ترنم ریا ض کے افسانوں میں زندگی کے رنگ

اشرف لون

114۔ لیکچرر، گورنمنٹ، ہائر سکینڈری سکول ، زچلڈارہ۔۔۔193221

 موبائل فون:9797061700

 ’’اپنے گرد وپیش کی تبدیلیوں کو محسوس کرکے میں بھی کبھی خوش ہوتی ہوں کبھی رنجیدہ۔میں انسانوں کے بدلتے ہوئے  خیالات،کردار،اطوار،طرز زندگی کا بغور مشاہدہ کرتی ہوں۔انسانی احساسات کواپنے تخلیقی نہاخانوں میں محفوز کر کے  کہانیوں اور افسانوں کا روپ دیتی ہوں۔تخلیق کا یہ سفر میرے لیے اذیت ناک بھی ہے اور تسکین آمیز بھی۔

 ترنم ریاض

 ترنم ریاض ایک اچھی شاعرہ بھی ہیں اور ایک کامیاب افسانہ نگار اور ناول نگار بھی۔اس کے علاوہ انہوں نے کچھ تنقیدی مضامین بھی لکھے ہیں اور کچھ ترجمے بھی کیے ہیں۔ لیکن بحیثیت ایک افسانہ نگار وہ ایک منفردمقام رکھتی ہیں۔ ترنم ریاض بطور ایک تخلیق کار کے موجودہ دور میں اس حیثیت سے ایک ممتاز مقام رکھتی ہے کہ وہ فن کہ کے بنیادی اصولوں کی پاسداری کرتے ہوئے اپنے افسانے تخلیق کرتی ہیں۔ان کی تخلیقات پڑھنے سے بخوبی یہ اندازہ ہوتا ہے کہ ان کا زندگی کو دیکھنے کا اپنا ایک الگ زاویہ ہے۔ترنم کے یہاں ماحول اور حالات کا عکس صاف د یکھا جا سکتا ہے ۔وہ اپنے انداز میں بڑی بے باک بھی ہیں اور یہی بے باکی ان کا سب سے بڑا ہنر بھی ہے۔افسانہ ’’ مٹی ـــ‘‘ سے ایک اقتباس ملاحظہ ہو:

 ’’اندر گھروں کی تلاشی ہو رہی تھی،تلاشیاں لینے والے ایک گھر میں آجا رہے تھے۔ایک وردی پوش جب ایک گھر سے  نکل کر دوسرے گھر میں جانے والاتھا ۔اس کی پتلون کی پچھلی جیب میں سونے کی ایک زنجیر جھانک رہی تھی۔وہ جلدی  میں شاید اسے اچھی طرح تھونس نہ پایا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔میری۔۔۔۔۔میری بچی کی  ہے۔۔۔۔اس کی شادی کے لیے ہلال احمد کا ہمسایہ غلام حسن زور سے بولا اور بھاگ کر وردی پوش کے پاس پہنچ گیا  لڑکی باپ کے پیچھے پیچھے آہستہ آہستہ قدم اٹھاتی ہوئی گئی اور کچھ دوری پر رک گئی۔ــ‘‘

افسانہ’’مٹی‘‘ کا ذکر کرتے ہوئے ترنم ایک جگہ لکھتی ہے:

 ’’افسانہ ’’مٹی‘‘نے بھی ازحد رنجیدہ کیا تھا مجھے۔اس افسانے کو تحریر کرنے سے پہلے میں کچھ دیر کے لیے اس ماحول  میں رکی۔وہاں کی گھٹن،درد،کرب اور ہر شے پر محیط مایوسی میرے اندر جذب ہوگئی تھی تب ’’مٹی‘‘ کا ظہور ہوا۔‘‘

 ؁ان باتوں میں کتنی صداقت ہے اس کا اندازہ افسانہ پڑھ کر ہی ہوتا ہے۔اگرچہ یہ افسانہ ایک مخصو ص ماحول اور مسائل کی پیداوار ہے لیکن ترنم کی تخلیقی بصیرت نے اس افسانے کو علاقائیت سے اوپر اٹھا کر ایک آفاقی عظمت عطا کی ہے۔نام نہاد دہشت گردی کے نام پر آج دنیا کے مختلف علاقوں میں جنگیں لڑی جا رہی ہیں۔ان جنگوں میں ایک عام انسان بنا کسی قصور کے پسا جا رہا ہے اور عام انسان پر ان جنگوں کا کیا اثر ہو رہا ہے وہ ہم دیکھ بھی رہے ہیں اور محسوس بھی کر رہے ہیں۔ ’’مٹی‘‘ ْ افسانے میں افسانہ نگار نے جنگ سے متاثرہ ایک مظلوم انسان کے مظلومیت اور مسائل کو جس فنکاری سے پیش کیا ہے وہ انہی کا حصہ ہے۔ہلال احمد کی گرفتاری اور کشن لال سے ہلال احمد کی گفتگو کو افسانہ نگار نے بڑی خوبصورتی سے پیش کیا ہے۔ ہلال احمد کے بعد اس کی ماں کی کیسی حالت ہوتی ہے،اس منظر کو آپ بھی ملاحظہ کیجئے:

 ’’ہلال احمد کی ماں تھوڑے تھوڑے وقفے کے بعد سڑک پر نکل آ تی ہے۔جینس ٹی شرٹ پہنے کسی لڑکے کو بغور دیکھتی  ہے۔۔۔۔۔پھر۔۔۔ہلال احمد کے متعلق پوچھتی ہے۔پھر مایوس ہو کر رو پڑتی ہے۔کسی اور طرف چل دیتی ہے۔‘‘

 اس اافسانے کے کردار بہت جاندار ہیں اور کرداروں کی نفسیات اورجذبات کی عکاسی میں افسانہ نگار نے بڑی ہنر مندی کا ثبوت دیا ہے۔واقعی یہ افسانہ اردو کے اچھے افسا نوں کے ساتھ رکھا جا سکتا ہے۔

 ’’ اچھی صورت بھی کیا‘‘ میں تزنم ریاض نے موجودہ دور کے ایک اہم مسئلے کو سامنے لایا ہے۔شہروں میں بڑھتی بھکاریوں کی تعداد اور اس کے تحت معصوم بچو ں کے استحصال نے اب ہمارے سماج میں ایک ناسور کی شکل اختیار کی ہے۔افسانے میں ایک معصوم بچے راہل کی کہانی پیش کی گئی ہے۔راہل کا اغوا بھیک مانگنے کے لیے کیا جاتا ہے۔افسانہ پڑھ کر ہم پر یہ حقیقت واضح ہو جاتی ہے کہ کس طرح حالات اور ماحول معصوم بچوں کوچوری اور دوسرے جرائم کی دنیا میں ڈھکیل دیتے ہیں۔راہل کا باپ ایک شرابی ہوتا ہے جسے اپنے اولاد کی کوئی فکر نہیں۔وہیں دوسرا بھیک مانگنے والا بچہ ایک غریب گھرانے سے تعلق رکھتا ہے۔پولیس جب ان بچوں کو سرغنہ کے ساتھ پکڑتی ہے تو خوف کے مارے ان بچوں کے منہ سے یہ جملے نکلتے ہیں:

 ’’رضیہ بی ہماری سچی ماں ہے۔۔۔

 ۔۔۔۔۔دیکھا رضیہ بی ہم نے اور کچھ نہیں بتایا نا؟۔۔۔ہم کو مت مارنا۔‘‘

ان جملوں سے یہ بات اچھی طرح مترشح ہوتی ہے کہ کس طرح یہ معصوم بچے خوف کے اندر پلتے اور جیتے ہیں۔خوف کے مارے یہ بچے سچ بھی نہیں بول سکتے۔بلکہ ان کا کام صرف چپ چاپ بھیک مانگنا ہوتا ہے۔اور آج بھی ان بچوں سے ہماری ملاقات آئے دن ہوتی رہتی ہے۔

 افسانہ ’’برآمدہ ‘‘ موجودہ سوسائٹی کے ایک اہم مسئلے پر مبنی ہے۔افسانے کی ہیروئن شہلا کا شوہر سہیل دوسری عورتوں میں زیادہ دلچسپی دکھاتا ہے۔شہلا کے لیے شوہر کا یہ برتاؤ اذیت سے کم نہیں۔وہ اسے روکنے کی بہت کوشش کرتی ہے لیکن کامیاب نہیں ہو ،

پاتی۔شہلا کو اس ماحول سے گھٹن سی ہوتی ہے ۔ یہ ایک فطری چیز بھی ہے ا س عورت کے لیے جس کا مرد دوسری عورتوں میں دلچسپی لیتا ہے ہے;

 ’’یہ سمجھنے میں مجھے خاصا وقت لگا کہ سہیل اس مہارت سے جھوٹ بولتا تھا کہ دوسرے جھوٹ تک ان پر شک کرنے کا کوئی جواز نظر نہ آتا تھا اور اب سوچتی ہوں کہ اگر انہیں جھوٹ بولنے پر اتنا ملکہ حاصل نہ ہوتا اور میں ان کے جھوٹ کو سچ نہ سمجھتی تو شائد اتنے برسوں کا تناؤ جھیلنا میرے بس سے باہر تھا۔‘‘

 شہلا اپنے شوہر کی ان حرکتوں سے بہت تنگ آتی ہے۔اس سے پہلے کہ وہ خود بھی اپنے شوہر جیسی حرکتوں پر اتر آئے،وہ اپنے آپ کو یہ سوچ کر روک لیتی ہے :

 ’’ جلدی سے زینہ طے کرکے اپنی خوابگاہ کی پنا گاہوں میں پہنچتے ہوئے میں یہ سوچ رہی تھی کہ آرزو کو توکوئی نہ کوئی جواب مل ہی جائے گا۔۔۔۔۔اور خود مجھ کو۔۔۔؟‘‘

ظاہر ہے کہ افسانے میں ہمارے معاشرے کے ایک اہم مسئلے کو اجاگر کیا گیا ہے جس نے اب ایک ناسور شکل اختیار کی ہے۔اس مسئلے نے ایک ایسی شکل اختیار کی ہے کہ اسے ابLESBIANISMٍؐکی طرح صرف قانونی حیثیت ملنے کی دیر ہے۔دوسری طرف ان جیسی مردوں کی بیویاں بھی پھر اسی چیز کی شکار ہوتی ہے اور ایک اچھے گھر کو بکھرتے دیر نہیں لگتی۔ آج یہیں چیزیں سماج میں انتشار پھیلا نے میں آگے ہیں۔

 ترنم ریاض نے شہری زندگی کے مسائل پر بھی افسانے لکھے ہیں جس کی نمائندہ مثال افسانہ’’ شہر ‘‘ہے۔امان کو شہر آنے کی بڑی آرزو ہوتی ہے اور ایک دن اس کی یہ آرزو پوری بھی ہوتی ہے۔شہر میں آ کر امان اور اس کی بیوی بابرا ایک فلیٹ میں رہنے لگتے ہیں۔امان دو دن کے لیے کسی کام کی غرض سے باہر جاتا ہے۔امان کی غیر حاضری میں اس کی بیوی کی موت ہوتی ہے ۔ امان کی بیوی کب مر گئی یہ صرف اس کے بچے جانتے ہیں کیوں کہ دو دن سے اس کے فلیٹ میں کوئی نہیں آتا۔افسانہ نگار نے یہاں شہری زندگی کی بے حسی دکھائی ہے ۔ایک لاش دو دن سے کمرے پڑی رہتی ہے اور اس کے ہمسایوں کو پتا بھی نہیں۔اس طری یہ افسانہ شہری زندگی پر،جس میں جذباتوں کی اب کوئی قدر نہیں رہ گئی ہے اور ہر طرف مادیت ہے ، ایک بھرپور چوٹ ہے ۔ترنم نے اپنی بیشتر کہانیوں کی بنیاد روزمرہ زندگی میں پیش آنے والے واقعات پر رکھی ہے۔ گھریلو مسائل اور عورت مرد کے رشتے پرانہوں نے بڑے اچھے اور کامیاب افسانے لکھے ہیں۔بعض کہانیوں میں انہوں نے نوجوان لڑکے لڑکیوں کے نفسیاتی مسائل کو موضوع بنایا ہے۔افسانے’’آدھے چاند کا عکس‘‘اور ’’ گنچے‘‘ اس کی عمدہ مثالیں ہیں۔

 افسانہ ’’برف گرنے والی ہے‘‘ مفلسی اور غربت سے تنگ آئے ہوئے ایک گھر کی کہانی ہے۔کہانی کا مرکزی کردار ایک کم سن لڑکا ’جاوید‘ ایک فیکٹری میں کام کرتا ہے اور اس کام سے اس کے گھر کا گذارہ بڑ ھی مشکل سے ہوتا ہے۔یہ گھر دن بہ دن غریبی میں ڈھوبتا ہی چلا جاتا ہے۔بالآخر اس غریبی سے تنگ آ کر’جاوید‘ غلط راستے پر چلنے کے لئے مجبور ہوتا ہے کیوں کہ اس سے اپنے والدین اور چھوٹی بہن کا دکھ نہیں دیکھا جاتا:

 ’’بہت پہلے میرے پاس ایک کام کی دعوت ہے۔میں نے انکار کر دیا تھا۔مگر بابا اب کروں گا۔بس ذرا احتیاط  کا کام ہے اور پیسہ ہی پیسہ۔‘‘ جاوید کے والدین اسے روکنے کی بہت کوشش کرتے ہیں لیکن وہ اپنی کوشش میں ناکام ہو جاتے ہیں کیوں کہ جاوید کا ذہن جلد ی جلدی پیسہ کمانے کا بن گیا ہے۔اور وہ اس کے لیے کوئی بھی قیمت ادا کر نے کے لیے تیار ہے۔جاوید کی ماں ہر ماں کی طرح اپنے بیٹے سے بہت پیار کرتی ہے اور وہ اپنے آرام کی خاطر اپنے بیٹے کو کسی غلط کام پر نہیں ڈالنا چاہتی:

 ’’نہ میرے لعل۔ہمارے پیٹ کے لیے اپنی زندگی مت بیچنا۔بھوکی جی لوں گی۔تمہیں کھوکر زندہ نہ رہ پاؤں گی۔

 میرے بچے۔‘‘

ْجاوید احمد اپنے والدین کی نصیحت کی کوئی پروا نہیں کرتا اور بالآخر اپنے کام کی طرف نکل پڑتا ہے۔افسانہ نگار نے اس کہانی میں ایک اہم حقیقت کی طرف اشارہ کیا ہے کہ کس طرح غریبی سے تنگ آکر ایک نوجوان ،جس کے ہاتھ میں قلم ہونا چاہیے تھا غلط قدم اٹھانے پر مجبور ہوتا ہے ۔ جاوید ایک فیکٹری میں کام کرتا ہے لیکن اس کی تنخواہ اتنی قلیل ہے کہ اس میں اس کے چھوٹے سے گھر کا گذارہ بھی نہیں ہونے پاتا۔ حالانکہ جاویدکے والدین چاہتے کہ وہ پڑھائی کرے لیکن ان کے پاس اتنے پیسے نہیں کہ وہ اسکی تعلیم جاری رکھ سکیں۔اور بالآخر یہی غریبی جاوید کو جرائم کی دنیا میں لے جاتی ہے۔افسانے کی کہانی کو افسانہ نگار کافی خوبصورتی سے بْنا ہے۔کردارنگاری اور مکالمہ نگاری بھی کافی جاندار ہے۔’’میرا پیا گھر آیا‘‘ میں ایک ایسی عورت کی کہانی پیش کی گئی ہے جو اپنی ہر برائی کو خوشی سے برداشت کر لیتی ہے اور کبھی اف تک نہیں کرتی۔شمع ایک پاکباز اور صبر والی عورت ہے اور اس کا شوہر شہیر شادی کے بعد دوسری عورتوں میں دلچسپی لیتا ہے۔شہیر کی ان حرکتوں سے شمع ذہنی طور پر کافی UPSET ہوجاتی ہے۔وہ اپنے درد کا درماں خواجہ کے دربار میں ڈھونڈ لیتی ہے ۔خواجہ کے دربار میں جانا اس کی زندگی کا ایک اٹوٹ حصہ بن جاتا ہے جہاں اسے تھوڑا بہت سکوں ملتا،جس کے لیے وہ گھر میں ترستی ہے۔

 ترنم ریاض کے افسانوں کا کینوس کافی وسیع ہے۔ وہ اپنے افسانوں کی بنیاد روزمرہ زندگی کے چھوٹے چھوٹے واقعات پر رکھتی ہیں۔لیکن یہ واقعات اہم ہیں اور ہمارا سامنا روز ان سے ہوتا رہتا ہے۔وہ اپنے افسانوں میں رندگی کے عام مسائل کو بڑی فنکاری سے پیش کرتی ہیں۔وزیر آغا نے ایک جگہ لکھا ہے کہ’’افسانے کا فن بنیادی طور پر کہانی کہنے کا فن ہے۔اور یہ کہانی ماحول اور اور اس کے کر داروں سے مرتب ہوتی ہے۔‘‘یہ بات ترنم ریاض پر صد فیصد صادق آتی ہے۔ان کی کہانیوں میں ماحول اور کرداروں کا حسین امتزاج ملتا ہے۔وہاب اشرفی ترنم ریاض کی تخلیقی انفرادیت پر اظہار خیال کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

 ترنم ریاض ایک فعال افسانہ نگار اور شاعرہ کی حیثیت سے احترام کی نظروں سے دیکھی جاتی ہیں۔انہوں نے  عورتوں کے مسائل کے ساتھ ساتھ اْن رخوں پر بھی توجہ کرنے کی کوشش کی ہے جن سے ہم کسی نہ کسی طور پر متاثر  ہیں۔سب سے اہم بات یہ ہے کہ آج کے منظرنامے پر محیط اْن کے افسانے اپنی تمام تر تلخیوں کے ساتھ زندگی ، کی شادمانیوں کے اطراف بھی پیش کرتے ہیں۔اْ ن کا رویہ MORBID نہیں ہے۔ایسے میں ان افسانوں  کے کلچرل پہلوؤں کے ساتھ ساتھ زندگی جینے کے مثبت پہلو ہماری آنکھوں کے سامنے ہوتے ہیں۔‘‘

 ترنم ریاض آج بھی بڑی انہماک سے لکھ رہی ہیں ۔ان کا قلم ابھی تھکا نہیں ہے اور اس میں اب بھی پہلی جیسی ذرخیزی موجود ہے۔فکشن کی دنیا میں ابھی اْن سے کافی امیدیں وابستہ ہیں۔

Leave a Reply

Be the First to Comment!

Notify of
avatar
wpDiscuz
Please wait...

Subscribe to our newsletter

Want to be notified when our article is published? Enter your email address and name below to be the first to know.