مولانا صفی الرحمٰن مبارکپوری اور فن ترجمہ

آمنہ نسرین

ریسرچ اسکالر،شعبہ عربی،بی ایچ یو
ای میل: nasreenamina786@gmail.com

ولادت اور تعلیم: آپ کا نام صفی الرحمٰن اور والد کا نام عبد اللہ تھا، ۶ جون 1943ء کو اتر پردیش،ضلع اعظم گڑھ کے ایک گاؤں حسین آباد میں پیدا ہوئے جو مبارک پور سے ۲ کلو میٹر کی دوری پر ہے اس لئے آپ کو مبارک پوری کہا جاتا ہے۔آپ کی ابتدائی تعلیم و تربیت گھر پرہوئی، شروع میں اپنے دادا محمد اکبر اور چچا مولانا عبد الصمد سے قرآن کی تعلیم حاصل کی اور مدرسہ عربیہ دار التعلیم سے عربی،فارسی زبانوں کی تعلیم حاصل کی۔اس کے بعد1954ء میں مدرسہ احیاء العلوم مبارکپور میں داخلہ لیا۔ اعلیٰ تعلیم کی غرض سے مدرسہ اسلامیہ فیض عام مؤ ناتھ بھنجن میں داخلہ لیااور مولوی،عالم اور فاضل کے علاوہ دیگر امتحانات میں بھی نمایاں کامیابی حاصل کی، پھر فراغت کے بعد 1961ء میں وہیں تدریسی خدمات پر مامور ہوگئے۔
حالات زندگی:مولانا صفی الرحمٰن مبارکپوری اپنی تعلیم مکمل کرنے کے بعد درس و تدریس میں مشغول ہو گئے۔ آپ نے تقریبا 27/28 سال تک ہندوستان کے مختلف اسکول،مدارس اور جامعات میں درس و تدریس کی خدمات انجام دی ہیں۔مدرسہ فیض عام میں دو سال مدرس رہنے کے بعد جامعہ اثریہ (مؤ) منتقل ہو گئے ، اس کے بعد مدھیہ پردیش کے ایک مدرسہ فیض العلوم سیونی میں پرنسپل کی حیثیت سے 1972ء تک اپنی خدمات انجام دیں۔آپ نے مادر علمی مدرسہ دار التعلیم میں بھی دو سال پرنسپل کا کا م کیا ہے۔ 1974 ء میں آپ جامعہ سلفیہ بنارس سے منسلک ہوگئے، یہاں آپ استاد،محقق اور مجلہ ”محدث“ کے اڈیٹر کی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔ یہ سلسلہ 1988ء تک قائم رہا،بعد ازاں سیرت ﷺ پر اول انعام حاصل کرنے کے بعد آپ عرب دنیا میں بھی مشہور ہو گئے جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ آپ کو جامعہ اسلامیہ (مدینہ منورہ) کی طرف سے ایک عہدے کی پیش کش کی گئی، تو آپ نے قبول کیا اور کئی برس تک جامعہ اسلامیہ کے شعبہ سیرت ﷺ میں ایک کامیاب محقق کے طور پر 1977ء تک کام کرتے رہے۔اس کے بعد دار السلام ریاض سے وابستہ ہو گئے اور وہاں بھی تحقیق و تصنیف کا کام کرتے رہے۔آپ ہندوستان کی ان مشہور علمی اور دینی شخصیتوں میں سے ایک تھے جو قرآن و سنت کی اشاعت،تالیف و تصنیف ا ور ترجمہ نگاری کو اپنی زندگی کا مقصد سمجھتے تھے۔مولانا صفی الرحمٰن مبارکپوری جامع کلمات اور گوناگوں خوبیوں کے حامل شخص تھے۔
وفات سے تقریباً ۲ سال قبل آپ پر فالج کا اثر ہوا تھا جس سے آپ کی صحت خاصی متاثر ہوئی جس کی وجہ سے آپ نے تصنیف و تالیف اور ترجمہ کا کام ایک حد تک کم کر دیا تھا۔آخر کار علم و آگہی کا یہ تابندہ سورج یکم دسمبر 2006ء کو ہندوستان میں اپنے آبائی شہر مبارکپور (اترپردیش) میں جمعہ کے دن غروب ہو گیا۔(انا للہ و انا الیہ راجعون)۔

 ایک اعداد و شمار کے مطابق مولانا موصف کی کل عربی اور اردو تصنیفات کی مجموعی تعداد 59 ہے جس میں ترجمہ و تحقیق، تعلیق و حواشی، مراجعہ وتقدیم، نظر ثانی اور آپ کے زیر اشراف تالیف کی گئی کتابیں وغیرہ شامل ہیں۔
آپ کا سب سے بڑا کارنامہ آپ کی وہ تصنیف ہے جسے ہم “الرحیق المختوم” کے نام سے جانتے ہیں جو سیرت رسول ﷺ پر مستند اور تحقیقی دستاویز مانی جاتی ہے۔ 1976ء میں رابطہ عالم اسلامی (مکۃالمکرمۃ) کی طرف سے سیرت پر انعامی مقابلہ کا انعقاد کیا گیا تھا جس میں آپ کے مقالہ کو اول انعام کا مستحق قرار دیا گیا۔اور 1979 ء میں پچاس ہزار سعودی ریال کا انعام پیش کیا گیا۔یہ کتاب عربی،اردو اور انگریزی کے علاوہ دنیا کی دیگر 13زبانوں میں شائع ہو چکی ہے۔آپ مرکزی جمعیت اہل حدیث ہندکے سابق امیربھی رہ چکے ہیں۔ الغرض آپ بہ یک وقت مدرس،محقق،مؤرخ،سیرت نگار،ترجمہ نگار اور ایک کامیاب مناظر بھی تھے۔
تصنیفات:
1. اردو ترجمہ “الرحیق المختوم” اصلا مولانا نے اس کتاب کو عربی میں لکھا تھا بعد میں مولانا نے خود ہی اس کا اردو ترجمہ کیا اور نام بدلنا مناسب نہیں سمجھا۔ یہ کتاب دنیا بھر میں سیرت ﷺ کے عنوان پر اول انعام یافتہ کتاب ہے۔
2. اردو ترجمہ “المصابیح فی مسئلۃ التراویح” مصنف: امام سیوطیؒ، اشاعت، 1963ء
3. اردو ترجمہ”الکلام الطیب” مصنف:امام ابن تیمیہ۔ اشاعت، 1966ء
4. اردو ترجمہ”کتاب الاربعین” مصنف:امام نوویؒ اشاعت، 1969ء
5. اردو ترجمہ “اظہار الحق” مصنف: علامہ شیخ رحمت اللہ بن خلیل الرحمٰن کیرانوی ؒ
6. اردو ترجمہ”فضائح الصوفی” مصنف: شیخ عبد الرحمٰن خالق۔
7. اردو ترجمہ “اعتقاد ا لأئمۃ ا لأربعۃ أبی حنیفۃ و ما لک و الشافعی و أحمد” مصنف ڈاکٹر محمد بن عبد الرّحمٰن الخمیس۔ اشاعت ، 1992ء
8. “شرح ازہار ا لعرب” (عربی، غیر مطبوع)۔ ازہار العرب علامہ محمد سورتی کے جمع کردہ عربی اشعار کا بہترین مجموعہ ہے۔مولانا نے اس کی عمدہ شرح لکھی ہے۔
9. “منۃالمنعم فی شرح صحیح المسلم” اس شرح کو مولانا نے چار جلدوں میں تصنیف کیا ہے،جو کہ 1999ء میں شائع ہوا ہے۔
10. تاریخ آل سعود اشاعت، 1972 ء
11. قادیا نیت اپنے آئینے میں۔ اشاعت ، 1976ء
12. انکار حدیث حق یا باطل؟ اشاعت ، 1977ء
13. اسلام اور عدم تشدد، اشاعت ، 1984ء
14. الرحیق المختوم۔
15. ” ابراز الحق و الصواب فی مسئلۃ السفور و الحجاب” اشاعت، 1978ء
16. “تطور الشعوب و الدیانات فی الھند و مجال الدعوۃ الاسلامیۃ فیھا”۔
فن ترجمہ:مولانا ایک بہترین مصنف اور علم دین کے ساتھ ساتھ ترجمہ نگاری میں بھی ماہر تھے۔آپ نے عربی کی کئی کتابوں کا بہترین اور سلیس اردو ترجمہ بھی کیا ہے جو علمی اور ادبی حلقوں میں مقبول عام ہے۔مولانا نے اپنی مشہور کتاب “الرحیق المختوم” کا اردو ترجمہ خود ہی کیا ہے جسے پڑھ کر معلوم ہوتا ہے کہ آپ کو ترجمہ نگاری اور اس کے اسلوب میں بھی پختگی حاصل تھی۔کتاب “الرحیق المختوم” جب عربی اور اردو د ونوں زبانوں میں شائع ہوئی تو نہ صرف ان کی شہرت بام عروج پر پہنچ گئی بلکہ دنیوی ترقی کے راستے بھی آسان سے آسان تر ہوتے گئے۔اس کے علاوہ مولانا نے کئی عربی کتابوں کے ترجمے اور شروحات بھی لکھی ہیں جو علمی اور عوامی دونوں حلقوں میں قابل تعریف ہیں۔
کتابوں کا ترجمہ کرتے ہوئے مولانا نے اس بات کا پورا خیال رکھا ہے کہ مفہوم مکمل اور صحیح طور پر ادا ہو،پڑھنے والے کو مفہوم کے سمجھنے اور مصنف کے مقصد کو جاننے میں کوئی دشواری نہ ہو،مولانا نے اس بات کا بھی التزام کیا ہے کہ ان کے ترجمہ کو پڑھنے والا اکتاہٹ کا شکار نہ ہو۔ترجمہ کرتے ہوئے مولانا نے زبان میں شیرینی اور سلاست اس درجہ بھر دیا ہے کہ ان کا قاری پڑھتا جائے اور سمجھتا جائے۔جیسا کہ “اظہار الحق” میں “شیخ رحمت اللہ بن خلیل الرحمٰن کیرانوی” (الفصل الاول فی بیان أسمائھا و تعدادھا) کے زیر عنوان تحریر کرتے ہیں۔۔۔
اعلم ان النصاری یقسمون کتبھم الیٰ قسمین:
القسم الاول:یدعون انہ کتب بواسطۃ الانبیاء الذین کانو قبل عیسیٰ علیہ السلام،و یسمونہ العھد العتیق وأو
عھد ا لقدیم۔
القسم الثانی: یدعون انہ کتب بالالھام بعد عیسیٰ علیہ السلام و یسمونہ العھد الجدید۔ و یطلقون علی مجموع العھدین القدیم و الجدید اسم (بیبل)، و ھو لفظ یونانی معناہ: (الکتاب)،و یکتبون علی الخلاف الذی یضم کتب العھدین اسم: (الکتاب المقدس)۔ 1
اس عبارت کا ترجمہ مولانا صفی الرّحمان مبارکپوری اپنی تصنیف”مختصر اظہار الحق” میں یوں کرتے ہیں۔۔۔
فصل اول، کتابوں کے نام اور انکی تعداد کے بیان میں:
یاد رہے کہ عیسائیوں نے اپنی کتابوں کی دو قسمیں کی ہیں: پہلی قسم وہ کتابیں جن کے متعلق ان کا دعویٰ ہے کہ وہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے پہلے تشریف لانے والے انبیاء کے ذریعہ لکھی گئی ہیں اس قسم کا نام انہوں نے عہد قدیم رکھاہے۔ دوسری قسم وہ کتابیں جن کے متعلق ان کا دعویٰ ہیکہ وہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بعد بذریعہ الھام لکھی گئی ہیں اس قسم کا نام انہوں نے عہد جدید رکھا ہے۔ عہد قدیم و جدید کے مجموعہ کو “بائبل” کہتے ہیں۔ یہ یونانی لفظ ہے،اور اس کا معنی ہے”کتاب” پھر جو ٹائٹل ان دونوں عہد کی کتب پر مشتمل ہوتا ہے اس کا نام”کتاب مقدس” لکھتے ہیں۔۲؎
مولانا کے ترجمے میں ایک خاص بات یہ بھی ہے کہ جب آپ کوئی واقعہ تحریر کرتے ہیں تو ایسا لگتا ہے کہ جیسے ماہر قصہ گو ایکشن کے ساتھ کہانی سنا رہا ہے۔مولانا نے بعض ترجمے میں ادبی لطافت اور جملے میں ایسی شگفتگی پیدا کی ہے جو ماہر ادیب اور زبان پر اچھی خاصی پکڑ رکھنے والا ہی کر سکتا ہے،حد تو یہ ہے کہ مولانا نے تحقیقی مقالے یا کتاب کا ترجمہ کرتے وقت بھی سلاست،شیرینی، جملے میں ہم آہنگی اور ادبی چاشنی کا ساتھ نہیں چھوڑا ہے جبکہ ایسا کرنا بہت مشکل ہوتا ہے۔عبد الخالق “فضائح الصوفی” میں “الباب الاول:مخاطر الفکر الصّوفی” میں یوں رقم طراز ہیں۔۔۔
“صرف النّاس عن القرآن و الحدیث:
عند المتصوفہ قدیما و حدیثاالی صرف النّاس عن القرآن و الحدیث باسباب شتی وطرق ملتوبۃ جدا۔ و من ھذہ الطرق ما یلی:
1. الزعم ان التدبر فی القرآن یصرف النظرعن اللہ فقد جعلوا الفناء فی اللہ فی زعمھم ھو غایۃ الصّوفی و زعموا ایضا ان تدبر القرآن یصرف عن ھذہ الغایۃ و فاتمھم ان تدبر القرآن ھو ذکر اللہ عزو جل لأن القرآن اما مدح اللہ باسماۂ و صفاتہ او ذکرلما فعلہ سبحانہ باولیاۂ و باعدانہ،وکل ذلک مدح لہ وعلم بصفاتہ أو تدبر لحکمہ و شرعہ،و فی ھذا التدبر تظھر حکمتہ و رحمتہ بخلقہ عزوجل و لکن الان الصوفیۃ یرید کل منھم ان یکون الٰھا و یتصف فی زعمہ بصفات اللہ۔ فانھم کرھوا تدبر القرآن لذٰلک”۔ 3؎
اسکا ترجمہ مولانا صفی الرحمان مبارکپوری “اھل تصوف کی کارستانیاں” میں پہلا باب صوفیانہ افکار کی خطرناکیاں عنوان کے تحت یوں رقم طراز ہیں۔۔۔
مسلمانوں کو قرآن و حدیث سے پھیرنا:
اہل تصوف نے پہلے بھی اور موجودہ دور میں بھی مختلف ذرائع اور نہایت پیچیدہ طریقوں سے لوگوں کو قرآن و حدیث سے پھیرنے کی کوشش کی ہے۔بعض طریقے حسب ذیل ہیں:
(الف) یہ خیال کہ قرآن میں تدبر کرنے سے اللہ کی طرف سے توجہ ہٹ جاتی ہے ۔ان حضرات نے اپنے خیال میں فنا فی اللہ کو صوفی کا آخری مقصد قرار دیا ہے۔اور یہ کہتے ہیں کہ قرآن میں تدبر انسان کو اس مقصد سے پھیر دیتا ہے۔اور یہ بھول جاتے ہیں کہ قرآن کا تدبر در حقیقت اللہ سبحانہ تعالیٰ کا ذکر ہے۔کیونکہ قرآن یا تو اللہ کے اسماء و صفات کے ذریعہ اسکی مدح ہے۔یا اللہ نے اپنے اولیاء اوراپنے دشمنوں کے ساتھ جو سلوک کیا ہے اسکا بیان ہے۔اور یہ سب اللہ کی مدح یا اسکی صفات کا علم یا اس کے حکم اور شریعت میں تدبر ہے۔اور اس تدبرسے اسکی حکمت معلوم ہوتی اور اپنی مخلوق کے ساتھ اس سبحانہ و تعالیٰ کی رحمت کا پتہ لگتا ہے لیکن چونکہ اہل تصوف میں ہر شخص خود الٰہ بننا چاہتا ہے اور اپنے زعم میں صفات الٰہی کے ساتھ متصف ہوتا ہے اس لئے اسے گوارہ نہیں کہ لوگ قرآن میں تدبر کرکے اللہ کی صفات کی معرفت حاصل کریں”۔ 4؎
ڈاکٹر محمد بن عبد الرّحمٰن الخمیس اپنی کتاب (اعتقاد الأئمۃ الأربعۃ أبی حنیفۃ و مالک و الشافعی و أحمد)میں بعنوان ”المبحث الاول: بیان أن اعتقاد الأئمۃ الأربعۃ واحد فی مسائل أصول الدین ما عدا مسألۃ الایمان“ میں یوں تحریر کرتے ہیں۔۔۔
“اعتقاد الأئمۃ الأربعۃ۔أبی حنیفۃ و مالک و الشافعی و أحمد۔ ھو ما نطق بہ الکتاب و السنۃ و ما کان علیہ الصحابۃ و التابعون لھم باحسان و لیس بین ھؤلاء الأئمۃ و اللہ الحمد نزاع فی أصول الدین بل ھم متفقون علی الایمان لا بد فیہ من تصدیق القلب و اللسان،بل کانوا ینکرون علی أھل الکلام من جھمیۃ وغیرھم ممن تأثروا بالفلسفۃ الیونانیۃ و المذاھب الکلامیۃ”۔5؎
اس کا اردو ترجمہ مولانا موصوف یوں کرتے ہیں۔۔۔
“چاروں ائمہ۔ابو حنیفہ،مالک،شافعی اور احمد رحمھم اللہ کا عقیدہ وہی ہے جسے کتاب و سنت نے بیان کیا ہے اور جس پر صحابہ اور ان کے تابعین کرام تھے۔الحمد للہ ان ائمہ کے درمیان اصول دین میں کوئی نزاع نہیں ہے،بلکہ یہ لوگ رب تعالیٰ کی صفات پر ایمان لانے میں متفق ہیں، اور اس پر بھی کہ قرآن اللہ کا کلام ہے،مخلوق نہیں ہے،اور اس پر بھی کہ ایمان میں دل اور زبان کی تصدیق ضروری ہے،اور یہ لوگ اہل کلام جہمیہ وغیرہ پر نکیر کرتے تھے جو یونانی فلسفہ اور کلامی مذاہب سے متاثر تھے”۔ 6؎
مبارکپوری نے ترجمہ میں صرف روانی اور سلاست کا خیال نہیں رکھا ہے،بلکہ اس میں ایسے الفاظ کااستعمال کیا ہےکہ جس سے عبارت میں تسلسل پائی جاتی ہے۔ترجمہ کرنے کے لئے مترجم کواس زبان سے گہری وابستگی ہونی چاہئے اس سے ترجمہ میں خود بخود تسلسل اور روانی شامل ہو جاتی ہے۔چونکہ مولانا موصوف کو عربی زبان سے گہری وابستگی تھی اسی وجہ سے ان کے تراجم اپنی مثال آپ ہیں۔وہ متن کو اردو میں جوں کا توں تحریر کرنے کا ہنر جانتے تھے،ایک زبان کی چاشنی دوسری زبان میں اس طرح گھول دیتے تھے کہ ایسا محسوس ہی نہیں ہوتا کہ یہ کسی اور زبان کا متبادل ہے۔
حوالہ جات:
1. “مختصر اظہار الحق ” شیخ رحمت للہ بن خلیل الرحمٰن کیرانوی، صفحہ: 6
2. “مختصر اظہار الحق ” (اردو ترجمہ) شیخ صفی الرحمٰن مبارکپوری (وزارت برائے شعبۂ نشر و اشاعت کی زیر نگرانی طبع شدہ ،1422 ھ) صفحہ: 12
3. “فضائح الصوفی” عبد الرحمٰن عبد الخالق، صفحہ : 2
4. ” اہل تصوف کی کارستانیاں” ترجمہ ،مولانا صفی الرحمٰن مبارکپوری (تنظیم الدعوۃ الی القرآن و السنۃ)، صفحہ: 7
5. “اعتقاد الائمۃ الاربعۃ ابی حنیفۃ ومالک والشافعی و احمد” ڈاکٹر محمد بن عبد الرحمن الخمیس (دارالعاصمۃ، سعودی، 1992)۔
6. “ائمہ اربعہ ابوحنیفہ، مالک، شافعی اور احمد کا عقیدہ” اردو ترجمہ، مولانا صفی الرحمن مبارکپوری، مکتبہ الفھیم، مئو ناتھ بھنجن، 2008، صفحہ: 7

Leave a Reply

Be the First to Comment!

Notify of
avatar
wpDiscuz
Please wait...

Subscribe to our newsletter

Want to be notified when our article is published? Enter your email address and name below to be the first to know.