ماہر غالبیات مالک رام اور تلامذئہ غالب۔۔۔
محمد شاداب شمیم
ریسرچ اسکالر دہلی یونیور سٹی ،دہلی
Mahir-e-Ghalibiyaat Malik Ram aur Talamza-e-Ghalib
by: Mohd Shadab Shamim
یہ حقیقت ہے کہ جب سے دنیا وجود میں آئی ہے،بہتر سے بہتر کی تلاش اور تحقیق وجستجو جاری ہے ،یہ انسانی فطرت کا خاصہ ہے کہ وہ بہتر سے بہتر کی تلاش میں ہمیشہ تگ ودو اور سر گرداں رہتا ہے ،ہر فن اور ہر صنف میں یہ خصوصیت پائی جاتی ہے ،بغیر تحقیق کے کوئی بھی بات قابل قبول نہیں ہوتی ہے ،ہاں اس میں کوئی شک نہیں کہ تحقیق ایک بہت ہی مشکل اور پر خطر راستہ ہے ،تحقیق کے لیے بہت ہی زیادہ محنت اور ریاضت درکار ہوتی ہے ایک ایک واقعہ کو تحقیق کی کسوٹی پر پر کھا جاتا ہے ،یہی وجہ ہے کہ تحقیق کے میدان میں ہر کوئی قدم نہیں رکھ پاتا۔
اردو میں باضابطہ تحقیق کا آغازحافظ محمود شیرانی سے ہوتا ہے ، ان کو تحقیق کا معلم اول کہاجاتا ہے ،انہوں نے ماخذ کی تلاش اور اس کی اہمیت و افادیت پر زور دیا ،ان کے بعد تحقیق کی روایت کونہ صرف یہ کہ قاضی عبد الودود نے آگے بڑھایابلکہ تحقیق کے تقاضوں کو پوراکرتے ہوئے اس کے معیار کو بھی بلند کیا ،اس کے بعد تو کئی لوگ اس میدان میں آئے اور تحقیق و جستجو سے اردو ادب کے سرمایے میں اضافہ تو ضرور کیا لیکن اردو محققین کی تعداد دیگر اصناف کے خامہ فرسائوں کے مقابلے میں ہنوز تشنہ رہی،علی جواد زیدی لکھتے ہیں ،
’’حافظ محمود شیرانی سے پہلے تحقیق کوزندگی بھر کا سودا بنانے کا حوصلہ کم کسی کو ہوا ہوگا ایسے پتے مار کام میں سر کھپانے والے نہ پہلے زیادہ تھے نہ آج ہیں مولانا سلیمان ندوی ،عبد الستار صدیقی اور عبد الحق بھی دوسری مشغولیتوں کے ساتھ ساتھ تحقیقی کاموں میں لگے رہے لیکن ان کی توجہ تمام تر تحقیق پر مر کوزنہیں تھی ،عام طور پر تحقیق کی وادی سونی سونی سی رہی،ادب کی دنیا میں یہ وادی ایسی ہی ہے جہاں نقصان مایہ اور شماتت سایہ دونوں کا ڈر لگا رہتا ہے ‘‘،(مالک رام ،ایک مطالعہ ،علی جواد زیدی)
اسی سونی وادی کو سر سبز وشاداب اور گلستاں بنانے والے ناموں میں مالک رام نے اپنی کئی ساری تحقیقا ت کی روشنی میں ماہر غالبیات میں شمار کیے جاتے ہیں ،ویسے تو غالب کی زندگی اور ان کی تصانیف کا کئی حضرات نے بنظر غائر مطالعہ کیا ہے جن میں غلام رسول مہر ،شیخ اکرام ،امتیاز علی خاں عرشی ،منشی مہیش پرشاد اور قاضی عبد الودود وغیرہ قابل ذکر ہیں ،لیکن مالک رام نے اپنی گونا گوں تحقیقات کی بناپرماہر غالبیات کے طور پر اپنی الگ پہچان اور شناخت بنا ئی ہے،غالب کی سوانح عمری کو کئی حضرات نے قلمبند کیا ہے جس میں حالی کو اولیت حاصل ہے اس کے باوجود مالک رام کی ’’ذکر غالب‘‘کو سب سے مستند اور معتبر سوانح کا درجہ حاصل ہے ،ذکرغالب کے متعلق ڈاکٹر سید عابد حسین لکھتے ہیں ،
’’ذکر غالب اس تمام تحقیقا ت کا نچوڑ ہے جو اب تک غالب کی سیرت سے متعلق ہوچکی ہیں اس کے علاوہ اس میں مالک رام نے نئے ماخذوں کو کھنگال کر نئی معلومات بھی فراہم کی ہیں جو کہیں اور نہیں ملتیں‘‘،
ذکر غالب کی اہمیت کا اندازہ اسی سے لگا یا جاسکتا ہے کہ ان کی زندگی میں ہی اس کے پانچ ایڈیشن شائع ہو چکے تھے ،مالک رام نے غالب پر بہت کچھ لکھا ہے اور غالب کی زندگی اور تصانیف کے ہر پہلو کا احاطہ کیا ہے ،انہوں نے ذکر غالب ،فسانہ غالب ،تلامذئہ غالب اور مرزا غالب وغیرہ کتابیں تصنیف کیں اورسبد چیں ،دستنبو،کلیات نظم فارسی ،دیوان غالب ،گل رعنا ،خطوط غالب اور یادگار غالب وغیرہ کو مرتب کیا ہے ،اس کے علاوہ مولانا آزادکی تصانیف غبار خاطر،تذکرہ اور خطبات آزاد پر بھی انہوں نے تحقیقی کام کیا ہے ،ان کو تلاش و تحقیق سے فطری لگائو تھا ،ان کے اسی تحقیقی ذوق کے سلسلے میں علی جواد زیدی رقمطراز ہیں ،
’’مالک رام کے لیے تحقیق ان کا فرض منصبی تھا نہ بیکاری کا مشغلہ،انہیں اہم منصبی کاموں سے وقت نکال کر چراغ نیم شب روشن کرنا اور بہت سا مواد صرف کثیر اور بڑی جدوجہد کے بعد حاصل کرنا پڑتا،ان کی راہ میں دشواریاں نسبتا زیادہ تھیں‘‘
مالک رام کا ایک اہم تحقیقی کارنامہ تلامذئہ غالب بھی ہے ،اس کا پہلا ایڈیشن دسمبر ۱۹۵۷ میں آیا ،اس کتاب میں غالب کے تقریبا ۱۴۵ تلامذہ اور ان کے کلام کا نمونہ شامل تھا،کتاب کے آخر میں کتابوں اور رسالوں کی فہرست ہے ،اس کتاب کے مطالعے سے اندازہ ہوتا ہے کہ انہوں نے بڑی محنت اورچھان بین کر کے اس کتاب کو تیارکیا ہے ،اس کتاب کا دوسرا ایڈیشن ۱۹۸۴ میں مکتبہ جامعہ نے نے شائع کیا ہے اس ایڈیشن میں ۱۸۱ شاگردوں اور ان کے کلام کو جگہ دی گئی ہے ،اس کے علاوہ ان چالیس اصحاب کے سوانحی معلومات کو حواشی میں شامل کر دیاگیا ہے جن کا ذکر ضمنا آگیا ہے ،یقینا یہ بہت بڑا تحقیقی کا م ہے ،اسلیے کہ غالب کے اتنے شاگردوں کے حالات کو یکجا کرنا کوئی آسان کام نہ تھا ۔
غالب کے شاگردوں کے کلام کو دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ ان میں سب کا الگ رنگ ڈھنگ ہے ،کلام غالب اور غالب سے وہ حضرات متاثر ضرورہوئے تھے لیکن انہوں نے بعینہ غالب کے رنگ ڈھنگ کو اپنے کلام میں پیش نہیں کیا ،بلکہ ہر کسی نے اپنے لیے ایک الگ راہ نکالی اور نیا طرزوانداز اختیا ر کیا،یہی وجہ ہے کہ غالب کے شاگردوں میں انور ،تفتہ ،ثاقب ،حالی ،سالک ،سخن ،شاداں ،شیفتہ ،عرشی اور مجروح وغیرہ کا اپنا الگ انداز ہے ،مالک رام تلامذئہ غالب کے مقدمہ میں غالب کی استادی اور ان کے شاگردوں کی صلاحیت کا اعتراف ان الفاظ میں کرتے ہیں ،
’’غالب کے شاگردوں میں بہت کم اپنے استاد کے رنگ میں کہنے والے ہیں ،اس کا سبب یہی ہے کہ غالب اس نکتے کو خوب سمجھتے تھے کہ چہرے مہرے کی طرح ہر شخص اپنا خاص مزاج اور مذاق بھی قدرت کی طرف سے لے کر آتا ہے ،ان میں سے کسی کو بھی بدلنے کی کوشش کرنا اسے مسخ کرنے کے مرادف ہے صحیح طریقہ یہ ہے کہ شاگرد کے کلام کے ظاہری دروبست اور فنی و لغوی اسقام کی اصلاح کی جائے اور اس کے طرز سخن کو جوں کا توں قائم رہنے دیا جائے ‘‘(مالک رام ،مقدمہ تلامذئہ غالب۶)
مالک رام نے نہ صرف یہ کہ غا لب کے ۱۸۱ شاگردوں کے حالات و کوائف کا ذکر کیا ہے بلکہ ان کے متعلق صحیح اور تحقیقی معلومات بھی فراہم کی ہے اگر کسی کے متعلق کوئی غلط بات مشہور ہے یا کسی بات کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے تو اس کو مالک رام دلائل و شواہد سے رد کرتے ہیں یاپھر اس کی وضاحت کردیتے ہیں ،اس میں بہت سے ایسے شاعروں کا ذکر ہے جن کے متعلق کسی کو علم نہیں تھا اور وہ گمنامی کی زندگی جی رہے تھے ،گویا کہ یہ کتاب صرف ایک تذکرہ ہی نہیں بلکہ شاگردان غالب کے سلسلے میں ایک اطلاع نامے کی حیثیت رکھتی ہے ،مالک رام نے اپنی محنت شاقہ اور تحقیق و تلاش سے ان حضرات کے سلسلے میں خاطر خواہ مواد فراہم کر دیا ہے ،جس سے کہ شاگردان غالب کی رنگا رنگی اور ان کے کلام سے روبرو ہونے کا موقع ملا ۔
تلامذئہ غالب کے مطالعے سے اندازہ ہوتا ہے کہ غالب کے حلقئہ شاگردی میں ہر مسلک و مشرب سے تعلق رکھنے والے لوگ تھے ، یہ غالب کی انفرادیت ہے کہ انہوں نے تمام طرح کے لوگوں کی حوصلہ افزائی کی اور ان کے کلام کے نوک وپلک کو سنوارا ،نکھارا،ان کے شاگردوں کی مختلف کیفیت اور نوعیت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے شمیم حنفی لکھتے ہیں ،
’’غالب کے شاگردوں میں رند بھی ہیں ،صوفی بھی ،منچلے رئیس زادے بھی ہیں اورجمع تفریق کے چکر میں گرفتار اہل تجارت و حرفہ بھی ،طوائفیں بھی اور آوارہ منش امراء بھی ہیں اور اہل زہد وورع بھی ،باغی انقلابی بھی ہیں اور عمال و اقتدار پرست بھی ،نوجوان اور پیر ،امراء اور فقیر سب ایک سی عقیدت و ارادت کے ساتھ اس آستانے پر جمع ہوتے ہیں ‘‘(شمیم حنفی ،مالک رام ایک مطالعہ ،۹۹)
عام طور سے تحقیق کی زبان سادہ ،خشک ، سپاٹ اور تشبیہات و استعارات سے ملمع ہوتی ہے اس میں کسی طرح کی چاشنی اور دل لگی کا سامان نہیں ہوتا ہے ،صرف اور صرف مواد سے صفحات کو سیاہ کردیا جاتاہے جس سے کہ قاری کو فورا اکتاہٹ ہوجاتی ہے اور زیادہ وقت تک پڑھنا اس کے لیے دشوار کن ہوجاتا ہے ،پروفیسر انوار احمد تحقیق کی زبان متعلق لکھتے ہیں ،
’’تحقیق کی زبان کو واضح ،غیر مبہم اور براہ راست ہونا چاہیے ،عبارت کو طویل اقتباسات ،جملہ ہائے معترضہ اور حوالوں کے انبار سے بچانا چاہیے ،تنقیدی اور تجزیاتی انداز ہوناچاہیے ،خطابت کو استدلال کی جگہ نہیں لینی چاہیے ،اسی طرح تعمیم اور رسمی توصیف کے مظہر ،مبتذل ہوجانے والے کلمات کے استعمال سے پرہیز کرنا چاہیے ‘‘
اسی طرح قاضی عبد الودود تحقیق کی زبان کے حوالے سے لکھتے ہیں
’’محقق کو خطابت سے احتراز واجب ہے اور استعارہ و تشبیہ کا استعمال صرف توضیح کے لیے کرنا چاہیے آرائش گفتار کی غرض سے نہیں ،تناقض و تضاد اور ضعف استدلال سے بچنا چاہیے اور مبالغے کو محقق کے لیے سم قاتل سجھنا چاہیے محقق کا مطمح نظریہ ہونا چاہیے کہ کم سے کم الفاظ میں پڑھنے والے پر مافی الضمیرظاہر کردے‘‘
مذکورہ ہر دو اقتباسات کی روشنی میں جب ہم تذکرئہ غالب پر نظر ڈالتے ہیں تو ہمیں اندازہ ہوتا ہے کہ اس کی زبان تصنع اور آرائش سے پاک ہے ،اور اس کا اسلوب بھی دیگر تحقیقی کتابوں سے یکسر مختلف ہے ،اس کتاب کے مطالعہ سے اندازہ ہوتا ہے کہ مالک رام نے نہ صرف یہ کہ شاگردان غالب کی تحقیق و جستجو میں کافی محنت کی ہے بلکہ اس کی زبان و بیان پر کافی توجہ صرف کی اور زیادہ تر اس بات کا خیال رکھا ہے عبارت تشبیہات و استعارات سے بوجھل نہ ہونے پائے ،بہت ہی آسان اورعام فہم زبان کا انہوں نے استعمال کیا ہے ،کہیں بھی اکتاہٹ محسوس نہیں ہوتی ہے ،ایسا معلو م ہوتا ہے غالب کی حیثیت ایک باغ کی ہے اور ان کے ۱۸۱ شاگرد الگ الگ پھولوں کی مانند ہیں کہ ہر ایک کی خوشبو الگ ،ہر ایک کا رنگ ڈھنگ الگ،ہر پھو ل اپنی طرف متوجہ کرتا ہے اور اپنی رنگت اور خوشبو سے متاثر کرتا ہے ،مالک رام مولوی سیف الحق ادیب کے متعلق لکھتے ہیں ،
’’مولوی سیف الحق ۱۸۴۶ میں پیدا ہوئے ،دہلی کے علما کی خدمت میں رہ کر علوم متعارفہ حاصل کیے ،نہایت ذہین اور ذکی الفہم تھے بہت جلد طاق ہوگئے ،جولانی طبع نے شاعری کی طرف مائل کیا ،اور اصلاح کے لیے غالب کی خدمت میں حاضر ہوئے ،کلام کی اپج دیکھ کر مرزا نے فرمایا ہونہار بروا کے چکنے چکنے پات‘‘(تلامذئہ غالب ۳۰)
مالک رام کا یہی وہ انداز ہے جو قاری کو مکمل کتاب پڑھنے کے لیے مجبور کرتا ہے ،کہیں بھی کسی طرح کا الجھائو نہیں ،عبارت صاف اور شگفتہ ہے ،تلامذئہ غالب کی زبان و بیان کے متعلق شمیم حنفی لکھتے ہیں ،
’’کتاب میں بیان کا جو طریقہ انہوں نے اختیار کیا ہے وہ تصنع اور آرائش سے عاری ہے اور اپنی سادگی اور ستھرے پن کی وجہ سے دل آویز ہے،اسی لیے خالص علمی اور تحقیقی کتاب کے مطالعے میں جس صبر وضبط کی ضرورت ہوتی ہے اور اپنے آپ پر جو جبر روارکھنا پڑتاہے ،تلامذئہ غالب کے پڑھتے وقت اس کے بر عکس ایک خوشگوار تجربہ ہوا‘‘(شمیم حنفی ،مالک رام ایک مطالعہ ۱۰۲)
اگر ہمیں غالب کی درست تفہیم مقصودہوتو مالک رام کے بغیر مشکل ہے کیوںکہ انہوں نے غالب کے ہر پہلو کا گہرا مطالعہ کیا ہے اور غالبیات پر انہوں نے تقریبا پچاس مضامین سپرد قلم کیے ہیں یہی وجہ کہ غالب کے سلسلے میں ان کو سند کادرجہ حاصل ہے ،غالب کی زندگی اور ان کی تصانیف کا کوئی ایسا گوشہ نہیں ہے جس پرانہوں نے نہ لکھا ہو ،آل احمد سرور لکھتے ہیں
’’غالب پر انہوں نے جو تحقیق کی ہے اس کی وجہ سے غالبیات میںان کا مقام بہت بلند ہے ذکر غالب اور تلامذئہ غالب کے علاوہ دیوان غالب کا وہ ایڈیشن جو کتاب گھر سے شائع ہوا ہے یہ سب ان کی نظر کی گہرائی اور ذوق سلیم دونوںکا غیر فانی نقش ہیں‘‘(مالک رام ایک مطالعہ ۹۷)
٭٭٭
Leave a Reply
Be the First to Comment!