ڈراما کب اور کیوں وجود میں آیا…مختصر جائزہ
Drama Kab aur Kiyon Wojood men aya by: Dr. A.M. Chishti
ڈاکٹر اے ایم چشتی، اسلام آباد، پاکستان
۰۳۳۳۵۵۸۰۸۸۹
Abstract:
Drama is a specific story that performed by actors on stage alongwith specific atmosphere of stage before audience. The aim of this story is to remedy the meditation of grief and the reform of social life of human being. Because, with the creation of human being, the system of conversation and negotiation was originated. The means of livelihood perceived; family system developed and social life has been started. In one hand social life start; on the other hand some social problems have been existed. The man struggled to solve these problems. So, the action of sadness and happiness has created. The meditation of grief and sadness wrapped the human life. The embarrassment and confusion have been thriven. To eradication these human problems; the needs of amusement and entertainment has been perceived. For this reason, the drama originated. But in written form the drama has been created many years after.
ڈراما ایک ایسی کہانی ہے جو چند کرداروں کی مدد سے اسٹیج پر اسٹیج کے دیگر لوازمات کے ساتھ تماشائیوں کی موجودگی میں عملی طور پر پیش کی جاتی ہے۔ اس کہانی کا بنیادی مقصد تفکراتِ غم کا مداوا اور معاشرتی اصلاح ہے۔ لیکن سنسکرت قواعد کی رو سے ڈراما ایک ایسی نظم ہے جسے دیکھا جا سکے یا ایسی نظم جسے دیکھا اور سنا جا سکے۔(۱)
دراصل شاعری پڑھنے اور سننے کی چیز ہے، اور ڈراما پڑھنے، سننے اور دیکھنے کے لیے ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حرکت و عمل ڈرامے کا بنیادی ستون ہے۔جب کوئی ادیب یا شاعر زندگی کے کسی واقعہ کو بیان کرتا ہے تو وہ ایک رہبر کی طرح ہمیں زندگی کی سیر کراتا ہے۔ لیکن جب کوئی ڈراما نویس کسی واقعہ کو پیش کرتا ہے تو وہ صرف زندگی بیان نہیں کرتا، بلکہ زندگی کو پوری شان اور آن بان سے پیش کرتا ہے۔ ایک ایسی زندگی جو چلتی پھرتی، ہنستی بولتی یا پھر نالاں و گراں، آسودہ اور تھکی ہوئی۔
واضح رہے کہ جدید ڈراموں میں ڈراما نگار ناول یا افسانہ نویس کی طرح زندگی کی مختلف تہوں میں چھپے حالات و واقعات کو بھی پیش کرتا ہے اور ان حالات و واقعات کو حرکت و عمل کا لباس بھی زیب تن کرواتا ہے۔ جس وجہ سے ڈراما نہ صرف تفریح مہیا کرتا ہے بلکہ لوگوں کو ایجوکیٹ بھی کرتا ہے، اور مخاطبین کا نقطہ نظر بدلنے میں بھی کردار ادا کرتا ہے۔ ڈرامے میں تفنّن، تفریح اور اصلاح کا گہرا امتزاج پایا جاتا ہے۔ یہ ایک ٹیم ورک ہے۔ اس کی تخلیق میں مصنّف، اداکار، تماشائی، اسٹیج اور اسٹیج کے دیگر لوازمات مصروفِ عمل ہوتے ہیں۔ بقول ڈاکٹر قمر اعظم ہاشمی:
’’ڈراما ایک ایسے فعل کا نام ہے جس میں کردار اداکار ہوتے ہیں۔ اور مکالماتی اسلوب میں حرکت و عمل، ادا اور بھاؤ کے ذریعے مختلف حالات و اثرات، تجربات و خیالات اور واردات و واقعات کو پیش کرتے ہیں اور اس ماحول میں گھرے ہوئے افراد کی ذہنی اور جذباتی کیفیتوں کو اپنے اوپر طاری کر کے اسٹیج یا رنگ منج پر ظاہر کرتے ہیں۔ ایک اچھا ڈراما کئی پابندیوں کو پیش نظر رکھتا ہے۔ سب سے اہم پابندی وقت کی ہوتی ہے۔‘‘(۲)
دراصل ڈراما ایک ایسا آئینہ ہے جس میں معاشرے کا عکس اپنی اصلی حالت میں دکھائی دیتا ہے۔ یہ ناول اور افسانہ سے مشکل صنفِ سخن ہے۔ ناول اور افسانے میں مصنف اپنی بات کو کھول کر بیان کر سکتا ہے، لیکن ڈرامے میں ایسا ممکن نہیں ہے، کیونکہ اختصار ڈرامے کی اہم خصوصیت ہے۔
جہاں تک ڈرامے کے آغاز کا تعلق ہے تو عام روایت یہ ہے کہ ڈرامے کی تاریخ اُتنی ہی پرانی ہے جتنی بنی نوح انسان کی خلقت۔ اُردو ادب کے معروف ادیب محمود نظامی حضرت آدمٌ کی تخلیق کے موقع پر پیش آنے والے واقعہ کو دنیا کا پہلا ڈراما قرار دیتے ہیں۔ مثلاً:
خدا: ہم زمین پر انسان کو اپنا خلیفہ بنا رہے ہیں۔
فرشتے: لیکن بار الہ یہ تو وہاں قتل و خونریزی کرے گا اور فساد پھیلائے گا۔ اس منصب
کے مستحق تو ہم ہیں کہ تیری تسبیح کرتے ہیں۔
خدا: جو ہم جانتے ہیں وہ تم نہیں جانتے۔ سجدہ کرو اُس کی طرف۔۔۔
(تمام فرشتے سجدہ کرتے ہیں)
خدا: ہاں عزازیل تم نے سجدہ نہیں کیا۔
عزازیل: میں اسے سجدہ نہیں کروں گا کیونکہ یہ مٹی سے بنا اور میری خلقت آگ سے ہے
جو مٹی سے افضل ہے۔
خدا: ہم تمہیں اس نافرمانی پر راندہ درگاہ قرار دیتے ہیں۔ نکل جائو۔
یہاں سے۔(۳)
محمود نظامی کے نقطہ نظر کو بنیاد بنا کر ڈاکٹر رشید احمد گوریجہ نے بھی ڈراما کے آغاز کے حوالے سے تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہی ہے بزمِ ہستی کا وہ پہلا ڈراما جو محفلِ قدس میں انسان کی تخلیق کے موقع پر کھیلا گیا تھا۔(۴) لیکن گوریجہ صاحب یہ بھول گئے کہ ڈراما اور حقیقت میں فرق ہے۔
جہاں تک میری ناقص رائے کا دخل ہے، قرآنِ مقدس کے واقعات کو ڈرامے سے تشبیہ دینا درست عمل نہیں ہے۔ کیونکہ قرآنِ مقدس کے واقعات حقیقت پر مبنی ہیں اور ڈراما حقیقت کا اتار ہے، بلکہ یہ حقیقت سے تین منزلیں دور ہے۔ ڈراما تو ایک نقل ہے، بلکہ یہ تو نقل کی بھی نقل ہے، اور اس میں انسانی اعمال و افعال پیش کیے جاتے ہیں۔ اس حوالے سے دنیا کے عظیم فلاسفر افلاطون کا ایک اقتباس جو احمد عقیل روبی نے اپنی معروف کتاب ’’یونان کا ادبی ورثہ‘‘ میں بیان کیا ہے، دیکھئے:
’’فرض کیجیے ایک بڑھئی ایک پلنگ بناتا ہے۔ اصل میں اس نے اُس تصور کی نقل کی ہے۔ جو اس کے ذہن میں ہے لیکن یہ تصور اس کے ذہن میں خالقِ باری نے پیدا کیا ہے۔ چناچہ پلنگ کا خالق بڑھئی نہیں بلکہ خالقِ باری ہے۔ بڑھئی نے تو اپنے تصور کی تصویر اتاری ہے۔ بڑھئی کی کوشش حقیقت سے تین منزلیں دور ہے اور حقیقت سے اس کا کوئی تعلق نہیں۔‘‘(۵)
واضح رہے کہ ڈراما فنون لطیفہ کا ایک اہم رکن ہے۔ افلاطون کے نزدیک فنون لطیفہ تو نقل کی بھی نقل ہے۔(۶) نقل کے موضوع انسانی افعال و اعمال ہیں جو انسان کے اندر چھپی ہوئی اچھائی یا بُرائی سے تشکیل پاتے ہیں۔(۷) اس لیے ہمیں چاہیے کہ ہم انسانوں کو یا تو جیسے وہ ہیں اس سے بہتر دکھائیں، یا اس سے بدتر، یا پھر بالکل ایسے ہی جیسے کہ وہ ہیں۔(۸) دراصل نقل اتارنا اور اس سے خط پانا دونوں فطری فعل ہیں اور ڈرامے کی تخلیق میں ان کا بڑا دخل ہے۔
ڈراما گذرے ہوئے اعمال و افعال کو دہرانے کا عمل ہے۔ یہ ماضی کو حال بنانے کا عمل ہے۔ یہ حال کو بے حال بنانے کا عمل ہے۔ اس لیے ڈرامے میں بعض اوقات غیر حقیقی یا نیم حقیقی واقعات بھی شامل ہو جانے کا اندیشہ رہتا ہے۔ البتہ ڈرامے میں نقل بمطابق اصل بنانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ ڈرامے کی کہانی حقیقی زندگی کے جس قدر قریب ہو گی ڈراما اتنا ہی بہترین تصور کیا جائے گا۔
ڈاکٹر محمد اسلم قریشی کہتے ہیں کہ اس کرّۂ ارض پر سب سے پہلے حضرت آدمٌ کے دو بیٹوں ہابیل اور قابیل کے درمیان نزاع پیدا ہوئی اور اس کے نتیجہ میں قتل و خون کا اولین واقعہ رونما ہوا۔ ہابیل اور قابیل کی لڑائی اس سرزمین کا پہلا المیہ ہے۔(۹) اس واقعہ سے المیہ کی چند ایسی خصوصیات وضع ہوئیں جو آئندہ زمانوں میں المیہ کے فن کا لازمہ قرار پائیں:
۱۔ المیہ میں آخری تباہی کا شکار کوئی نہ کوئی عظیم شخص ہوتا ہے۔
۲۔ المیہ کی بنیاد کسی نہ کسی نوع کی آویزش، ظاہری و باطنی نزاع اور تصادم پر استوار ہوتی ہے۔
۳۔ المیہ کے ناخوشگوار واقعہ کو کسی شخصی یا ذاتی کمزوری کا نتیجہ قرار دیا جاتا ہے۔
۴۔ اس ناخوشگوار عمل میں انسانی لاعلمی اور بے تدبیری کو دخل حاصل ہوتا ہے۔
۵۔ اس عمل کا انجام ندامت اور خجالت پر ہوتا ہے جس سے دہشت، ہمدردی، درد مندی اور رحم کے جذبات ابھرتے ہیں۔(۱۰)
اگر ہم ڈرامے کی اصل روح کو جانچنے کی کوشش کریں تو درحقیقت اس کا آغاز موت ہی کے بعد سے شروع ہوتا ہے۔ یہ ایک المیہ ہے جس میں دہشت اور دردمندی کا ہونا ضروری ہے۔ یہ نقل ہے گزرے ہوئے حالات و واقعات کی۔ یہ ایک ایسا آرٹ ہے جس میں انسانی زندگی کے اعمال و افعال محض بیان کرنے کے بجائے کرداروں کے ذریعے اسٹیج پر عملی شکل میں تماشائیوں کی موجودگی میں پیش کیے جاتے ہیں۔
مذکورہ بحث سے یہ واضح ہوتا ہے کہ ڈراما ایک نقل ہے، فطرت کی، یا انسانی زندگی کے اعمال و افعال کی، لیکن ایک اچھا ڈراما نویس معاشرے میں موجود واقعات کے ڈھیر میں سے صرف وہی واقعہ چنتا ہے جس کے اظہارِ بیان میں حسن اور حقیقت پیدا کی جا سکے۔ وہ اپنے وسیع تجربے اور اعلیٰ شعور کے ذریعے منتخب کردہ اعمال کے مختلف اجزاء کو اس قدر مربوط اور مضبوط بنا کر پیش کرتا ہے کہ ہمیں اس میں حقیقی اور فطری زندگی کی خوبصورت جھلک دکھائی دیتی ہے۔
بعض ناقدین کے نزدیک دنیا ایک ایسا اکھاڑا ہے جس میں آئے روز مختلف افعال و اعمال سرزد ہو رہے ہیں اور جب کوئی فنکار اس کائنات یا اکھاڑے میں جھانکتا ہے تو اس کا جی مخفی صورتِ حال دیکھ کر مچل جاتا ہے۔ اس کے جذبات بھاپ بن کر اندر ہی اندر کھلبلی مچانا شروع کر دیتے ہیں۔ جنہیں وہ تراش خراش کر لفظوں کی لڑیوں میں پرو کر ہمارے سامنے ڈرامے کی صورت میں پیش کرتا ہے۔ کچھ ایسی ہی بات اُردو ڈراما کے نقاد رحمان مذنب اپنی کتاب ’’ڈرامہ اور تھیئٹر کے پیش لفظ میں لکھتے ہیں:
’’دنیا ایک اکھاڑا ہے……قدیم ترین اکھاڑا جس میں نیک سے نیک، بد سے بد یا نیک و بد لڑتے، داؤ پیچ لگاتے، گرتے پڑتے، مرتے ہیں۔ ان کی باہمی کشمکش، جدوجہد، آزمائش، سب کچھ عین فطرت ہے، حقیقت ہے۔ دنیا کا اکھاڑا سدا سے گرم ہے، یونہی گرم رہے گا۔ یہی اکھاڑا فنکار کی وساطت سے تھیٹر کی چار دیواری میں منتقل ہو جاتا ہے۔ ڈرامہ نگار آدمی کے فکرو عمل، اس کی خوبیاں، خرابیاں، سرگرمیاں، سرمستیاں، لغزشیں، اچھل کود سبھی کو سمیٹ لیتا ہے، پھر اپنی سوچ، نظریے، رجحانات، جذبات اور احساسات کی آمیزش سے ڈرامہ بنا دیتا اور اسٹیج پر لے آتا ہے۔‘‘(۱۱)
ایک روایت یہ بھی ہے کہ تخلیق آدم کے ساتھ ہی گفت و شنید کا عمل شروع ہوا۔ ضروریات زندگی کی طلب محسوس ہوئی۔ خاندان اور معاشرہ وجود میں آیا۔ نیز سماجی زندگی کا باقاعدہ آغاز ہوا۔ جب سماج وجود میں آیا تو کچھ سماجی مسائل نے بھی سر اٹھایا۔ سماجی زندگی تذبذب کاشکار ہوئی۔ انسان نے سماجی مسائل کے حل اور تذبذب میں گھری ہوئی زندگی کو سہل بنانے کی غرض سے جدوجہد شروع کی۔ اس طرح دکھ اور سکھ کے عمل کی شروعات ہوئی۔ پھر اس دکھ اور سکھ کے اظہار کے لیے بات چیت اور گفتگو کو ڈرامائی انداز میں پیش کرنے کی کوشش کی گئی جس سے نقالی کا آغاز ہوا۔
لیکن نقالی کا یہ جذبہ فرد کی فطرت میں بھی شامل ہے جس کا اظہار وہ وقتاًفوقتاً مختلف انداز میں کرتا رہتا ہے۔ مثلاً بچے بڑوں کی نقل کرتے ہیں اور نقل کے اس عمل سے بچوں پر ان کے والدین، خاندان اور اردگرد کے ماحول کے گہرے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ اس سے بچوں کی شخصیت کی تعمیر و نشوونما ہوتی ہے۔ وہ دوسروں کی نقل کر کے اپنے اندر چھپے ہوئے نقالی کے فطری جذبے کوتسکین پہچاتے ہیں۔ بعدازاں نقل کے اس جذبے نے نظم و نثر کی شکل اختیار کی اور اس نظم و نثر کے بدن سے ڈرامے نے جنم لیا۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر ڈراما کن مقاصد کو پورا کرنے کے لیے تخلیق کیا گیا تھا؟، اس کا مختصر جواب تو یہ ہے کہ ڈراما انسانی حیات کے تفکراتِ غم کا مداوا کرنے کے لیے تحریر کیا گیا تھا۔ جیسا کہ پہلے بیان کیا جا چکا ہے کہ تخلیقِ انسانی کے بعد جب معاشرے کا قیام عمل میں آیا تو انسان کو معاشرتی، معاشی اور سماجی مسائل بھی در پیش ہوئے۔ جب ان مسائل کے حل کے لیے جدوجہد کا عمل شروع ہوا تو تفکراتِ غم کے عمل نے انسان کو اپنے گھیرے میں آ لیا، جس سے بوریت اور گھٹن کا سماں پیدا ہوا۔ لہٰذا اس بوریت اور گھٹن سے چھٹکارا پانے کے لیے تفریح کی ضرورت محسوس کی گئی۔ انسان کی اس ضرورت کو پورا کرنے کے لیے ڈراما وجود میں آیا۔
ابتداء میں ڈراما صرف تفریح حاصل کرنے کے لیے کھیلاجاتا رہا ہے۔ بعدازاں اس میں انسانی اعمال و افعال پیش کیے جانے لگے اور وقت کے ساتھ ساتھ ڈراما اپنی شکل و صورت خوب سے خوب تر بناتا چلا گیا۔ موجودہ دور میں ڈراما انسان کے سماجی، معاشرتی اور معاشی مسائل کو کرداروں کے ذریعے مکالموں کی صورت میں تماشائیوں کے سامنے پیش کرنے کا عمل ہے۔ اس کی کہانی کی آغوش میں معاشرتی مسائل اور اُن کا حل ، تفریح اور اصلاح کی کلیاں کھلتی ہیں جن کی بھینی بھینی مہک سے پورا سماج معطر ہو جاتا ہے۔ بقول رحمان مذنب:
’’غار کے اندر یا باہر رات کے اندھیرے میں آگ سلگا کر یا دن کی روشنی میں فنکار شعر سناتا، سروں کی شیرازہ بندی کرتا، ناچتا یا پھر اپنی زندگی کا کوئی واقعہ، حادثہ ڈرامائی شکل میں پیش کرتا۔ پتھر کا سینہ اسٹیج ہوتا، قبیلے کے لوگ تماشائی ہوتے۔‘‘(۱۲)
یہ بات بھی درست ہے کہ ڈرامے کی تاریخ اتنی ہی پرانی ہے جتنی بنی آدم کی پیدائش، لیکن تحریری طور پر ڈراما بہت بعد میں وجود میں آیا ہے۔ قدیم زمانے میں تحریر کا رواج ناپید تھا، اس لیے اس بات کا صحیح سراغ لگانا کہ دنیا کا پہلا ڈراما کب اور کس نے تخلیق کیا، ناممکن ہے۔ دراصل ڈرامے کے ابتدائی دور کے بارے میں قیاس آرائی کے سوا کوئی چارہ نہیں۔ ڈاکٹر رشید احمد گوریجہ بھی ڈاکٹر محمد اسلم قریشی کی طرح اُردو ڈرامے کی تاریخ بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں:
’’کرہ ارض پر ہابیل و قابیل کا سانحہ انسانی زندگی کا پہلا المیہ ہے۔ پھر یہ اسٹیج وسیع ہوتی گئی اور انسان نے قدم قدم پر زندگی کو ڈراما بنا دیا۔‘‘(۱۳)
مذکورہ قیاس آرائیاں اپنی جگہ بجا ہیں، لیکن تحریری اعتبار سے مصری ڈرامے دنیا کے قدیم ترین ڈرامے تسلیم کیے جاتے ہیں، جو تقریباً ساڑھے چار ہزار برس قبل لکھے گئے تھے۔ ابنِ حنیف کی تحقیق کے مطابق مصر کا سب سے قدیم ڈراما ’’من نوفر کا ڈراما‘‘ ہے۔(۱۴) یہ ڈراما آج سے تقریباًً ساڑھے چار ہزار سال پہلے تحریر کیا گیا تھا۔(۱۵) مصر کا دوسرا قدیم ڈراما ’’تاجپوشی کا ڈراما‘‘ ہے۔(۱۶) یہ مصری سر زمین پر تخلیق ہونے والا سب سے قدیم ڈراما ہے جسے سب سے پہلے قلم اور روشنائی سے تحریر کیا گیا تھا۔(۱۷) تحریری شکل میں ہونے کی وجہ سے اسے دنیا کا پہلا ڈراما کہا جاتا ہے۔(۱۸) لیکن تاریخی اعتبار سے یونان دنیا میں ڈرامے کا سب سے بڑا مرکز رہا ہے، اور تھس پس کو دنیا کا پہلا ڈراما نگار کہا گیا ہے۔(۱۹) تھس پس کو ’’فادر آف ٹریجڈی‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔(۲۰) اس کے بعد ایسکی لس، سوفوکلیز اور یوری پیڈیز نے ڈرامے کو بام عروج تک پہنچایا اور دنیا کے بہترین المیہ نگار قرار پائے۔(۲۱)
واضح رہے کہ ابتداء میں مذہبی نوعیت کے ڈرامے لکھے جاتے رہے ہیں۔ اس لیے یہ کہنا زیادہ مناسب ہو گا کہ قدیم ڈراموں نے مذہب کے زیر سایہ پرورش پائی اور مذہبی تبلیغ کا ذریعہ بنے۔ رفتہ رفتہ ڈرامے میں تفنّن کا پہلو بھی شامل ہوا اور اس نے ایک مضبوط ادارے کی شکل اختیار کی اور ادب کا سب سے موٗثر ذریعہ ابلاغ کہلایا۔
المختصر موجودہ دور میں ڈراما ادب کی مقبول ترین صنف تسلیم کی جاتی ہے جو انسانی اعمال و افعال کی خوبصورت نقل پیش کرتی ہے۔
حوالہ جات
۱۔
محمد شاہد حسین، ڈاکٹر، ڈراما فن اور روایت، ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس، دہلی(بھارت)، ۲۰۰۶ء، ص۱۳
۲۔
ہاشمی، قمر اعظم، ڈاکٹر، اُردو ڈراما نگاری(تاریخ و تنقید کی روشنی میں)، تیسرا ایڈیشن مع اضافہ، کتابستان، چندوارہ، مظفر پور، بھار(بھارت)، ۲۰۰۲ء، ص۳۲
۳۔
محمود نظامی، بحوالہ:اُردو ڈرامے کی تاریخ(واجد علی شاہ سے مرزا ادیب تک)، ڈاکٹر رشید احمد گوریجہ، بیکن بکس، ملتان، ۲۰۰۲ء، ص۳۰۳
۴۔
گوریجہ، رشید احمد، ڈاکٹر، اُردو ڈرامے کی تاریخ(واجد علی شاہ سے مرزا ادیب تک)، بیکن بکس، ملتان، ۲۰۰۲ء، ص۳۰۳
۵۔
افلاطون، بحوالہ:یونان کا ادبی ورثہ، احمد عقیل روبی، وجدان پبلی کیشنز، لاہور، اشاعت دوم، ۲۰۰۸ء، ص۲۶۷
۶۔
ایضاً، ص۲۶۷
۷۔
روبی، احمد عقیل، یونان کا ادبی ورثہ، وجدان پبلی کیشنز، لاہور، اشاعت دوم، ۲۰۰۸ء، ص۲۷۷
۸۔
عزیز احمد، بوطیقا(ترجمعہ)، ارسطو، انجمن ترقی اُردو پاکستان، کراچی، اشاعت ششم، ۲۰۰۱ء، ص۳۹۔۔۔۴۰
۹۔
قریشی، محمد اسلم، ڈاکٹر، ڈرامے کا تاریخی و تنقیدی پس منظر، مجلسِ ترقیِ ادب، لاہور، طبع اوّل، ۱۹۷۱ء، ص۱۲
۱۰۔
ایضاً، ص۱۲
۱۱۔
رحمان مذنب، ڈرامہ اور تھیئٹر(عالمی تاریخ)، رحمان مذنب ادبی ٹرسٹ، لاہور، س۔ن، ص۱۳۔۔۔۱۴
۱۲۔
ایضاً، ص۱۱۔۔۔۱۲
۱۳۔
گوریجہ، رشید احمد، ڈاکٹر، اُردو ڈرامے کی تاریخ(واجد علی شاہ سے مرزا ادیب تک)، بیکن بکس، ملتان، ۲۰۰۲ء، ص۳۰۳
۱۴۔
ابنِ حنیف، بھولی بسری کہانیاں(یونان)، بیکن بکس، ملتان، ۱۹۹۶ء، ص۴۳۴
۱۵۔
ایضاً، ص۴۳۴
۱۶۔
ایضاً، ص۴۳۴
۱۷۔
ابنِ حنیف، بھولی بسری کہانیاں(مصر)، بیکن بکس، ملتان، ۲۰۰۴ء، ص۱۰۴
۱۸۔
ایضاً، ص۱۰۴
۱۹۔
ابنِ حنیف، بھولی بسری کہانیاں(یونان)، بیکن بکس، ملتان، ۱۹۹۶ء، ص۴۲۰
۲۰۔
ایضاً، ص۴۲۰
۲۱۔
ایضاً، ص۴۳۱
Leave a Reply
Be the First to Comment!