عابد سہیل بحیثیت ِخاکہ نگار
گلزار حسن
ریسرچ اسکالرشعبۂ اردو و فارسی
ڈاکٹر ہری سنگھ گور سنٹرل یونیورسٹی ، ساگر، مدھیہ پردیش، انڈیا
اردو ادب میں خاکہ نگاری کا باقاعدہ آغاز بیسویں صدی میں مغرب کے زیر اثر ہوا ۔انگریزی میں اس صنف کے لیے SKETCH،PEN PORTRAITوغیرہ اصطلاحیں مستعمل ہیں۔ لیکن اردو میں SKETCHکے لیے موزوں ترین لفظ خاکہ ہے کیونکہ اس کی مکمل ترجمانی اسی لفظ کے ذریعے ہی ہوتی ہے، حالانکہ اردو میں بھی SKETCH یاPE PORTRAIT کے لیے خاکہ کے علاوہ چند اور اصطلاحیں بھی مروج رہی ہیں مثلاً ’مرقع ‘،’قلمی مرقع‘،’شخصی مرقع‘وغیرہ لیکن ان میں خاکہ ہی سب سے مناسب ہے۔اس سلسلے میں نثار احمد فاروقی لکھتے ہیں:
’’اسکیچ کے لیے اردو میں ’’خاکہ نگاری ‘‘،’’مرقع‘‘، ’’قلمی تصویر ‘‘ وغیرہ اصطلاحیں استعمال کی گئی ہیںان میں خاکہ سب سے زیادہ موزوں ہے کیونکہ اسکیچ (SKETCH)کا پورمفہوم اسی لفظ سے ادا ہوتا ہے۔‘‘۱؎
خاکہ نگاری کا تعلق براہ راست شخصیت سے ہے ۔مختصر الفاظ میں اگر خاکہ کی تعریف بیان کی جائے تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ ،خاکہ صفحہ قرطاس پر قلم فکر سے کسی محبوب شخصیت کی تصویر کھینچنے کا نام ہے ۔ اس میں خاکہ نگار اپنے ذاتی تاثرات اور متعلقہ شخصیت کے ساتھ پیش آئے ہوئے اہم واقعات کا سہارا لیتا ہے اور اپنی فن کاری سے ایسی جاگتی تصویر بناتا ہے کہ قاری اپنے آپ کو اس سے بالکل آشنا خیال کرتا ہے۔ڈاکٹر محمد حسن کی نظر میں:
’’خاکہ صفحہ قرطاس پر نوک قلم سے بنائی ہوئی ایک شبیہ ہے ۔یہ بے جان ساکت اور گم سم نہیں ہوتی۔یہ بولتی ہوئی متحرک پر کیف تصویر ہوتی ہے ۔ایک مصور یا بت تراش کے لیے یہ بھی ممکن ہے کہ اس پیکر میں کسی دل پذیر تہور کی جھلک بھی دے دے مگر ایسی تصویر بنانا ، بت تراش یا فوٹو گرافر کے بس سے باہر ہے جسے دیکھ کر ہم فرد کی سیرت اور انفرادیت کا بھی اندازہ کریں۔‘‘۲؎
جیسا کہ ابتدا میں عرض کیا گیا کہ اردو ادب میں موجودہ خاکہ نگاری کا تصور مغرب کا رہین منت ہے۔انگریزی ادب میں خاکہ نگاری کی روایت بہت قدیم ہے، لیکن اردو ادب میں اس کا باقاعدہ آغازبیسویں صدی کے ربع اول میں انگریزی ادب کے زیر اثر ہی ہوا۔عام طور پراردومیں خاکہ نگاری کی روایت کے تعلق سے یہ خیال کیا جاتا ہے کہ اردو میں اس کا سرمایہ بہت قلیل اور حقیرہے ۔اردو میں اپنی عمر کے لحاظ سے دیکھا جائے تو اردوو میں خاکوں کا سرمایہ اتنا قلیل نہیں ہے جتنا خیال کیا جاتا ہے ،کیونکہ ڈاکٹر انیس صدیقی(مرتب،خاکہ نگاری: اردو ادب میں) کی جدید تحقیق کے مطابق اب تک خاکوں کے سات سو (۷۰۰)سے زائد مجموعے شائع ہوچکے ہیں۔اب جہاں تک سوال اس کے حقیر ہونے کا ہے تو بقول نثار احمد فاروقی:
’’اردو میں خاکہ نگاری کا ایک وسیع میدان ہے اور اس موضوع پر ہمارا سرمایہ کچھ اتنا حقیر اور کمتر نہیں کہ سرسری طور سے اس کا جائزہ لیا جا سکے۔‘‘۳؎
اردو میں خاکہ نگاری کا باقاعدہ آغازبیسویں صدی کے ربع اول میں ہوا،لیکن اس سے پہلے بھی اردو میں خاکہ نگاری کے نقوش ہمیں جا بہ جا نظر آتے ہیں ۔اس سلسلے میںشعرائے اردوو کے تذکرے اولیت کا درجہ رکھتے ہیں،جن میں شاعروں کی شخصیت اور سیرت کا عکس نظر آتا ہے۔یوں تو ان میں شخصیت کا حال بیان کرنے سے زیادہ زور انتخاب کلام پر دیا جاتا تھا لیکن کچھ تذکرے ایسے بھی ہیں جن میں اس دور کے شعرا کی شخصیت اور سیرت کے تعلق سے کچھ جملے ملتے ہیں ،جنہیں خاکہ نگاری کے اولین نقوش قرار دیا جا سکتا ہے۔محمد حسین آزاد تذکرہ نگاروں پہلے ایسے شخص ہیں جنہوں نے مختلف شعرا کا حلیہ ، عادات و اطوار اور شخصیت کے مثبت و منفی پہلوئوں پر اپنے طور روشنی ڈالی ہے لیکن خاکہ کا مقصد صرف شخصیت کے تعلق سے معلومات حاصل کر لینا کافی نہیں ہے بلکہ تخیل اور تخلیقی قوت کی مدد سے ان میں ایک نئی روح پھونکنا ضروری ہے ۔
محمد حسین آزاد کے علاوہ اس دور میں عبد الحلیم شرر ، مرزا محمد ہادی رسوااور خواجہ حسن نظامی کی تحریروں میں خاکہ کے نقوش ملتے ہیں ۔اکثر محققین و ناقدین نے اردو کا پہلا باقاعدہ خاکہ نگار مرزا فرحت اللہ بیگ کو تسلیم کیا ہے۴؎ اس کے بعد اس کارواں کو آگے بڑھانے میں آحیدر حسن ، مولوی عبدالحق،محمد شفیع دہلوی ، خواجہ غلام السیدین ، عبد الماجد دریابادی اور رشید احمد صدیقی نے کلاسیکی طرز اسلوب کے پیرائے میں شاہکار خاکے تخلیق کیے ۔ اس کے بعد آنے والے دور میں نئے ادبی رجحانات کے تحت ابھرنے والے نئے تخلیق کاروں نے مغرب کی طرز پر اردو میں خاکہ نگاری کے کاروں کو ایک نئی منزل پہ پہنچاتے ہیں اس سلسلے میں عصمت چغتائی ، سعادت حسن منٹو ، اشرف صبوحی ، دیوان سنگھ مفتون ، شوکت تھانوی ، مالک رام ، اعجاز حسین ، چراغ حسن حسرت، غلام احمد فرقت کاکوروی ، رئیس احمد جعفری ، محمد طفیل ، عبد المجید سالک ، شاہد احمد دہلوی، نریش کمار شاد وغیرہ کے نام قابل ذکر ہیں۔بیسویں اور اکیسویں صدی دونوں کو ضم کرکے دیکھیں تو لاتعداد خاکہ نگار ہیں جنہوں نے اس صنف کو وقار بخشا ہے۔ان میں شمیم حنفی ،اسلم فرخی ، آل احمد سرور ، انیس قدوائی ، مجتبیٰ حسین ، انور ظہیر،نیر مسعود،ندا فاضلی اور عابد سہیل وغیرہ کے نام اہم ہیں ۔
عابد سہیل اردو ادب میں بنیادی طور پر افسانہ نگارتسلیم کئے جاتے ہیں لیکن انھوں نے دیگر علمی وادبی میدان میں بھی اپنے فکر و فن کے جوہر دکھائے ہیں۔حقیقت یہ کہ عابد سہیل ہمہ جہت شخصیت کے مالک تھے وہ بیک وقت افسانہ نگار،صحافی،نقاد ،مترجم اور خاکہ نگار بھی تھے۔خاکہ نگاری کی جانب انھوں نے توجہ بعد میں کی پھر بھی ان کے تحریر کردہ خاکوں کے دو مجموعے باالترتیب ’کھلی کتاب‘ (۲۰۰۴ء)اور ’پورے ،آدھے ادھورے‘ (۲۰۱۵ء)شائع ہو چکے ہیں۔ان دونوں مجموعوں میںکل ملا کر ۴۰ خاکے شامل ہیں جن میں سے ایک کافی ہائوس اور ایک ماہنامہ کتاب کے متعلق خاکے شامل ہیں ۔یہ چالیس خاکے اردو خاکہ نگاری میں عابد سہیل کی اہمیت اور قدر قیمت کا احساس دلانے کوکافی ہیں۔ان دونوںمجموعوں میں عابد سہیل نے جن شخصیات کا خاکہ پیش کیا ہے ان کے نام اس طرح ہیں۔ڈاکٹر عبد العلیم ، حیات اللہ انصاری ،ایم چلپت رائو(ایم ۔سی) آل احمد سرور،پنڈت آنند نرائن ملا ،عشرت علی صدیقی ،عابد پیشاوری ، وجاہت علی سندیلوی ، منظر سلیم ، احمد جمال پاشا ،مقبول احمد لاری ،ڈاکٹر عبد الحلیم ،راجیش شرما، نسیم انہونوی،احسن فاروقی ، اسرارالحق مجاز، اودھ کشور سرن ، خواجہ محمد رائق، خواجہ محمد فائق، رام مورتی لمبا، سید سبط محمد نقوی، سریندر کمار مہرا، سلامت علی مہدی، سید احتشام حسین ، سیوا رام شرما، شمس الرحمن فاروقی ، شوکت صدیقی ، صباح الدین عمر ، صلاح الدین عثمانی ، عرفان صدیقی ، قمر رئیس، قیصر تمکین ، کیفی اعظمی، محمد حسن ، مسعود حسن رضوی ادیب، نند کشور دیو راج ، نیر مسعود اور ہری کرشن گوڑ۔
مجموعی طور پر دیکھا جائے تو عابد سہیل کے خاکوں میں شخصیت کی مرقع کشی کے پس پردہ اس دور کی تہذیبی ،سماجی اور سیاسی ماحول کی بھرپور عکاسی ملتی ہے ۔عابد سہیل نے اپنے خاکوں میں تہذیبی قدروں ،ادبی ،سیاسی اور سماجی صورت حال کو فنکارانہ طور پر اس طرح بیان کیا ہے کہ نصف صدی کی روح ان کے خاکوں میں سمٹ آئی ہے اور یہ خاکے کسی مخصوص شخصیت کی جیتی جاگتی تصویر کے علاوہ اس عہد کا منظر نامہ بھی پیش کر تے ہیں۔مثال کے طور پر ہندوستان کی وہ تہذیب نظر آتی ہے جس میں بڑوں کی عزت اور حرمت کا ایک قوی تصور موجود ہے۔ ایم چپلت رائو کے خاکہ کے ایک اقتباس میں عابد سہیل نے یہی دکھانے کی کوشش کی ہے:
’’جی چاہا کہ آتش نمرود میں ،بے خطر ممکن نہ ہو تو دھڑکتے ہوئے دل کے ساتھ ہی سہی ،ایک بار کود کے تو دیکھوں ،خود کو مجتمع کیا ،آگے بڑھا لیکن ہمت نے ساتھ چھوڑ دیا اور خشک میوئوں کے قریب پایا اور ایک جام جو کسی ایک آتشہ یا دو آتشہ سے تقریباً لبریز تھا ،اٹھا ہی لیا دوسروں کی دیکھا دیکھی اس میں برف کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے ڈالے اور ایک ایسی جگہ جہاں بھیڑ ذرا کم تھی خود کو خود سے چھپائے ہوئے جا کھڑا ہووا اور دو تین چسکیاں لیں ۔ ہلکی سی کڑواہٹ ،جو ناگوار ہرگز نہ تھی ،۔ایک اجنبی سی بو اور لذت کے احساس نے ذرا کی ذرا میں شرابور کردیا لیکن اس محفل کی فضا کا دخل بھی کچھ نہ تھا۔۔۔۔اسی وقت مجھے احساس ہوا کہ پاس کا ایک کھمبا ،جو ہے تو دوسرے کھمبوں کی طرح بے حد خوبصورت ،ان سے کسی قدر چوڑا تھا،معلوم ہو رہا ہے ۔اپنے اس خیال کی تصدیق کے لیے میں اس طرف بڑھا تو پاس جا کر ہوش ہی اڑ گئے ۔کھمبے سے ٹیک لگائے اور گلاس ہاتھ میں لیے ایم سی کھڑے تھے۔‘‘۵؎
فن اورتکنیک کے اعتبار سے دیکھا جائے تو خاکہ کے پانچ فنی لوازم ہیں ۔ کردار نگاری ، واقعہ نگاری، اختصار ، منظر نگاری اور وحدت تاثر۔چونکہ عابد سہیل ایک کامیاب افسانہ نگار تھے اس لیے تکنیک کے لحاظ سے بھی عابد سہیل کے خاکے ندرت کے حامل ہیں ۔عام طور پر خاکوں میں تجربات کی گنجائش بہت کم ہوتی ہے ۔اس میں زیادہ تر افسانوی ادب کی طرح بیانیہ سے کا م لیا جاتا ہے۔جس میں سیدھے سپاٹ انداز میں خاکہ نگارمتعلقہ شخصیت کے تعلق سے اپنے جذبات احساسات ، تجربات ،صحبتیں ،عادات واطوار ،حلیہ ،رہن سہن ،محاسن ومعائب وغیرہ بیان کر دیتا ہے۔چند خاکہ نگار ہیں جنہوں نے تکنیک کی سطح پر کچھ تجربات کئے ہیں ان میں سعادت حسن منٹو اور محمد طفیل کے نام قابل ذکر ہیں ۔منٹو نے اپنے خاکوں میں سسپنس کی تکنیک استعمال کی ہے اور محمد طفیل نے ڈرامائیت کا سہارا لیا ۔عابد سہیل کے خاکوں میں افسانوی تکنیک کے ساتھ ساتھ سسپنس کا استعمال بھی جا بہ جا نظر آتا ہے۔
افسانوی تکنیک کا استعمال خاکوں میں قصہ پن لانے اور تاثر کے رنگ کو گہرا کرنے کے لیے کیا جاتا ہے۔اس مخصوص تکنیک کے التزام کے لیے خاص فنی بصیرت درکار ہو تی ہے ،جس کی مدد سے فن کار اپنے فن میں اثر انگیزی پیدا کرتا ہے۔عابد سہیل اس فن سے پوری طرح واقف ہیں ،وہ کہنہ مشق افسانہ نگارہیں ۔فسانہ کو حقیقت اور حقیقت کو فسانہ بنانا وہ بخوبی جانتے ہیں۔عابد سہیل اس مخصوص تکنیک کا استعمال کبھی خاکے کی ابتدا میں کرتے ہیں اور کبھی آخر میں ۔ایم چلپت رائو کے خاکے میں ان کے آخری لمحات کی تصویر کشی بڑے خوبصورت افسانوی انداز میں کی ہے:
’’دہلی کی کسی سڑک کے کنارے ایک معمولی سے ڈھابے میں ۲۶؍ مارچ ۱۹۸۳ء کو ایک لمبا چوڑا شخص داخل ہوا ،بنچ پر بیٹھ کر اس نے چائے مانگی ،ذرا سی دیر میں چائے آگئی تو دو تین چسکیاں لیں ۔تھوڑی دیر بعد ڈھابے کا ملازم پیالی اٹھانے آیا تو اس میں آدھی سے زیادہ چائے باقی تھی ۔لیکن چائے پینے والا جاچکا تھا ۔۔۔۔اس ڈھابے میں یا آس پاس کوئی ایسا نہ تھا جو انھیں پہچانتا ہو ۔کچھ لوگوں نے مل کر یہ بھاری بھرکم جسم ایک چارپائی پر ڈال دیا۔پولیس آگئی ،اس کے پاس بھی کوئی شناخت کا ذریعہ نہ تھا انھیں پہچاننے والا کوئی مخبر ،شرفا، پڑھے لکھے اور اقدار کے پاسبانوں سے پولیس کو کیا واسطہ ۔تھوڑی دیر کے بعد اخبار کے دفتروں کے تار کھڑ کھڑائے ،فوٹو گرافر آگئے ۔ان میں بھی کوئی ایسا نہ تھا ،جو ان کو پہچانتا ہو۔آخر ایک سینئر رپورٹر نے انھیں پہچان لیا۔
یہ ایم چلپت رائو تھے۔
ایک پتہ نہ کھڑکا،ایک نوجوان صحافی کی آنکھ نم نہ ہوئی۔‘‘۶؎
افسانوی تکنیک کے علاوہ عابد سہیل کے یہاں سسپنس کی تکنیک بھی ملتی ہے ۔عابد سہیل نے اس تکنیک کا استعمال مقبول احمد لاری کے خاکہ میں کیا ہے۔موصوف اپنے ادبی سفر کے اولین دور میں ہی جاسوسی ناولوں کے ترجمے کر چکے تھے۔اس لیے وہ اس ہنر سے بخوبی واقف تھے کہ کس طرح قاری کے تجسس کو برقرار رکھا جائے۔اس خاکے کا نصف حصہ ختم ہو جانے کے باوجود قاری کا تجسس برقرار رہتا ہے کہ مصنف کو موضوع خاکہ پر مضمون لکھنے سے اس قدر احتراز کیوں تھا ۔آخر احمد لاری کی شخصیت میں کون سا نقص ہے۔خاکہ کے اختتام تک پہنچ کر یہ عیاں ہووتا ہے کہ سیاہ و سفید کی آمیزش مختلف شخصیتوں میں مختلف تناسب میں کیسے شبہات و غلط فہمیاں پیدا کرتی ہے اور بعض دفعہ شخصیتوں کا تضاد کس طرح مضبوط انسانی رشتوں میں تبدیل ہو جاتا ہے۔مختصر یہ کہ عابد سہیل نے اپنی فنی آگہی اور تخلیقی بصیرت سے ان دونوں تکنیکوں کو اپنے خاکوں میں اس طرح فن کاری سے برتا ہے کہ ان میں معنویت ،گہرائی و گیرائی اور بھر پور تاثر پیدا ہو گیا ہے۔
عابد سہیل نے اردو خاکہ نگاری میں ایک نیا تجربہ کیا ۔انھوں نے غیر مرئی اشیا کو ایک شخصیت کا روپ عطا کیا۔اس سلسلے میں ان کے دو خاکے قابل ذکر ہیں ایک ’اولڈ انڈیا کافی ہائوس ‘اور ’ماہنامہ کتاب‘ان دونوں کے خاکے تخلیق کرنے کا جواز پیش کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’کتاب اور اولڈ انڈیا کا فی ہائوس میں ایک قدر مشترک یہ بھی ہے کہ میں جو کچھ بھی ہوں اس کی تشکیل میں دونوں کا حصہ کم و بیش یکساں ہے اور ’’پورے ،آدھے ادھورے ‘‘میں اس کہانی کی شمولیت کا جواز بھی یہی ہے۔‘‘۷؎
اولڈ انڈیا کافی ہائوس کے تعلق سے لکھتے ہیں :
’’یادش بخیر حضرت گنج کے ’’اولڈ انڈیا کا فی ہائوس‘‘کی بھی اپنی ایک شخصیت تھی۔۔۔۔خاموش ، پرسکون ۔۔۔۔لیکن سیاست ،صحافت اور فنون لطیفہ کے میدانوں میں زمین و آسمان اوپر تلے کرنے والوں کی آماجگاہ۔اس سے اپنے عہد کی بہت بڑی شخصیتیں متعلق تھیں اور بہت سوں کو اس نے ان دیو قامت شخصیتوں کے فیض سے ہی اپنی پہچان بھی دی تھی ۔خاکوں کے اس مجموعے میں ’’اولڈ انڈیا کافی ہائوس ‘‘ پر مضمون کی شمولیت کا یہی جواز ہے۔‘‘۸؎
خاکہ نگاری اختصار کا فن ہے یعنی کم الفاظ میں زیادہ بات کہنی ہوتی ہے ۔اس میں زبان کو بنیادی اہمیت حاصل ہے ۔ یہاں کم سے کم واقعات اور کم سے کم الفاظ میں شخصیت کی پوری تصویر پیش کی جاتی ہے۔خاکہ نگاراس بات کا پابند ہوتا ہے کہ شخصیت سے متعلق تمام خاص و اہم پہلوئوں کو مختصر سے مختصر الفاظ میں بیان کر دے ۔ایک اچھے خاکہ میں کفایت کا یہ عمل زبان کے علاوہ خاکہ کے جملہ اجزائے ترکیبی میں نمایاں رہتا ہے۔اس اعتبار سے دیکھا جائے تو عابد سہیل کے خاکے اہمیت کے حامل ہیں ۔واقعات کے انتخاب میں انھوں نے ژرف نگاہی کا ثبوت دیا ہے اور چند واقعات کے ذریعے شخصیت کی مکمل تصویر کشی کر دی ہے۔ان کے تمام خاکے اتنے مختصر ہیں کہ انھیں ایک نشست میں آسانی سے پڑھا جا سکتا ہے۔اختصار اور جامعیت عابد سہیل کی تحریر کا حسن ہے۔وہ اپنے خاکوں میں ایک کارٹونسٹ کی طرح چند آڑے ترچھے خطوط کی مدد سے موضوع شخصیت کی پر اثر اور دلچسپ اسکیچ پیش کرتے ہیں۔حیات اللہ انصاری کے متعلق یہ اقتباس ملاحظہ ہو جس میں تقریباً شخصیت کے پورے نقوش ابھر کر سامنے آگئے ہیں:
’’ایک ماہر تیراک، گھڑوں، مٹکوں اور آستینوں میں سانپ پالنے کے شوقین ،مائونٹ ایورسٹ سر کرنے کے لیے برسوں سرگرداں رہنے والے ،بین الاقوامی فلم میلہ کے پہلے انعام کی مستحق قرار دی جانے والی فلم کے کہانی کار(کینس فلم میلہ ،فلم نیچا نگر، کہانی حیات اللہ انصاری، پرووڈیوسر چیتن آنند) صف اول کے صحافی ،ناول نگار اور افسانہ نویس اور اپنے خوابوں کو سرد منطق سے بکھیر دینے والے حیات اللہ انصاری ایک مجموعہ اضداد شخصیت کے مالک ہیں۔‘‘۹؎
اس میں زبان سب سے اہم رول ادا کرتی ہے۔زبان کے وسیلے سے ہی خاکہ نگار کسی شخصیت کی صورت ، سیرت، لباس ، رہن سہن ، انداز گفتگو ، محاسن و معائب ،جذبات و احساسات غرض شخصیت اور زندگی کے تمام پہلو بیان کرتا ہے۔اسی وجہ سے خاکہ نگار کو زبان پر قدرت ہونا لازمی ہے۔عابد سہیل کی ادبی زندگی لکھنؤ کی آب وہوا میں پروان چڑھی تھی لہٰذا الفاظ کے استعمال پر انہیں قدرت حاصل تھی۔عابد سہیل کی زبان عام طور پرسادہ سلیس اور عام فہم ہے۔اس میں ایک طرح کا تسلسل ہے جو سیل بے پناہ کی مانند ان کی تحریروں میں رواں دواں ہے۔مثال کے طور پر ایک اقتباس ملاحظہ ہو:
’’عشرت صاحب شاعری نہیں کرتے ،افسانے نہیں لکھتے ،پیراکی سے انھیں شوق نہیں ، سیاست میں ان کی دلچسپی صرف ڈاکٹر سدھو تک ہے۔اور مولوی وہ ہیں نہیں ،چنانچہ بس وہ ہیں اور صحافت ،صحافت ہے اور وہ۔ان کا اور صحافت کا معاملہ ،پانچ وقت کے نماز کے علاوہ ’’من تو شدم ،تومن شدی‘‘ والا ہے۔‘‘۱۰؎
عابد سہیل نے اپنے خاکوں کو دلچسپ بنانے کے لیے اشعار، محاورے ،تشبیہات و استعارات اور دیگر زبانوں کے الفاظ کے استعمال سے بھی پرہیز نہیں کیا ہے:
’’کھانے پینے کے معاملے میں عشرت صاحب اور حیات اللہ صاحب یعنی ’’قدس‘ اور ’’روح القدس‘‘ کی عادتیں بڑی حد تک ایک سی تھیں ۔دن کا کھانا دونوں نہیں کھاتے تھے حیات اللہ صاحب یہ کمی چھاج سے پوری کرتے تھے ،عشرت صاحب چھاج پھوک پھوک کر بھی نہیں پیتے تھے۔‘‘۱۱؎
مختصر یہ کہ عابد سہیل کے خاکوں کی زبان میں شگفتگی ،شائستگی ، شوخی ،سنجیدگی ، لطافت ،سادگی ،اثر آفرینی اور معنی خیزی بدرجہ اتم موجود ہے۔
عابد سہیل کے دور میں جن فن کاروں نے خاکے کی طرف توجہ کی وہ ایک دوسرے سے متاثر نظر نہیں آتے۔ان سب کی اپنی اپنی شناخت ہے ۔سبھی نے اپنے اپنے میدان متعین کر لیے تھے مثال کے طور پر مجتبیٰ حسین نے مزاح نگاری کوخاکے میں سمونے کی روایت کو آگے بڑھایا نیر مسعود نے علمی شخصیات کا خاکہ عالمانہ انداز میں پیش کیا ہے۔ندا فاضلی نے اپنی ملاقاتوں کو ’ملاقاتیں ‘ کی شکل دی ہے۔عابد سہیل کی خاکہ نگاری کی جانب بہت کم اکابرین نے توجہ کی ہے ۔ان کی خاکہ نگاری پر اگر اکابرین کی رائے تلاش کریں تو تبصروںسے زیادہ کچھ نظر نہیں آتا ۔ہاںان کی افسانہ نگاری اور شخصیت کے تعلق سے مضا مین ضرور ملتے ہیں۔پھر بھی ہر بڑا فن کار اپنے فن کے جادو سے اپنے ہم عصروں کو اپنی جانب متوجہ کر ہی لیتا ہے۔لہٰذا عابد سہیل کے خاکوں کے پہلے مجموعے ’کھلی کتاب ‘ کے تعلق سے پروفیسر محمد حسن اس طرح رقم طراز ہیں:
’’کھلی کتاب‘ میں انھوں نے جو کچھ لکھا ہے وہ سچ لکھا ہے ،ایک آدھ جگہ عقیدت کا رنگ کچھ زیادہ گہرا ہو گیا ہے ۔لازم تو یہ تھا کہ ان سے آسکر وائلڈ کے لفظوں میں یہ مطالبہ کیا جاتا کہ اگر کسی چہرے کی ایک شکن کی عکاسی نظر انداز ہو گئی ہو تو تم سے مواخذہ ہوگا اور تم دامن گیر ہوگے ۔بہر حال انھوں نے شرفا کا دستور بھی بڑی استقامت سے نبھایا ہے ۔ان کی جگہ کوئی اور ہوتا اور اتنے اور ایسے مختلف نوعیتوں کے جاننے والوں کے بارے میں لکھتا تو کبھی کا پھانسی پا گیا ہوتا۔‘‘۱۲؎
مصحف اقبال توصیفی کھلی کتاب کی ادبی و تاریخی اہمیت پر اظہار خیال کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’اس ’کھلی کتاب ‘میں تقریباً نصف صدی کا لکھنؤ اپنی تمام تر ادبی اور صحافتی سرگرمیوں کے ساتھ جلوہ گر ہے ۔ترقی پسند تحریک کے عروج کا وہ دور جس کا ایک اہم مرکز لکھنؤ تھا وہ بھی اس میں روشن ہے ۔آج کے سیاسی حالات میں جب کہ امریکہ کی جارحانہ پالیسی کے پیش نظر بعض ادبی حلقوں میں تو پھر ترقی پسند ی کے احیا کی بات چھڑ رہی ہے اس کتاب کے بارے میں دلچسپی اور اس کی اہمیت میں اضافہ ہو جاتاہے ۔‘‘۴۳؎
اب تک کے مطالعے کو نظر میں رکھیں تو یہ بات آسانی سے کہہ سکتے ہیںکہ عابد سہیل اردو خاکہ نگاری کی تاریخ میں ایک نمایاں حیثیت رکھتے ہیں۔انھوں نے اپنے فکر و فن سے اردو خاکہ نگاری کو نئے افق سے آشنا کیا ہے۔انھوںنے خاکے بنیادی اصولوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے خاکہ نگاری کے میدان میں نئے تجربات بھی کئے۔غیر جانبداری سے اپنی تہذیب کا پاس رکھتے ہوئے انھوں نے شخصیات کے اچھے اور برے دونوں پہلوئوں کو نظر میں رکھا۔مختصر یہ کہ عابد سہیل بحیثیت خاکہ نگار نہ صرف اپنے ہم عصروں میں بلکہ اردو ادب میں بھی نمایاں مقام رکھتے ہیں۔
حوالے:۔
۱۔دید و دریافت ،نثار احمد فاروقی ،آزاد کتاب گھر کلاں محل ،دہلی،۱۹۶۴ء ،ص ۱۷۔۱۸
۲۔ادبی محاکمے،ڈاکٹر احمد امتیاز ،اردو محل پبلکیشن ، دہلی، ۲۰۰۵ء ، ص ۱۹۵
۳۔اردو میں خاکہ نگاری ، نثار احمد فاروقی،مشمولہ خاکہ نگاری ۔اردو ادب میں ، ڈاکٹر انیس صدیقی، عرشیہ پبلکیشنز ،دہلی،۲۰۱۶ء ،ص ۲۱
۴۔اردو ادب میں کاکہ نگاری ،صابر سعید،مکتبہ شعر و حکمت حیدرآباد،۱۹۷۸ء ، ص ۱۶۳
۵۔کھلی کتاب ،عابد سہیل ، کاکوری پریس ،لکھنؤ، ۲۰۰۴ء ، ص ۶۷۔۶۸
۶۔پورے ،آدھے ادھورے،عابد سہیل ،عرشیہ پبلکیشنز،دہلی، ۲۰۱۵ء، ص ۱۸
۷۔ایضاً، ص ۱۸
۸۔کھلی کتاب ،مصحف اقبال توصیفی،مشمولہ شعر و حکمت ،۲۰۰۵ء دور سوم کتاب ۷، ص ۱۹۹
۹۔کھلی کتاب ،عابد سہیل ، کاکوری پریس ،لکھنؤ، ۲۰۰۴ء۱۴۲۔۱۴۳
۱۰۔ایضاً،ص ۱۰۴
۱۱۔ایضاً، ص ۶۶
۱۲۔دو مختصر مضامین ،پروفیسر محمد حسن، مشمولہ ماہنامہ، امکان ،ص۴۴
۱۳۔کھلی کتاب ،مصحف اقبال توصیفی،مشمولہ شعر و حکمت ،۲۰۰۵ء دور سوم کتاب ۷، ص ۱۹۹
Leave a Reply
Be the First to Comment!