوا۔ یہ ناول ’’دودِ چراغ‘‘ کے عنوان سے بھی منظر عام پر آیا۔ ہندی والوں نے اسے ’’پہلا اور آخری خط‘‘ کے نام سے چھاپا۔ پھر اردو والوں نے بھی اس کو یہی عنوان دے دیا۔ ان کا دوسرا ناول ’’شب گذیدہ‘‘۱۹۵۹ء میں مشہور رسالہ ’’نقوش‘‘ میں شائع ہوا۔ فنّی اعتبار سے چُست درست، اس ناول نے قاضی صاحب کو ادبی حلقہ میں پوری طرح مُتعارف کرا دیا۔ مجّو بھیّا، غبارِ شب، بادل، صلاح الدین ایوبی ، داراشکوہ، خالد بن ولید اورغالبؔنے ان کو ایک منفرد ناول نگار کی صف میں کھڑا کر دیا۔ حضرت جان اور تاجم سلطان‘ نے مقبولیت کے بڑھتے ہوئے گراف میں کوئی خاص اضافہ نہیں کیا بلکہ اس گراف میں ایک عارضی ٹھہراؤ پیدا کر دیا ہے۔
قاضی عبدالستّار نے ناول نگاری کے لیے جس موضوع کا انتخاب کیا وہ ہے اودھ کی انحطاط پذیر تہذیب۔ اس تہذیب کے زیر سایہ ُانھوں نے آنکھ کھولی تو اپنے قرب و جوار کے ماحول میں جہاں ایک طرف تصنّع، تکلف، آپسی چپقلش اور ریشہ دوانی کو دیکھا وہیں دوسری طرف عاجزی ،انکساری، رواداری کو بھی محسوس کیا۔ اسی لیے ان کے اکثر ناول جاگیر دارانہ اور زمیندارانہ تہذیب کے زوال اور اُس کے دور رس اثرات کے آئینہ دار ہیں۔ آزادی کے بعد ناول کے کینوس پر اُبھرنے والے یہ ناول گاؤں، قصبے اور پریم چند کی روایت کو کچھ اس طرح زندہ کرتے ہیں کہ مظلوم کی حمایت اور ظالم کی مخالفت میں قاری اُن کا ہمنوا ہو جاتا ہے، اور شاید اسی وجہ سے اُن کے یہاں ماضی کی پیش کش کا انداز مختلف ہے۔ اس منظر نامے میں نو آبادیاتی نظام کا استحصالی طبقہ تو دم توڑ چکا ہے مگر پردھان، سرپنچ، لیکھ پال اور سرکاری افسران کی شکل میں، اس طبقہ کا وجود ضرور برقرار ہے۔ ظلم کے اس بدلے ہوئے طریقۂ کار کو قاضی عبدالستّار نے نہایت طنزیہ اور کبھی کبھی طنز ملیح کے انداز میں پیش کیا ہے۔ ٹھاکر بھرت سنگھ، رحمت علی، ریاست علی، چودھری غضنفر علی، جمّی، جمیل اور مجّو بھیّا محض کردار نہیں بلکہ ان کے توسط سے ۱۹۴۷ء کے آس پاس کی پوری سچویشن قاری کے سامنے ہوتی ہے۔ حقائق کی اس پیش کش سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ دیہات اور قصبات کی زندگی پر فنکار کی گرفت بہت مضبوط ہے۔ تاریخی شعور اور بدلی ہوئی صورتِ حال سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ ان کے یہاں زمیندار محض ظالم نہیں اور کسان محض مظلوم نہیں بلکہ ایک دوسرے کے رفیق و غم گُسار بھی ہیں۔ یہاں لُٹتے ہوئے زمیندار، جو آن بان کو قائم رکھنے کے جتن کرتے ہیں، خاموش فریادی کی شکل میں دکھائی دیتے ہیں اور کسانوں کا اُبھرتا ہوا طبقہ دولت اور طاقت کو حاصل کرتا ہوا نظر آتا ہے۔ اس طبقاتی شعور اور اقدار کی کش مکش کو ناول نگار نے بڑے فنکارانہ انداز میں پیش کیا ہے۔
قاضی عبدالستّار کے تخلیقی میلانات پر اس ماحول کی گہری چھاپ ہے جس میں ان کی پرورش و پرداخت ہوئی۔ زمینداروں کی مٹتی تہذیب، ایک نئے نظام کا نمود، بدلتے ہوئے حالات سے پیدا شدہ بے اطمینانی اور ماضی کی بازیافت نے اُن کے ذہنی، فکری اور تخلیقی میلان کو توانائی عطا کی ہے۔ ’’ غبار شب‘‘، ’’بادل‘‘، ’’مجّو بھیّا‘‘ اور ’’شب گذیدہ‘‘ جیسے سماجی ناولوں میں مشترکہ تہذیبی قدریں، ماضی سے لامتناہی جذباتی لگاؤ، مٹتی جاگیردارانہ تہذیب، دیہات کے طبقۂ امراء کے حالاتِ زندگی، اودھ کے آس پاس کی تہذیبی فضا اور زمیندار طبقے کی شکست خوردگی کو فنکارانہ شعور کے ساتھ پیش کیا گیا ہے۔ مثلاً ’’مجّو بھیّا‘‘حقِ ملکیت اور زر زمین کی کشا کش کی عبرتناک تصویر پیش کرتاہے۔ اس ناولٹ کا مرکزی کردار خاندانی رئیس نہیں ہے۔ اس کے والد سرور علی، پنڈت آنند سہائے تعلقہ دار ککراواں کے یہاں مختاری کے عہدے پر فائز تھے۔باپ کی موت کے بعد وہ اپنی دُنیا آپ بساتا ہے۔ کیا ہوا اگر وہ زمیندار نہیں، زمیندارانہ ٹھاٹ باٹ تو رکھتا ہے جسے اس نے طاقت اور چھل کپٹ کے ذریعے حاصل کیا ہے۔منظور سے ’’مجّو بھیّا‘‘بننے میں اسے لوگوں کو ڈرانا دھمکانا پڑا۔ گھوڑے کی چوری کرنی پڑی۔ للّی کا قتل کرنا پڑا اور گاؤں کے سب سے طاقتور شخص تراب کو صفحۂ ہستی سے مٹانا پڑا۔
’’بادل‘‘ میں بھی کچھ اسی طرح کی صورتِ حال جھلملاتی ہے۔ لشکر پور کے نوجوان ٹھاکر ریاست علی کا رشتہ مہرولی کے چودھری کی لڑکی زینت سے طے ہوتا ہے۔ زینت معمولی صورت شکل کی ہے لیکن اُس کے درواز ے پر جھومتے ’ہاتھی‘، ’بادل‘ کے دُور دُور چرچے ہیں۔ ریاست علی اسے کسی بھی قیمت پر حاصل کرنا چاہتا ہے۔ وہ شادی میں ’بادل‘ مانگتا ہے تو سب حیرت زدہ رہ جاتے ہیں۔ قصّہ میں رواں تناؤ شدّت اختیار کرلیتا ہے۔ چودھری استعجاب بھرے ہوئے غمزدہ لہجے میں کہتا ہے:
’’بادل ہاتھی نہیں ہے، بادل میرا بیٹا ہے اور بیٹیوں کے جہیز میں بیٹے نہیں دیے جاتے ہیں۔‘‘
بارات دُلہن کے بغیر لوٹ جاتی ہے اور پھر تباہی اور مکاری نئی نئی شکل میں قاری کے سامنے آتی ہیں۔آخر کار ریاست علی اپنی ایک ٹانگ کٹواکر چالبازی میں کامیاب ہوتے ہوئے اپنی دیرینہ آرزو تو پوری کرلیتا ہے مگر وفادار بادل پاگل ہوجاتا ہے اور نحوست کی علامت بن جاتا ہے:
’’کیسا منحوس جانور ہے، جس گھر میں گیا اُس گھر کو اُجاڑ دیا۔‘‘
اس طرح قاضی عبدالستّار کا یہ ناول ایک خاص معاشرے کا عکّاس، منفرد اسلوب اور تخئیل کی نادر کاری کا بہترین نمونہ بن جاتا ہے۔
’’غبارِ شب‘‘ ہندو مسلم تنازعہ کوبڑے فنکارانہ ڈھنگ سے اُجاگر کرتا ہے۔ یہ تنازعہ تعزیہ اور پیپل کے درخت سے شروع ہوتا ہے اور پھر پوری بستی کو اپنے نرغے میں لے لیتا ہے۔ جھام پور کا جاگیر دار جمیل اس کا مرکزی کردار ہے جو ہندو مسلم بھید بھاؤ کوسمجھ ہی نہیں پاتا ہے کیونکہ دونوں فرقے اس کی رعیت ہیں۔ دونوں اُس سے اور وہ اُن سے محبت کرتا ہے لیکن چودھری اقبال نرائن اور عنایت خاں کی سازشیں پورے ماحول کو پراگندہ کر دیتی ہیں۔ اس سازشی ماحول میں اُس کی نجمہ کسی اور کی ہو جاتی ہے اور اوشا اُسے پاکستان بھاگ چلنے پر اُکساتی ہے مگر وہ اس کے مشورے پر عمل نہیں کرسکتا:
’’تم یہ مکان دیکھتی ہو، یہ جائیداد دیکھتی ہو، یہ نوکر چاکر دیکھتی ہو لیکن تم یہ نہیں دیکھتیں کہ میری ایک بیوہ پھوپھی بھی ہیں جو اپنے پاندان کے لیے میرا منھ دیکھتی ہیں ان کے پانچ بچّے ہیں، جو اسکول کی فیس کے لیے میرا دامن پکڑتے ہیں۔ میری ایک چچی ہیں جن کی دو بیٹیاں ہیں جو تم سے بڑی ہیں جو مجھ سے بڑی ہیں جن کی جوانی شادی کا انتظار کرتے کرتے سو گئی ہے۔ اس بستی کے بوڑھے بوڑھے آدمی ہیں جن کے سروں پر تلواروں کے ساتھ ایک یہ تلوار بھی لٹک رہی ہے کہ کہیں میں بھاگ نہ جاؤں، اور یہ مسجدیں ہیں جن میں کبھی میں نے نماز نہیں پڑھی، یہ مجھے اپنا محافظ سمجھتی ہیں۔ میں کہاں جاؤں، میں ان سب کو کہاں لے جاؤں۔‘‘
یہاں محض اپنوں کی پرورش اور نگہداشت کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ صاحبِ اقتدار کا ہاتھوں سے اقتدار پھسلنے کا معاملہ بھی زمینداری کے خاتمے کے توسط سے اُجاگر کیا گیا ہے۔دراصل اس ناول میں قاضی عبدالستّار نے انسانی جبلّت اور دبی سہمی ہوئی خواہشوں کو نہایت خوبی سے اُجاگر کیا ہے کہ قاری جمیل میاں کو جھام سنگھ کی شکل میں دیکھ کر نہ صرف حیرت زدہ رہ جاتا ہے بلکہ مستقبل کے امکانات کی آہٹ کو بھی محسوس کرلیتا ہے کہ ’’جھا م پور میں جھا م سنگھ رہے —–جھام سنگھ‘‘
’حضرت جان‘ کا منظر نامہ ان دونوں سے الگ ہے۔ آزادی کے بعد بڑے شہروں میں تہذیب اور خاص طور پر مشرقی تہذیب یا گنگا جمنی تہذیب کا جو زوال ہوا، اُس میں غریب ہندوستانی مسلمانوں کی جمہوری اور امیر عربی مسلمانوں کی عیّاشی نے رنگ بھرا ہے۔ مزید برآں نئے منظر نامے میں ضرورت کے تحت فرقہ وارانہ عناصر نے جو رنگ آمیزی اور شر انگیزی کی ہے اور متشّدد عناصر کا ٹکراؤ یا فساد کے سلسلے میں جو لائحہ عمل قیاس اور متصوّر کیا جا سکتا ہے اُسے قاضی عبدالستّار نے اُسی طرح تخلیقی سطح پر محسوس کیا ہے جس طرح سماج کے سلبِ انسانیت (Dehumanization)کو پریم چند نے ’’کفن‘‘ میں محسوس کیا۔
فکشن کے ممتاز ناقد پروفیسر وارث علوی اپنے مضمون ’’قاضی عبدالستار کے معاشرتی ناولٹ‘‘ میں لکھتے ہیں:
’’ان ناولوں کی دُنیائیں ختم ہو گئیں اور افسوس کی بات یہ ہے کہ ان کے ختم ہونے پر افسوس بھی نہیں ہوتا …… ایک معنی میں دیکھیں تو یہ ناولیں بھی تاریخی بن کر رہ گئیں۔اور تاریخ بھی ایسی جس میں کوئی شان اور دبدبہ نہیں۔ جس کے لیے کوئی نوستالجیہ کا جذبہ پیدا نہیں ہوتا۔ کسی کردار کے لیے کوئی گہری ہمدردی نہیں۔‘‘ (ذہنِ جدید، فروری ۲۰۰۶ء،ص:۷۰)
ادبی اُفق کو بتدیل کرنے کی صلاحیت وارث علوی میں موجود ہے۔ ان کی نظر فکشن کے مغربی اصول و ضوابط پر گہری ہے۔ انھوں نے رام لعل، منٹو، بیدی اور عصمت کی تخلیقات کو باریک بینی سے دیکھا، پرکھا اور اس پر بھرپور اظہار کیا ہے مگر قاضی عبدالستّار کے معاشرتی ناولوں پر اُن کا اعتراض بہت دُرست نہیں ہے۔ اگر فن پارے کے ساتھ ساتھ ذرا سا پلٹ کر فنکار کی شخصیت اور فکری اپروچ کو بھی دیکھیں تو واضح طور پر محسوس ہوگا کہ قاضی عبدالستار کی ۷۵؍ سالہ زندگی قربانیوں، آزمائشوں اور سخت امتحانوں کی دل آویز اور بصیرت افروز تاریخ ہے اسی لیے مصنّف نے تقسیمِ ہند سے پہلے کے اودھی معاشرے سے خام مواد حاصل کیا ہے جس میں نوآبادیاتی نظام دم توڑتا اور زمیندارانہ ماحول سسکتا ہوا نظر آتا ہے۔ سونے پہ سہاگہ بٹوارے کا المیہ، فرقہ وارانہ فسادات اور ہجرت کا کرب بھی اس پورے کینوس پر حاوی ہے ایسے میں فطری ماحول کی عکاسی جو کھم کا کام تھا جسے فنکار نے نہ صرف قبول کیا بلکہ خوبی سے برتا بھی۔ قاضی عبدالستّار نے ہولناک تباہی کے واقعات اور پُر آشوب لمحات میں بھی رومانس کر برقرار رکھا اور پوری سچویشن کو کچھ اس طرح پیش کیا کہ ایک بھر پور اور متاثر کُن تصویر اُبھر کر آتی ہے اور قاری تاریخی، تہذیبی ا ور سماجی اُتھل پُتھل سے بخوبی واقف ہو جاتا ہے۔
سماجی زندگی کے طبقاتی کردار اور بدلتی ہوئی اقدار پر قاضی عبدالستّار کی گہری نظر ہے۔ بلکہ یہ کہنازیادہ مناسب ہوگا کہ ان میں کردار نگاری کا عمدہ سلیقہ ہے۔ فرد کے نفسیاتی پیچ و خم پر بھی وہ گہری نگاہ رکھتے ہیں۔ اپنی علاقائی بولی اودھی کے استعمال سے بھی انھوں نے اپنے کرداروں کوارضیت اور اپنی تخلیقات کو حقیقی زندگی سے قریب کرنے کی کوشش کی ہے۔۔ اس کی واضح مثال ’’شب گزیدہ‘‘ میں نظر آتی ہے۔ یہ ناول اودھ کی زوال پذیر جاگیردارانہ تہذیب کے جلا ل و جمال کا آخری منظر نامہ ہے۔ یہاں نچلے طبقے کے کرداروں کے مکالموں اور گاؤں کے میلے ٹھیلوں کے بیان میں اودھی کا استعمال دراصل علاقائی ثقافت کو تخلیق کا خام مواد بنانے کا وہ عمل ہے جسے آج کے ما بعد جدید عہد میں دیسی واد (Nativity) سے موسوم کیا جا سکتا ہے۔مذکورہ ناول میں قاضی صاحب نے مواد اور ہیئت کا امتزاج بھی بڑی چابکدستی سے کیا ہے۔ اس کی ساخت روایتی ہونے کے باوجود ارضیت کی ایک خاص ترتیب، تنظیم اور ربط کی بنا پر نئے تخلیقی امکانات کی خبر دیتی ہے۔ جاگیردارانہ تہذیب کے المیے کو انھوں نے واقعات کے باہمی انضباط اور مضبوط پلاٹ کے پیکر میں اس طرح سمو کر پیش کیا ہے کہ قاری کہیں بھی ذہنی انتشار میں مبتلا نہیں ہوتا ہے بلکہ اسلوب کی جاذبیت سحر کا کام کرتی ہے۔ اس جادو بھرے اسلوب کی لطافت قاری کو شروع ہی سے اپنی گرفت میں لے لیتی ہے۔
قاضی عبدالستّار نے اُردو ادب کو تاریخی اور غیر تاریخی دونوں طرح کے ناولوں سے نوازا ہے۔ وارث علوی نے اپنے مضمون میں لکھا ہے کہ ’’جب ہم قاضی صاحب کی ادبی تخلیقات کا ذکر کرتے ہیں تو ان میں عموماً ان کے تاریخی ناولوں کا ذکر نہیں کرتے ہیں۔‘‘ یہ ذکر وہ کیوں نہیں کرتے ہیں اس کا جواز اِن الفاظ میں فراہم کرتے ہیں:
’’تاریخی ناول، ناول کی ایک الگ ہی قسم ہے جس میں عموماً ناول نگار اپنے بیتے ہوئے عہد کو اس کے تمام تہذیبی اور تمدنی دبدبے کے ساتھ قد آور کرداروں اور ان کی شاندار مہمات اور پُروقار ڈرامائی مکالموں، ان کے ہوش رُبا معاشقوں اور ان کے عروج و زوال کی ولولہ انگیز کہانیوں کو رفیع الشان رزمیہ اسلوب میں بیان کرتا ہے۔ایسی شاندار تاریخی ناولوں پر تنقید کے اصول اور آداب بھی وہ نہیں ہوتے جو ایک عام آدمی کی زندگی کا نقشہ کھینچنے والی حقیقت نگار اور نفسیاتی یا سماجی ناول کی تنقید کے ہوتے ہیں۔میں ذاتی طور پر تاریخی ناولوں میں دلچسپی نہیں رکھتا اس لیے ان پر تنقید کے آداب سے واقف نہیں اور نہ ایسا جو کھم اُٹھاتا ہوں۔‘‘
(ذہن جدید، فروری ۲۰۰۶ء،ص: ۷۲)
کاش وارث علوی صاحب اس جوکھم کو اُٹھاتے تو انھیں خود احساس ہو جاتا کہ قاضی عبدالستّار کے تاریخی ناول ان کی ادبی شناخت کے تعین میں معاون و مدد گار ثابت ہوتے ہیں۔ اس ضمن میں داراشکوہ، صلاح الدین ایوبی اور خالد بن ولید خاصی اہمیت کے حامل ہیں۔ ان تاریخی ناولوں میں انھوں نے عبدالحلیم شرر کی روایت کو زندہ کرنے کے باوجود ، ان سے ہٹ کر ایک منفرد ادبی رویّہ اور اسلوب اپنایا ہے۔ ان کے یہاں تاریخ نگاری محض بادشاہوں کی شکست و فتح سے عبارت نہیں بلکہ اس کا مقصد آمرانہ طرزِ حکومت کے پس منظر میں عوامی قوتوں کی جہدِ مُسلسل اور اس کی تخلیقی آرزو مندیوں کی داستان رقم کرنا ہے ایک ایسی داستان جس میں قوموں کی تقدیر بدل دینے کی طاقت بھی محسوس ہوتی ہے۔ انھوں نے بادشاہوں اور شہنشاہوں کو مافوق الفطرت کرداروں کی طرح نہیں بلکہ اشرف المخلوقات کے روپ میں پیش کیا ہے۔ اپنے ناول ’’دارا شکوہ‘‘ میں شاہ جہاں کے محبوب بیٹے کی زندگی کو موضوع بنایا ہے جس کی دانشورانہ شخصیت اتحاد اور یکجہتی کی علامت تھی۔ اسی طرح انھو ں نے ’’صلاح الدین ایوبی‘‘میں صلیبی جنگوں کے فاتح کرمرکزیت دی ہے اور بادشاہت کو انسان کی فطری شکل میں پیش کیا ہے۔ ’’خالد بن ولید‘‘ میں تاریخِ اسلام کی ایک عظیم ہستی کو فکشن کے قالب میں ڈھال دیا ہے اور ہیرو ور شپ (Hero Worship)کی ایک نئی مثال قائم کی ہے۔
تاریخ کو فکشن کا موضوع بنا کر ادیب بہت بڑی ذمہ داری قبول کرتا ہے۔ وہ کُرید اور جستجو جو قاری کو کسی بھی کامیاب قصّے میں گُم ہوجانے پر مجبور کرتی ہے تاریخی موضوع میں ناپید ہو جاتی ہے۔ اس لیے کے پڑھنے والا تاریخی کرداروں کے انجام سے آشنا ہوتا ہے اور مصنف کا طرزِ فکر تاریخی حقائق سے چشم پوشی اختیار نہیں کر سکتا۔ اس صورتِ حال میں مصنف کے ہاتھ میں صرف ایک حربہ رہ جاتا ہے اور وہ ہے فنّی تاثیر جو قاری کے قصّے میں محو ہوجانے کا واحد سبب ہے۔ اس نکتہ کے پیشِ نظر قاضی عبدالستّار نے اپنے تاریخی ، طبقاتی اور تہذیبی شعور اور مطالعے و مشاہدے کی وسعت کے ذریعے تاریخی ناولوں میں تابناکی پید اکی ہے۔ ماضی کی تہذیب، اس کا جاہ و حشم، رزم و بزم اور اس کے پس پردہ اقتدار کی دیوانی خواہشوں اور اس کی تکمیل کے حربوں کے جواز کو قاضی صاحب نے نہایت فنکارانہ ڈھنگ سے پیش کیا ہے۔ تاریخی حقائق کو تخئیلی قوت سے آمیز کرنے کے لیے انھوں نے ایک ایسا اسلوب وضع کیا ہے جو اپنی آراستگی اور اجنبیت کی بنا پر قاری کو نہ صرف ماضی کی محل سراؤں اور رزم گاہوں میں لا کھڑا کرتا ہے بلکہ ذہنی کچوکے بھی لگاتا ہے۔مثلاً ’’داراشکوہ‘‘ میں قاضی عبدالستار نے سامو گڑھ کی لڑائی کے لیے قاری کے ذہن کو نہایت منظم طریقے سے ہموار کیا ہے اور پھر میدانِ جنگ کی جو بساط بچھائی ہے وہ محض دو شہزادوں کے بیچ تاج و تخت کے حصول کی جنگ نہ رہ کردو نظریوں کی آویزش میں تبدیل ہو جاتی ہے۔ قاری بین السطور میں سامو گڑھ کے میدانِ جنگ سے ہی شاہ جہانی جمال، جہانگیری عدل اور اکبری جلال کے ساتھ صوفی سرمد، مجدّد الف ثانی اور دین الٰہی کی آہٹ کو بھی محسوس کر لیتا ہے۔ اسی لیے ترقی پسند اور رجعت پسند تہذیبی اقدار کے معرکے پر دلکش اسلوب میں لکھا گیا یہ بہترین تاریخی ناول قرار پاتا ہے۔ اس کا درج ذیل اقتباس ملاحظہ کیجئے جس کی سطریں قاضی عبدالستار کے چُھپے تہذیبی درد کو آشکار کر رہی ہیں:
’’جب شاہجہاں آباد کے گنجان بازاروں سے دارا کی رسوائی کا بدقسمت جلوس گزرا تو سڑکیں اور چھتیں اور چبوترے اور دروازے انسانوں سے بھر گئے۔ عالمگیر (اورنگ زیب) نے دارا کو کوچہ و بازار میں اس لیے پھرایا تھا کہ رعایا اس کے انجام کو دیکھ لے تاکہ کسی وقت کوئی جعلی دارا شکوہ کھڑا ہوکر تخت و تاج کا دعویٰ نہ کر سکے۔ ہُوا یہ کہ ولی عہدسلطنت کی تقدیر کی غداری کا یہ بھیانک منظر دیکھ کر رعایا بے قرار ہو گئی۔اِس قیامت کی آہ و زاری برپا ہوئی کہ تمام شاہ جہاں آباد میں کہرام مچ گیا۔ اتنے آنسو بہائے گئے کہ اگر جمع کرلیے جاتے تو دارا اپنے ہاتھی سمیت اُن میں ڈوب جاتا۔ اتنے نالے بلند ہوئے کہ اگر اُن کی نوائیں سمیٹ لی جاتیں تو شاہ جہانی توپوں کی آوازوں پر بھاری ہوتیں۔‘‘ (ص:۲۲۱)
اِس تہذیبی آشوب کی ایک اور مثال مذکورہ ناول سے ملاحظہ ہو:
’’اس مقبرے کی گود میں صرف ایک شہنشاہ آرام فرما نہیں جس کی اولاد نے ہندوستان کی تاریخ میں ایک سنہری جلد کا اضافہ کیا بلکہ وہ دارا شکوہ بھی سو رہا ہے جو ایک تہذیب،ایک تمدن، ایک کلچر کو زندہ کرنے اٹھا تھا لیکن تقدیر نے اس کے ہاتھ سے قلم چھین لیا اور تاریخ نے اس کے اوراق پر سیاہی پھیر دی۔‘‘(ص: ۲۰۸)
تاریخی موضوعات زیادہ تر پرشکوہ اور خطیبانہ نثر کے متقاضی ہوتے ہیں۔ قاضی عبدالستّارنے اسی لیے اپنے اسلوبِ بیان کو منفرد اور پُرکشش بنانے کے لیے ہر ممکن کوشش کی۔ ان کے اسلوب میں جو چیز قاری کو بار بار متوجہ کرتی ہے وہ ہے خطیبانہ نثر کی جمالیات جو اردو ادب میں شاید ابوالکلام آزادؔ کے علاوہ کہیں اور نہیں ملتی۔ قاضی صاحب کا پُر شکوہ اسلوب، ان کی فکری انفرادیت کا ایک قدرتی سرچشمہ ہے۔ خالد بن ولید کا ایک اقتباس ملاحظہ کیجئے:
’’تکان؟ ہم جہاد کے لیے جب تلوارنکالتے ہیں تو تکان کو نیام میں ڈال دیتے ہیں۔ خدا کی قسم اگر یہ سالار کا حکم ہو تو تن تنہا لشکرِ ایران پر جا پڑوں۔‘‘ (ص: ۳۰)
یا پھر صلاح الدین ایوبی کا یہ اقتباس دیکھئے:
’’ہم نے خدا کی رحمت سے ایک سلطنت پیدا کی اور سلطان کہلائے لیکن در حقیقت ہم خدا کی امانت اور تمہاری خدمت کے امین تھے، آج یہ امانت اپنے پروردگار کو سونپتے ہیں اور وصیت کرتے ہیں کہ ہم اپنی طرف سے کسی کو اس سلطنت کا وارث قرار نہیں دیتے ہیں۔ جس پر تمہیں اتفاق ہو اُسے بادشاہ بنا لو۔‘‘ (ص:۱۸۷)
بلا شبہ یہ اسلوب خطیبانہ ہے۔ خطیبانہ اسلوب زبان پر مکمل دسترس سے حاصل ہوتا ہے اور اس کے ذریعے اثباتِ انا کے دروازے وا ہوتے ہیں۔ یہ بات قاضی صاحب کے ہر مدّاح پرعیاں ہے کہ وہ جب اپنی انانیت کی انتہائی بلندی پر پہنچتے ہیں تو قاری دیر تک ان کی اس خود اعتمادی اور بلند حوصلگی کے سحر میں گرفتار رہتا ہے۔
خطیبانہ طرزِ نگارش میں قاری کو متاثر کرنے، اسے اپنی لہروں کے ساتھ بہا لے جانے اور اسے اکتاہٹ سے محفوظ رکھنے کی بے حد قوت ہوتی ہے۔ اسی لیے قاضی عبدالستّار کی تحریریں قاری کے حواسِ خمسہ کو اپنے قبضے میں کر لینے کی طاقت رکھتی ہیں۔ انھوں نے فرسودہ اور گھِسے پِٹے تخلیقی اظہار سے شعوری طور پر انحراف کرتے ہوئے اپنی تحریر کو زندگی اور حرارت پہنچانے والا اسلوب عطا کیا ہے جو قاری کو متاثر ہی نہیں کرتا مرعوب بھی کرتا ہے۔ ہم عصر اردو ادب میں شائد کوئی دوسرا نثر نگار نہیں جو کسی واقعے کی عکّاسی اس کی تمام تر جُزئیات کے ساتھ اس پرشکوہ انداز میں کر سکے۔ جملوں کے درد بست اور فقروں کی سحر انگیزی و اثر آفرینی سے قطع نظر، روانی اور تسلسل بھی کسی اور کے یہاں مشکل سے ملے گا۔ ناول ’’غالبؔ‘‘ کا یہ اقتباس ملاحظہ ہو جس میں ۱۸۵۷ء کے ناکام انقلاب کے منظر کو یوں اُجاگر کیا گیا ہے:
’’خون اُگلتی آوازیں، جان دیتی آوازیں، اپنی موت کی اطلاع دیتی آوازیں، اپنے پیاروں کو فرار کی ترغیب دیتی آوازیں، اپنی مدد کو پکارتی آوازیں اپنی مدد سے نکارتی آوازیں، لیکن ان کے جواب میں سیسہ و بارود کے علاوہ کوئی آواز نہ تھی۔ ان کی مدد کو نہ آسمان سے شہید اُترے اور نہ زمین سے غازی اُٹھے۔ وہ قصاب خانے کے جانوروں کی طرں اپنی اپنی باری پر ذبح ہوتے رہے۔ کشمیری بازار سے دریا گنج تک محلّے کے محلّے قتل ہوتے رہے۔‘‘
(ص: ۲۳۰)
جنوادی لیکھک سنگھ سے جُڑے اِس فنکار کے اسلوب میں سادگی کا جوہر بھی موجود ہے مگر اس سادگی میں قوت و شوکت کا لہو سر گرم نظر آتا ہے جس کی وجہ سے سادگی بھی زندہ اور تازہ بن جاتی ہے۔ایسی جگہوں پہ تخلیقی نثر کے اعلیٰ نمونے دیکھنے کو ملتے ہیں جو فصاحت سے مزیّن ہیں۔ یہ اقتباسات ملاحظہ ہوں:
’’دُھوپ سے چمکتے صحرا میں اپنی قوت و شوکت کا اظہار کرتا گھوڑا جیسے سلطنتِ صحرا کا شہزادہ خراج قبول کرنے نکلا ہو۔‘‘
’’بوڑھی اور عیّاش قوموں کے بھاگے ہوئے سپاہی دوبارہ میدانِ جنگ میں بھاگنے کے لیے آتے ہیں۔‘‘
’’جہاں شہرت و اقبال کی سواری اُترتی ہے وہیں حسد کے کُتّے بھونکنے لگتے ہیں۔‘‘
’’جتنے شیر شکار کیے جاتے ہیں اتنی لومڑیاں نہیں ماری جاتیں۔‘‘
قاضی صاحب بعض اوقات ہم وزن اور مقفیٰ الفاظ کے استعمال سے لہجہ میں نغمگی اور ترنم کی ایک دھیمی لَے پیدا کرتے ہیں۔ یہ دھیمی لَے قاری کو نثر کے اُس دور میں پہنچا دیتی ہے جب مقفیٰ اور مسجّع عبارتیں لکھنے کا چلن تھا۔ کل اور آج میں فرق یہ ہے کہ قاضی عبدالستّار کی نثر میں محض بناوٹ یا تصنّع کے بجائے فطری سادگی بھی ہوتی ہے مثلاً:
’’دُہل گرجنے لگے اور نقّارے کڑکنے لگے۔‘‘
’’زمین ہلنے لگی، آسمان لرزنے لگا۔‘‘
’’دُہل بجنے لگا، میدانِ جنگ سجنے لگا۔‘‘
اسی طرح صنعتِ تکرار اور صنعتِ توضیح سے قاضی صاحب نثر میں زور اور اثر پیدا کرتے ہیں۔ سہ حرفی ، چہار حرفی الفاظ، مترادفات کی تکرار اور ان کی توضیح جیسی چیزیں قاضی عبدالستّار کی نثر میں جا بجا ملتی ہیں نیز ان کی معنویت اور تاثیر میں اضافہ کرتی ہیں۔
اسلوب کی دل نشینی اور اثر انگیزی میں پیکر تراشی بھی اہم کردار ادا کرتی ہے۔ وقار، شان و شکوہ اور متاثر کرنے والی قوتیں زیادہ تر تِمثال سے پیدا ہوتی ہیں۔ پیکر تراشی کے ذریعے احساسات کو آسانی سے حرکت پذیر کیا جا سکتا ہے۔ قوتِ گفتار کو محسوسات کی زندہ شکل میں بدلا جا سکتا ہے اور اپنی آنکھوں کا دیکھا دوسروں کو ہو بہو دکھایا جا سکتا ہے۔ امیجری کا استعمال بھی قاضی عبدالستار نے خوبی سے کیا ہے۔ وہ باہم متضاد اشیاء میں توازن و تناسب پیدا کرکے اپنے اسلوب کو رزم و بزم کی اس کیفیت سے ہمکنار کرتے ہیں جو اُن کے انانیتی اسلوب کو اسلوبِ جلیل کی حدود میں داخل کر دیتی ہیں۔ قاضی صاحب اکثر مترادفات کے حسنِ استعمال سے اسلوب کو خطیبانہ رنگ دیتے ہیں اور اس کے لیے استعاروں کا بھی استعمال کرتے ہیں اور تشبیہات کا بھی۔ اُن کی خوبی یہ ہے کہ تشبیہات و استعارات پیش پا افتادہ ہوں یا تازہ، پیش کش کے انوکھے انداز کی بنا پر عبارت کو رعنائی اور زیبائی عطا کرتے ہیں اور ان کو اپنے ہم عصروں میں منفرد بناتے ہیں۔ وہ پُر شکوہ الفاظ کے سہارے جو سحر انگیز فضا خلق کرتے ہیں، قاری ناول ختم کرلینے کے بعد بھی اس میں دیر تک اسیر رہتا ہے۔
قاضی عبدالستّار کے ذکر میں اُن کے اُس دلچسپ تخلیقی تضاد کا ذکر ضروری ہے جو انھیں علی الاعلان ترقی پسند ہونے کے باوجودماضی کے ایوانوں ، سائبانوں، بُرجیوں، محرابوں اور شکار گاہوں میں چکراتا پھرتا ہے۔ قاضی صاحب کے اندر ایک انتہائی رومانی روح ہے جو ہمیشہ پیاسی رہی۔ ’’شب گذیدہ‘‘ ہو یا ’’ حضرت جان‘‘ یا ’’پہلا اور آخری خط‘‘ ہر جگہ ایک پیاسی اور بے چین روح چھٹپٹاتی نظر آئے گی، یہ چھٹپٹاہٹ کبھی مجّو بھیّا کی صورت میں ظاہر ہوتی ہے کبھی نجمہ اور اُوشا کی شکل میں۔ ہر جگہ یہ بے چین روح اپنے عصر سے غیر مطمئن اور ماضی کے تئیں ہمدرد نظر آتی ہے۔ یہ ہمدردی ’’یک طرفہ حمایت‘‘ نہیں ہے، اسی لیے خالد بن ولید اور صلاح الدین ایوبی کا مطالعہ بھی ہمیں اُس پورے منظر نامے سے مرعوب نہیں کرتا مگر یہ بھی نہیں کہا جا سکتا کہ قاری اس منظر نامے کے تئیں کسی اکتاہٹ یا بوڑ د م کا شکار ہوتا ہے، جب کہ ’’آگ کا دریا‘‘ کے ابتدائی پچاس صفحات ایسی ہی اکتاہٹ کا سبب بنتے ہیں۔
ادب کی مُعاصر آگہی (جس کی وجہ سے کسی فن پارے کی معنویت نمایاں ہوتی ہے) کی اہمیت کے سب سے بڑے قائل ترقی پسند ادباء اور ناقدین رہے ہیں اور اس نقطۂ نظر سے جن وادی لیکھک سنگھ سے جڑے ہوئے قاضی عبدالستار کی تحریریں بڑا سوالیہ نشان کھڑا کرتی ہیں ایک طرف ان کے ناول مثلاً’’خالد بن ولید‘‘، ’’داراشکوہ‘‘، ’’صلاح الدین ایوبی‘‘ وغیرہ ہیں تو دوسری طرف سماجی شعور کے منکر شمس الرحمن فاروقی اور انور سجّاد ہیں۔ ایسے میں ’’کئی چاند تھے سرِ آسماں‘‘ اور ’’خوشیوں کا باغ‘‘ کی معنویت کو کیسے نمایاں کیا
جائے؟ کیا قاضی عبدالستّار،انور سجّاد اور شمس الرحمن فاروقی تینوں ادیب عہدِ زوال کے تہذیبی منظر ناموں (Deca dent culture)کے مصوّر یا مجسّمہ ساز ہیں؟
یہ سوال اس لیے بھی اہم ہے کہ مذکورۂ بالا ناول نگار دو مختلف رُجحانوں کے دلدادہ ہیں، اورادب کی تفہیم کے سلسلے میں لگاتار دو مختلف قسم کے محاوروں کا استعمال کرتے رہے ہیں۔ اس کے باوجود اگر ان کا تخلیقی خام مواد یکساں، تہذیبی مطمحِ نظر مماثل اور تخلیقی نقطۂ ارتقاز ایک ہے تو قاری کے ذہن میں ایک اشتباہ پیدا ہوتا ہے کہ تحریکی اور رُجحانی مطابقتیں دراصل عصر اور حالات کا نتیجہ ہوتی ہیں مگر تخلیقی رویّوں کا رومانی اور غیر رومانی ہونا، انقلابی اور اصلاحی نظر آنا، ترقی پسند اور رجعت پسند محسوس ہونا، یہ سب کچھ ناول نگار کے تخلیقی باطن کی ایسی کروٹیں ہیں جن کی شناخت کے مراحل میں اگر قاری یا ناقد تعصبات و تحفظات اور سود و زیاں سے بے نیاز ہو جائے تو اُسے قاضی عبدالستّار جیسے ترقی پسند کی رومانیت اور انور سجّاد جیسے جدید کی ترقی پسندی پر ایمان لانا پڑے گا۔!!
OOO
Leave a Reply
Be the First to Comment!