وقار عظیم کی اقبال شناسی
آزاد ایوب بٹ
ریسرچ اسکالر ، شعبہ اُردو۔ دیوی اہلیہ وشوودھیالیہ اندور (ایم ۔پی)
وقار عظیم کی ذہنی وابستگی اقبال سے لگ بھگ نصف صدی سے ہے ،جس کا ثبوت وقار عظیم کی درج ذیل تصانیف سے ملتا ہے ۔(۱)اقبال شاعر اور فلسفی ‘ مکتبہ عالیہ لاہور ‘۱۹۴۸ء ،(۲)اقبال معاصرین کی نظر میں ، مجلس ترقی ادب لاہور ، ۱۹۷۳ء ،(۳) اقبالیات کا مطالعہ ، اقبال اکیڈمی لاہور ، ۱۹۷۷ء ، یہ تصانیف تدریسی ضرورتوں کے ساتھ ساتھ وقار عظیم کی تنقیدی شعور کی بھی بھر پور عکاسی کرتی ہیں۔ وقار عظیم نے ڈاکٹر رفیع الدین سے ایک ملاقات میں اپنی ذہنی وابستگی کا اظہار ان الفاظ میںکیا ہے :۔
’’یہ ۱۹۲۵ء ،۱۹۲۶ء کا زمانہ تھا ،میں سکول میں پڑھتا تھا ۔ہمارے نصاب کی کتاب میں اقبال کا منتخب کلام شامل تھا۔ یہ انتخاب چند نظموں ،بچے کی دُعا،ترانہ ہندی ، نیا شوالہ ، جگنو، ہمالہ،اور ایک آرزو پر مشتمل تھا۔ یہی سے اقبال کے ساتھ میری دلچسپی کا آغاز ہوا۔‘‘ ۱؎
وقار عظیم۱۹۵۰ء سے ۱۹۷۰ء تک اورینٹل کالج لاہور میں معلم کی حیثیت سے فائز رہے اور وہاں وہ اقبالیات کا پرچہ پڑھاتے تھے ۔ انہوں نے اقبال پر متعدد مضامین شائع کئے ،ریڈیو انٹر ویو ، سیمنار اور سب سے بڑا کام اقبال کے متعلق کئی تصانیف قلمبند کیں ،جس کی وجہ سے ہمیں انہیں اقبال شناس کہنے میں کوئی دورائے نہیں ہے۔اس طرح اقبال کو سمجھنے میں ہمیںکافی مدد ملی۔
وقار عظیم نے اقبال پر ۱۹۰۵ء سے ۱۹۴۷ء کے درمیان ایک تنقیدی مضامین کا مجموعہ ’’اقبال شاعر اور فلسفی ‘‘لکھا جو مختلف رسائل میں شائع ہوتا رہا۔’’اقبال معاصرین کی نظر میں ‘‘وقار عظیم کے ایسے مضامین کا مجموعہ ہے جو اقبال کی زندگی میں ہی قلمبند کیا گیا ۔وقار عظیم کے مضامین ، انٹر ویو ، تقاریر ، خطابات ، متفرقات وغیرہ پر مشتمل تصنیف ’’اقبالیات کا مطالعہ ‘‘ہے جو ان کے ایک شاگرد سید وحیدالدین نے ترتیب دیکر شائع کروائی ۔اقبال پر وقار عظیم کی تصانیف کا تنقیدی جائزہ پیش خدمت ہے۔
وقار عظیم نے اورینٹل کالج لاہور میں اقبال کا مضمون لگ بھگ اکیس برس تک نہایت محنت و لگن سے پڑھایا ،جس کی وجہ سے ان کے شاگرد ان کے لیکچرز کو علم و فکر آفریں قرار دیتے ہیں۔وقار عظیم نے بعد میں اپنے ان لیکچرزکا ایک مجموعہ ’’اقبال شاعر اور فلسفی ‘‘ کے بعنوان شائع کیا جس کے پیش لفظ میں وہ رقم کرتے ہیں :۔
’’اس مجموعے کے مضامین میں جو کچھ میں نے کہا اس کی تحریک کا سبب میرے وہ صدہائے شاگرد ہیں جنہیں میں انیس سال اقبال پڑھا رہا ہوں میں ان سب کا ممنون ہوں کہ انہوں نے استفادات سے مجھے سوچ کی راہیں دکھائی۔‘‘ ۲؎
یہ کتاب ۳۲۷ صفحات پر مشتمل ہے اور وقار عظیم نے اس کتاب کا انتساب اپنے ایک عزیز دوست حمید احمد خان کے نام کیا جو جامعہ پنجاب میں بحیثیت وائس چانسلر کام کر رہے تھے ۔ اس کتاب میں کل ۱۷ مضامین ہیں اور اس کتاب سے پہلے یہ مضامین مختلف رسائل و جرائد میں شائع ہوگئے تھے ۔
اقبال کے متعلق پہلے سے ہی یہ جد جہد جاری رہی کہ اقبال بڑے شاعر اور فلسفی ہیںاو ر ادباء نے اسے خوب ہوا دی ۔ وقار عظیم کا یہ بہترین اور خوبصورت مقالہ اس بات کی وضاحت کرتا ہے کہ اقبال ایک عظیم فلسفی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ ان کی شاعرانہ عظمت کو بھی برقرار رکھتے ہیں۔وقار عظیم نے یہ نتیجہ ظاہر کیا ہے کہ اقبال اعلیٰ فلسفیانہ سوچ رکھتے ہیں اور انہوں نے یہی خیال شعری پیرائے میں ہم تک پہنچایا ہے :۔
’’ اقبال فلسفی اس معنی میں ہیں کہ انہوں نے اپنے مخاطب یا قاری کو زندگی کا ایک مربوط ،منظم اور بعض حیثیتوں سے ایک مکمل اور عملی فلسفہ دیا ہے۔۔۔اقبال کا یہ مربوط اور منظم فلسفہ ایک گہرے اور شدید ذہنی تجربہ جو اقبال کے مزاج اس کی شخصیت اور اس شخصیت کے رگ وپے میں سمایا ہوا ہے جب ابھرنے کے لیے بے تاب ہوتا اور لفظوں کے پیکر یا سانچے ڈھلتا ہے تو کبھی وعظ بن کر ہمارے سامنے آتا ہے اور کبھی شاعری اور دونوں صورتوں میں دلنشین بھی ہوتا ہے اور مؤثر بھی۔‘‘ ۳؎
’’اقبال شاعر اور فلسفی ‘‘اقبال کے فن پر ایک اہم اور بہترین کتاب ہے جس میںوقار عظیم نے اقبال کو ایک حکیم ، دانا ، فلسفی، مفکر ، اور معلم قرار دیا اور ساتھ ہی یہ بھی ثابت کیا وہ ایک عظیم شاعر اور فکر و جذ بے کی دنیا کا ترجمان ہے ۔اس بات کی وضاحت بھی کی ہے کہ وہ شاعری کے سارے رموز و نکات سے پوری طرح واقفیت رکھتے ہیں ۔یہ کتاب اقبال کے فکر وفن کو عام قاری تک پہنچانے کے لیے خاص اہمیت کی حامل ہے ۔
اقبال معاصرین کی نظر میں :
وقار عظیم نے اس کتاب کو اپنے ایک دوست شیخ محمد اکرام کے کہنے پر ترتیب دینے کی ذمہ داری تسلیم کی اور اسے مجلس ترقی ادب لاہور سے شائع کرنے کا فیصلہ بھی کیا ۔وقار عظیم اپنے ایک انٹرویو میں رفیع الدین ہاشمی سے گفتگو کے دوران اس کتاب کے تالیف کرنے کے متعلق کہتے ہیں:۔
’’مجلس ترقی ادب لاہور نے ایک کام میرے سپرد کیا اور وہ یہ ہے کہ اقبال کی زندگی میں ان کی شخصیت اور فن پر جو مضامین شائع ہوئے ان کا ایک اچھا سا انتخاب مرتب کروں اس کے ساتھ ساتھ مقدمہ اور حواشی بھی میںایسے مضامین کی تلاش کر رہا ہوں اور خاصا کام ہو چکا ہے ۔‘‘ ۴؎
یہ کتاب ۵۴۳ صفحات پر مشتمل ہے اور اس میں ۲۱ مقالات ہے جو ۱۹۷۷ء میں شائع کی گئی ۔اس کتاب کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ اس کے مقالات اقبال کی حیات زندگی میں ہی لکھے گئے اور خاص کر یہ مقالات ان کی نظر سے گزرے اور ان میں سے کچھ مقالات پر اقبال نے اپنی رائے بھی دی ہے ۔ وقار عظیم نے کتاب کے ابتدا ء میں چودہ صفحات کا ایک مقدمہ لکھا ہے اور آخر میں ۷۰ صفحات پر مشتمل حواشی تحریر کئے ہیں جو ایک کتاب کی حیثیت رکھتے ہیں ۔ ڈاکٹر سید معین الرحمن نے کتاب کا اشاریہ ۳۶ صفحات پر ترتیب دیا ہے ۔ ایک انٹر ویو میں وقار عظیم حواشی ومقدمہ کے بارے میں رفیع الدین سے گفتگو کرتے ہوئے کہتے ہیں:۔
’’حواشی اور مقدمہ اس غرض سے لکھا کہ اقبال کی شخصیت اور شاعری سے متعلق بعض باتوں اور اعتراضات کی وضاحت کی جائے مثلاًاقبال کو سر کا خطاب ملا تو اس کی حمایت اور مخالفت میں کئی مضمون لکھے گئے ۔‘‘ ۵؎
اس کتاب میںاقبال کی زندگی میں ہی ان کی حیات و شخصیت پر لکھی جانے والی تاریخی تحریروں کا انتخاب کیا گیا ہے ۔ ان تحریروں میں اقبال کی زندگی اور فلسفہ وفن پر جائزہ لیا گیا ہے جس کی وجہ سے اقبال کو سمجھنے میں بہت آسانی ہوتی ہے۔اقبال کے حوالے سے وقار عظیم نے ایسے ہی مضامین کا انتخاب کیا جن سے اقبال کی شخصیت اور شاعری کو سمجھنے میں بھر پور مدد ملی ہے ۔ ان مضامین کا جواب اقبال نے خطبات ، خطوط اور مقالات میں دیا ہے ، مگر وقار عظیم ان مضامین کا موثر جواب خطبات کو ہی قراردیتے ہیں ۔اس کتاب کی اہمیت و افادیت اور اقبال کی شاعری پر تنقید سے متعلق وقار عظیم مقدمہ میں لکھتے ہیں :۔
’’ان مضامین میں اکثر اقبال کے مطالعے میں آئے اور ان میں سے بعض کے متعلق انہوں نے اپنے خیالات بھی ظاہر کئے ۔ تحسین و تشکر کی صورت میں اور کبھی تردید و توضیح کے انداز میں۔‘‘ ۶؎
اقبال کی شاعری کے ادوار کا قیام ان کی زندگی میں ہی قائم کئے گئے تھے ۔اس سلسلے میں عبدالقادر سروری کا مقدمہ ’’بانگ درا ‘‘ خاص اہمیت کا حامل ہے جو ۱۹۲۴ء میں شائع ہوا ہے ۔اقبال کی شاعری کو عبدالقادر سروری نے تین ادوار میں منقسم کیا ہے ۔ اس کتاب کے مضامین کے ذریعے مختلف ادوار اور ان کی خصوصیات بیان کی گئی ہے ۔ قاضی عبدالقادر کا مضمون ’’پیام اقبال ‘‘ اور ملک راج آنند کا ’’اقبال کی شاعری ‘‘ اس ضمن میں کافی اہمیت رکھتے ہیں۔اقبال کی شاعری کو قاضی عبدالغفار نے دو ادوار میں تقسیم کیا ہے ،ایک دور وطنیت اور دوسرا دور ملت پسندی ہے ۔
وقار عظیم نے اس بات کو واضح کیا کہ اقبال کے خیالات میں ابتدائی دور میں وسعت تو ہے مگر گہرائی نہیں ملتی ، ملک راج آنند کے مطابق اقبال کا ابتدائی دور رنگین اور دل آویز ہے ، دوسرا دور وطنیت اور تیسرے دور میں فلسفیانہ رنگ پایا جاتا ہے ۔وقارعظیم کے مطابق دوسرے دور میں اقبال کی طبیعت میں ایک مخصوص قسم کی بلند ملتی ہے اور اکثر و بیشتر نظموں میں ایک خاص رنگ اور سوز دیکھنے کو ملتا ہے جو براہ راست دل میں گھرکر جاتا ہے ۔ اقبال کی شاعری کو انکی زندگی میں ہی پیغمبر ی رجحان کا شرف حاصل ہو چکا تھا۔ اس بارے میں وقارعظیم رقمطراز ہیں :۔
’’زیر بحث کتاب میں بعض مضامین ایسے ہیں جن کے عنوانات ہی سے اقبال کی پیغمبر انہ شان و شوکت عیاں ہوتی ہے ۔تاہم بعض مضامین ایسے بھی ہیں جن میں بظاہر پیغمبر ی کوعنوان نہیں بنایا گیا لیکن ان میں بھی پس پردہ الہامی عناصر کا بیان موجود ہے ۔‘‘ ۷؎
وقار عظیم کے مطابق مضمون نگاروں اور اقبال شناسوں نے اقبال کی شاعری کو پیغمبر انہ شان ہونے کا نظریہ ’’اسراررموز ‘‘ سے لیا ہے اور بعض نے ’’بانگ درا ‘‘،’’زبور عجم ‘‘ اور پیام مشرق کی مثالیں بھی پیش کی ہیں ۔ اقبال کی شاعری کو پیغمبرانہ کہنے کی سب سے بڑی وجہ محققین و ناقدین کا فکری نظام ہے جس کی اصل بنیاد اسلام پر ہے ۔لیکن اسلام کا بیان نہایت ہی وسیع معنوں میں مستعمل کیا گیا ہے ۔ان مضامین پر وقار عظیم نے تنقیدی نظر ڈالتے ہوئے اقبال کے کلام کو ہر حال میں پیغمبر انہ کہنالازمی قرار دیا ہے ۔
وقار عظیم اس بات سے نہایت خوشی محسوس کرتے ہیں کہ اقبال کے کلام پر اب عالمی سطح پر تجزئے ہو رہے ہیں اور شاعر مشرق علامہ اقبال کی آواز اب مغرب میں بھی گونج اُٹھی ہے ۔اس کتاب کو ترتیب دینے کا جواز وقار عظیم کچھ اسطرح ظاہر کرتے ہیں:۔
’’اقبال کے پیغام کو مشرق کے گوشے گوشے اور دنیا اسلام کے قریے قریے عام کرکے انسان کے خوب ، ناامیدی و بے یقینی کو دور کر کے اور اس کی خود اعتمادی کو بحال کرنے میں مدد ملے گی اس کی طرف اس مجموعے کے مضامین میں بڑے واضح اشارے موجود ہیں میرے نزدیک ان کو مرتب کر کے منظر عام پر لانے کا یہی جواز کافی ہے۔‘‘۸؎
الغرض وقار عظیم نے بڑی محبت سے یہ حواشی تحریر کئے ہیں جس سے ان کے گہرے مطالعے اور ناقدانہ بصیرت کا پتہ چلتا ہے ۔اس لیے یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ یہ کتاب اقبال شناسی میں ایک نئے باب کا اضافہ کرتی ہے۔
اقبالیات کا مطالعہ:
یہ کتاب ۳۶۴ صفحات پر مشتمل ہے ۔ وقار عظیم جب ملازمت سے سبکدوشی ہوتے تو انہوں نے اس دوران اپنی زندگی کا بیشتر حصّہ اقبالیات کی مصروفیت میں سرف کیا ۔ انہوں نے اقبال پر جتنے بھی مضامین ، مقالات اور تقریریں کیں ان سب تحریروں کو سید معین الرحمن نے جمع کر کے اقبال اور وقار عظیم کی صدسالہ ولادت کی پہلی برسی کے موقع پر ۱۹۷۷ء میں پیش کیا۔یہ کتاب اقبال اکیدمی لاہور سے شائع ہوئی ۔سید معین الرحمن کتاب کے مقدمے میں رقمطراز ہیں:۔
’’ اقبال پر جن مضامین کا خاکہ وقار صاحب کے ذہن میں تھا ۔۔ جہاں تک کہ سال گذشتہ ۱۷ نومبر ۱۹۷۶ء کو وہ ناگہاں اللہ کو پیارے ہوگئے ۔ اس عقب میں اب زیر نظر کتاب ’’اقبالیات کا مطالعہ ‘‘ تلاش و ترتیب اور تدوین و طباعت کے مراحل سے گزر کر اہل شوق کے ہاتھوں میں ہے ۔‘‘ ۹؎
وقار عظیم نے اپنی پہلی کتاب ’’اقبال شاعر اور فلسفی ‘‘ کا انتساب پروفیسر حمید اللہ خان کے نام سے، دوسری کتاب ’’اقبال معاصرین کی نظر میں ‘‘ ڈاکٹر ایس ، ایم ،اکرام کے نام سے اور تیسری کتاب ’’اقبالیات کا مطالعہ ‘‘ کے انتساب کے بارے معین الرحمن لکھتے ہیں ۔
’’میں چشم تصور دیکھتا ہوں کہ اگر مرحوم زندہ ہوئے اور ’’اقبالیات کا مطالعہ ‘‘ کو خود ترتیب دیتے تو ایسے خواجہ منظور حسین کے نام سے منسوب فرماتے۔‘‘ ۱۰؎
اس کتاب میں کل آٹھ مضامین ہیں اور یہ حصہ جائزے پر مشتمل ہے ۔وقار عظیم نے اقبال پر اس کتاب کے مضامین ۱۹۳۷ء سے ۱۹۴۱ء تک پانچ سالوں کے دوران لکھی اور انہوں نے اس کے لیے دس کتب کا جائزہ لیا ہے ۔
الغرض ’’اقبالیات کا مطالعہ ‘‘ وقار عظیم کا ایک ایسا لازوال مجموعہ ہے جس سے اقبال کے مختلف پہلوؤں اور رویشوں پر وقار عظیم کی تنقیدی نظر پڑتی ہے ۔
حواشی
۱؎: اقبالیات کا مطالعہ ،ص ۱۱
۲؎ :اقبال شاعر اور فلسفی ،ص ۲
۳؎: اقبال شاعر اور فلسفی،ص ۸
۴؎:معین الرحمن سید ، ڈاکٹر جہان اقبال ، ص ۱۲۷
۵؎:اقبال معاصرین کی نظر میں ،ص ۹
۶؎:اقبال معصرین کی نظر میں ،ص۱۱
۷؎:ایضاً،ص ۱۷
۸؎: ایضاً،ص ۲۳
۹؎:نقوش لاہور سالانہ جنوری ۱۹۷۷ء ،ص ۲۱
Leave a Reply
Be the First to Comment!