اُردوغزل کی ایک اہم آواز : علیم صبا نویدی

ڈاکٹر مشتاق احمد گنائی(سامبورہ، پانپور،پلوامہ، کشمیر)

Mobile No: 7006402409

mushtaqalamphd87@gmail.com

Aleem Saba Navedi

علیم صبا نویدی  کی پیدائش 28، فروری 1942 کو تامل ناڈو کے ضلع شمالی آرکاٹ کے ایک قصبہ امور (والا جاہ پیٹ)میں    ہوئی۔ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد1968 میں    علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے بی ۔اے ۔امتیازی نمبرات سے پاس کیا۔

علیم صبانویدی  کو بچپن ہی سے شعروشاعری کاشوق تھا۔انھوں  نے طالب علمی کے زمانے سے ہی مشاعروں   اور ادبی محفلوں   میں    شرکت کرنا شروع کردی تھی،جس کی وجہ سے ان کے شاعروں   سے تعلقات بڑھتے گئے۔انھوں  نے اپنی پہلی غزل 1954 میں    ایک طرحی مشاعرے میں    پڑھی ۔اس کا مصرع یوں   ہے ۔ ع

عمررواں  کے نقش قدم یادآگئے

علیم صبا نویدی  کانام اردو شعرو ادب میں    (خاص طور پر تمل ناڈو کے اردو ادب میں   ) کسی تعارف کا محتاج نہیں  ،وہ ایک ایسے باصلاحیت فن کار ہیں  ،جنھوں  نے کم وبیش اردو ادب کے تمام اصناف میں    کامیابی کے ساتھ طبع آزمائی کی ہے۔جہاں   انھوں  نے تحقیِق وتنقید کے میدان میں    کارہائے نمایاں   انجام دیے ہیں   ،وہیں   اردو شاعری کی دنیا میں    بھی انھوں  نے اپنی صلاحیت کا لوہا منوایا ہے۔

جس طرح ہرایک فن کار کے فن کو سنوارنے اور نکھارنے میں    ان کے اساتذہ کااہم رول رہاہے،ٹھیک اسی طرح علیم صبا نویدی  کے فن کو سنوارنے اور نکھارنے میں   بھی حضرت راجی صدیِقی اور دانش فرازی کا اہم رول رہاہے۔ان دونوں  نے ہی علیم صبا نویدی  کی ذہنی اور فکری نشو ونماں   کی تعمیروتشکیل میں    اہم کردار اداکیا۔ان دونوں   کی رہنمائی کا اعتراف انھوں  نے اپنے غزل کے مجموعے ”طرح نو“ میں   اس طرح کیاہے:

”ان اساتذہ کی خدمت میں   (حضرت دانش فرازی اور حضرت راجی صدیِقی) جن کے سر پر چشمہ  فیض والتفات نے میری ذہنی، ادبی اور علمی تشنگی کو سیرابی کے راز سے آشنا کیا۔“(علیم صبا نویدی ،”طرح نو“،1984)

علیم صبا نویدی  کے اب تک چار غزلوں  کے مجموعے شائع ہوکر منظر عام پر آکرقارئین حضرات سے دادوتحسین حاصل کر چکے ہیں  ۔ان کا پہلامجموعہ ۴۷۹۱ئمیں   ”طرح نو“ کے نام سے شائع ہوا۔دوسرا مجموعہ” فکر بر“کے نام سے 1981 میں    منظر عام پر آیا۔اس کے تین سال بعد 1982 میں   غزلوں  کا تیسرامجموعہ”نقش گیر“ جبکہ چوتھا اورآخری مجموعہ”اثرخامہ“ کے نام سے 1991میں    منظر عام پرآیاہے۔

”عرش غزل“ کے نام سے علیم صبا نویدی  کی غزلوں   پر مشتمل ایک کتاب بھی شائع ہوچکی ہے۔جسے ہم ان کی غزلوں  کاکلیات بھی کہہ سکتے ہیں  ،کیوں  کہ اس کتاب میں    ان کی غزلوں   کے چاروں   مجموعوں   کو ایک ساتھ جمع کردیاگیا ہے۔ان کی غزلوں  کے چاروں   مجموعوں  کو اس لیے کلیات کی شکل دی گئی ،کیونکہ گذشتہ کئی سالوں   سے ان کی غزلوں  کاکوئی اورمجموعہ منظر عام پر نہیں   آیاہے۔

علیم صبا نویدی  ایک الگ اور منفرد مزاج کے غزل گو شاعر ہیں  ۔وہ عام طورپر مشاعروں   میں   اپنی شاعری ترنم سے نہیں   پڑھتے ،جس کی وجہ سے بعض کم درجے کے شاعر بھی ان سے میدان مار جاتے ہیں  ،اور علیم صبا نویدی  کچھ خاص اثر قائم کرنے میں    ناکام رہ جاتے ہیں  ۔لیکن اخبارات ورسائل وغیرہ میں    ان کی غزلیں   ہمیشہ شائع ہوتی رہتی ہیں  ۔ جس کی وجہ سے ان کی غزل گوئی کی شہرت دور دور تک پھیل گئی ہے۔حکیم یِعقوب اسلم ان کی شاعری سے متعلق رقم طرازہیں  :

”علیم کی شاعری مشاعروں  کی شاعری نہیں   اور نہ وہ مشاعروں   کے ٹائپ کے شاعر ہیں  ۔کلام ترنم سے نہیں   بلکہ تحت الّفظ میں    پڑھتے ہیں  اور پڑھنے کا اندازبھی کچھ زیادہ متاثرکن نہیں   ہے۔“(حکیم یِعقوب اسلم،”عکس درعکس“،2014،ص14)

علیم صبا نویدی  اردوشعروادب کے ایک ایسے باصلاحیت فن کار ہیں  ،جو کہ غزل کے فن سے اچھی طرح واقفیت رکھتے ہیں  ۔وہ صرف غزل کہنا ہی نہیں   جانتے بلکہ غزل کے دوش بدوش غزل کی زندگی بھی گذارتے ہیں  ۔وہ بے شمار تخلیقی اوصاف کے ساتھ غزل کے فن پر پوری قدرت رکھتے ہیں  ۔اور اپنے غزل کے فن پر پُر اعتماد دکھائی دیتے ہوئے کہتے ہیں

خامہ نقش گیر میرا فن

شاہدِ باضمیر میرا فن

طرز لاریب ،لاشریک نقوش

دورشاہی کا میر میرافن

ماہ وانجم کی سیر کا حاصل

آسمانی سفیر میرا فن

نئی تاریخ کی زمیں    پہ صبا

شہِ روشن ضمیر میرافن

            علیم صبا نویدی  ایک ایسے فن کار ہیں   جن کو اپنے فن پر نازبھی ہے اور اس سے محبت بھی کرتے ہیں  ۔وہ اپنی خارجی اور داخلی دنیا سے اچھی طرح واقف ہیں  ،اس لیے کہتے ہیں

میں    تو باہر ہو ں  ہر طرف موجود

پھر یہ اندر کا سلسلہ کیاہے

اردو شاعری میں    وہی شاعر کامیابی حاصل کرسکتاہے،جو اپنی خارجی دنیاکے ساتھ ساتھ باطنی دنیا سے بھی اچھی طرح واقفیت رکھتا ہو،کیوں  کہ یہ چیز یں   کامیابی کی ضامن ہوتی ہیں  ۔اس حوالے سے جب ہم علیم صبا نویدی  کی غزلوں  کا مطالعہ کرتے ہیں   توپتا چلتاہے کہ انھوں  نے اپنی داخلی دنیا کو اچھی طرح سے جانااور پہچانا ہے۔وہ اپنی شاعری کے ذریِعے زندگی سے جڑے بہت سارے رازوں  سے پردہ اٹھانے میں    کامیاب نظرآتے ہیں  ۔اس حوالے سے ان کے چاروں   شعری مجموعوں   میں    اشعاربھرے پڑے ہیں  ۔ اشعار دیکھیں

دردکی پہچان مشکل سے ہوئی

راز زخموں   کی زبان بن کر کھلا

کھل گیا مجھ پر میرااپنا وجود

مجھ پہ اک شے کا جب مصدرکھلا

میں    تسلسل کی کڑی تھادرمیاں

تھا زمانہ اول وآخر کھلا

ہر سفر میں    لاسفر میراسفر

میراظاہر ڈوب کر اندر کھلا

علیم صبا نویدی  کی شاعری میں    وہ تمام خوبیاں   موجود ہیں   جو کہ غزل کی صنف سے مطابقت رکھتی ہیں  ۔غزل میں    وہ ساری گفتگو اپنے حوالے سے ہی کرتے نظر آرہے ہیں  ۔وہ اپنی ذات کو استعارہ بناتے ہیں  اور اپنے کردار کو وسیلہ  اظہار بناکر کائنات کی گفتگو کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں  ۔چند اشعار دیکھیے

صعوبتوں   کے سفرکاشعور ہے مجھ میں

یہ سچ ہے اپنے دکھوں   کا غرور ہے مجھ میں

تجلیوں   کاسراپا چھپائے باہوں  میں

نئی دشاﺅں   کا ان مٹ سرور ہے مجھ میں

نصیب آفریں   اجلے لباس سے محروم

سیاہ فام،دل ناصبور ہے مجھ میں

صبانویدی  اسی نورسے نکل آئے

نیانیا ساجو عالم کو نور ہے مجھ میں

علیم صبا نویدی  جب اپنی شاعری میں    واحد متکلم کی صورت میں    گفتگو کرتے ہیں   تو ان کے اندر کافنکار ان کے قلم کی زبان بن جاتاہے۔وہ اپنے اندر کی ساری کیفیات کو خوبصورت پیرائے میں    اس طرح سے پیش کرتے ہیں

کسی کا داخلہ دشوار ہے مرے اندر

کہ میری ذات ہی دیوار ہے مرے اندر

ضرورتوں   کے مطابق خریدلویاروں   !

لہوکاکھولتا بازار ہے مرے اندر

ہرایک سوچ کی کھڑکی سے پھوٹتی ہے کرن

نہ جانے کون سامینار ہے مرے اندر

میں    دے رہاہوں   ادب کو شعور نوکالہو

نئے شعور کادریا ہے مرے اندر

 مرزاغالباردوادب کے ایک ایسے شاعرگزرے ہیں  جن کے کلام سے متعددشعراءنے فیض حاصل کیا ہے۔ علیم صبانویدی  نے بھی کلام غالب سے اپنی شاعری کی پرورش کی ہے۔جس کا اعتراف کچھ اس انداز میں    کرتے ہیں

اسد کے فےض سے ہی پھیلتا گیا صبا

وگر نہ اس کو بھی نذرجمود ہوناتھا

ڈاکٹر نذیر فتح پوری علیم صبا نویدی  کے اس خیال سے بالکل برعکس نظرآتے ہیں  ۔چنانچہ وہ اپنی کتاب جو انھوں   نے علیم صبا نویدی پہ ہی لکھی ہیں   ، اُس میں    وہ کچھ اس طرح سے رقمطراز ہیں  :

”مجھے تو ان کی غزل پر کہیں   غالب کی چھاپ نظر نہیں   آتی،ان کا اپنا اسلوب ہے،ان کا اپنا لہجہ ہے،ان کی اپنی فکر ہے۔“(اردوادب کے نئے زاویے،۴۱۰۲ئ،ص۰۲)

علیم صبا نویدی  کی غزلوں  کے مطالعے سے اندازہ ہوتاہے کہ وہ اپنے غزل کے سفر میں   کبھی تھکے ہوئے دکھائی نہیں   دیتے،بلکہ وقت کے ساتھ ساتھ ان کے فن میں    نکھار آتاگیا۔ان کی غزلوں  میں    ہمیں    انفرادیت کاایک نیا اسلوب نظرآتاہے،جوانھیں   ایک منفرد شاعر بنانے میں    اہم رول ادا کرتا ہے۔وہ کون سے اسباب ہیں   جن کی وجہ سے ان کے کلا م میں    انفرادیت دکھائی دیتی ہے۔ ہمیں    ان کی شاعری کا مطالعہ کرنے سے اس کا احساس ہوتاہے،اشعار دیکھیں

سوچوں   کی چاند رات میں    لفظوں   کے درمیاں

اوراق کی ہتھیلی پہ پیدا ہوا تھامیں

ہونٹوں   کی سڑک پرہی جوابات لیے ہم

الجھے ہوئے مبہم سے سوالوں   میں    کھڑے تھے

چاہتوں  کاسبزہ بھی اُگ نہ پایا تھا مجھ کو

آرزو کااک جھونکا وحشتوں  میں    لے آیا

 علیم صبا نویدی  کی ازدواجی زندگی کاالمیہ ان کی شاعری میں    ایک خاص اہمیت رکھتاہے۔ان کی پہلی شادی ۸۶۹۱ئ کو مجیب النساء(افسرجہاں  )کے ساتھ ہوئی،لیکن یہ شادی کامیاب ثابت نہ ہوسکی۔شادی کے اس المیہ نے ان کی شاعری میں    ایک نئی روح پھونک دی۔آج جو ان کی شاعری میں    درداور احساسِ لمس کی تیز لویں   بل کھاتی نظر آتی ہیں  ،وہ اسی المیہ کی رہین منت ہے۔ علیم صبانویدی  کو یہ المیہ اگر نہ ملاہوتا توشاید آج وہ عام شاعروں  کی صف میں    کھڑے ہوتے،جن کی شاعری محض لفظوں   کی بازی گری ہے۔پہلی شادی کے المیہ نے انھیں   جو زخم دیے، اس نے انہی زخموں   کو چراغ بناکر اپنی شاعری میں    چار چاندلگادیے،اور زندگی کے ایک نئے اور پرمسرت دور میں    بھی یہی زخم چراغ بن کر ان کی رہنمائی کرتے رہے۔ازدواجی زندگی کے اس المیہ نے نہ صرف ان کی شاعری میں    نئی روح پھونکی بلکہ ان کی زندگی کا رخ موڑنے میں    بھی ایک اہم کردار ادا کیا۔اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کاظم نائطی لکھتے ہیں  :

”علیم کی شاعری کو نئی لو،نیااسلوب،نیالہجہ اور نیاآہنگ بخشنے میں    اس کی زندگی کا ایک عظیم المیہ کابھی ہاتھ ہے۔یہ وہ المیہ ہے جس نے نہ صرف اس کی روح کو جھنجھوڑاہے بلکہ سوسائٹی میں    اس کے امیج کو مسخ کرنے اور اس پر بدنامی کے تازیانے لگانے کی بھی کوشش کی ہے۔“(کاظم نائطی،”لہجہ تراش“،۹۸۹۱ئ،ص۹۱)

علیم صبا نویدی  نے زندگی میں    بہت سارے غموں   اور پریشانیوں   کا سامناکیاہے۔لیکن اس کے باوجود بھی وہ ہر وقت خوش و خرم ہی رہتے ہیں   ،کیونکہ وہ زندگی کے اتار چڑھاوسے پوری طرح واقفیت رکھتے ہیں   ۔لیکن اس کے باوجود بھی بظاہر خوش و آباد نظر آنے والا یہ فن کار اندر سے بہت اداس بھی رہتاہے۔زندگی میں    در پیش آئے ہوئے دکھوں  ،غموں  ، پریشانیوں  اور مصائب نے ہی انھیں   ایک حساس شاعر بنادیا ہے ۔مثال کے طور پر ان کے یہ چند اشعار دیکھیں

صبا پر مضامین لکھے گئے

مگر اس کے دکھ پر نہ سوچاگیا

ساری سزائیں   میرے سر

مجرم نکلا ساراگھر

چادر کسی نے دی نہیں   مجھ کو خلوص کی

برسات میں    دکھوں   کی نہایاہواتھامیں

سب پہ ظاہر ہوتی ہے یہ دنیا کیوں

سب میں    رہ کر بھی میں    اکیلا کیوں

 علیم صبا نویدی کی غزلوں  میں    ہمیں    ریز ہ کاری بھی ملتی ہے۔ان کے یہاں   اندرونی اور کیفیاتی وحدت بھی پائی جاتی ہے۔نرمی، لطافت اور نزاکت ان کی غزلوں   کی پہچان ہے۔ان کی غزلوں  میں    ایک اطمینان دلانے والی قناعت پائی جاتی ہے۔ملاحظہ ہو ں  یہ اشعار

میں    قطرہ ہوں  مری وسعت تو دیکھو

سمندر کا سمندر پی گیاہوں   !

مجھے پتہ نہ تھا کہ کس صدی کانور

مری نظرمیں    ٹپکتارہا اندھیرے میں

میری آوازکا بس اتنا کرشمہ ہے کہ اب

میرااحساس لگے ہے یہاں   سب کا احساس

میں    لاشعور کی گہرائیوں  سے نادیدہ

نئے حروف ومعانی سمیٹ لایاہوں

علیم صبا نویدی کی غزلوں  میں   ہمیں    انسان دوستی،مطالعہ  کائنات ،زندگی سے پیار،اجتماعی نفسیات کی جھلکیاں  ،رفاقت کی ضرورت،طبقاتی زندگی کی کشمکش،رجائیت اور جمالیات جیسے عنوانات کی چاشنی ملتی ہے۔ اشعار دیکھیں

اس احتیاط سے دریا نے پی لیااس کو

کہ موج موج میں    پوشیدہ کردیااس کو

زخموں  کی کائنات میں    رکھ کرقدم صبا

کچھ اور بھی حیات سمجھدار ہوگئی

میں    نے سچائی کی سولی کو مقدر جانا

جب زمانہ تھا یہاں  جھوٹی گواہی کی طرف

 آج کے صنعتی معاشرے کا سب سے بڑا دکھ یہ ہے کہ اس نے ایک انسان کو اپنے ہی گھر میں    اجنبیت کاشکار بنادیاہے۔لیکن علیم صباکی غزلوں  میں    ہمیں    اس کے برعکس ماحول نظر آتا ہے۔ انھیں   دوسرے منظر کی کشش کے بجائے اپنا گھرکچھ زیادہ پر کشش دکھائی دیتاہے۔گھر سے لگاو  و محبت، گھر سے بے گھری،گھر کے احوال کی نشاندہی اور گھر کے منظر سے آسودگی ان کو جدید شاعری کے صف میں   سب سے الگ ،منفرداورنمایاں  مقام عطا کردیتی ہے۔ملاحظہ ہو چند اشعار

اس گھر کی بیوگی کو بھلاکون دے سہاگ

جس گھرکابا وقار تبسم شہید تھا

میں    پھررہاہوں   شہر میں    سڑکوں  پہ غالباََ

آوازدے کے مجھ کو مراگھر پکارلے

قدم قدم پہ گھرملے مگر میرے مزاج کا

بھرے بھرے جہاں   میں    ملانہ کوئی گھریہاں

 جب ہم اردوغزل کی کائنات پر نظرڈالتے ہیں  توہمیں    اس بات کاپتاچلتاہے کہ اردوغزل میں    آئینے کو مرکزی حیثیت حاصل ہے۔اس لیے اردوغزل کی کائنات پر بے شمار آئینے سجائے گئے ہیں  ۔جب ہم علیم صباکی غزلوں   کا مطالعہ کرتے ہیں  توان پر بھی ہمیں    آئینوں  کی چھاپ نظرآتی ہے۔انھوں  نے اپنی غزلوں  میں   آئینوں  کوانفرادی حیثیت عطاکی ہے۔چند اشعار پیش ہے

عکس ہی کو آئینے کی تھی تلاش

آئینے پر جسم کا جوہرکھلا

آسمانوں   نے میرے گھر کی زیارت کی ہے

ایک آئینے کے جوہر کی زیارت کی ہے

جب سے میں    ہوگیا ہوں  آئینہ

تب سے پتھر پکارتاہے مجھے

ہوئے ظاہر میرے جوہر جواکیلے پن کے

آئینہ بھی ہوا تنہائی میں   مجھ پر ششدر

عکس آور میرے اندر کون تھا

آئینہ میں    تھاتوجوہرکون تھا

کسی کا عکس ہوں  یاآئینہ ہوں

سمجھ میں    کچھ نہیں   آتا کہ کیاہوں

علیم صبا نویدی  نے آئینوں   کو اپنی غزلوں   میں   گویا مرکزی حیثیت عطا کی ہے،کیوں  کہ وہ اپنی زیادہ تر غزلوں   میں   آئینے کے حوالے سے ہی بات کرتے ہوئے نظرآتے ہیں  ۔ان کی شعری کائنات میں   ہمیں    بہت سارے آئینے آویز اں   نظر آتے ہیں  ۔ڈاکٹر نذیر فتح پوری اس سلسلے میں    اپنی کتاب میں    کچھ اس طرح سے رقمطراز ہیں  :

”لگتاہے علیم صبا نویدی  کو آئینوں   سے کچھ زیادہ ہی رغبت ہے۔”عرش غزل“ کی کسی نہ کسی غزل میں    کہیں   نہ کہیں  ایک آئینہ روشنی لٹاتا نظر آتاہے۔“(ڈاکٹرنذیر فتح پوری، علیم صبا نویدی  اور اردوادب کے نئے زاویے، ۴۱۰۲ئ،ص۴۲ )

علیم صبا نویدی  اپنی ظاہری شخصیت سے کسی کو متاثر نہیں  کرتے اور نہ ہی گفتگو کے ذریِعے اپنی علمیت کا سکّہ بٹھانے کی کوشش کرتے ہیں  ۔لیکن اس کے باوجودبھی وہ اپنے ہم عصروں  میں    ممتازومنفرد شخصیت کے مالک نظر آتے ہیں  ۔اس کی اہم وجہ یہ ہے کہ ان کے یہاں   جولسانی ومعنوی خصوصیات پائی جاتی ہیں  ،وہ دوسرے شعراکے یہاں  ناپید ہیں  ۔اپنی انہی خصوصیات کی وجہ سے وہ بلند سے بلند اور حسین سے حسین شعر کہنے پر قدرت رکھتے ہیں  ۔ اشعار دیکھیے

اپنے ذہنی ارتقاءکا زائچہ دیکھے گا کون ؟

معتبر ہم ہیں  مگر یہ دور ہے اسناد کا

اس قدر اونچے ہوئے ہم کہ کرشمہ دیکھو

ہم کو چھونے کے لیے اٹھا ہے دریا اونچا

ہماری عمرکی زرخیز زمین بھی دیکھ

لہو کے پیڑ سے سرسبز پتیاں  نکلیں

علیم صبا نویدی  نے اپنی شاعری میں    آج کے انسان کو بھی مرکزی محور بنایاہواہے۔وہ اس سے جڑی ہوئی ہرایک بات کو اپنی شاعری کے ذریِعے پیش کرتے ہیں  ،جس سے ان کی شاعری ہمیں    جدید معلوم ہوتی ہے۔ڈاکٹر افتخار حیات اس حوالے سے لکھتے ہیں  :

”علیم کی شاعری کا محور ومرکز آج کا جدید انسان ہے اور ان کے اشعار کا موضوع جدیدانسان کی محرومیاں   اور ناکامیاں   ہیں  ،انھوں  نے خودکوجدید انسان کا مثالی پیکر بناکرپیش کیاہے۔“(ڈاکٹر افتخار حیات،سہہ ماہی رنگ(گوشہ  علیم صبانویدی)،ص۵۲)

 علیم صبا نویدی چونکہ ایک ہمہ گیر شخصیت کے مالک ہیں  ۔انھوں  نے اصناف نثر اور اصناف شاعری دونوں   میں    کامیابی کے ساتھ طبع آزمائی کی ہے۔جہاں   انھوں  نے تحقیق وتنقید کے میدان میں    کارہائے نمایاں   انجام دیے،وہیں   اردوشاعری میں    بھی اپنے داخلی جذبات، احساسات،مشاہدات اور خیالات کابھرپوراظہار کیاہے۔بلکہ اردو شاعری ہی میں    اپنے اندرون کی آواز کو پیش کیاہواہے۔پروفیسر نجم الہدیٰ اس بارے میں    لکھتے ہیں  :

”شاعری اور نثر میں    علیم کے علاحدہ علاحدہ کارنامے ہیں  ،لیکن ان کی باطنی شخصیت کی دل کشی ان کی شاعری میں    زیادہ اجاگر ہوتی ہے۔“(پروفیسر نجم الہدیٰ،”سہہ ماہی رنگ“(گوشہ  علیم صبانویدی)،ص۰۲)

بحیثیت مجموعی علیم صبا نویدی  اردوشاعری کی دنیامیں   ایک منفرد غزل گو شاعرکی حیثیت سے مشہورومعروف ہیں  ۔ان کی غزلیں   متنوع موضوعات پر مبنی ہیں  ۔ان کی شاعری کاافق خاصہ وسیِع ہے۔انسانی تجربات کا شاید ہی کوئی ایسا پہلو ہوگا جسے ان کے یہاں   دیکھا نہ گیاہو۔ان کا اسلوب منفردہے۔ان کی تمام غزلیں   ،غزل کی روایات کی پاسدار ہیں  اورعہد جدید کے موضوعات کو اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہیں  ۔ان کی شاعری علمی وادبی دنیا سے خراج حاصل کرچکی ہے۔اور ان کی شاعری کا نظم و نسق ولہجہ صدیوں   تلک زندہ رہے گا۔

میری دعا ہے کہ علیم صبا نویدی  زندہ وتابندہ رہیں  تاکہ اردوشعروادب کے خزانے میں   بامعنی اضافہ ہوتارہے اوراردوداں   طبقہ ان کی شاعری اور تنقیدوتحقیِق سے مستفید ہوتا رہے۔آمین

 ٭٭٭٭٭

Leave a Reply

Be the First to Comment!

Notify of
avatar
wpDiscuz
Please wait...

Subscribe to our newsletter

Want to be notified when our article is published? Enter your email address and name below to be the first to know.