اردو ادب میں خاکہ نگاری کی روایت

شکیل احمد

ریسر چ اسکالر،  شعبہ اردو ، دہلی یونی ورسٹی دہلی

ادب زندگی کا آئینہ ہے جس میں زندگی کے ہر ایک پہلو کا عکس ابھرتا ہے۔ اس معاشرے کی بنیاد انسان پر قائم ہے ہر شخص دوسرے سے رنگ، نسل اور علاقائی اعتبار سے مختلف ہونے کے ساتھ عادات و اطوار اور فکری و فنی لحاظ سے بھی مختلف ہوتا ہے۔ پوری دنیا کا محور انسان ہے اور انسان نے اس دنیا میںرہنے بسنے اور زندگی گزارنے کے لیے مختلف کارہائے نمایاں انجام دیے ہیں۔ نئی نئی ایجادات اور تکنیک سے دنیا کی آنکھوں کو چکا چوند کیا ہے۔ جو کہ الگ موضوع کی طرف رخ اختیار کرتی ہیں لیکن ادب انسانی تخلیق کاوہ فن ہے جس میں اس کے اور اس سے جڑے مسائل موجود ہیں۔ ساتھ ہی ادب فنون لطیفہ کی دلچسپ قسم بھی ہے۔پوری کائنات کا خالق اللہ تعالیٰ ہے لیکن ادب کا خالق انسان ہے اور انسان کی شخصیت کا عکس سوانح نگاری یا خاکہ نگاری میں دیکھنے کو ملتا ہے جو کہ ادب کی مختصر صنف ہے۔

انسانی شخصیت کو میزان پر تولنے کے فن کو اگر خاکہ نگاری کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کیونکہ اس کے ذریعہ شخصیت کے تقریباً ہر ایک پہلو کا مطالعہ کیا جاتا ہے مختلف زاویوں سے مطالعہ کرنے کا فن ہوتا ہے۔ ظاہری کیفیات کا اندازہ تو بخوبی لگایا جا سکتا ہے لیکن باطن میں چھپے ہوئے شخص کا مطالعہ دیر پا اور نا مکمل بھی ہو سکتا ہے۔باطنی خصوصیات کا جائزہ اس شخص کے فکری اور فنی خیالات و احساسات اس کی سوچ سے لگایا جا سکتا ہے۔ ان تمام پیمانوں کو اکٹھا کر کے محققین اور ناقدین نے اپنے اپنے خیالات کا اظہار شخصیت کے خصوصی دائرے میں کیا ہے۔

اردو کی غیر افسانوی نثری صنف میں خاکہ نگاری کو ایک خاص اہمیت حاصل ہے۔ دیگر نثری اصناف کی طرح اس نے بھی بہت کم عرصے میں اپنی جڑوں کو مضبوط کیا ہے اور دل کشی کے مختلف نمونے پیش کیے ہیں۔ سوانح کی طرح خاکے میں شخصیت کی تخصیص نہیں ہوتی۔ سوانح میںعموماً قابل ذکر شخصیتوں کو ہی موضوع قلم بنایا جاتا ہے۔ سوانح نگار کی زندگی کے نشیب و فراز اور اتار چڑھائو کو تفصیلی و اجمالی طور پر ضبط تحریر میں لایا جاتاہے جب کہ خاکہ نگاری کو کسی بھی معمولی یا غیر معمولی انسان کی زندگی میں کوئی ایسی خوبی یا اچھائی نظر آ جائے ، جو اسے لکھنے کے لیے مجبور کر دے تو خاکہ نگار اسے صفحۂ قرطاس پر اتار دیتاہے ۔ خاکے میں افسانہ و غزل کی طرح اشارے و کنائے سے کام لیا جاتا ہے کیونکہ اختصار اس کی بنیادی شرط ہے۔ خاکے میں کسی شخصیت کے نقوش اس طرح ابھارے جاتے ہیں کہ اس کی خوبیاں و خامیاں اجاگر ہو جاتی ہیں اور ایک جیتی جاگتی تصویر قاری کے ذہن میں دوڑنے لگتی ہے۔خاکے کی دلکشی کا راز یہ ہے کہ جس کا خاکہ لکھا جائے اس کی کمزوریاں قاری کے دل میں نفرت کے بجائے ہمدردی و محبت پیدا کر دیں اور خاکہ پڑھ کر وہ بے ساختہ کہے کہ کاش اس شخص میں یہ کمزوریاں بھی نہ ہوتیں ۔ ڈاکٹر عبدالحق نے ’’ نام دیو مالی‘‘ اور رشید احمد صدیقی نے ’’ کندن‘‘ پر خاکہ لکھ کر یہ واضح کر دیا ہے کہ خاکے کا موضوع عظیم شخصیتیںہی نہیں معمولی انسان بھی ہو سکتے ہیں۔ اچھا برا، چھوٹا بڑا، امیر غریب، خوب صورت، بد صورت ہر طرح کا انسان خاکے کا موضوع بن سکتاہے۔ بشرطیکہ خاکہ نگار نے ہر رنگ و روپ میں اس کا گہرائی سے مشاہدہ کیا ہو۔ اس سے بڑھ کر یہ کہ خاکہ نگار امیجری، پیکر تراشی اور مردہ جسم میں روح ڈالنے کے فن سے واقف ہو۔ عموماً خاکہ نگاروں نے ایسی شخصیتوں پر لکھا ہے، جنہوں نے مختلف شعبہ ہائے زندگی میں گراں قدر خدمات انجام دی ہیں۔

ابتدائی دنوں میںخاکہ نگاری کے کوئی اصول و ضوابط متعین نہیں تھے۔ بیش تر خاکہ نگار اپنے وضع کردہ اصولوں کی روشنی میں اور بعض نے بغیر کسی اصول و ضوابط کی پابند ی کے محض زبان کے چٹخارے کے طور پر علمی، ادبی ، سیاسی، سماجی شخصیتوں کے خاکے لکھے۔ جب کہ بعض خاکہ نگاروں نے اپنے پیش روئوں کی نقالی یا ان سے سبقت لے جانے کی خاطر بھی اس صنف میں طبع آزمائی کی،لیکن جب خاکہ نگاروں کا بھیڑ جمع  ہوگیا ، تو ناقدین فن کو اس کی تراش و خراش کی ضرورت محسوس ہوئی کہ کسے صنف ادب میں رکھا جائے اور کسے ادب کے زمرے سے خارج قرار دیا جائے۔

خاکہ نگاری کے ابتدائی نقوش کا جائزہ لیتے ہوئے جب ہم انیسویں صدی میں لکھے گئے تذکرے، روزنامچے ، خود نوشت ، سوانح حیات خطوط اور شاعری کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں اس کے کہیں واضح اور کہیں مبہم نقوش ملتے ہیں۔ ظاہر ہے ان میں پائے جانے والے نقوش خاکے تو نہیں ہیں۔ لیکن ان کے مطالعے کے بغیر اردو خاکہ نگاری کا مکمل مطالعہ نہیں پیش کیا جا سکتا ہے کیوں کہ ان میں پوری ایک روایت ملتی ہے جو اردو خاکہ نگاری کی تعریف کو پیش کرنے میں معاون ثابت ہوتی ہے۔ ناول اور افسانہ کی طرح خاکہ نگاری بھی مغربی ادب کی دین ہے لیکن اردو ادب میں خاکہ نگاری کے ابتدائی نقوش تذکروں میں ملتے ہیں۔ اگر چہ یہ تذکرے شعراء نے اپنی یادداشت کے طورپر شاعر کا نام، مقام اور اس کے کلام کے کچھ نمونے لکھ لیے تھے۔ تذکرے زیادہ تر فارسی زبان میں لکھے گئے ہیں۔ چونکہ مغلیہ دور میں سرکاری زبان فارسی ہی رہی ہے۔ اس لحاظ سے زیادہ تر تذکرے فارسی زبان میں ملتے ہیں۔ اگر چہ فارسی تذکروں کی اہمیت اپنی جگہ مسلم ہے۔ لیکن ہمیں اردو تذکروں کے حوالے سے خاکہ نگاری کے نقوش تلاش کرنے ہیں۔ تذکروں کے مطالعے سے اندازہ ہوتاہے کہ میرکے تذکرے ’’نکات الشعراء‘‘ کو ہی پہلے تذکرے کی حیثیت حاصل ہے۔ اردو تذکروں کی جہاں تک بات ہے تو اردو تذکروں کے تراجم تو بہت ملتے ہیں۔ لیکن خاص اردو زبان تذکرے برائے نام ہی لکھے گئے ہیں۔

 تذکروں میں ’’آب حیات‘‘ کو اس کا بنیادی ماخذ تصورکیا گیا ہے۔محمد حسین آزاد اس کا ثبوت پیش کرتے ہوئے اپنی کتاب ’آب حیات ‘میں رقمطراز ہیں۔

’’ …اور جہاں تک ممکن ہو اس طرح لکھوں کہ ان کی زندگی کی بولتی چالتی، پھرتی تصویریں سامنے آن کھڑی ہوں۔اور انھیں حیات جاوداں حاصل ہو۔‘‘

محمد حسین آزاد کے  بعد فرحت اللہ بیگ نے 1927میں ’’نذیر احمد کی کہانی کچھ ان کی کچھ میری زبانی‘‘کے نام سے خاکہ لکھا۔جو کہ اردو خاکہ نگاری میں ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ ان کے پاس اپنے استاد کے زندگی کے واقعات و حالات کے بارے میں کافی ذخیرہ تھا۔اگر وہ چاہتے ہو سوانح بھی لکھ سکتے تھے۔ لیکن انہوں نے خاکے کو سوانح پر ترجیح دی۔وہ اس سلسلے میں خود لکھتے ہیں:

’’ جہاں مولوی صاحب کی خوبیاں دکھائوں گا وہاں ان کی کمزوریوں کو بھی ظاہر کروںگا تاکہ مرحوم کی اصلی جیتی جاگتی تصویر کھینچ جائے اور یہ چند صفحات ایسی سوانح عمری میں نہ بن جائیں جو کسی کے خوش کرنے یا جلانے کے لیے لکھی گئی ہو۔

اس کتاب نے مرزا فرحت اللہ بیگ کو اول درجے پر لا کھڑا کر د یا ۔ مرزا نے اپنے استاد کی پوری تصویر الفاظ کے ذریعہ آنکھوں کے سامنے اتار دی ہے۔ ان کی جسمانی ، ذہنی اور اخلاقی تصویر کشی بہت بہترین انداز سے کی ہے۔نیز شخصیت کی خوبیوں اور خامیوں کو بھی حتیٰ المقدور اجاگر کرنے کی کوشش کی ہے۔ فرحت اللہ بیگ کی خاکوں سے متعلق دوسری قابل ذکر تصنیف ’’ دہلی کا یادگار مشاعرہ‘‘ہے۔ انہوں نے اس مشاعرے میں موجود شعراء کا بہت بہترین خاکہ کھینچا ہے۔ مومن خاں مومن کے شعر پڑھنے کے عادت اور انداز پر گہرائی سے مطالعہ کرنے بعد رقمطراز ہیں۔

’’ انہوں نے شمع کو ذرا آگے رکھا، ذرا سنبھل کر بیٹھے باتوں باتوں میں ا نگلیوں سے کنگھی کی ٹوپی کو کچھ ترچھا کیا، آستینوں کو چنٹ کو صاف کیا اور بڑی درد انگیز آواز میں میں دل پذیر ترنم کے ساتھ غزل پڑھی شاعری کا جادو تھا تمام لوگ اک عالم محویت میں بیٹھے تھے وہ خود بھی اپنے کلام کا مزہ لے رہے تھے جس شعر میں ان کو زیادہ لطف آتا تھااس کو پڑھتے وقت ان کی انگلیاں زیادہ تیزی سے بالوں میں چلنے لگتی تھیں۔ بہت خوشی ہو تو زلفوں کو انگلیوں میں بل دے کر مروڑنے لگتے ۔ کسی نے تعریف کی تو گردن جھکا کر ذرا مسکرا دئیے ، پڑھنے کا طرز بھی سب سے جدا تھا ہاتھ بہت کم ہلاتے تھے اور ہلاتے بھی کیسے ہاتھوں کو بالوں سے فرصت کب تھی ہاں آواز کے زیر و بم اور آنکھوں کے اشاروں سے جادو کر جاتے تھے غزل ختم ہوئی تو تمام شعرا نے تعیریف کی مسکرائے اور کہا آپ لوگوں کی یہی عنایت ہو تو ہماری ساری محنت کا صلہ ہے۔‘‘

مرزا فرحت اللہ بیگ کے بعد اردو خاکہ نگاری کے فن کو آگے بڑھانے والوں میں رشید احمد صدیقی، مولوی عبدالحق، خواجہ حسن نظامی، آغا حیدرحسن ، شاہد احمد دہلوی، اشرف صبوحی، سردار دیوان سنگھ مفتون ، جوش ملیح آبادی ، خواجہ محمد شفیع ،مرزا محمد بیگ، مالک رام،سعادت حسن منٹو، عصمت چغتائی، شوکت تھانوی، محمد طفیل ،سیدا عجاز حسین، کنہیا لال کپور ، شورش کاشمیری ، فرقت کاکوری، فکر تونسوی، بیگم انیس قدوائی ، قرۃ العین حیدر، انتظار حسین ، مجتبیٰ حسین، سید ضمیر حسن ، چراغ حسن حسرت، خواجہ غلام السیدین، سید صباح الدین، بیگم صالحہ عابد حسین، مجید لاہوری، علی جواد زیدی، بیدی کرشن چندر، ظ انصاری، بلونت سنگھ وغیرہ اہم ہیں۔ سبھی خاکہ نگاروں پر اس مختصر مضمون میں تبصرہ ممکن نہیں ہے۔ یہاں پرہم صرف چند اہم خاکہ نگاروں پر بہت ہی اختصار کے ساتھ بات کریںگے۔

خاکہ نگاری کے فن کو عروج پر پہنچانے والوں میں مولوی عبدالحق کا نام سرفہرست ہے۔ انہوں نے اس فن کو آگے بڑھاتے ہوئے اپنی جانی پہچانی شخصیتوں کے حالات و کارنامے لکھے۔ مولوی صاحب اپنی کتاب’’ چند ہم عصر‘‘ میں تقریباً اپنے بیس ہم عصر احباب کی خوبیوں اور خامیوں کا ذکر کرتے ہوئے نہایت حقیقت بیانی اور صاف گوئی سے کام لیا ہے۔مولانا محمد علی جوہر بہت بڑے سیاستداں، انگریزی اور اردو زبان کے صحافی اور شعلہ بیاں مقرر تھے۔ لیکن جب ان کی شخصیت کی عکاسی کرتے ہیں تو ان کی زندگی کے ہر پہلو پرروشنی ڈالتے  ہیں۔جیسا کہ ان کے اس اقتباس سے پتا چلتا ہے۔

’’ مولوی محمد علی مرحوم عجیب و غریب شخصیت لیے ہوئے ہیں وہ مختلف متضاد اور غیر معمولی اوصاف کا مجموعہ تھے۔ اگر انھیں ایک آتش فشاں گلیشیر سے تشبیہ دی جائے تو کچھ زیادہ مبالغہ نہ ہوگا۔ ان دونوں میں عظمت و شان ہے ۔ لیکن دونوں میں خطرہ و تباہی بھی موجود ہے،وہ آزادی کا دل دادہ اور جبر و استبداد کا پکا دشمن تھا۔ اگر اس کے ہاتھ میں کبھی اقتدار آتا تو وہ بہت بڑا جابر ہوتا وہ محبت و مروت کا پتلا تھا اور دوستوں پر جان نثار کرنے کے لیے تیار رہتا تھا لیکن بعض اوقات ذراسی بات پر اس قدر آگ بگولا ہو جاتا تھا کہ دوستی اور محبت طاق پر دھری رہ جاتی تھی۔ دوست بھی اس کے جاں نثار اور فدائی تھے لیکن اس طرح بچتے تھے جیسے آتش پرست آگ سے بچتا ہے۔

مولوی عبد الحق اس فن کو مزید آگے بڑھاتے ہوئے محسن الملک ، راس مسعود، سرسید احمد خاں جیسی شخصیات پر خاکے لکھے ۔ انہوں نے ’’نام دیو مالی‘‘ کے نام سے بھی ایک خاکہ لکھا ۔اس خاکے کا موضوع مشہور شخصیات سے ہٹ کر ایک باغ کے مالی کو بنایا۔ مولوی عبدالحق اس خاکے کے ذریعہ یہ پیغام دینا چاہتے تھے کہ خاکے صرف مشہور شخصیات پر ہی نہیں لکھے جاتے بلکہ سماج میں رہنے والے عام انسان پر بھی خاکے لکھے جا سکتے ہیں۔

رشید احمدصدیقی نے اس فن کو آگے بڑھاتے ہوئے مشہور شخصیات کے حالات و کارنامے پر خاکے لکھے۔اس موضوع پر ان کی تین قابل ذکر کتابیں ہیں۔ ’’گنج ہائے گرانمایہ ، ہم نفسان رفتہ، اور ذاکر صاحب‘‘ ہیں جو کہ خاکہ نگاری میں کافی اہمیت کی حامل ہیں۔

 اسی سلسلے کی ایک کڑی عصمت چغتائی بھی ہیں جو ایک مشہور ناول نگار ہونے کے ساتھ ساتھ ایک اچھی خاکہ نگار بھی تھیں۔انھوں نے اپنے بھائی عظیم بیگ چغتائی پر ’’ دو زخی ‘‘ کے نام سے خاکہ لکھ کر اس فن کو بام عروج تک پہنچایا۔

خواجہ حسن نظامی نے بھی خاکہ نگاری کے فن کو جلا بخشی ۔یہ ایسے خاکہ نگار ہیں جنہوں نے عام روش ہٹ کر خاکے لکھے ، گہرائی و گیرائی اور شوخی و ظرافت ان کے خاکے میں بدرجۂ اتم موجود ہے۔

 شوکت تھانوی’’ شیش محل اورقاعدہ بے قاعدہ ‘‘ جیسے شخصی خاکے لکھ کر اس روایت کو آگے تک لے گئے۔ سعادت حسن منٹو کہاں کسی کم تھے انہوں نے بھی’’ گنجے فرشتے ،لائوڈ اسپیکر اور فلمی شخصیتیں ‘‘ کے نام سے شخصی خاکے کے مجموعے لکھ کرخاکہ نگاری کے فن میں چار چاند لگا دیے۔ ان کا اپنا ا اسلوب اور انداز تحریر  بالکل مختلف اور جدا ہے۔ جس کے ذریعہ سے وہ انسانوں کو جانچتے اور پرکھتے ہیں۔ گنجے فرشتے کے دیباچہ میں اس بات کی تصدیق کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔

’’ میں ایسی دنیا پر ، ایسے مہذب ملک پر ، ایسے مہذب سماج پر ہزار لعنت بھیجتا ہوں جہاںیہ اصول مروج ہو کہ مرنے کے بعد ہر شخص کو کردار اور تشخص کی لانڈری میں بھیج دیا جائے ۔ میرے اصلاح خانے میں جہاں سے وہ دھل کر آئے اور رحمۃ اللہ کی کھونٹی پر لٹگا دیا جائے۔ میرے اصلاح خانے میں کوئی گھنگھرو پیدا کرنے والی مشین نہیں۔ میں بنائو سنگار کرنا نہیں جانتا آغا حشر کی بھیگی آنکھ مجھ سے سیدھی نہیں ہوسکتی ۔ اس منہ سے گالیوں کے بجائے میں پھول نہیں جھڑا سکا۔ میرا جی کی ذلت پر استری نہ ہوسکی اور میں اپنے دوست شیام کو مجبور کر سکا ہوں کہ وہ غلط عورتوں کو صاحبہ کہے۔ اس کتاب میں جو فرشتہ بھی آیا ہے اس کا مونڈن ہوا ہے اور یہ رسم میں نے بڑے سلیقے سے اداکی ہے۔‘‘

پروفیسر سلیمان اطہر جاوید موجودہ دور میں خاکہ نگاری میں اہم ستون کی حیثیت جانے جاتے ہیں۔ ان کے خاکوں کا مجموعہ ’’ چہرہ چہرہ داستان‘‘ کے نام سے منظر عام آیا ۔ ان کے خاکوں میں شخصیت بالکل ہمارے آنکھوں کے سامنے چلتی پھرتی نظر آتی ہے۔ایسا لگتا ہے وہ شخصیت ہمارے نظروں کے سامنے موجود ہے۔ کچھ اسی طرح انہوں نے عبدالماجد دریا بادی کی تصویر کھینچی ہے۔

’’چند لمحے ہوئے ہوں گے چلمن کو جنبش ہوئی اور ماجد صاحب برآمد ہوئے دراز قد، چوڑا چکلہ سینہ، سرخ و سفید رنگ، کسی قدر خمیدہ مگر بھرا بھرا جسم، کتابی چہرہ، ستواں ناک، عبادت اور ریاضت سے پر نور دراز اور بھرپور داڑھی، روشن آنکھیں ہر بن منہ سے شادابی ٹپکتی ، سفید کرتا، سفید پاجامہ، میں نے تصور میں ماجد صاحب کی جو تصویر بنائی تھی زیادہ فرق نہ نکلا گویا علم و ادب میرے سامنے مجسم ہو۔

 مالک رام نے ’’ وہ صورتیں الٰہی ‘‘ کے نام خاکہ لکھا ۔ ان کا یہ خاکہ اس میدان میں ایک اہم اضافہ ہے۔ انھوں نے اپنے خاکے میں بہترین طریقے سے تصویر کشی کی ہے۔ جگرمرآبادی کی تصویرکشی ان الفاظ میں کی ہے۔

’’ میانہ قد، خاصا سانولا رنگ، چپٹی ناک، چھوٹی چھوٹی نیم وہ آنکھیں اور ان میں سرخی کی جھلک ، ہونٹوں پر پان کا لاکھا جما ہوا، ترشی ہوئی کھچڑی داڑھی، جس میں چاول کم اوردال زیادہ تھی۔ سر پر لمبے لمبے ترتیب پٹھے جو ٹوپی سے باہر نکلے پڑتے تھے۔ گلے میں سیاہ رنگ کی شیروانی اور نیچے چوڑی دار چست پاجامہ، سر پرسلیٹی رنگ کی بالوں والی اونچی دیوار کی ٹوپی اور پائوں میں سیاہ رنگ کا پمپ پہنتے تھے۔ طبیعت میں حد درجہ بے چینی اور وحشت حالانکہ وہ صرف چند منٹ کے لیے رکے، لیکن اس دوران میں بھی انھوں نے جو باتیں کیں کچھ عجیب اکھڑی اکھڑی سی یوں معلوم ہوتا تھا گویا اپنے سائے سے بھڑ ک ر ہے ہوں یہ تھے جگر صاحب۔‘‘

علی جواد زیدی نے ’’ ہم قبیلہ‘‘ اور شاہد احمددہلوی نے ’’ گنجینۂ جوہر ‘‘ لکھ کر اس روایت کو مزید مستحکم کیا ہے۔

 اس کے علاوہ تذکرۂ شاعرات، بہارستان ناز، تذکرۂ علما اور خواجہ حسن نظامی کے لاتعداد روزنامچوں سے بھی خاکہ نگاری کے نقوش کو تلاش کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ ان تذکروں یا روز نامچوں میں کسی بھی قسم کی مایوسی نظر نہیں آتی بلکہ خاکہ نگاری کے نقوش بہت واضح طور پر سامنے آتے ہیں۔ بالخصوص روز نامچوں میں شخصی خدو خال پر کافی زور دیا گیا ہے۔

خواجہ حسن نظامی کے روزنامچوں کی اہمیت آج بھی مسلم ہے ۔ ان کے یہ روزنامچے ماہنامہ’’ منادی‘‘ میں مسلسل چھپتے رہے جو کئی جلدوں پر مشتمل ہے۔ ان روزنامچوں میں بھی خاکہ نگاری کے ابتدائی نقوش دیکھنے کو ملتے ہیں۔ مختلف خصوصیات کے ساتھ حسن صاحب نے روزنامچوں میں شخصیت کاذکر پیش کیا ہے۔ مولانا  اسرارالحق کا ذکر ’’ طوطیٔ ہند‘‘ کے خطاب سے روزنامچے میں کیا ہے۔ خواجہ صاحب  ان کا ذکر کچھ اس طرح سے کرتے ہیں:

’’ طوطیٔ ہند: مولانا اسرارالحق صاحب طوطیٔ ہند سے بھی دعوت میں ملاقات ہوئی۔ سالہا سال کے بعد ملے خوب معانقہ ہوا۔ میرے پرانے ملنے والے ہیں۔ آج کل رہتک میں رہتے ہیں۔ ان کا وعظ اور ان کی تقریر اوران کا لحن بہت مقبول ہے اور مسلمان ان کو طوطیٔ ہند کہتے ہیں۔ نہایت گورے چٹے خوبصورت عالم ہیں۔ آج میں نے دیکھا بال سفید ہوگئے ہیں۔ بوڑھے معلوم ہوتے ہیں۔ حالانکہ عمر میں مجھ سے چھوٹے ہیں‘‘۔

مندرجہ بالا اقتباس میں مولانا کی شخصیت کے کچھ پہلو نمایاں طور پر نظر آتے ہیں۔ ظاہری خدو خال کا ذکر تو نہیں ملتا ہے۔ اس بات کا پتا چلتا ہے کہ مولانا صاحب بہت خوب صورت اور گورے چٹے تھے۔ بالوں میں چاندنی دیکھ کر نظامی صاحب کو بھی تعجب ہوتا ہے کہ اتنی جلدی بالوں میں سفیدی دکھائی دینے لگی ۔ جب کہ مولانا اسرار الحق خواجہ حسن سے عمر میں چھوٹے تھے۔ ’’ طوطیٔ ہند‘‘ کا خطاب اپنے ا ٓپ میں بہت بڑا معنی رکھتا ہے۔ ان کا وعظ لوگوں کا متاثر کرتا تھا۔ ان تمام باتوں کے پس منظر سے اس بات کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ وہ مسلمان قوم میں مقبول تھے اور اسی لیے مسلمان آپ کو طوطیٔ ہند کے نام سے پکارتے تھے۔ خواجہ حسن صاحب کے پرانے ملنے والوں میں سے تھے۔

حسن نظامی صاحب کا جن لوگوں سے تعلق رہا یا ملاقات رہی اس کا تفصیل کے ساتھ ان کے روزنامچوں میں ذکر موجود ہے۔ جس میں خاکہ نگاری کے نقوش نظر آتے ہیں۔ عبدالرزاق نظامی کا ذکر کرتے ہوئے ان کا نقشہ بہت عمدہ انداز میں کھینچا ہے۔

’’ عبدالرزاق نظامی: فیض آبادی کے دل میں قوم اور اردو زبان کا بہت درد تھا۔ اور وہ یہ کام محض اخباروں کی امداد کے لیے کرتے ہیں۔ دبلا بدن، میانہ قد ہے، چالیس کے قریب عمر ہے۔ میرے پرانے مریدوں میں ہیں۔ ان کا ذریعۂ معاش اخبار فروشی نہیں ہے۔ بلکہ کسی جگہ نوکر ہیں اور فرصت کے وقت اخبار کا کام بھی کرتے ہیں‘‘۔

اگرچہ ان شخصیات کا ذکر روزنامچوں میں کیا گیا ہے لیکن جس وقت خاکہ نگاری کا تصور موجود نہیں تھا یہ تمام تذکرے خاکے ہی معلوم ہوتے ہیں کیونکہ ان میں اس قسم کا ذکر ملتا ہے جو کسی شخص کی ذاتی معلومات میں اضافہ کرتا ہے۔ اس لحاظ سے خاکے ہی معلوم ہوتے ہیں۔

ان روز نامچوں میں شخصیت کے حوالے موجود ہیں، جن میں خاکے کے نقوش بآسانی تلاش کیے جا سکتے ہیں۔ تمام حوالے اس بات کا ثبوت ہیں کہ روزنامچے ہوں خواہ قلمی چہرے ان میں خاکہ نگاری کا آغاز نظر آتا ہے۔ روزنامچوں میں مرعی ، غیر مرعی خاکے بھی موجود ہیں۔ جو خاکہ نگاری کی ابتدائی تحریریں ہیں۔ جن سے خاکہ نگار کو خاکے لکھنے کے لیے مواد فراہم ہوا۔

مرئی خاکوں میں انسانی شخصیت کو اہمیت حاصل ہے۔ جس سے خاکہ نگاری کی بنیاد پڑی۔ غیر مرئی خاکوں میں ملاوٹ، بجٹ، مہنگائی وغیرہ جیسی چیزوں کے خاکے لکھے بھی گئے۔ ان غیر مرئی خاکوں کے علاوہ خواجہ حسن نظامی کے خاکے ’اللہ میاں، فرشتے ، گناہگاروں کے لیڈر شیطان کے بھی خاکے ہیں جو اپنی مثال آپ ہیں۔

خواجہ صاحب اللہ کا بھی خاکہ لکھ دئے ، جہاں انسان تصور نہیں کرسکتا کہ وہ ’’ اللہ تعالیٰ‘‘ کا بھی خاکہ لکھ دیںگے۔ا س کے لیے بھی خواجہ صاحب نے وہ الفاظ پیدا کر لیے کہ جس کا تصور ممکن نہیں تھا۔ اللہ میاں کا یہ خاکہ ملاحظہ فرمائیے:

’’ بے صورت کی ایک مورت ، تارہ بھی نہیں ، چاند بھی نہیں، سورج بھی نہیںہفت افلاک بھی نہیں، عرش و کرسی بھی نہیں، سمندر اور پہاڑ بھی نہیں، بہتا ہوا دریا بھی نہیں، ششدر اور حیران کنارہ بھی نہیں، کوندنے والی بجلی بھی نہیں،گرجنے والا بادل بھی نہیں، جمادات بھی نہیں، نباتات بھی نہیں، انسان بھی نہیں، وہ تو بس بے صورت کی ایک مورت ہے…کیا وہ لیلیٰ کے چہرے کا حسن ہے؟ کیا وہ مجنوں کا آہ و بکا ہے ؟ کیا وہ شیریں کی میٹھی بات ہے؟… سب صورتیں اس کی، سب حلیے اس کے، سب چہرے اس کے، سب جلوے اس کے، سب روشنیاں اس کی، سب نور اس کے، سب اندھیرے اس کے، سب سیرتیں اس کی…قاتل ومقتول، جاہل ، مجہول، عالم و معلوم، خطاوار اور بے خطا، خوبصورت و بد صورت کالا اور گورا، ادنیٰ اور اعلیٰ اندھیرا اور اجالا، سب اسے نظر نہ آنے والے مگر ہر ایک کا منظور نظر کا سراپا اور حلیہ ہے‘‘۔

روز نامچے یادگار کے طو ر پر تحریر کیے گئے لیکن ان میں مختلف شخصیات، ان کی ملاقات اور خیالات کا اظہار ملتا ہے جو کہ خاکہ نگاری کی ابتدا تھی نہ صرف روز نامچوں اور تذکروں میں ہی خاکہ نگاری یا شخصیت نگاری کی تلاش جاری رہی بلکہ شاعری کی خاص صنف نظم میں بھی اس کے بہترین نمونے دیکھنے کو ملتے ہیں۔ محمد قلی قطب شاہ کی حضرت سلیم چشتی، گرونانک اور بڑھاپا جیسی نظموں میں شخصیت نگاری واضح طور پر نظر آتی ہے۔ اس کے علاوہ نظیر اکبرآبادی کی نظمیں آدمی نامہ، روٹی، مولانا الطاف حسین حالی ؔکی نظمیں لاڈلہ بیٹا، برق کلیسا، مناجات بیوہ اس کی بہترین مثالیں ہیں۔

خاکہ نگاری نے جس تیزی کے ساتھ ترقی کے منازل طے کیے ہیں اس سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ اس کا مستقبل بہت کامیاب اور تابناک ہے۔ خاکہ نگاری اردو ادب کی مختصرسہی لیکن اہم صنف ہے اگر اس کے فنی لوازمات کے ساتھ اس کو برتا جائے تو اس کے فن کو برقرار رکھا جا سکتا ہے۔

حوالے:

۱۔            آب حیات ، محمد حسین آزاد، ص:۴

۲۔            نذیر احمد کی کہانی کچھ ان کی کچھ میری زبانی،مرزا فرحت اللہ بیگ، ص:۶

۳۔            دہلی کا یاد گار مشاعرہ،مرزا فرحت اللہ بیگ، ص:۲۷۱

۴۔            چند ہم عصر، مولوی عبدالحق ،ص:۲۵۱ا

۵۔            دیباچہ گنجے فرشتے،سعادت حسن منٹو

۶۔            چہرہ چہرہ داستان،سلیمان اطہر جاوید ، ص:۹۸

۷۔            وہ صورتیں الٰہی ، مالک رام،ص:۳۷۱

۸۔            ماہنامہ منادی ،ص:۱۴، جلد نمبر :۴۴

۹۔            ایضاً، ص۱۷، جلد نمبر ۴۲، شمارہ نمبر ۱۱

۱۰۔          خواجہ حسن کے خاکے اور خاکہ نگاری ،ص: ۱۰۱۔۱۰۲

***

Urdu adab men khaka nigari … by Shakeel Ahmad

Leave a Reply

Be the First to Comment!

Notify of
avatar
wpDiscuz
Please wait...

Subscribe to our newsletter

Want to be notified when our article is published? Enter your email address and name below to be the first to know.