جوگندر پال کا اٹھارہ ادھیائے
ڈاکٹر محمد کاظم
اسوسی ایٹ پروفیسر
شعبہ اردو، دہلی یونیورسٹی، دہلی
”پنڈت جی نے گیتا کا شلوک لہرا لہرا کر گاتے ہوئے پورا کیا اور پھر ذرا رک کر اس کا ارتھ بیان کرنے کے لئے گائیکی سے گدیہ (نثر) کی طرف آگئے:
’بھگوان کرشن نے ارجن کا دھیرج بندھاتے ہوئے کہا۔ اے ارجن ، جب جب پاپ کا گھڑا بھر جاتا ہے، تب تب میں سنسار میں پرویش کے لئے جنم لیتا ہوں۔‘
’مگر پنڈت جی۔‘
پنڈت جی کو بولتے ہوئے ٹک جانا کھلا، مگر یہ سوچ کر کہ پڑھے لکھے لوگوں کی سمجھ میں کوئی بات مشکل سے ہی آپاتی ہے، وہ اپنا ویاکھیان روک کر ٹوکنے والے کی اور دیکھنے لگے۔
’بولو بندھو۔‘
’ میں پوچھنا چاہتا ہوں پنڈت جی، گھڑے میں کوئی جگہ بچی رہ گئی ہے جو کرشن بھگوان نے ابھی تک جنم نہیں لیا؟‘
اسے کوئی سیدھا جواب دینے کے بجائے پنڈت جی سنسکرت کا ایک اور شلوک الاپنے لگے، جس پر پربھو پریمیوں کو سر دھنتے پاکر سوال کرنے والے نے بدک کر چپ سادھ لی اور پنڈت جی اپنی کتھا آگے بڑھانے کے لئے پستک کے اگلے پنّے پر آنکھیں دوڑانے لگے۔“
یہ اقتباس جوگندر پال کی کہانی ’اٹھارہ ادھیائے‘ کا پہلا ادھیائے ہے۔اس اقتباس کو ہی اگر غور سے دیکھیں تو اس میں نہ صرف علامتی طور پر مذہبی عقائد اور اس کے ماننے اور جاننے والوں کی ذہنی کیفیت اور ضرورت کی جانب اشارہ ملتا ہے بلکہ موجودہ دور کی سماجی اور سیاسی صورت حال کی بھی عکاسی ہوتی ہے۔ جوگندر پال کے اس چھوٹے سے اقتباس میں کئی جملے ایسے ہیں جو ہماری مذہبی، سماجی ، سیاسی ، علمی اور عملی زندگی کے عکاس ہیں۔مثال کے طور پران جملوں کو پیش کیا جاسکتا ہے:
’جب جب پاپ کا گھڑا بھر جاتا ہے، تب تب میں سنسار میں پرویش کے لئے جنم لیتا ہوں۔‘
’ پڑھے لکھے لوگوں کی سمجھ میں کوئی بات مشکل سے ہی آپاتی ہے۔‘
’گھڑے میں کوئی جگہ بچی رہ گئی ہے جو کرشن بھگوان نے ابھی تک جنم نہیں لیا؟‘
’ پربھو پریمیوں کو سر دھنتے پاکر سوال کرنے والے نے بدک کر چپ سادھ لی۔‘
جوگندر پال اردو کے ایک ایسے فکشن نگار ہیں جن کی نظر سماج اور سیاست پر بہت گہری ہے۔ انھوں نے اپنے فکشن میں مذہبی کرداروں کو جدید دور کے سماجی اور سیاسی حالات میں اس انداز سے پیش کیا ہے جو اپنے زمانے کی روایت اور سماج کو پیش کرنے کے ساتھ ساتھ موجودہ زمانے کے حالات میں مزید اہمیت اختیار کرلیتا ہے۔ یہ ان کی فنکاری ہی ہے کہ اس طرح کی کہانیوں کا مطالعہ کرتے وقت ان حالات اور کرداروں کی اصل خوبیوں کے ساتھ ان کی موجودہ حیثیت اور ضرورت بھی صاف دکھائی دیتی ہے۔ ایسی ہی تخلیقات میں سے ایک ”اٹھارہ ادھیائے“ ہے۔ یہ کہانی سن 2000 میں شائع شدہ ان کے افسانوی مجموعہ ’بستیاں‘ میں شامل ہے۔
جوگندر پال نے اس کہانی کے ذریعے ہماری تاریخ، ہمارے ذہن میں محفوظ مذہبی عقائد اور ان سے منصوب ہماری فکر کو نہایت کامیابی سے پیش کر دیا ہے۔ آج ہم نے ترقی کے نام پر جن چیزوں کو اپنا لیا ہے اور اپنی مثبت تہذیب و ثقافت کو چھوڑ کر نئی تہذیب اور ان کے ماننے والوں کی پیروی شروع کردی ہے وہ نہ صرف ہماری اپنی زندگی اور خاندان کے لیے مضر ثابت ہو رہے ہیں بلکہ سماج و قوم اور ملک کو بجائے ترقی کے پسماندگی کی جانب لے جا رہا ہے۔ آج ہم نے ہر چیز کو مال و دولت کے ترازو میں تولنا شروع کر دیا ہے اور نتیجہ ہمارے سامنے ہے۔ جوگندر پال کی زبان ہی میں دیکھیں:
”کرشن بھگوان بے چارہ کیا کرتا؟ وہ تو سب کچھ چھوڑ چھاڑ کے ایک نیک جننی کی کوکھ میں آلگا تھا، مگر اسی دوران جننی کے پتی نے فیصلہ کر لیا کہ جب تک سروس میں اس کی ترقی کا طے نہیں ہو جاتا، وہ اپنے بچے کی پرورش نہیں کر سکے گا، اس لئے اس نے ڈاکٹر سے مشورہ کرکے کرشن کنہیا کو اپنی پتنی کی کوکھ میں ہی ضائع کروادیا۔“ (دوسرا ادھیائے)
ہم نے محسوس کیا کہ آج ہمارا ذہن کس نہج پر کام کررہا ہے۔ ہم اپنی سہولت کے لیے کسی کی جان لینے میں بھی عار محسوس نہیں کرتے بلکہ جس بچے نے دنیا میں قدم نہیں رکھا اکثر اس میں جان آنے سے پہلے اور کبھی کبھی اسے دنیا میں آنے سے پہلے ہی ضائع کروا دیتے ہیں ۔ گویا کسی کی جان لے کر ہم سکون محسوس کرتے ہیں۔ یہ نہ صرف ایک غیر فطری عمل ہے بلکہ غیر انسانی فعل ہے۔اور اب تو غیر انسانی اور غیر فطری فعل عام سی بات ہو گئی ہے۔
موجودہ دور میں ہم آزادی کے نام پر کچھ بھی کر گزرنے کو جائز ٹھہراتے ہیں۔ ہم نے آزادی کا مطلب کسی بھی حد تک جانا مان لیا ہے۔ بلکہ اب تو شادی بیاہ محض ایک رسم ہوکر رہ گئی ہے، اور بعض اوقات تو اس رسم کی ادائیگی بھی ضروری نہیں سمجھی جاتی۔اپنی خوشی کے لیے دوسروں، یہاں تک کہ اپنے والدین کی عزت تک کا پاس نہیں رکھتے اور پھر اپنی غلطی پر پردہ ڈالنے کے لیے دوسری بہت سی غلطیاں یا فطرت کے مخالف کام کرتے ہیں۔ اس کہانی میں بھی اس جانب نہایت بلیغ اشارہ کیا گیا ہے:
”مگر بھگوان کو تو پیدا ہونا ہی تھا۔ اس نے اسی گھر میں اس کی کنواری بہن کی کوکھ میں جا پناہ لی، جو اپنے دفتر کے ایک بابو کے پریم جال میں پھنسی ہوئی تھی۔ بابو کو جب پتہ چلا کہ اس کی پریمیکا پیٹ سے ہو گئی ہے تو اس کے ہاتھوں کے طوطے اڑ گئے۔
’اس میں گھبرانے کی کیا بات ہے؟‘ پریمیکا کہنے لگی۔ ’آﺅ ، جھٹ پٹ بیاہ کرلیتے ہیں۔‘
’مگر میں تو اپنے چچیرے بھائی کے پاس رہتا ہوں۔‘ اس نے ہتھیلیاں ملتے ہوئے جواب دیا۔ ’بیاہ کرکے رہیںگے کہاں؟‘
’ساری دنیا جو ہے۔‘
’مگر۔‘ مگر اچانک اپنی سوچ پر وہ خوشی سے تمتما اٹھا۔ ’آج ہی کوئی گولی وولی کھالو۔ جھنجھٹ ختم!“
(دوسرا ادھیائے)
ہم نے محسوس کیا کہ انسان اپنی غرض کے لیے کیسی کیسی نازیبا حرکت کرتا ہے اور کس کس طرح کے بہانے تلاش کرتا ہے یا گڑھتا ہے۔ ذرا غور کریں کہ ہم کہاں جا رہے ہیں، کس طرح کی ذہنیت کی پاسداری کررہے ہیں، کس کو دھوکا دے رہے ہیں اور اگر یہی صورت حال رہی تو ہمارا مقام کیا ہوگا۔دنیا کے کئی ممالک ایسے ہیں جہاں شادی بیاہ کو دقیانوسیت کا ترجمان مانا جاتا ہے۔انسان اپنی خوشی کے لیے جائز ناجائز کی تمیز تک بھول چکا ہے۔ اپنا مقصد پورا کرنے کے لیے دوسرے کا نہ صرف استعمال کرتا ہے بلکہ اس کی خواہشوں کا گلا تک گھونٹنے میں جھجھک محسوس نہیں کرتا ۔ آج ایک جانب اپنی ناجائز حرکات اور بے جا خواہشوں کی تکمیل کے لیے بچے کو دنیا میں آنے سے قبل ہی ختم کردیا جا رہا ہے تو دوسری جانب بے اولاد لوگ بچے کی خواہش میں جائز ناجائز کی تمیز تک بھلا بیٹھے ہیں۔ ہر دو طرح کے ذہنیت کے لوگوں کی عکاسی جوگندر پال کی اس کہانی میں نہایت فنکاری کے ساتھ نظر آتی ہے۔ ایک شریف کہلانے والا شخص اپنا بچہ پانے کے لیے کس حد تک جا سکتا ہے اور کچھ بھی نظر انداز کرسکتا ہے۔ آپ بھی دیکھیں:
”اب کے اس نے دیش کے ایک ادھیڑ عمر راجیہ منتری کا گھر ڈھونڈ نکالا۔ منتری کے کوئی اولاد نہ تھی اور ڈاکٹری رپورٹ کے مطابق وہ اولاد پیدا کرنے کے قابل بھی نہ رہا تھا، مگر منتری کی خواہش تھی کہ جس طرح بھی ہو ، منترانی کی کوکھ بھر جائے، سو جب بھی وہ اپنے نئے پرائیویٹ سکریٹری کو منترانی کے بیڈروم سے دبے پاﺅں نکلتے دیکھ لیتا ، منھ دوسری طرف پھیر لیتا۔ قصہ مختصر آخر منترانی کے حمل ٹھہر گیا اور اس طرح وقت آنے پر جنم اشٹمی کے شبھ موقع پر کرشن بھگوان نے سنسار میں پرویش کیا۔“ (دوسرا ادھیائے)
گویا ہم اپنی خواہش کی تکمیل کے لیے جائز ناجائز کا فرق مٹا چکے ہیں۔ اخلاق اور تہذیب کا پاٹھ پوری دنیا کو پڑھانے والے اب خود اس سبق کو بھلا چکے ہیں۔دنیا ہم سے درس لیتی تھی اب ہم ان کی تہذیب اور بے جا روش کو اپنانے کی دوڑ میں اپنا میدان عمل چھوڑ چکے ہیں۔ ہم سب واقف ہیں کہ ان کی نقل میں ہم نے اپنی خواہشات اس قدر بڑھا لی ہیں جس کی تکمیل جائز طریقے سے ممکنات میں شامل نہیں۔ چونکہ اپنی خواہش تو اپنی ہوتی ہے ، اس لیے اس کی تکمیل کے لیے دوسروں کا حق چھیننا ، دوسروں کی خواہشات کو بے جا سمجھنا، دوسروں کے حصے کا مال و زر اپنے نام کر لینا، دوسروں کی چیزوں پر اپنا حق سمجھنا، ناجائز طریقے سے مال و زر جمع کرنا اور پھر اس کے لیے جواز پیدا کرنا اب ہمارا وتیرہ بن چکا ہے۔ ہم اپنے ہر غلط کام کے لیے جواز تلاش کر لیتے ہیں۔ کبھی گھر خاندان، تو کبھی رشتہ دار اور کبھی عوام کے جذبات اور اس کی ضرورتوں کی عار میں کچھ بھی کر گزرتے ہیں اور پھر اسے جائز ٹھہراتے ہیں۔ اس افسانے میں اس جانب صاف اور بے باکی سے بیان کیا گیا ہے۔جوگندر پال کی زبان میں ہی دیکھیں:
”پاپ کا گھڑا؟ بھگوان بڑا ہوتا رہااور پاپ مایا روپی جادوئی گھڑے سے چھلک چھلک کر بستیوں میں چاروں اُور ندیوں نالوں کی طرح بہہ نکلا۔ لوگ؟ لوگ باگ کیا کرسکتے تھے، سوائے اس کے کہ میلی ندیوں میں ہی نہا نہا کر اپنے اجلے پن کا بھرم بنائے رکھیں۔ دور کیوں جائیں، کرشن گوپال کے پتا مہودیہ منتری ، شری بھاگیہ وان جی کا دیش بھر میں بڑا نام تھا۔ لوگ ان کی نیک نامی کی قسمیں کھایاکرتے تھے۔ اور وہ اپنے آپ کو سہج بدّھی کی آڑ میں سمجھایا کرتے تھے، بھاگیہ وان ، ساری نیک نامی کس سے ہے؟ نام ہی سے نا؟ اس لیے بھاگیہ وان ، نیک بنو یا نہ بنو، نام بنائے رکھو، اور نام بنائے رکھنے کے لئے کیا چاہیے؟ پیسہ! نہیں بھاگیہ وان، پیسے کے بغیر تم بھی کس کام کے؟ پیسہ ہوگا تو غریب جنتا کی مدد بھی کرپاﺅ گے؟ نہیں بھاگیہ وان، جنتا کو کھا کھا کے رجھتے رہواور رجھ رجھ کے جنتا کی بھوک مٹانے کا اپائے کرو۔ اور اور یہ بھی تو ہے کچھ کروگے نہیں تو تمہارے اکلوتے کرشن گوپال کا کیا بنے گا؟ زمانہ اتنا برا ہے۔ اپنے کرشن گوپال کو کیا بھوکوں ماروگے؟
سو بھگوان کرشن کی پال پوس ، سکشا اور سرکشِت جیون کے لئے منتری مہودیہ نے اپنے بیٹے کے نام دنیا بھر کے بنکوں میں اتنی راشی جمع کرلی کہ بھگوان بار بار جنم لے کر بھی اسے کھاتا اڑاتا رہتا تو راشی ختم نہ ہوتی۔“
(تیسرا ادھیائے)
اس طرح کے خیالات اکثر دیکھنے کو مل جاتے ہیں۔ ہم ہندوستانیوںکا مزاج بن چکا ہے کہ جب جس چیز کے استعمال یا خرچ کرنے کی ضرورت ہوتی ہے اس وقت اسے کام میں نہ لاکر پس انداز کرتے ہیں۔ ہمیشہ حال کو نظر انداز کرکے مستقبل کی فکر کرتے ہیں۔جب آپ کے پاس سہولت میسر ہوتی ہے اس وقت اس کا استعمال خود پر یا اپنی اولاد پر کرنے کے بجائے اپنے اور اپنی اولاد کے لیے جمع کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ہمیشہ ذہن میں یہ خیال رہتا ہے یا اس کا جواز پیدا کرتے ہیں کہ یہ مستقبل میں کام آئے گا۔ ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ اگر اس کا صحیح مصرف حال میں لے لیا جائے تو مستقبل میں اس کی ضرورت نہ آپ کو پیش آئے گی نہ ہی آپ کی اولاد کو اس کی ضرورت پڑے گی۔
ہم نے اوپر کے اقتباس میں دیکھا کہ منتری مہودیہ نہ صرف جائز ناجائز طریقے سے مال و دولت جمع کرتے ہیں بلکہ نیک بننے نہیں نیک دکھنے اور کہلانے پر زور دیتے ہیں۔ موجودہ دور کی ذہنیت اس سے صاف دکھائی دیتی ہے۔ہم اس کی کوشش نہیں کرتے کہ مجھ سے کوئی غلط کام نہ سرزد ہو جائے بلکہ ہمارا پورا زور اس پر ہوتا ہے کہ ہم اچھے اور نیک دکھتے اور کہلاتے رہیں۔ یعنی کرنے کے بجائے پانے اور بنے رہنے پر سارا زور صرف کر رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہندوستان میں امیر، امیر ترین بنتا جارہا ہے تو غریب ،فاقہ کرنے پر مجبور ہو رہا ہے اور ہمارے رہنما عوام کی فکر کرنے کے بجائے اپنی دولت کو محفوظ رکھتے ہوئے اس میں مزید اضافہ کرنے کی فکر میں لگا ہوا ہے۔ ہندوستان میں عوام کے لیے معیاری تعلیم کا انتظام کرنے کے بجائے اپنے بچوں کو اچھی تعلیم دلانے کے لیے غیر ممالک بھیج رہا ہے۔ یہاں تک کہ بہت سے ایسے رہنما ہیں جو جس ملک کی مخالفت کرتے ہیں اس کا بائیکاٹ تک کرنے کی بات کرتے ہیں ، اسی ملک میں اپنے بچوں کو تعلیم حاصل کرنے کے لیے بھیج دیتے ہیں۔ نہ صرف اتنا بلکہ اپنی زبان اور سماج کو حقارت سے دیکھتے ہیں۔جوگندر پال نے اس کہانی میں اس جانب قاری کی توجہ دلاتے ہوئے نہایت فنکاری سے اپنی باتیں پیش کی ہیں:
”منتری مہودیہ شری بھاگیہ وان نے کرشن گوپال کو پرائمری اسکول تک تو اپنے ساتھ ہی رکھا اور آگے کی تعلیم کے لئے امریکہ بھیج دیا۔ ان دنوں منتری مہودیہ خود آپ ایجوکیشن کا پورٹ فولیو سنبھالے ہوئے تھے ان کا وچار تھا کہ اپنی شدھ بھاشا کس کام کی۔“ (چوتھا ادھیائے)
ہم بچوں کو اعلی تعلیم یا جدید تعلیم حاصل کرنے کے لیے غیر ممالک بھیجتے ہیں اور اس بات پر فخر کرتے ہیں کہ وہ واپس آکر فراٹے سے انگریزی یا دوسری غیر ملکی زبان بولے گا۔ لیکن ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ ہر زبان کی اپنی تہذیب ہوتی ہے اور جب ہم اپنی تہذیب سے دور کسی دوسری تہذیب کے پاسدار ممالک میں اس کی زبان سیکھتے ہیں تو ساتھ میں اس کی تہذیب کو بھی قبول کرتے ہیں۔ دوسری تہذیب کے بارے میں علم رکھنے اور اسے قبول کرنے میں بہت فرق ہے۔ اور ہم ہندوستانی اس قدر احساس کمتری میں مبتلا ہیں کہ اپنی قدیم اور دنیا کی بہترین تہذیبوں میں سے ایک کو فراموش کرکے جدید اور بے میل تہذیب کو اپنانے کی دوڑ میں شامل ہوجاتے ہیں۔ یہاں تک کہ اپنی تہذیب کو بالکل ہی فراموش کر دیتے ہیں۔ اس افسانے میں بھی کرشن گوپال نے وہی کیا۔ منتری مہودیہ نے نہرو اور جناح کی طرح انگریزی بولتے ہوئے اپنے بیٹے کو دیکھنے کی لالچ میں اپنی تہذیب سے اسے دور کر دیا۔
ہم ہندوستانیوں کے اندر ایک بڑی خوبی یہ ہے کہ نہ صرف ہم احساس کمتری میں مبتلا رہتے ہیں بلکہ جلد ہی غیروں سے مرعوب بھی ہو جاتے ہیں۔ اور اگر وہ امریکی یا یوروپی ممالک ہو تو پھر سوچنے سمجھنے کی طاقت بھی سلب ہوجاتی ہے۔ اس کہانی میں جوگندر پال نے بڑی خوبصورتی سے نہ صرف انسان بلکہ ہمارے دیوتا تک کو امریکی تہذیب و ثقافت اور وہاںکی دوسری ترقی یافتہ ذہنیت میں مبتلا ہوتے دکھایا ہے۔کرشن گوپال کو بچپن میںہی امریکہ بھیج دیاجاتا ہے اور وہ اپنے والد کی طرح ہر شریف ہندوستانی کی مانند رویہ اختیار کرتا ہے۔آپ بھی دیکھیں:
”کرشن گوپال اس بالی عمر میں ودیش پہنچ کر شروع شروع میں تو بہت رویا دھویا۔ امریکیوں کو کیا پتہ وہ اسے سادھارن بالک سمجھ کر اس کا دل لگانے کا پورا پربندھ کرتے رہے اور ہوتے ہوتے کرشن گوپال کا دل وہاں اتنا لگ گیا کہ معلوم ہوتا تھا، پیدا ہی وہیں کہیں ہوا ہے۔ امریکیوں میں ہیومن رائٹس کی جو لہر اٹھی ہوئی ہے، اس کے مطابق ماں باپ اپنی جگہ ، اور ان کی نابالغ سنتان اپنی جگہ۔ سنتان کا یہ ادھیکار بنا رہنا چاہیے کہ انہیں صرف انہی کے ناموں سے جانا جائے۔ ان کی اپنی پہچان سے ان کے ماتا پتا کا کیا سمبندھ۔“
(چوتھا ادھیائے)
اور اس طرح ہمارا کرشن نہ صرف اپنی تہذیب و ثقافت کو تج دیتا ہے بلکہ رفتہ رفتہ اپنی مٹی سے دوری اختیار کر لیتا ہے۔ کہاں تو ہمیں یہ احساس تھا کہ ”خاک وطن کا مجھ کو ہر ذرہ دیوتا ہے“ اور کہاں ”دوسرے امریکیوں کی طرح اسے بھی لگتا ہوگا کہ وہ کسی بھگوان سے کیا کم ہے“۔ گویا ہمارے دیوتا کو اپنی طاقت پر سے اعتماد اٹھ گیا اور کل تک جو ہماری تقلید کرتے نہیں تھکتے تھے اس کے اعتماد کو دیکھ کر ہم ڈول گئے۔ اور موجودہ صورت حال تو یہ کہ وہ خود کو ایسا خدا تصور کر بیٹھا ہے جس کا مقابلہ کوئی نہیں کرسکتا۔ اس خود اعتمادی کا نتیجہ نہایت خطرناک ہوسکتا ہے یعنی ہم تیسری عالمی جنگ کے دہانے پر نظر آرہے ہیں اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ’تو نہیں یا ہم نہیں‘۔
عالمی سطح پر ان دنوں انسانی ذہن و دل کی آزادی کا معاملہ اس قدر زور پکڑے ہوا ہے کہ اب رشتوں کا کوئی مطلب نہیں رہا۔ اوپر کے اقتباس میں ہم نے دیکھا کہ کس طرح ہیومن رائٹس کے نام پر یا ذہنی آزادی کے نام پر ماں باپ کے رشتے تک کا کوئی مطلب نہیںرہا۔ یعنی ماں باپ اپنی جگہ اور بالغ و نابالغ اولاد اپنی جگہ۔ اب اپنی اولاد پر بھی والدین کا حق نہیں رہا تو رشتے اور ناطے چہ معنی دارد۔ایسے میں ذہنی آزادی کے نام پر سماج میں جو برائیاں جڑ پکڑ رہی ہیں اس کے انجام سے اب تک ہم سب ناواقف ہیں۔ اب اولاد کو ماں باپ کیا ان کے نام تک کی ضرورت نہیں۔ ان کے رشتے کی معیاد اتنی ہی ہوتی ہے جتنی ان کی پسند و ناپسند کی۔ جب جی چاہاکسی سے رشتہ جوڑ لیا جب من بھر گیا الگ ہو گئے۔ اور عشق و محبت کے نام پر جس کے جی میں جو آیا اور جب تک چاہا ساتھ رہے اور پھر اپنے اپنے راستے۔ ہر عمر کے عشق کا مطلب مختلف ہوتا ہے۔ جوگندر پال کی زبان ہی میں دیکھیں:
”کرشن گوپال نے اپنے ہائی اسکول کے آخری دنوں میں ایک زوردار عشق کیا اور اس میں ناکام ہوکر جب خودکشی پر اتر آیا تو یہاں بھی اس کے ٹیچر نے بڑی مشکل سے اسے پھر سے اپنے پیروں پر کھڑا کیا۔ اس کے بعد کالج کے دنوں میں کرشن گوپال نے ایک امریکی لڑکی سے عشق کرکے خود آپ ہی اسے چھوڑ دیا اور چونکہ اس بے چاری کو خودکشی سے بچانے والا کوئی نہ تھا اس لئے اس نے نراش ہوکر جان دے دی۔ اپنا آخری عشق کرشن گوپال نے لاءکی ڈگری لینے کے بعد کیا اور اپنی ہندوستان کو واپسی اس وقت تک روکے رکھی جب تک کیتھی سے باقائدہ شادی نہ کرلی۔“ (چوتھا ادھیائے)
ہم نے محسوس کیا کہ دوسروں کے لیے راہ نمائی کرنے والا کس طرح بھٹک رہا ہے۔ جوگندر پال نے علامتی طور پر ہندوستانیوں اور امریکیوں کی ذہنیت کو تاریخی سطح پر پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ کہاں ہم ہندوستانیوں نے پوری دنیا کو تہذیب و ثقافت کی بہترین مثال دی ہے اور کہاں اب ہم دوسرے ممالک کی کم تر بلکہ بد تر تہذیب کی پیروی کر رہے ہیں۔ اس پیروی میں ان کی ذہنی آزادی بھی شامل ہے۔ اس آزادی کا مطلب صرف اور صرف مفاد پرستی ہے۔ ہم اس سے بھی واقف ہیں کہ جب لوگ خود میں محسور ہونے لگیں گے تو دنیا نہ صرف سمٹ جائے گی بلکہ اپنی بربادی کا اعلان کر دیگی۔ اور اب صورت حال ایسی ہی پیدا ہوہی ہے۔جوگندر پال نے اس کہانی کے ذریعے اس نام نہاد مغربی تہذیب اور ذہنی آزادی کی عکاسی کی ہے۔کرشن کا اب تک کا آخری عشق جو کیتھی کی شکل میں تھا اس لیے کامیاب رہا کہ کیتھی اور کرشن اپنے اپنے مقصد کے حصول کے لیے ایک دوسرے سے رشتے میں بندھے۔ اس قسم کی رشتے کی معیاد کیا ہوگی۔ یعنی مقصد ختم رشتہ ختم یا مقصد میں تبدیلی آتے ہیں رشتہ بدل جائے گا۔جوگندر پال لکھتے ہیں:
”کیتھی بڑی بے دھڑک طبیعت کی مالک تھی۔ اس نے اپنے شوہر کو بتایا، تم کیا اور کوئی اور کیا، میں نے تم سے صرف اس لئے شادی کی ہے کہ کسی طرح ہندوستان دیکھ لوں۔
’کیوں ، ہندوستان میں ایسا کیا ہے؟‘
’میرا دادا وہاں برٹش آرمی میں کرنل تھا اور بچپن میں اتنی کہانیاں سنایا کرتا تھا کہ میرے کانوں میں ابھی تک ہندوستانی سپیروں کی بین بجتی رہتی ہے۔‘
کرشن گوپال نے بھی کیتھی سے صرف کیتھی کے لئے شادی نہ کی تھی۔ وہ چاہتا تھا کہ وہ سارے امریکہ کو ہندوستان اٹھا لے جائے، کیتھی کے ساتھ اسے وہاں بھی لگے گا کہ وہ امریکہ میں ہی رہے جا رہا ہے۔“
(چوتھا ادھیائے)
جوگندر پال نے جسے بے دھڑک طبیعت کی مالک کہا ہے، دراصل وہ بے باکی نہیں بلکہ مفاد پرستی ہے۔اور ہم جانتے ہیں کہ مفاد پرستی جب اپنے عروج پر پہنچتی ہے تو پھر وہ اپنے فائدے کے ساتھ دوسرے کا نقصان بھی سوچ میں داخل ہو جاتا ہے۔ اپنا فائدہ سوچنا بری بات نہیں لیکن دوسرے کا نقصان سوچنا اور کرنا بہت بری بات ہے۔ اور ایسے لوگوں کو جب توجہ نہیں ملتی تو پھر وہ انتہائی قدم تک اٹھانے میں بھی جھجھک محسوس نہیں کرتے۔ ایسے کردار ہر سماج میں آسانی سے مل جاتے ہیں جو خود کو ہمیشہ جائز ٹھہراتے ہیں اور دوسرے میں عیب ہی عیب تلاش کرنے کی مسلسل کوشش کرتے ہیں۔ہم اپنے آس پاس بھی ایسے کرداروں کو دیکھ سکتے ہیں۔
اپنی لاءکی تعلیم مکمل کرنے کے بعدکرشن جب کیتھی سے شادی کرنے کے بعد اسے ساتھ لے کر ہندوستان لوٹتے ہیںتو اس کے ذہن میں اپنے والدین کی تصویر تک نہیں ہوتی۔ جوپہلا شخص اس کی جانب گرم جوشی سے بڑھتا ہے اسے وہ اپنا باپ سمجھ لیتا ہے کیوں کہ اس نے اپنے والدین کی تصویر بکس میں بند کر رکھی ہے۔دراصل یہ بکس نہیں بلکہ ذہن کے دروازے بند ہو گئے ہیں یا بند کر رکھے ہیں۔ ہندوستان کی سرزمین پر کیتھی کے ساتھ قدم رکھنے کا منظر آپ بھی دیکھیں:
”اندراگاندھی ائرپورٹ پر ریسپشن میں جب اس کے باپ کا وہی پرانا پرسنل سکریٹری اس کا باپ بے اختیار اس کی طرف بڑھ آیا تو کرشن گوپال نے اپنے لہجے میں نمائشی سا تپاک پیدا کرکے اس کی طرف ہاتھ بڑھادیا۔
’ہاﺅ ڈُو یو ڈُو ڈیڈ؟‘
منتری مہودیہ نے آگے آکر اس کے باپ کو پرے دھکیل دیا اور اسے بتانے لگے۔ ’تمہارا ڈیڈ میں ہوں بیٹے۔‘
اس نے اپنا ہاتھ فوراً اس کی طرف بڑھا دیا۔ ’آئی ایم ساری ڈیڈ۔“ (پانچواں ادھیائے)
یہاں جوگندر پال نے کرشن گوپال کی زبان سے صرف دو جملے ادا کروائے ہیں یعنی’ہاﺅ ڈُو یو ڈُو ڈیڈ؟‘ اور ’آئی ایم ساری ڈیڈ‘۔ یہ دونوں ہی جملے انگریزی میں ہیں۔ اپنے اصل باپ سے ملنے پر اس کی خیریت پوچھتا ہے اور منتری مہودیہ سے ملنے پر ندامت کا اظہار کرتا ہے۔ اب اگر اس پر غور کریں تو سکریٹری جو منتری کے ماتحت ہے اس کی خیریت اور منتری سے ندامت کے اصل معنی ان کے کاموں اور حرکات سے بھی واضح ہو جاتے ہیں۔ ایک جانب بحیثیت آدمی اور دوسری جانب ان کے کام اور ان کی نیت کی مناسبت سے خیریت اور شرمندگی واضح ہوتی ہے۔جوگندر پال کرشن گوپال کے لہجے میں نمائشی ساتپاک پیدا کر کے ہاتھ بڑھانے کا ذکر کرتے ہیں۔دراصل موجودہ دور میں اصل کی قیمت اور حیثیت ثانوی ہو گئی ہے اور نمائش پر سارا زور ہے۔ اصل باپ کی حیثیت یہاں ثانوی ہوجاتی ہے اور نمائشی باپ اپنے جانب کرشن کومتوجہ کرنا چاہتا ہے۔ دراصل نہ صرف اشیا بلکہ رشتے بھی اب دکھاوے کے ہونے لگے ہیں۔ اب انسان کا ظاہر اور باطن اس قدر گنجلک ہے کہ یہ معلوم کرنا مشکل ترین ہوتا جا رہا ہے کہ اس کا اصل کیا ہے ؟ سرسید نے اپنے ایک مضمون میں لکھا تھا کہ دنیا میں تین طرح کے لوگ پائے جاتے ہیں اول جو جتنے برے ہوتے نہیں اتنے برے دکھنے کی کوشش کرتے ہیں، دوئم جو جتنے اچھے نہیں ہوتے اتنا اچھا دکھنا چاہتے ہیں اور سوئم ہوتے کچھ ہیں اور دکھنا کچھ چاہتے ہیں یعنی ٹٹی کے اوجھل شکار کھیلتے ہیں۔ اب سے کم و بیش ڈیڑھ سو برس پہلے لکھا گیا یہ مضمون آج بھی اتنا ہی سچا ہے اور موجودہ دور کی ذہنیت کی کامیاب عکاسی کرتا ہے۔اوپر کے اقتباس میں منتری مہودیہ کرشن گوپال کے اصل باپ کو پرے دھکیل دیتا ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ آج کے دور میں ہر طاقتور ، کمزور کو اور دولت مند غریب کو اتنا پرے دھکیل چکا ہے کہ اب ان کا وجود تک خطرے میں نظر آرہاہے۔ ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ دونوں کو بچائے رکھنے اور ان کے عیش و عشرت کا سامان بہم پہنچانے میں ان کمزور اور غریب لوگوں کا بڑا کارنامہ ہے۔آج ہماری حالت یہ ہو گئی ہے کہ ہیرا کو چھوڑ کر کوئلے کی قدر کی جا رہی ہے۔اصل رشتے کے بجائے بناوٹی جذبات کو اہمیت دے رہے ہیں۔ماں باپ کے جذبات اب بے معنی ہو گئے ہیں اور جو رشتے خود بنائے جاتے ہیں اس کی اہمیت خونی رشتے سے زیادہ ہونے لگی ہے۔نئے بنے رشتے دار بھی خون کے رشتے کو اہمیت نہیں دیتی اور اسے ایسا لگتا ہے کہ اس کا حق چھینا جا رہا ہے۔جوگندر پال نے ماں ، بیٹے اور بیوی کے رشتے اور جذبات کو نہایت کامیابی سے ان الفاظ میں پیش کیا ہے:
”ذرا میرے پاس آﺅ گوپالا۔‘
اور گوپالا اس کے قریب جاتاتو میّا باﺅلی ہوکر اسے اپنے بازوﺅں سے سینے پر باندھ لیتی۔
’اتنے سال میری نظروں سے اوجھل رہے ہو گوپالا۔ میری موت سے پہلے کم سے کم اتنے گھنٹے تو میرے ساتھ بتاﺅ۔‘
چند روز تو میّا کی بہو کیتھی اپنے پتی سے ہلکی پھلکی شکایت میں بات ٹالتی رہی، مگر پھر اسے محسوس ہونے لگا کہ پانی سر سے اوپر اٹھ آیا ہے ، اور وہ اپنے پتی کے سامنے ڈٹ کر کھڑی ہو گئی۔
’تمہاری ماں تمہاری بیوی ہے گوپالا، یا تمہاری بیوی؟‘
’یہ بھی کوئی پوچھنے کی بات ہے ہنی؟‘
’پوچھنے کی بات ہے ڈارلنگ۔‘ کیتھی کا لہجہ فیصلہ کن تھا۔ ’اسی لئے پوچھ رہی ہوں۔‘
’کیا پوچھ رہی ہو؟ کہ پاگل اولڈ وومن مجھ پر قبضہ کیوں جمائے بیٹھی ہے؟‘
کرشن گوپال اپنی بیوی کو آرام سے سمجھانا چاہتا تھا۔ ’مجھے خود اس کا پاگل پن ایک آنکھ نہیں بھاتا۔‘
’تو پھر دوسری آنکھ سے بھاتا ہوگاگوپالا۔‘ کیتھی کے سر پر میّا بھوت کی طرح چڑھ آئی تھی۔
شیل آئی اسپیک دا ٹرتھ؟ تمہاری ماں اصل میں سیکسچول پرورٹ ہے اور تمہیں اپنے ہزبینڈ کی طرح برتنا چاہتی ہے۔‘
’نان سینس!‘
’تم کچھ بھی کہو ، مگر میرے ساتھ رہنا چاہتے ہو تو صرف میرے ساتھ رہو۔‘
’ٹھیک ہے ہنی ۔ یہ بات ہے تو چند دن ہم یہاں گھوم پھر لیتے ہیں ، اس کے بعد واپس سٹیٹس چلے جائیں گے۔‘
’ہاں، ان سارے دنوں ہم آگرہ، اجنتا کیوز اور موہنجوڈارو دیکھیں گے۔ اور کیا نام ہے اس شہر کا۔ ہاںمیرے دادا کا میرٹھ بھی دیکھنے جائیںگے‘
’شﺅر ہنی!“ (سترہواں ادھیائے)
جوگندر پال نے اس مختصر اقتباس میں ایک ساتھ بہت سی باتوں اور ذہنیت پر سے پردہ اٹھا دیا ہے۔ اس سے اندازہ ہی نہیں بلکہ معلوم ہوجاتا ہے کہ مشرق و مغرب میں رشتے کا کیا فرق ہے۔ اکبر نے کہا تھا :
بھُولے ماں باپ کو اغیار کے چرچوں میں وہاں
سای ©ئہ کفر پڑا نورِ خدا بھول گئے
موم کی پتلیوں پر ایسی طبیعت پگھلی
چمن ہند کی پریوں کی ادا بھول گئے
نقل مغرب کی ترنگ آئی تمہارے دل میں
اور یہ نکتہ کہ مری اصل ہے کیا بھول گئے
جوگندر پال اور اکبر الٰہ آبادی نے جن الفاظ میں اپنی بات کہی ہے وہ ہم سب کے لیے عبرت کامقام ہے۔ ہمارے جذبات کس طرح اغیار کو ہوس دکھائی دیتے ہیں بلکہ ماں اور بیٹے کے درمیان کے رشتے انھیں جسمانی محسوس ہوتے ہیں۔ کیتھی کا یہ کہنا کہ’تمہاری ماں اصل میں سیکسچول پرورٹ ہے اور تمہیں اپنے ہزبینڈ کی طرح برتنا چاہتی ہے۔‘ نہ صرف کیتھی کی ذہنیت کو اجاگر کرتا ہے بلکہ اس کے ملک میں رشتے کی حرمت کی عکاسی کرتا ہے۔ ہوسکتا ہے وہاں ماں بیٹے کے درمیان بھی جسمانی رشتے قائم کئے جاتے ہوںورنہ کیتھی کے ذہن میں یہ بات آبھی کیسے سکتی تھی۔ ہندوستان میں اس کے بارے میں تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔اور پھر ہمارا کرشن گوپال اس قدر بدل چکا ہے کہ وہ یہ سن کر صرف ’نان سینس!‘کہہ پاتا ہے۔ اس نان سینس کو دونوں طرح سے لیا جاسکتا ہے۔ اول وہ کیتھی کی بات کو کہتا ہے دوسرے اپنی ماں کے بارے میں سوچتا ہے۔ ہم یہ بھی سمجھ سکتے ہیں کہ اب ہمارا کرشن گوپال بھی یہی مان رہا ہے۔ تبھی تو وہ فوراً یہ کہتا ہے کہ ’ٹھیک ہے ہنی ۔ یہ بات ہے تو چند دن ہم یہاں گھوم پھر لیتے ہیں ، اس کے بعد واپس سٹیٹس چلے جائیں گے‘۔
ہندوستانی تہذیب و ثقافت میں نہ صرف ماں باپ بلکہ بزرگوں کو بھی اہم مقام حاصل ہے۔ لیکن کیتھی اور کرشن کو ان میں سے کسی کا پاس نہیں۔ اس کے لیے اب خود غرض کیتھی ہی سب کچھ ہے اور وہ اس کے کہنے پر ہی نہیں بلکہ اس کے اشارے پر کچھ بھی کر گزرنے کو تیار رہتا ہے۔ اسے یہ ڈر ستاتا رہتا ہے کہ اگر کیتھی نے اس کا ساتھ چھوڑ دیا تو وہ اسٹیٹس واپس نہیں لوٹ پائے گا بلکہ وہ ہندوستان میں کیتھی کے ساتھ رہ کر یہی سمجھ رہا ہے کہ اسٹیٹس میں ہی ہے۔ آخر کار وہ کیتھی کے حکم پر اسٹیٹس لوٹ جانے کا مکمل ارادہ کرکے توشہ سفر باندھ لیتا ہے۔ اب ماں باپ تو ٹھہرے ہندوستانی اور بیٹا آخر بیٹا ہوتا ہے۔ ماں باپ نے اپنے ہندوستانی ہونے کا ہی نہیں بلکہ مکمل ہندوستانی اور اپنی قدیم تہذیب کے پاسدار ہونے کا ثبوت پیش کیا۔ بیٹے کی اسٹیٹس واپسی سے پہلے گیتا پاٹھ کروانے کا فیصلہ کیا اور بڑی مشکل سے بیٹا اور بہو کی زبان جاننے والے پنڈت کا انتظام بھی کیا تاکہ جس کے لیے پاٹھ کروایا جارہا ہے اس کی سمجھ میں بھی کچھ آجائے۔ جوگندر پال کی زبان میں دیکھیں:
”کل کرشن گوپال اور کیتھی واپس سٹیٹس جا رہے تھے اور آج شام کو منتری مہودیہ نے اپنے یہاں گیتا کا پاٹھ ستھاپن کر رکھا تھا اور وشیش جتن کرکے ایک ایسا پنڈت ڈھونڈ نکالا تھا جو اس کے بیٹے اور بہو کے گیان دھیان کے لئے گیتا کے شلوکوں کا شدھ انگریزی میں انوواد کر سکے۔ ان شبھ موقع پر اس نے اپنے بیسیوں متروں کو کنبے سمیت بلا رکھا تھا۔
ہے ارجن ! وَین اَیور داپاٹ برمز وِدھ سِن، آئی میک مائی اپئرنس ان دا وَرلڈ
پنڈت کو بڑے دھیان سے سنتے ہوئے بھی گوپال کرشن کو یاد نہ آیا کہ خود اسی نے تو کوروکشیتر کے میدان میں ارجن کو مخاطب کیا تھا۔ اس نے چائے کی پیالی سے منھ ہٹا کر اپنی بیوی سے کہا۔ ”انٹرسٹنگ ، ہنی، اَینڈ اِٹ؟ “ پھر وہ اچانک اپنی ایک سوچ پر ہنس پڑا۔’یو نو ، واٹ؟ان لوگوں میں سے ہر کوئی جنم سے پہلے خود آپ ہی کرشن بھگوان تھا اور جنم لے کر بھول گیا، وہ کیا تھا اور کیوں پیدا ہوا“ (اٹھارہواں ادھیائے)
کہانی کے اس حصے کے ذریعے جوگندر پال نے کئی سطحوں پر بات کرنے کی کوشش کی ہے۔ ماں باپ کے جذبات، اولاد کے تئیں ان کی ذمہ داری، اپنی خوشی اور غم میں اپنے دوستوں اور خاندان کے لوگوں کو شامل کرنا، اولاد کا ان کے تئیں رویہ، والدین کے جذبات کی ناقدری اور خود کے اندر اس قدر سمٹ جانا کہ اپنی ہی بات کا مذاق اڑانا وغیرہ جیسے بہت سے نکات کو پیش کیا گیا ہے۔ ہم نے دیکھا کہ پنڈت جی خود کرشن کی باتوں کو ان کے سامنے ان کی ہی زبان میں رکھتے ہیں اور وہ اس کو سمجھ کر اپنے اندر اتارنے کے بجائے نہ صرف اسے نظر انداز کرتا ہے بلکہ کیتھی کے ساتھ مل کر نہایت غیر سنجیدگی کا اظہار کرتا ہے۔ آج بھی صورت حال یہی ہے کہ ہم اپنی اچھی اور مثبت باتوں کو بھلا کر سطحی اور منفی باتوں کو اپنا رہے ہیں۔ یہاں تک کہ ہمیں اپنے مذہب کی باتیں اس غیر ملکی زبان یعنی انگریزی میں سمجھانے کی نوبت آن پڑی ہے، اور وہ بھی کسے خود کرشن گوپال کو ۔ آج صورت حال یہی ہے کہ ہماری اپنی باتیں ہمیں کوئی اور بتاتا ہے اور ہم اس پر سر دھنتے ہیں۔ گویا ہم یہ نہیں دیکھتے کہ باتیں کس کی اور کیا ہے بلکہ یہ دیکھتے ہیں کہ بول کون رہا ہے۔گویا اب ہماری باتیں جب کوئی غیر ملکی بتائے گا تب ہماری سمجھ میں آئے گا اپنوں سے نہیں۔
اوپر پیش کئے گئے حصے میں ”ان لوگوں میں سے ہر کوئی جنم سے پہلے خود آپ ہی کرشن بھگوان تھا اور جنم لے کر بھول گیا، وہ کیا تھا اور کیوں پیدا ہوا“ نہایت معنی خیز ہے۔ ہندوستان دیوی دیوتاﺅں ، رشی منیوں اور فقیروں و صوفیوں کا ملک رہا ہے۔ ہم نے دنیا کے بیشتر ممالک کو امن و شانتی کا سبق پڑھایا ہے تو علم کی دولت سے مالا مال بھی کیا ہے۔ لیکن آج ہمیں علم حاصل کرنے کے لیے ملک سے باہر جانے میں فخر محسوس ہوتا ہے تو دنیا ہمیں امن و شانتی کی تلقین کر رہا ہے۔یعنی ہم نہ صرف غیروں کی تقلید کر رہے ہیں بلکہ اپنی اہمیت کو بھلا چکے ہیں۔آج بھی ہمارے پاس وہ سب کچھ ہے جس کے لیے دنیا کے زیادہ تر ممالک ترس رہے ہیں۔ آج ایک بار پھر ہم دنیا کے نقشے میں ایک اہم مقام حاصل کر سکتے ہیں بشرطیکہ اپنی قوت اور اہمیت کو پہچان کرمفاد سے اوپر اٹھ کر صرف ملک و قوم کے لیے اس کا مثبت استعمال کرسکیں۔
جوگندر پال کی کہانی اٹھارہ ادھیائے نہ صرف اردو کی اہم کہانیوں میں سے ایک ہے بلکہ جدید کلاسک کا درجہ رکھتی ہے۔ آج سے بہت پہلے لکھے جانے کے باوجود آج کی ذہنیت اور اکیسویں صدی کے مزاج کی کامیاب عکاس ہے۔ اس کہانی کا سچ اتنا ہی اہم ہے جتنا ہماری تہذیبی تاریخ۔ کرشن کے کردار کو اتنی کامیابی کے ساتھ خلق کیاگیا ہے کہ اس میں کئی سماج، تہذیب اور ثقافت موجود نظر آتا ہے۔ یہ کردار ایک ساتھ کئی کرداروں کی ذہنیت کا عکاس ہے۔ منتری مہودیہ موجودہ دور کے سیاست دانوں کی بھرپور نمائندگی کرتے ہیں تو ان کی بیوی اولاد کی خوشی پانے کے لیے کچھ بھی کر سکنے اور ان کی خوشی کے لیے کسی بھی حد تک جانے کی بہترین مثال ہے۔ اس کردار کے اندر معصومیت بھی ہے اور ایک جذباتی خاتون کا مزاج بھی۔ وہیں کیتھی ایک ایسی عورت کی نمائندگی کرتی ہے جس کو صرف اپنی خواہش اور پسند کا خیال ہے۔ وہ اس سے کہیں اور کسی بھی صورت میں سمجھوتہ نہیں کرسکتی۔ اپنے شوہر پر صرف اپنا حق سمجھتی ہے ۔ اپنے مفاد میں اس قدر گم ہوچکی ہے کہ اسے کرشن کی ماں، باپ اور دوسرے رشتہ داروں کی کوئی فکر نہیں بلکہ اسے ماں کا کرشن کو سینے سے لگانا نہ صرف گراں گزرتا ہے بلکہ اسے نازیبا حرکات سے ترجیح دیتی ہے۔ کہانی کا مرکزی کردار کرشن ہمیشہ جدوجہدکرتا دکھائی دیتا ہے۔ پہلے تو دنیا میں آنے کے لیے کس کس طرح کی مصیبتوںکا سامنا کرتے ہوئے کن کن کا احسان لیتا ہے۔ اپنی مرضی کا کوکھ بھی نہیں اختیار کرسکتا۔ اور پھر دنیا میںآنے کے بعد اپنے منتری باپ کی مرضی کے مطابق بچپن میں ہی غیر ملک کو چلا جاتا ہے۔ وہاں اس ملک کی تہذیب اور ذہنیت کو اپناتا ہے۔ پھر کیتھی سے شادی کے بعد اس کی مرضی کے مطابق ہی زندگی گزارتا ہے۔ گویا یہ ایسے لوگوں کی نمائندگی کرتا ہے جو مستقل مزاج نہیں ہیں۔ ایک ضمنی کردار منتری مہودیہ کا سکریٹری ہے۔ ہے تو یہ کرشن کا اصلی باپ لیکن اس کی حیثیت معدوم ہو چکی ہے۔ جب کرشن اس سے پوچھتا ہے کہ ’ہاﺅ ڈُو یو ڈُو ڈیڈ؟‘ تو اس کے اندر کے ساز کے تمام تار بجنے لگتے ہیں لیکن دوسرے ہی لمحے اس کی آواز خاموش کردی جاتی ہے۔ اسے اگر ہم ہندوستانی بیوکریسی کا نمائندہ کے طور پر دیکھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ اصل میں بنیادی کام تو یہی لوگ کرتے ہیں لیکن اس کا سہرا ہمیشہ منتری مہودیہ کے سر ہی باندھا جاتا ہے۔ گویا اٹھارہ ادھیائے جوگندر پال کی ہی نہیں اردو کی بہترین کہانیوں میں سے ایک ہے جو اپنے موضوع اور پیش کش کی وجہ سے نہ صرف اردو کے قارئین بلکہ ناقدین کے ذہن میں بھی محفوظ رہے گی اور ہر زمانے میں نئی معنویت کے ساتھ زمانے کے نشیب و فراز پر روشنی ڈالے گی۔
٭٭٭
Leave a Reply
Be the First to Comment!