آٹھویں دہائی کے بعد اردو ناولوں میں عورت کردار
ڈاکٹر واثق الخیر
پوسٹ ڈاکٹریٹ فیلو، جواہر لعل نہرو یونی ورسٹی، دہلی
Mobile: 9810383617
E.mail: wasujnu@gmail.com
فکشن میں کردار انسانی خیالات اور جذبات کو پیش کرنے کا بہترین وسیلہ ہوتا ہے۔ ناول کی پیش کش میں کردار اساسی حیثیت رکھتے ہیں۔ کردار نہ صرف قصے کی روح ہوتی ہے بلکہ اس میں حقیقت کا رنگ بھی بھرتا ہے اور زندگی میں حرکت و حرارت بھی پیدا کرتا ہے۔ واقعات اور پلاٹ کردار ہی کے سہارے آگے بڑھتے ہیں اور ارتقا کی سیڑھیاں طے کرتے ہوئے انجام تک پہنچتے ہیں۔ کردار زندگی کے حالات اور اس کے تقاضے کے مطابق بدلتی رہی ہے۔ داستانوی ادب میں کردار فطرت سے ہم آہنگ ہونے کے بجائے مافوق الفطرت ہوا کرتا تھا۔ عام انسانوں سے بالاتر اس کے جذبات و حرکات ہوا کرتے تھے۔ داستانوں میں دلچسپی پیدا ہونے کے باوجود قاری ایسے کرداروں سے اپنی مطابقت قائم نہیں کرپاتا تھا لیکن ناول میں ایسے کرداروں کو پیش کیا گیا جو حقیقی زندگی اور عام انسانی جذبات سے لبریز ہوا کرتے تھے یعنی اب کردار جیتے جاگتے سماج سے ہوتے تھے جو عام انسانوں کے جذبات و حرکات سے تعلق رکھتے تھے۔ کردار کے سلسلے میں ڈاکٹر محمد احسن فاروقی اور نورالحسن ہاشمی کا کہنا ہے کہ:
”حقیقت یہ ہے کہ کردار کسی قسم کے بھی ہوں، ان میں زندگی ہونا ضروری ہے۔ ان میں ایک ہی صفت ہو۔ یا وہ کسی خاص صفت کے مجسمے یا اشارے ہوں تو ضروری ہے کہ ان کی یہ صفت اس طرح نمایاں کی جائے کہ وہ ہمارے دلوں کو اپنی طرف کھینچے اور ان کی حرکات، بات چیت وغیرہ سے ہمیں ظاہر ہو کہ وہ جیتے جاگتے انسانوں کی طرح ہیں۔ اگر ان کا ایک ہی پہلو دکھایا جائے یا وہ کسی خاص جذبہ یا کاوش کے ماتحت کام کررہے ہیں، تو بھی ان کا جو پہلو ہمارے سامنے لایا جائے وہ اپنی حد تک صحیح ہو اور وہ فن کا اصل مقصد یعنی دلچسپی پیدا کرنا، پورے طور پر ادا کرتا ہو۔“
(محمد احسن فاروقی/ نورالحسن ہاشمی، ناول کیا ہے، ص۔ ۷۲)
ناول نگار مرد ہو یا عورت انہوں نے اپنے کرداروں کو انتہائی ذمہ داری کے ساتھ اپنے ناولوں میں پیش کیا ہے، مرد ناول نگاروں نے اپنے ناولوں میں عورت کرداروں کو بھی جگہ دی ہے، جبکہ خواتین ناول نگاروں نے بھی مرد کردار استعمال کیے ہیںمگر جو جذبہ اس میں پیدا ہونا چاہیے وہ نہیں ہوپاتا ہے۔ بیش تر مرد ناول نگاروں نے اپنے ناولوں میں مرد کو ہی مرکزی کردار کی حیثیت سے پیش کیا ہے۔ چوں کہ مرد ہونے کی حیثیت سے ان کی سوچ، ان کی پسند و ناپسند، ان کے جذبات و احساسات، ان کے افکار و اعمال اور ان کے دل میں جس طرح سے غور و فکر کی دھارا اور نفسیاتی لہریں اٹھتی ہیں اس سے بہت حد تک مرد ناول نگاروں کے شعور اور تحت الشعور میں ہوتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مرد کرداروں کی تصویرکشی کرنے میں وہ کامیاب دکھائی دیتے ہیں لیکن جہاں انہوں نے عورت کرداروں کو پیش کیا ہے وہاں عورت کرداروں کو اپنے احساسات و خیالات میں ڈھال کر پیش کیا ہے تاکہ نسوانی کرداروں کی خصوصیات پوری طرح واضح ہوسکیں۔ بعض ناول نگاروں نے اپنے ناولوں میں عورت کو مرکزی کردار کی حیثیت سے پیش کیا ہے جس میں وہ نہ صرف کامیاب ہیںبلکہ ان کرداروں کے ظاہری اور باطنی پہلوو ¿ں کو اجاگر کرنے کے ساتھ ان کی ذہنی، جذباتی اور نفسیاتی نشو و نما کے ارتقائی عمل کو دلچسپ طریقے سے بیان کیا ہے۔ اس کے علاوہ کرداروں کی سماجی، سیاسی اور معاشی مسائل کے مختلف رخ کی بھی عکاسی کی ہے۔ جس سے ان کی کامیابی، محرومی، آرزو اور شکست سبھی کچھ نمایاں ہوئی ہیں۔ خواتین ناول نگاروں نے جہاں نسوانی کردار پیش کی ہیں اس میں وہ پوری طرح کامیاب نظر آتی ہیں۔ کیوں کہ ان کے احساسات ان کے جذبات اور ان کے مسائل سے وہ خود بھی واقف ہوتی ہیں۔ خواتین ناول نگاروں کے کردار ہر طبقے سے تعلق رکھتی ہیں وہ اعلیٰ طبقے سے بھی ہوتی ہیں اور متوسط طبقے سے بھی۔ ان کرداروں کی پیش کش میں پوری نفسیات ظاہر ہوجاتی ہے۔ عورتوں کی نفسیات سے عورت اچھی طرح واقف ہوسکتی ہے۔ اس لیے ان کرداروں میں وہ ساری خوبیاں پائی جاتی ہیں جو ایک عورت کے اندر ہونی چاہیے۔ خواتین ناول نگاروں نے عورتوں کو ذیلی کردار کے ساتھ ساتھ مرکزی کردار کی حیثیت سے بھی پیش کیا ہے۔ شافع قدوائی نسائی کردار کے حوالے سے لکھتے ہیں۔
”ناول میں نسائی کرداروں کے مطالعے میں یا تو ان کی زبوں حالی، کسمپرسی اور بے زبانی کا ذکر کیا جاتا ہے یا پھر مرد اساس معاشرے کے عورت سے متعلق تصورات کو موضوع بحث بنایا جاتا ہے۔ مرد اساس معاشرے نے بعض انسانی خصوصیات مثلاً شفقت، ممتا، نرمی، بے لوث قربانی کا جذبہ، اطاعت شعاری اور پاک دامنی کو عورت سے مختص کردیا ہے اور جس نسائی کردار سے یہ صفات مترشح ہوتی ہیں وہ قابل تحسین اور دیوی کے مماثل ہے اور ان سے انحراف کرنے والے نسائی کردار مردود اور ملعون ٹھہرائے جاتے ہیں۔“
(شافع قدوائی، فکشن مطالعات پس ساختیاتی تناظر)
ابتدا سے ہی ناولوں میں عورتوں کی تصویر بلبل گرفتار کی ہے۔کم سے کم ساتویں دہائی تک کے ناولوں میں یہی صورت دکھائی دیتی ہے۔ جو مرد اساس معاشرے میں اپنی انفرادی تشخص سے یکسر محروم اور ہر قسم کے ظلم اور زیادتیوں کا ہدف بنی ہوئی ہے۔ عورت کے وجود کا انحصار اس کی صنفی تخفیف میں مضمر ہے اور اس دور میں شاید ہی کسی ناول میں اسے ایک عام انسانی وجود کا درجہ دیا گیا ہے۔ وہ ہر جگہ زنجیروں میں قید اور بے دست و پا ہے۔ نسائی تجربے کی شناخت کا ذکر شاذ ہی ہوتا ہے اور عورت کا وجود گھریلو اور ماں کے مترادف سمجھا جاتا ہے۔
بیسویں صدی کے آٹھویں دہائی کے بعد شائع ہونے والے اردو ناولوں کے مطالعے سے اس بات کا احساس ہوتا ہے کہ اس دور کے ناولوں کے کثیر ذخیرے میں جب ہم نسائی کرداروں کی پیش کش پر نظر ڈالتے ہیں تو یہ احساس ذہن میں ایک بڑا سوالیہ نشان بناتا ہے کہ کیا اب عورتوں میں مرکزی کردار بننے کی اہلیت گھٹتی جارہی ہے؟ عورتیں مرد اساس سماج میں مرکز نگاہ تو ہیں مگر مرکز فن کیوں نہیںتسلیم کی جاتیں۔ ان عورتوں کو کیا ہوگیا ہے جو جدید دور میں اپنے با ل و پر کے ساتھ ادبی افق پر معدوم ہوتی جارہی ہیں۔ بھرپور عورت اور مکمل نسائی شخصیت یا کردار کی کمی آج کے ناولوں میں شدت سے محسوس کی جارہی ہے۔ اس جائزے کی تفصیل میں جانے سے قبل جو ایک بات ہمارے سامنے واضح صورت میں آتی ہے وہ ہے عورت کا نہایت تیزی سے بدلتا ہوا روپ رنگ اور سیرت و کردار۔
بیسویں صدی کے آٹھویں دہائی سے ابھی تک کل ملا کر چار دہائی کا تخلیقی سفر طے ہوچکا ہے۔ اس چار دہائی میں ہندوستانی معاشرے میں جو تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں ان کا گہرا عکس اس خاص مدت میں شائع ہونے والے ناولوں میں بخوبی دیکھنے کو مل جاتے ہیں۔ کہا یہی جاتا ہے کہ ناول کسی بھی عہد کی سب سے سچی اور زندہ تاریخ ہے۔ تہذیبی اور ثقافتی تبدیلیوں کے اثرات ناول کے کینوس پر بڑی خوبی سے اجاگر ہوجاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آج ہمارے لیے ناول کا مطالعہ صرف قصہ کی دلچسپی کے لیے نہیں ہے بلکہ کسی خاص عہد سے متعلق بھی ہوسکتا ہے۔ بلاشبہ ان تغیرات و تبدیلی کے درمیان عورت کا تصور کل اور آج میں بہت بدل چکا ہے۔ یہاں ایک دلچسپ بات یہ ہے کہ اس مرد اساس معاشرے میں تصور زن اس قدر شکست و ریخت کے عمل سے گزر رہا ہے کہ واقعی کبھی کبھی حیرت ہوتی ہے کہ دیوی کی صورت میں پوجی جانے والی عورت کا معصوم کردار ناولوں سے گم ہوتا جارہا ہے۔
شبل:۔ ناول ’فرات‘ کا سب سے اہم اور بڑا نسوانی کردار ہے۔ وہ ایک خوبصورت اور اسمارٹ لڑکی ہے۔ نئی پیڑھی کی بے حد پڑھی لکھی جو خود کفیل بھی ہے اور اپنے فیصلے لینے پر قادر بھی۔ اس میں اتنی جرا ¿ت بھی ہے کہ وہ اپنے غلط فیصلے کا احتساب بھی کرلے اور اعتراف بھی۔شبل کی تعلیم و تربیت اس کی مرضی کے مطابق ہوتی ہے۔ اس نے جو پڑھنا چاہا وہ پڑھا اور اپنی پسند سے جو راستہ اختیار کرنا چاہا کیا۔ وہ نہایت ہی ایماندار، روشن خیال، مارکسزم کی گرویدہ اور صحافت سے وابستہ ہے۔
شبل حق کی خاطر بہت جلد طیش میں آنے والی لڑکی ہے مگر سب کے لیے اپنے دل میں محبت کا جذبہ رکھتی ہے۔ وہ جمہوریت، سیکولرزم اور کمیونزم کی دلدادہ ہے اور سب کو اپنے طور پر زندگی گزارنے کا حق دلانا چاہتی ہے۔ وہ چاہتی ہے کہ اگر عورت مرد ذات کی محکومی نہیں رہنا چاہتی ہے تو اس کو پوری آزادی ملنی چاہیے۔ عورتوں کے آزاد رہنے کی خواہش میں گمراہ ہوتی ہوئی شبل جو مرد کی محکومی سے خود کو آزاد رکھنا چاہتی تھی، حالات کی محکوم بن جاتی ہے۔ اور ایک وقت ایسا بھی آتا ہے جب گھر بسانے کی خواہش ان کے وجود میں بھی پیدا ہوجاتی ہے۔لیکن وقت کے آگے بے بس ہونے کے بجائے ایک عزم اور عمل کی قوت اس میں نظر آتی ہے۔ اپنے تن ِناتواں پر ساری دنیا کا بوجھ اٹھائے ساری عالمی برادری کے لیے یہ لڑکی متفکر نظر آتی ہے۔ لیکن وہ شادی نہیں کرتی ہے اور مجرد رہنا اس کی پسند ہے۔ وہ شادی جیسے پاک بندھنوں کو مردوں کی غلامی کے مترادف قرار دیتی ہے لیکن تب بھی وہ ایک عورت ہے اور ہر عورت کے کچھ خواب ہوتے ہیں۔ شادی نہ کرنے کے فیصلے کا افسوس اسے بھی ہوتا ہے۔ اسے یوں محسوس ہوتا ہے کہ کسی نے اسے تن تنہا ایک لق و دق صحرا میں ڈھکیل دیا ہے اور سورج کی تمازت سے اس کا سارا وجود قطرہ قطرہ پگھل کر ریت کے ذروں میں جذب ہوتا جارہا ہے۔
بظاہر شبل اونچی سوسائٹی سے تعلق رکھنے والی ایک انتہائی تعلیم یافتہ آزاد خیال لڑکی نظر آتی ہے۔ لیکن اس کے باطن میں ہندوستان کی وہی ہزاروں سال پرانی معصوم، مظلوم اور ستی ساوتری دوشیزہ مہکتی نظر آتی ہے۔شبل اپنی سارے آرزوو ¿ں اور ارمانوں کو اپنے آنچل میں سمیٹے مردوں سے مقابلہ کرتی اس دارفانی سے کوچ کرجاتی ہے۔
عنیزہ:۔ ’فرات‘ کا ثانوی کردار ہے۔ جو اعلی سوسائٹی کی دلدادہ ہے اور خود کو سیکسی دکھانا پسند کرتی ہے۔ خدا اور رسول کے احکامات کی پابند نہیں ہے مگر لا مذہب بھی نہیں۔ وہ حد درجہ چالاک اور پریکٹیکل عورت ہے۔ اس کی دین داری میں صارفیت کا رنگ دکھتا ہے۔ وہ نیاز، فاتحہ اور بوا شریفین کی زبانی یا قرآنی کیسٹ کے ذریعہ قراآن پاک کے آیات کی مقدس گونج کو بھی ثواب حاصل کرنے کا ایک ذریعہ سمجھتی ہے۔وہ اپنے مفاد کے لیے مذہب تک کا استعمال کرنے سے نہیں چوکتی۔ یہ کردار جدید دور کی ان فیشن پرست عورتوں پر بہت بڑی چوٹ ہے جو اپنے مفاد کے لیے مذہب تک کو استعمال کرنے سے نہیں چوکتیںاور ان کا سارا سماجی، مذہبی اور سیاسی رویہ صرف دکھاوے پر محیط ہوتا ہے۔ گھر کے کسی فرد کے لیے ان کے دل میں کوئی ہمدری نہیں ہے۔فرات کا یہ کردار دوغلی پالیسی پر محیط ہے۔یعنی وہ بھی موڈرن بھی بنی رہے اور اسلام سے دور بھی نہ ہوں۔ان کی چالبازی بدلتی ہوئی سماجی قدروں کی مکمل ترجمانی کرتی ہے۔کیوں کہ آج کے عہد میں صرف وہی لوگ سکھ کی سانس لے سکتے ہیں جو دوہرا معیار زندگی اپنانے کی پالیسی جانتے ہیں۔
تعبیر بی بی:۔ ’فرات‘ میں یہ کردار بے ضرر قسم کی سیدھی سادی اور گھریلو عورت ہوتی ہے۔ اس کردار میں کوئی لاٹ لپٹ نہیں ہے۔ خاندان کے اقدار ی پاسداری کی بہترین مثال ہے۔ یہ شردھا ایک ہندوستانی عورت کے اندر ہی ہوسکتی ہے جن کی پرورش ایسے خانوادوں میں ہوئی ہو جہاں قدیم تہذیب کی پاسداری کا خیال رکھا جاتا ہے۔ جدید نسل کی عورتوں میں اس طرح کی شاردھا نہیں ملے گی کیوں کہ جدید تہذیب نے نئی نسل کو اپنی آغوش میں لے لیا ہے۔ ان کے نزدیک قدروں کی کوئی معنویت نہیں ہوتی ہے۔
سریکھا:۔ یہ ’فرات‘ کا ایک خاص قسم کا نسوانی کردار ہے جو زیادہ ہی مورڈن قسم کی لڑکی ہے لیکن ان کے دل میں کہیں نہ کہیں قدیم تہذیبی اقدار پوشیدہ ہے جو اسے غلط قدم اٹھانے سے روکتی ہے۔ اسی لیے جب اس کا بوائے فرینڈ جنسی خواہش پوری کرنے کی کوشش کرتا ہے تو وہ سختی سے منع کردیتی ہے اور رشتہ بنانے سے پہلے شادی کی شرط رکھ دیتی ہے۔
بیگم شوقی و بیگم ذوالفقار:۔ ناول ’فرات‘ میں یہ وہ ادھیر عمر کی کرداریں ہیں جو شہر کی چکاچوند میں گم ہوتی ہوئی نظر آتی ہیں۔ انہیں نہ اپنی عمر کا لحاظ ہے اور نہ ہی خاندان کے اقدار کا۔ ان کے شوہر ہونے کے باوجود نوعمر لڑکوں کے ساتھ رات پارٹیوں میں گزارتی ہیں۔ اور ان سے جنسی لذت بھی حاصل کرتی ہیں۔ اس عمر کی عورتیںعالم کاری کے اس دور میں شہر کے نائٹ کلبوں میں خوب دیکھنے کو ملتی ہیں۔ ظاہر سی بات ہے جب ایسی مائیں ہوں گی تو بچوں کا کیا کہنا۔ ان بچوں کے عادات و اخلاق بھی تو نائٹ کلبوں جیسے ہی ہوں گے۔ اس طرح کی عورتوں نے خاندان کی قدروں کو زوال کی طرف لے جانے میں بہت اہم رول ادا کیا ہے۔
مادھوری گپتا:۔ ناول ’فرات‘ میںمادھوری گپتا نام کے کردار کو بھی پیش کیا گیا ہے۔ اس طرح کی لڑکیاں آج کے دور میں آفس اور اسکول کالج میں مل جاتی ہیں۔ جو دوسروں کی برائی کرکے نوجوان لڑکوں کو اپنے جال میں پھنساتی ہے۔ یہ نوجوان نسلیں ہر جگہ موجود ہیں۔ جو بے راہ روی کا شکار ہوچکی ہیں۔ خاندان نے اس کی پرورش صحیح طریقے سے نہیں کی ہے۔ یا نئی نسل مستقبل میں ماں باپ کی صورت میں خاندان میں آئیں گی تو اس سے اچھے سماج کی توقع کرنا مشکل ہے۔ خاندان کی قدریں اس طرح کی لڑکیوں سے ختم ہوتی جارہی ہیں۔درج ذیل اقتباس سے پتہ چلتا ہے کہ نئی نسل کی لڑکیاں کس طرح نوجوان مرد کی زندگی کے اسرار و رموز سے واقف رہتی ہیں۔ صرف اس لیے کہ وہ اسے اپنے دامن فریب میں پھنسا سکے۔
سکو:۔ علی امام نقوی کا ناول ’تین بتی کے راما‘ کا اہم کردار ہے۔ ناول کا نسوانی کردار سکو بمبئی کے سیٹھوں کی جنسی مصاحبت کرتے کرتے جوان ہوتی ہے اوران سب کے بیچ وہ اپنا گھر بسانے اور ماں بننے کی تمام فطری خواہشوں کو کہیں دفن کردیتی ہے۔وہ ایک سیٹھ سے دوسرے سیٹھ کی داستہ بنتی رہتی ہے اور بدلے میں کپڑے اور روپے وصول کرتی رہتی ہے۔ دراصل اپنی محدود سی زندگی میں اتنی تنگدستی اور غریبی دیکھی ہے کہ اب وہ اپنے جسم کو دولت کے ترازو میں تولنے لگی ہے۔شادی جیسے پاک رشتوں سے اس کا یقین اٹھ گیا ہے۔ یہ وہی سکو ہے جو گاو ¿ں کی بھولی بھالی لڑکی تھی۔ جو اپنے گاو ¿ں میں سیلانیوں کے آنے اور ان کے حرکات سے بے خبر تھی۔ وہی سکو شہر آنے کے بعد اس کے اندر جو تبدیلی آئی ہے وہ پوری طرح ظاہر ہورہی ہے۔اب سکو کے لیے وہ ریتی رواج کا کوئی مطلب نہیں رہا جو ایک مہذب سماج کی پہچان ہے یعنی شادی۔ اب وہ ان سب روایت کو دولت کے ترازو میں تولتی ہے۔ اور ان کے لیے دولت ہی سب کچھ ہے۔
مینا:۔ غضنفر کا ناول ’کینچلی‘ میں مینا ایک حسین اور خوبصورت بیوی کے کردار میں ہے جو اپنے خاوند دانش کے مفلوج ہوجانے کی وجہ سے بہت ساری پریشانیوں کا سامنا کرتی ہے۔ وہ اپنے شوہر کی دیکھ بھال کے لیے ایک دفتر میں خادمہ کی نوکری کرتی ہے۔ اپنے مفلوج شوہر کی ماں کی طرح پرورش کرتی ہے۔ اور ہر ممکن طور پر شوہر کا علاج کرانے میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھتی ہے۔اس کے خیال میں ’شوہر مجازی خدا ہے‘ اور اس کی اطاعت بہر صورت لازمی ہے۔ اس کے سامنے دیگر راستے بھی ہیں جو دونوں کو جدا کرسکتے ہیں، لیکن وہ اس فیصلے کو قبول نہیں کرتی ہے۔ وہ اپنے شوہر سے جذباتی طور پر اس قدر وابستہ ہے کہ اپنی زندگی سے علاحدہ کرنے کے لےے تیار بھی نہیں ہے۔ لیکن اپنی جنسی خواہش کی تکمیل کے لیے جب وہ ایک نوجوان کی مردانہ کشش کے آگے اپنے آپ کوسپرد کردیتی ہے جس کے نتیجے میں اس کے پیٹ میں ایک ’وجود‘ پرورش پانے لگتا ہے۔ اور جب وہ ’وجود‘ ظاہر ہونے لگتا ہے تو مینا اسے ختم کرانے سے انکار کردیتی ہے ۔ وہ ماں بننے کے حق سے دست بردار ہونے کے لےے کسی بھی صورت میں تیار نہیںہوتی ہے اور نہ ہی اس ’وجود‘ کو قتل کرکے اپنے ضمیر پر ایک نیا بوجھ لینا چاہتی ہے۔ اب یہاں مینا اخلاقیات بنام خواہشات کے دلدل میں پھنسی ہوئی نظر آتی ہے۔ لیکن مجموعی طور پر دیکھا جائے تو مینا کے اندر ایک وفاشعار بیوی، فطری خواہش کو پوری کرتی ایک عورت اور ماں کی ممتا ہر ایک چیز ان کے اندر ہے۔ مینا سماجی رسم و رواج کی پرواہ کیے بنا ایک ایسی زندگی گزارتی ہے جو عورت کے دل کی آواز ہوتی ہے۔ اس کا دل جو چیز قبول کرتا ہے مینا اسی راستے پر چلتی ہے۔
نیرا:۔ پیغام آفاقی کا ناول ’مکان‘ میں نیرا مظلومیوں اور لاچاریوں کی شکار نہیں ہوتی بلکہ تیزی سے تبدیل ہوتے حالات میں ایک قوت بخش اور حالات کا حوصلگی سے مقابلہ کرنے والے عورت ہوتی ہے۔ جو نئی نسل کی لڑکیوں کی نمائندگی کرنے کے طور پر اپنی شناخت بناتی ہے۔ مختلف طرح کے مصائب کو سہتے ہوئے اپنے حق کی لڑائی لڑنے کا تہیہ کرتی ہے۔ اس جدوجہد میں وہ ان سبھی آرام و آسائش کو ترک کرنے کو تیار ہوتی ہے جو اسے معاشی تحفظ فراہم کرنے کا ذریعہ ہوتے ہیں۔ لیکن وہ یہاں ان معاشی تحفظ پر کمار جیسے لوگوں کی شاطرانہ چالوں کو نیست و نابود کرنا ضروری سمجھتی ہے۔ نیرا جس طرح روپے کو ثانوی جان کر اپنے مکان کو حاصل کرنے کے لیے جدوجہد کرتی ہے اس میں جدید دور کی ان تبدیلیوں کا عکس دکھائی دیتا ہے جہاں لڑکیوں میں خود اعتمادی پیدا ہوئی ہے۔ ان میں اپنے فیصلے کرنے کا رجحان بڑھا ہے۔ وہ ایک ایسی دنیا اور ایسے ماحول کی خواہش مند ہوتی ہیں جہاں چیزیں ان کے مطابق رنگ بدلتی ہیں۔ نیرا اسی جماعت کی نمائندگی کرتی ہے۔نیرا مسلسل جدوجہد کرتی رہتی ہے، اسے اپنی بے بسی کا کبھی احساس نہیں ہوتا۔ نیرا کو لگتا ہے کہ وہ خود خالقِ کائنات کی طرح ایک شے ¿ ہے، جس میں خود کو لامحدود شخصیت میں تبدیل کرنے کی طاقت موجود ہے جو ہر چیز پر حاوی ہوسکتی ہے۔ایک اقتباس ملاحظہ ہو جس میں نیرا سماج سے مخاطب ہوتی ہے۔
پیغام آفاقی پوری عورت ذات کی تصویر کشی کر ڈالتے ہیں کہ اسے کمزور نہ سمجھا جائے۔ یہ اگر تحیہ کر لے تو مشکل سے مشکل کام کو حل کرسکتی ہے۔اسی طرح دوسری جگہ نیرا کی یہ خودکلامی ملتی ہے جس سے نیرا کی شخصیت کھل کر سامنے آتی ہے۔نیرا کو اپنے وجودکے تقاضوں کا پورا احساس تھا، ساتھ ہی بھلائی یا برائی کے فیصلے کا اختیاربھی اسے حاصل تھا۔ یہی وجہ ہے کہ اس نے پوری دنیا کے خلاف خود کو کھڑا کرنا لازمی سمجھا، کیونکہ اس کے نزدیک سچائی تھی۔ نیرانے زندگی میں کامیابی کے لےے خوف اور ناکامی کو اپنے دل سے نکال دیا۔ نیراخود اعتمادی کی بناپر مزاحمت میں لگ جاتی ہے۔ نیرا دنیا کے مکر و فریب سے نہایت خوفزدہ اور مایوس ہوجاتی ہے۔ نیرا پر یہ انکشاف ہونے کے باوجود کہ مرد اساس سماج کی اس بھیڑ میں وہ اور اس کی ماں کس قدر تنہا اور لاچار ہے۔اس شہری زندگی میں ہر چیز کو دولت کے ترازو میں تولا جاتا ہے۔ لوگ گھات لگائے بیٹھے ہیں کہ کسی طرح دوسرے کی املاک ہڑپ کرجائے۔اور جب عورت ذات تن تنہا ہو تو اس کے ساتھ ایسا ہونا عین ممکن ہے۔ لیکن ان سب کے باوجود نیرا ہار نہیں مانتی ہے اور اپنا کام کرتی جاتی ہے۔نیرا ناول کے اختتام تک اپنی ہمت کو نہیں کھوتی ہے بلکہ وہ تمام نامساعد حالات کے تھپیڑے کھاکھا کر پہلے کی بنسبت داخلی طور پر زیادہ مضبوط، پراعتماد نظر آتی ہے۔مصنف نے مکان میں ’نیرا‘ کے کردار کو مرد اجارہ دار سماج کے لےے ہمہ جہت مزاحمت بنادیا ہے۔
میں:۔ شموئل احمد کا ناول ’ندی‘ کا یہ تانیثی کردار ہے جو ’میں‘ بن کر پورے ناول میں چھایا رہتا ہے۔ناول کا تانیثی کردار اور اس کے پاپا خوش حال اور تعلیم یافتہ ہیں۔ جو زندگی کو پرسکون طریقے سے گزارتے ہیں۔ یہ ان کا چھوٹا سے خاندان ہے جس میں ان کے پاپا اور وہ خود ہے۔ یہ سوچ کر تڑپ اٹھتی ہے کہ ان کے جانے کے بعد ان کے پاپا اکیلے کیسے رہیں گے۔ یہاں انہیں خاندان سے بچھڑنے کا غم ہے۔ اس خاندان سے جس میں ان کے پاپا تن تنہا ہیں جس نے اسے اعلی اقدار سے سرفراز کیا۔ زندگی کو جینے کا ہنر سکھایا۔
ناول کا تانیثی کردار پوری طرح تانیثیت کے خول میں پیوست نظر آتا ہے۔ تانیثی فکر کا اصل مقصد یہ ہے کہ عورت اپنی زندگی اپنی مرضی سے گزارے۔ اس پر مرد معاشرے کی کسی طرح کی بھی پابندی لاحق نہ ہو۔ عورت مرد کی زندگی کے برابر کی شریک ہو، نہ اس میں کوئی حاکم ہو اور نہ کوئی محکوم، دونوں ایک دوسرے کا شریک کار ہو۔ زندگی کا مزہ تو اسی وقت آئے گا جب مرد عورت ایک دوسرے کی ذہنیت کا بھرپور خیال رکھے۔ ناول کا تانیثی کردار مزاجی طور پر آزادانہ زندگی جینے کی متمنی نظر آتا ہے۔ اس نے کبھی بند فلیٹوں کی زندگی نہیںگزاری تھی۔ اس کے گھر میں بڑا سے لان تھا جس میں پیڑ پودوں کے ساتھ چڑیوں کے چہچہانے کی آواز صدا آتی تھی۔
لیکن یہی تانیثی کردار جب شادی کرکے نئے امنگ اور نئی جوش و خواہش کے ساتھ اپنے شوہر کے گھر جاتی ہے تو یہاں زندگی کے دوسرے پہلو سے روشناس ہوتی ہے۔ناول کا تانیثی کردار شوہر کے اصول پرستانہ زندگی میں گھٹن محسوس کرتا ہے۔ آخرکار ایک دن شوہر کی بے حسی اور غیر مرئی اصول پرستی سے بیزار ہوکر اپنے اس چھوٹے سے خاندان کو خیرآباد کہ دیتی ہے جو حقیقی معنی میں کبھی خاندان بنا ہی نہ تھا۔
سحر ہاشمی:۔ ظفر پیامی کے ناول ’فرار‘ کا یہ ایک ایسا مرکزی کردار ہے۔ سحر ہاشمی کے اس دنیا میں آنکھ کھولنے کے دودن بعد ہی ماں کا سایہ سر سے اٹھ جاتا ہے۔ سحر ہاشمی اعلی تعلیم حاصل کرکے ایم بی بی ایس ڈاکٹر بنتی ہے۔ ماں کی ممتا سے محروم ایک آزادانہ ماحول میں تعلیم و تدریس حاصل کرنے اور برسر روزگار ہونے کے ساتھ ساتھ اس کے ذہن و شعور اور فہم و فراست میں غیر معمولی تبدیلی آجاتی ہے۔ سماج کے تیزی سے بدلتے ہوئے اس دور میں لڑکیاں اور خاص کر اعلیٰ طبقے سے تعلق رکھنے والی تعلیم یافتہ لڑکیاں زندگی کے کسی موڑ پر اپنے اصول اور حق کے لیے سینہ سپر ہوجاتی ہیں۔ انہیں اپنی ذات اور اعمال پر کلی اعتماد ہوتا ہے۔ ایسی لڑکیاں زندگی کے کسی موڑ پر اس لیے سر تسلیم خم نہیں کرلیتیں کہ ان کے کسی بزرگ نے کوئی حکم صادر فرمایا ہے۔ بلکہ اپنی سمجھ کے مطابق اصول و نظریات کو ہر مقام پر مدلل پیش کرنا چاہتی ہیں۔ کیوں کی وہ جو سوچتی ہے اس کے پیچھے ایک مکمل جواز ہوتا ہے۔ ڈاکٹر سحر ہاشمی کی جس ماحول اور معاشرے میں تعلیم و تربیت ہوتی ہے۔ ایسے ماحول کی لڑکیاں اپنے اصول و نظریات خود وضع کرتی ہیں۔ انہیں اپنے بازوو ¿ں پر مکمل عبور ہوتا ہے۔ ایسی لڑکیاں کچھ حد تک ضدی اور خود سر بھی ہوجاتی ہیں۔ وہ اپنے خاندان کے بزرگوں کی بات بلا کسی وجہ کی نہیں مانتی ہیں۔ بلکہ جو ان کو اچھا لگتا ہے وہ کرتی ہیں۔
ناول میں سلیپنگ بیوٹی کا لفظ اس معاشرے کی طرف اشارہ کرتا ہے جس میں عورت کو مرد کے ماتحت مانا جاتا ہے۔ عورت صرف مرد کے حکم کی تعمیل کرنے کے لیے بنائی گئی ہے۔ اس کی اپنی کوئی خواہش نہیں کوئی آرزو نہیں۔ لیکن ڈاکٹر سحر ہاشمی کا تعلق اس نسل سے ہے جو آزادی کے بعد پیدا ہوئی ہے۔ جو ظلم سہنے اور آنسو بہانے کے بجائے حالات کا مردانہ وار مقابلہ کرنے کا عزم رکھتی ہے۔ ہر طرح کی جبری ہجرت اور اپنی زمین اور رشتوں کو چھوڑنے کے خلاف پر زور احتجاج کرتی ہے۔وہ موجودہ ہندوستان میں راہ حیات تلاش کرتے ہوئے ہر مصیبت کا سامنا کرنے والے عوام کی نمائندگی کرتی ہے۔ وہ قیام پاکستان کے نتیجے میں پیدا ہوئی مجرم ضمیری کو قبول کرنے سے قطعی انکار کرتی ہے۔ اپنے بزرگوں کے ذریعہ لیے گئے فیصلوں خواہ وہ صحیح ہوں یا غلط کا انجام بھگتنے کو کسی قیمت پر بھی تیار نہیںہوتی ہے۔ ڈاکٹر سحر ہاشمی وہ لڑکی ہے جو خاموشی سے ظلم سہنے کے بجائے اپنی آواز کو بلند کرتی ہے اور جو کچھ بھی غلط ہورہا ہے اس کے خلاف بولتی ہے۔
ککو مرزا:۔ ’فرار‘ کادوسرا تانیثی کردار تہذیبی و اخلاقی اقدار کے زوال کی داستان بیان کرتا ہے۔ ککو مرزا اپنے جسم کے بدلے وہ ساری خوشیاں حاصل کرتی تھیں جو وہ چاہتی تھیں۔ انہوں نے کراچی میں عالیشان کوٹھی بنوا رکھی تھی۔ جہاں ادیبوں کی محفلیں جمتی ہیں۔ سنگیت کی سبھا لگتی ہے۔ فلموں کے تازہ پرنٹ دکھائے جاتے ہیں۔ بڑے بڑے فوجی جرنل اور قونصل خانے کے نوجوان افسروں کے ساتھ وہسکی کے گلاس ٹکراتے ہیں۔ ککو مرزا اپنی مادی آسائشوں کی چاہ میں اب تک شادی نہیں کرتی ہے۔ خاندان جیسی چیزوں کا ان کے ہاں تصور ہی نہیں ملتا ہے۔
ککو مرزا اپنی مرضی سے زندگی تو گزارتی ہیں لیکن ایک عورت کے لیے ہندوستانی تناظر میں جس تہذیبی و اخلاقی اقدار کی پاسداری کا خیال رکھنا چاہیے وہ نہیں رکھتی ہے۔ اس کا کردار پورے طور پر بے راہ روی کی شکار عورتوں کی داستان بیان کرتا ہے۔ جس کی زندگی کا نصف حصہ تو خوشگوار ہوتا ہے اور نصف اندھیروں میں غوطہ لگا رہا ہوتا ہے۔
شوبھا:۔ ذوقی کا ناول ’پوکے مان کی دنیا‘ کا یہ ایک معمولی کردار ہے لیکن اس کے اندر تانیثی فکر پوری طرح بھری پڑی ہے۔ دراصل ذوقی نے اس کردار کے تحت عورت کا عورت ذات اور خاص طور پر اپنی اولاد کے تئیں ہمدردی کو دکھایا ہے۔ اور ساتھ ہی عورت ذات کی عزت و آبرو کو سرے عام نیلام کرنے کی مخالفت کی ہے۔مندرجہ ذیل اقتباس میں شوبھا اپنی بیٹی کو سیاست کی بلی چڑھانے سے اپنے شوہر کو منع کرتی ہے۔ اور پرزور انداز میں احتجاج بھی کرتی ہے۔ ان احتجاج میں بلا کا تیور دکھائی دیتا ہے۔ شوبھا مرد سماج کو جانتی ہے کہ یہ طبقہ عورت کے ساتھ ہمدردی رکھنے کے بجائے اس کے جسم سے بار بار لطف اندوز ہونا چاہتا ہے۔ اسی لیے وہ اپنے شوہر کو اس بات سے روکتی ہے کہ اس کی بیٹی سماج میں تماشا نہ بنے ۔
سندری:۔ عبدالصمد نے اپنے ناول ’دھمک‘ میں تانیثی کردار سندری کی تعریف اس طرح کی ہے۔ وہ ذہین اور تیز لڑکی ہے۔گاو ¿ں کی سب سے ہونہار لڑکی ہے۔ اپنے کلاس میں فرسٹ آتی ہے۔ پڑھائی کے ساتھ ساتھ کھیل کود میں بھی اول درجہ رکھتی ہے۔ سندری اور اس کی بہنوں کے ساتھ گھناو ¿نی حرکت ہونے کے بعد سندری بالکل خاموش ہوجاتی ہے۔ کیوں کہ اس کی زندگی کی وہ خواہش جو اس نے سجا رکھے تھے وہ نیست و نابود ہوچکے تھے۔ لیکن جب ان کی زندگی میں ایک تانیثی فکر سے لبریز ایک عورت شیلا آتی ہے جس نے ابھی تک شادی نہیں کی تھی۔ وہ سندری کو حوصلہ دیتی ہے اور زندگی کو ختم کرنے کے بجائے اپنے طور پر جینے کی ترغیب دیتی ہے۔ سندری کے اندر کی وہ آگ دہک اٹھتی ہے اور ان کی زندگی کا ایک نیا باب شروع ہوتا ہے۔
سندری کا بھائی جب ان کو سمجھانے اور مدد کی گہار لگانے سندری کے پاس آتا ہے تو ان کے اندر کی آگ اور جوش و ولولے کو آگے کے اقتباس میں بھی دیکھا جاسکتا ہے کہ کس بے باکانہ انداز میں وہ اپنے بھائی کو دوٹوک انداز میں جواب دیتی ہے۔ سندری ایک ایسی لڑکی کے کردار میں ہے جو ذہین ہے اور پڑھائی میں ہمیشہ اول آتی ہے۔ ان کے اندر کچھ کر گزرنے کا حوصلہ ہے۔ لیکن مرد اساس سماج اسے ان کی فطری حالت میں جینے نہیں دیتا ہے اور ایک ان ساتھ گھناو ¿نی حرکت کی جاتی ہے۔ اس بات کا احساس دلایا جاتا ہے کہ وہ عور ت ہے۔ کچھ دنوں کے لیے وہ خود پست ہوجاتی ہے لیکن جب ان کی زندگی میں شیلا نام کی لڑکی آتی ہے تو ان کے حوصلے سے وہ بےباکانہ زندگی گزارنے لگتی ہے۔ درج بالا آخری پیراگراف میں وہ جس بےباکی سے کہتی ہے وہ اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ اب ان کے اندر ایک مجبور لڑکی کی صفات نہیں ہے بلکہ وہ تانیثیت سے بھر پور ایک مکمل لڑکی ہے۔
شیلا جی:۔ ’دھمک‘ میں شیلا جی گاو ¿ں کے ماسٹر صاحب کی اکلوتی بیٹی ہوتی ہے۔ ماسٹر صاحب نے تعلیم دلانے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھا تھا۔ تعلیم کے لیے انہوں نے اسے شہر کے بورڈنگ اسکول میں بھی بھیجا۔ شہر کے اسکول میں جانے کے بعد اس میں بڑی تبدیلی آگئی۔ گاو ¿ں میں ماسٹر صاحب کی عزت و احترام کی خاطر کوئی بھی اسے کچھ نہیں بولتا تھا۔ شیلاجی نوعمر لڑکیوں میں بہت مشہور ہوتی ہے۔ پینتالیس پچاس کی عمر ہونے کے باوجود ابھی تک انہوں نے شادی نہیں کی تھی۔ اس کردار کے اندر تانیثیت بھری پڑی ہے۔ اس ایک اقتباس سے اس کی تانیثی اساس پوری طرح ظاہر ہوتی ہے۔
ناول میں شیلا جی ایک ایسی عورت کا کردار ادا کر رہی ہے جو مرد اساس سماج کے زیر نگیں زندگی گزارنے کے بجائے اپنی مرضی سے زندگی کو جی رہی ہے۔ وہ چاہتی ہے کہ مرد سماج ان کے اشارے پر چلے کیونکہ وہ جانتی ہے کہ یہ سماج عورت سے کیا چاہتا ہے۔
ختونیا:۔ ناول ’فائر ایریا‘ کے ابتدا میں یہ کردار میں گاو ¿ں کی بھولی بھالی شوہر سے محبت کرنے والی ایک خوبصورت دوشیزہ کی صورت میں ہوتی ہے۔ لیکن شوہر کے انتقال کے بعد اس کے اندر بڑی تبدیلی آتی ہے۔ وہ سماج کی دوسری عورتوں کی طرح بیوہ کی صورت میں گھر میں نہیں بیٹھ جاتی ہے بلکہ کوئلری کے کانوں میں آکر جی توڑ محنت کرتی ہے اور ساتھ ہی ساتھ اپنے دوسرے پریشان حال مزدوروں کی مدد بھی کرتی ہے۔ مجمدار کی موت کا بدلہ لینے کے لیے دوسرے مزدوروں کے ساتھ جلوس میں شامل بھی ہوتی ہے۔ اس وقت ان کی آنکھ میںشعلہ دہک رہا ہوتا ہے۔ اس سے قبل کی عورتیں بیوہ ہونے کی صورت میں گھر پر قید ہوجاتی تھیں اور گھر کے دوسرے افراد کے رحم و کرم پرپوری زندگی بسر کرتی تھیں۔ لیکن آج کی عورتیں دوسروں کے رحم و کرم پر زندگی گزارنے کے بجائے اپنی کفالت خود اٹھانے کا ذمہ پوری کرتی ہیں۔ اپنی زندگی کا فیصلہ خود کرتی ہیں۔ اس کے ساتھ ہی آج کی عورتیں لوگوں کے ساتھ احتجاج میں برابر کی شریک بھی ہوتی ہیں بلکہ کہیں کہیں رہبری بھی کررہی ہوتی ہیں۔ فائر ایریا میں بھی ختونیا کے اندر یہی خوبی موجود ہے۔ ختونیا ایک مظلوم اور دکھیاری عورت نہ ہوکر احتجاج کا استعارہ بن جاتی ہے۔
ملیحہ:۔ ملیحہ ترنم ریاض کا ناول ’مورتی‘ کا مرکزی کردار ہے جو ہر ایک کی ہمدرد، خوش شکل، خوش گلو، خوش لباس اور ایک اونچے کردار کی مالک اور ایک عظیم فن کارہ ہوتی ہے۔ لیکن اپنے شوہر کے فن شناس نہ ہونے اور اس کی ناقدری کے سبب، سنگ تراشی کے وقت کبھی اپنی انگلی، کبھی پیشانی پر دانستہ طور پر چوٹیں مارلیتی ہے۔ پھر اس کی تکلیف سے عجب طرح کی لذت سے اس پر غنودگی طاری ہوجاتی ہے۔ اس کی زندگی میں جذباتی اختلال کی ابتدا یہیں سے ہوجاتی ہے:
شوہر کی بے حسی، ناقدری، اولاد سے محرومی کے سبب بیوی سے بیزاری اور ان تمام عوامل کے سبب حسرت سے محرومی ملیحہ کو پہلے جارحانہ حرکتیں کرنے پر اکساتی ہے اور آخر کار وہ عضویاتی بیماری میں مبتلا ہوجاتی ہے اور وہ پاگل قرار دے دی جاتی ہے۔
روپ کنور (روپی):۔ یہ ناول ’اندھیرا پگ‘ کا مرکزی کردار ہے۔ بچپن میں یہ بہت تیزطرار اور ذہین ہوتی ہے۔ وہ سماج میں دوسری ہندوستانی عورتوں کی طرح محرومی کی زندگی گزارتی ہے۔ لیکن روپ کنور کے تیز طرار ہونے کے باوجود راجستھان کے سماجی بندھنوں کی وجہ سے مزید تعلیم سے روک دی جاتی ہے اور کم عمری ہی میں اس کی شادی طے کردی جاتی ہے۔لیکن اس شادی کی مخالفت پرزور طریقے سے کرتی ہے۔ لیکن ان سب کے باوجود روپ کنور کی شادی ہوجاتی ہے اور وہ سارے ارمان جو اپنے دل میں بسائے ہوئے ہوتی ہے سب ایک پل میں ختم ہوجاتا ہے۔ روپ کنور کی شادی کے کچھ ہی دن بعد شوہر کے انتقال کی وجہ سے سماجی رسم و رواج کی بنا پر روپ کنور پر ظلم و ستم کے پہاڑ ٹوٹ پڑتے ہیں۔ جسے وہ برداشت بھی کرتی ہے اور کبھی احتجاج بھی کرتی ہے۔
راج کنور:۔ ناول میں راج کنور کا کردار بہت جاندار ہے۔ اس کی سوچ راجستھان کی سماجی رسوم و رواج سے بالکل جدا ہوتی ہے۔ وہ عورت کو سماجی بندھنوں میں باندھنے کی سخت خلاف ہوتی ہیں۔ روپ کنور کو لے کر وہ شروع سے ہی فکر مند رہتی ہے کیوں کہ وہ جانتی ہے کہ اگر وہ اس سماج میں رہے گی تو یہاں کی روایتوں میں کچل دی جائے گی۔ ان کے اندر تانیثیت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔ جب پنچایت روپ کنور کے سلسلے میں فیصلے صادر کرتی ہے۔ سماجی پرمپراو ¿ں کے خلاف بھری مجلس میں راج کنور احتجاج کرتی ہے جب کہ اس وقت عورتوں کا مجلس میں جانا اور کچھ بولنے کی سخت پابندی ہوتی ہے۔ لیکن راج کنور کی تانیثی حمیت ہوتی ہے کہ اس کو ایسا کرنے پر مجبور کرتی ہے۔
زہرہ خانم:۔ اقبال مجید کا ناول ’نمک‘میں یہ ایک ایسا کردار ہے جو اقدار کی پامالی کے نقش اپنے خاندان اور اپنی اولاد میں دیکھ دیکھ کر کڑھتی ہیں اور نئی نسل کی دیدوں میں نمک تلاشتی نظر آتی ہیں لیکن خود اس بدلتے سماجی و تہذیبی عوامل کی زد میں آکر تفاعلی امراض کا شکار ہوجاتی ہے۔ زہرہ خانم اب قدرت سے لڑنا نہیں چاہتی ہے۔ بہو بیٹوں کے لگائے ہوئے بدکرداری کے الزام کو برداشت نہ کرسکنے کی صورت میں وہ اپنے جسم پر پڑے آبلوں کو بلیڈ سے کاٹ کر اس میں نمک بھر کر موت کو گلے لگا لیتی ہے۔
آٹھویں دہائی کے بعد کے ناولوں میں ناول نگاروں نے جس عورت کردار کو بھی پیش کیا ہے وہ خاموش سے ظلم کو سہنے والی نہیں ہوتی ہے بلکہ ان کرداروں کے اندر زمانہ سے لڑنے کی ہمت ہوتی ہے۔ وہ احتجاج کرتی ہے۔ مرد اساس سماج کے شانہ بہ شانہ کھڑا ہونا چاہتی ہے۔ وہ جانتی ہے کہ اب اس سماج کے رحم و کرم پر اپنے آپ کو قربان کرنا اپنے آپ پر ظلم کرنے کے مترادف ہے۔
µ µ µ٭٭٭٭
Leave a Reply
Be the First to Comment!