انتظارحسین کے افسانوں میں اساطیری ودیومالائی عناصر

Intear Hussain ke Afsanon men Asateeri wa Dev Malai ANasir by: Dr Abrar Ahmad

    ڈاکٹر ابراراحمد

     اسسٹنٹ پروفیسر ،شعبۂ اردو،عربی وفارسی

     پوناکالج آف آرٹس ،سائنس اینڈ کامرس  کیمپ، پونے،

     مہاراشٹر ،انڈیا۔۴۱۱۰۰۱۔

8554008637

اردوافسانہ اپنے آغاز سے ہی اساطیرودیومالا کے ساتھ ایک مضبوطتخلیقی تعلق قائم کیے ہوئے ہے۔ اردوکے ابتدائی افسانہ نگاروں نے شعوری یاغیرشعوری طورپراساطیرودیومالاکواپنے افسانوںمیںبرتنے کی کوشش کی ہے۔یہی وجہ ہے کہ اردوافسانے کادامن اساطیرودیومالاکے اثرات سے کبھی خالی نہیں رہا۔ لیکن اردو افسانے میں اساطیر ودیومالا کا بھرپور اوربامعنی استعمال جدیدیت کے زیر اثر ہوا۔ جدید افسانہ نگاروں نے روایت سے تخلیقی بغاوت کرتے ہوئے اپنے افسانوں میں کثرت سے اساطیرودیومالاکااستعمال کیا۔جس کے باعث اردوافسانہ ایک نئی معنوی جہت سے آشناہوا۔

جدیدافسانہ نگاروں نے جہاںپہلے سے موجود اساطیرودیومالا سے فائدہ اٹھایاوہیں دوسری طرف آسمانی صحائف ، صوفیاکے ملفوظات ،مقدس شخصیات سے تعلق رکھنے والے تاریخی اورنیم تاریخی واقعات،ہندستانی دیومالا، لوک روایات اورلوک اوہام کی آمیزش سے نئی اساطیربھی تشکیل کی۔ اردو میں انتظار حسین، سریندر پرکاش، جوگندرپال ، دیویندراسّر،بلراج مین را،دیویندرستیارتھی ،محمد منشایاد ،ترنم ریاض ،سلام بن رزاق وغیرہ ایسے افسانہ نگار ہیں جن کے افسانوں میں اساطیری ودیومالائی عناصر کی کارفرمائی جابجا نظرآتی ہے۔

 انتظار حسین نے ۱۹۴۸ء سے۲۰۱۶ء تک افسانہ نگاری کا ایک لمبا سفر طے کیا ہے۔اس طویل مدت میں ان کے نوافسانوی مجموعے، گلی کوچے (۱۹۵۲ء)،کنکری(۱۹۵۵ء)،آخری آدمی (۱۹۶۷ء)،شہر افسوس(۱۹۷۲ء)، کچھوے(۱۹۸۱ء)، خیمے سے دور (۱۹۸۶ء) ، خالی پنجرہ (۱۹۹۳ء)،شہرزادکے نام (۲۰۰۲ء)اورنئی پرانی کہانیاں(۲۰۰۶ء ) شائع ہوکرمنظرِعام پر آچکے ہیں۔ انتظار حسین نے اپنے ان افسانوں میں جابجااساطیری ودیومالائی علائم وتمثیلات سے کام لیاہے۔ان کے بعض افسانے ایسیہیں جو خالص اساطیری ودیومالائی حکایات وقصصپرمبنیہیں۔ انھوں نے بدلے ہوئے حالات ، شکستہ سماجی اقدار اور انسان کے اندرموجودحیوانی وروحانی جبلّتوںکی جدوجہداورکشمکش کواساطیری اور دیومالائی پیرائے میں اس خوش اسلوبی سے پیش کیاہے کہ ان کے افسانوں کی معنوی جہت متنوع ہوگئی ہے۔ ان کے افسانوں میں معنوی تنوع کیباعث ایک قاری ان کے افسانوںکو کئی جہتوں سے سمجھنے اور پرکھنے کی سعی کرتاہے۔ انتظار حسین کے افسانوں میں اساطیری ودیومالائی عناصر پر بحث کرنے سے قبل مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ا ساطیر کیاہے؟ اس پرایک نظر ڈال لی جائے۔

’’اساطیر‘‘ عربی زبان کالفظ ہے جس کامادہ سطر (س،ط،ر)ہے یہ’’اسطورہ ‘‘ کی جمع ہے۔ اردو میں اسطور،اسطورہ اور اساطیرکے علاوہ ’’دیومالا‘‘ کی اصطلاح بھی رائج ہے۔انگریزی میں اسطورہ کے لیے متھ (Myth)کالفظ استعمال ہوتاہے۔ماہرین فن نے اسطورہ کی تعریف کو اپنے اپنے انداز میںپیش کیاہے۔ ڈاکٹر وزیر آغااسطورہ کی تعریف کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

’’اسطوریادیومالا(Myth)یونانی زبان کے لفظ Mothosسے ماخوذ ہے جس کالغوی مفہوم ہے وہ بات جوزبان سے اداکی جائے۔یعنی کوئی قصہ یاکہانی۔ابتداء ًاسطورکایہی تصور رائج تھا لیکن بعدازاں کہانی کی تخصیص کردی گئی اوراسطوراس کہانی کانام قرارپایاجودیوتائوں کے کارناموں سے متعلق تھی یاان شخصیات کی مہمات کوبیان کرتی تھی جوزمین پردیوتائوں کی نمائندہ تھیں ‘‘۱؎

ڈاکٹر قاضی عابدعلی اسطورہ کی تعریف کچھ اس طرح سے کرتے ہیں :

’’اسطورہ یا اسطور (دیومالا)ایک ایسی مقدس کہانی ہوتی ہے جوفوق البشر روحانی ہستیوں کے کائنات میں عمل دخل ،رسوم ورواج،رہن سہن اور کائنات کے ساتھ ان کے تعلق کوبیان کرتی ہے۔یہ فوق البشر ہستیاں دیوی دیوتااور انسان دونوں ہوسکتے ہیں۔کائنات میں ان کارہن سہن جن معاشرت اور ثقافت کو جنم دیتی ہے،اسطورہ اس کابیان بھی کرتی ہے اور وضاحت بھی۔رہن سہن خواہ انسانوں کاہویادیوی دیوتائوں کاثقافتی ہیئت کے بغیر ممکن نہیں۔اسطورہ اس ثقافتی ہیئت کو جنم دیتی ہے یاپھریہ ثقافتی ہیئت اپنے اظہار کے لیے اسطورہ کی تخلیق کرتی ہے۔ثقافتی ہیئت خواہ ماورائیت میں لپٹی ہوئی ہویانہ ہواسطورہ ماورائیت میں لازماً ملفوف ہوتی ہے۔نیز یہ انسانی معاشروں میں جنم لینے والی فکر ی وحدانیت کو بھی کسی نہ کسی سطح پر سامنے لاتی ہے۔بعض اوقات کچھ معاشروں میں یہ مذہبی نوعیت کی نہیں ہوتی لیکن پھر بھی کسی نہ کسی فکری روایت سے ضروروابستہ ہوتی ہے۔‘‘۲؎

قرآن کریم میں ’’اساطیرالاوّلین ‘‘کاذکرنو جگہوں پرآیاہے۔سورہ الانعام آیت ۲۵،سورہ الانفال آیت ۳۱،سورہ النحل آیت ۲۴،سورہ المومنون آیت۸۳،سورہ الفرقان آیت ۵،سورہ النمل آیت۶۸،سورہ الاحقاف آیت ۱۷،سورہ القلم آیت ۱۵،سورہ المطفّفین آیت ۱۳،ان تمام آیات کی توضیح وتشریح کایہاں موقع نہیں اس لیے صرف سورہ الانعام کی آیت ۲۵ سے متعلق عبدالماجددریابادی اورمولاناابوالکلام آزاد کی آراکوبطورنمونہ پیش کیاجارہاہے تاکہ یہ معلوم ہوسکے کہ قرآن مجید میں اساطیرالاوّلین سے کیا مراد ہے۔ عبدالماجد دریابادی سورہ الانعام کی آیت ۲۵ کی تشریح کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

’’قرآن مجید کی نسبت کچھ اس قسم کی رائے جاہلیت جدیدیاجاہلیت فرنگ کے پجاریوں کی بھی ہے ان کے بڑے بڑے فاضل محققین بہ کمال سنجیدگی فرماتے رہتے ہیں کہ ’’محمد‘‘ چونکہ بے علم تھے،یہوداورنصرانیوں سے سن سن کرکچھ قصے اپنے ہاں جمع کردیئے ہیں۔‘‘

’’اساطیر۔اسطورہ کی جمع ہے اور اس کے معنی پرانی دھرانی خرافاتی داستان یاجعلی تحریرکے ہیں۔‘‘ ۳؎

آگے سورہ الانفال کی آیت ۶۸کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

’’اساطیرالاولین۔وہی پرانے قومی افسانے،اکثرمنظوم ،جن کادستور یونان،ایران،ہندوستان وغیرہ ہرقدیم ملک میں تھااورجن کے نمونے یونان کے ایلیڈ،ایران کے شاہنامہ اورہندوستان کی مہابھارت میں آج بھی موجودہیں۔‘‘۴؎

مولاناابولکلام آزادسورہ الانعام آیت ۲۵ کی تفسیربیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

’’دنیا میں سچی بات نئی نہیں ہوسکتی۔سچائی سے زیادہ یہاں کوئی پرانی بات نہیں۔لیکن جولوگ سچائی سے پھرے ہوئے ہیں انہیں جب سچائی کی باتیں سنائی جائیں توکہتے ہیں کہ یہ تووہی پرانی کہانی ہے جوہمیشہ سنتے آئے ہیں۔عرب میں یہودیوں اورعیسائیوں کی جماعتیں عرصے سے موجود تھیں ، وہ تورات کے قصص وایام سنایاکرتے تھے جب قرآن نازل ہوااور اس میں بھی پچھلی قوموں اوررسولوں کی سرگذشتیں آنے لگیں تومشرکین عرب کہنے لگے :یہ تووہی پچھلی قوموں کی پرانی داستان ہے۔‘‘۵؎

جدید افسانہ نگاروں میں انتظار حسین ایک ایسے افسانہ نگار ہیں جنھوں نے ہندی دیومالااور عربی وعبرانی اساطیر(جسے اسلامی اساطیر بھی کہتے ہیں )کے امتزاج سے اردوافسانے کوایک نئی جہت عطاکی، اور ایک ایسابیانیہ خلق کیا جو عوامی حافظے کاجزوجلیل ہے۔ان کے فن کی بڑی خوبی یہ ہے کہ وہ اجتماعی حافظے میں مضمرتخلیقی امکانات سے اپنی دنیامنورکرتے ہیں۔دراصل اساطیر کی گہرائی اور تہہ داری ہی انتظار حسین کے فکری تخیل کاطرۂ امتیاز ہے ۔ ان کے فن کی اس خوبی کا ذکرکرتے ہوئے گوپی چند نارنگ لکھتے ہیں :

’’انتظار حسین کافن اپنی قوت ان تمام سرچشموں سے حاصل کرتاہے جوتہذیبی روایات کامنبع ہیں یعنی یادیں،خواب،انبیا کے قصے ،دیومالا،توہمات،ایک پوری قوم کااجتماعی مزاج اوراس کاکرداراور اس کی شخصیت۔‘‘۶؎

انتظار حسین نے دوعظیم اساطیری سرچشموں سے کسبِ فیض کیاہے۔پہلاہندی یاہندستانی اساطیر، دوسرا عربی وعبرانی اساطیرجسے اسلامی اساطیر بھی کہتے ہیں۔ اسلامی اساطیر سے مراد آسمانی صحائف ، اسلامی قصص و ایام میںلوک روایات ،لوک اوہام  اوردیگر مذاہب کی روایات کی آمیزش سے جنم لینے والی کہانیاں ہیں۔ جن میں عرب وعجم اورہندستان کے لوگوں کامشترک تجربہ ظہورپاتاہے۔انتظار حسین اس مشترک تجربے کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

’’خالص اسلامی تہذیب کی اصطلاح نہ اس وقت میری سمجھ میں آتی تھی اورنہ اب آتی ہے کیوں کہ میراخیال ہے کہ اسلام جہاں جہاں بھی گیاہے اس کاوہاں کی سرزمین سے ،جغرافیہ سے ،پرانی داستانوں اورحکایتوں سے میل رہاہے جیساکہ ایران میں ہوااورجیساکہ ہندوستان میں ہوا۔تویہ دومثالیں توہمارے سامنے ہیں اوراگرکہیں ایسانہیں ہواتومیرے خیال میں وہاں اسلام کاتجربہ پوری طرح سے کامیاب نہیں ہوا۔یہ تجربہ وہیں کامیاب ہوا ہے جہاں اس نے اس سرزمین سے اپنارشتہ جوڑلیاتومجھے اسلام کی کامیاب شکلیں ایران اورہندوستان میں نظرآتی ہیں۔‘‘۷؎

انتظارحسین نے اسلامی اساطیرسے استفادہ کرتے ہوئے بہت سے افسانے لکھے ہیں۔ جن میں  آخری آدمی،زردکتا،شرم الحرم،کانادجال،دوسراگناہ،وہ جودیوارکونہ چاٹ سکے،مچھلی، مکڑی ،ملکۂ سبا اور حضرت سلیمان ،قصہ سکندرذوالقرنین کا،رات، دیوار ،شہرافسوس،انتظار،خواب اورتقدیر،خیمے سے دور،کشتی وغیرہ خاص طورپرقابل ذکرہیں۔یہ افسانے اسلامی اساطیری پس منظرمیںلکھے گئے ہیں۔

’’آخری آدمی‘‘میں انتظار حسین نے انسان سے بندر کے قالب میں تبدیل ہوجانے والے لوگوں کی کہانی بیان کی ہے۔جس کاماخذ قرآن مجید اور عہد نامہ عتیق کی روایات ہیں۔قرآن مجید میں اس قصے کاذکر سورہ بقرہ آیت ۶۶۔۶۵ ،اورسورہ اعراف کی آیت ۱۶۳،۱۶۴،۱۶۵،۱۶۶،میں کیا گیاہے۔

’’آخری آدمی‘‘ اس بستی کی کہانی ہے جہاں کے لوگ کسی نہ کسی فطری جذبے کی انتہا پسندی کاشکارہوکراپنی صورت مسخ کرچکے ہیں اورانسانی عظمت ومرتبت سے محروم ہوکر بندر کے قالب میں تبدیل ہوگئے ہیں۔ انتظارحسین نے اس قلب ماہیت کوخودانسان کے اندر موجود خیر و شر کی کشمکش کے توسط سے پیش کیاہے۔دراصل یہ انسان کی داخلی جدوجہد کی کہانی ہے جس میں الیاسف کے کردارکے ذریعے اس حقیقت سے پردہ اٹھانے کی کوشش کی گئی ہے کہ جب روحانی قدروں پرمادیت اورعقلیت غالب آجاتی ہے توانسان انسانیت کے مرتبے سے گرکرحیوانیت کی سطح پر آجاتا ہے۔ جیسے الیاسف اپنی تمام ترکوششوں کے باوجود اپنی حیوانی جبلت سے مغلوب ہوکرجسمانی اورذہنی دونوں سطح پرحیوان یعنی بندرمیں تبدیل ہوجاتاہے۔اوراپنی جنسی خواہش سے مجبور ہوکربے اختیار پکاراٹھتاہے۔

’’اے بنت الاخضرتوکہاں ہے کہ تجھ بن میں ادھوراہوں۔۔۔۔۔۔۔وہ دفعتاًجھکااوربے ساختہ اپنی ہتھیلیاںزمین پرٹکادیں۔الیاسف نے جھک کرہتھیلیاںزمین پرٹکادیں اوربنت الاخضر کو سونگھتا ہو ا چاروںہاتھوں پیروں کے بل تیرکے موافق چلا۔‘‘۸؎

’’آخری آدمی‘‘ کا مواداگرچہ قدیم روایتوں سے حاصل کیاگیاہے لیکن انتظارحسین نے اس پورے واقعے کو اپنی فنکارانہ مہارت سے ایسے علامتی اور تمثیلی پیکر میں ڈھال دیاہے کہ یہ کہانی اپنے مخصوص ماحول اورزمانے سے نکل کر آج کے عہد کی کہانی معلوم ہونے لگتی ہے۔ اور اس کے کردار جدید زمانے کے جیتے جاگتے کردار نظر آنے لگتے ہیں۔ اس کہانی کے مرکزی کردار الیاسف کا تاویلیں کرنا،اپنی شخصیت کوبرقراررکھنے کے لیے اپنے اندرسے بشری اور جبلی اوصاف کو خارج کرنے کی کوشش کرنا،اسے آج کے ابن الوقتوں سے ملادیتاہے جو اپنے ضمیر ،جذبے، احساس،عزت ،غیرت سب کچھ فروخت کرکے اپنی حیثیت کوباقی رکھنے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں۔

’’زردکتا‘‘بھی اسلامی اساطیر پرمبنی انتظار حسین کاایک اہم افسانہ ہے۔اس افسانہ میں انھوں نے قصص اورحکایات کی وساطت سے روحانی جدوجہدکوبہت ہی مؤثر انداز میں پیش کیاہے۔اس کی اساس صوفیاکی کرامات اورملفوظات پر رکھی گئی ہے۔یہ کہانی شیخ عثمان اوران کے مریدانِ باصفات کی ہے۔شیخ عثمان کی ایک خوبی یہ ہے کہ وہ کبوتر کی طرح اڑنے پرقادر ہیں اس لیے ان کانام ہی شیخ عثمان کبوترہے۔اس خوبی سے ان کی شخصیت میں اساطیری جہات نمایاں ہوجاتی ہیں۔

’’جانناچاہیے کہ شیخ عثمان کبوتر پرندوں کی طرح اڑاکرتے تھے اوراس گھر میں ایک املی کاپیڑتھاکہ جاڑے ،گرمی ،برسات شیخ اس کے سائے میں محفل ذکرکرتے۔چھت کے نیچے بیٹھنے سے حذرتھا۔‘‘۹؎

اس افسانہ میں عالم سفلی اورعالم روحانی کے درمیان کشمکش کو علامتی وتمثیلی انداز میں پیش کیاگیاہے۔ ’’زرد کتا ‘‘انسان کانفس امارہ ہے جواسے ورغلاتا اورسفلیت کی طرف مائل کرتاہے۔ساتھ ہی یہ روحانی زندگی کے لیے ایک چیلنج ہے جس سے نبرد آزما ہونے کے لیے انسان کوجس ریاضت کی ضرورت ہے وہ اس سے دن بہ دن عاری ہوتاجارہاہے۔دراصلیہی وہ مقام ہے جہاں پرزردکتا بڑا اور آدمی حقیر ہو جا تا ہے۔ بحیثیت مجموعی’’ زرد کتا‘‘روحانی جدوجہدکی کہانی ہے جس کی علامتوں کارخ عصرحاضرکے ان انسانوں کی طرف ہے جن کاباطن عقائد،نظریات اوراعمال سیخالیہے۔دوسرے لفظوں میں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ جدیددور عقائداتی ونظریاتی سطح پرزوال وانحطاط کاشکار ہے یہی وجہ ہے کہ اس کی کوششیں ناکارہ ثابت ہورہی ہیں۔ اور وہ ذلت ورسوائی کے دلدل میں دھنستاچلاجارہاہے۔

’’شرم الحرم‘‘اور’’کانادجال‘‘ میں عالم عرب کے مسائل پر بڑے ہی اچھوتے اندازمیںروشنی ڈالی گئی ہے۔پس منظر میں عرب اسرائیل جنگ ،مسلمانوں کی بے بسی اورفلسطینی عوام کی بے چارگی کی تصویر کشی کی گئی  ہے۔انتظار حسین نے دونوں افسانوں میں عالم عرب اورامتِ مسلمہ کے شاندار و تابناک ماضی کیذریعے ان کی موجودہ صورتحال کاجائزہ لیاہے اور کانادجال کواساطیری حوالے کے طورپرپیش کیا ہے۔ان افسانوں میں عرب کی تہذیبی وثقافتی روایات کا واضح شعوراور عربی ادبیات کی نوحہ گری کااسلوب بھی نظرآتا ہے۔اساطیری روایات کے تتبع میں ایک صحرائی، قدیم عربی اسلوب میں دجال کی آمد،امام غائب کے ظہور اور مسیح کے آنے کی خبرکچھ انداز میں سناتاہے۔

’’ایھاالناس !میں اپنے باپ سے اور میرے باپ نے اپنے باپ سے سنااورمیرے باپ کے باپ نے کہاکہ سناہم نے ابوالفضل زیتون فروش سے کہ زیتون اس نے ہمیشہ تولہ رتی رتی ٹھیک وزن کیا،اور بیان کیاابوالفضل زیتون فروش سے حسن بن احمد بن علی عکری خیاط نے کہ بخیہ گری میں کمال مہارت رکھتاتھااور خبر دی حسن بن احمدبن علی عکری خیاط کوشیخ صدوق نے کہ چار ہزار پانچ سواکہتر احادیث انھیں مع حوالہ جات حفظ تھیں اور توریت پر انھیں عبور کامل تھا۔اور انھوں نے روایت یوں نقل کی کہ وہ شخص قبیلہ دان سے اٹھے گااوریروشلم کے دروازوں پر ظاہرہوگا۔اس کی ایک آنکھ خراب ہوگی اور ہراکپڑااس پر پڑاہوگااور بیت المقدس اس کے ہاتھوں بے حرمت ہوگا۔وہ اونچے گدھے پر سوار ہوگااور حرم کے دروازوں تک پہنچے گا۔شرم الحرام!شرم الحرام!شرم الحرام !ان کے سر پھر جھکتے چلے گئے حتیٰ کہ پیشانیاں خاک سے جالگیں۔تب شام سے ایک مرد دلیر اٹھے گااورارض لُد تک اس کاتعاقب کرے گا۔‘‘۱۰؎

اسی طرح ’’وہ جودیوار کونہ چاٹ سکے‘‘،’’رات ‘‘اور’’دیوار‘‘میں یاجوج ماجوج اورسدسکندری کو انتظارحسین نے الگ الگ اساطیری معنویت کے ساتھ پیش کیاہے اور اس کی ہر معنوی جہت کااحساس دلایاہے۔

انتظار حسین نے ’’وہ جودیوار کونہ چاٹ سکے‘‘میں سدسکندری اور یاجوج ماجوج کے عمل کوعلامتی واساطیری معنویتکے ساتھکچھ اس طرح سے برتاہے کہ وہ آج کاقصہ معلوم ہونے لگتاہے۔یاجوج ماجوج ایسے قبائل کامجموعہ ہیں جوجسمانی اورمعاشرتی اعتبارسے عجیب وغریب زندگی کے حامل ہیں جن کاکام دیوار کو چاٹناہے لیکن وہ دیوار کے بجائے ایک دوسرے کوچاٹنے لگتے ہیں یہاں تک کی گھٹ کرانڈے کے چھلکے کی مانندرہ جاتے ہیں۔یاجوج ماجوج بھائی ہیں اوردیوار ان کی مشترکہ دشمن لیکن حرص وہوس اورجہالت انھیں ایک دوسرے کادشمن بنادیتی ہے۔انتظار حسین نے اس اساطیری روایت کو اپنے متن میں اس اندازسے پیش کیاہے کہیاجوج ماجوج کے آپسی جھگڑے اورایک دوسرے کواپنی زبان سے چھلنی کردینے کاعمل، مشرقی اورمغربی پاکستان کے درمیان وسائل اورسہولیات کاجھگڑامعلوم ہونے لگتاہے۔

’’اب بات بڑھتے بڑھتے یہاں تک پہنچی کہ شام ہونے پر یاجوج ماجوج نے اپنی اپنی زبانیں نکالیں اورسد سکندری کوچاٹنے کے بجائے عالم غیظ میں ایک دوسرے کوچاٹنے لگے۔وہ رات بھر ایک دوسرے کوچاٹتے رہے حتیٰ کہ یاجوج ماجوج کے چاٹنے سے اورماجوج یاجوج کے چاٹنے سے انڈے کی مثال رہ گیا۔یاجوج نے دل میں سوچاکہ اب ماجوج میں رہ ہی کیاگیاہے۔اب سوجاتاہوں ،صبح اٹھ کر ایک زبان ماروں گااورماجوج کوچاٹ جائوں گا۔سو،اس نے اپناایک کان بچھایااوردوسراکان اوڑھ سوگیا۔ماجوج نے بھی دل ہی میں یہی کہاکہ یاجوج کے نام کااب توچھلکارہ گیاہے۔تھوڑاآرام کرلو!صبح اٹھ کر ایک زبان پھیروں گااوراسے صفاچٹ کرجائوںگا۔سو،وہ بھی ایک کان نیچے بچھااوردوسراکان اوپر سے لے پڑارہا۔‘‘۱۱؎

’’رات‘‘اور’’دیوار‘‘میں یاجوج ماجوج کی اسطورہ کووجودی نقطۂ نظر سے پیش کیاگیاہے۔ افسانے کی فضا دہشت ،حیرت اورجہد لاحاصل کی ہے۔لیکن لاحاصلی کاکرب یاجوج ماجوج کے مکالموں میں درآیاہے۔اس طرح سے یہ تینوں افسانے اساطیر کومحض دہرانے کے عمل کامظاہرہ نہیں کرتے بلکہ اسے جدید دورمیں پھر سے بامعنی بنادیتے ہیں۔

’’خیمے سے دور‘‘اور’’خواب اورتقدیر ‘‘میں کربلا،کوفہ،مکہ ،مدینہ ،ابن زیاداورامام زماںکے ذکر سے افسانوی فضامیں ایک ناگزیر کربلائی پس منظر نمودکرتاہے اورافسانہ ایک نئی معنوی جہت سے آشنا ہوتاہے۔ اس اسطورہ کوعہد حاضر سے مربوط کرکے افسانوںمیں اس طرح سے پیش کیاگیاہے کہ یہ افسانے مابعدالطبیعیاتی سطح پر عالمگیرتباہی کااشاریہ بن جاتے ہیں اور خیروشر کی ابدی رزم گاہ میں تبدیل ہوجاتے ہیں۔

انتظار حسین نے ’’کشتی ‘‘میں قرآن مجید ،عہد نامۂ عتیق ،توریت ،ویدوں ،پرانوں اورشاستروں کی مذہبی اوراساطیری روایات سے مددلے کرسیلابِ عظیم کے واقعہ کوبیان کیا ہے۔ دیناکی تمام اساطیر، دیومالا اور مختلف مذہبی والہامی کتب مقدسہ میں سیلاب عظیم کی روایت ملتی ہے۔اس روایت  پر مبنی بے شمار اساطیر ی کہانیاں ہیں  جوتقریباًایک ہی رنگ میں ڈوبی ہوئی ہیں اوربڑی حد تک ایک دوسرے سے مماثل ہیں۔ اس افسانہ میں قرآن مجیدکی سورہ نوح کے واقعے ،بائبل کے قصے،گلگامش کی اسطورہ،منوجی کی کہانی اورحاتم طائی کے قصے کوملاکر وسیع کینوس میںنسل انسانی کی تباہی وبربادی پرمشتملاس  عالم گیر روایت کوگرفت میں لینے کی کوشش کی گئی ہے۔

انتظار حسین نے ان تمام واقعات کو عصر حاضر کے مسائل سے مربوط کرکے اس کو ایک نئی جہت عطاکردی ہے۔نوح اور منو کی روایتوں میں طوفان عظیم کامقصد نوع انسانی کی نوآبادکاری تھالیکن یہاں ماجرا دوسراہے چاروں طرف گھوراندھیراہے ،گرجتے جل کی دھاراہے اورنائو ڈول رہی ہے اندرجان لیواحبس ہے ، مچھلی بھی کہیں غائب ہوگئی ہے اوررسی سانپ کی طرح پانی میں کشتی کے پیچھے لہرارہی ہے مگر نوح یامنوکاکہیں پتہ نہیں ،یہ احساس کشتی میں سوار لوگوں کومضطرب اورپریشان کردیتاہے۔وہ ایک عجیب مخمصے میں پڑجاتے ہیں۔ یہاں کہانی اپنے مخصوص عہد اورزمانے سے نکل کر ہمارے عہد کے المیے کااظہاربن جاتی ہے۔جس سے حال کی افراتفری ،انتشار،عدم تحفظ ،بے بسی اوربے سروسامانی کااحساس زیادہ شدیداورزیادہ گہراہوجاتاہے۔اس طرح ہم دیکھتے ہیں کہ انتظار حسین ان اساطیر کی بالکل نئی تعبیر پیش کرتے ہیں کہ ہماراعہد نوح، گلگامش، منو اورمچھلی سے خالی ہے۔گوپی چندنارنگ ’’کشتی ‘‘ کی اساطیری جہت کوبیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

’’انتظار حسین نے بقائے انسانی کی تمام اساطیری روایتوں کوجدید فکر سے آمیزکرکے ان کی یکسر نئی تعبیر کی ہے اوربنیادی سوال اٹھایاہے کہ زمین وزماں کے جبر کامقابلہ کرنے کے تمام روحانی وسیلے کھودینے کے بعد آج کے پرآشوب دورمیں نسل انسانی کامستقبل کیاہے اورطوفانِ بلامیںگھری ہوئی یہ کشتی کنارے لگے گی بھی کہ نہیں ؟‘‘ ۱۲؎

انتظار حسین نے اپنے افسانو ں میں ہندی یاہندستانی دیومالاسے بھی خوب کام لیاہے۔ ہندی یاہندستانی دیومالاسے مراد ،ہندستانی ادب کے وہ سارے قدیم سرچشمے ہیں جن میں لوک کہانیاں ، جاتک کتھائیں ، ویدک کہانیاں ،رامائن ،مہابھارت،اپنیشد،پران،کتھاسرت ساگر وغیرہ شامل ہیں۔ ہندستانی دیومالانے جانوروں ، پرندوں ،پریوں ،دیوی دیوتائوں اوررشی منیوں وغیرہ کے لاکھوں قصے دنیاکودیئے، جوآنے والے ہر عہد کے افسانوں کاسرچشمہ بنے۔شکیل الرحمان ہندی دیومالاکے سرچشموں کوبیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

’’اسطوری قصوں کہانیوں کے ذریعے کائنات کے اسٹیج پرجوتمثیل اورڈرامے پیش ہوئے ہیں وہ اپنی قدامت کی وجہ سے بھی دنیامیں اعلیٰ مقام رکھتے ہیں ،زندگی کوطرح طرح سے سمجھاتے اوررمزیت لیے یہ ڈرامے غیر معمولی حیثیت کے مالک ہیں۔رگ وید(۱۲۰۰ق م)،آتھروید(۹۰۰ق م)، اپنیشد (۷۰۰ق م)،برہدپران(۴۵۰ق م)، مہابھارت(۳۰۰ق م)،رامائن(۲۰۰ق م)،اگنی پران (۸۵۰ء)، بھگوت پران(۹۵۰ ء)،بھوشن پران(۵۰۰سے ۱۲۰۰ء)،برہم پران(۹۰۰ء سے ۱۳۵۰ء)، برہمانڈپران(۳۵۰سے۹۵۰ء)،دیوپران (۵۵۰سے۶۵۰ء)، گردواپران(۹۰۰ء)،  کالیکاپران (۱۳۵۰ء)،مارکنڈے پران(۲۵۰ء)، ناراسمہاپران (۴۰۰سے۵۰۰ء)،پدم پران (۷۵۰ء)، سکندپران(۷۰۰سے ۱۲۵۰ء)،وامن پران (۴۵۰سے ۹۰۰ء)،وایوپران (۳۵۰ء)، وشنوپران (۴۵۰ء)یہ سب مل کر ہندواسطوری قصوں کہانیوں کاایک بہت بڑاسرچشمہ بن جاتے ہیں۔‘‘ ۱۳؎

جاتک کتھائیںبدھ ادب اوربدھ تفکر کی روشن جہتوں کوپیش کرتی ہیں ،ان کتھائوںکی جڑیں قدیم لوک کہانیوں اورگاتھائوں میں پیوست ہیں۔ لفظ ’’جاتک‘‘کاتعلق پالی کے ’’جات‘‘ (Jata) سے ہے،جس کے معنی ’’جنم‘‘کے ہیں۔’’جاتک ‘‘ کتھائیں جانوروں،درختوں اورپرندوں کے کردارمیں بدھ کے پچھلے جنموں کی کہانیاں ہیں۔ بدھ راہبوں اور بھکشوئوں کاعقیدہ ہے کہ بدھ نے نروان حاصل کرنے سے پہلے بہت سے جنم لیے تھے۔ہر جنم میں کوئی نہ کوئی اہم واقعہ پیش آیاتھا۔بدھ جی نے اپنے جنموں اوران میں پیش آنے والے واقعات کوجاتک کتھائوں کی شکل میں لوگوں کے سامنے بیان کیاہے۔جاتک کتھائیں دراصل تمثیل ہیں جوذہن کو سچائیوں اورصداقتوں سے آشناکرتی ہیں ،ہر کہانی زندگی کی کسی نہ کسی سچائی کوبیان کرتی ہے۔جاتک کی ایک خوبی یہ ہے کہ اس میں بدھ جی ایک انسان کی طرح نظرآتے ہیں ،نروان حاصل کرنے کے بعد ان کے وجود میں ایک عجیب قسم کی چمک دمک پیداہوجاتی ہے۔جاتک کہانیوں کی معنویت کوبیان کرتے ہوئے سلیم شہزاد لکھتے ہیں :

’’مہاتمابدھ کی جاتک تمثیلیں جوکلاسیکیت کی بناپر ہرعہد میں بامعنی رہی ہیں ان کے پردے میں آج کے عہد کے دکھ بھوگ کااظہاربھی نئے معنوں کاافشاکرتاہے۔فردکے اخلاقی ،سماجی اورسیاسی افکارکی فنی ترسیل کے لیے جاتک کہانیاں بہترین حال معنی لوازم کاکام کرتی ہیں۔نہ صرف ان کی تمثیلی حیثیت بلکہ ان کے استعاراتی اورعلامتی پہلوبھی افسانوی اظہار میں ممدومعاون ہوتے ہیں اوران کے ذریعے تخلیق ہونے والی قدیم فضاکانئے عہد پر محمول کیاجاناماضی وحال کے ادغام کاپتا دیتاہے۔‘‘۱۴؎

انتظارحسین نے بدھ جاتک کہانیوں سے استفادہ کرکے اردوافسانے کے موضوعات اوراس کی معنوی وسعت میں قابل قدراضافہ کیا،ساتھ ہی ایک نئے اسلوب کوبھی جنم دیاجسے ہم داستانوی یاجاتکی اسلوب کہتے ہیں۔انتظارحسین جاتک کہانیوں سے اپنے تخلیقی رشتے کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

’’اسی طرح آوارہ پھرتے پھراتے میں مہاتمابدھ کی جاتکوں میں جانکلااورششدررہ گیاکہ یامیرے مولا!یہ کون سی دنیائے واردات ہے،جہاں آدمی ان گنت زمانوں اوران گنت قالبوں میں زندہ وتابندہ ہے۔بیکراں وقت میں رنگارنگ پیکروں میں پھیلی ہوئی بیکراں انسانی ذات۔۔۔۔۔۔اللہ اگر توفیق دے توجاتکوں سے یہ شعورپاکرآج کے آدمی کے کرب کوسمجھاجاسکتاہے۔‘‘۱۵؎

انتظارحسین نے کچھوے،پتے،واپس،پوراگیان،برہمن بکرا،پچھتاوا،بندرکی کہانی،طوطے میناکی کہانی،بیٹی جیت گئی،خوشبوچور،راج ہنس سونے والا،مہاتمابدھبٹیر،میں جاتکوں کے ذریعے عصر حاضر کے انسانوں کے دکھ درداورکرب کے مختلف پہلوئوں کوواضح کرنے کی کوشش کی ہے۔

’’کچھوے ‘‘میں انسانی کرب کوکچھوے کی کتھاکی روشنی میں اجاگرکیاگیاہے۔اس افسانے میں ودّیاساگر کی زبانی طوطا،مینا،بندراورکچھوے کی سلسلہ در سلسلہ کئی حکایات بیان کی گئی ہیں جن میںبصیرتوں کے انمول موتی موجود ہیں۔اس کہانی میں عہد حاضر کا انسان مادیت پرستی ،بے صبری اور ذہنی انتشار میں اس کچھوے کے مانند معلوم ہوتاہے ،جسے مرغابیوں نے ڈنڈی کے سہارے پانی کی کسی جھیل تک لے جانا چاہا تھا لیکن زبان بندی شرط تھی،اس نے بیچ راستے میں زبان کھولی اورگرپڑااورتب سے وہ پانی کی تلاش میں ہے۔

’’یہ جاتک سناکر ودّیاساگر نے کہاکہ ’’بندھو!ہم بھکشولوگ کچھوے ہیں اوررستے میں ہیں۔جوموقع بے موقع بولے گا،وہ گرپڑے گااوررہ جائے گا۔تونے دیکھاکہ سندرسمدرکس بری طرح گرااوررہ گیا۔‘‘۱۶؎

 ’’پتے‘‘ میں مختلف جاتکوں کے ذریعے اس حقیقت سے واقف کرایاگیاہے کہ انسانی جبلتوں سے عہدہ براہوناآدمی کے بس کی بات نہیں ہے۔انسان اپنی تمام تر کوششوں کے باوجود اس کے سامنے ایسا بے بس اور مجبورہوجاتاہے کہ تمام بندھنوں کوتوڑکراپنی جبلی خواہشات کی تکمیل کے لیے بیقرار ہوجاتاہے۔مذہب ، اقداراورجبلتوں کے درمیان معلق آدمی کی جوحالت ہوتی ہے اسے انتظار حسین نے ’’پتے‘‘ میںبھکشو سنجے کی کتھاکے ذریعے بہت ہی خوبصورت اندازمیں پیش کیاہے۔

’’من اس کاپھر بیاکل تھااورآتماپھردکھی تھی۔رت پھر بدلنے لگی تھی۔لنڈمنڈ پیڑوں میں کونپلیں پھوٹ رہی تھیں۔اس نے ایک وسوسے کے ساتھ اپنے اندر جھانکا۔کیامیرے بھیترپھر کوئی کونپل پھوٹ پڑی ہے؟اور اس نے اچنبھے کے ساتھ سوچاکہ اپنے دیپ میں چلتے چلتے میں کہاں آگیاہوں اور یہ کیسے پتے ہیں کہ میری مٹھی میں آگئے ہیں۔‘‘ ۱۷؎

’’واپس ‘‘میں کتے کی جاتک کے ذریعے تمثیلی اندازمیںدرباریوں کی چالبازیوں اورسازشوںکو بیان کیا گیاہے کہ وہ کیسے اپنی عیاریوں اورمکاریوں سے اپنے جرم کی سزابے قصور اورمعصوم لوگوں کے سر منڈھ دیتے ہیں۔سرکاری خزانے کوخود لوٹتے ہیں لیکن سزاعوام کوبھگتنی پڑتی ہے۔اس کہانی میں بدھ دیوجی اپنے پچھلے جنم کی کتھاسناتے ہوئے کہتے ہیں کہ بنارس کے سندر نگر کے مرگھٹ پر بہت سے کتے رہتے تھے۔ایک روز راجاسیر کونکلا۔دن بھر سیر کرنے کے بعد شام کوجب راج دربارلوٹاتواس کے نوکروں نے رتھ کاسامان باہر ہی چھوڑدیا۔رات بارش ہوئی جس کی وجہ سے رتھ کے گدے جن پر چمڑاچڑھاہواتھابھیگ گئے۔راج محل کے کتے رتھ کے چمڑے کوگیلاپاکرکھاگئے۔راجانے طیش میں آکر شہر کے تمام کتوں کومروانے کاحکم دے دیا،مرگھٹ کے کتوں نے اپنے گروسے جاکر کہاکہ یہ کیساانیائے ہے کہ چمڑاتوراج محل کے کتے کھائیں لیکن اس کے جرم میں مارے ہم جائیں ،گرویہ سن کر راج محل گئے اورراجاکوساری کتھاسنائی ،راجانے گروکے کہنے پر اپنے محل کے کتوں کوگھی اورگھاس ملاکرپلایاتوراج محل کے کتے چمڑااگلنے لگے جس سے دودھ کادودھ اورپانی کاپانی الگ ہوگیا، تب راجانے شمشان گھاٹ کے کتوں کومعاف کر دیا۔یہ کتھاسناکربدھ دیوجی یوں گویاہوئے۔

’’ہے بھکشوئو!وہ کتامیں تھا۔‘‘

’’تم؟‘‘سب بھکشوئوں نے چکراکے پوچھا۔

’’ہاں !میں۔وہ راجاآنندتھا۔کتوں کاگرومیں تھا۔شمشان گھاٹ کے دوسرے کتے تم تھے۔‘‘

’’ہم؟‘‘

’’ہاں تم!تم اپنے کرموں کے کارن آگے چل کے آدمی کاجنم لیااورپھرتم میرے سنگھی بنے۔‘‘

’’اورراج محل کے کتے ؟‘‘

’’وہ!وہ ابھی تک کتے ہیں۔‘‘

’’وہ کیا منگل سمے تھاکہ ہم شمشان گھاٹ کے کتے تھے اورتتھاگت ہمارے سنگ تھے۔ہمارے ہی کارن توانھوں نے یہ جنم لیاتھا۔انھوںنے کیسی جوتی جگائی تھی کہ کتے بھی آدمی بن گئے تھے اوراب کہ ہم آدمی کے جنم میں ہیں،آدمی آدمی نہیں ر ہے۔باہرسے آدمی دکھائی پڑتے ہیں ، پراندرسے۔۔۔۔ ـ۔ ‘‘ ۱۸؎

اس طرح سے یہ کہانی عصر حاضر کے انسان کے اخلاقی زوال کی کہانی بن جاتی ہے جہاں آدمی آدمی کے شکل میں ہوتے ہوئے بھی آدمی نہیں رہتاہے بلکہ کچھ اورہی بن جاتاہے۔باہر سے تووہ آدمی معلوم ہوتاہے لیکن اس کے باطن میں چھپی حیوانیت اوراس کے حیوانی اعمال اسے آدمی کے مرتبے سے گراکرحیوان بنادیتے ہیں۔

’’بندر کی کہانی ‘‘شروع توجاتک کہانی سے ہوتی ہے لیکن انتظار حسین نے اپنی فنکاری سے اس کہانی کو عصر حاضر کی تہذیب و معاشرت ،تیزی سے بدلتی سماجی اقداراور نئی نسلوں کی طرز زندگی سے اس طرح جوڑدیاہے کہ موجودہ عہد کے سماجی ومعاشرتی مسائل اپنی تمام تر پیچیدگیوں کے ساتھ ہمارے سامنے عیاں ہوجاتے ہیں۔

’’خوشبوچور‘‘،’’راج ہنس سونے والا‘‘،’’مہاتمابدھ بٹیر‘‘اور’’بیٹی جیت گئی ‘‘کواپنے افسانوی مجموعہ ’’نئی پرانی کہانیاں‘‘میںجاتک کہانی کے زیر عنوان رکھاہے۔ ایسالگتاہے کہ یہ کہانیاں ان کوآج کی کہانیاں معلوم ہوئیں اس لیے انھوں نے اس میں کوئی خاص تبدیلی کرنامناسب نہیں سمجھا اور ان کو اسی طرح پیش کردیاہے۔ اس سلسلے میں وہ خود لکھتے ہیں :

’’بیٹی جیت گئی ‘‘اس جاتک کتھامیں میں نے تواپنی طرف سے نئے زمانے کاکوئی رنگ شامل نہیں کیاتھامگراسے لکھتے ہوئے لگاکہ مہاتمابدھ خود ہی ہمارے بیچ آگئے ہیں اورکہہ رہے ہیں کہ یہ تم لوگوں نے ہلاکت بنام غیرت کاکیاپاکھنڈکھڑاکررکھاہے۔کسی جنم میں میری بھی ایک بیٹی تھی جومیرے کہنے میںنہ تھی۔پھر میں نے کیاکیا۔‘‘۱۹؎

’’پچھتاوا‘‘،’’نرالاجانور‘‘اور’’برہمن بکرا‘‘میں دیومالااورجاتک کتھائوں کی روشنی میں پنرجنم کیفلسفے اور مہاتمابدھ کے نظریۂ تناسخ کو پیش کیاگیاہے۔اس نظریہ کے مطابقزندگی دکھوں کی مالاہے اوردکھ سے نجات پانااس دنیامیں ناممکن ہے۔انسان چاہے جتنے جون بدلے ،سوبار جنم لے لے خوشی اورمسرت کواس عارضی دنیامیں حاصل کرہی نہیںسکتا ہے۔ زندگی دکھوں کاایک لامتناہی سلسلہ ہے جس کے کرداربدلتے رہتے ہیں۔

’’برہمن نے جینے کے چکر سے نراس ہوکر بکرے کی جون لی تھی اوریہ آس باندھی تھی کہ کوئی بھلاآدمی دیوی پہ بھینٹ چڑھانے کے لیے اس کے گلے پہ چھری پھیرے گااورگیتاکے آٹھویں ادھیائے کاپاٹھ کرکے اورچلوبھر پانی چھڑک کے اسے مکتی دلائے گا،پروہاں توکچھ اورہی چکر چل گیا۔جس آدمی نے اسے خریدا،وہ ایک مداری نکلا۔اس نے اسے مارمارکے ڈگڈی پہ ناچناسکھایا۔ایک چارانگل کی تپائی بنائی اوراسے سدھایاکہ چاروں ٹانگیںجوڑکراس پہ کھڑاہواورتماشادیکھنے والوں کوسیس نواکے پرنام کرے۔‘‘۲۰؎

’’پوراگیان‘‘ میں مرداورعورت کے فطری رشتے کوگیان کی سیڑھی بتایاگیاہے۔جولوگ اس فطری رشتے سے منہ موڑکرگیان حاصل کرناچاہتے ہیں وہ رستے ہی میں رہ جاتے ہیں انھیں پوراگیان کبھی بھی حاصل نہیں ہوسکتاہے۔پھر اسی کی مزید تشریح کے لیے تین حکایتیں،’’تھوڑی چھایالمبی دھوپ‘‘،’’ودھوان اورودیارتھی ‘‘اور’’تپ میں بھنگ ‘‘بیان کی جاتی ہیں اوراخیر میںکہانی  اس نصیحت پر ختم ہوتی ہے کہ انسان جتنااس رشتے سے بچنے کی کوشش کرتاہے اتناہی اس میں الجھتااورپھنستاجاتاہے ،بالآخر وہ گیان سے محروم رہ جاتاہے۔ تیاگ ، تپسیا اورکتابوں سے حاصل کیاگیاعلم تو ادھوراہوتاہے انسان کامل علم اورپوراگیان اسی وقت حاصل کرسکتاہے جب اس کامن شانت ہواور من کوشانتی ناری کے بغیرنہیں مل سکتی ہے۔یعنی انسان عورت کے بغیر ادھوراہے اور اس کاعلم بھی اس کے بغیرناقص ہے۔

’’سمپورمانندجی نے چیلے کودیکھاتوبس دیکھتے ہی رہ گئے۔کتنااچنبھاہورہاتھاانھیں۔جب وہ یہاں سے گیاتھاتواس کی آتماکتنے دکھ میں تھی اوراس کے من میں کتنی بے کلی تھی۔اب اس کاطورہی بدلاہواتھا۔اپنے آپ میں مگن ،بے کلی کی جگہ آنند۔چرنوں میں آکر ایسے بیٹھاجیسے اب سکشاکے لیے اس کے دل کے ،دماغ کے سب دروازے کھلے ہوں۔

سمپورمانندجی کوپہلے اچنبھاہوا،پھر سوچ میں پڑگئے ،پھر ایکاایکی اپنے استھان سے ،جہاں وہ جانے کس جگ پربت سمان جمے بیٹھے تھے،ایک بے کلی کے ساتھ اٹھے ،منوہر بولے:’’شش!تواستھان پہ بیٹھ ،میں چلتاہوں۔‘‘

 منوہر ،گوروکامنہ تکنے لگا۔چکراکربولا:’’گوروجی !میں تمھارے چرنوں میں آیااورتم جارہے ہو۔پر کس یاتراپہ جارہے ہو؟‘‘

’’گیان یاتراپہ۔‘‘۲۱؎

’’نرناری‘‘میں انتظارحسین نے بیک وقت ہندودیومالااورلیجنڈکاخوبصورت استعمال کیاہے۔اس میں تین کردارہیں۔مدن سندری ،دھاول مدن سندری کاشوہراورگوپی مدن سندری کابھائی ہے۔ شوہر اوربھائی مندر میں دیوی کے سامنے قربان ہوجاتے ہیں۔دونوں کی لاشیں خون میں لت پت پڑی ہیں۔ سرالگ،دھڑالگ ہیں۔مدن سندری روتی پیٹتی ہے۔دیوی کے حضور گڑگڑاکر رحم کی بھیک مانگتی ہے بالآخر بے بس ومجبور ہوکر تلوار سے خود پرہی وار کرنے لگتی ہے۔ دیوی اس کی اس اداسے خوش ہوکر کہتی ہے جا!دھڑسے سرکوملا،میںنے تیرے شوہر اوربھائی کوجیون دان دیا۔خوشی کے مارے وہ بے قابوہوجاتی ہے اورجلد بازی میں بھائی کے جسم سے شوہر کاسر اورشوہرکے جسم سے بھائی کاسرجوڑدیتی ہے۔اپنی غلطی کی تصحیح کرناہی چاہتی ہے کہ دونوں زندہ ہواٹھتے ہیں۔اس طرح سے جلد بازی میں بھائی اورشوہر کاگھال میل ہوجاتاہے۔اس گھال میل سے مدن سندری عجیب و غریب کشمکش کاشکار ہوجاتی ہے۔انتظارحسین نے اس دیومالاکو کچھ اس اندازسے اپنی کہانی میںبرتاہے کہ یہ شخصیت کی شناخت اوراپنی زمین سے کٹ کر نئی زمین اورنئی ثقافت سے جڑنے کا استعارہ بن جاتی ہے۔

’’وہ زچ ہوگئی :’’ہاں !توہی ہے۔‘‘پریہ کہتے کہتے اس کی نظر دھاول کے ہاتھوں پہ جاپڑی۔چونک کر بولی :’’پر،یہ ہاتھ؟۔۔۔۔۔یہ ہاتھ تیرے نہیں ہیں۔‘‘۲۲؎

’’مورنامہ‘‘ میں انتظار حسین نے دیومالااور حقیقت کو باہم آمیز کرکے ایٹمی ہتھیاروں کے مضر اثرات اور نتائج کو مہابھارت کی روشنی میں اجاگرکیاہے۔افسانہ نگار نے مہابھارت کی جنگ کے حوالے سے لوگوں کواس حقیقت سے آگاہ کرایاہے کہ ہمارے زمانے سے بہت پہلے بھی ایک گیانی کے پاس ایک ایساہی مہلک ہتھیار تھاجسے ’’برہم استر‘‘ کہاجاتاتھا،جس کے استعمال سے دنیافناہوسکتی تھی۔

’’کہتے ہیں کہ سورمائوں کے استاد دروناچاریہ کے پاس وہ خوفناک ہتھیار بھی تھاجسے برہم استرکہتے ہیں۔دیکھنے میں گھاس کی پتی ،چل جائے تووہ تباہی لائے کہ دوردور تک جیوجنتوکانام ونشان دکھائی نہ دے۔بستی زد میں آجائے تودم کے دم میں راکھ کاڈھیربن جائے۔‘‘۲۳؎

برہم استرہتھیار کے چلانے کاراز دروناچاریہ نے صرف اپنے محبوب شاگرد ارجن کو بتایا تھا۔ استاد اور شاگرددونوں نے ساتھ مل کرقسم کھائی تھی کہ اس مہلک ہتھیار کااستعمال وہ کبھی بھی نہیں کریں گے۔لیکن ہونی کو کون ٹال سکتاہے۔قدرت کاکرنادیکھو کہ کوروکشیتر میں استاد اور شاگرد ایک دوسرے کے مدمقابل ہیں مگر دونوں برہم استر کے استعمال سے گریز کرتے ہیں۔دروناچاریہ مرتے وقت اپنے بیٹے اشوتتھاماکو برہم استر کاراز اس وعدے پر بتادیتے ہیں کہ وہ اس کوکسی بھی حال میں استعمال نہیں کرے گالیکن اشوتتھاماجنگ کے آخری  لمحوںمیں اپنی قسم توڑکر برہم استر چلادیتاہے جس کی مار سے پانڈوئوں کی عورتوں کے حمل تک گرجاتے ہیں۔ اشوتتھاما کی اس حرکت سے ناراض ہوکر سری کرشن جی اسے یہ شراپ دیتے ہیں۔

’’ہے دروناکے پاپی پتر ،تیراوناش ہو۔تونے بالک ہتیاکاپاپ کیاہے۔میں تجھے شاپ دیتاہوں کہ توتین ہزاربرس اس طورجئے گاکہ بنوں میں اکیلاماراماراپھرے گا۔تیرے زخموں سے سداخون اورپیپ ایسی رساکرے گی کہ بستی والے تجھ سے گھن کھائیں گے اوردوربھاگیں گے۔‘‘۲۴؎

روایت ہے کہ اشوتتھاماآج بھی اپنے گلے سڑے جسم کے ساتھ زندہ ہے۔ انتظار حسین نے اس روایت اوردیومالائی کہانی کے ذریعے آج کی صورت ِ حال کی المناکی کوبیان کیاہے کہ آج ایک بار پھر ہم ایک ایسی ہی صورت حال سے دوچار ہیں۔جہاںہمارے بیچ اشوتتھامابرہم استر کے ساتھ موجود ہے اور نہ جانے کب وہ اس ہتھیار کو ہم پردے مارے اورموت کی نیندسلادے۔ہماری جانیں اشوتتھاماجیسے نااہلوں کے ہاتھ میں ہے اور ہمارے پاس اس سے نجات پانے کاکوئی منتر،کوئی راستہ نہیں ہے۔

 ان افسانوں کے علاوہ ’’دسواں قدم‘‘،’’اجودھیا‘‘،’’جبالاکاپوت‘‘،’’ناگ نامہ‘‘اور’’مشکند‘‘ میں بھی انتظارحسین نے ہندوفکروفلسفہ اورہندودیومالاسے خوب کام لیاہے۔’’دسواں قدم ‘‘ میں مہابھارت کی مشہور رومانی کہانی ’’نل اوردمینتی ‘‘کوپیش کیاگیاہے جبکہ ’’مشکند ‘‘ میں وقت کی تیز گامی کو ایک خوابیدہ سادھواوراصحابِ ِکہف کی مدبھیڑ سے واضح کیاگیاہے کہ وقت کتنابرق رفتار ہے۔سادھوکی ملاقات جب اصحابِ کہف سے ہوتی ہے تب اسے پتہ چلتاہے کہ وقت کتنابیت چکاہے ،اس کازمانہ ختم ہوگیاہے اورنئے لوگوں کازمانہ یاکلجگ شروع ہوچکاہے ،اس کلجگ میں میرے لیے کوئی جگہ نہیں ہے۔اس لیے اس کھوہ اوراس شہر سے دورپربت پر چلناچاہیے۔وہی ایک جگہ میرے لیے بچی ہے۔اسی طرح ’’جبالاکاپوت ‘‘میںحصول علم اورگیان کی حصولیابی کودیومالاکی روشنی میں سمجھانے کی کوشش کی گئی ہے کہ علم اورگیان توانسان آفاق وانفس میں تدبروتفکرسے حاصل کرتاہے اور اس عمل میںوہ جتنی سعی کرتاہے اتناہی اس کے علم میں اضافہ ہوتاہے۔ استاد،رشی اورگیانی توبس راہ دکھاتے ہیں۔

’’مہاراج جارہاہوں۔آگیادو۔‘‘

’’کہاں ؟‘‘

’’وہیں بن کے پشوئوں ،پنچھیوں کے بیچ جہاں گیان کی مایاہے۔‘‘۲۵؎

’’کایاکلپ‘‘اور’’سوئیاں ‘‘میں انتظارحسین نے اساطیری جہتوں کودیو،شہزادے اور شہزادیوں کی وساطت سے دریافت کیاہے۔ان کہانیوں کے علاوہ ’’پرچھائیں‘‘،’’ہڈیوں کاڈھانچ‘‘،’’ٹانگیں ‘‘، ’’دہلیز‘‘، ’’سیڑھیاں ‘‘،’’کٹاہواڈبہ‘‘اور’’مردہ راکھ‘‘میں بھی اساطیری حوالے موجودہیں لیکن بہت واضح انداز میں سامنے نہیں آتے ہیں۔

’’چیلیں ‘‘میں یونانی دیومالاکے پس منظر میں پاکستان کی موجودہ سیاسی ،سماجی،معاشی اورثقافتی صورت ِحال کوایک نئی معنوی جہت کے ساتھ پیش کیاگیاہے۔جب یونانیوں نے شہر ٹرائے کواپنے قبضہ میں لے لیاتووہاں کے باسی اپنے سرداراینیاس کی رہنمائی میں بحری راستے سے ٹرائے سے نکل کرایک نئی سرزمین میں جاپہنچے ،جس کی شادابی اورہریالی کودیکھ کروہ اپنے پچھلے دردوغم سب بھول گئے۔ان کا سرداراپنے بچ نکلنے اورجنت نشان زمین ملنے کی خوشی سے سرشارہوکراپنے ساتھیوں سے یوں مخاطب ہواکہ رفیقو!یہی وہ زمین ہے جس کی بشارت مجھے مقدس دیوی نے دی تھی۔ہم نیاٹرائے یہیں بنائیںگے۔

’’سورمائو!مت سمجھوکہ ٹرائے کوہم چھوڑرہے ہیں۔ٹرائے کوہم ساتھ لے کرجارہے ہیں۔ٹرائے ہماری یادوں میں آبادرہے گااورمقدس دیوی نے کہ میری ماں ہے،مجھے بشارت دی ہے کہ یہاں سے نکل کرہم ایک نئی زمین دریافت کریں گے اوروہاں نیاٹرائے آبادکریں گے۔‘‘۲۶؎

لیکن ان کایہ خواب بہت جلد چکناچور ہوجاتاہے۔زمین اپنی تمام تر شادابی اورثمرباری کے باوجودان پر اس حد تک تنگ ہوجاتی ہے کہ وہ بھوکوں مرنے پر مجبورہوجاتے ہیں۔انسان نماچیلیں اچانک ان کے کھانوں کوغصب کرنے لگتی ہیں جس سے وہ ایک نئے مخمصے اورایک نئے خوف کاشکار ہوجاتے ہیں۔ان کی سمجھ میں نہیں آتاکہ وہ کیاکریں اور کہاں جائیں کیونکہ آگے لمبی گردن والی بلائیں ہیں ،پیچھے ٹرائے شہر جوظالموںکے ہاتھوں تباہ ہوچکاہے اورسامنے بدروح چیلیں ہیں۔گویا بچ نکلنے کے تمام راستے مسدودہیں۔اس کہانی میں مقدس دیوی کی بشارت،لمبی گردن والی بلائیں اور بدروح چیلیں جن کے چہرے آدمیوں والے تھے یہ سب مل کر کہانی میں ایک دیومالائی فضاقائم کردیتے ہیں۔

اس طرح سے انتظارحسین نے عربی اساطیر ،ہندودیومالااوربدھ جاتکوں سے رشتہ قائم کرکے جدید اردوافسانے کوایک نئی جہت اورایک نیاذائقہ عطاکیا۔جدید افسانہ نگاروں میں یہ امتیاز صرف انتظارحسین کو حاصل ہے کہ انھوں نے اساطیر ،تمثیل ،دیومالااورتاریخ کی بازگوئی سے فائدہ اٹھاکرجدید افسانہ کونئے فنی اورمعنوی امکانات سے روشناس کرایا۔

انتظارحسین نے مختلف اساطیر کے امتزاج سے ایک ایسابیانیہ خلق کیاہے جس میں ماضی ،حال اور مستقبل آپس میں اس طرح گھل مل جاتے ہیں کہ کہانی زمان ومکان کی قید سے آزادہوکرآفاقی کہانی بن جاتی ہے۔انتظارحسین کے فن کی سب سے بڑی خوبی یہی ہے کہ وہ جب کسی اسطورہ کواپنے افسانوں میں استعمال کرتے ہیں تواسے اپنے معاشرتی شعورسے اس طرح ہم آہنگ کردیتے ہیںکہ وہ آج کے عہد کی کہانی معلوم ہونے لگتی ہے۔ انتظارحسین نے اساطیر اوردیومالاکا  برموقع وبرمحل استعمال کرکے اردوفکشن میں اپنی ایک الگ اورمنفرد پہچان بنائی ہے جس میں ان کاکوئی ثانی نہیں ہے۔

حواشی

۱۔ ڈاکٹروزیرآغا،تخلیقی عمل،مکتبہ اردوزبان،سرگودھا،۱۹۷۰ء،ص۱۵۲

۲۔ ڈاکٹر قاضی عابدعلی ،اردوافسانہ اوراساطیر،مجلس ترقی ادب ،لاہور،۲۰۰۹ء ،ص۳۳

۳۔ عبدالماجددریابادی،تفسیرماجدی،صدق جدیدبک ایجنسی،لکھنؤ،جلددوم ص۳۶۵

۴۔ ایضاً، ص۶۵۹

۵۔ مولاناابولکلام آزاد ،ترجمان القرآن ،ساہتیہ اکادمی ،نئی دہلی،۹۶۶اء،جلد دوم، ص۸۔۷۰۷

۶۔ ڈاکٹرارتضیٰ کریم(مرتب)،انتظار حسین ایک دبستان،ایجوکیشنل پبلشنگ ہائوس،دہلی،۱۹۹۶ء، ص۱۴۳

۷۔ الطاف احمد قریشی ،ادبی مکالمے ،مکتبہ عالیہ ،لاہور،۱۹۸۶ء،ص۱۳۸

 ۸۔ انتظارحسین ،آخری آدمی،ایجوکیشنل پبلشنگ ہائوس،دہلی،۲۰۰۹ء،ص۲۸

۹۔ انتظارحسین ،آخری آدمی ،ایجوکیشنل پبلشنگ ہائوس،دہلی،۲۰۰۹ء،ص۱۳

۱۰۔ انتظارحسین، قصہ کہانیاں،ایجوکیشنل پبلشنگ ہائوس،دہلی،۲۰۱۲ء، ص۱۸۹

۱۱۔ ایضاً، ص۲۴۳

۱۲۔ ڈاکٹرارتضیٰ کریم(مرتب)، انتظار حسین ایک دبستان،ایجوکیشنل پبلشنگ ہائوس، دہلی ،۱۹۹۶ء ، ص۱۹۶

۱۳۔ شکیل الرحمان،ہندستانی قصوں کہانیوںکاایک قدیم سرچشمہ اسطورہ؍دیومالا، مشمولہ ، سہ ماہی فکروتحقیق،نئی دہلی،شمارہ ایک ،جلد۴،جنوری تامارچ،۲۰۰۱ء،ص۶۷

۱۴۔ سلیم شہزاد،قصہ جدید افسانے کا،منظرنماپبلیشرز،مہاراشٹر،۱۹۸۹ء ،ص۸۴۔۸۵

۱۵۔ انتظارحسین، قصہ کہانیاں،ایجوکیشنل پبلشنگ ہائوس،دہلی،۲۰۱۲ء،ص۱۲۱

۱۶۔ ایضاً، ص۶۶

۱۷۔ ایضاً، ص۷۷

۱۸۔ ایضاً، ص۷۹

۱۹۔ انتظارحسین ،نئی پرانی کہانیاں،عالمی میڈیا،دہلی،۲۰۱۴ء،ص۱۷

۲۰۔ انتظارحسین، قصہ کہانیاں،ایجوکیشنل پبلشنگ ہائوس،دہلی،۲۰۱۲ء،ص۳۳۶

۲۱۔ ایضاً، ص۳۱۳

۲۲۔ ایضاً، ص۳۰۱

۲۳۔ انتظارحسین ،شہرزاد کے نام ،سنگ میل پبلی کیشنز،لاہور،۲۰۰۰ء ،ص۳۳

۲۴۔ ایضاً، ص۳۴۔۳۵

۲۵۔ ایضاً، ص۱۰۳

۲۶۔ انتظارحسین، قصہ کہانیاں،ایجوکیشنل پبلشنگ ہائوس،دہلی،۲۰۱۲ء،ص۳۶۹

****

Leave a Reply

Be the First to Comment!

Notify of
avatar
wpDiscuz
Please wait...

Subscribe to our newsletter

Want to be notified when our article is published? Enter your email address and name below to be the first to know.