شیخ میریجس” کی زیرِیںسرگرمیاں-شہر حیدرآ بادمیں ایک تحقیقی جا ئزہ۔

روبینہ بیگم
ریسرچ اسکالر، شعبہَ تعلیم نسوا ں ، مولاناآزاد نشنل اردویونیورسٹی،حیدرآباد

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ہندوستان میں مسلم خواتین کی پسماندگی کے وجوہات کے پیشِ نظر کئی رپورٹس سامنے آئی ہیں جیسے(سیدہ سیدین حمید برائے قومی کمیشن کی رپورٹــ بے آوازوں کی آواز 2000 زویا حسن اور ریتو مینن کی کتاب ان ایکول سیٹیزن “2004،سچر کمیٹی کی رپورٹ 2006 ) اسکے علاوہ 2006 اور 2011 کی مردم شماری کی رپورٹس وغیرہ۔یہ تمام رپورٹس سے ثابت ہوتا ہیکہ مسلم خواتین ہر طرح سے پسماندگی کا شکار ہیں مسلم خواتین کو انکے بنیادی حقوق ،نکاح ،طلاق،مہر،نان نفقہ،وغیرہ حقوق کو حاصل کرنے کے لئے کئی مسائل سے دوچار ہونا پڑتا ہے ان تمام مسائل کے علاوہ ایک مسلئہ ایسا بھی ہے جو ہندوستان کی ریاست تلنگانہ کے دارلحکومت حیدرآباد میں” شیخ میریجس “کے روپ میں نظر آرہا ہے
کلیدی الفاظ:
شیخ میریجس۔زیرِیںسرگرمیاں
لفظ شیخ کی تعاریف میں عارف ایم الختّاراپنی کتاب Religion and terrorism.An inter faith perspective میں لکھتے ہیکہ شیخ با عزت افراد اور بہت بڑے عالم و طاقت والے کے لیُ بولا جاتا ہے اورشاہی خاندان کے افراد کے لُے بھی استعمال ہوتا ہے جو وراثت میں نسل بہ نسل لڑکوں کو ملتا رہتا ہے لفظ شیخ کا استعمال و معنی لا طینی الفاظ میں بزرگ آدمی کے لُے بھی بولا جاتا ہے خلیجی ممالک کے تقریبــا ہر مرد کے لُے لفظ شیخ کا استعمال ہوتا ہے (1)
چونکہ حیدرآباد میں برسوں سے خلیجی ممالک کے افراد کی آمد رہا یُش اور یہاں کی لڑکیوں سے شادی بیاہ کی روایت ملتی ہے گذرے برسوں میں شادی بیاہ اور یہاں آباد ہونے کا سلسلہ رک گیا اور پھر وہ عرب باشندے یہاںکی لڑکیوںکو دوسرے ممالک لے کر جانے لگے کافی حد تک یہ شادیاں کامیاب بھی ثابت ہوئی۔مجموعی طور پر یہ شادی شیخ میریجس کے نام سے موسوم ہوگئی دھیرے دھیرے ان سے جڑے مسا ٰ ئل سامنے آنے لگے۔
ڈاکٹرآمنہ تحسین صاحبہ نے اپنی کتاب” حیدرآبادمیں اردوکانسائی ادب “میں لکھتی ہیکہ آصف سادس میر محبوب علی کے دورِحکومت میں سماجی مئسلہ” شیخ میریجس” کی تدارک کی کوشیش بھی کی گئی جیسے کہ آصف سادس کے علم میں یہ بات لائی گئی تھی کہ عرب اورروہیلے حیدرآباد کی لڑکیوں سے نکاح کرنے کے بعد انہیں دوسرے ممالک لے جاکر فروخت کرتے ہیں تب انہوں نے تحقیقات کا حکم دیا لہذا بعد تحقیق کے رپورٹ ریاست کے وزیراعظم علی خان سالار جنگ دوم کو پیش کی گئی جسکی بناء پر انہوں نے اعلان جاری کیا اور اس پر سختی سے عمل کرنے کی تاکید بھی کی گئی .انہوں نے اشتہار کے ذریعہ عوام کو اطلاع دی کے عورتوں اور انکے اولیاء کو عربوں اور روہیلوں سے نکاح کے سلسلے میں احتیاط ملحوظ رکھنا ضروری ہے اور نائب دارلقضاء سے اقرارنامہ اور معتبر ضمانت نامہ حاصل کرنے تک روہیلے یا عرب سے ہرگز نکاح کے لئے اقدام نہ اْٹھائیں۔ (2)
چونکہ آصف جاہی دور حکومت میں اس مسلئہ پر توجہ دی گئی اقدامات اٌٹھائے گئے جیساکہ ڈاکٹر آمنہ تحسین صا حبہ نے اپنی کتاب میں بتایا ہے یہی وجہ ہیکہ شاید اسطرح کی شادی کامیاب رہی.
oct 1978 india todayمیں شائع شدہ رپورٹ سے ظاہر ہوتا ہیکہ آصف جاہی دور کے اختتام کے بعد بھی” شیخ میریجس” کا عمل جاری رہا۔زیادہ تر شیخ حیدرآباد کی لڑکیوں سے نکاح کرتے ہوئے اٌنہیں اپنی بیوی کی حیثیت دے کر اپنے ملک لے جاتے رہے اور اٌنکے والدین کو مالی مدد فراہم کرتے ہوئے انکی معاشی حالات کو بہتر کیا جسکی تفصیلی رپورٹ سابق منسٹر Roda Mistry برائے women and child welfare of andhra pradesh نے1978ء میں لوک سبھا میں پیش کی تھی انکے مطابق90% “شیخ میریجس” کامیاب رہی مزید انہوں نے کہاکہ جب غریب مسلم والدین لڑکیوںکی شادی کے اخراجات نہیں اٌٹھا سکتے ہیں تو انکے لئے بہتر ہیکہ وہ اپنی لڑکیوں کی شادی عمر رسیدہ شیوخ سے کروادے جو انکی دوسری بیوی کی حیثیت رکھتی ہیں(3).
سابق ریجنل پاسپورٹ آفسر چندر شیکھر نے بھی اس بات کا اعتراف کیا تھا کہ خلیجی ممالک کے شیوخ سے شادی کرنے والی متعدد خواتین خوشحال زندگی گذاررہی ہیں جسکی تفصیل 2اکٹوبر 1981سیاست نیوز پیپر میں شائع ہوئی تھی۔(4)
اسکے علاوہ آندھرا پردیش سوشل ویلفراڈوائزی بورڈ کی جانب سے 22جولائی1982میں ایک کانفرنس رکھی گئی جسکی صدارت نامور سماجی کارکن ارجمند وہاب الدین نے کی تھی اس کانفرنس میں بورڈکی چیرپرسن درگا بھکتا وتسل نے کہا تھا کہ State Directorate of women and child welfareکے پاس” شیخ میریجس” کے خلاف ایک بھی کیس درج نہیں ہیں۔انہوںنے یہ بھی کہاکہ خلیجی ممالک کے شیوخ سے شادی ہونے سے کئی مسلم فیملی کی معاشی صورتحال بہتر ہوئی ہے انکے مطابق 80%سے90% شادیاں کامیاب رہی ہیں(5)
الغرض اس کانفرنس کے تما م اسپیکروں نے “شیخ میریجس” کی حمایت کی۔جبکہ اس تصویر کا دوسرا رخ دیگر رپورٹس کے تجزیہ سے سامنے آتا ہے۔
دہلی کی young Muslim Association کی ایک رپورٹ دکن کرونکل اخبارمیں 22ستمبر1978ء شائع ہوئی تھی جسکی سرخی Hyderabad Cynosure of Gulf Girls Export تھی جس میں نہ صرف Roda Mistry کے وضاحت پر نکتہ چینی کی بلکہ” شیخ میریجس” ریاکٹ کے بارے میں تفصیل سے بیان کیا۔
اس تنظیم کی رپورٹ کے مطابق لکھنئو و حیدرآباد سے لڑکیاںلائی جاتی ہے اورشیوخ سے شادی کروائی جاتی ہے رپورٹ کے مطابق 99.9% خلیجی ممالک کے شیوخ سے شادی کرنیوالی لڑکیاں ٹورسٹ ویزا کے معطل ہوجانے کے بعد چند ریال اور پیسوں کے ساتھ ہندوستان بھیج دی جاتی ہیں تاکہ وہ اپنے ہندوستانی فیملی کے ساتھ رہ سکے مگر اسکے بعد کیا ہوتا ہے اسکی داستاں کبھی بھی سنائی نہیں دیتی۔ اس تنظیم نے اپنی رپورٹ میں مزید بتایا کہ بمبئی طوائف خانے میں اکثروبیشتر لڑکیاں جولائی جاتی ہیں وہ لکھئنواور حیدرآباد کے غریب طبقہ سے تعلق رکھتے ہیں(6).
Estimate Committee of AP Assembly نے 28اپریل1982 میں لوک سبھا میں اپنے سہولہویںرپورٹ کو پیش کیااس رپورٹ میں شیوخ سے شادی کرنیوالی لڑکیوں کے ساتھ ہورہے ظلم واستحصال کو ظاہرکیا غریب لڑکیوں کو خوشحال زندگی کا لالچ دیکر شیوخ سے کرواتے ہیں اور پھرانکے ساتھ بہت براسلوک کرتے ہیں اس کمیٹی نے بتایا کہ 1976کی انکوائری سے یہ تصدیق ہوتی ہیکہ بیشتر شیوخ(جنکی عمر60سے 70سال کی تھی)نے حیدرآباد کی نوجوان لڑکیوںسے شادی کی اور پھر بعد میںدوسرے عربی فیملی کے ہاتھوںباندی کے طورپر فروخت کر دیا یہ صورتحال بھیانک اورخطرناک ہیںکمیٹی نے یہ بھی بتایا کہ 1978کے بعد خلیج ممالک میںقائم ہندوستانی سفارت خانوںکو یہ ہدایت دی گئی کہ اسپانسر شپ ڈکلیریشن کی تصدیق دینے سے پہلے خلیجی ممالک کے شوہروںسے ذاتی انٹرویو لیںجنہوںنے حیدرآباد کی لڑکیوںسے شادی کی ہیں ہدایت کو انڈین میشن کے ذریعہ خلیجی ممالک میںبروئے کار لایا جائے۔ اسی دوران ہندوستان کی وزیرِاعظم محترمہ اندراگاندھی نے آندھراپردیش سرکار سے اس مسلئہ پر ایک تفصیلی رپورٹ مانگی۔ریاستی حکومت نے ایک انٹرم جواب بھیجا جس میں اس گندے رواج کی توثیق کی اور لڑکیوں کی فروخت اس گھنائو نے فعل کے تدارک اور روک تھام کے لئے چند اقدامات کو بھی بیان کیا ریاستی حکومت اور رضاکارانہ تنظیموں نے یہ مشورہ دیا کہ وقف بورڈ کے ذریعہ ان شادیوںکو انجام دیا جائے اور انہیں رجسٹرڈ کیا جائے مہر کے علاوہ کم از کم 30,000 روپئے بطورِسیکورٹی دلہن کے بنک اکائونٹ میں جمع کرنے کو یقینی بنائے۔(7)
اسی اثناء میں ان شادیوںکی نوعیت بدل گئی عرب امارات کا ایک تشکیل کردہ مشورہ روزنامہ اخبار دکن کرونکل میں بتاریغ19مئی1982کو شائع ہوا جو روزنامہ اخبارالتحاد(دبئی)کا ترجمہ تھا جس میںبتایا گیاکہ خلیجی ممالک نے اپنے قومی مرد باشندوںپر غیر ملکی لڑکیوں سے شادی کرنے پرپابندی عائد کردی ہیں اور چند فرائض منظم کردئے جیسے خلیجی ممالک کے مرد کی پہلی بیوی انکے اپنے ملک سے ہوگی اگر وہ دوسری شادی کسی غیر ملکی لڑکی سے کرتا ہے تو اسے اپنی پہلی بیوی کو ایک لاکھ دینار دینے ہونگے.جسکے بعد خلیجی ممالک کے شیوخ کا حیدرآباد کی لڑکیوں سے شادی کرنے کا سلسلہ کم ہوتا گیا مگر پوری طرح سے ختم نہیں ہوا(8).
عصر حاضر میں یہی “شیخ میریجس” پولیس اسٹیشن میںContract Marriage کے نام سے درج ہورہی ہیں اور یہی اصطلاح سماج میں رائج ہوتی جارہی ہیںکیونکہ خلیجی ممالک کے شیوخ اب صرف سیاحتی ویزا پر حیدرآباد آکر غریب مسلم خاندان کی کم عم لڑکیوںسے بعوض مال خفیہ طریقوںسے وقتیہ نکاح کر رہے ہیںجبکہ مذہبِ اسلام میںوقتیہ نکاح ایک عارضی نکاح ہیںجو نکاح متعہ کی تعریف میں آتا ہے
مولانا غلام بٹ المدنی اپنی کتاب “اسلامی نکاح اور مروجہ رسومات” میںنکاحِ متعہ کی تعریف میںلکھتے ہیںکہ متعہ کے لغوی معنی فائدہ اٹھانے کے ہیں شرعا اس سے مراد وہ نکاح ہیںجو ایک شخص کسی خاص مدت کے لئے عورت سے کرتا ہے اور یہ مدت ایک گھنٹہ، ایک دن، ایک ہفتہ، ایک مہینہ وغیرہ کے لئے ہوتی ہے مقررہ مدت کے ختم ہوجانے کے بعد یہ نکاح بغیر طلاق دئے بھی ختم ہوجاتاہے۔
مولانا لکھتے ہیںکہ ابتدائی اسلام میں نکاحِ متعہ ضرورت و احتیاج کے پیشِ نظر جائز تھا خاص کر لمبے سفر اور جنگوں میں۔لیکن نبیﷺ نے اسکے زبردست نقصاندہ ہونے کے ناطے اور امت کی عورتوںکی عصمت کی خاطر نکاحِ متعہ کو تا قیامت حرام قرار دیا ہے تمام فقہائے امصار نے بھی نکاحِ متعہ کو قرآن و حدیث کی روشنی میںناجائز اور غیر اسلامی نکاح قرار دیا ہے۔(9)
اسکے باوجود حیدرآباد کے مسلم معاشرہ میںنکاحِ متعہ خفیہ طور پر انجام دیا جارہا ہے 8 فبروری 2015 کو Nation نیوز پیپر کی شائع شدہ رپورٹ بتاتی ہیکہ ہفتہ میں 5سے6 شادیاں شیوخ کنٹراکٹ میریجس کے روپ میں خفیہ طور پر انجام دے رہے ہیںجسکے نتائج انتہائی افسوسناک ثابت ہورہی ہیں۔(10)
مفروضے:Hypothesis
-:1 مسلم لڑکیوںکی بیرونی ملک سے آنے والے شیوخ سے شادیوں کا راست تعلق مسلم معاشرہ کی تعلیمی اور معاشی پسماندگی سے ہے۔
-:2 مسلم لڑکیوںکی شیوخ سے شادیوں کے پسِ پردہ مذہبی، سماجی وتہذیبی عوامل کارفرما رہے ہیں۔
-:3 ’’شیخ میریجس’’ کے نتیجے میں مسلم خواتین مختلف مسائل کا شکار ہوتی ہیں۔
-:4 ’’شیخ میریجس’’ کی روک تھام میںدستوری و شرعی قوانین معاونِ ومددگار ثابت نہیںہورہے ہیں۔
مقاصد:Objective
-:1 حیدرآباد میں’’ شیخ میریجس’’ کی صورتحال کا احاطہ کرنا۔
-:2 ’’شیخ میریجس’’ کے پسِ پردہ تمام عوامل اور سرگرمیوں کا تنقیدی جائزہ لینا۔
-:3 ’’شیخ میریجس’’ سے خواتین کے مسائل کا تانیثی نقطہ نظر سے جائزہ لینا۔
-:4 ’’شیخ میریجس ’’کی روک تھام میں دستوری و شرعی قوانین کی ناکامی کے اسباب کا پتہ لگانا۔
تحقیقی طریقہ کار : Research Methodology
حاصل شدہ مواد کے تجزیہ کے بعد جو نتائج سامنے آئے ان سے یہ ظاہر ہوتا ہیکہ چند عرصوں سے حیدرآباد شیوخ کے کنٹراکٹ میریج کا اہم مرکز بن گیا ہے ایجنٹس ایسے علاقوں میں اپنی خفیہ سرگرمیاں جاری رکھتے ہیںجہاںغریب مسلم خاندان کے اکثریت زیادہ ہوتی ہیں اورذیادہ تر ایجنٹس ایسے طبقے کے خاندان کو اپنا نشانہ بناتے ہیںجو معمولی روزگار سے جڑے ہوتے ہیںجیسے رکشہ چلانے والے، سائیکل مرمت کرنے والے،سبزی فروش ٹھیلہ بنڈی والے ہوتے ہیں اِنہیں پیسوں کا لالچ دیکر انکی لڑکیوں کو رخیص قیمت پر خریدتے ہیں غریب خاندان کو روپیوں کا لالچ دیکر اس بات کا تیقن دلاتے ہیکہ انکی لڑکی کی شادی ایک نیک دولتمند شیخ سے کر وائے گے جو انکی معاشی بدحالی کو دور کریگا۔غربت کی وجہ سے غریب خاندان ایسے ذرائعوں کی تلاش میں رہتے ہیںجو آسانی سے کم وقت میں انکے معاشی حلات کو بہتر کرسکے۔اور یہ سونچ کر بھی راضی ہوجاتے ہیںکہ انکی لڑکی کی شادی کے لئے جہیز جیسی رسم سے بھی چھٹکارا مل جائیگا۔اور انکے گھر کی معاشی حالت بھی ٹھیک ہوجائیگی۔اور پھر ایجنٹس لڑکیوںکی تصویر لے کر ان ہوٹلوں کے چکر لگاتے ہیںجہاںپر خلیجی ممالک کے لوگ قیام کرتے ہیں ایجنٹس سے جب شیوخ کا معاہدہ پختہ ہو جاتاہے تو ایجنٹس لڑکیوں کو تیار کرکے شیوخ کے سامنے پیش کرتے ہیں اور شیوخ لڑکیوں کی خوبصورتی اور انکی عمر کی جانچ کرنے کے بعد پیسوں کی بولی لگاتے ہوئے ایجنٹس سے خرید لیتے ہیں۔دولتمند عیاش پسند شیوخ اپنی خوہشات کو پورا کرنے کیلئے پیسوں کے معاملے میںکمی پیشی اور منہ مانگی رقم دینے سے انکار نہیںکرتے اور پھر جعلی ساز ملائوں اور مولویوں کو رشوت دیکر بلایا جاتاہے جو شادی کی سرٹیفیکٹ جاری کرتے ہیں۔
کنٹراکٹ میریجس کے سلسلے میں لڑکیوں کے ساتھ جانور سے بھی بدتر سلوک کیا جاتا ہے لڑکیاں اپنے خاندانی مرد افراد باپ ،بھائی ،سوتیلا باپ ،چچا وغیرہ کے ہاتھوں ظلم کا شکار ہوجاتی ہیں اور گھر کی خواتین بھی مردوں کا ساتھدینے لگتی ہیں’’۔شیخ میریجس’’ میںلڑکیوں سے نکاح کے معاملے میں انکی رضامندی اور انکی پسند نہ پسند کی کوئی اہمیت حاصل نہیں رہتی جبکہ مذہبِاسلام میںنکاح کے معاملے میںلڑکی کی رضامندی کو خاص اہمیت دی جاتی ہے لڑکی کی رضامندی کے بغیر نکاح ایک غیر اسلامی عمل قرار دیا گیا ہے۔
’’شیخ میریجس’’ انجام دینے میںسب سے اہم رول قاضی حضرات کا ہوتا ہے قاضی حضرات اسلامی نکاح کے اصول و فرائض سے اچھے سے واقف ہوتے ہیںنکاحِ متعہ ایک غیر اسلامی نکاح ہے اسکے باوجود قاضی حضرات پیسوںکے عوض اپنے مذہبی تعلیمات کو فراموش کرکے غیر مذہبی سرگرمیوں خفیہ طریقوں سے شامل ہوجاتے ہیں۔
تحقیق کے ذریعہ حاصل کے گئے نمونے کی تفصیلات کے مطابق ’’66.66%شیخ میریجس ’’سے ناکامیاب رہے اور انکے نتائج نہایت خراب اور افسوسناک ثابت ہوئے ہیں ناکامیاب کیسس میں33.33% کیسس ایسے ہیںجس میں’’شیخ میریجس’’ سے متاثر ہوکر خواتین نے پولیس اسٹیشن میں’’شیخ میریجس’’ کو انجام دینے والے تمام افراد کے خلاف شکایت درج کروائی۔جبکہ 33.33% ایسے کیسس ہیںجو’’ شیخ میریجس’’ سے متاثر ہوکر بھی گھر کے افراد اور سماج کے ڈر سے پولیس میںشکایت درج نہیںکروائی ہیں۔
اسکے علاوہ 33.33%کیسس ایسے شامل ہیںجو خلیجی ممالک کے شیوخ سے شادی کرنے کے بعد انکے ملک جاکر انکی بیوی کی حیثیت سے خوشحال زندگی گذار رہی ہیں اور یہ شادیاں1980 سے پہلے انجام دی گئی تھی۔اگر ناکامیاب کیسس کی تفصیلات دیکھی جائے تو’’ شیخ میریجس’’ سے متاثرہ خواتین کی صورتحال انتہائی افسوسناک ہیں کیونکہ ناکامیاب کیسس میںزیادہ تر یہ بات سامنے ظاہر ہوئی ہیکہ متاثرہ خواتین صحتی ،سماجی مسائل کا شکار ہورہی ہیں۔
منتخب نمونے کے خاندان کی تعلیمی صورتحال کے تجزیہ سے معلوم ہوتا ہے عموما 90% خاندان ناخواندگی ہیں اور صرف 10% خاندان صرف پرائمیری جماعت تک ہی تعلیم حاصل کی ہیںناخواندگی کی وجہ معاشرہ میں انکی حیثیت اور بھی پست ہوجاتی ہے وہ کئی مسائل کا شکار ہوتے چلے جارہے ہیں۔اگر اِنکی معاشی صورتحال پر نظرڈالی جائے تو 100% خاندان معاشی پسماندگی کا شکار ہیں زیادہ تر خاندان کا معاشی ذریعہ گھریلو روزگار جیسے اگربتی، سیفٹی پن،بنانے والے کاموں سے جڑے ہیں اورنہایت ہی کم اجرت میںیہ کام انجام دیتے ہیںجوصرف انکے کھانے پینے کے اخراجات کو پوراکرنے کے کام آتا ہے اور ایسے میں اپنی لڑکیوںکی شادی کے اخراجات پورے کرنا انکے لئے انتہائی مشکل ہوجاتا ہے۔
منتخب نمونے کی تعلیمی صورتحال سے پتہ چلتا ہیکہ 43.3% ایسی لڑکیاں ہیں جو ناخواندہ رہی ہیں اور صرف پرائمیری کلاس تک تعلیم حاصل کرنیوالی لڑکیوں کا تناسب 50%ہیں6.6% ایسی لڑکیاںہیں جنہوںنے ہائی اسکول تک تعلیم حاصل کی ہیں’’شیخ میریجس’’ سے متاثرہ لڑکیوں میںتعلیمی فقدان انتہائی کم نظر آتاہے جسکی وجہ سے وہ اپنی شرعی و دستوری حقوق سے ناواقف رہی اور اپنے گھر والوںکی محکومیت میں اپنی زندگی بسر کررہی ہیں۔
اگر منتخب نمونے کی نکاح کے وقت عمردیکھی جائے تو 63.3% ایسی لڑکیاں ہیں جنکی عمر 15سے 17سال کے درمیان رہی اور20% لڑکیوں کی عمر نکاح کے وقت 12سے14سال کے درمیان رہی۔16.6% لڑکیوں کی عمر 18سے 23سال کے درمیان رہی۔یعنی انتہائی کم عمر میں لڑکیوں کا نکاح کروایاگیاہے۔
منتخب نمونے کے ساتھ شیوخ کی عمر کا تناسب دیکھا جائے تو10% ایسے شیوخ ہیںجنکی عمر21سے30سال کے درمیان رہی۔3.3% ایسے ہیں جنکی عمر 31سے40 کے درمیان رہی۔جبکہ 43.3%ایسے شیوخ ہیںجنکی عمر 41سے50رہی۔اور16.6%ایسے شیوخ رہیںجنکی عمر 51سے60سال کی تھی اسکے علاوہ 26.6%ایسے شیوخ رہیںجنہوںنے 61سے70سال کی عمر میں نکاح کیا ہیں۔
خفیہ طریقہ سے انجام دئے گئے’’ شیخ میریجس’’ کے طریقہ کار کا تجزیہ کرنے سے معلوم ہوتا ہیکہ 43.3%کیسس ایسے رہے جس میںنکاح نامہ پرلڑکیوںکے انگو ٹھے کے نشان لیاگیا۔اور33.3%ایسے کیسس رہیںجس میںنکاح صرف زبانی طور پرانجام دیاگیا مطلب نہ نکاح نامہ تھا اور نہ کسی کے دستخط اورنہ ہی انگوٹھے کے نشان لئے گئے۔10%ایسے کیسس ہے جنکے نکاح نامہ پر دستخط اور انگوٹھے کے نشان دونوں بھی لئے گئے اور13.3%ایسے کیسس ہیں جو پولیس نے بر وقت کاروائی کرتے ہوئے انکے نکاح کو روک دیا۔
ایجنٹس ’’شیخ میریجس’’ کو انجام دینے میںزیادہ سرگرم نظر آتے ہیں ان میریجس میں زیادہ معاوضہ ایجنٹس حاصل کر تے ہیں۔ایجنٹس کے معاوضہ کی تفصیلات دیکھی جائے تو 23.3% ایسے ایجنٹس ہیںجنکا معاوضہ 5ہزار سے 15ہزار رہا۔16.6% ایجنٹس کا معاوضہ 16 سے 30ہزار تھا6.6%. 2ایجنٹس کا معاوضہ 31 ہزار سے50ہزار کے درمیان رہا اور 20%ایجنٹس کا معاوضہ 51 ہزار سے1لاکھ تک رہا۔
اور پھر ایجنٹس معاوضہ کا 10سے 20 فیصد حصہ لڑکیوں کے والدین کو دیتے ہیں اور غریب خاندان کے لوگ تھوڑے سے معاوضہ سے خوش ہو کر اپنی لڑکیوں کی شادی زبردستی عمر رسیدہ شیوخ سے کروادیتے ہیں
’’شیخ میریجس’’ کے حاصل شدہ کیس میں جو محلہ حافظ بابا نگر سے تعلق رکھتا ہے جو 20فبروری 2014کو کنچن باغ پولیس اسٹیشن میں درج کیا گیا تھا جسکی تفصیلات بتاتی ہیکہ 17سال کی عمر میں لڑکی کا نکاح 6مرتبہ خلیجی ممالک کے عمر رسیدہ شیوخ سے بعوض مال کچھ مدت ایک دن، ایک ہفتہ ،ایک مہینہ کیلئے انجام دیا جاتارہا ایک باپ اپنی بیٹی کو جانور کی طرح ایک مرد سے دوسرے مرد کو اور دوسرے مرد سے تیسرے مرد کو بار بار بیچتا رہا۔
’’شیخ میریجس’’ سے متاثرہ لڑکیاں کئی لامتناہی مسائل کا شکار ہوتی چلی جاتی ہیںنکاح کی طئے شدہ مدت کے ختم ہوتے ہی لڑکیوں کو چھوڑکر شیوخ واپس اپنے ملک روانہ ہوجاتے ہیں اور پھر ان لڑکیوں سے کوئی دوبارہ نکاح نہیں کرتا جسکی وجہ سے انکی سماجی حیثیت اور بھی پست ہوجاتی ہیں اور انکا ذہنی ،نفسیاتی تنائو اتنا بڑھ جاتاہے جسکے نتائج بھیانک اور خوفناک نظر آرہے ہیں۔
’’شیخ میریجس ’’کا راست تعلق پدرشاہی نظام سے جڑا ہوا ہے مختلیف رپورٹس اور حاصل شدہ مواد کے تجزیہ کے بعد یہ کہا جاسکتا ہیںکہ’’ شیخ میریجس’’ کو انجام دینے کے سلسلے میںصرف مردوں کا ہی فائدہ نظر آتا ہے کوئی مرد اپنی لڑکیوں کا بوجھ کم کرنے کے لئے بیچ رہا ہے تو کوئی اپنی لڑکیوں کو پیسہ کمانے کا ذریعہ بنارہا ہے اور عیاش پسند خلیجی ممالک کے شیوخ اپنی خواہشات کو پورا کرنے کے لئے خرید رہا ہے یعنی لڑکیوں کو بیچنے والا بھی مرد اور خریدنے ولا بھی مرد۔’’شیخ میریجس’’ پدرسری نظام کو بڑھاوا دینے میں مددگار ثابت ہورہا ہے پدرسری نظام کے تحت مردوںکو حاکمیت اور عورتوں کو مرد کی محکومیت کا درجہ حاصل ہے مختلیف رپورٹس ثابت کرتی ہیکہ’’ شیخ میریجس’’ میں مردوںکا غلبہ شامل ہیں۔
خواتین کے حقوق کے حصول اور انکے استحصال کی وجوہات کو مختلیف جہد کار وں نے اپنے اپنے نقطئہ نظر سے سمجھنے کی کوشیش کی جسکے نتیجے میںمختلیف مکتبِ فکر وجود میں آئے۔تانیثیت کے ایک اہم مکتبہ فکر اشتراکی تانیثیت کے مفکرین نے سماج میں عورت کی پست حیثیت اور اس پر ہونے والے استحصال نیز صنفی امتیازات کیلئے مردانہ غلبہ یا پدرشاہی نظام کو ذمہ دار قرار دیا ہے اس مکتبہ فکر کے مطابق معاشی طور پر سماج میں افراد کی نابرابری ہی انہیں مختلیف طبقات میں تقسیم نہیں کرتی بلکہ پدرشاہی نظام کا غلبہ مکمل طور پر سماج کو دو حصوں میں ’’عورت اور مرد’’میں تقسیم کرتاہے چونکہ پدرشاہی نظام عرصے دراز سے دنیا میںرائج ہے اور اسی نظام کے تحت مردوں کا غلبہ عورت کو محکوم ومجبور بناتاچلاآرہا ہے نیز اسی نظام کے تحت صنفی امتیازات وکام کی تقسیم بھی عمل میں آتی ہیں لہذا اس مکتبہ فکر کے مفکرین نے عورت پر ہونے والے استحصال ظلم وجبر کے خاتمہ اور اسکی حیثیت کو بہتر بنانے کیلئے پدرشاہی نظام کو ختم کرنے کے نظریات پیش کئے۔
اختتامیہ
حیدرآباد میں’’ شیخ میریجس’’ کا نظام پوری طرح سے پدر سری نظام کی عکاسی کرتا ہے’’ شیخ میریجس’’ کو انجام دینے کے سلسلے میںخواتین کے ساتھ جانور سے بھی بدتر سلوک کیا جاتا ہے عورت اپنے ہی خاندانی مرد جیسے باپ،سوتیلا باپ،بھائی،چچا وغیرہ کے ہاتھوں ظلم کا شکار ہو جاتی ہیں اسکے علاوہ جہاں اس پدرسری نظام میں عورت کا استحصال ہوتا ہے نیز عورت بھی اسی نظام سے متاثر ہوکر یا مجبور ہوکر اس نظام کا حصہ بن جاتی ہیں اور ماں،سوتیلی ماں، خالہ،پھوپھی، بہن بھی مردوں کی طرح ظالمانہ رویہ اختیار کر لیتی ہے اور مردوں کے ساتھ’’ شیخ میریجس’’ کی سرگرمیوں میں شامل ہوجاتی ہے۔
یہ تمام حالات مسلم معاشرہ سے وابستہ ہے شریعتِ اسلامی میں خواتین کو پورا خاندانی تحفظ اور حق حاصل ہونے کے باوجود عصر حاضر میں مسلم خواتین مردوںکے ظلم کا شکار ہورہی ہیں۔ہندوستانی دستور میں خواتین کے تحفظ کے لئے کئی قوانین نافذ کئے گئے ہیں’’ شیخ میریجس ’’ Dowry prohibition act 1961,prohibition of child marriage act 2006, Protection of children sexual Harrassment act 2012,The immoral Traffiking (prevention)act 1956,The muslim women (protection of Right on Divorce)act 1986
جیسے جرائم سے جڑے ہوئے ہیں صرف جرئم کو انجام دینے کے طریقے بدل گئے ہیں ایسے جرئم کو انجام دینے والے مجرمین کو دستورِہند نے سخت سے سخت سزائیں مقرر کر رکھی ہیں اسکے باوجود اگر کوئی قاضی ،ایجنٹس اور لڑکی کے خاندانی مرد افراد’’ شیخ میریجس ’’کو انجام دینے کے دوران پکڑے جاتے ہیں تو ان پر قانون سختی سے کاروائی نہیں کرتا۔گھریلوں سطح سے لے کر قانونی عہدیداروں تک صرف مردوں کا غلبہ نظر آتاہے جسکی وجہ سے مجرمین روپیوں کے عوض ضمانت پر رہا ہوکر دوبارہ اسی سرگرمیوں کا عمل جاری رکھتے ہیں۔
جسکی مثال 27ستمبر 2017کو اعتماد نیوز پیپر میں شائع ہوئی ہیں قاضی عبداللہ رفاعی کو 2014میںقاضی کے عہدے پر مقرر کیا گیا تھا۔ابتدا ہی میں’’شیخ میریجس’’ کی انجام دہی میںوقف بورڈ نے اس قاضی کو معطل کردیاتھا بعد میںقاضی رفاعی نے ہائیکورٹ سے حکم التواء حاصل کرلیا۔اس حکم التواء کو برخاست کروانے کے لئے درخواست بھی دی گئی جس پر کوئی سماعت نہیں ہوئی۔ممبئی کے چیف قاضی محمد فرید احمد خان نے اس بات کا اعتراف کیاکہ عبداللہ رفاعی نے400تا 500 نابالغ لڑکیوں کے عرب شیوخ سے خفیہ طور پر شادیاں کروائی ہیں۔(11)
’’شیخ میریجس’’ مذہبی احکامات کی خلاف ورضی،انسانی حقوق کی خلاف ورضی کرتا ہے اسکے باوجود بھی قوانین شیخ میریجس کی روک تھام میں مددگار ثابت نہیںہوتے ہیں
سفارشات Suggestion
٭کنٹراکٹ مریجس ایک اہم مسئلہ ہے حکومت،قانون اور مذہبی وسماجی تنظیموں کو بھر پورتوجہ دینے کی ضرورت ہے اس طرح کی شادیوں کی روک تھام کے لئے انہیں مختلیف ذرائع استعمال کرنے ہونگے اور ان اقدامات کا جائزہ لینا ہوگا جوکہ ماضی میں ناکام ثابت ہوئے ہیں۔
٭ریاستی حکومت کو وقف بورڈ کے لئے نئی گائیڈ لائن تیار کرنی چاہئے یا موجودہ ہدایت نامہ کا دوبارہ جائزہ لینا چاہئے جو ہندوستانی لڑکیوں کی خلیجی ممالک کے باشندوں سے متعلق ہیں۔
٭ریاستی حکومت کو قاضی کے تمام حرکات اور سکنات پر کڑی نظر رکھنی چاہئے اگر کوئی قاضی اس طرح کی شادی کرانے میں خلاف قانون عمل میں بالواستہ یا بلا واستہ طورپر ملوث پایاجاتا ہے تو اسے اسکی خدمت سے فوراٌبرخاست کردیا جائے اور نہایت سخت سزا دی جائے۔
٭علماء اپنی تقریروں،کانفرنسوں اورجلسوں،اخبارات، رسالئہ جات کے ذریعہ خواتین کے ساتھ ممنوع اور فاسد نکاح متعہ کے تئیں ہورہی ناانصافیوںکو روکنے کی کوشیش کریں۔
٭’’شیخ میریجس’’ سے متاثرہ خواتین اپنے خلاف ہونے والی ناانصافیوں کے خلاف آواز اٹھانے کے لئے آگے آنا چاہئے اور ان افراد کے خلاف قانونی کاروائی کروائے جنہوں نے نکاح کے نام پر انکا استحصال کرتے رہے۔
٭گذشتہ چند سالوں میں موجودہ چیف منسٹر نے غریب مسلم خاندان کی لڑکیوں کی شادی کے لئے مالی امداد کے طور پر شادی مبارک اسکیم شروع کی ہے جو قابلِ ستائش ہے مگر جولڑکیاں ’’شیخ میریجس’’ میں پہلے سے ہی پھنس گئی ہیں انکے لئے دیگر فلاحی اسکیمات جاری کرنے کی ضرورت ہے۔
حوالہ جات Refrences
(1) عارف ایم الختار Religion and Terrorism:An interfaith pespective صفحہ نمبر 16 ،Greenwood publishing Group, 2013.
(2) آمنہ تحسین صاحبہ، حیدرآباد میں اردو کا نسائی ادب، نئی دہلی 2016۔
(3)اکتوبر 1978انڈین اکسپریس۔
2(4) اکتوبر1981سیاست نیوزپیپر۔
(5) دکن کرونکل 23 جولائی 1978۔
22(6)ستمبر 1978دکن کرونکل۔
(7)دکن کرونکل 16مئی 1982۔
(8)دکن کرونکل 19مئی1982۔
(9)مولانا غلام بٹ المدنی ،نکاح اور مروجہ رسومات،صفحہ نمبر 17 ،وین گارڈن پبلیکیشن،کشمیر۔
(10) 8 فبروری 2015 Nation نیوزپیپر۔
(11)27ستمبر2017اعتمادنیوز پیپر۔
٭٭٭

Leave a Reply

Be the First to Comment!

Notify of
avatar
wpDiscuz
Please wait...

Subscribe to our newsletter

Want to be notified when our article is published? Enter your email address and name below to be the first to know.