اردو شاعری میں گیت : تاریخی جائزہ

Urdu Shayeri mein Geet by: Dr. Aftab Arshi

ڈاکٹر آفتاب عرشی

ہنسور،امبیڈکر نگر ،یوپی ،224143

arshi9886@gmail.com

Mob.No. 9440936810

اردو شاعری کا بیش تر سرمایہ فارسی اور عربی سے حاصل ہوا ہے مگر گیت اردو میں ہندی شاعری کے اثر سے وجود میں آیا۔ یہ کہا جا سکتا ہے کہ گیت خالص ہندوستانی صنف سخن ہے۔ گیت ہندی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی راگ ، سرود اور نغمہ کے ہیں۔ گیت کسی خاص موضوع یا ہیئت کے پابند نہیں ہاں مگر گیت میں محبوب مرد اور عاشق عورت ہوتی ہے۔ جس میں عاشق یعنی عورت اپنے محبوب یعنی مرد سے جذبۂ محبت ، نغمگی ، نسوانیت ،غنائیت اور ترنم ریزی کے ساتھ اپنے والہانا انداز میں اپنے عشق کا اظہار کرتی ہے۔ مگر ایسا بھی نہیں کہ گیت صرف ان ہی موضوعات کے لئے ہوتے ہیں گیت کے موضوعات کا دائرہ وسیع سے وسیع تر ہونے کی وجہ سے عشق ، بھگتی، عبادت ، محبت ، رزم ، بزم غرض وہ ہر شے جو انسانی احساس کا حصہ ہے گیت میں اس کا اظہار ہوتا ہے۔گیت کے حوالے سے ڈاکٹر وزیر آغا لکھتے ہیں:

’’ اگر گیت مرد کی طرف سے کہا جائے تو بھی اُس کے مزاج میں کوئی تبدیلی رونما نہیں ہوتی۔ویسے مرد کے کردار کا ایک نسوانی رخ بھی ہوتا ہے جو اگر گیت میں اپنا اظہار کرے تو اس میں کوئی مزاج بھی نہیں۔ اس سب کے باوجود گیت بنیادی طور پر عورت کے اظہار محبت کی ایک صورت ہے اور اس کے معتدبہ حصے میں مرد ہی مخاطب اور محبوب ہے‘‘(۱؎)

گیت اپنے منفرد تہذیبی ورثے کو اپنے اندر سموئے ہوئے ہوتا ہے جس میں محبت اور نغمے کی آمیزش سے پیدا ہونے والی نہایت لطیف و دل کش روایت شامل ہے۔ چونکہ گیت کا موسیقی سے گہرا ربط ہے ،ترنم اور لے اور جھنکار اور تھاپ وغیرہ اس کے گائے جانے میں استعمال ہوتے رہے ہیں۔جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ گیت پڑھنے سے زیادہ سننے کی چیز ہے۔ جو موسیقی کے ساتھ نمودارہوتا ہے۔  گیت کے متعلق شمیم احمد لکھتے ہیں :

’’ گیت شاعری کا وہ اسلوب ہے جہاں محبت اور نغمے کا سنگم پوری لطافت کے ساتھ ہوتا ہے‘‘ (۲؎)

گیت کی کوئی خاص ہیئت نہ ہونے کی وجہ سے یہ کسی بھی ہیئت میں لکھا جاسکتا ہے۔ ویسے عموماً گیت کا مکھڑاہوتا ہے جو دراصل گیت کا پہلا شعر یا پہلا مصرع ہوتا ہے۔ اس کے بعد گیت کے کچھ بند ہوتے ہیں جن کی تعداد عموماً چار یا پانچ سے زیادہ نہیں ہوتی۔ ہر بند کے بعد گیت کے مکھڑے کا ہم قافیہ ایک مصرع نہیں ہوتابلکہ اس کی جگہ مکھڑے ہی کو دوہرایا جاتا ہے۔کہیں کہیں تو یوں بھی ہوتا ہے کہ ہر بند کے بعد مکھڑے کا ہم قافیہ مصرع نہیں ہوتا بلکہ اس کی جگہ مکھڑا ہی کو دوہرایا جاتا ہے۔ گیت کسی بھی بحر میں لکھا جا سکتا ہے لیکن عموماًچھوٹی بحریں ہی استعمال کی جاتی ہیں۔ کبھی کبھی گیت کا مکھڑا ایک بحر میں اور بول مختلف بحر میں ہوتے ہیں۔ گیت کے تمام بند خیال یا مضمون کے اعتبار سے ایک دوسرے سے مربوط ہوتے ہیں۔ اس لئے بھی کہ پورے گیت میں ایک ہی خیال کو پیش کیا جاتا ہے۔ گیت کی ہیئت غزل کی ہیئت کی طرح کسی کسائی اور متعین نہیں ہوتی بلکہ ڈھیلی ڈھالی ہوتی ہے۔ اس کا مکھڑا ایک مصرعے کا بھی ہو سکتا ہے یا ایک شعر پر بھی مشتمل ہو سکتاہے۔اسی طرح گیت کے جو بند ہوتے ہیں ان میں بھی مصرعوں کی کوئی متعین تعداد نہیں ہوتی۔ کسی گیت میں ہر بند میں چار چار مصرعے ہو سکتے ہیں تو کسی گیت میں تین تین مصرعوں کے بند بھی ہوسکتے ہیں۔ ہر بند کے بعد گیت اپنے مکھڑے کو دوہرانے کے لئے فضا ہموار کرتا ہے۔یہ مصرع مکھڑا کا ہم وزن بھی ہوسکتا ہے یا اس سے کچھ چھوٹا یا بڑا بھی ہو سکتا ہے۔ کہیں کہیں ایک ہی مصرعے کو توڑ کر دوسطروں میں لکھا جاتا ہے۔ غرض یہ کی گیت کی ہیئت میں بڑی لچک ہوتی ہے۔گیت کی ہیئت کے متعلق سب سے اہم بات یہ ہے کہ گیت کا مکھڑا ( جو کسی بھی صورت حال میں ہو سکتا ہے۔ مصرعہ آدھا مصرعے یا شعر ) وہ گیت کے ہر بند کے بعد دوہرایا جاسکتا ہے۔

غزل کی طرح گیت بھی شاعری کی ایک داخلی اور غنائی صنف ہونے کی وجہ سے شخصی جذبات و احساسات کا بے تکلف اور والہانا اظہار ہوتا ہے۔ گیت میں محبوب سے جدائی کی تڑپ اور وصال کی آرزو مندی نمایاں طور پر نظر آتی ہے۔ ان معنوں میںگیت ایک فراق زدہ عورت کے دل کی صدائے پُر سوز ہے۔چونکہ گیت اور سنگیت کا چولی دامن کا رشتہ ہوتا ہے اس لئے سازوں کی آمیزس گیت کے حسن کو دوبالا کر دیتی ہے۔

اردو میں گیت کی روایت امیرخسرو کے عہد سے مانی جاتی ہے۔ امیر خسرو نے راگ راگنیوں کے ساتھ گیت کو پروان چڑھانے کے لئے راگوں کو ایجاد بھی کیا۔ امیر خسرو کے عہد سے تا حال اردو میں جو گیت لکھے گئے اس کا خاص موضوع عشق ہے۔ جدائی غم، اور ملن کی خوشی سے ہمارے گیت بھرے پڑے ہیں۔

عشق زندگی کی حرکت کا نام ہے اور یہی حرکت و حرارت گیت میں پائی جاتی ہے اور گیتوں کا لگاؤ زیادہ تر عشق مجازی سے رہاہے، لیکن دیگر موضوعات بھی اس کے دائرے میں سمائے رہے۔ جیسے مناظر فطرت کے گیت ، معاشرتی گیت ، تہواروں کے گیت، حب وطن کے گیت ، کسانوں اور مزدوروں کے گیت ، فقیروںکے گیت وغیرہ

امیر خسرو کی مشہور غزل ’’ زحالِ مسکین مکن تغافل ‘‘ میں جو مصرعے یا مصرعوں کے ٹکڑے ہندوستانی زبان میں ہیں۔ انھیں ہم گیت کے اولین نقوش کہہ سکتے ہیں۔ان مصرعوں میں عورت کی طرف سے محبت کا اظہار ہوتا ہے اور فراق کی کیفیت بیان ہوتی ہے جو گیت کی خصوصیت ہے۔

شمالی ہند میں گیت کی اہمیت اندر سبھا کے گیتوں سے بھی واضح ہوتی ہے۔ امانت کے گیتوں میں لوک گیت کی روایت اور نسوانیت کی خصوصیت کے ساتھ موسیقیت کا اثر بھی ہے۔ بنیادی طور پر ان گیتوں پر رادھا کرشن کے معاشقے کی فضا چھائی ہوئی ہے۔ رادھا کرشن کے معاشقے کے دوپہلو بہت نمایاں ہیں ایک ملن دوسرا ہجر ان گیتوں میں دونوں پہلوؤں کی اپنی خصوصیات ہیں۔ امانت کا یہ گیت دیکھئے جس میں ایک عورت کے جذبات کی عکاسی اس طرح کی گئی ہے  ؎

 موری انکھیاں پھرکن لاگیں۔ کیا ہوا یار ہر گئیں سکھیاں

 انکھیاں پھرکن لاگیں

 دنیہیہ پھنکت ہے جیا ترپت ہے۔ پیت لگاکے مجاہم چکھیاں

 انکھیاں پھرکن لاگیں

 نین ملن دلدار بست ہے۔ یہ انکھیاں اطلاس پرکھیاں

 انکھیاں پھرکن لاگیں

( امانت )

ادھر دکن میں بہمنی عہد اور اس کے بعد قطب شاہی اور عادل شاہی حکومتوں کے دور میں دکنی کو بڑا فروغ حاصل ہوا۔ اس عہد کی شاعری میں دیسی اور مقامی رنگ زیادہ نمایاں ہے اور یہ مقامی رنگ ہندوستانی گیت کی خصوصیات سے مملو ہے۔ اسی لیے اس دور کی غزلوں میں گیتوں کا رنگ واضح طور پر نظرآتا ہے۔ اس دور کے بعض شعراء کے یہاں ایسی تخلیقات ملتی ہیں جن کو ہم اردو گیت کے ابتدائی نمونے کہہ سکتے ہیں  ؎

بسنت کھیلیں عشق کی آپیارا

تمہیں ہیں چاند میں ہوں جوں ستارا

بسنت کھیلیں ہمن ہور سا جنایوں

کہ آسماں رنگ شفق پایا ہے سارا

(محمد قلی قطب شاہ)

تو پیاری عشق بھی تیرا ہے پیارا

لگیا بہوت تج سوں دل ہمارا

سکھی آ مل کہ تل تل ذوق کرلیں

دنیا میں کوئی نیں آیا دو بارا

(عبداﷲ قطب شاہ)

اب ہم دکنی غزل کے چند نمونے آپ کے سامنے پیش کرتے ہیں جن پر مضمون اور طرز اظہار کے لحاظ سے گیت کا رنگ حاوی ہے  ؎

طاقت نہیں دوری کی اب توں بیگی آمل رے پیا

تج بن منجے جینا بہوت ہوتا ہے مشکل رے پیا

کھانا برہ کھاتی ہوں میں پانی انجھواں پیتی ہوں میں

تج سے بچھڑ جیتی ہوں میں کیا سخت ہے دل رے پیا

(ملا وجیؔ)

ان تمام نمونوں میں گیت کے خدوخال کہیں واضح اور کہیں مبہم نظر آتے ہیں شیخ بہاء الدین باجن ، قاضی محمدد دریانی ، برہان الدین جانم ، علی عادل شاہ ثانی اور ہاشمی بیجاپوری کے یہاں گیتوں کا انداز بالکل واضح ہے۔ پہلے چار شعراء کے یہاں گیت کے الگ الگ بند بھی ملتے ہیں اور اس طرح گیت کی ہیئت بھی تشکیل پائی نظر آتی ہے۔ ہاشمی بیجاپوری کی ریختی میں جو نسایت ہے وہ گیت کے رنگ و آہنگ سے میل کھاتی۔ وجہی اور قلی قطب شاہ کی غزلوں کے جو نمونے ہم نے دیکھے ان میں بھی وہی کیفیت موجود ہے۔

ادھر شمالی ہند میں فارسی کے زیر اثر اصلاح زبان کی جو تحریک چلی اس نے اور گیت کی فطری نشونما میں ایک رکاوٹ کھڑی کر دی۔ پھر انیسویں صدی کے آتے آتے امانت کی اندر سبھا سے اردو گیت کا احیا ہوتا۔

واجد علی شاہ کو رقص و موسیقی سے دلچسپی تھی۔ وہ خود بھی ’’ رہس ‘‘ میں حصہ لیتے تھے۔ اندر سبھا جیسے ڈرامے عوام میں بے حد مقبول تھے۔ ان ڈراموں کی خاص بات گیتوں کی پیش کشی تھی۔ ڈراموں کے کردار گیتوں کے ذریعے اپنے جذبات کا اظہار زیادہ بہتر اور موثر طور پر کر سکے تھے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اندرسبھا کے ذریعہ اردو گیتوں کو بڑا فروغ حاصل ہوا۔ اندر سبھا کا پس منظر چوں کہ ہندوستانی اساطیر سے ماخوذ تھا۔ اسی لیے اندر سبھا کے گیتوں پر بھی ہندی کے اثرات دکھائی دیتے ہیں۔ اردو الفاظ کا تلفظ بھی حسب ضرورت بدل لیا جاتا ہے  ؎

کہاں گیئو گوئیاں شہزادہ جانی پیارا

دل تڑپے رے ہمارا

جرجائے گوئیاں ایسی ہوری

بن سیاں دینہ سلگت موری

اندر سبھا کے مطابق محمد شاہد حسین فرماتے ہیں کہ اندرسبھا میں کل (۴۷) گانے ہیں جس میں پانچ چھند اور دو چوبولے کو چھوڑ کرپندرہ گانونے کے ساتھ دھنوں یا راگوں کے نام دیئے گئے ہیں چنددھنوں نام یہ ہیں بہار ، کہماچ ، دیس ، سنددرکافی ، بہاگ، پرچ، بھیرویں اور سندھ بھیرویں وغیرہ ہیں (۳؎) اس سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ امانت کو گیت کے ساتھ ساتھ دھنوں کی بھی اچھی معلومات تھی۔ اور یہی نہیں اندرسبھا میں غزلیں بھی موجود ہیں اور غزلوں کے ساتھ ساتھ غزل نما نظمیں بھی ہیں جن کی تعداد ۱۳؍ہے۔ یعنی امانت کوراگوں کے ساتھ ساتھ شاعری کی صنف پر بھی مہارت تھی۔گیت کے فروغ میں امانت نے اہم کردار ادا کیا ہے۔

دلی میں بھی محمد شاہ رنگیلے کے دربار میں راگ رنگ کی محفلیں آراستہ ہوتی تھیں۔ محمد شاہ رقص و موسیقی کے ساتھ گیت نگاری سے بھی دلچسپی رکھتے تھے۔ محمد شاہ رنگیلے اور ان کے دربار سے وابستہ شاعروں نے زیادہ تر ٹھمریاں ، خیال اور دادر جیسی چیزیں لکھیں جو مختلف راگوں پر گائے جانے کے لیے تھیں۔ واجد علی شاہ کے دربار کی کیفیت بھی کم وپیش وہی تھی۔ البتہ لکھنؤ میں خیال کی جگہ پٹہ جیسی ہلکی پھلکی چیز زیادہ تمام تھی۔

بیسویں صدی تک آتے آتے گیت نے اپنا قدم اردو شاعری میں مستحکم کرلیا۔ اردو گیت کو عروج تک پہچانے میں میراجی کے گیتوں کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ میراجی سے پہلے بیسویں صدی میں جن شاعروں نے گیت لکھے ان میں حسرت موہانی ، آرزو لکھنؤی ، سوامی مار ہردی ، حفیظ جالندھری ، اختر شیرانی اور میراجی کے معاصرین میں مطلبی فریدآبادی ، عرش ملسیانی ، مقبول احمد پوری ، اندرجیت شرما،قیوم نظر ، الطاف مشہدی ، سلام مچھلی شہری ، خاطر غزنوی ، قتیل شفائی ، عبدالمجید بھٹی ، جمیل الدین عالی اور مسعودحسین خاں کے نام خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ ہر ان میں سے چند منتخب شعراء کے گیتوں کے نمونے یہاں پیش کئے ہیں ؎

کہاں چھائے رہے گردھاری

اورن مل سُدھ بھول ہماری

رووَت رووَت ترپت بلکت

برہ کی رین گئی کٹ ساری

جیاجات ہے برکھارُت حسرتؔ

دیکھت دیکھت بدر یا کاری

موپہ رنگ نہ ڈارومراری

بنتی کرت ہوں تہاری

پنیا بھرن کا ہے جانے نہ دَیٔ ہیں

شیام بھرے پچکاری

تھر تھر کا پنت لاجن حسرتؔ

دیکھت ہیں سب نرناری

( حسرت موہانی )

  اپنے من میں پریت بسالے

  اپنے من میں پریت

 پریت ہے تیری ریت پرانی  بھول گیا اور بھارت والے

 بھول گیا اور بھارت والے  پریت ہے تیری ریت

 بسالے اپنے من پریت

 آجا اصلی روپ میں آجا توہی پریم اوتارہے پیارے

 یہ ہارا تو سب کچھ ہارا من کے ہارے ہارے پیارے

  من کے جیتے جیت بسا لے

  اپنے من میں پریت

( حفیظ جالندھری )

 کھو جاتے تھے جب دونوں ، ہم پیار کی باتوں میں

 اُن چاندنی راتوں میں

 لطف آتا تھا آہوں میں

 مچلی ہوئی باہوں میں ، پھیلے ہوئے ہاتھوں میں

  اُن چاندنی راتوں میں

 شرماتے تھے نظارے ، بہہ جاتے تھے نظارے

 بہکی ہوئی باتوں میں ، اُن چاندنی راتوں میں

( اختر شیرانی )

  دُکھ چاتر ہے ایسا روپ دکھائے

  جیون سُدھ بسرائے

  لاج کی ماری سُکھ کی گھڑیاں

  پگ پگ ڈولیں رُک رُک جائیں ، آنے سے شرمائیں

  دُکھ چاتر ہے کھُلے کواڑوں آئے

  آئے اور نہ جائے

( قیوم نظرؔ)

 پنیا بھرن کو جاؤں کیسے چھیڑ کرے گردھاری

 کیسر رنگ بھرے گاگر میں  ٹھاڑُ لیے پچکاری

  پنیا بھرن کو جاؤں کیسے

( مقبول احمد پوری )

اندھا جگ کا نیائے رے منوا اندھا جگ کا نیائے

سونے چاندی کی پوجا میں اندھے ہیں بھگوان

ان کی نگری میں ہوتا ہے نِردھن کا اَیمان

ہم سے سہانہ جائے رے منوااندھاجگ کا نیائے

(عرش ملسیانی )

موہے چاندی کی پائل منگادو سجن

خالی پیروں سے پنگھٹ کو میں کیا چلوں

اپنی سکھیوں کو دیکھوں تو من میں جلوں

وہ تو ناچیں میں شرما کے منہ پھیرلوں

موہے پنگھٹ کی رانی بنا دو سجن

( قتیل شفائی )

میراجی کے گیتوں میں پوری طرح تخلیقی عمل کا عکس ابھرکر سامنے آتا ہے۔ جس میں فکری میلانات کی جھلکیاں بھی نظر آتی ہیں اور ان کی فنکارانہ خوبیاں بھی نمایاں ہوتی ہیں۔ گیت کا بنیادی موضوع عشق ہے اور میراجی نے اسی موضوع کی مختلف جہات کو اپنے منفرد انداز میں گیتوں میں سمایا ہے۔ عشق ایک پافتادہ موضوعہے لیکن میراجی کے انوکھے اسلوب نے اس میں ندرت پیدا کر دی ہے۔ چند مثالیں  ؎

  دل دامن کا متوالا ہے

  آنچل کی بات نہ ہم سے کہو، دل دامن کا متوالا ہے

  اب گھر کا اندھیرا دُور ہوا، اب چاروں اُور اُجالا ہے

  دل دامن کا متوالا ہے

  ہم پیچھے ، کوئی آگے آگے ، سب کی سوئی قسمت جاگے

  اب اپنے گلے میں پوجا کی موہن مدماتی مالا ہے !

  دل دامن کا متوالا ہے

  آج بسنت سُہائے سکھی ری ، موہے آج بسنت سُہائے

  آج پیا گھر لوٹ کے آئے ، سُکھ کا سندیسہ بھی لائے

  جنم جنم کے قول نبھائے

  من سنگیت سنائے سکھی ری موہے آج بسنت سُہائے

  (۲)

  بادل نے گھونگھٹ کو ہٹایا ِ ، چاند نے اپنا روپ رکھا یا

  پریم اُجالا پھیل کے چھایا

  دور ہوئے ہیں سارے سکھی ری موہے آج بسنت سہائے

( میراجی )

میراجی کے گیتوں میں جذبے کا خلوص کے ساتھ ہی وہ بعض الفاظ اور مصرعوں کی تکرار سے بھی گیت میں ایک انوکھی خوبی پیدا کر دیتے ہیں یہ گیت دیکھئے  ؎

  کتنی دور ہو کتنی دور

  کتنی دور ہو مجھ سے کہہ دو کتنی دور

  میں آؤں گامیں پہنچوں گا چاہے تم ہو جتنی دور

  دور بہت ہی دور ستارے

  پھر بھی موہن پھربھی پیارے

  تم بھی موہن تم بھی پیارے چاہے تم ہو جتنی دور

  کتنی دور ہو، کتنی دور!

( میراجی )

دراصل میراجی کی گیت نگاری سے یہ احساس ہوتا ہے کہ میراجی کو گیت سے ایک فطری مناسبت تھی۔ جس میں ان کی طبعیت کا بھی دخل تھا۔ یہی وجہ ہے کہ انھوں نے بہت سارے گیت لکھے اور بڑے کامیاب گیت لکھے۔ میراجی نے گیت کی روح کے ساتھ ساتھ اس کی نبض کے تقاضوں کو خوب سمجھا۔ جس کی وجہ سے ان گیتو کی زبان اور اسلوب پر ان کی شخصیت کی چھاپ ہے۔ یہی وجہ ہے کی اردو گیت کی تاریخ میں میراجی کی آواز سب سے منفرد اور سب سے کا میاب گیت نگار کی حیثیت تسلیم کی جاتی ہے۔

گیت چونکہ ہندی شاعری کی دین ہے اس لئے اردو گیت بھی زیادہ تر ہندی بحروں میں لکھے گئے ہیں۔مگر اردو کے بہت سے ایسے گیت بھی لکھے گئے ہیں جس میں نظم کی پیرائے میں ہیں جسے نظم نما گیت کہا جاتا ہے۔ ایسے گیتوں کا بھی ذخیرہ بھی اردو شاعری میں کافی ہے۔ نظم نما گیت لکھنے والے بہت سے شعراء نے حفیظ جالندھری ، اختر شیرانی وغیرہ ہیں۔

٭

حواشی:

(۱)اردو شاعری کا مزاج،ڈاکٹر وزیر آغا،ص۱۹

(۲)اصناف سخن اور شعری ہیئتیں،شمیم احمد،ص۱۰۲

(۳)اندر سبھا کی روایت،محمد شاہد حسین،ص۱۸۰

٭٭٭

Leave a Reply

Be the First to Comment!

Notify of
avatar
wpDiscuz
Please wait...

Subscribe to our newsletter

Want to be notified when our article is published? Enter your email address and name below to be the first to know.