وادیِ کشمیر میں اردو افسانے کی موجودہ صوت حال ـ نمائندہ افسانہ نگاروں کے حوالے سے

ڈاکٹر فلک فیروز (اسسٹنٹ پروفیسر محکمہ اعلیٰ تعلیم ریاست جموں و کشمیر )
falakfayrooz@gmail.com
8825001337
پتہ :میر محلہ ۔حاجن ۔ضلع بانڈی پورہ ۔جموں کشمیر۔193501
معاون مقالہ نگار:
عرفان رشید
(ریسرچ اسکالر شعبہ اردو کشمیر یونی ورسٹی )
irfanrasheedf@gmail.com
9622701103
پتہ : حاجن سوناواری کوچک محلہ ،بانڈی پورہ کشمیر ۔193501

Wadi-e-Kashmir Mein Urdu Afsana
by: Dr. Falak Fayrooz
Irfan Rasheed

ریاست جموں و کشمیر میں فکشن کی ایک مستحکم اور شاندار تاریخ رہی ہے بالخصوص فنِ افسانہ نگاری کی۔ادبی تاریخ کا مطالعہ ہمیں یہ بیاتا ہے کہ ریاست میں ایسے افسانہ نگار بھی سامنے آئے ہیں جنہوں نے اس صنف میں قومی سطح کے ادبی منظر نامے پر ایک گہری چھاپ قائم کی ہے ۔جن میں محمد دین فوق ،پریم ناتھ پردیسی پریم ناتھ در،تیرتھ کاشمیری،سوم ناتھ ذتشی ،علی محمد لون ،قدرت اﷲ شہاب،ٹھاکر پونچھی،پشکر ناتھ ،نور شاہ حامدی کاشمیری،وریندر پٹھواری،آنند لہر،دیپک بد کی، وحشی سعید،غلام نبی شاہد، ترنم ریاض ،ریاض تو حیدی وغیرہ قابلِ ذکر ہیں ۔
معاصر فکشن کی صورت حال کے تناظر میں راقم نے اپنے مقالے کا موضوع ’’کشمیر میں اردو افسانے کی موجودہ صورت حال ‘‘ کا انتخاب کیا ۔اس مقالے میں نمائندہ افسانہ نگاروں کی تخلیقات کے آیئنے میں بات کر کے اس بات کا تعین کرنے کی کوشش کی جائے گی کہ کس حد تک کشمیر میں اردو افسانے کی موجودہ صورت حال تشفی بخش ہے ۔
نور شاہ اردو افسانے کا ایک اہم باب ہے جنہوں نے ۱۹۶۰ ء کے آس پاس اپنے ادبی سفر کی شروعات کی۔تاحال ان کے نو افسانوی مجموعے بے گھاٹ کی ناو،ویرانے کے پھول،من کا آنگن اداس اداس ،ایک رات کی ملکہ،گیلے پھتروں کی مہک،بے ثمر سچ ،آسمان پھول اور لہو،کشمیر کہانی اور ایک معمولی آدمی منظرِ عام پر آچکے ہیں ۔نورشاہ وادی کے ایسے تخلیق کار ہے جو تخلیقی سطح پر کسی بھی صورت میں قید وبند رہنے کے قائل نہیں ہے ان کے افسانوں میں ہر طرح کے موضو عات دیکھنے کو ملتے ہیں ۔ان کے مجموعے ’’آسمان پھول اور لہو‘‘ میں پہلی کہانی ’’کہانی اور چار کڑیاں ‘‘ایک خوب صورت کہانی ہے جس سے پڑھنے کے بعد قاری ایک گہری سوچ میں پڑ جاتا ہے کیوں کہ یہ ایک علامتی کہانی ہے جس میں افسانہ نگار نے ایک نیم عریاں بکھاری ،ٹین کے شیڈ اور روشن کو علامتی جامہ پہناکر کشمیر کے حالات وواقعات کی بھر پور عکاسی کی ہے ۔کہانی کے موضوع سے اندازہ ہوجاتا ہے کہ چار کڑیاں کشمیر کے چار ادوار کی علامت ہے اور نیم عریاں بکھاری کشمیر کے ظلم وجبر کی علامت ہے اور روشن راوی کا دوست جو ایک حساس ذہن کا مالک ہے سب چیزیں خاموشی سے قلم بند کرتے ہوئے نظر آرہا ہے۔ملاحظہ کیجئے ایک چھوٹا اقتباس :
’’میں پرانے بوسیدہ ٹین کے شیڈ کے سامنے کھڑا ہوں ،کھانے کا برتن ایک کونے میں پڑا ہے لیکن خالی ،بالکل خالی،دھوپ کی تمازت سے اس کا رنگ بگڑ چکا ہے ،سڑک کا بادشاہ کہیں نظر نہیں آرہا ہے ،نیم عریاں بھکاری دکھائی نہیں دے رہا ہے ۔۔۔
شاید آگ کی تپش اسے راکھ بنا چکی ہے اور وہ راکھ سڑک کے گردوغبار میں تحلیل ہوچکی ہے لیکن میں جانتا ہوں کہ میرا مصور دوست اسے اپنی تصویر میں امر کر چکا ہے ۔۔۔تو پھر یہ مٹی آنسوکیوں بہا رہی ہے کس کے لیے ۔۔۔‘‘(افسانہ ’’ایک کہانی چار کڑکیاں‘‘ ص ۱۲)
نور شاہ اگر چہ بہترین افسانہ نگاروں میں شمار کیے جاتے ہیں اور اس حوالے سے مختلف ناقدین ِ ادب نے اپنی اپنی آراپیش کی ہیں ۔لیکن یہ بات بھی وثوق سے کہی جاسکتی ہے کہ ابتدائی دور میں جو کہا نیاں موصوف نے لکھی ہیں ان میں چند ایسی کہانیاں بھی موجود ہیں جو فن پرپوری طرح سے نہیں اترتی ۔ان میں ’’ایک لمبی عمر کی تنہائی ،اور ’’آگے خاموشی ہے ‘‘جیسے افسانے شامل ہیں ۔دونوں کہانیاں کرداروں کے ساتھ متعدد جگہوں پر ناانصافی کر تی ہیں یہاں تک کہ کہانیاں صرف ایک اخباری مراسلہ لگتی ہے ۔
افسانہ ’’ایک لمبی عمر کی تنہائی ‘ ‘میں جہاں پر افسانہ نگار نے ایک کردار زینب کی خودکشی کی خبر دی ہے وہاں پر بآسانی اس کو بچایا بھی جاسکتا تھالیکن تخلیق کا ر نے ایسا نہیں کیا جس سے کہانی کی گرفت کمزور پڑجاتی ہے ۔
اسی طرح سے افسانہ ’’آگے خاموشی ہے‘‘میں بھی اسی نوعیت کی ایک کہانی ہے جس میں مرکزی کردار نوکری نہ ملنے کی وجہ سے پریشان ہوجاتا ہے اور خود کشی کرنے پر تیار ہوجاتاہے حالانکہ وہ خودکشی کرنے میں کامیاب نہیں رہتا بلکہ آخری وقت پر اپنا فیصلہ بدل دیتا ہے ۔اس کہانی میں جو کمزوری قاری کو محسوس ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ ایک نوجوان میں جن اوصاف اور حوصلوں کا ہونا چاہیے تھا وہ نہیں دکھائے گیے ہیں ۔
نورشاہ کے افسانوں میں اگر چہ ابتدائی دور میں فن کی سطح پر کچھ کمزوریاں بھی دیکھنے کو ملتی ہیں لیکن پختگی کے دور تک آتے آتے انہیں فن پر عبور حاصل ہوتا گیا ۔ان کے اسلوب کی ایک اور خوبی یہ بھی ہے کہ ان کے افسانوں میں مقامی رنگ اور فضا نظر آتی ہے اور بعض اوقات فنکارانہ انداز میں یہاں کے صحت افضا مقامات کی عکاسی بھی کرتے ہیں ۔
کشمیر میں اردو افسانے کی تاریخ کا ایک اہم نام وحشی سعید ساحل ہے جن کا افسانوی سفر کم وبیش چالیس سال پر پھیلا ہوا ہے اس دوران ان کے متعدد افسانوی مجموعے شائع ہوئے ۔ان کا پہلا افسانوی مجموعہ ’’سڑک واپس جارہی ہے ‘‘ کے نام سے منظرِ عام پر آیا۔دوسرا افسانوی مجموعہ ’’کنوارے الفاظ کا جزیرہ‘‘ اور ’’سڑک جارہی ہے‘‘جیسے افسانوی مجموعے شائع ہوئے ہیں ۔ادبی حلقوں میں یہ بات مشہور ہے کہ وحشی سعید نے کچھ سال ادبی دنیا سے سنیاس لیا ۔اس کا جواب وحشی سعید نے کچھ یوں دیا ہے:
’’میں گزشتہ چالیس برسوں سے ریاست جموں وکشمیر کے افسانوی ادب سے وابستہ ہوں ۔۔۔اپنی دوسری مصروفیات کی وجہ سے افسانوں کی دنیا سے دور چلا گیا لیکن اس دوران بھی افسانہ میرے ذہن میں پنپتا رہا ۔میرے قلم کو قوت بخشتا رہا اور جب میں لوٹ کر آیا تو مجھے یہ جان کر بے حد مسرت ہوئی کہ نہ صرف ماضی میں میرے پڑھنے والوں نے میرا استقبال کیا بلکہ نئی نسل بھی میرے نام سے نا واقف نہ تھی ۔میں سمجھتا ہوں کہ ایک کہانی نگار کے لیے یہ سب سے اہم اور بڑا انعام ہے ۔
’’ارسطو کی واپسی ‘‘پیش ِ خدمت ہے ۔اس تعلق سے یہ کہنا چاہوں گا کہ اس میں آپ کو چالیس سال قبل کا وحشی سعید اور آج کا وحشی سعید دونوں نظر آئیں گے‘‘۔(ارسطو کی واپسی ،وحشی سعید ،ص ۶)
ان کی ایک مشہور کہانی ’’بھنگی ‘‘کرشن چندر کے شہکار افسانے ’’کالوبھنگی ‘‘کی یاد کو تازہ کرتی ہے لیکن کرشن چندر کے ’’کالو بھنگی ‘‘اور وحشی سعید کے ’’صمد بھنگی ‘‘ میں زمین آسمان کا فرق دیکھنے کو ملتا ہے۔’’کالو بھنگی ‘‘ کی آخری خواہش تھی کہ ان کے اوپر کوئی کہانی لکھ ڈالے اورگائے تک ان کی دنیا محدود تھی ازدواجی زندگی کا تو سوال ہی نہیں ۔لیکن’’صمد بھنگی ‘‘کی دنیا آباد تھی اور ان کی ایک ہی خواہش تھی کہ ان کے ہا ں ایک خو ب صورت بیٹا پیدا ہو۔ جو بڑا ہو کر ایک کامیاب بزنس مین بنے۔
’’نہیں بابو !وہ بھنگی نہیں بنے گا ۔ وہ آپ کی طرح بہت بڑا آدمی بنے گا ۔ میں اس کو خوب پڑھاؤں گا ــ‘‘
میری ذاتی رائے کے مطابق وحشی سعید کا ’’بھنگی ‘‘کرشن چندر کے ’’کالو بھنگی ‘‘سے کئی معنوں میں اچھا افسانہ ہے ۔پہلے ہی اقتباس سے قاری سوچنے پر مجبور ہوجاتا ہے کہ شاید میں ’’کالوبھنگی کا دوسرا پاٹ ــــ‘‘پڑھنے جا رہا ہوں ۔ملاحظہ کیجئے پہلا اقتباس :
’’بھنگی کا لفظ جب زبان پر آتا ہے تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ ہونٹوں تک ایک گالی چلی آئی ہیں ۔اگر میں نے ا ردو زبان کی لغات کو مرتب کیا ہوتا تو اس لفظ کو کبھی شامل نہ کرتا ۔۔۔جب بھی میں لال چوک کی سڑک سے ٹانگے پر سوار گھر کی طرف جاتا تو کسی نہ کسی بنگھی کو سڑک صاف کرتے ہوئے دیکھتا ۔ایسے لمحات پر اکثر آدمیوں کے منہ لٹک جاتے ہیں ۔تب میرا دل چیخنے لگتا اور میں خود سے کہتا ’’اٹھو لفظوں کا
گندہ لحاف اتار پھینک دو‘‘(ارسطو کی واپسی ،ص ۴۸)
وحشی سعید کے اس افسانے کو پڑ ھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ کس طرح سے یہ انسانوں کے ساتھ ہمدردی کرنے کے علاوہ ایک سماجی اصلاح کار بننا چاہتے ہیں ۔لیکن سماجی جبر کا آہنی پنجہ اس کی اجازت نہیں دیتا۔
وحشی سعید کو فن پر اچھی خاصی دسترس حاصل ہے ان کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ ضخامت کے اعتبار سے مختصر سے مختصرافسانہ لکھ سکتے ہیں جس میں پلاٹ کی سطح پر کوئی کمی نظر نہیں آتی ہے ۔بلکہ بعض اوقات پلاٹ کی ایسی ترتیب عمل میں لاتے ہیں کہ قاری حیرت میں پڑجاتا ہے ۔نیز واقعات کی ترتیب کے عمل میں وحشی سعید قاری کو ساتھ ساتھ آگے بڑھاتے ہیں اور کہیں سطحوں پر قاری کے دل کی بات کہ لیتے ہیں ۔افسانہ ’’عورت اور مچھلی ‘‘اسی نوعیت کی کہانی ہے جس میں افسانہ نگار نے مچھلی کے سڈول جسم کو عورت کے سڈول جسم سے تشبیہ دی ہے کہانی میں مرد اساس سماج کی اس جبری حالت کو بیان کیا گیا ہے جو عورتوں پر روا رکھی جاتی ہے ساتھ ہی اس افسانے میں عورت کے صنفی جذبات کو ابھارا گیا ہے کہ جن کی وقت پر اگر تکمیل نہ کی گئی تو ایک انتشار پیدا ہو سکتا ہے :
’’کلو رام نے بیس ہزار کے اس خریدے ہوئے غلام کی آمدنی میں آسانی سے زندگی بسر کرنے کا فیصلہ کر لیا ۔۔۔لیکن سکھی عورت تھی ۔۔۔پیا ر کی متلاشی۔۔۔لیکن وہ اس کو نہ ملا ۔وہ ایسے سماج ،ایسی رسموں اور ایسے مردوں کے چنگلوں سے آزاد ہو کر آزاد فضا میں سانس لینا چاہتی تھی ،اس میں بغاوت کا عنصر پل رہا تھا۔‘‘(حوالہ ا:عورت اور مچھلی،مشمولہ سڑک جارہی ہے ،ص ۱۲۸)
وحشی سعید زندگی کے معمولی سے معمولی مسئلے کو بھی بہترین طریقے سے کہانی بنانے کا ہنر رکھتے ہیں اور غیر معمولی واقعات کو بھی فنکارانہ انداز میں بیان کرنا جانتے ہیں ۔’’ارسطو کی واپسی ‘‘ اسی نوعیت کی ایک بہترین کہانی ہے جس میں انسانی اقدار کی پامالی کا رونا رویا گیا ہے ۔ایسے واقعات نہ جانے روزانہ بنیادوں پر فلستین اور کشمیر میں کتنے ہوتے رہتے ہیں ۔کہانی کا یہ خوب صورت اقتباس دیکھئے جس سے موجودہ صورت حال کی عکاسی ہوتی ہے :
’’وہ عام شہری جس کو فوجیوں نے بکتر بند گاڈی کے سامنے والے حصے پر باندھ لیا تھا ،اس سے سنسان شہر کی سنسان گلیوں اور سڑکوں پر گما رہے تھے ۔وہ فوجی اپنی اس فتح پر ناچ ترہے تھے ۔بگل بجا بجا کر جیت کا اعلان کر رہے تھے ۔۔۔وہ صبح بھی کالی تھی وہ شام بھی سیاہ تھی جس نے ایک عام شہری کو انسانی سپر بنتے ہوئے دیکھا ۔جس فوجی نے انسانیت کو پامال کیا اس فوجی کو اس کے کمانڈر نے بہادری کے تمغے سے نوازا ۔‘‘(حوالہ :ارسطو کی واپسی ،ص ۲۶۔۲۷)
ریاست جموں و کشمیر میں مز احمتی ادب کی تاریخ میں کچھ اہم افسانہ نگار اہمیت کے حامل ہیں جن میں غلام نبی شاہد ،منصور احمد منصور ،ریاض توحیدی ،قابلِ ذکر ہیں ۔غلام نبی شاہد کا افسانوی مجموعہ ’’اعلان جاری ہے ‘‘جو مختلف ۲۳ کہانیوں پر مشتمل ہیں بیشتر کہانیاں کشمیر میں ہو رہے جبر و ظلم کی داستان ہے ۔خاص طور سے افسانہ ’’آجادی ‘‘ جس میں ایک معصوم بچے کا جواب سن کر ڈیوٹی پر تعینات فوجی سریندر دیکھتا ہی رہ جاتا ہے :
’’سریندر یہ سب دیکھ رہا تھا ۔وہ آگے بڑھا اور جیب سے دس روپیہ کا نوٹ نکال کر محی الدین کے ہاتھ میں تھما دیا اور سامنے سے ایک چپس کا پیکٹ اٹھاکر بچے کے قریب آگیا اور چپس کا پیکٹ بچے کے ہاتھوں میں تھمتے ہوئے بولا ۔یہ لو اب تو چپ ہو جاو ۔۔۔چپس کا پیکٹ لے کر بچہ فوراً چپ ہو گیا ۔سریندر بچے کو خاموشی سے دیکھتا رہا پھر قدرے اطمنان سے پوچھا ۔’’شاباش ۔۔۔اب بو لو اور کیا چاہیے ‘‘بچے نے چپس کے پیکٹ سے کھیلتے ہوئے اسی اطمنان سے جواب دیا ۔۔۔’’آجادی‘‘۔‘‘(حوالہ ،آجادی ،اعلان جاری ہے ،ص ۵۵۔۵۴)
اسی طرح کی مختلف کہانیاں ان کے افسانوی مجموعے میں شامل ہیں ۔یہ بات تو صاف ظاہر ہے کہ غلام نبی شاہد کے سبھی افسانے کشمیر سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان کے افسانوں میں گولیوں ،بم دھماکوں ،چھاپہ ماریوں ،تلاشیوں ،شناختی پریڈوں ،پولیس حراستوں ،حراستی ہلاکتوں اور غائب نوجوانوں کی روداد قلم بند کی گئی ہے ۔کہیں کہیں استعاروں اور علامتوں جیسے کتوں ،ابابیلوں وغیرہ کے ذریعے بھی اپنا مدعا پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے ۔
منصور احمد منصور کشمیر میں اردو افسانے کا اہم نام ہے ’’یہ بستی عذابوں کی ‘‘ ان کا افسانوی مجموعہ ہے جس میں ۱۴ افسانے شامل ہیں ۔بیشتر افسانوں کا محو ر ومرکز کشمیر ہے ۔ان کے یہاں بعض اوقات داستانوی فضا اور دیو مالائی اساطیر کا استعمال دیکھنے کو ملتا ہے ۔منصور احمد منصور کا تخلیقی کینواس نہایت وسیع اور گنجلک ہے ایک عام قاری ان کے ساتھ انصاف نہیں کر سکتا ہے اور نہ ہی موضوع کے بنیادی کریکس تک رسائی حاصل کر سکتا ہے ۔ان کے افسانوں میں بعض اوقات ایسے مقامات سامنے آتے ہیں جہاں سے قاری بھاگنے کی کوشش کرتا ہے لیکن ایک باذوق قاری ان کے افسانوں میں تخلیقی سطح پر خیالات کے دریا میں بہتا چلا جاتا ہے کیوں کی اس سے یہ علم بخوبی ہوتا ہے کہ مصنف ناخدا بن کر مجھے بنور سے بہ حفاظت منزل تک پہنچائے گا۔ مصنف کی افسانوی بوطیقا انتظار حسین کی طرح مختلف النوا ع حیثیت رکھتی ہے جہاں مختلف علامتیں استعمال میں لائی جاتی ہیں اس تعلق سے اقتباس پیشِ خدمت ہے :
’’اس شہر کے بیچوں وبیچ ایک بڑی شاہراہ ہے جو شاہراہ ستم کہلاتی ۔یہ شہر کی قابلِ دید شاہراہ ہے ۔اس شاہراہ پر خواجہ سگ پرست کی حکمرانی ہے اس لیے آدمی قید میں ہیں اور کتے آزاد ۔شاہراہ ستم کے ایک طرف آہنی پنجرہ ہے جس میں پیروجوان قید ہیں ۔ــ‘‘ (حوالہ :یہ بستی عذابوں کی ،ص ۱۰۷۔۱۰۸)
برِ صغیر کے ادبی افق پر جو خواتین افسانہ نگار سامنے آئیں ان میں وادی سے تعلق رکھنے والی مشہور افسانہ نگار ترنم ریاض اہم ہے ۔ان کی افسانوی کائنات قدرے مختلف ہے ان کے یہاں ہر قسم کے احساسات ،جذبات ،مشاہدات اور تجربات کی عکاسی نہایت نازک انداز سے ملتی ہے ان کا افسانوی ڈکشن امتزاجی مزاج رکھتا ہے جس میں رومانی فضا بھی نظر آتی ہے دکھ اور غم کی داستان بھی ملتی ہے ۔موضوعاتی تنوع ان کی تخلیقات خاصہ ہے زندگی کے ہر شعبے سے متعلق ان کی تحریریں ملتی ہیں خاص طو ر سے عورتوں کے مسائل کو اپنے افسانوں کا موضوع بناتی ہے ۔عورتوں پر ہو رہے ظلم ،ازدواجی زندگی میں عورتوں کی حد سے زیادہ قربانیاں اس نوعیت کے نازک مسائل ہیں جن کی طرف موصوف نے توجہ دی ہے ۔’’بلبل ‘‘ اسی نوعیت کی ایک کہانی ہے ۔افسانہ’’ رنگ‘‘ میں اقدار کی پامالی کا ذکر ملتا ہے ۔
موجودہ سماج میں خونی رشتوں کے درمیان خونی لکیریں کھینچی گئی ہیں صحت مند سماج کا شیرازہ بکھر رہا ہے ۔یہاں تک کہ بیٹیاں اپنے باپ کی حفاظت میں محفوظ نہیں ۔اسی صورت حال کا تذکرہ ترنم ریاض کے افسانہ ’’باپ ‘‘ میں ملتا ہے ۔باپ جو بہت ڈراونا ہے صرف شراب پیتا رہتا ہے ۔بیوی یعنی بچوں کی امی سے بات نہیں کرتا ۔باپ اپنی لڑکیوں کو بھی نہیں بخشتا ۔ان پر طرح طرح کی نگاہیں ڈالتا ہے :
’’ناظمہ ۔۔۔جب وہ اٹھنے لگی تو باپ نے اس کے شانے کے پیچھے ایک بھاری سی تھپکی دی اور اس کی پوری پیٹھ پر باتھ پھیرا کر اس کے کندے کو انگلیوں اور انگوٹھے کے درمیان زور سے پکڑکر آواز دھیمی کر کے بولا’’آج ہری مرچ نہیں ہے کیا ؟‘‘۔۔۔ناظمہ نے بات کرتے ہوئے کندھا آہستہ سے چھڑا دیا اور اندر جانے لگی ۔باپ کی نگاہیں کبھی کبھی شائستہ کے ننھے سے بدن کا طواف کر کے اس کے بھرے بھرے رخساروں پر ٹھہرجاتیں ۔۔۔ وہ منہ بھر بھر اس کے گالوں کے کئی کئی بوسے بھی لے لیتا ۔۔۔ــ‘‘(حوالہ :ابابیلیں لوٹ آئیں گی،باپ ،ص ۴۸)
افسانے کا کردار باپ کی صورت میں اپنی بیٹیوں کے متعلق کیا خیالات رکھتا ہے ۔اقتباس سے ساری صورت حال واضح ہوجاتی ہے ۔ ’’شہر ‘‘ ان کا مشہور افسانہ ہے جس کے متعلق مصنفہ کی راے ہے کہ’’لکھنے کے بعد میں اس افسانے کو پڑھنے کی جرات نہ کر سکی ‘‘۔یہ افسانہ ایک عجیب فضا پیش کرتا ہے ۔ایک دلدوز کہانی ہے جس میں ایک نوجوان اپنے دو بچوں کے ساتھ شہر کی رونق اور بچوں کے مستقبل کے پیشِ نظر قصبے سے اپنا تبادلہ شہر میں کراتا ہے اور وہاں باقی لوگوں کی طرح شہر کی گہما گہمی میں کھو جاتے ہیں اور اس طرح باقی لو گوں کی طرح نوجوان کے بیوی کے موت کی خبر چودہ منزلہ عمارت میں دفن ہوجاتی ہے ۔
ترنم ریاض اردو افسانے کی تاریخ میں ایک اہم مقام حاصل کر چکی ہے ۔ دلی ،ممبی اور کشمیر کے امتزاجی کلچر کی نمائندہ تصویریں بھی ان کے یہاں نظر آتی ہے کہ سکتے ہیں کہ موصوفہ ریاست جموں و کشمیر کی سب سے اہم خواتین افسانہ نگا ر ہے انہیں اپنی افسانوی کائنات کی بنا پر جو شہرت اردو دنیا میں ملی وہ بعض اعتبار سے قابلِ غور ہے ۔بقولِ نارنگ :
’’ترنم ریاض وادی کشمیر کا گلِ نورس ہے جس نے افسانے کی دنیا میں قدم رکھا ہے جہاں زمین سخت اور آسمان دور ہے ‘‘(بحوالہ :اردو افسانے کے صد رنگ جلوے،ص ۱۹۴)
کشمیر میں معاصر افسانہ نگاروں کی فہرست کافی طویل ہے جن میں ناصر ضمیر ،پرویز مانوس ،مشتاق احمد کینی ،شیخ خالد کرار ،میر ایوب ،مقبول ساحل ،ریاض توحیدی ،طارق شبنم ، راجہ یوسف ،نیلوفر نحوی نازوغیرہ قابلِ ذکر ہیں ۔(فہرست سازی مقصود نہیں ہے )
ریاض توحیدی افسانہ نگاری کی دنیا میں ایک اہم نام ہے جن کے افسانوی مجموعے’’ کالے پیڑوں کا جنگل‘‘اور ’’کالے دیوؤں کا سایہ ‘‘ ہیں ۔ریاض توحیدی سماجی رابطہ گاہوں پر اپنی تخلیقات کو منظرِ عام پر لانے میں اکثر فعال رہتے ہیں ان کے بیشتر افسانے آن لائن جرائد میں چھپتے رہتے ہیں ان کے افسانوں میں ’’کالے دیوؤں کا سایہ ‘‘گمشد ہ قبرستاں ،زہریلے ناخدا ،جنازے ،گل ِقصائی ، چھوڈ دو میں کشمیر کے موجودہ حالات وواقعات کو علامتوں اور استعاروں کے پیش کیاہے۔’’چھوڈ دو ‘‘ ایک کہانی ہے جس میں کشمیر کے ان ہزاروں معصوم لوگوں کی بد نصیبی کی کہانی سترسالہ ضعیف جبار چاچا کے حوالے سے بیان کی گئی ہے جس کا اکلوتا جوان بیٹا اور جوان بیٹی ظلم کا شکار ہو کر موت کا شکار ہو جاتے ہیں اور جبار بھی ان ہزاروں لوگوں کی طرح زندگی گزارنے پر مجبور ہیں جن سے حالات نے ان کی اولاد کو چھین لیا گیا ۔اسی نورعیت کی ایک کہانی ’’کالے دیوؤں کا سایہ ‘‘ایک درد ناک کہانی ہے جس میں افسانہ نگار نے بڑے ہی فنکارانہ انداز میں علامتوں کا سہارا لے کر ہندستانی فوج کے ظلم وتشدد کوعریاں کرنے کی کوشش کی ہے :
’’ سالے ۔۔۔!پیچھے کیوں ہٹے ۔۔۔؟ ان کتوں کو جلدی جلدی یہاں سے ہٹاؤ ،ہوا میں بدبو پھیل رہی ہے ۔۔۔ان۔۔۔ان میں ایک انسانی لاش بھی ہے ۔۔۔۔اس کو بھی یہاں سے دفع کرو اور ان کتوں کے ساتھ کسی نالے میں ڈال ــــ‘‘(حوالہ : کالے دیوؤں کا سایہ ،ص ۴۲)
اس اقتباس سے اندازہ ہوجاتا ہے کہ کالے دیوؤں کی نظر میں وادی کے انسانوں کی value ایک مردے کتے سے بھی بد تر ہے ۔
طارق شبنم موجودہ دور کا ایک اہم افسانہ نگار ہے جو تقریباً ہر ہفتے کشمیر عظمیٰ کے ادب نامہ میں ایک نئی تخلیق کے ساتھ چھپتے ہیں تا حال ان کے افسانوں کے تعداد ایک سو کے قریب ہے جن میں ’’بے درد زمانہ‘‘،اندھیرے اجالے ،اعتبار ،انتظار ،بیس سال بعد،درد کا رشتہ ،بغاوت ،گھر واپسی ،آیئنہ فروش اور دوگز زمین قابلِ ہیں ۔واضح رہے طارق شبنم کا کوئی افسانوی مجموعہ ابھی تک سامنے نہیں آیا ہے ان کی تخلیقات مقامی رنگ سے لے کر آفاقی سطح تک کی ہوتی ہے ۔اپنے زمینی رشتوں سے جڑ کر عصری حقائق کی عکاسی کرنا طارق شبنم کو خوب آتا ہے اپنے افسانہ ’’آیئنہ فروش‘‘میں لکھتے ہیں :
’’آخر کب تک یہ موت اور تباہی کا خونین رقص جاری رہے گا ۔۔۔
سچ یہ ہے آپ نابیناؤں کی نگری کے آئینہ فروش ہو ،جہاں کے راجاؤں کی بینائی مادی مفادات کی بدنما پٹیوں کے تلے دب چکی ہے ‘‘(حوالہ:کشمیر عظمیٰ ۲۳ستمبر ۲۰۱۸)
حاصل کلام یہ کہ کشمیر میں اردو افسانے کا مستقبل روشن اور تابناک ہے جس کو مندر جہ بالاتخلیق کارفروغ بخشنے میں پیش پیش ہے ۔ ٭٭٭

Leave a Reply

Be the First to Comment!

Notify of
avatar
wpDiscuz
Please wait...

Subscribe to our newsletter

Want to be notified when our article is published? Enter your email address and name below to be the first to know.