نعت گوئی کی روایت اور سید نصیر الدین نصیرؔ کی نعتیہ شاعری

محمد زبیر

ریسرچ اسکالر شعبۂ اردو، یونیورسٹی آف حیدرآباد

9469864219,6005137633

zabairkhatana@gmail.com

نعت عربی زبان کا لفظ ہے جس کے لغوی معنی مدح ثنا یا تعریف و توصیف کے ہیں ۔اصطلاح میں نعت سے مراد وہ منظوم بیان ہوتا ہے جس میں شاعر (نعت خواں)اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں اپنی عقیدت و محبت کا اظہار کرتا ہے۔ رسالت مآب صلی اللہ علیہ و سلم سے عقیدت و محبت ہر مومن کا خاصہ ہے۔خود اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کا مفہوم ہے کہ تم میںسے  اس وقت تک کوئی شخص مومن نہیں ہو سکتا جب تک اپنے ماں باپ سے بڑھ کر مجھ سے محبت نہ کرے۔ اس سے یہ پتا چلا کہ مومن ہونے کی شرائط میں سے ایک شرط یہ بھی ہے کہ اس کے دل میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کی محبت جاگزیں ہو۔رسول کی محبت اور عقیدت کے سوا ایمان کی تکمیل ہی نہیں ہوتی۔چنانچہ سید نصیرالدین نصیرؔ اپنے نعتیہ مجموعے کے پیش گفتار میں رقمطراز ہیں۔

’’آپ ﷺکی محبت ہر مسلمان کے ایمان کا حصہ ہے۔ کلمہ طیبہ ہی کو لے لیجیے ۔ جب تک اقرارِ توحید کے ساتھ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی رسالت کا اقرار و اعلان نہ کیا جائے ،ایمان کی تکمیل نہیں ہوتی‘‘ ۱؎

            (پیش گفتار، دیں ہمہ اوست، از پیر نصیر الدین نصیر۔)

شاعری کی دوسری اصناف کی طرح نعت کا آغاز بھی سب سے پہلے عربی زبان میں ہوا۔قرآن عظیم میں رب کائنات نے آقا کریم ﷺ کو جن الفاظ مین یاد کیا وہ نعت ہی کے زمرے میں آتے ہیں ۔ عربی میں سب سے پہلے نعت میمون بن قیس نے لکھی۔ابو طالب، حضرت خدیجہ الکبریٰؓ، اور حضرت عائشہ ؓوغیرہ سے بھی نعتیہ اشعار منسوب ہیں تاہم حسان بن ثابت حضرت کعب بن زہیر وغیرہ نے باقاعدہ نعت گوئی کی ۔ حضرت حسان بن ثابت کو  شاعر ِرسول کا مرتبہ عطا ہوا تھا۔فارسی میں نعت گوئی کی شروعات عربی زبان کے زیرِ اثر ہوئی چنانچہ شرف الدین شیخ سعدی ؔشیرازی، ابوالقاسم فردوسیؔ، خواجہ شمس الدین محمد حافظؔ شیرازی، مولانا جلال الدین رومیؔ، مولانا نورالدین عبدالرحمان جامیؔ، اور یمین الدولہ عرف امیر خسروؔوغیرہ نے فارسی زبان میںرسالت مآب ﷺکی محبت میں گلہائے عقیدت پیش کیے ۔ مولانا جامیؔ کے چند فارسی نعتیہ اشعارملاحظہ فرمائیں ۔

یا رسول ہاشمی قربان نامت جانِ من

جانِ من جانانِ من بہ جملۂ فرزندانِ من

خاک راہِ رہ رواں راہِ عشقت یا رسول

 سرمہِ من، دیدہ ِ من چشمِ من چشمانَِ من

چشم دارد جامیؔ مسکین کہ فرمائی قبول

گریۂ من نالۂ من آہِ من فغانِ من

 اسی طرح حضرت امیر خسروؔ کی فارسی نعت کے چند اشعار دیکھیں۔

نمی دانم چہ منزل بود شب جائی کہ من بودم

بہ ہر سو رقصِ بسمل بود شب جائی کہ من بودم

 خدا خود میرِ مجلس بود اندر لامکاں خسروؔ

محمد شمعِ محفل بود شب جائی کہ من بودم

ہندوستان میں عربی اور فارسی کی آمد کے ساتھ جب اردو زبان کی صورت میں نکھار آنا شروع ہوا اور اردو زبان میںشاعری کی جانے لگی تو اس وقت شاعری کی دوسری اصناف غزل، مثنوی،قصیدہ ، مرثیہ اور رباعی وغیرہ کے ساتھ ساتھ محبانِ رسولﷺ نعت گوئی کی طرف بھی راغب ہوئے۔ اس طرح عربی فارسی کے زیرِ اثر اردو میں بھی نعت گوئی کا سلسلہ شروع ہوا ۔ چنانچہ عہد بہ عہد عربی فارسی اور اردو میں شعرأ نے جس طرح اس صنف سے اپنے شغف کا اظہار کیا ہے اس کی مثال دنیا کی کسی دوسری زبان و ادب میںنہیں ملتی۔

اردو زبان میں نعتیہ شاعری کا ذخیرہ وافر مقدار میں دستیاب ہے بلکہ کمیت کے اعتبار سے اردو کے نعتیہ سرمائے کو فارسی پر برتری حاصل ہے۔اردو میں نعت گوئی کی روایت مستند حوالوں سے مثنوی ’’کدم رائو پدم رائو‘‘کے نعتیہ اشعار سے قائم ہوتی ہے جب کہ بعض لوگ اس روایت کو خواجہ بندہ نواز گیسو درازؒ سے قائم کرتے ہیں ۔حکیم وسیم احمد اعظمی اردو میں نعتیہ شاعری کے متعلق یوں رقمطراز ہیں۔

’’اردومیں اس صنفِ سخن کی روایت خواجہ بندہ نواز گیسو دراز (وفات 1422ء )سے قائم کی جاتی ہے لیکن تحقیق فخرالدین نظامی ( وفات بعد 1435 ء)کی مثنوی ’’ کدم رائو پدم رائو‘‘ کے نعتیہ اشعار کو اردو نعتیہ شاعری کا پہلا مستند حوالہ بتاتی ہے۔ اسی کے ساتھ اردو کے پہلے صاحب دیوان شاعر سلطان محمد قلی قطب شاہ معانیؔ (وفات 1612ء)کو اردومیں نعت کی مستقل حیثیت کو متعین کرنے والا پہلا نعت گو قرار دیتی ہے اور ولیؔ دکنی (وفات 1730ء)کو اس عظیم روایت کو دانشوری اور صحت مند اسلامی تعلیمات کے ساتھ آگے بڑھانے والا تصور کرتی ہے۔

مرزا محمد رفیع سوداؔ ( وفات 1780ء ) کے نعتیہ اشعار کو شمالی ہند میں اس صنف ِ سخن کا روشن اور معتبر ابتدائیہ کہا جاسکتا ہے‘‘  ۲؎

( حکیم وسیم احمد اعظمی، جاذب لکھنوی کی نعتیہ شاعری،سہ ماہی تخلیق و تحقیق، شمارہ اکتوبر تا دسمبر 2017ء، ص 36)

گویا آگے چل کر ایسے شعراء نے جنم لیا جن میں کچھ نے نعت اور منقبت کو ہی اپنا اوڑھنا بچھونا بنا لیا۔ مسلم شعراء کے ساتھ ساتھ غیر مسلم شعرا کی بھی نعت گوئی میں اہم اور وقیع خدمات ہیں ۔ مسلم اور غیر مسلم شعراء کی نعتیہ شاعری کی ایک طویل فہرست ہے اور متعدد نعتیہ اور منقبتی شاعری کے مجموعے منصۂ شہود پر آ چکے ہیں۔

نعت گو شعرا کے سلسلے میں ایک اہم نام سید نصیر الدین نصیرؔ کا بھی ہے ۔سید نصیرالدین نام اور  نصیر ؔ تخلص کرتے تھے۔ آپ کے والدکا نام پیر سید غلام معین الدین اور دادا کا نام پیر سید غلام محی الدین تھا۔ آپ کے پردادا پیر سید مہر علی شاہ گیلانیؒ کی شخصیت کسی تعارف کی محتاج نہیں ۔وہ بڑے روحانی اور پہنچے ہوئے بزرگ تھے اور اپنی تمام زندگی دین کی خاطر صرف کردی ۔وہ روحانی شخصیت ہونے کے ساتھ ساتھ جید عالم اورپنجابی زبان کے ایک بڑے شاعر بھی تھے۔ان کی پنجابی نعوت کو قبولِ خاص و عام کا شرف ملا۔ان کی پنجابی نعت کے چند اشعار ملاحظہ کریں۔

اج سک متراں دی ودھیری اے

کیوں دلڑی اداس گھنیری اے

لوں لوں وچ شوق چنگیری اے

اج نیناں لائیاں کیوں جھڑیاں

کتھے مہر علی کتھے تیری ثنا

گستاخ اکھیں کتھے جا اڑیاں

سید نصیر الدین نصیرؔ ایک جید عالمِ دین اور بڑے شاعر تھے۔ان کی ولادت ۱۴ نومبر۱۹۴۹ء  بمطابق ۲۲ محرم الحرام ۱۳۶۹ھ کو گولڑہ شریف اسلام آباد پاکستان میں ہوئی۔ان کا تعلق ایک علمی گھرانے سے تھا۔  وہ بیک وقت شاعر، ادیب، محقق،خطیب، عالم اور صوفی با صفا تھے۔ اردو ، فارسی ، عربی، پنجابی ،ہندی اور سرائیکی زبانوں پر یکساں دسترس رکھتے تھے۔ان تمام زبانوں میں انہوں نے اشعار کہے۔انہیںشاعرِ ہفت زبان کے لقب سے بھی جانا جاتا ہے۔

حضرت پیرسید نصیر الدین نصیرؔ کا شجرہ نصب حضرت علی ؓسے ملتا ہے۔وہ امام علی ابنِ طالبؓ کی چالیسویں پشت ہیں۔ایک اسلامی اسکالر ہونے کے ناطے وہ اسلام کو سمجھنے سمجھانے اور دینی مسائل پر غور و فکر کرنے میں دلچسپی رکھتے تھے۔ انہوں نے اپنی زندگی میں 35سے زائد کتابیں لکھیں ۔ان کی غزلیہ شاعری کے تین مجموعے شائع ہوئے جن کے نام ’’دستِ نظر‘‘ ’’پیمانِ شب‘‘ اور ’’ عرشِ ناز‘‘ ہیں ۔ان کی رباعیات کے دو مجموعے ’’ رنگِ نظام‘‘ اور ’’ آغوشِ حیرت‘‘کے نام سے شائع ہوئے۔مناقب کا ایک مجموعہ ’’ فیضِ نسبت کے نام سے منظرِ عام پر آیا۔’’متاعِ زیست‘‘ کے نام سے ایک مجموعہ شائع ہواجس میں متفرق کلام موجود ہے۔حضرت مولانا احمدرضا خان بریلوی ؒکے کلام پر لکھی گئی تضمینات پر مشتمل ایک مجموعہ ’’ تضمینات ‘‘ کے نام سے شائع ہو چکا ہے۔ پیر سید نصیرالدین نصیرؔ کا نعتیہ شاعری پر مشتمل  مجموعہ ’’ دیں ہمہ اوست‘‘ کے نام سے دوسری مرتبہ 2002ء میں منظر عام پر آیا ۔اس نعتیہ مجموعے میں فارسی، اردو ، عربی اور پنجابی زبان میں نعتیں شامل ہیں۔

نعت کا محور اور مرکز چونکہ آقأ نامدار رسالت مآب ﷺ کی ذات اقدس ہوتی ہے اس لیے نعت کا شاعر محبوب خدا ﷺ کی آمد ، آپ ؐکی زندگی کے حالات و واقعات ،صداقت وامانت اور معجزات جیسے موضوعات کو اس میں پیش کرنے کی سعادت حاصل کرتا ہے۔سید نصیرا لدین نصیر ؔنے ایسے ہی جملہ موضوعات کو اپنی نعتیہ شاعری میں بیان کیا ہے۔حضرت محمد ﷺ کی تشریف آوری سے پہلے جہالت کا اندھیرا چھایا ہوا تھا ۔ہر طرف ظلم و استبداد کا دور دورہ تھا۔ حتیٰ کہ لوگ ذاتِ باری تعالیٰ کی وحدانیت سے بھی نا آشنا تھے۔یہ آپ ﷺ کے وجود ہی کا اعجاز تھا کہ انسان نے وحدہ لاشریک کو پہچانا۔کفر اور شرک نے دم توڑ دیا۔حق اور باطل میں پہچان کی جانے لگی ۔ غریبوں اور ناداروں کی ہمدردی کی جانے لگی۔ان تمام باتوں کو سید نصیر الدین نصیرؔنے اپنی نعتوں میں بیان کیا  ہے۔ان کی نعت کے چندشعر دیکھیں۔

نور سرکار نے ظلمت کا بھرم توڑ دیا

کفر کافور ہوا شرک نے دم توڑ دیا

نہ رہا کفر کا پندار نہ غرہ نہ غرور

ایک ہی ضرب میں سب جاہ حشم توڑ دیا ۴؎

(دیں ہمہ اوست،از نصیرالدین نصیرؔ ، ص 87 )

یہ دو اشعار بھی دیکھیں۔

تیرے کرم نے فقیروں کی جھولیاں بھر دیں

تیری نظر نے گدائوں کو شہریار کیا

تیرے وجود کا اعجاز ہے کہ انسان نے

صفات و ذاتِ الٰہی کا اعتبار کیا۵؎

(دیں ہمہ اوست،از نصیرالدین نصیرؔ ، ص 73)

نعت لکھنے کے لیے کسی خاص اصول اور ضابطہ کی پابندی نہیں کی جاتی جس کی وجہ سے نعت گو شعرا کے سامنے کوئی تحدید نہیں ہوتی ۔اصول اور ضوابط کی عدم موجودگی شاعروں کے لیے قدرِ آسانیاںتو پیدا کرتی ہے تاہم نعت کا موضوع چوںکہ حمد سے قریب تر ہوتا ہے اس لیے اس میں کچھ ایسی باریکیاں ہوتی ہیں جن سے گزرنا ہر کسی کے بس کی بات نہیں ہوتی ۔اس میں وہی شاعر کامیاب ہو سکتا ہے جو شریعت، طریقت، ایمان ، عقیدے اور عابد اور معبود کی حدوں سے کما حقہ واقفیت رکھتا ہو۔نعت اور حمد کی مماثلت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے پروفیسر واحد نظیرؔرقمطراز ہیں۔

’’نعت کے موضوع کی یہی وسعت اور حمدیہ موضوع سے قربت نعت گو شعرأ کے لیے آسانیاں بھی فراہم کرتی ہے اور انہیں کڑی دشواریوں سے بھی روبرو کرتی ہے ۔آسانیاں اس طرح کہ موضوع کی گونا گونی شاعر کو احساسِ بے مائگی کا شکار نہیں ہونے دیتی اور دشواریاں اس طرح کہ حمدیہ موضوع سے اس کی قربت شاعر کو سراپا محتاط رہنے پر قانع رکھتی ہے ۔یہ وہ نازک مرحلہ ہے جہاںزبان و بیان کے شہسواروں کی رفتار تھم جاتی ہے۔ یہ مرحلہ ایسے پلصراط کی مانند ہے کہ ذرا سا غلو قابَ قوسین او ادنیٰ کی حدوں کو توڑ کر الوہیت کے دائرے میں ڈال سکتا ہے اور ذرا سی تنقیص دنیا و آخرت کے تباہ و برباد ہونے کی وجہ بن سکتی ہے۔‘‘

                        ( فن نعت گوئی ،از پروفیسر واحد نظیر مشمولہ دبستان نعت ،مدیر ڈاکٹر سراج احمد قادری، ص 32)

 پیر سید نصیر الدین نصیرؔ چوںکہ ایک جید عالم تھے اس لیے ان کی نعتوں میں ان باریکیوں کا خاص خیال رکھا گیا ہے۔ ان کے کلام میں رسالت مآب ﷺ کی تعریف و توصیف ایمان و ایقان اور عقیدے کو مدِ نظر رکھتے ہوئے کی گئی ہے۔ ان کی نعتوں میں افراط و تفریط نہیں پائی جاتی اور نہ ہی ان کی نعتیں کسی موحد کو امتحان میں ڈالتی ہیں ۔ان کی نعتوں میں حضور ﷺ کی تعریف کے ساتھ ساتھ قاری کو خدا بزرگ و برتر کے احکامات سے بھی واقف ہونے کا موقع ہاتھ آتا ہے۔مثال کے طور پر چندا شعار ملاحظہ فرمائیں ۔

روزِ ازل حق نے جاری یہ فرمان کیا

ان کو بنا کر شاہِ رسولاں دو جگ کاسلطان کیا

بھیج کے ہم میں رسول اپنادین کے نقطے سمجھائے

پردے پردے میں امت کی بخشش کا سامان کیا  ۳؎

)دیں ہمہ اوست،از نصیرالدین نصیرؔ ، ص (64

درج بال اشعار میں جہاں نبی ﷺ کی توصیف بیان ہوئی ہے وہاںخالق و مخلوق اور عابد و معبودکی حدیں بھی بالکل واضح دکھتی ہیں ۔

نعتیہ شاعری میں پیر سید نصیر الدین نصیرؔ نے زبان و بیان کا اعلیٰ نمونہ پیش کیا ہے۔ ان کے کلام میں جہاں آسان اور عام فہم زبان کا استعمال دیکھنے کو ملتا ہے وہیں ان کے ہاں پر شکوہ اور فارسی و عربی آمیز الفاظ کی بھرمار بھی ملتی ہے ۔’’ شاعری کام ہے آتشؔ مرصع ساز کا‘‘ کے مصداق وہ شاعری میں الفاظ اور زبان و بیان کے صحیح استعمال میںیدِ طولیٰ رکھتے ہیں۔کلام میں سلاست کی مثال دیکھیے۔

زندگی جب تھی یہ جینے کا قرینہ ہوتا

رخ سوئے کعبہ تو دل سوئے مدینہ ہوتا

یوں مدینے میں شب و روزگزرتے اپنے

دن صدی ہوتا ہر اک لمحہ مہینہ ہوتا

یہی خوائش تھی یہی اپنی تمنا تھی نصیرؔ

میرا سر اور درِ شاہِ مدینہ ہوتا۶؎

(دیں ہمہ اوست،از نصیرالدین نصیرؔ ، ص 96)

پیر نصیر الدین کی نعتوں میں بڑی تاثیر اور کسک ہوتی ہے۔ ان میں عشق و عرفان کے جلووں کے ساتھ ساتھ تلمیحی رمز و اشارے پائے جاتے ہیں۔آقا کریم ﷺ کا عشق و محبت ان کے اشعار میں اپنی پوری تابناکی کے ساتھ جلوہ گر ہوتا ہے۔یہ اشعار دیکھیں۔

 چھڑ جائے جس گھڑی شہ کون و مکان کی بات

پڑھیے درود چھوڑیے سود و زیاں کی بات

رودادِ غم بیان کیے جا رہا ہوں میں

وہ سن رہے ہیں میرے دلِ بے زبان کی بات

شہرِ نبی کی یاد نے تڑپا دیا ہمیں

تم نے نصیرؔ آج سنا دی کہاں کی بات ۷؎

(دیں ہمہ اوست،از نصیرالدین نصیرؔ ، ص101-102,)

ہر مومن مسلمان اپنیدل میںروضۂ اقدس کی زیارت کی تمنا لیے رہتا ہے۔ نعتیہ شاعر(جو عشق نبی ﷺ کی محبت کے سلسلے میں عام آدمی کی بہ نسبت زیادہ ہی حساس ہوتا ہے )کے دل میں روضہ ٔ انور کی زیارت کی تڑپ زیادہ ہوتی ہے۔ جس کا اظہار شعرا نے اپنی نعتوں میں جابجا کیا ہے۔سید نصیر الدین نصیرؔ نے بھی اپنی نعتوں میںراہ مدینہ اور مکہ معظمہ کی حاضری کی تمنا اپنے اشعار کے ذریعے بیان فرمائی ہے۔مثال کے طور پر ایک شعر ملاحظہ فرمائیں۔

کب مدینے سے طلب ہو کسے معلوم نصیرؔ

کیا خبر ان کے درِ ناز پہ جائیں کب تک ۸؎

(دیں ہمہ اوست،از نصیرالدین نصیرؔ ، ص 151)

یہ اشعار بھی دیکھیں۔

زہے قسمت کہ ہر ذرہ نظر آتا ہے نورانی

خوشا وہ شہر جو محبوبِ حق کا سنگِ در ٹھہرا

گرا جو دیدہ بیتاب سے راہِ مدینہ میں

وہیں آنسو مسافر کا چراغِ رہگزر ٹھہرا ۹؎

(دیں ہمہ اوست،از نصیرالدین نصیرؔ ،83)

من حیث المجموع سید نصیرالدین نصیرؔ نے مدحت ِ رسولﷺ کرکے جہاں آقا کریم سے اپنے عشق و محبت کے اظہارکے جواہر سرکار رسالت مآب ﷺ کی نذر کیے ہیں وہیںاپنے کلام کے ذریعے اپنی قادرالکلامی، ردیف و قوافی کی ندرت ، فن کی تازہ کاری ،لفظیاتی مرصع سازی اور فکری بلند خیالی کا ثبوت بھی پیش کیا ہے۔وہ ایک پکے اور سچے عاشقِ رسول ہیں جس کا ثبوت ان کا ضخیم نعتیہ مجموعہ ہے جو 332صفحات پر مشتمل ہے۔اس نعتیہ مجموعے میں انہوں نے آقا کریم ﷺ کے اوصافِ حمیدہ اور ان کے اخلاق کو نہایت ہی عقیدت و احترام کے ساتھ دلکش انداز میں پیش کیا ہے۔ ان کا یہ مجموعہ نعتیہ شاعری کے باب میں ایک اہم اضافے کی حیثیت رکھتا ہے۔

٭٭٭

Leave a Reply

Be the First to Comment!

Notify of
avatar
wpDiscuz
Please wait...

Subscribe to our newsletter

Want to be notified when our article is published? Enter your email address and name below to be the first to know.