لسانیات اورتر جمہ کے اصول
ڈاکٹر ابو شہیم خان
ڈاکٹر ہری سنگھ گور سنٹرل یو نیور سٹی
ساگر 470003 مدھیہ پردیش
shaheemjnu@gmail.com Mob;0735496671
انسانی تاریخ کی ابتدا ء سے ہی بین لسانی ترسیل کا عمل جاری ہے ۔تین ہزار سال قبل مسیح میسو پوٹا میا میں دو لسانی الفاظ کی فہرست غالباً مترجمین کے لئے ہی تیا کی گئی تھی اور آج ایک ہزار سے زائد زبانوں میں ترجمہ کا عمل جاری ہے ۔اس طویل مدت کے دوران ترجمہ کے بہت سے اصول ونظریات معرض وجود میں آئے ہیں کیوں کہ ترجمہ کے عمل کو اسلوب ،منشائے مصنف ،لسانی و تہذیبی تنوع ،ترسیل مفہوم ،متنوع ادبی روایات کے سیاقی تناظر میں دیکھا جاتا ہے جیسا کہ وزکیوز آیور (1977۔۔ Vazquez Ayora)اور ولس( 1988۔ Wills ) وغیرہ نے بیان کیا ہے۔اس لیے ترجمہ کے کسی ایک اصول یا نظریہ کو حتمی طور پر تسلیم یا تردید نہیں کیا جاسکتا ہے ۔ دراصل نظریہ تجاویز کا جامع اور مبسوط مجموعہ ہوتا ہے جسے کسی واقع یا مظہر کی وضاحت کے لئے بطور کلیہ پیش کیا جاتا ہے لیکن ترجمہ کا کوئی بھی اصول یا نظریہ صرف تجاویز کا مجموعہ نہیں ہوسکتا جس کی پابندی سے مترجم اپنے فرائض کو کامیابی کے ساتھ ادا کرسکے ۔کیونکہ کوئی بھی تسلی بخش نظریہ تا حال غیر نشان زد عناصر کو نشان زد کرتا ہے اور ان کی پابندی سے کامیابی کی سطح کی بھی پیشن گوئی کرتا ہے جب کہ ترجمہ کا کوئی بھی اصول یا نظریہ کم ازکم مترجم کی کامیابی کی ضمانت نہیں لے سکتا کیو ں کہ ترجمہ ایک تکنیک ہے جو لسانیات ،تہذیبی و ثقافتی بشریات،نفسیات،ابلاغیات اور علم الاعصاب جیسے مضامین پر منحصر ہوتا ہے اور مترجم کس مقصد کے پیش نظر کس مضمون پر تکیہ کررہا ہے ہم نہیں جانتے ۔لیکن سمٹتی ہوئی کثیر لسانی دنیا میں مترجم کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنا مقصد طے کرے۔ اس لئے اصول ونظریات کے بجائے ان طریقہ کار کی بات زیادہ ضروری ہے جن کی پابندی مختلف تراجم میں کی گئی ہے ۔مترجمین عموماً جو طریقہ اپناتے ہیں وہ کسی مخصوص تناظر میں ہی اپناتے ہیں ۔ان تناظر کو ہم چار زمروں میں تقسیم کرسکتے ہیں :
(۱) زبان کا تاریخی و تقابلی تناظر
(۲) لسانیاتی تناظر
(۳) ترسیلی تناظر
(۴) سماجی نشانیاتی (لسانی ) تناظر
زبان کا تاریخی و تقابلی تناظر: یورپ میں ترجمہ کو زبانوں کے تاریخی و تقابلی تناظر میں دیکھنے کا سلسلہ سسرو،ہورس ،آگسٹائن اورجیروم وغیرہ نے شروع کر دیا تھا ۔ان مفکرین کی پوری توجہ یونانی متون کو لا طینی میں بدلنے پر تھی ۔ جب کہ سترھویں اور اٹھارھویں صدی کے مترجمین کی پوری توجہ اصل متن سے وفاداری پر تھی خاص کر یورپ کے مترجمین کی ۔کیونکہ اس زمانے میں بائبل کے تراجم اور ان کے طریقہ کار ہی اصول و نظریات کی بنیاد سمجھے جاتے تھے ۔ا س حوالے سے جو بھی بحثیں ملتی ہیں ان کے مطالعے سے یہ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اس زمانے میں بحثوں کا محور یہ ہوتا تھا کہ متن قاری کے لیے ہے یا قاری متن کے لیے یعنی کس کو فوقیت دی جائے اور مترجم کو کس قدر آزادی حاصل ہو ۔ترجمہ کے اس تناظر کو جن لو گوں نے موضوع بحث بنایا ان میں لو تھر ( 1530۔ Luther) ائٹائنے ڈولٹ( 1540۔Dolet Etienne ) کولی ) –1656 (Cowley ڈرائڈن( -1680 (Dryden اور پوپ ) -1715 (Pope قابل ذکر ہیں ۔خاص کر لوتھر جو پہلے مغربی یورپ میں اور پھر دنیا کے دوسرے حصوں میں ہونے والے بائبل کے تراجم پر راست یا بالواسط طور پر سب سے زیادہ اثر انداز ہوا ۔یہ تناظر آج بھی اپنی معنویت رکھتے ہیں ۔بہت سے ماہرین فن آج بھی اس سیاق و تنا ظر میں ترجمہ کرنا اور اسے پڑھنا ترجیح دیتے ہیں۔ جیسے کری اینڈ جمپلٹ ( Cary & Jumpelt-1963) جارج اسٹینر (George Steiner-1975) اور جان فلسٹائنر 1980) (John Flestiner۔جارج فلسٹائنر کی کتاب Translating Neruda غنائی شاعری کے ترجمہ کے مسائل کے پر بہت ہی اہم کتاب ہے ۔اسی طرح یونیورسٹی آف ٹکساس ڈلاس سے شائع ہونے والے رسالےTranslation Review کے مضامین اس تناظر کی وکالت کرتے ہیں ۔جیساکہ پہلے بیان کیا گیا ہے کہ اس تناظر کی پوری توجہ اصل متن سے وفاداری پر ہے ۔لیکن بہت سے ایسے مترجمین ہیں جو اس تناظر کی وکالت تو کرتے ہیں لیکن حسب ضرورت اصل متن کے اسلوب ،بحر ،وزن ،مکالمے نا پسندیدہ اور غلیظ تبصروں میں تحریف کے بھی قائل ہیں ۔جیسے اوکٹیوپاز 1971) ۔ Octavio paz ( اور جارجز ماؤنن 1963) Mounin (Georges۔ان دونوں مترجمین نے ادبی فن کاروں کے ترجمہ کے مسائل پر گفتگو کی اور ترجمہ کے اصول و ضوابط کو متعین کر نے میں توازن کو اولیت بخشی ۔ان مترجمین کے علاوہ دوسرے مترجمین نے بھی ترجمہ میں وفاداری کے ساتھ ساتھ دوسرے عناصر کو بھی ملحوظ رکھ کر ترجمہ کیا ۔برور 1959) (Brower- نے On Translation اور فرالی (Frawley – 1984) نے Translation :Literary Linguistic & Philosophical perpectivesمیں اصل متن سے وفاداری کے ساتھ لسانیاتی وتہذیبی عوامل کو متعارف کرایا اور مترجمین کو در پیش اہم مسائل کے بارے میں تشفی بخش اور موثر طریقہ کار کی نشاندہی کی ۔
لسانیاتی تناظر :ترجمہ میں دو مختلف زبانیں شامل ہوتی ہیں ۔اس لئے اہل علم کی ترجمہ کے اس پہلوپر بھی توجہ لازم تھی۔ ابتداًسپیر (Spain)بلوم فیلڈ (Bloomfield)ٹروبٹ اسکوئی (Trubetskoy)اور جیکبسن(Jakobson) نے زبان کے عمل کے منظم مطالعے کی بنیاد رکھی ۔پھر ماہر لسانیات بشریات کے سامی اور ہند یورپی خاندانوں کی زبانوں کے علاوہ دوسری زبانوں کے تجزیہ نے نئے اور تخلیقی انداز میں بین لسانی رشتوں کے مطالعے کو نئے بال وپر عطا کیے۔ نو م چومسکی اور ان کے ساتھیوں نے تقلیب کے ذریعہ زبانوں کے ڈھانچے کے محرک پہلوؤں کا اضافہ کیا ۔یہ تقلیب فن ترجمہ پر بہت سی ایسی کتابوں کی اشاعت کا سبب ہو ئی جن کی بنیاد ی توجہ زبان کے ڈھانچے میں ہم آہنگی اور مماثلت پرتھی۔ اس موضوع پر بہت سے لوگوں نے کتابیں لکھیں لیکن جن کی کتابوں کو پسند یدگی کی نظرسے دیکھا گیا ان میں ونئے اور ڈاربلنٹ (1958)Vinay & Darbelnet ٹیٹی لون (Tatilon -1986) لارسن (Larson 1984) اور میلون (Malone -1986) شامل ہیں ۔میلون (Malone) کی کتاب کے علاو ہ زیادہ تر کتابوں میں ترجمہ کے ان لسانی پہلوؤں پر زور دیا گیا ہے جن میں رسمی اور اصولی نہیں بلکہ بامعنی رشتوں کی وکالت کی گئی ہو ۔ لارسنLarson) ( کا بھی مطمحٔ نظر یہی ہے لیکن میلون بہت سے ہیتی اور معنیاتی عمل کے لیے غالب تقلیبی رجحان پر زور دیتا ہے اور اس میں متساوی ،استبدالی ،منفرجی، ارتکازی،توضیحی ،تحقیقی ،تحلیلی اور تکثیفی عمل بھی شامل ہوتے ہیں ۔یہ عوامل گر چہ بہت موثر ہیں لیکن ترجمہ کے دوران اصل پیغام یامواد کو مجروح ہونے سے بچانے کے لئے خاص احتیاط کی ضرورت ہے ۔
تقلیبی- ساختی قواعد) (Transformational -generative Grammerمیں کا فی پیش رفت اور ترقی ہوئی ہے ۔اس پیش رفت نے بولین Boolean) (کو از سرنو قواعد وضع کرنے پر آمادہ کیا جس سے مشینی ترجمہ کو اصولی طور پر کافی تقویت ملی ۔لیکن مشینی ترجمہ کی کمپیوٹر کی آمد سے جو اعلیٰ تو قعات قائم ہو گئیں تھی ان کی تکمیل اتنی آسان نہیں تھی کیونکہ مشینی ترجمہ سے قبل اور بعد میں کافی ایڈیٹنگ کی ضرورت پڑتی ہے ۔اس لیے توجہ کا مرکز خالص لسانیاتی اصولوں کے بجائے مصنوعی ذہانت (Artifical Intelligence) ہوگئی ہے۔لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ آج بھی اعلیٰ تکنیک کی موجودگی کے باوجود زیادہ تر مشینی ترجمے غیر فطری معلوم ہوتے ہیں ۔
ترجمے کے لسانیاتی تجزیے کو بہت سے فلسفیوں نے بھی موضوع بحث بنایا ہے ۔سچائی، حسن اور خیر کی فلسفیانہ مو شگافیوں کے بجائے زبان کے بارے میں فلسفیانہ گفتگو کی ہے ۔ایسے فلسفیوں میں وٹگنسٹائن (Wittgenstien -1953) کیسیسرر (Cassirer -1953) گرائس (Grice -1968) کوئن (Quine -1953) رائسور (Ricceur -1969) بطور خاص قابل ذکر ہیں ۔
ان پیش قدمیوں نے اصول/ نظریہ ٔ ترجمہ میں علمیات کے نسبتاً کم احمقانہ انداز نظر کو فروغ دینے کے لئے اہم محرکات فراہم کیا ۔مکالمے میں زبان کے عام استعمال کو سراہا اور فطری زبان پر جھوٹے اعتماد کو غیر اہم قرار دینے میں معاون ہو ۔لیڈمائرل (Ladmiral-1972) نے ترجمہ کے نفسیاتی نکات کو اجاگر کیا اور ان نفسیاتی عوامل کی نشاندہی کی جو لسانیاتی اور تہذیبی عناصر کی ترسیل میں ذہنی رویوں کو متاثر کرتے ہیں اور لیمبرٹ (Lambert-1978) نے متعلقہ زبان کے نشانات سے بولنے والے کی وابستگی کی سطح کی بنیاد پر ذولسانیت کو دو حصوں میں تقسیم کیا جو مترجمین کے مخصوص امتیازات کو سمجھنے میں کافی معاون ہوا ۔
ترسیلی تناظر :ڈی وارڈ اور یوجین اے ۔نڈا) (De ward & Eugene .A. Nidaنے ایک بہت ہی اہم کتاب From One Language to Another (1986)ترتیب دی اور اصول ترسیل کے بہت اہم عناصر جیسے ماخذ ،پیغام، مرسل (وصول کنندہ)فیڈبیک ،آواز ،نظام ترسیل اور ذریعہ ترسیل وغیرہ کی اہمیت پر روشنی ڈالی اور ان عناصر کی وضاحت کی۔ اصل پیغام کی کنی وکشی (Coding & Decoding) کے عمل کے بارے میں اپنے خیالات کا اظہار کیا اور ترجمہ کے عمل میں شامل بہت سی پیچیدگیوں سے ان کا موازنہ بھی کیا۔سماجی لسانیات کے میدان میں تحقیق کر نے والے بہت سے ما ہرین لسا نیات جیسے لیبو (Labou 1972) ہیمیس (Hymes 1974) اور گمپرز (Gumperz 1982) نے ترسیلی عمل پر زور دینے والے ترجمہ کے اصولوں کے افہام و تفہیم کی کوششیں کیں ۔سماجی لسانیات اور ترجمہ کے مابین ایک فطری تعلق ہے ۔کیونکہ ماہرین سماجی لسانیات کا سروکار سماج میں تبادلہ ٔ خیال کے لیے استعمال ہونے والی زبان سے ہوتا ہے ۔سماج میں لوگوں کی آپسی بات چیت کے دوران زبانوں کو برتنے کے طریقوں سے ترجمہ کرنے والے ہر فرد کی دلچسپی ہوتی ہے ۔
ترسیلی اصولوں پر مبنی ترجمہ کے تمام نظریات کو زبانی اور تحریری پیغامات کی نیم لسانی اور زائد لسانی (Paralinguistic & Extralinguistic ) خصوصیات پر خاطر خواہ توجہ دینی چاہیے ۔زبانی ترسیل میں لہجے کا زیرو بم،تلفظ کی خاص ادائیگی ،اشارے ،انداز اور نظر سے نظر کا ملنا بہت اہم ہوتے ہیں ۔اسی طرح تحریری پیغام میں بھی اس کے مماثل عوامل موجود ہوتے ہیں جیسے انداز تحریر ،خاکہ، کاغذ کا معیار اور جلد کی نوعیت وغیرہ ۔اسی طرح مترجم کو بھی اپنے تحریری و غیر تحریری پیغامات کو موثر اور جاذب بنانے کے لیے اقدام کرنے ہوں گے لہذا اصل تاثر اور جاذبیت کو قائم رکھنے کے لیے ہیت کو مواد سے الگ نہیں کیا جاسکتا کیونکہ خود ہیت میں بھی بہت سے معانی پنہاں ہوتے ہیں ۔ہیت اور مواد کی یکجائی زبان کے خاص عمل جیسے اطلاعاتی ،اظہاری ،وقوفی،اثر آفرینی ،جذبات انگیزی وغیرہ کے بارے میں سنجیدہ گفتگو کا سبب ہوئی۔ساتھ ہی زبان کے اطلاعاتی عمل کے کم اہم ہونے کی وکالت کی ،جب کہ روایتاً زبان کے اطلاعاتی عمل کو زیادہ اہم سمجھا جاتا تھا ۔درحقیقت زبان کے عمل میں اطلاعات کی اہمیت بیس فیصدسے زیادہ نہیں ہوتی ہے۔ زبان کے عمل پر توجہ مرکوز کرنے سے متن کی ساخت کی اہمیت ،علم بیان اور شعریات بھی دائرہ بحث میں شامل ہوگئے ۔ترجمہ کے نقطۂ نظر سے متن کی ساخت کی اہمیت کا مطلب یہ ہے کہ ترجمہ کی صحت کے بارے میں کوئی بھی فیصلہ متوازی ماخذ اور مرسل (وصول کنندہ )متن کی اپنے متعلقہ عمل کی موزوں ترین تکمیل کے حوالے سے کیا جائے گا۔موزونیت کی اقل سطح یہ ہوتی کہ ترجمے کا قاری بھی اصل متن کے قاری کی طرح اسے سمجھ سکے اور سر اہ سکے ۔جبکہ اعلیٰ سطح یہ ہوتی کہ ترجمے کے قاری کا بھی جذباتی اور وقوفی ردعمل ویسا ہی ہو جیسا کہ اصل متن کے قاری کا تھا ۔موزونیت کی اقل کا اطلاق ان متون پر ہوتا جو کہ تہذیبی اور لسانی اعتبار سے کافی مختلف ہوں اور ترجمہ میں موزوں متبادل لانا تقریباً ناممکن ہو جیسے اردو۔ انگریزی جبکہ موزونیت کی اعلیٰ سطح کا اطلاق ایک ہی خاندان کی زباونوں کے مابین تراجم میں ہوتا جیسے اردو ۔ہندی وغیرہ ۔
سماجی نشانیاتی تناظر :ترجمہ کے سماجی نشانیاتی تناظر میں زبانی ترسیل کے نشانات کی تکثیریت اصل توجہ کا مرکز ہوتی ہے ۔الفاظ نیم لسانی اور زائد لسانی خصائص کے حامل ہوتے ہیں ۔جب لوگ کسی کو سنتے ہیں تو صرف زبانی پیغام ہی ان تک نہیں پہنچتا ہے بلکہ وہ مختلف زائد لسانی نشانات کی بنیاد پر متکلم کی سنجیدگی ،حق پرستی ،معلومات کی سطح ،مخصوص معلومات ،نسلی اورگروہی پس منظر دوسروں کے افکارات و خیالات اور ذاتی جاذبیت کے بارے میں بھی فیصلہ کرتے ہیں ۔درحقیقت زبانی پیغام کا اثر زائد لسانی نشانات پر مبنی فیصلوں پر ہوتا ہے ۔زیادہ تر لوگ ان نشانات سے نابلد ہوتے ہیں ۔لیکن جبلی احساس کے لیے بہت اہم ہوتے ہیں۔زبانی و تحریری دونوں طرح کی ترسیل میں یہ نشانات کسی نہ کسی شکل میں موجود ہوتے ہیں ۔ان کے علاوہ کچھ اختیار ی نشانات بھی ہوتے ہیں جنہیں زبانی ترسیل میں ملحوظ رکھا جاتا ہے ۔جیسے ڈرامہ میں عمل اور ملٹی میڈیا کے مختلف بصری وسمعی احوال ، شاعری میں مو سیقیت ۔یہ اختیار ی نشانات ترجمہ میں اکثر و بیشتر غالب عنصر بن جاتے ہیں ۔بہت سے دانش وروں نے تکثیری نشانات کے مسائل اور ترسیل کے سماجی نظام سے ان کے رشتوں کے بارے میں مفید گفتگو کی ہے ۔اکو(Eco -1976)کرام پن (Krampen -1979) میرل (Merrell -1979) اور ربوبنسن (Robinson -1979)۔وغیرہ کے مضامین کافی وقیع اور دلچسپ ہیں ۔ڈی وارڈ اور نڈا) (De waard & Nida-1986 اور ٹاوری (Toury -1985) نے فن ترجمہ نگاری میں سماجی نشانیاتی نظر یہ کو متعارف کرایا اوراس حوالے سے کافی مضامین وغیرہ بھی لکھے لیکن واقعہ یہ ہے کہ لسانی نشانات کے دوسرے کرداری نشانات سے بلیغ رشتوں کو سمجھنے کے لیے ابھی مزید غور وفکر کی ضرورت ہے ۔
زبان کو صرف وقوفی نقطۂ نظر سے نہیں دیکھنا چاہیے بلکہ ایسے مشترکہ اطوار کی حیثیت سے دیکھنا چاہیے جس میں ترسیل کے لئے آوازوں کااستعمال ہوتا ہے ۔اطوار کا مجموعہ سماج میں فروغ پاتا ہے اور سماج ہی اسے عام کرتا ہے اور اسے سماجی نظام میں ہی سیکھا جاسکتا ہے ۔ان باتوں سے زبان کے تجریدی اور تقلیلی نظریات سے انحراف کا اور مختلف نشانات کے ذریعہ بیان کیے گئے پیغامات کی کوڈنگ اور ڈی کو ڈنگ کے عمل کے مختلف سماجی ۔لسانی سیاق کا علم ہوتا ہے ۔اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ کوڈنگ اور ڈی کوڈنگ کے وقت ماخذ اور وصول کنندہ دونوں زبانوں کے مابین متوقع حقیقی فیڈبیک کے حوالے سے لفظی اور غیر لفظی نشانات کے ذریعہ مکالماتی تعا مل ہوتا ہے ۔دوسری بات یہ کہ زبان انفرادی اور عمومی اظہار کا بھی ذریعہ ہوتی ہے ۔عین ممکن ہے کہ کوئی شخص مخصوص طرز اظہار ،نئے ادبی صنف یا قدیم طرز اظہار کو نیا رنگ وآہنگ دینے کی صلاحیت رکھتا ہو ۔متن ترسیل کے دوسرے عناصر کی طرح ایک عام عنصر بھی ہوسکتی ہے اور یہ بھی ممکن ہے کہ پیغام رسا نئے معیار قائم کرے اور کسی نئے رجحان کا محرک بھی ثابت ہو ۔ترجمہ میں سماجی نشانیاتی طریقہ کئی معنوں میں اہم ہوتا ہے ۔عام زندگی کے تجربات کو بیان کرنے والی حقیقی علمیات کے اطلاق میں یہ اہم رول ادا کرتا ہے کیونکہ اس کی بنیاد نشان یاعلامت ،اس کے مفہوم اور شارح کے تثلیلی رشتوں پر ہوتی ہے نیز اس میں لفظی تخلیقیت کے پورے پورے امکانات موجود ہوتے ہیں کیونکہ زبان کی لچک ،اسے برتنے کے غیر معینہ حدود اور لفظوں کے غیر حتمی معانی اسے اظہار خیال کا لطیف اور پر فریب ذریعہ بناتے ہیں ۔نشانات کی تکثیرت مطالعہ زبان کو بین العلومی بناتی ہے ۔بہر کیف اب سماجی نشانیا تی نظریات کے مکمل اطلاق اور ترجمہ سے ان کے رشتوں کے بارے میں زیادہ باتیں ہونے لگی ہیں۔ ان کے اندر یہ امکان موجود ہے کہ زیادہ بامعنی اور قابل قبول نتائج کے لیے بصیرت افروز خیالات اور عملی طریقے معرض وجود میں آئیں ۔
ان کے علاوہ نظریہ سازوں کے مختلف مکتبہء فکر ہیں جو سماجی و لسانی نظریات کو دوسرے حوالوں سے دیکھتے اور تر جمہ پر اس کے اطلاق کی وکالت کرتے ہیں ۔آئندہ سطور میں ان کا تعارف مختصراً پیش کیا جا رہا ہے۔
قدیم نظریہ:ترجمہ کے نظریات بنیادی طور پر علم لسان اور علم معانی سے منسلک ہیں۔ قدیم زمانے میں علم لسان و علم معانی سے وابستہ جو افکار و نظریات سامنے آئے ان کا مقصد لفظ کے ارتقائی معنوں کی ترسیل تھی۔ یعنی لفظ اپنے ارتقائی سفر کے دوران جو معنیاتی جہتیں اختیار کرتا ہے انہی کو سامنے رکھ کر اس کے معنیٰ متعین کیے جاتے ہیں اور الفاظ کی تہہ میں موجود معنیاتی جہتوں کو مطلوبہ زبان میں منتقل کیا جاتاہے۔ اکیلا دی پونٹس (Aquilla de Pontas)، جان پروے (John Purvey) وغیرہ جیسے نظریہ سازوں نے اس نظریہ کی حمایت کی۔ بعض لوگوں کا ماننا ہے کہ ہندوستان میں بھرتری ہری نے اس نظریہ کو نیا موڑ دیا جب انھوں نے یہ کہا کہ لفظ اپنی ذات میں کوئی معنیٰ نہیں رکھتا بلکہ سیاق و سباق اس کا معنیٰ طے کرتے ہیں۔ بعد میں نوم چومسکی اور ویرن ویور نے بھی اس نظریہ کی حمایت کی۔
نظریہ تطابق (Theory of Equivalence) — آٹو کیڈ (Otto Kade) اس نظریہ کا بانی مبلغ تھا۔ 1960 کے آس پاس جرمنی میں یہ نظریہ پیش کیا گیا۔ اس کا ماننا ہے کہ ترجمہ میں اصل سے مطابقت چار طرح ہو سکتی ہے :
(i) کلی تطابق (One to one) — کسی لفظ یا اصطلاح کاایسا جامع و مانع بد ل جو ہو بہو وہی معنٰی دے جو اصل میں ہے۔ یعنی ترجمہ میں معانی کی مکمل ترسیل ہو۔ اس زمرے میں چیزوں وغیرہ کے نام خاص طور سے ہو سکتے ہیں۔
(ii) تکثیری تطابق (One to many) — کئی لفظوں کے لئے آپ ایک ہی لفظ استعمال کریں جیسے دباؤ کے لیے آپ Stress، Pressure یا Tension وغیرہ استعمال کریں۔
(iii) جزوی تطابق (One to part of one corresponding) — ایسی مطابقت جو کسی لفظ کے مکمل معانی کے لیے نہ ہو بلکہ اس کے بعض حصوں تک ہی محدود رہ جائے جیسے زلف کے لیے Hair، رقیب کے لیے Rival، ید بیضا کے لیے White hand اور حرم کے لیے Mosque وغیرہ۔
(iv) عدمِ تطابق (One to none correspondence) — کسی تمدن و تہذیب کے مخصوص الفاظ جن کا بدل موجود نہ ہو۔ جیسے ہندوستانی دھوتی، کرتا، پائجامہ، ساڑی وغیرہ۔
تطابق کا یہ نظریہ انفرادی الفاظ کی سطح تک محدود تھا جو ذرّوی لسانیات (Atomistic Linguistics) کی پیداوار تھا لیکن جدید لسانیات میں لفظی مطابقت کی جگہ ساختی مطابقت (Structural Equivalence) نے لے لی ہے۔ ساختی مطابقت کی اصطلاح لپ زگ اسکول (Liep Zig School) کے نظریہ ساز فلپک (Filipec) نے وضع کی تھی۔ اس کا اصرار تھا کہ لفظی متبادل کے بجائے پورے متن کا متبادل لانا چاہیے۔ داخلی ساخت کا نظریہ : ولفران ولس (Wolfron Wills) نے اپنی کتاب The Science of Translation: Problems and Methods میں اس پر کھل کر بحث کی۔ ولس نے نوم چومسکی کے آفاقی زبان کے نظریے سے کافی استفادہ کیا اور یہ وضاحت کی کہ متن کی اندرونی یا داخلی ساخت سب سے اہم ہوتی ہے۔ مترجم کی ساری وفاداری باطنی ساخت سے ہونی چاہیے، یعنی لفظوں کی تہ میں موجود معلومات کو مطلوبہ زبان میں منتقل کرنا چاہیے۔ یہ غیر سائنسی نظریہ جرمنی کے سارلینڈ یونیورسٹی (Saarland University) کے اہم رکن ولفران ولس (Wolfron Wills) کی دین ہے۔
نظریہ توافق (The Manipulation School) — تھیو ہر منس (Theo Hermans) اور آندرے لیفیور (Andre Lefeuere) اس نظریہ کے حامی ہیں۔ تھیو ہرمنس کی کتاب The Manipulation of Literatrue: Studies in Literary Translation میں اسی نظریہ سے متعلق بحثیں شامل ہیں۔ اس نظریہ کے مطابق ترجمہ مختلف اور نئے ماحول میں کیفیت، مزاج اور نوعیت کے مطابق از سر نو تخلیق ہے۔ اصل اور ترجمہ کے درمیان حسب ضرورت مطابقت و موافقت پیدا کی جاتی ہے، یعنی ترجمہ بالکل عکس نہیں بلکہ اسے نئے ڈھنگ و انداز سے پیش کرنا ہے۔
نظریہ تمدن — جارج اسٹینر (George Steiner) اور اتماریون ظہر (Itmar- Even-Zoher) کے مطابق زبان، ادب، سائنس ا ور ٹکنالوجی سب نظام تمدن کا حصہ ہیں اور متن کو معنی اس عہد کا تمدن اور رائج اقدار عطا کرتا ہے اس لیے ترجمہ کی مخصوص شناخت نہیں ہوتی ہے اور وہ مختلف شخصیات اور شناختوں کا حامل ہوتا ہے۔ اتماریون ظہر نے اپنے نظریہ کی بنیاد روسی ہیئت پرست تنجنف (Tynjanov) کے ادبی تنقید کے نظام مراتب (Hierarchieal Literary System) کے تصور پر رکھی جس کے تین نکات ترجمے سے متعلق ہیں : –
(i) ترجمہ کے وقت رائج اقدار اور تمدن متن کے معنیٰ متعین کرتے ہیں۔
(ii) ترجمہ مختلف شناختوں یا شخصیتوں کا حامل ہوتا ہے۔
(iii) با اختیار رائج قوتیں ترجمہ کی شناخت کو قوت ، وزن اور وقار عطا کرتی ہیں۔
یعنی متن کے اپنے کوئی معنیٰ نہیں ہوتے۔ رائج تمدن اور نظام اقدار ہی ان کے حتمی معنیٰ متعین کرتے ہیں نیز مختلف قرأتوں کے دوران متن کی تفہیماتی جہتوں کو ترجمہ میں برتا جاتا ہے تاکہ اصل متن کی مناسب و مقتضائے حال تفہیم و تحسین ہو سکے۔
ردِ تشکیل کانظریہ (Deconstruction) — سوسیر، ڈیرس (Dierce) نے اس نظریہ کی داغ بیل ڈالی تو والٹر بنجامن اور دریدا نے اس نظریہ کو فروغ و وسعت بخشی۔ سوسیر اور ڈیرس نے جس Arbitrariness of Language کی وکالت کی تھی ایڈورڈ سعید نے اس کی تائید کی۔ سوسیر نے زبان کو نظام نشانات (Sign System) قرار دیا۔ اس کے مطابق ہر علامت یا نشان کے دو پہلو ہوتے ہیں۔ نشان کنندہ (Signifier)۔ یہ آواز یا تصویر کی شکل میں ہوتا ہے۔ دوسرا جسے نشان زد کیا جائے (Signified) جو معنیٰ کے تصور یا صورت میں ہوتا ہے۔ دونوں کے درمیان رشتہ من مانا (Arbitrary) ہوتا ہے، یعنی Book کا مطلب کتاب اس لیے ہے کہ تمدنی و تاریخی روایات نے ایسا سمجھنے پر مجبور کر دیا ہے اور دوسرے نشانات سے مختلف ہے۔ یہی اختلاف اسے معنیٰ عطا کرتے ہیں۔ سوسیر وغیرہ نے صرف لفظ کے حوالے سے بات کی لیکن دریدا ا ور والٹر بنجامن نے پورے متن کی قلب ماہیت (Transformation) اور مابعد زندگی (After Life) کی بات کی۔ دریدا کے مطابق ترجمہ محض ایک نوزائیدہ بچہ نہیں ہے بلکہ اس میں خود نئے، مختلف اور اپنے منفرد انداز میں بات چیت کی قوت بھی ہوتی ہے۔ یعنی ترجمہ بنیادی متن کو نئی زندگی یا دوسری زندگی دیتا ہے۔ اس لیے غالب اور اقبال جیسے عظیم شعرا کے کلام کی نئی نئی تعبیر یں ا ور تشریحیں آج بھی ہو رہی ہیں۔ ہر قاری متن کو نئے انداز اور نئے زاویے سے پڑھتا ا ور سمجھتا ہے اور اسی کو دوسرے قالب میں ڈھالنے کی کوشش کرتا ہے۔
بیسویں صدی جسے ’ ’ترجمہ کا عہد‘‘ سے بھی تعبیر کیا گیاتھامیں ساختیاتی لسانیات کے شعبے میں وسعت، ترجمہ کے مطالعے میں لسانیات کا اطلاق، مواصلات کے شعبوں میں انقلاب اور مشینی ترجموں کی ترقی سے ترجمہ کے اصول و ضوابط میں انقلابی تبدیلیاں رونما ہوئیں۔ ازرا پونڈ (Ezra Pound) جیمس میکفا رلنس McFarlance ) (James ہیلئیر بیلوک ((Hilaire Bellock وغیرہ جیسے مشاہیر ادب نے ترجمہ اور لسانیات کے باہمی رشتوں، ترجمہ کے لسانیاتی نقطہء نظر اور ان کے اصول و ضوابط پر سیر بھی حاصل بحث کی ۔ لیکن جن ماہرین لسانیات نے بیسویں صدی میں ترجمہ اور لسانیات اور ان کے تعامل پر تحقیق کی اور ترجمہ کے اصول و ضوابط پر تحقیقی کام کیا ان میں جے۔سی کٹفورڈ (J.C.Catford) یو جین ۔اے ۔نیڈا ) (Eugene A. Nida اور پیٹر نیو مارک ) Peter Newmark ( سب سے زیادہ اہمیت کے حامل ہیں۔ جے۔سی کٹفورڈ (J.C.Catford) نے 1965ء میں ترجمہ کے اصولوں پر مبنی ایک اہم کتاب ’’ A Linguistic Theory of Translation ‘‘ تصنیف کی جس میں ترجمہ کے عمل کی لسانی توضیح و تجزیہ پیش کیا جیساکہ خود کتاب کے نام سے ظاہر ہے ۔اس کتاب میں ترجمہ کے اصولوں کی بنیاد عام لسانیاتی اصولوں پر قائم کی گئی ۔اولاً یہ لسانیاتی اصول ہیلی ڈے Halliday نے پیش کیا تھاجو جے۔سی کٹفورڈ (J.C.Catford) کے مطابق ترجمہ کے اصول تقابلی لسانیات کی ایک شاخ سے متعلق ہے کیوں کہ یہاں دو زبانوں کا تعامل ہوتا ہے اور دوران ترجمہ دو زبانیں شامل حال ہوتی ہیں۔ اس لیے ترجمہ کے اصول بنیادی طور پر عملی لسانیات کے اصول ہوتے ہیں جیسا کہ جے۔سی کٹفورڈ (J.C.Catford) کے ترجمہ کی تعریف سے واضح ہوتا ہے کہ :
“The replacement of textual material in one language (SL) by equivalent textual material in another language (TL).” (1)
اس کے مطابق ترجمہ کابنیادی مسئلہ جامع اور مانع متبادل لانا ہے جب کہ ترجمہ کے اصول و ضوابط کااصل اور خاص کام متبادل لانے کے شرائط اور نوعیت کے تعین کا ہے۔ جے۔سی کٹفورڈ(J.C.Catford) نے سطحِ تحدید اور ترتیب کے اعتبار سے ترجمہ کے کئی اقسام بتائے ۔جیسے تحدید کے اعتبار سے ترجمہ ’مکمل‘ یا ’غیر مکمل‘ ہو سکتا ہے۔ ’مکمل‘ ترجمہ میں اصل زبان کے پورے متن کی جگہ مطلوبہ زبان کا پورا متن لے لیتاہے جب کہ غیر مکمل ترجمے میں اصل زبان کا کچھ متن ناقابل ترجمہ مان کر چھوڑ دیا جاتا ہے اور اس کا ترجمہ نہیں کیا جاتا ہے۔جے۔سی کٹفورڈ(J.C.Catford) کے ترجمہ کی اصول سازی اور ترویج کے حوالے سے منجملہ یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ سب سے پہلے اس نے ترجمہ کے اصولوں کاباقاعدہ ذکر کیا۔ ترجمہ کے مختلف پہلوؤں، مسائل و مشکلات پر سیر حاصل گفتگوکی ۔کٹفورڈ کی گفتگواور بیان کردہ اصولوں کا ماخذما ئیکل ہیلی ڈے ) Halliday (Michaelکے پیش کردہ لسانیاتی نظریات تھے جن کا طریقۂ کار خالص لسانیاتی اور مبنی بر متن تھا۔یعنی دوران ترجمہ جملوں کی ترتیب و تنظیم کے مطابق ہی متبادل لائے جائیں۔ سیاقی و سباقی متعلقات جیسے مصنف / مترجم، ان کا سماجی اور تہذیبی پس منظر، مطلوبہ سامعین و قارئین، تخلیق یا ترجمہ کے مقاصد، متن اور ان کے مختلف اقسام جو ترجمہ کے عمل کو متاثر کرتے ہیں کی کوئی جگہ اور اہمیت نہیں ہے، یعنی Catford کے نزدیک صرف تحریری جملے ہی اہمیت کے حامل ہوتے ہیں۔ ان کے علاوہ تمام سیاقی و سباقی متعلقات و التزامات مترجم کے پیش نظر کوئی اہمیت نہیں رکھتے۔
جے۔سی کٹفورڈ(J.C.Catford) کے بعد بیسویں صدی کے نصف آخر میں ایک اور نام کافی اہمیت حاصل کر لیتا ہے۔ یہ نام ہے یو جین ۔اے ۔نیڈا ) (Eugene A. Nida کا جس نے ما ئیکل ہیلی ڈے ) Halliday (Michael اور کٹفورڈ سے مختلف ترجمہ کے اصول وضع کیے۔ یو جین ۔اے ۔نیڈا ) (Eugene A. Nida نے 1964ء میں Towards a Science of Translation اور 1974ء میں The Theory and Practice of Translation لکھی جن ترجمہ کی وضاحتی تفصیل بیان کی گئی ہے۔ یو جین ۔اے ۔نیڈا ) (Eugene A. Nida کے مطابق ترجمہ کرنے میں کچھ پابندیاں شامل حال ہوتی ہیں جو کہ تہذیبی پس منظر، لسانیاتی ادبی اسالیب یا ذرائع ترسیل کی دین ہو تی ہیں۔ جب کہ شاعری کے ترجمہ میں اسلوبیاتی پابندیاں زیادہ اہم ہوتی ہیں۔ یو جین ۔اے ۔نیڈا ) (Eugene A. Nida نے وصول کنندہ Receptor کو (جو مطلوبہ زبان کا قاری ہے) اپنے اصول کا محور مانا ہے لہذا اس کا طریقۂ کار سماجی لسانیات اور مطلوبہ زبان کے قاری پر مبنی ہے۔ لسانیاتی اور متنی متعلقات کے علاوہ سیاقی و سباقی متعلقات کو بھی ملحوظ رکھا ہے۔ یو جین ۔اے ۔نیڈا ) (Eugene A. Nida کے علاوہ پیٹر نیو مارک ) Peter Newmark ( نے بھی ترجمہ کے اصولوں پر اظہار خیال کیا اور Approaches to Translation لکھ کر یو جین ۔اے ۔نیڈا ) (Eugene A. Nida کے اصولوں میں اصلاح کی کوشش کی۔ اس نے معنیاتی (Semantic) اور ترسیلی (Communicative) ترجموں کا موازنہ کیا اور اصل متن کے لیے ان دونوں میں سب سے مناسب قسم میں ترجمہ کرنے کے لیے کہا۔ اس کے مطابق معنیاتی (Semantic) ترجمہ کی پوری توجہ اصل متن کے معنوی حصے پر ہوتی ہے جب کہ ترسیلی ترجمہ میں پوری توجہ تفہیم اور قاری کے رد عمل پر ہوتی ہے۔ پیٹر نیو مارک ) Peter Newmark ( ترجمہ کے سائنس ہونے کی دلیل کو تسلیم نہیں کرتا ہے بلکہ اس کے بموجب ترجمہ کی بنیاد ابلاغ و ترسیل کے اصول و ضوابط پر ہے کیوں کہ ترجمہ ایک فن ہے جس میں ایک زبان کے بیان و خبر کو دوسری زبان کے بیان و خبر میں تبدیل کرنے کی کوشش ہوتی ہے اور اس کا متبادل لایا جاتا ہے۔
یوں توشناور ترجمیات نے قارئین کی مختلف زمرہ بندی کرکے ان کی توقعات کا ذکر کیا اور اسی کے مطابق ترجمہ کا لا ئحہ عمل طے کرنے کی امید ظاہر کی ہ۔ لیکن اکثر نے قارئین کو چار زمروں — (1)اصل زبان کو نہ جاننے والا عام قاری (2)اصل اور مطلوبہ دونوں زبانیں جاننے والاعام قاری(3)اصل زبان و ادب کا طالب علم (4) ماہر (لسانیات)میں رکھ کر ان کی مختلف و متنوع توقعات کا ذکر کیا اور اسی کو ترجمہ کی قدر و قیمت متعین کرنے کا پیمانہ اور آلہ کار سمجھا ہے۔ قا رئین کی چوتھی قسم ۔۔ ماہر (لسانیات) کی ایک مترجم سے توقعات کی ہے۔ ایک ماہر (لسانیات) کسی مترجمہ متن کو درج ذیل پیمانوں پر آنکنے کا متمنی ہوتا ہے اور وہ توقع کرتا ہے کہ ترجمہ میں یہ خصا ئص لازمی طور پر موجود ہوں۔ایک ماہر (لسانیات) کسی مترجم سے درج ذیل توقعات رکھتا ہے۔
…… ترجمہ آزاد ہو
…… قابل مطالعہ ہو
…… محاوراتی بیان ہو
…… قواعد اور معنوی تقسیم ہو
…… لفظیات / فرہنگ
…… ترکیب نحوی
…… خاص تہذیبی عناصر
…… خاص لسانی عناصر اور لغوی خلا
قارئین کی توقعات کے پیش نظر ترجمہ کی مختلف قسمیں بیان کی گئی ہیں اور ان مختلف قسموں کا اطلاق اصل زبان کی متن و ہیئت اور مطلوبہ زبان کی متن و ہیئت کے مطابق ہوتا ہے۔ یعنی کسی متن کا ترجمہ مختلف قسموں میں سے کسی ایک قسم یا ایک سے زائد اقسام کو بروئے کار لاکر اسی کے مطابق مطلوبہ زبان میں ترجمہ کیا جاتا ہے۔ اچھے مترجم کی پہچان یہ ہے کہ پہلے وہ غرض و غایت کا تعین کرے اور اسی کے مطابق طریقۂ کار اپنا کر ترجمہ کرے۔ یعنی مترجم کی پہلی ذمہ داری یہ ہے کہ اصل مواد کے انتخاب کے بعد اپنے مطلوبہ قارئین کے مزاج ، صلاحیتوں اور ترجمہ سے وابستہ امیدوں ا ورتوقعات کو سمجھے اور اسی کے مطابق طریقۂ کار اپنائے۔ عین ممکن ہے کہ ترجمہ کا ایک طریقۂ کار شاعری کے ترجمہ کے لیے موزوں ہو لیکن نثر کے ترجمہ کے لیے غیر مناسب ہو۔ یا جو طریقۂ کار سائنسی و مادی علوم کے لیے اپنایا جا ئے اس کی ادبی تراجم میں کوئی گنجائش نہ ہو۔ ادبی تراجم کا عمل زیادہ مبہم اور پیچیدہ ہوتا ہے کیوں کہ ہر ادبی تحریر کا ایک لسانی، ادبی اور تہذیبی پس منظر ہوتا ہے۔ الفاظ و بیان عوام کی عادات اور طرز زندگی کی جڑوں سے وابستہ ہوتے ہیں۔ ادب میں الفاظ تہہ داری اور کثیر المعانی کے حامل ہوتے ہیں۔ اگر ان کا ایک ظاہری معنی ہے تو کئی باطنی معانی بھی ہوتے ہیں جو کہ یکساں اہمیت کے حامل ہوتے ہیں۔ اس لیے مترجم ہر ممکنہ معانی کے لیے تیار رہتاہے۔اس لیے ادبی مترجم کی ذمہ داری دوہری ہوجاتی ہے۔ اس کو صرف اصل مصنف کی منشا کا نہیں بلکہ اپنے قارئین کا بھی وفادار ہونا پڑتا ہے۔ ایک طرف تو وہ اصل کی ہیئت، معانی، انداز بیان و روح سے وفاداری کرتا ہے تو دوسری جانب اس کو یہ بھی یقینی بنانا پڑتا ہے کہ اس کا ترجمہ مطلوبہ زبان کی ادبی اور لسانی روایات سے میل کھاتا ہے۔ اس لیے ادبی مترجم کی ذمہ داری غیر ادبی مترجم کے مقابلے کہیں زیادہ ہوتی ہے۔ مترجم ایک سفیر کا کام کرتا ہے جس کے توسط سے عظیم ادبی سرمائے لسانی اور تہذیبی حدود کو پار کرکے ’دوسروں یا اجنبیوں‘ تک پہنچتے ہیں۔ لیکن مترجم کی کامیابی صرف اس میں مضمر نہیں ہے کہ وہ اصل سے وفاداری کرے بلکہ اس کی کامیابی اس میں بھی پنہاں ہے کہ وہ اپنے قارئین سے کس طرح اور کتنی وفاداری کرتا ہے اور اپنے قارئین کی توقعات پوری کرتا ہے۔ کامیاب مترجم وہی ہوتا ہے جو اپنے قارئین کی توقعات کو سمجھے اور ان کی تکمیل کی کوشش کرے۔ مختلف قارئین کی توقعات مختلف اور متنوع ہوتی ہیں۔ ایک عام قاری کے مقابلے کسی ماہر لسانیات قاری کی مترجم سے توقعات بالکل مختلف ہو ں گی۔ اہل زبان اور عجمی کے توقعات میں بھی بعد ہوگا۔ اس لیے مترجم کی اولین ذمہ داریوں میں سے ایک ذمہ داری یہ بھی ہے کہ وہ مختلف قارئین کی توقعات کو پیش نظر رکھ کر ترجمہ کرے۔مختلف قارئین کی توقعات کا علم صرف مترجم کے لیے ہی نہیں بلکہ ترجمہ کی قدرو قیمت متعین کرنے اور اس کا تنقیدی محاسبہ کرنے والوں کے لیے بھی ضروری ہوتا ہے۔ ان توقعات کو اساس مان کرہی ترجمہ کی کامیابی و ناکامی کو پرکھا جا سکتا ہے۔خلا صہء کلام یہ کہ ترجمہ کی کوئی بھی قسم ہو ،مترجم سے وابستہ توقعات کتنے ہی متنوع ہوں ،اصول و ضوابط کسی بھی انداز نظر سے منضبط کیے گیے ہوں لسانی عناصر کو ان سب میں بنیادی اہمیت حاصل ہوتی ہے کیوں کہ ترجمہ بذات خود لسانیات کا نظری و فکری ہی نہیں بلکہ اطلاقی و عملی مظہر ہے۔
Leave a Reply
Be the First to Comment!