انجم عثمانی کے افسانوں میں قصباتی زندگی کی عکاسی
ڈاکٹر عزیر احمد
اسسٹنٹ پروفیسر، اسلام پور کالج، اسلام پور، مغربی بنگال
ہم عصر افسانہ نگاروں میں جن لوگوں نے قصباتی زندگی کو اپنے افسانوں میں جگہ دی ہے ان میں ایک اہم نام انجم عثمانی کا بھی ہے۔ ان کے چار افسانوی مجموعے منظر عام پر آچکے ہیں۔ “شب آشنا” 1978، “سفر در سفر” 1984، “ٹھہرے ہوئے لوگ” 1998اور “کہیں کچھ کھو گیا ہے” 2011۔ انجم عثمانی پیشہ سے صحافی ہیں آل انڈیا ریڈیو اور دور درشن سے وابستہ رہے ہیں ان کو معلوم ہے کہ ٹی وی اور ریڈیو میں وقت کی کیا اہمیت ہے ؟ وہ کم سے کم الفاظ میں اپنی بات کہنے کا ہنر جانتے ہیں۔ تین سے چار صفحات میں بہترین سے بہترین افسانے تخلیق کر لیتے ہیں۔ ان کے افسانوں میں اقلیتوں کے مسائل، قصبوں کی ویران حویلیاں، بدلتی قدریں، انسانیت کی پستی ، ٹوٹتے بکھرتے خواب جیسے موضوعات ہیں۔ جدیدیت کے زیر اثر انہوں نے کچھ علامتی افسانے بھی تخلیق کیے ہیں لیکن اچھی بات یہ رہی کہ وہ جدیدیت کی بھول بھلیوں میں گم نہیں ہوئے۔ ان کے علامتی افسانے بھی ترسیلی سطح پر کامیاب ہیں۔
انجم عثمانی کے افسانوں میں دیہات اور شہر کے بیچ کی کڑی “قصباتی زندگی “کی مرقع کشی کے بہترین نمونے دیکھنے کو ملتے ہیں۔ قصبوں کی ویران حویلیاں دراصل ایک خاص قسم کی تہذیب کے زوال کی داستانیں ہیں۔ ان حویلیوں کی بوسیدہ دیواروں میں مکینوں کی عظمت گزشتہ کی داستانیں رقم ہیں۔ “شہر گریہ کا مکین”، “ٹھہرے ہوئے لوگ” ،”ڈھلواں چٹان پر لیٹا ہوا آدمی” سبھی افسانے قصباتی حویلیوں کے ٹوٹنے اور بکھرنے کی کہانی بیان کرتے ہیں۔
“شہر گریہ کا مکین” ایک المیہ کہانی ہے۔ اس افسانے میں فسادات کی تعبیر آندھی سے کی گئی ہے۔ یہ ایک ایسی آندھی ہے جو پہلے ہی شہروں کو اپنے چپیٹ میں لے چکی ہے اب اس کا دائرہ بڑھتے بڑھتے قصبوں اور دیہاتوں تک پہنچ چکا ہے۔ راوی کو خونی آندھی میں ماموں کبوتر والے کے مارے جانے پر افسوس کے ساتھ تعجب بھی ہوا کہ وہ تو میلاد کے ساتھ رام لیلا بھی کھیلا کرتے تھے۔ اس کو اس بات پر حیرت ہے کہ ایسی گنگا جمنی روایت کے امین کو کوئی کیوں کر نقصان پہنچا سکتا ہے؟ آدھے ادھورے مکالمے خوف کی اس شدت کو ظاہر کرتے ہیں جو طویل اور تفصیلی مکالموں کے ذریعہ ممکن نہیں ہے:
“کیا ہوا تھا ماموں کو “اس کے رندھے گلے سے آواز نکلی ۔
“بیٹا وہ آندھی۔۔۔۔”
“یہاں بھی ۔۔۔”
ہاں بیٹا اب تو یہاں بھی ۔۔۔”
“ماموں تو رام لیلا ۔۔۔”
ہاں، بیٹا پھر بھی ۔۔۔اچھا ہوا تو آگیا کم از کم اپنے گھر ۔۔۔۔”
سب کے چہرے زرد تھے، عصر کا وقت تھا، سب ہی ماموں کے جنازے میں شرکت کے لیے جانا چاہتے تھے ۔
“گھر کو اکیلا چھوڑنا ٹھیک نہیں ۔”ماں بولی
“کسی کو گھر میں ہونا چاہیے ۔ آج کل حالات ۔۔۔”
میں رہ جاتا ہوں گھر پر آپ سب ہوآئیے ۔”
وہ جلدی سے بولا ، اتنی جلدی سے کہ اس سے پہلے کوئی اور نہ بول پڑے”
(شہر گریہ کا مکین : مجموعہ: ٹھہرے ہوئے لوگ، ص 23)
“یہاں بھی ۔۔۔” اور “ماموں تو رام لیلا ۔۔۔” جیسے جملے یہ بتاتے ہیں کہ راوی کو فسادات کی آگ شہر سے آگے بڑھ کر دیہات تک پہنچنے پر افسوس کے ساتھ تعجب بھی ہورہا ہے۔ اس سے زیادہ تعجب تو اس پر ہورہا ہے کہ ماموں کبوتر والے تو ہندومسلم دونوں کے چہیتے تھے۔ شادی بیاہ یا تیوہار کسی کا بھی ہو ماموں سب میں شریک ہوتے تھے۔ ان کی شہادت یہ بتانے کے لیے کافی ہے کہ فرقہ پرست ایسے لوگوں کو بھی اپنے لیے خطرہ سمجھتے ہیں۔
راوی کے علاوہ باقی سبھی لوگ کبوتر والے ماموں کے جنازے میں جاتے ہیں لیکن کوئی بھی واپس نہیں آتا قصبے کا بڑا مکان جس میں لائٹ نہیں ہے لالٹین روشن کی جاتی ہیں۔ لالٹین بھی بھبھکنے لگتی ہے۔ راوی اس کو بچانے کی کوشش کرتا ہے اس کو بار بار خیال آتا ہے کہ اب تک تو ان لوگوں کو آجانا چاہیے۔ وہ نہیں آتے ہیں۔ وہ لالٹین لے کر الماری کھول کر کتابیں تلاش کرنے لگتا ہے ۔ دادا جان کے الماری کھولتا ہے اس کو یقین ہوتا ہے کہ یہاں پر تو کتابیں ہونگی۔ کتابوں کی جگہ کئی عددچوہے اس پر گر پڑتے ہیں۔ یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ جہاں پر کتابیں ہونے چاہیے تھے وہاں پر مردے دفن ہیں۔کتابیں تہذیب کی علامت ہوتی ہیں۔ ثقافت کی علامت ہوتی ہیں۔ ان کا غائب ہونا تہذیب ثقافت کے خاتمے کی علامت ہے۔ راوی لالٹین لے کے دروازے پر بیٹھ جاتا ہے۔ کوشش کرتا ہے کہ اس کی لو نہ بجھے۔ یہ لوامید کی بھی ہو سکتی ہے کہ شہر میں امن و امان قائم ہو گا۔ قصبوں میں امن و امان قائم ہو گا۔ اور یہ لو اس اُمید کی بھی ہے کہ جو لوگ جنازے میں گئے ہیں زندہ واپس آجائیں گے۔ لیکن اس کی یہ ساری کوششیں رائیگاں چلی جاتی ہیں اور کہانی ایک ایسے المیہ پر ختم ہوتی ہے کہ قاری دیر تک خود کو اس ڈراؤنی فضامیں گھرا ہوا محسوس کرتا ہے۔ فرقہ وارانہ فسادات پورے ہندوستان میں ہوتے رہتے ہیں۔ اس کا شکار عموماً نہتے اور معصوم ہوگ ہوتے ہیں۔ یہاں اس افسانے میں راوی کی زبانی افسانہ نگار نے کچھ ایسے معصوم سوالات کھڑے کیے ہیں جو واقعی قاری کو سوچنے پر مجبور کرتے ہیں۔
“افسانہ ٹھہرے ہوئے لوگ” دراصل قصباتی زندگی اور شہری زندگی کا ایک بہترین موازنہ ہے۔ راوی شہر کی بھاگتی دوڑتی زندگی کے مقابلے گاؤں اور قصبے کی زندگی کو ٹھہری ہوئی زندگی اور وہاں کے رہنے والوں کو ٹھہرے ہوئے لوگ قرار دیتا ہے۔ افسانےکا یہ حصہ ہمیں یہ بتلاتا ہے کہ گاؤں کی ٹھیری ہوئی زندگی میں کچھ قدریں بھی ہیں جن کی حفاظت کرنے والے آج بھی زندہ ہیں۔ راوی جب لڑکی کو یہ کہہ کر شہر چلنے کو کہتا ہے کہ تم تو یونی ورسٹی میں پڑھ کر آئی ہو۔ اس پچھڑے علاقے میں کیا کروگی؟ میرے ساتھ تم بھی اسی تیز رفتار زندگی کا حصہ بن جاؤ۔ تو وہ کہتی ہے:
” ٹھیک ہے جاؤ کتابیں پڑھو، کچھ دن بعد تم بھی کتابیں لکھ ڈالو تاکہ دوسرے پڑھیں۔ کامن روم میں لڑکیوں کی سماجی برابری، ادب کے جمود، انسان کی تنہائی، سیکس کے موضوعات پر سگریٹ کا تلخ دھواں چھوڑتے ہوئے بحثیں کرو۔ تاکہ انسانی الجھنیں سلجھ سکیں۔ بھلے ہی حویلی کے منڈیر پر جمی کائی اور گہری ہوتی رہے۔ اونچی اونچی چھتوں پر مکڑیوں کے جالے لپٹے رہیں اور ایک دن دیمک اس ساری حویلی کوزمیں دوز کردے۔ لیکن تمہیں اس سے کیا ؟ تمھیں تو دنیا کے مسائل سلجھانے ہیں۔ اس حویلی کی پامال ہوتی روایات، پاسداری ، اور وضع داری سے تمھیں کیا مطلب میں؟ تمھیں تو ایک وسیع تیز رفتار دنیا چاہیے۔ جس کے چاروں طرف کوئی دیوار نہ ہو۔ جو چاہے جب چاہے جلائے۔
کچھ دیر رک کر اس نے پھر کہنا شروع کیا مگر میں، میری دنیا یہی ہے۔ مجھے یہیں اسی دنیا میں مہندی کے ا سی درخت کو پانی دینا ہے۔ حویلی کے کھنڈر کو صاف کرنا ہے۔تاکہ باہر کی تازہ ہوائیں آسکیں۔۔۔۔اور سوچو ہم بھی چلے گئے تو کھائی اور گہری ہوتی جائے گی۔تم اور ہم سب کتابوں کے بے جان صفحوں میں نئی زندگی کی تلاش میں بھٹکتے رہیں گے۔ کوئی نئی تعمیر نہ ہو پائے گی۔ اور یہ حویلی کھنڈر بن جائے گی”
(ٹھہرے ہوئے لوگ)
تعلیم کا مقصد یہ نہیں ہے کہ شہر میں جاکر جو کچھ تعلیم حاصل کی جائے اس کا ثمرہ بھی شہر کودے دیا جائے۔ شہر سے جو کچھ سیکھ کر آئیں اس کو ہم گاؤں دیہات اور قصبوں کی تعمیر میں بھی لگائیں۔ اگر یوں ہی لوگ دیہاتوں اور قصبوں سے نکل کر شہروں میں جائیں گے اور پھر کبھی نہ لوٹیں گے تو یہ عمارتیں زمیں بوس ہوجائیں گی۔ شہروں کو اسی طرح خام مال ملتا رہے گا اور گاؤں کی جھولی ہمیشہ خالی رہے گی۔ حویلی کی منڈیر پر جمی کائی کے اور گہرے ہونے کا خوف، اور مکڑیوں کے جالے اور دیمکوں کا خوف دراصل اس بات کے لیے ہے کہ اپنی جڑوں کو چھوڑنے کے بعد ہماری اصل فنا ہوجائے گی۔ تعلیم وتعلم ایک اہم چیز ہے۔ اس کی اپنی اہمیت ہے لیکن پرانی روایات اور اس سے جڑی چیزوں کی حفاظت اور اس کو آگے بڑھانے کی ذمہ داری نئی نسل کے کندھوں پر ہے جسے نئی نسل کو نظر انداز نہیں کرنا چاہئے۔
شخصی خاکہنام: انجمقلمی نام: انجم عثمانیپیدائش: 8، اکتوبر 1952افسانوی مجموعے:شب آشنا 1978سفر در سفر 1984ٹھہرے ہوئے لوگ 1998کہیں کچھ کھوگیا ہے 2011پیشہ: ریڈیو اور ٹیلی ویژن سے وابستگی (فی الحال سبکدوش)موجودہ پتہ:C-222، فلیٹ نمبر 3، دوسری منزل، اوکھلا وہار، جامعہ نگر، نئی دہلی۔ 110025 |
“گھنٹی والے بابا “انجم عثمانی کا ایک شاہکار افسانہ ہے۔ گاؤں دیہات میں خاص خاص مواقع پر گھنٹی بجانے کی روایت رہی ہے۔ اسی گھنٹی کی آواز سے عید کی اطلاع ملتی تھی۔ اسی سے کسی کی میت یا کسی حادثہ کی اطلاع ملا کرتی تھی۔ یہ قصباتی زندگی کا ایک لاؤڈ اسپیکر ہوا کرتا تھا جسے لوگوں کو اکٹھا کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا تھا۔ دیہات میں اب بھی بہت سے لوگوں کا ماننا ہے کہ اگر مرغ باگ نہ دے تو صبح نہیں ہوگی۔ اسی طرح گھنٹی والے بابا کی گھنٹی کے بارے میں بھی راوی کا خیال ہے کہ اگر وہ نہ بجے تو زندگی کے معمولات رک جائیں گے۔ راوی کا معصوم ذہن یہی سوچتا تھا کہ عید اسی گھنٹے کے بجانے سے ہوتی ہے۔ اگر گھنٹی والے بابا سال میں ایک سے زیادہ مرتبہ گھنٹی بجا دیا کریں تو عید بھی ایک سے زائد مرتبہ ہوجائے۔
راوی کا خیال ہے کہ گھنٹی والے بابا کی گھنٹی کی آواز بھی مختلف ہوا کرتی تھی۔ صرف گھنٹی کی آواز سن کر معلوم ہو جاتا کہ خوشی کا اعلان ہے یا غمی کا۔ عید کے موقع پر گھنٹی کی آواز سن کر گھر قصبہ کا ماحول کیسا ہو جاتا تھا۔ انجم عثمانی کی زبانی سنیں:
” ۔۔۔جب عمارت کی چھتوں سے لوگ رات کو آسمان پر چاند ایسے تلاش کرتے جیسے کوئی ہوئی اولاد کو یا انجانے صحرا میں بھٹکا ہوا پیاسا پانی کو، اس رات بابا زینہ اندر سے بند نہ کرتے اور آبادی کے نہ جانے کتنے لوگ جن میں بچوں کی تعداد زیادہ ہوتی گھنٹے کے اردگرد جمع ہوجاتے اور باری باری سے موسلی ہاتھ میں لے کر گھنٹہ پیٹتے چنانچہ بہت دیر تک گھنٹہ رک رک کر بجتا رہتا اور ولولہ انگیز موسیقی کا لطف دیتا اس رات گجر کی آواز سے بستی کا چپہ چپہ گونجنے لگتا بازاروں اور گلیوں محلوں میں لوگوں کی چہل پہل پڑھ جاتی پڑھی جاتی ۔ بچے اپنے نئے کپڑوں اور شیرینی کے لیے مچلنے لگتے عورتیں زور زور سے باتیں کرتی ہوئی گھروں کے کام جلدی جلدی نپٹانے لگتیں۔ دالانوں اور باورچی خانوں میں چوڑیوں کی کھنک گونجنے لگتی چاند آسمان سے اتر کر ہونٹوں پر مسکن بنا لیتا ۔کچی چھتوں کے نیچے رہنے والے معصوم اپنے آنسو پونچھ ڈالتے۔ اور مسکراہٹوں کے اس جھرمٹ میں جگہ بنانے لگتے جس سے وہ سارے سال محروم رہتے یا رکھے جاتے تھے ۔ ہم بھی اس مجمع میں شامل ہوتے اور گھنٹہ بجا کر محسوس کرتے آج کا چاند ہماری ہی وجہ سے نکلا ہے”
(گھنٹہ والا بابا)
افسانہ نگار کا کمال یہ ہے کہ اس نے پوری قصباتی زندگی کو اسی ایک گھنٹے کے گرد اس طرح جمع کر دیا ہے کہ قصبے کی پوری فضا آنکھوں کے سامنے آجاتی ہے۔ خاص طور پر عید کے موقع پر گھنٹے کی آواز اور اس کے نتیجے میں قصبے کی چہل پہل ، قصبے کی عورتوں کا رویہ وغیرہ اس طرح بیان کیا ہے کہ جیسے سبھی چیزیں سوئی ہوئی تھیں گھنٹے کی آواز سنتے ہی اچانک بیدار ہوگئیں۔ راوی کو چاند کی رات کی خوشی اور بھی ہے۔ وہ یہ کہ اس دن بے روک ٹوک کوئی بھی گھنٹہ بجا سکتا ہے۔ اس دن کے علاوہ کسی اور دن ہر خاص و عام کو گھنٹہ بجانے کی اجازت نہیں تھی۔ جس کو بچے حسرت بھری نظروں سے دیکھا کرتے تھے جس کے بارے میں ان کا گمان تھا کہ دنیا کا سارا کاروبار اسی گھنٹہ کے بجنے سے چلتا ہے گھنٹہ بجاتے ہوئے بچوں کو یہ احساس ہوتا تھا کہ اس مرتبہ کی عید ان کی بدولت ہی ہوئی ہے۔
افسانہ نگار نے یہ دکھانے کی کوشش کی ہے کہ دنیا کا کاروبار کسی ایک کی وجہ سے نہیں رکتا ہے۔ زندگی کی گاڑی چلتی رہتی ہے۔ آج گھنٹہ والے بابا گئے ہیں کل میری بار بھی ہوسکتی ہے۔ لیکن دنیا کسی ایک کی وجہ سے نہیں رکے گی۔ جس طرح گھنٹے کی آواز بابا کے مرنے کے بعد بھی آتی رہی۔
انجم عثمانی کا تعلق علما برادری سے ہے علم کی نگری دیوبند سے ان کا تعلق ہے جو خود ایک قصبہ ہے۔ غالباً یہی وجہ سے کہ ان کے افسانوں میں قصبوں کی بازگشت بڑی شدت سے سنائی دیتی ہے۔
پروفیسر گوپی چند نارنگ انجم عثمانی کی افسانہ نگاری پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھتے ہیں :
“انجم عثمانی کی اپنی تخلیقی شناخت تہذیبی کرائسس مسلمان متوسط طبقے کی معاشرت کی فضا سازی اور اقلیتی معاملات و مسائل کی دردمندی سے قائم کرتے ہیں تاہم ان کی بعض کہانیوں میں مولسری کا ایک پیڑ بھی ہوتا ہے جس کی رنگت اور بھینی بھینی بو سے گھر اور کبھی کبھی پورا معاشرتی وجود مہک اٹھتا ہے۔ غالباً یہ بچے بوڑھے لڑکے لڑکیوں یا ادھیڑ عمر کی عورتوں کا معاشرتی اندرون بھی ہے جہاں گھر آنگن کی چہار دیواری کی چہچہاہٹ گھریلو پیار و محبت کی اپنائیت ہے کہیں کہیں جنس کی دبی دبی چنگاری بھی ہے لیکن وہ شعلہ نہیں بنتی بلکہ ارتفاعی طور پر ماں کے دست شفقت میں ڈھل جاتی ہے شاید یہ کیفیت بھی اس بنیادی معاشرتی منظر نامے کا ایک حصہ ہے جو کرائسس سے دوچار ہے۔ لیکن زندگی تو زندگی ہے جہاں بھی موقع ملتا ہے یہ لو دینے لگتی ہے اور دمک اٹھتی ہے۔ فنکار کا ایک کام یہ بھی تو ہے کہ درد کے دشت سے گزرتے ہوئے بشارت کی آواز پر بھی نظر رکھے”
مجموعی طور پر انجم عثمانی کے افسانے گاؤں اور شہر کے بیچ کی ایک کڑی قصباتی زندگی کی عکاسی پر منحصر ہیں۔ انہوں نے قصباتی زندگی اور وہاں کے معاشرے کو اپنے افسانے کا موضوع بنایا۔ اگرچہ ان کے افسانوں میں دیہات نہیں لیکن انہوں نے قصباتی زندگی کے حوالے سے جو کچھ بھی بیان کیا ہے وہ دیہی زندگی پر بھی صادق آتا ہے۔
٭٭٭
Leave a Reply
Be the First to Comment!