ریاض خیرآبادی کی خمریہ شاعری

Click on Image to Upload PDF File

پروفیسر صاحب علی،

صدر شعبہ اردو،

ممبئی یونی ورسٹی، ممبئی

یہ بات پورے وثوق اور بلا خوف تردید کہی جاسکتی ہے کہ اگر ریاض خیرآبادی کی منفرد رنگ سخن میں شرابور ممتاز شاعری نہ ہوتی تو اردو شاعری کا ایک مکمل و دل نشین باب غائب ہوجاتا ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ریاض تکلفاََ شاعر ہرگز نہ بنے تھے بلکہ وہ پیدائشی شاعر تھے۔ باوجودیہ کہ انھوں نے تلمیذ غلام ہمدانی مصحفی امروہوی یعنی تدبیر الدولہ ، مدبر الملک، بہادر جنگ منشی سید مظفر علی اسیر امیٹھوی (۱۸۰۱تا ۱۸۸۲) اور منشی امیر احمد مینائی (۱۸۲۹ تا ۱۹۰۰) سے استفادہ کیا لیکن اپنی ندرت فکر ، مطالعۂ کائنات اور قوت اختراع کی مدد سے رفتہ رفتہ وہ خود درجۂ استادی پر فائز ہوگئے۔

اردو شاعری میں  خمریہ شاعری کی روایت بہت قدیم ہے ۔ اس کے اولین نمونے ہمیں  قلی قطب شاہ کے یہاں ملتے ہیں  ۔اردو شاعری میں  کم وبیش سبھی کلاسیکی شعرا کے یہاں  خمریہ شاعری کا رنگ کسی نہ کسی روپ میں  نظر آجاتا ہے۔اس تعلق سے غالب اور جگر کے نام خصوصی طور سے لیے جاسکتے ہیں لیکن ریاض خیرآبادی اردوزبان وادب کے واحد شاعرہیں  جنھیں  اردو شاعری میں خمریات کے فن کو روشناس کرانے کا اعزاز حاصل ہے۔ اس ضمن میں  رئیس احمد جعفری کا یہ قول نہایت سبق آموز ہے:

’’ ریاض نے شراب کے مضمون کو اردو زبان میں  اپنا لیا ہے۔ جو لوگ شراب پی پی کر شعر کہتے ہیں  اور شعر کہہ کہہ کر شراب پیتے ہیں  ، ان کے یہاں  بھی شراب کے مضامین میں  وہ بے ساختگی، وہ ادائے بیان وہ جذباتی و ندرت نہیں  ملے گی جو ریاض کے یہاں  نظر آتی ہے‘‘   ۱؎

 ریاض خیرآبادی کی خمریہ شاعری کے ذیل میں  سب سے پہلے ہم شراب مجازی کا ذکر کریں  گے ۔ شراب مجازی دراصل وہ شراب ہے جو دنیا کے کونے کونے میں  نظر آتی ہے۔ یہ وہ شراب ہے جسے علمائے دین اپنی اصطلاح فقہ میں  ام الخبائث کہتے ہیں لیکن اردو کے مشہور شاعر علی سکند رجگر مرادآبادی نے اس کے بارے میں  کہا ہے   ؎

اے محتسب نہ پھینک ، مرے محتسب نہ پھینک

ظالم شراب ہے ، ارے ظالم شراب ہے

ریاض نے شراب مجازی کا ذکر کرتے ہوئے اکثر اسے شباب سے وابستہ کردیا ہے ۔ اس طرح شعر کو پڑھنے میں  دو آتشے کا مزہ ملتا ہے ۔اس امتزاج شراب وشباب کو ریاض خیرآبادی نے اپنے بڑھاپے میں  بھی قائم رکھا۔اس کا سب سے اہم سبب ریاض کاماضی یعنی گورکھپورکی رنگین محفلیں  اوران کی حرماں  نصیبی تھا۔خمریہ شاعری کے ضمن میں  ریاض کے یہاں  شراب پہلے معمولی ضرورت رہتی ہے پھر رفتہ رفتہ احتیاج کی شکل اختیار کرلیتی ہے جہاں  اس کے بغیر گزر ہی نہ ہوسکے۔ ریاض کے یہ اشعار اسی کیفیت کے غماز ہیں  :

چھیڑ ساقی کی ہے، دیتا جو نہیں  جام  ریاض

توبہ کی ہے نہ کبھی ہم نے قسم کھائی ہے

آیا جو محتسب تو بنی رزم ، بزم مے

مجروح خم ، شہید ہمارا سبو ہوا

درحقیقت یہ دعویٰ اپنے مقام پر ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے کہ ذکر شراب وعشق کلام ریاض کی روح رواں  ہیں ۔ ریاض نے رندانہ روش بطور فیشن اختیار نہیں  کی بلکہ اس کے جراثیم ان کی فطرت میں  شامل تھے اور ان کے خمیر کا ایک جزولاینفک تھے۔ رندانہ طرز کی تشکیل میں  شوخی کا وجود بے حد اہم ہے۔ کلام ریاض میں  جرات رندانہ کے چند نمونے ملاحظہ کیجیے :

شراب پیتے ہی مسجد میں  ہم کو گرنا تھا

یہ شغل بیٹھ کے اچھا تھا قبلہ رو کرتے

فرشتے عرصہ گاہ حشر میں  ہم کو سنبھالے ہیں

ہمیں  بھی آج لطف لغزش مستانہ آتا ہے

ریاض کی خمریہ شاعری کے ضمن میں  سب سے پہلے شراب مجازی کا ذکر کرسکتے ہیں  جس کے دلدادہ مرزا غالب، اختر شیرانی، مجاز، جگر، ساحر، کیفی، جوش اور بہت سے دوسرے شعرا وادبا تھے ۔ ریاض خیرآبادی شراب مجازی کے اس علت سے کوسوں  دور تھے لیکن کمال تو یہ ہے کہ انھوں  نے شراب مجازی کا ذکر بھی اپنے اشعار میں  کچھ اس طرح کیا ہے گویاوہ بہت ہی بڑے استاد شرابی ہوں  ۔ شراب مجازی کا ذکر کرتے وقت وہ اسے محبوب کے شباب سے ملادیتے ہیں ۔ بہ الفاظ دیگر مولانا ابوالکلام آزاد کی طرح وہ شراب کی تلخی و زود اثری کو شباب کی لذت و کیفیت سے ترتیب دے کر ایک کیف مرکب پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں  ۔ ریاض فرماتے ہیں  :

اس کے آغاز جوانی کا کہوں  کیا عالم؟

کچھ سے نشّہ سا تھا نشّے میں  وہ چور نہ تھا

حقیقت بھی یہی ہے کہ نام نہاد شراب مجازی کو نہ کبھی انھوں  نے منہ لگایا اور نہ یہ شراب ان کے مافی الضمیر کی مکمل عکاسی کرتی تھی ورنہ وہ ایسا کیوں  کہتے کہ :

وہ چیز اور تھی وہ نشّہ اور تھا ساقی

مرے شباب کا بنتی ہے کیوں  جواب شراب

ریاض کو ناز تھاکہ ان کا دل اور ان کے حوصلے جوان ہیں  ۔ نہ ان کے خیالات میں  عادی شرابیوں  کا زوال ہے نہ جذبات پر بڑھاپا طاری ہوسکا ہے۔ اپنی زندگی کے آخری لمحات تک وہ اسی طرح شوخ اور چونچال رہے جیسے کوئی جوان رعنا۔ ایسے صحت مند خیالات کی دین ہے یہ شعر :

پیری میں  ریاض ، اب بھی جوانی کے مزے ہیں

یہ ریش سفید اور میٔ ہوش ربا سرخ!

ریاض خیرآبادی کی شراب مجازی کی شاعری کے حوالے سے ایک نہایت درجہ قابل تعریف بات یہ ہے کہ شراب مجازی سے نفرت کرنے کے باوجود محض اپنی تخیل اور منفرد قوت اختراع سے یا برسوں  کے مشاہدے سے کام لیتے ہوئے ریاض نے اتنی کامیابی اور صفائی سے تمام لوازم شراب خواری پر روشنی ڈالی ہے کہ بڑے سے بڑا استاد شرابی انھیں  اپنا پیر مغاں  بنانے پر تیار ہوجائے گا۔یہ بات بھی اپنے مقام پر ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے کہ ذکر شراب وعشق کلام ریاض کی روح رواں  ہیں ۔ ریاض نے رندانہ روش بطور فیشن اختیار نہیں  کی بلکہ اس کے جراثیم ان کی فطرت میں  شامل تھے اور ان کے خمیر کا ایک جزولاینفک تھے۔ رندانہ طرز کی تشکیل میں  شوخی کا وجود بے حد اہم ہے۔ کلام ریاض میں  جرات رندانہ کے چند نمونے ملاحظہ کیجیے :

شراب پیتے ہی مسجد میں  ہم کو گرنا تھا

یہ شغل بیٹھ کے اچھا تھا قبلہ رو کرتے

فرشتے عرصہ گاہ حشر میں  ہم کو سنبھالے ہیں

ہمیں  بھی آج لطف لغزش مستانہ آتا ہے

ریاض کو ناز تھاکہ ان کا دل اور ان کے حوصلے جوان ہیں  ۔ نہ ان کے خیالات میں  عادی شرابیوں  کا زوال ہے نہ جذبات پر بڑھاپا طاری ہوسکا ہے۔ اپنی زندگی کے آخری لمحات تک وہ اسی طرح شوخ اور چونچال رہے جیسے کوئی جوان رعنا۔ ایسے صحت مند خیالات کی دین ہے یہ شعر :

پیری میں  ریاض ، اب بھی جوانی کے مزے ہیں

یہ ریش سفید اور میٔ ہوش ربا سرخ!

ریاض خیرآبادی کی شراب مجازی کی شاعری کے حوالے سے ایک نہایت درجہ قابل تعریف بات یہ ہے کہ شراب مجازی سے نفرت کرنے کے باوجود محض اپنی تخیل اور منفرد قوت اختراع سے یا برسوں  کے مشاہدے سے کام لیتے ہوئے ریاض نے اتنی کامیابی اور صفائی سے تمام لوازم شراب خواری پر روشنی ڈالی ہے کہ بڑے سے بڑا استاد شرابی انھیں  اپنا پیر مغاں  بنانے پر تیار ہوجائے گا۔

ریاض خیرآبادی کی خمریاتی شاعری کا دوسرا روپ شراب حقیقی کا ذکر ہے ۔ اسے ہم شراب عرفان بھی کہہ سکتے ہیں  ۔ ریاض کی غزلوں  کا ایک معتد بہ حصہ شراب حقیقی یا شراب معرفت الٰہی سے لبریز ہے۔ریاض نے درج ذیل شعر میں  شراب کا استعمال بطور کنایہ مہارت کے ساتھ  کیا ہے۔ اس عارفانہ شعر کی جتنی بھی تعریف کی جائے کم ہے :

تجھے مے فروش خبر بھی ہے کہ مقام کون ہے کیا ہے شے

یہ رہ حرم میں  دوکان مے تو یہاں  سے اپنی دوکاں  اٹھا

ریاض نے شراب حقیقی کے ذریعے عارفانہ شاعری کے جو اعلیٰ نمونے پیش کیے ہیں  اس کی عظمت اور تقدس سے انکار ممکن نہیں ۔ ریاض رضواں  میں  شامل بعض غزلیں  ایسی ہیں جس میں اسلامی تاریخ مثلاََ حضور صلی علیہ وسلم کی ہجرت کے واقعات، فتح مکہ اور حوض کوثرکا ذکر بڑے ہی موثر انداز میں  کیا ہے۔ مثال کے طور پر یہ شعر دیکھئے :

اہلِ حرم بھی آکے ہوئے تھے شریک دور

کچھ اور رنگ آج مری مے کشی کا تھا

نسخہ بیاض ساقیِ کوثر سے مل گیا

گھر بیٹھے اب تو بادۂ کوثر بنائیں  گے

                ریاض فطرتاََ بہت شوخ اور زندہ دل واقع ہوئے تھے ۔ بات میں  بات پیدا کرنا اور سنجیدہ معاملات کو اپنی خمریہ شاعری کا موضوع بنانا بھی انھیں  بہت اچھا لگتا تھا۔شراب فطرت سے اپنی پیاس بجھانا یہ ایک بالکل اچھوتا لیکن دلچسپ انداز فکر ہے۔ ریاض کی شراب خوری کچھ ایسی انوکھی اور عالمگیر ہے کہ بہت سے ایسے اشعار ہیں  جو زبان زد خاص و عام ہوچکے ہیں  ۔ اکثر اشعار ایسے ہیں  جنھیں  بر محل سمجھ کر ہر جگہ لوگ اس طرح پڑھتے ہیں  کہ انھیں یہ بھی معلوم نہیں  ہوتا کہ یہ شعر کس شاعر کا ہے۔ مثال کے طور پر یہ اشعار دیکھیں  :

جہاں  ہم خشت خم رکھ دیں  ، بنائے کعبہ پڑتی ہے

جہاں  ساغر پٹک دیں  ، چشمۂ زم زم نکلتا ہے

ارے واعظ ، کہاں  کا لا مکاں  ، عرش بریں  کیسا

چڑھی ہوتی جو کچھ ، تو ہم خدا جانے کہاں  ہوتے

ریاض خیرآبادی کی شاعری کا ایک اور وصف ان کی زبان کا تھا ۔ خمریات تو بلا شبہ ان کی عالمگیر شناخت تھی لیکن زبان کا خوب صورت استعمال اور مضمون کے لحاظ سے ان کے فنی محاسن ، یہ ایسی خوبی تھی جس کا جواب نہ تو ریاض کی زندگی میں  ممکن تھا اور نہ آج تک ممکن ہوسکا، افسوس کہ یہ لطیف اور وجد آور فنی محاسن تعداد میں  اتنے زیادہ ہیں  کہ نہ تو مکمل طریقے پر ان کا شمار کیا جاسکتا ہے اور نہ ان کی خاطر خواہ وضاحت ممکن ہے ۔جس طرح غالب کا کلام ان کی شوخی ِکلام کے لیے معروف ہے ۔اس سے کہیں  زیادہ نادر شوخیاں  ریاض خیرآبادی کے یہاں  مل جاتی ہیں ۔ شوخی کا مفہوم کیا ہے اس کا حسن استعمال ہم بڑی آسانی سے کلام ریاض میں  تلاش کرلیتے ہیں  :

کوئی منھ چوم لے گا اس نہیں  پر

شکن رہ جائے گی یوں  ہی جبیں  پر

بلائیں  بن کے ، وہ آئیں  ہمیں  پر

دعائیں  ، جو گئیں  عرش بریں  پر

اس میں  کوئی شک نہیں  کہ شراب وشباب کے بعد ریاض خیرآبادی کے کلام میں  شوخی و سرمستی کا عنصر بدرجۂ اتم موجود ہے جس کی وجہ سے ان کے یہاں  رجائی اور صحت مند جذبات کی فراوانی محسوس ہوتی ہے۔ڈاکٹر اعجاز حسین (سابق صدر شعبۂ اردو، الہ آباد یونیورسٹی)ریاض کے شوخیِ کلام کے تعلق سے لکھتے ہیں کہ:

“ ریاض صاحب کی عشقیہ شاعری میں  شوخی کے ساتھ پر لطف طنز مزید شرارت اور حقیقت آمیز معاملات کی دنیا نظر آتی ہے‘‘  ۲؎

                اس قول کی صداقت ریاض خیرآبادی کے حسب ذیل اشعارمیں  ملتی ہے:

بوسے گن کر کبھی لیتے نہیں  معشوقوں  کے

ہمیں  گنتی نہیں  آتی نہ حساب آتا ہے

کتنے بوسے لیے اس بت کے بتا دیں  کاتب

میں  تو سنتا ہوں  فرشتوں  کو حساب آتا ہے

جیسا کہ ہم جانتے ہیں  کہ ریاض خیرآبادی اپنے خاندانی ماحول اور خود اپنی فطری ذہنیت کے حساب سے ایک رند

 پارسا تھے ۔ خمریہ شاعری تو بس ان کا ایک اسلوب ادا اور پیرایۂ اظہار تھا جس نے ان کے کلام پر انفرادیت کی مہر ثبت کردی ہے۔ رئیس احمد جعفری نے ایک انتہائی دلچسپ اور بلیغ ترکیب’’ رند پارسا‘‘ وضع کرکے ریاض خیرآبادی کی فطرت اور ان کی شاعری کا عطر مجموعہ پیش کردیا ہے۔

جیسا کہ گزشتہ صفحات میں  ذکر ہوچکا ہے کہ تذکرۂ شراب وکباب غزلیات ریاض کا طرۂ امتیاز ہیں  ۔ بلا مبالغہ ان کی کم ازکم 75 فیصد غزلیں  مے خواری کی تفصیلات سے پُرہیں ۔ شراب اور اس کے متعلقات پرکم وبیش ہرشاعر نے کچھ نہ کچھ ضرور لکھا ہے لیکن ریاض نے اسے اپنا مستقل موضوع بنایاہے حد تو یہ ہے کہ جب وہ کبھی میکدہ کا ذکر کرتے ہیں  تو اس انداز سے کہ لفظ لفظ سے شراب ناب چھلکی پڑتی ہے:

جمع ہوجائیں  گے مے نوش قیامت میں  جہاں

حشر کا شور وہاں  قلقل مینا ہوگا

ریاض کی شاعری میں  شراب حقیقی سے مراد نہ توFrench Liquor نہ مرزا غالب کیEnglish Tomبلکہ یہ بادۂ عرفان الٰہی یا صوفی صافیوں  کی شراب ہے۔ دراصل یہی وہ شراب ہے جو خوش نصیب ایمانداروں  کو حاصل ہوا کرتی ہے۔ فارسی اور اردو کے اکثر شعرا تذکرۂ بادہ و میکدہ کو اپنے ساقی ناموں  کا موضوع بناتے ہیں ۔

کلام ریاض پر عمیق نظریں  ڈالیں  تو ان کی مختلف غزلوں  میں  شراب حقیقی کے ایمان افروز مناظر ہماری آنکھوں  کو خیرہ کردینے کے لیے موجود ہیں ۔ان کے مجموعۂ کلام ریاض رضواں  کی تمہید ان ایمان پرور شراب حقیقی کے حوالواں  سے ہوتی ہے :

کیا تجھ سے مرے مست نے مانگا مرے اللہ

ہر موج شراب اٹھ کے بنی ہاتھ دعا کا

ریاض کی شاعری میں  شراب حقیقی یعنی شراب معرفت کا مقام نہایت بلند وبالا ہے ۔ انھوں  نے رسول اکرم سے اپنی عقیدت اور تخلیقی قوت سے شراب حقیقی کے ذریعے اپنی پوری حمدیہ و نعتیہ شاعری کے جو نادرو نایاب نمونے پیش کیے ہیں  اس کی نظیراردو کی خمریہ شاعری میں  بہت کم لوگوں  کے یہاں ملے گی۔ ان کے نعتیہ کلام میں  ایسے بے شمار اشعار موجود ہیں جن میں خود ریاض کی اپنی ذات پورے آب وتاب کے ساتھ جلوہ گر ہے ۔ مثال کے طورپر ریاض رضواں  میں  شراب حقیقی کے زائیدہ یہ اشعار بھی بڑے کیف آور ہیں  :

گئے ساتھ شیخ حرم کے ہم ، نہ کوئی ملا نہ لیے قدم

نہ تو خم بڑھا ، نہ سبو جھکا ، جو اٹھا تو پیر مغاں  اٹھا

ملتی ہے درِ ساقیِ کوثر سے یہ خدمت

اس طرح کوئی پیر مغاں  ہو نہیں  سکتا

ریاض کا فیصلہ ہے کہ بغیر توفیق الٰہی کے کسی بڑے سے بڑے عابد وزاہد کی پیشانی سے نور توحید ضوفشاں  نہیں  ہوا کرتا۔مئے توحید کی سچی جھلک دیکھنی ہو توریاض کے یہ اشعارجو معرفت الٰہی کے جذبے سے سرشار ہیں دیکھئے ذیل کے دونوں  اشعار میں  ریاض نے ایسی بات کہی ہے جو شراب معرفت کا اصل مفہوم سمجھنے والا ہی کہہ سکتا ہے:

پی کر بھی جھلک نور کی منھ پر نہیں  آتی

ہم رندوں  میں  جو صاحب ایماں  نہیں  ہوتا

بنائے کعبہ پڑتی ہے جہاں  ہم خشت خم رکھ دیں

جہاں  ساغر پٹک دیں  چشمۂ زم زم نکلتا ہے

                ریاض کی غزلیہ شاعری میں  شراب حقیقی کا ذکر کرتے ہو ئے ڈاکٹر ابواللیث صدیقی نے لکھا ہے کہ:

’’مے اور شاہد کے اشعار کا لطف ، عوام کو صرف مجازی معنی پہنا کر ہی حاصل ہوتا ہے لیکن ریاض نے باوجود رنگینیِ طبع جگہ جگہ اس کی طرف اشارہ کیا ہے کہ یہ شاعرانہ استعارات کا پردہ ہے جس کی آڑ میں  حقیقت و معرفت کی شراب اور شاہد اصلی کا ذکر ہے‘‘   ۳؎

شراب فطرت بھی ریاض کے فلسفۂ خمریات کا ایک اچھوتا اور دلچسپ پہلو ہے ۔ اس شراب کے مختلف روپ ان کے غزلیہ اشعار میں  نظر آتے ہیں  جہاں  شاعر نے مناظر قدرت کی براہ راست یا بالواسطہ عکاسی کی ہے ۔ غور کیجیے تو یہاں  وہ انگریزی زبان کے عالمی شہرت یافتہ شاعر ولیم ورڈز ورتھ ،ہمارے شعرا اسمٰعیل میرٹھی، نظیر اکبرآبادی، حامداللہ افسر، درگا سہائے سرور اور شفیع الدین نیر کے ہم پایہ قرار پاتے ہیں کیونکہ انھوں  نے مناظر قدرت ، باغ وبہار، جھیلوں  پہاڑوں ،چاند تاروں ، موسموں  کی آمد ورفت ، انسانوں  کے مختلف النوع جذبات ، چرند پرند اور نفسیات انسانی کی شاعرانہ ترجمانی کی ہے۔ان چیزوں  کے بیان میں بھی ریاض کی آنکھوں  سے شراب کی عینک نہیں  چھٹی۔اسے ان کے خمریاتی شعور کی معراج سمجھنا چاہیے۔مثال کے طور پر یہ شعر دیکھئے  :

در کھلا صبح کو پَو پھٹتے ہی میخانے کا

عکس سورج ہے چھلکتے ہوئے پیمانے کا

اس شعر میں قدرتی منظر تو ہے ہی لیکن ساتھ ہی ساتھ کئی صنائع و بدائع لفظی و معنوی کا بے ساختہ اور بڑا فن کارانہ استعمال بھی ملتا ہے ۔ پہلے مصرعے میں  صنعت محاکات کی بڑی خوب صورت کیفیت ہے۔ ’’ پَو پھٹنا‘‘ اس حقیقت کا غماز ہے کہ بہت تڑکے شاعر کا کاروبار مشاہدہ شروع ہوا۔ فارسی کا بہت عمدہ ہم معنی شعر بے ساختہ یاد آتا ہے کہ   ؎

چُو صبح دم ہمہ مردم بہ کاروبار ، رَوَند

بلا کشان محبت ، بہ کوئے یار روند

مصرعۂ ثانی میں  صبح کا گول اور سرخ سورج شاعر کو چھلکتے ہوئے پیمانے کی یا د دلاتاہے ۔ یہ پسند یقینا شاعر کے شدید شعور جمال کی نشاندہی کرتی ہے۔

ریاض کی شراب خوری کچھ ایسی انو کھی اور عالمگیر ہے کہ موسم بہار میں  ابر سیاہ کے ٹکڑے خوشامدانہ انداز میں  ریاض خیرآبادی کو دعوت مے نوشی دیتے ہیں  ۔ یہ موسم بہار کا معجزہ ہے کہ شاعر کو پانی پی کر بھی نشہ سا محسوس ہوتا ہے۔سچ پوچھیے تو ریاض کا کلام شروع سے آخر تک شراب و شباب،رنگینی اور حسن و عشق کاایک جزو لاینفک ہے  جو ان کی عملی زندگی کوتمام تر جزئیات کے ساتھ منعکس کرتا ہے ۔ اول تو ان کے سبھی مادی عشق کامیاب نظر آتے ہیں  اور اگر کبھی ہجر وفراق یا رقیب رو سیاہ کا سامنا بھی ہوا تو انھوں  نے اس کا اظہار معنی خیز تبسم سے کیا۔ ان کا معشوق مثالی یا خیالی ہزگز نہیں  بلکہ انہی کی طرح گوشت پوست والا انسان ہے جس کی صرف جنس بدلی ہوئی ہوتی ہے۔ ریاض کی عشقیہ شاعری میں  کسی حد تک دبستان لکھنؤ کا خاص رنگ شامل ہے ۔

٭٭٭

حوالے

۱۔ رند پارسا، ص۱۵۱

۲۔مختصر تاریخ ادب اردو، ادارۂ فروغ اردو لکھنؤ ۱۹۶۵،ص۲۴۵

۳۔لکھنؤ کا دبستان شاعری ، اردو مرکز لاہور ۱۹۵۷،ص۶۲۴

Leave a Reply

Be the First to Comment!

Notify of
avatar
wpDiscuz
Please wait...

Subscribe to our newsletter

Want to be notified when our article is published? Enter your email address and name below to be the first to know.