اساتذہ کے گرتے ہوئے اخلاق و اقدار

  آج کے جدید ٹیکنالوجی اور کمپیوٹر کے دور میں جہاں چاروں طرف بد اخلاقی ، بدکرداری ، بدامنی ، بے شرمی ، بے حیائی ، بے راہ روی عام ہے ، نئی نسلیں تباہی و برداری کی راہ پر گامزن ہیں۔ ترقی یافتہ سماج کی تعلیم یافتہ نوجوان نسل اخلاق باختگی کی شکار اور ظلمات کی خوگر ہے۔ آج کے تعلیمی ادارے و مراکز بچوں کو انسان بنانے کے بجائے انہیں ایک مشین بنا کر سجا رہے ہیں۔ طلباء تو درکنار خود اساتذہ و معلمین بھی اخلاقی زوال کے آخری سطح پر پہنچ گئے ہیں۔

  جب کہ زمانہ قدیم سے ہی اساتذہ کو ملک و قوم کا معمار سمجھا جاتا رہا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ بہتر سماج کی تشکیل میں استاد کا اہم رول ہوتا ہے۔ اخلاقی نقطہ نظر سے ہم زوال کا شکار صرف اس لیے ہیں کہ ہم خود اپنی زبان پر کنٹرول نہیں کر پا رہے ہیں۔ ایک استاد خود بد اخلاقی اور بد کلامی کا شکار ہے اس میں نہ بیٹھنے کا سلیقہ ہے اور نہ اٹھنے کا۔ بچّوں سے بد تہذیبی کے انداز میں بات چیت کرنا۔ غصّے میں آجانا اور ان کے والدین تک کو برا بھلا کہہ دینا یہ بچّوں کے ذہن پر اس قدر بد اثرات مرتب کر رہا ہے کہ ہماری سوسائٹی ایک خوفناک انحطاط کی جانب رواں دواں ہے اور ہمیں اس کی خبر بھی نہیں کہ ہم بد تہذیبی کی کس کھائی میں جا گریں گے۔

جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں کہ کسی بھی سماج کی ترقّی کے لیے اساتذہ و معلّمین کا کردار نہایت اہم ہوا کرتا ہے لہٰذا بہت سے دانشور اور مفکرین نے اساتذہ کے کردار کے حوالے سے اپنے اپنے نظریات و خیالات کا اظہار اکثر و بیشتر اپنی تقاریر اور تحریروں میں کیا ہے۔ گاندھی جی کی نظر میں اساتذہ کی بڑی اہمیت ہے ان کا ماننا ہے کہ اساتذہ کے اندر بہت سی خوبیوں کا ہونا بے حد ضروری ہے مثلاً انہیں اچھے اخلاق و اطوار کا آئینہ دار ہونا چاہیے تاکہ وہ سماج میں اچھے طلبا پیدا کر سکیں ان پر لازم ہے کہ وہ طلبا میں اچھائیوں اور برائیوں میں امتیاز کرنے اور ان کو سمجھنے کی صلاحیت پیدا کریں اگر معلّمین و مدرسین یہ کام مکمل طور سے انجام نہیں دے پاتے ہیں تو ان کے طلبا اور مشینوں میں کوئی فرق نہیں رہے گا۔ ان کا نظریہ فکر ہے کہ ایک اچھے استاد کی یہ خوبی ہے کہ وہ ان خوبیوں اور صلاحیتوں کو اپنے اندر شامل کر لے جو وہ اپنے طلبا کے اندر دیکھنا چاہتا ہے۔ ان کا ماننا تھا کہ اساتذہ جن چیزوں کی تعلیم اپنے شاگردوں کو دینا چاہتے ہیں ان کو پہلے وہ اپنی عملی زندگی میں شامل کریں تاکہ وہ اپنے طلبا کو بہتر تعلیم دے سکیں اور سماج ان سے متاثر ہو سکے۔ ان کی نگاہ میں معلّمین کا فریضہ ہے کہ وہ طلبا میں تعلیم کے لیے رجحان پیدا کریں۔ اور ان کی دلچسپی اور جذبات کے مطابق انہیں تعلیم سے ہم کنار کرائیں ساتھ ہی وہ ان کی پریشانیوں اور دشواریوں کو دور کرنے میں اہم کردار ادا کریں۔ ایک اچھے استاد کے لیے ضروری ہے کہ وہ قدم قدم پر طلبا کی رہنمائی کرے اور ان کے مسائل کا حل تلاش کرے۔ ان کا یہ خیال تھا کہ اساتذہ کی یہ بھی ذمہ داری ہونی چاہیے کہ وہ اپنے طلبا کے ذہن کے ساتھ ساتھ ان کے دل کی بھی تربیت کا کام انجام دیں۔

 مولانا ابوالکلام آزاد کی نظر میں اساتذہ کو ذمّہ دار ، محنتی ، فرض شناس ہونا چاہیے۔ ان کے خیال میں استاد شمع کے مانند ہے جس طرح ایک شمع خود کو جلا کر روشنی کرتی ہے اسی طرح استاد کو بھی محنت و مشقت کر کے اپنے طلباء کی زندگی میں تعلیم کی روشنی پھیلانا چاہئے۔ ان کا کہنا تھا کہ استاد یا ٹیچر ایک مثالی شخصیت اپنے طلباء کے سامنے پیش کرے جس سے وہ متاثر ہو سکیں۔ ان کا خیال ہے کہ اساتذہ اپنے فرائض کی ادائیگی ذمہ داری سے انجام دیں اور قدم قدم پر طلباء کی رہنمائی کریں اور ان کے سنہرے مستقبل کی بنیاد ڈالیں۔

رویندر ناتھ ٹیگور تعلیمی نظام میں اساتذہ کے رول کی کافی اہمیت سمجھتے ہیں۔ ان کے مطابق ایک اچھا استاد وہ ہے جو طلبا کو تعلیم دینے کے ساتھ ساتھ خود بھی علم کی جستجو میں ہر لمحہ لگا رہے۔ ان کا ماننا تھا کہ کوئی استاد یا ٹیچراس وقت تک کامیابی کی راہ پر گامزن نہیں ہو سکتا جب تک کہ وہ خود بھی اپنے آپ کو ایک طالب علم تصور نہ کرے اگر وہ اس خیال میں لگا رہے کہ اس نے مکمل علم حاصل کر لیا ہے اور اب اس کو کچھ بھی سیکھنے یا پڑھنے کی ضرورت نہیں ہے تو یہ اس کے لئے نقصان دہ ہو سکتا ہے۔ کیونکہ یہ سوچ اسے کبھی اچھا استاد بننے نہیں دے گی اور نہ ہی اس کی تدریس کا طریقہ مؤثر ثابت ہو گا۔ ایسا شخص صحیح معنوں میں طلبا کو علم حاصل کرنے کی طرف راغب نہیں کر سکتا۔ ان کی نظر میں بھی استاد کی مثال ایک شمع کی طرح ہے جس کا کام روشنی کرنا ہے۔ اس کا فرض عین ہے کہ وہ اپنے علم کی روشنی دوسروں تک پہنچائے یعنی دوسری علم کی شمعیں بھی روشن کرے تاکہ یہ سلسلہء علم بر قرار رہے۔

ڈاکٹر ذاکر حسین بھی اساتذہ کو بہت ذمہ دار اور فرض شناس کے زمرے میں رکھتے ہیں۔ وہ معلمین و مدرسین کے اندر بے شمار صلاحیتیں اور خوبیاں دیکھنا چاہتے ہیں۔ ان کے مطابق ایک اچھے استاد کو با اخلاق اور با کردار ہونا انتہائی لازم ہے تب ہی وہ طلبا کی صحیح طریقے سے رہنمائی کر سکتا ہے۔ ان کے مطابق اساتذہ اپنے طلبا میں ایسی صلاحیتیں اور خوبیاں پیدا کریں کہ وہ نیکی و بدی میں فرق سمجھ سکیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ ایک بہتر استاد کا یہ بھی نصب العین ہے کہ وہ ہر مقام پر اپنے شاگردوں کی حوصلہ افزائی کرے اور ان کے کردار میں مثبت سوچ پیدا کرے اور ان کی شخصیت کی صحیح نشوونما کرے۔ ان کے نظریہ کے تحت ایک اچھا استاد اپنے طالب علموں میں خود مشاہدات، مطالعہ اور تجربہ کرنے کی تمیز پیدا کرتا ہے۔

  1. S. Gordenکے لفظوں میں کتنی ہی خوش نظر کسی اسکول کی عمارت اور اس کے حدود کیوں نہ ہوں ، کتنا ہی وافر اور جدید درس و تدریس کا سامان کیوں نہ ہو اس کے باوجود اسکول کے کام کی فضیلت کا دارومدار صرف معلم کی شخصیت پر منحصر کرتا ہے۔

ملک کا مستقبل بہت حد تک ملک کے معلمین پر منحصر کرتا ہے اگر معلم سوم درجے کا ہے تو کوئی طاقت ملک کو درجہ سوم سے بلند نہیں کر سکتی ہے۔ اسی طرح اول درجے کے معلم کی موجودگی میں ملک اول درجے کا رہے گا۔ تقریبا ہندوستان کے تعلیمی کمیشن کی رپورٹ میں بھی یہ بات کہی گئی ہے ملک کا مستقبل کلاس روم میں تشکیل پاتا ہے اور ظاہر ہے اس تشکیل میں ہم معلم کی اہمیت سے انکار نہیں کر سکتے۔ حقیقت میں کسی بھی نظام کی کار کردگی معلم کے اوصاف پر منحصر کرتے ہے۔ خراب معلم کی موجودگی میں بہتر نظام تعلیم بھی برباد ہو جائے گا اور اگر معلم بہتر ہو تو برا نظام تعلیم بھی سنبھل جائے گا۔ اس کے ساتھ ایک خاص بات یہ ہے کہ تعلیم کا طریقہء کار یہ نہیں ہے کہ معلومات کو بالٹی کے پانی کے مانند ایک بالٹی سے دوسری بالٹی میں انڈیل دیا جائے بلکہ اس کی حیثیت چراغ کی روشنی کے مثل ہے جس سے صد ہا چراغ جل اٹھتے ہیں۔ معلم و مدرس کے لئے سب سے اہم چیز اس کی اپنی شخصیت ہے کیونکہ ماہرین تعلیم اس بات پر متفق ہیں کہ طلبا پر معلم کی شخصیت کا سب سے زیادہ اثر پڑتا ہے۔ لیکن شخصیت ہے کیا؟اور اس کی تشکیل کن چیزوں سے ہوتی ہے؟ اس پر ماہرین نفسیات میں اختلاف ہے۔ پھر بھی ایک معلم یا مدرس کی شخصیت میں ذاتی شکل و صورت، دل آویز انداز، کسی قدر کم سخنی، وسیع الذہن، خلوص، ہمدردی، موقع شناسی، عمدہ آواز وغیرہ شامل ہیں۔جب ہم شخصیت کی بات کرتے ہیں تو اس سے ہماری مراد ذہنی صلاحیت سے زیادہ جسمانی صلاحیت سے ہوتا ہے لیکن شخصیت کی تشکیل میں جسم سے زیادہ روح کو دخل ہے۔ یہ عقل کی بہ نسبت سیرت کا معاملہ زیادہ ہے۔ معلم کے لئے اچھی اخلاقی تربیت بھی ضروری ہے مثلا صاف بیانی، ایمانداری، سادگی، نرم روی، استقلال، ہمدردی و خیر خواہی ، تحمّل و بردباری، خوش اخلاقی، مردم شناسی، قوت فیصلہ، فرد شناسی، شائستگی، معاملہ فہمی، موقع شناسی، مصلحت اندیشی،اور خود انضباعی وغیرہ ضروری صفات ہیںجو ہر دل عزیز ہونے کے لئے ضروری ہیں۔ تنگ ذہن، کم ظرف اور انتقام پسندجو اساتذہ عام طور پر نا پسندیدہ ہوتے ہیں۔ طلبا بہت مشاہیر پرست ہوتے ہیں اور بڑی جلدی اپنے استاد کو پہچان جاتے ہیں۔ اس وجہ سے دہری شخصیت سے احتراز ضروری ہے۔ معلم و ٹیچر کا ظاہر و باطن یکساں ہونا چاہئے۔ غیر ضروری طور پر خود کو نمایاں کرنا بھی کوئی پسندیدہ اطوار نہیں۔ وہ اعلی سیرت و کردار کامالک ہواس میں احساس ذمہ داری بدرجہ اتم موجود ہو۔ ساتھ ہی وہ فرض شناس ہو اور اپنے کام کو محنت ، سرگرمی اور لگن سے انجام دے۔ اسے اپنے اصول و ضوابط کی سختی سے پابندی کا بھی خیال ہو، ساتھ ہی وہ غیر جانب دار بھی ہو، اس کے ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ وہ طلبا کی مشکلات کو جانے اور اس کو دور کرنے کی اس میں صلاحیت ہو۔ اس کا رویہ ہمدردرانہ اور مشفقانہ ہونا چاہیے۔ اس کے مزاج میں چڑچڑا پن نہ ہو بلکہ ضبط و تحمل کے ساتھ کوئی بات سنے اور خندہ پیشانی کے ساتھ طلبا سے تعاون کر سکے۔

بہت سے لوگ استاد کا مرتبہ والدین کے برابر سمجھتے ہیںوہ استاد کو والدین کے مقابلے میں زیادہ عزت دیتے ہیں اس لئے کہ والدین تو بچوں کو زندگی دیتے ہیں اور استاد اس زندگی کو با معنی بنانے کا ہنر سکھاتے ہیں۔

استاد کوملک کا بہترین محاظ سمجھا جاتا ہے اور تعلیم حفاظت کے لئے بہترین ہتھیار ہے۔ سکندر سے کسی نے پوچھا کہ تم اپنے والد سے زیادہ استاد کی عزت کیوں کرتے ہو؟ اس نے جواب دیا والد تو مجھے آسمان سے زمین پر لانے کی وجہ بنے لیکن میرے استاد نے مجھے زمین سے آسمان کی بلندیوں تک پہنچادیا۔ اگر یہ کہا جائے کہ استاد یا ٹیچر زندگی کے وسیع تجربات میںیا تو سب سے شیریں تجربہ ہے یا تو سب سے تلخ تو بے جا نہ ہو گا۔ کیونکہ بے شمار مثالوں سے یہ بات تسلیم کی گئی ہے کہ یا توایک استاد کسی طالب علم کی زندگی بناتا ہے یا کسی طالب علم کی زندگی ہمیشہ کے لئے برباد کر دیتا ہے۔ اس لئے ایک معلم یا ٹیچر کا رویہ اس کے اخلاق، اس کی عادات اور اس کے زندگی گزارنے کا ڈھنگ بچے پرراست یا براہ راست طریقے سے اثر انداز ہوتا ہے۔ بلکہ درس و تدریس ایک ایسی ذمہ داری ہے جس پر ایک بچے کا مستقبل، سماج کا وقار اور ملک کی طاقت داؤ پر لگی ہوتی ہے۔ ایک ٹیچر اپنی ذمہ داریوں سے منہ موڑ کر آنے والی نسلوں کی مکمل فصل کو آگ لگانے کا کام انجام دے رہا ہے۔ اس غیر ذمہ دارانہ رویے کی باز پرس اور تنبیہ نہایت ضروری امر ہے۔ استاد کی ذمہ داریاں سب سے بڑی ہیں کیونکہ یہ معمار قوم و ملت ہیں۔ یہی انجینئر بنائیں گے ، یہی ڈاکٹر بنائیں گے، یہی مستقبل کے کلکٹر اور تحصیل دار تشکیل دیں گے۔ یہی بلڈر اور تاجر بننے کی سوچ ڈالیں گے۔ لیکن ٹیچر یا استاد تو محض نصاب کی تکمیل کو اپنا کام اور نصب العین سمجھ لیا ہے۔

ہماری ذمہ داریوں میں یہ بات شامل ہے کہ ہم اساتذہ و معلمین کے اذہان پر محنت کریں اور ان کی فکری ارتقاء پر کام کریں۔ دانشوران کا کہنا ہے کہ روبہ زوال انسانی سماج کی آخری امید کی کرن اساتذہ ہیں۔ یونیسیف کے سابقہ سفیر برائے اطفال ملالہ یوسف زئی کا قول عالمی سطح پر موضوع بحث بنا رہا انہوں نے کہا کہ ایک قلم ایک بیاض اور ایک استاد ساری دنیا کو بدلنے کی طاقت رکھتے ہیں۔ اس کے باوجود ہم اپنے مشاہدے کی بنیادپر پورے وثوق کے ساتھ یہ بات کہہ سکتے ہیں کہ طلبا کے لئے آج بھی کوئی آئیڈیل ہو سکتا ہے تو وہ ان کے اساتذہ ہی ہوتے ہیں۔ وہ اساتذہ جو ان کی فکر کرتے ہیں، ان کے ساتھ محبت آمیز برتاؤاور ان کی ہمہ جہتی رہنمائی کو اپنا فرض سمجھتے ہیں اور جو صرف پڑھاتے نہیں بلکہ ڈوب کر پڑھاتے ہیں وہ طلبا کے ہیرو ہوتے ہیں اور زمانہء طالب علمی میں ہی نہیں بلکہ اس کے بعد بھی ان کا یہ مقام باقی رہتا ہے۔ وقت اور حالات کے ساتھ بہت سی چیزیں بدل جانے کے باوجود طلبا اور اساتذہ کا نہ تو رشتہ بدلا ہے اور نہ ہی طلبا کی زندگی میں اساتذہ کا اہم کردار ادا کرنے کی حقیقت بدلی ہے ایسے میں جو استاد اپنے طالب علم کی جتنی فکر کرے گا ، ان کے جتنا کام آئے گااور ان کی رہنمائی کا فریضہ جتنے بہتر طور پر ادا کرے گا حقیقت میں وہ اسے اتنا ہی زیادہ متاثر کرے گا جس کے نتیجے میں اس کے دل میں استاد اور شاگرد کا تعلق اسکول اور کالج تک محدود نہیں رہ جاتابلکہ دائمی بن جاتا ہے۔ اس بابت سنجیدگی سے غور کئے جانے اور تعلیمی نظام میں اساتذہ کی فکری ارتقاء اور اصلاحی تجدید کی اشد واہم ضرورت محسوس ہو رہی ہے۔ اساتذہ کی شخصیت و افکار میں انقلاب کے بغیر تعلیمی نظام میں انقلاب کی تمام کوششیں بے سود و بیکار ہیں۔ ایک ایسا شخص جو ہمیشہ بچوں کے روشن مستقبل کے لئے متفکر رہتا ہے جو طلبا کو اس لئے رلاتا ہے کہ وہ زندگی بھی مسکراتے رہیں، جو معصوم بچوں کے کاموں میں اس لئے غلطیاں تلاش کرتا ہے کہ زندگی بھر ان کی سرگرمیاں غلطیوں سے پاک رہیں، جو طلبا کو خوبصورت خواب دکھا کر انہیں سچ کر دکھانے کا حوصلہ دیتاہے اسے استاد کہتے ہیں۔ لیکن ہمارے ملک و معاشرے میں سچ مچ استاد ایسی ذمہ داریاں نبھا رہیں جن کے ذریعے ہم ایک صالح معاشرہ تشکیل دے سکیں۔ کیا ہم آج کے تمام اساتذہ سماج سے یہ امیدیں وابستہ کر سکتے ہیں کہ وہ نئی نسل کو اس قدر ہوش مند ، قابل اور اچھا انسان بنا دیں گے کہ آنے والی دنیا جنت اور امن و شانتی کا نمونہ ہو گی، کیاہم ماڈرن زمانے کے ماڈرن اسکولوں کی ٹیچنگ سے یہ ا مید کر سکتے ہیں کہ ہمارے بچے محض ایک مشین یاسافٹ وئیر بن کر نہ رہ جائیں گے۔ کوئی بھی استاد ان باتوں کا اثبات یا نفی میں جواب نہیں دے سکتاکیونکہ وہ ابھی اس معاملے میں ایقان کے درجے میں نہیں امکان کے درجے میں کھڑا ہواہے۔

اس طرح سے ہم کہہ سکتے ہیں کہ ایک معلم و ٹیچر کی شخصیت جامع، دلکش اور پر کشش ہونی چاہیے کیونکہ شعوری اور لا شعوری طور پر طلبا ان کی تقلید کرتے ہیں۔ المختصر عظیم مفکرین اور دانشوران کے مطابق استاد کا کردار بہت اہم ہے اگر استاد یا مدرس واقعی مخلص اور علم دوست ہے اگر اس نے باقاعدہ علم حاصل کیا ہے اور لگا تار علم حاصل کرنے اور علم باٹننے کا جذبہ اس کے اندر ہے تو وہ قابل ستائش و مبارک باد ہے کیونکہ وہ طلبا کو علم دے کر اپنے ملک و قوم کی بڑی خدمت انجام دیتا ہے۔۔ ہمیں چاہیے کہ یوم اساتذہ کے موقع پر ہم تہیہ کریں کہ علم حاصل کرکے دوسروں تک علم کے فیوض و برکات پہنچائیں تاکہ ملک و قوم کی خدمت ہو سکے۔

٭٭٭

ڈاکٹر ناصرہ سلطانہ

اسسٹنٹ پروفیسر ، شعبہ اردو ، دہلی یونیورسٹی ، دہلی

موبائل : 8826506315

Asataza ke girte huyee akhlaaq by Dr. Nasra Sultana

Leave a Reply

Be the First to Comment!

Notify of
avatar
wpDiscuz
Please wait...

Subscribe to our newsletter

Want to be notified when our article is published? Enter your email address and name below to be the first to know.