رشید احمد صدیقی کی مزاح نگاری
پشپیندر کمار نم
شعبہ اردو، ذاکر حسین دہلی کالج، دہلی یونی ورسٹی، دہلی
Rasheed Ahmad Siddiqi ki Mazah Nigari
by: Pushpendr Kumar Nim
شعرو ادب میں خوش طبع یا مزاح ایک حسین اور دلآویز صفت ہے اور دنیا کی ہر زبان کا ادب اس صفت سے مالا مال ہے۔ کیو نکہ اس فن کا تعلق براہ راست انسانی معاشرت اور اس کے مسائل سے مربوط ہے۔ فرد کی اصلاح اور معاشرے کا سدھار اس کا خاص مقصد ہے۔ یہ گہرے شعور، زندگی کے وسیع مشاہدات، بے کراں تجربات اور عرفان ذات کے عمیق مطا لعے سے پیدا ہو تا ہے۔ چنانچہ ابتدا ئی نمونوں سے لے کر عصر حاضر کے ترقی یافتہ مزاحیہ نمونوں تک میں سماجی مسائل اور انسانی اخلا قیات کا عکس اپنی پوری آ ب و تاب کے ساتھ نظر آ تا ہے۔ لیکن اس کے با وجود بعض اہل علم اسے ادب عالیہ میں شمار نہیں کرتے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مزاح محض ایک افتاد طبع نہیں بلکہ پروفیسر محمود الٰہی کے بقول:
’’ایک ایسا اسلوب بیان ہے جس کی کیفیت تقسیم در تقسیم کا شکار ہو تی رہی ہے۔ یہی کیفیت کبھی تمسخر اور پھکڑ پن کا مظہر بن جاتی ہے اور کبھی طنز وتعریض کی غمازی کرتی ہے۔ انتخاب الفاظ میں اگر فن کار سے چوک ہو جائے تو طنز و دشنام طرازی کا مرقع بن جا تی ہے۔ طنز میں طبیعت کو بھی سنبھالنا پڑتا ہے اور الفاظ کو بھی اور جسے طبیعت اور الفاظ کو قابو میں رکھنے کا سلیقہ آ تا ہے وہ ہی اچھا طنز نگار ثا بت ہو تا ہے۔ جو لوگ مزاحیہ ادب کو ادب عالیہ میں شمار نہیں کرتے ان کی مراد مزاح کے ان نمونوں سے ہو تی ہے جن میں گفتار کا اسلوب عا میانہ ہو جاتا ہے۔‘‘
[پیش لفظ انتخاب مضامین فکر تونسوی، اردو اکادمی، لکھنؤ]
اگر یہاں میں یہ عرض کروں تو شاید بے جا نہ ہو گا کہ غزل اور بچوں کے ادب کی طرح طنز و مزاح بھی اردو کی ان مظلوم اصناف میں شامل ہیں جنہیں عموماً بچوں کا کھیل سمجھا جاتا ہے اور ہر نو سیکھیا سب سے پہلے ان ہی میں سے کسی ایک پر ہاتھ صاف کر بیٹھتا ہے۔ جب کہ یہ تینوں ہی اصناف بالخصوص گہرے مطالعے، عمیق مشاہدے، وسیع تجربے اور زبان و بیان پر قدرت کاملہ کی متقاضی ہیں۔ کیو نکہ جس طرح غزل میں بڑے سے بڑے خیال یا واقعہ کو دو مصرعوں میں سمونا یا بچوں کے ادب میں بچوں کی نفسیات کا خیال رکھ کر گویا دریا کو کوزے میں بند کرنے کا سوال ہے اسی طرح طنز و مزاح ایک ایسی پل صراط سے گزر نے کا نام ہے کہ جس میں معمو لی سی لغزش نہ صرف تخلیق کو ابتذال و پھکڑ پن کا پلندہ بنادیتی ہے بلکہ خالق کی شخصیت کو بھی مجروح کردیتی ہے۔ در اصل دا نشوروں کے نزدیک طنز و مزاح نگار کی مثال اس مسخرے کی سی ہے جسے بادشاہ کے منہ پر اس کی کمزوریاں بیان کر نے کی آزادی ہو تی ہے۔ لیکن یہ آ زادی کتنی خطرناک ہوسکتی ہے اس کا اندازہ آپ خود بھی بآسانی لگا سکتے ہیں۔ اس لیے طنز و مزاح کی پوری روا یت میں کم ہی افراد ایسے ہیں جن کے مزاحیہ نمونے اردو کو طرۂ امتیاز عطا کرتے ہیں۔
خطہ جونپور سے اس فہرست میں ایک نمایاں نام رشید احمد صدیقی کا ہے۔رشید احمد صدیقی1892ء میں جونپور کے ایک گاؤں میں پیدا ہوئے۔ گھر پر بنیادی تعلیم حاصل کر نے کے بعد آگے کی تعلیم حاصل کر نے کے لیے جونپور گئے۔ بورڈنگ اسکول میں بھی تعلیم حاصل کی۔ اعلی تعلیم حاصل کر نے کی غرض سے علی گڑھ گئے جہاں سے ایم اے کیا اور پھر ملازم ہو گئے۔ انہوں نے اردو ادب کے میدان میں اس قدر ترقی کی کہ علی گڑھ یو نیورسٹی کے شعبۂ اردو کے صدر مدرس کی ذمہ داری ان پر ڈال دی گئی جس کو انہوں نے بحسن و خوبی نبھایا۔ رشید احمد صدیقی نے بہت سے مضا مین تحریر کیے جن میں طنز و مزاح نمایاں ہے۔ ان کے یہاں تنقید کی بھی اچھی مثا لیں ملتی ہیں۔ ان کے مزاحیہ مضا مین بھی قابل قدر ہیں اور اردو ادب کے سر مائے میں بیش بہا اضا فہ ہیں۔ ان کے مضامین میں نہ صرف ہنسی بلکہ عبرت بھی پوشیدہ ہے۔ لہٰذا یہ کہنا جائز ہے کہ اردو مزاح نگاری کی تاریخ میں رشید احمد صدیقی ایک اہم شخصیت کے مالک ہیں۔
رشید احمد صدیقی اردو ادب میں ایک روا یت کی حیثیت اختیار کرچکے ہیں۔ انہوں نے اردو ادب کو مختلف حیثیتوں سے متاثر کیا ہے۔ ان کے طنزیہ و مزاحیہ مضا مین، ان کی پر مغز تنقیدیں اور ان کی مرقع نگاری ہمیشہ قدر کی نگاہ سے دیکھی جائے گی۔ ان کی تخلیقا ت سے محظوظ ہونے کے لیے ایسے تربیت یافتہ ذہن کی ضرورت ہے جو ان کے ذہن، ان کی پہلو دار شخصیت اور ان کے ماحول کے ساتھ ساتھ علم و ادب کا بھی مزاج شناس ہو۔
رشید احمد صدیقی کے طنز و مزاح کے دو مجمو عے ہیں۔’’ مضامین رشید‘‘ اور’’ خنداں‘‘۔ اس کے علاوہ بہت سے مضامین و مقالات مختلف اخبارات و رسا ئل میں بکھرے ہوئے ہیں۔’’ مضامین رشید‘‘ کو نقش اول ہو نے کے با وجود فنی اعتبار سے نقش ثا نی’’ خنداں‘‘ پر فوقیت حاصل ہے۔ مضامین رشید سے ،رشید احمد صدیقی کی تخلیقی صلاحیت، شعور کی پختگی، وسعت نظری اور علمی عظمت کا اظہار ہو تا ہے۔’خنداں‘ میں یہ ندرت فکر، طنز و مزاح کا ٹھہرا ہوا انداز اور شا ئستگی و رچاؤ نظر نہیں آ تا۔ زبان و بیان کا چٹخا رہ اور متنوع موضو عات کا احساس تو ضرور ہوتا ہے لیکن اس میں وہ تازگی اور طنز و مزاح کی چھٹکی ہوئی چاندنی نہیں ملتی جس سے مضامین رشید عبارت ہیں۔ ساتھ ہی خنداں کے مضامین میں موضوع سے ہٹ جانے بے جا تکرار و طوالت اور پھیکا پن جیسی خامیاں کچھ زیادہ نظر آ تی ہیں۔ شاید اس کی وجہ یہ ہو کہ خنداں چو نکہ ریڈیائی مضامین کا مجمو عہ ہے۔لہٰذا بے جا پابندیوں اور اندیشہ ہائے دور دراز کے با عث اس میں وہ بلندی، پختگی، فطری پن اور فنی رچاؤ پیدا نہیں ہو نے پایا جو مضامین رشید میں نظر آ تا ہے۔
رشید احمد صدیقی نے زندگی کے ہر پہلو کو اپنے طنز کا نشانہ بنایا ہے۔ وہ ہر شئے کو معاشرتی ڈھانچے میں دیکھتے ہیں۔ انہوں نے اداروں اور جما عتوں پر نظر معا شرتی پس منظر میں ڈا لی ہے۔ اس طرح ان کے یہاں تمدنی تنقید کے بہترین نمونے ملتے ہیں۔ مشرقی اقدار کو عزیز رکھنے کی وجہ سے انہوں نے مغربی تہذیب پر کڑی چوٹ کی ہے۔ یہاں وہ اکبر سے بہت زیادہ قریب نظر آ تے ہیں۔ زندگی کے ہر پہلو پر وہ تنقیدی نظر ڈالتے ہیں اور پورے خلوص کے ساتھ معاشرتی زندگی کے جھول اور زندگی کے مختلف گوشوں میں پائی جانے وا لی نا ہمواری کو دور کرنا چاہتے ہیں ۔ان کی تمدنی تنقید کے پیش نظر بہت سے نقا دوں نے انہیں ایک اہم تمدنی نقاد قرارد یا ہے۔
رشید احمد صدیقی کی ایک مخصوص ذہنی سطح ہے جس سے وہ نیچے نہیں اترتے۔ اس لیے ان کے یہاں عام لوگوں کی تسکین ذوق کا سامان کم ہی مل پاتا ہے۔ کیو نکہ ان کا انداززیادہ تر عالمانہ ہو تا ہے ۔چونکہ ان کے طنز و مزاح میں شعر و ادب کے ساتھ ساتھ سیاست، تاریخ اور دیگر علوم و فنون کا امتزاج ہو تا ہے۔ اس لیے ان سے وہی شخص محظوظ ہو سکتا ہے جو نکھرے ہو ئے مذاق کے ساتھ ساتھ اردو کے ادبی پس منظر سے واقف اور با شعور ہو۔ان کے فن کے مخصوص دائرے تک محدود ہونے کی وجہ ان کا مخصوص مقامی رنگ بھی ہے جو ان کی علی گڑھ سے جذباتی وا بستگی کا وجہ سے پیدا ہوا ہے۔ رشید احمد صدیقی کے لیے علی گڑھ بہشت بریں سے کم نہیں۔ وہ ان کی زندگی کا آئیڈیل ہے۔ دنیا کے کسی خطے کا ذکر ہو، بات علی گڑھ تک ضرور پہنچ جائے گی۔ ان کی شخصیت کی تشکیل میں علی گڑھ کا ہا تھ تھا اور ان کے ذہن پر اس شہر علم و فن کے اثرات اتنے گہرے تھے کہ زندگی کی آ خری سانسوں تک اس میں کمی نہیں آ ئی۔ ان کی تحریروں میں علی گڑھ اپنی مخصوص روایات کے ساتھ ہر جگہ موجود نظر آ تا ہے۔ علی گڑھ کی اس وابستگی و وارفتگی کی وجہ سے کسی نے انہیں’’محرک علی گڑھ‘‘ قرار دیا ہے۔ ان کی علی گڑھ سے اس جذباتی وابستگی کو بعض نقادوں نے ان کے فن کے لیے نیک فعل قرار دیا ہے۔
لیکن زیادہ تر نقادوں کا یہ خیال ہے کہ علی گڑھ کی وابستگی ان کی نظر کی حد بن گئی ہے جو ان کے فنی افق کو وسیع ہونے سے روک دیتی ہے۔انہوں نے اپنے فن کو علی گڑھ مارکہ بنا کر اسے محدود کردیا ہے۔ ان کے طنز کی واقعیت کو وہی شخص محسوس کرسکتا ہے جو علی گڑھ کے شب و روز اور وہاں کی مخصوص روایات سے واقف ہو۔ اس محدود رنگ کے با وجود ان کی عظمت اپنی جگہ مسلم ہے۔ علی گڑھ کسی مخصوص مقام کا نام نہیں وہ چند روایات اور ذہنی رویوں کی علا مت ہے۔ رشید صاحب نے اسے علا مت بنا کر زندگی کی مختلف قدروں اور تہذیبی روا یتوں کے نقوش ابھا رے ہیں اور اپنے اسلوب، ادبی اشاروں، بلاغت اور اپنی سنجیدہ اقدار پر مضبوط پکڑ کے باعث طنز و مزاح کے بڑے نمائندہ بن گئے ہیں۔
٭٭٭
Leave a Reply
Be the First to Comment!