کربل کتھا کی کتھا
محمد عابد حسن
ریسر چ اسکالر، بردوان یونی ورسٹی، مغربی بنگال
abidhassanjnu@gmail.com
پروفیسر مختارالدین احمد آرزو کا شاہ کار کارنامہ کربل کتھا کی بازیافت اور اشاعت ہے ۔ یہ شمالی ہند کی پہلی نثری تصنیف ہے ۔کربل کتھا کمال الدین حسین ابن علی واعظ کاشفی کی کتاب ’’روضۃالشہدا‘‘ کا ترجمہ ہے ۔ اس کے متعلق پروفیسر مختارالدین احمد آرزو فرماتے ہیں :
’’یہ کتاب کاشفی نے ہرات کے ایک شہزادے ’’مرشدالدولۃ الملۃ والدین عبداللہ المشتہربسید مرزا ‘‘ کی فرمائش پر ۹۸۰ ھ میں مرتب کی تھی ۔یہ اپنے موضوع پر بہت کامیاب تصنیف ہے ۔اگرچہ اس میں بعض ضعیف روایتیں بھی داخل ہوگئی ہیں ۔ لیکن اس کی مقبولیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا ۔
ایران اور پھر ہندوستان میں روضۃ الشہدا مجالس عزا میں اس کثرت سے پڑھی جاتی رہی ہے کہ ایسی مجلسوں کے لیے ’’روضہ خوانی ‘‘ اور پڑھنے والوں کے لیے ’’روضہ خواں ‘‘ کی اصطلاحیں بن گئیں ۔ ‘‘(۱)
کربل کتھا کا ذکر سب سے پہلے مولوی کریم الدین نے اپنے تذکرہ طبقات الشعرا ہند میں کیا ۔ان کے پاس ایک قلمی نسخہ موجود تھا ۔وہ تحریر کرتے ہیں :
’’ فضل علی نام تخلص فضلی محمد شاہ بادشاہ کے عہد میں وہ موجود تھا ۔اوس نے ایک کتاب ’’دہ مجلس ‘‘ اردو زبان میں قدما کے محاورات پر لکھی ہے ۔ وہ خود کہتا ہے کہ اون ایام میں میری عمر بائس برس کی تھی ۔ اوس کتاب کا نام اوس نے کربل کتھا رکھا ہے ۔سبب تصنیف اوس کتاب کا جو اوس نے بیان کیا ہے بعینہ اوس کی عبارت بے کم وکاست لکھتا ہوں ‘‘ (۲)
مولوی کریم الدین نے کربل کتھا سے طویل اقتباس نقل کیا ہے جو اس نسخے کے صفحہ ۵۷ سے ۶۲ تک پھیلا ہوا ہے ۔ اس میں وجہ تالیف بھی لکھی ہے ۔ فضلی نے یہ کتاب اپنے والد نواب اشرف علی خاں کی محرک پر لکھی۔ وہ اندرون محل مجلس عزا کا اہتمام کرتے تھے ۔ شاید ان کو اپنے عقاید کو ظاہر کرنے سے تعامل تھا ۔روضۃ الشہدا پڑھ کر سنایا جاتا تھا ۔ اس میں عورتیں بھی شامل ہوتی تھیں ۔ فارسی میں ہونے کی وجہ سے عورتیں اس کے معانی اور مطالب کو نہیں سمجھ سکتی تھیں ۔ اس کتاب کے فقرات پر سوز و گداز کو سن کر رو نہیں سکتی تھی ۔ اور رونے کے ثواب سے محروم رہتی تھیں ۔ ان کی خواہش تھی کہ ایسا کوئی صاحب شعور ہو جو اس واقعات کربلا کو من و عن ہمیں سمجھا دیں اور ہم سمجھ کر رو سکیں ۔ ثواب کی نیت سے میں نے اس کتاب کو عام فہم اردو (ہندی ) میں ترجمہ کرنے کاارادہ کیا ۔
مولوی کریم الدین کے بعد گارساں دتاسی (تاریخ ادبیات ہندوی ہندوستانی ) ،محمد حسین آزاد (آب حیات ) ، فرزنداحمد صغیر بلگرامی (جلوہ خضر ) احسن مارہروی (تاریخ نثر اردو ) ، سید شمس اللہ قادری (اردو قدیم ) ،نصیر حسین خیال (مغل اور اردو ) اور حامد حسن قادری (داستان تاریخ اردو ) غرض جس کسی نے بھی کربل کتھا کا تذکرہ کیا اس کا ماخذطبقات الشعرا ہند ہی ہے ۔ سید شمس اللہ قادری لکھتے ہیں :
’’شمالی ہند میں نثر نویسی کی ابتدا بارہویں صدی سے شروع ہوئی اور سب سے پہلی کتاب جو نثر میں لکھی گئی وہ مولانا فضلی کی دہ مجلس ہے ۔ یہ کتاب ۱۱۴۵ھ میں تمام ہوئی ۔ ‘‘ (۳)
روضۃ الشہدا ایک ضخیم کتاب تھی ۔ اس کے بعض ابواب اتنے طویل تھے کہ ایک مجلس میں سنانا مشکل تھا ۔ اس لیے اس کا خلاصہ یا اختصار تیار کیا گیا تھا ۔ اسے کبھی خلاصہ روضۃ الشہدا کہا گیا اور کبھی دہ مجلس ۔فضلی نے روضۃ الشدا کا آزاد ترجمہ کیا ۔ یہ لفظی ترجمہ نہیں ہے بلکہ کاشفی کے معانی و مطالب کو عام فہم اردو (ہندی ) کے قالب میں ڈھالا گیا ۔ اس میں کہیں اضافہ تو کہیں انحراف سے کام لیا گیا ۔ یہ ترجمہ ہوتے ہوئے بھی فضلی کی مستقل تالیف ہوگئی ۔ ترجمہ کے وقت فضلی کی عمر بائیس یا تئیس برس تھی ۔ اس کا پہلا مسودہ ۱۱۴۵ھ ؍۱۷۳۲ ء ۔۱۷۳۳ میں تیار ہوا ۔ خود اس کی تاریخ کہی ۔
یہ جو نسخہ ہوا ہے اب تصنیف بہر کسب ثواب و فیض بشر
چاہا تاریخ اوس کی بولا سروش شیعوں کی نجات کا ’’مظہر ‘‘
۱۱۴۵ھ
فضلی نے اس نسخہ کو عام نہیں کیا ۔ اس کی نظر ثانی کی ۔ نوک پلک سنوارنے کے بعد (۱۱۶۱ھ؍۱۷۴۸۔۱۷۴۹ء) میں اس کا دوسرا مسودہ تیار کیا ۔ یہ اس کی موجودہ شکل ہے ۔ اس کی تاریخ اس طرح کہی :
۴۵ ۴۶
ہر کس از من کند بہ نیکی یاد بجہاں نامش ہم بہ نیکی باد
(۵۶۹+ ۶۰۱= ۱۱۷۰)
مولوی کریم الدین اور الواس اشپرنگر کے تعلقات اچھے تھے ۔ اشپرنگر کتاب جمع کرنے اور مطالعہ کے بے حد شوقین تھے ۔ان کی ذاتی لائبریری میں نایاب اور کمیاب کتابیں اور مخطوطے موجود تھے۔مولوی کریم الدین نے کربل کتھا کا نسخہ اشپرنگر کو دیا تھا ۔یہ نسخہ اشپرنگر کے ساتھ ۱۸۵۷ ء میں جرمن چلا گیا ۔پھر تقریبا ایک صدی تک اس کا کہیں ذکر نہیں ملتا ۔ اردو دنیا نے اسے مفقود سمجھ لیا تھا ۔ جب پروفیسر مختارالدین احمد آرزو آکسفورڈ جارہے تھے تو قاضی عبد الودود نے ان سے فرمایا ۔’’اشپرنگر کے پاس کربل کتھا کا نسخہ تھا ۔ اب اس کا کوئی سراغ نہیں ملتا ۔ہوسکے تو اس گم شدہ کتاب کو تلاش ضرور کریں ۔‘‘ انھوں نے انگلستان پہنچ کر اپنے تحقیقی کام کے ساتھ ساتھ اس کی تلاش بھی کی ۔برلن کے ناظم اور مشرقی علوم و فنون کے بعض اہم اساتذہ سے اپنا مقصد بیان کیا ۔جرمنی ، ہالینڈ ، فرانس اور مغربی یوروپ کے سبھی بڑی بڑی لائبریریوں سے خط و کتابت کی ۔ چھوٹے چھوٹے کتب خانوں میں خود زحمت اٹھائی ۔ سخت محنت ، جہد مسلسل ، آبلہ پائی اور جانفشانی کے بعد محنت رنگ لائی ۔ایک دن ڈاکٹر البرٹ ڈیٹریش استاذ السنہ ء سامی نے برلن کے کتاب خانے کے انگل کا خط (مورخہ ۱۱؍ جنوری ۱۹۵۵ء ) ان کو دیا ۔ اس خط سے ان کو علم ہوا کہ مخطوطہ اشپرنگر: ۱۷۳ جس کی ان کو تلاش تھی اور کتابوں کے ساتھ ٹیوبنگن بھیجا گیا تھا ۔ اس خبر سے ان کو ایسی خوشی ہوئی جیسے گرم ریگستان میں پیاسے مسافر کوپانی ملنے سے ہوتی ہے ۔ و ہ وہاں گئے او ر اس گوہر نایاب کو ڈھونڈ نکالا ۔ لکھتے ہیں :
’’ اب کیا تھا میں خوشی خوشی ٹیوبنگن پہنچا اور ڈاکٹر کریمر سے ملا ۔جو وہاں عربی زبان و ادبیات کے استاد تھے ۔ انھوں نے ناظم کتاب خانہ سے ملایا اور وہ مجھے ایک نئے تعمیر شدہ زمین دوز کمرے میں لے گیے جہاں انھوں نے یہ سارے انمول جواہر جمع کر رکھے تھے ۔ کمرہ تو برائے نام ہی تھا ۔ بس ننگی دیواروں کا چوکھٹا تھا۔جو جنگ کے اختتام کے دس برس بعد بھی گچ اور سفیدی سے محروم تھا ۔ یہاں کھلی الماریوں میں کتابیں چن رکھی تھیں ۔ پہلے ہی دن چند گھنٹو ں کی تلا ش کے بعد ایک کتاب پر نظر پڑی جس کی جلد کے پشتے پر ’’ اشپرنگر:۱۷۳‘‘ لکھا تھا ۔ کانپتے ہاتھوں سے الٹ کر دیکھا تو آنکھیں چندھیا گئیں ۔۔۔یہ فضلی کی کربل کتھا تھی ۔‘‘ (۴)
پروفیسر مختارالدین احمد آرزو اس لعل گم شدہ کو کی بازیافت کرکے بہت خوش تھے ۔یہ خو ش خبری متعدد بزرگوں اور دوستوں اور قاضی عبد الودود کو اسی دن دی ۔ یہ خط نہیں ملا سکا ۔ ۲؍فروری ۱۹۵۵ ء کا خط دست یا ب ہوگیا ہے ۔ اس کے متعلق ڈاکٹر گیان چند جین فرماتے ہیں :
’’ ۲؍فروری ۱۹۵۵ ء کو اس کی اطلاع دیتے ہوئے ٹیوبنگن سے قاضی عبدالودود کو جو خط لکھا اس کی مکتوب نگار کے ہاتھ کی نقل میری نظر سے گزر چکی ہے۔اس میں لکھتے ہیں :
۔۔۔۔۔۔۔۔دہ مجلس مل گئی ۔۔۔۔۔یہیں کے انبار میں دبی تھی ۔ ایک تہہ خانہ سا ہے جہاں برلن کا بقیہ ذخیرہ محفوظ ہے ۔ وہیں پہنچ جاتا تھا اور کتابیں تلاش کرتا تھا ۔خدا کا شکر ہے کہ کوشش رائیگاں نہ گئی ۔ تقطیع مختصر ہے اور تحریر بہت خوب صورت اور بہت واضح ، اور خوشی کی بات ہے کہ نسخہ مکمل اوراق ۲۶۱’سطور ۱۱۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دہ مجلس کے عکس پر (مختصر تقطیع ) تقریبا سو مارکس اور متوسط تقطیع پر تقریبا دو سو مارکس خرچ ہوں گے ۔میرا خیا ل ہے مختصر تقطیع سے کام چل جائے گا ۔ ‘‘ (۵)
پروفیسر مختارالدین احمد آرزو نے اپنے کچھ خطوط کو ’’ علمی مکتوبات‘‘ کے نام سے ترتیب دے کر رسالہ تحقیق میں شائع کیا ہے ۔ اس کے حواشی میں لکھتے ہیں :
’’ کچھ یاد آتا ہے جس دن کربل کتھا دریافت ہوئی اسی دن ہوٹل واپس آکر قاضی عبد الودود صاحب ، رشید احمد صدیقی صاحب اور قاضی عبد الغفار صاحب کو اس امر کی اطلاع دی ۔ قاضی صاحب کو مفصل خط لکھا تھا ۔ ان کے فرزند قاضی محمد مسعود صاحب کو افسوس ! میرا وہ خط نہیں مل سکا ۔مل جاتا تو ’’ کربل کتھا ‘‘ کی دریافت کی اصل تاریخ معلوم ہوجاتی ۔ بہر حال یہ اوآخر جنوری ۱۹۵۵ ء کی کوئی تاریخ ہوگی ۔‘‘(۶)
موصوف نے مالک رام کو پرنز کارل ہوٹل کمرہ نمبر ۱۲ ٹیوبنگن سے ایک خط تحریر کیا ۔ اس میں ۴؍فروری ۱۹۵۵ ء کی تاریخ درج ہے ۔ لکھتے ہیں :
’’ ماربرگ زیادہ دن ٹھہر جانا پڑ ا ۔ ایک کتاب کی تلاش تھی ۔لائیبریرین کو پتہ نہیں تھا ،اندیشہ تھا کہ دنیا سے فنا ہوچکی ہے لیکن اس بات کی اطلاع تھی کہ ۱۸۵۷ ء سے پہلے ڈاکٹر اشپرنگر کے پاس موجود تھی اور یہ کہ ان کی کتابیں برلن کے ذخیرے میں محفوظ تھیں ۔ اس کتاب کا کوئی پتہ نہ تھا ۔ لائبریرین نے اجازت دے دی کہ اسٹیک روم میں جائو اور ایک ایک کتاب دیکھو ۔۱۵ دنوں تک یہی کام کرتا رہا اور کاموں کے علاوہ اس کتاب کی بھی تلاش رہی ۔ پانچ ہزار پانچ کتابیں الٹ پلٹ کردیکھیں ۔ بون ۔فرینکفرٹ ۔مانز ۔ہائڈل برگ ہوتایہاں (ٹیوبنگن ) پہنچا ۔یہاں تلاش کیا اور کتاب مل گئی ۔اس کتاب کی تلاش میں برسوں سے تھا ۔لوگوں کو تو یقین ہوچلا تھا کہ یہ کتاب اب دنیا سے فنا ہے ۔یہ شمالی ہند میں اردو نثر کی اولین کتاب کربل کتھا یا دہ مجلس فضلی ہے جو ۱۱۴۵ء میں لکھی گئی ۔‘‘(۷)
پروفیسر مختارالدین احمد آرزواپریل ۱۹۵۶ ء میں جب یوروپ سے ہندوستان آئے ۔بہت سی نوادرات ساتھ لائے ۔ ان میں کربل کتھا بھی تھی ۔ اس طرح اردو ادب کا یہ کوہ نور ایک صدی کے بعد عکسی شکل میں ہندوستا ن واپس آگیا ۔ پروفیسر موصوف مخطوطے کی کیفیت کے متقلق لکھتے ہیں :
’’ یہ نسخہ 22×18/8 تقطیع کے ۲۶۱ اوراق پر مشتمل ہے ۔ہر ایک صفحے پر گیارہ سطریں ہیں ۔ پوری کتاب سیاہ روشنائی سے نستعلیق میں لکھی گئی ہے ۔ عنوانات سرخ روشنائی سے ہیں ۔ اور یہی حال قطعہ ، شعر ،بیت ،مصرع ایضا ترجمہ لمولفہ اور اس قسم کے دوسرے الفاظ کا ہے جو متن میں درج ہے ۔ہر فصل کے شروع میں فضلی نے لامیہ اشعار کی ایک بیت درج کی ہے ۔ اور ان کی کتابت بھی انھیں دوسرے ابیات سے ممتاز کرنے کے لیے سرخ روشنائی سے کی گئی ہے ۔ آیات و احادیث اور عربی کے فقرے نستعلیق میں لکھے گیے ہیں ۔ لیکن ہر مجلس سے پہلے عربی خطبہ ، خط نسخ میں لکھنے کا التزام کیا گیا ہے ۔ اشعار بالعموم شعر کی طرح لکھے گیے ہیں ۔لیکن کہیں کہیں انھیں نثر بھی بنا دیا گیا ہے ۔ ایسا بھی ہوا ہے کہ کسی جگہ ایک آدھ لفظ لکھنے سے چھوٹ گیا تو کاتب نے اسے حاشیے میں درج کردیا ہے۔لیکن ایسے مقامات بہت کم ہیں ۔‘ ‘(۸)
کربل کتھا ایک انمول کتاب ہے ۔ اس کے مولف فضل علی فضلی کے بارے میں ہماری معلومات بہت کم ہے ۔ کس شہر سے ان کا تعلق تھا ، آبائو اجداد کہاں سے آئے تھے ، وارث کون ہیں ، پیدائش اور وفات کہاں ہوئی وغیرہ ۔ ان کے متعلق اتنی ہی جان کاری ہے جو انھوں نے خود کربل کتھا میں بیان کی ہے ۔ کربل کتھا کی دریافت کے ساتھ اس کی ترتیب و پہلی اشاعت کا قصہ بھی دل چسپی سے خالی نہیں ہے ۔ اس سلسلے میں مالک رام لکھتے ہیں :
’’ کربل کتھا کا یہ مخطوطہ انھیں ٹیوبنگن (جرمنی) میں اوآخر جنوری ۱۹۵۴ ء میں دستیاب ہوا ۔ انھوں نے اس کی خبر اپنے دوستوں کو ہندوستان میں دی۔ (خود مجھے بھی مطلع کیا تھا ) ۔ وہ ۲۱؍اپریل ۱۹۵۶ ء کو آکسفورڈ سے ہندوستان واپس آئے ۔ اس کے تھوڑے دنوں بعد علی گڑھ یونیورسٹی نے ’’تاریخ اردو ادب ‘‘ مرتب کرنے کا منصوبہ بنایا اور تقسیم کار اور تفاصیل طے کرنے کے لیے یونیورسٹی کے اساتذہ اور اردو کے مصنفوں میں سے بعض اصحاب کو مدعو کیا ۔ اس میں مختار الدین احمد بھی موجود تھے ۔ (انھیں اور ڈاکٹر گیان چند جین کو تاریخ ادب کے لیے شمالی ہند کی قدیم اردو نثر پر ایک باب لکھنے کا کام سپرد ہو ا تھا ۔) حاضرین میں دلی کے ایک پروفیسر صاحب بھی تھے ۔ ان کے دریافت کرنے پر مختا را لدین احمد صاحب نے انھیں بتا یا کہ کربل کتھا کا خطی نسخہ ٹیوبنگن یونیورسٹی (جرمنی ) کے کتاب خانے میں موجود ہے ۔ یہ صاحب اس کے کچھ دن بعد (غالبا اوآخر ۱۹۵۶ ء) میں یوروپ گئے تو خاص طور پر ٹیوبنگن کے دور دراز مقام پر پہنچے اور وہاں سے اس مخطوطے کا مائکروفلم لے آئے ۔ ۱۹۵۶ ء میں وطن واپس آکر انھوں نے عجلت سے اس کا ناقص اور نامکمل نسخہ ایک خاص تقریب میں مارچ ۱۹۶۱ ء میں وزیر اعظم ہند (پنڈت جواہر لعل نہرو ) کی خدمت میں پیش کردیا ۔یہ غیر مکمل نسخہ (نہرو میوزیم دہلی میں ) اب بھی موجود ہے ۔ لیکن چوں کہ ان کی مطبوعہ کتاب ناقص تھی اس لیے انھوں نے شائع نہیں کیا ۔ میں جب ۱۹۶۴ ء میں یورپ سے واپس آیا تو میں نے مختارالدین احمد صاحب کو کتاب شائع کرنے کا مشورہ دیا ۔ اس پر یہ نسخہ ۱۹۶۵ ء میں شائع ہوا اور یہی اس کی پہلی اشاعت تھی ۔ دہلی کے پروفیسر صاحب نے اپنے نسخے کو مکمل کرکے اسے دو برس بعد شائع کیا ۔لیکن چوں کہ اس کے ابتدائی صفحات ۱۹۶۱ ء میں چھپ چکے تھے وہ جوں کے توں قائم رہے جس سے قاری کو غلط فہمی ہوتی ہے کہ یہ کتاب اس مطبوعہ تاریخ کو شائع ہوئی ۔ حالانکہ یہ غلط فہمی ہے ۔میںنے تفصیل اس لیے لکھی تاکہ کربل کتھا کی بازیافت و دریافت اور اس کی پہلی اشاعت کا مسئلہ صاف ہوجائے ۔ ‘‘ (۹)
ڈاکٹر گیان چند کربل کتھا کی اشاعت کی بابت اس طرح روشنی ڈالتے ہیں :
’’ شمالی ہند کی نثر کی قدیم ترین کتاب کو دریافت کرنا بے شک غیر معمولی تحقیق ہے اور مختار صاحب کے تحقیقی کارناموں میں ’’گل سر سبد ‘‘ ہے ۔ یہ صاحب حسب معمول اس نسخے کو لیے بیٹھے رہے ۔ اس کی دریافت کے بارے میں کہیں ایک مضمون بھی نہ لکھا ۔ اس کا حال سن کر یاروں نے اس کا عکس حاصل کرلیا اور بڑی عجلت سے چھاپ دیا ۔لیکن چونکہ کام مکمل نہ تھا اس لیے کتاب بازار میں نہیں دی ۔بعد میں مختارالدین احمد نے مالک رام صاحب کے ساتھ مل کر اس متن کو بے مثال انداز سے ترتیب دیا ۔اور ادارہ تحقیقات اردو پٹنہ سے اکتوبر ۱۹۶۵ ء میں شائع کردیا ۔‘‘(۱۰)
مالک رام اور پروفیسر گیان چند جین نے دہلی کے جس صاحب کا ذکر کیا ہے ان کا نام پروفیسر خواجہ احمد فاروقی ہے ۔انھوں نے کربل کتھا کا عکس کسی طرح حاصل کرکے ۱۹۶۱ ء میں چھاپ دیا تھا ۔ یہ ناقص تھا ۔اس لیے باقاعدہ منظر عام پر نہ آسکا ۔ ۱۹۶۵ ء میں مالک رام اور پروفیسر مختارالدین احمد آرزو نے کربل کتھا کو مرتب کرکے شایع کیا ۔ اپنے مقدمہ میں یہ اطلاع دی کہ ’’ یہ کتاب آج تک شایع نہیں ہوئی اور پہلی بار منظر عام پر آرہی ہے ۔‘‘ اس بات کا اعتراف پروفیسر حنیف نقوی صاحب نے انتخاب کربل کتھا کے مقدمہ میں کیا ہے ۔ لکھتے ہیں :
’’ اکتوبر ۱۹۶۵ ء میں ادارہ تحقیقات اردو پٹنہ نے ڈاکٹر آرزو اور مالک رام صاحب کا مرتب کیا ہوا نسخہ شایع کردیا اور اسی اشاعت کے ذریعہ عوام اور اہل علم کو پہلی بار ’’ کربل کتھا ‘‘ سے روشناسی حاصل ہوئی ۔ اس اعتبار سے مرتبین کا یہ دعوی کہ ’’ یہ کتاب آج تک شایع نہیں ہوئی اور پہلی بار منظر عام پر آرہی ہے ‘‘ بالکل درست قرار پاتا ہے ۔‘‘ (۱۱)
تدوین کربل کتھا کے کام میں مالک رام شریک تھے ۔ لیکن مرتبین میں اپنا نام دینے کے خواہش مند نہیں تھے ۔ پروفیسر مختار الدین احمد آرزو کی اصرار پر راضی ہوئے ۔ ادبی حلقوں میں یہ افواہ پھیل گئی کہ مالک رام نے مشترک نا م سے کتاب چھاپنے کی تجویز پیش کی تھی ۔یہ بالکل بے بنیاد بات ہے ۔ مالک رام پروفیسر مختارا لدین کو ایک خط میں لکھتے ہیں :
’’ اگر یہ بات یقینی ہے کہ کتاب ہم دونوں کے نام سے چھپے تو مجھے کوئی عذر نہیں ۔اگرچہ میں یہ بات نہیں سمجھ پاتا کہ آخر اس میں آپ کا کیا فائدہ ہے ؟ اگر آپ کے اکیلے نام سے چھپے تو اس کا پورا کریڈٹ آپ کو ملے گا جس کے آپ واقعی مستحق ہیں ۔ میں نے جو خفیف کام اس کے لیے کیا وہ اتنا ناقابل لحاظ ہے کہ اس سے مجھے مرتبین میں شامل کرنا بہت زیادتی ہوگی ۔بہر حال فیصلہ آپ خود کیجئے اور سر ورق تیار کرکے بھیجئے ۔ ‘‘(۵؍۶؍۱۹۶۵) (۱۲)
پروفیسر گیان چند جین نے پروفیسر مختارالدین احمد کو خط لکھ کر یہ دریافت کیا کہ کربل کتھا کی ترتیب میں مالک رام کا کتنا حصہ ہے ۔ ان کے خط کا متعلقہ حصہ انہی کے الفاظ میں نقل کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’کربل کتھا کی تدوین کے سلسلے میں یہ کہنا ہے کہ اگر مالک را م صاحب مساعدت نہ کرتے اور ان کا لطف وکر م شامل نہ ہوتا تو شاید ہی یہ کتاب اتنے اچھے طریقے سے شایع ہوسکتی۔ انھوں نے مصروفیات کے باوجود ایک معتد بہ حصے کی اصل مخطوطے سے نقل تیار کی ۔ مقدمہ بنیادی طور پر میرا لکھا ہوا ہے ۔ کچھ حصے انھوں نے لکھے ہیں ۔زبان کی بحث ساری ان کے قلم کی ہے ۔ طباعت کی ساری ذمہ داری انھوں نے اٹھائی ، کاپیاں میں نے پڑھیں ، پروف انھوں نے دیکھے ، حواشی و تعلیقات میں نے لکھے اور متعدد فہارس میں نے مرتب کیے لیکن جو کچھ میں نے کیا اس پر آخری نظر مالک رام صاحب نے ڈالی ہے اس کتاب پر ان کا بھی نام رہے اس پر مالک رام صاحب کسی طرح تیار نہ تھے ۔ کہتے تھے آپ کا کام ہے تھوڑی بہت مدد اہل قلم کی تو کرنی چاہئے ۔ میرے اصرار پر وہ راضی ہوئے تھے ۔ ‘‘ (۱۳)
مندرجہ بالا اقتباس سے مالک رام کا کردار نمایاں ہوجاتا ہے ۔ وہ تدوین کے کام میں شریک تھے لیکن مرتبین میں اپنا نام دینے کو تیار نہ تھے ۔ ان کے اصرار پر وہ راضی ہوئے ۔ یہ تجویز پروفیسر مختار الدین احمد آرزو کی تھی اور وہ اپنی تجویز پر قائم رہے ۔ اور بلند اخلاق کا ثبوت دیا ۔
مالک رام اور پروفیسر مختارالدین آرزو نے تحقیق و تدوین متن کے اصول ملحوظ رکھتے ہوئے کربل کتھا کی تدوین کی ۔ ان کا مقدمہ جامع اور نادر معلومات سے پر ہے ۔ ہر صفحہ پر اہم اور معنی خیز حواشی درج ہیں ۔ کتاب کے آخر میں جو فہارس ہیں ان سے مرتبین کی وسعت مطالعہ اور عرق ریزی کا اندازہ ہوتا ہے ۔ حتی الامکان متن کی تصحیح کرنے کی کوشش کی گئی ہے ۔غلطیاں مصنفین، مرتبین اور کاتبوں سے ہوتی ہی ہیں ۔ مرتبین کربل کتھا تحقیق کے میدان کے شہ سوار ہیں ۔اور عربی و فارسی زبان و ادب کے ماہرین ہیں ۔ تاہم کربل کتھا چند خامیوں سے مستثنی نہیں ۔اس بات کا اعتراف انھوں نے مقدمہ میں کیا ہے ۔ خوبی کے مقابلے یہ خامی آفتاب کے سامنے ذرہ کی مانند ہے ۔
قدیم متن کی تدوین آسان نہیں ۔ جب نسخہ وحید ہو تو مشکلیں اور بڑھ جاتی ہیں ۔ یہ کام جوئے شیر لانے کے مترادف ہے ۔مرتبین نے فرہاد کی طرح جان فشانی اور پوری لگن سے اسے انجام تک پہنچایا ۔اور تدوین متن کا عمدہ نمونہ پیش کیا ہے ۔ ان کے کام کو سراہتے ہوئے پروفیسر گیان چند جین فرماتے ہیں :
’’کربل کتھا جیسی کتاب کی ترتیب محض اردو کے ادیب کے بس کی بات نہ تھی ۔ اس کے لیے عربی اور اسلامیات کا ماہر ہونا ضروری تھا ۔ ڈاکٹر مختار الدین احمد تو اس شعبے کے ماہر ہیں ہی مالک رام صاحب بھی ان فنون سے بے بہر ہ نہیں ۔ متن کے ساتھ فٹ نوٹ میں دیے ہوئے حواشی سے مرتبین کی محنت کا اندازہ ہوتا ہے ۔ آخر میں جو عربی فارسی اور اردو کی فہرست کتابیات دی ہے وہ مرتبین کی غیر معمولی کاوش کی آئینہ دار ہے ۔ زیادہ تر کتب مشرق وسطی یا یورپ کی مطبوعہ ہیں ۔ ان میں کئی کمیاب بلکہ نایاب ایڈیشن شامل ہیں ۔
مرتبین نے پورا زور صرف کرکے اس کتاب کو ترتیب کا مکمل نمونہ بنانے کی کوشش کی ہے ۔ اس سلسلے میں کس درجہ عرق ریزی سے کام لیا ہے اس کا بہترین مظہر متن کے آخر میں شامل اشاریہ ہے ۔ آج تک اردو کی کسی کتاب میں اتنا مفصل اورمکمل اشاریہ دیکھنے میں نہیں آیا ۔ ‘‘ (۱۴)
حواشی
(۱) کربل کتھا ، ترتیب :مالک رام و مختارا لدین احمد ، ادارہ تحقیقات اردو ، پٹنہ ، اکتوبر ۱۹۶۵ ء ، ص ۷
(۲) طبقا ت شعرا ہند ، تالیف : کریم الدین ، مقدمہ : محمود الہی ،اترپردیش اردو اکیڈمی ، لکھنئو ، ۱۹۸۳، ص ۵۷
(۳) اردو قدیم از شمس المومنین حکیم سید شمس اللہ صاحب قادری ، ناشرات مجلس دارالمومنین ، ص ۱۱۲
(۴) کربل کتھا ، ترتیب :مالک رام و مختارا لدین احمد ، ادارہ تحقیقات اردو ، پٹنہ ، اکتوبر ۱۹۶۵ ء ، مقدمہ ص۲۹
(۵) نذر مختار مرتبہ مالک رام ، مجلس نذ ر مختار نئی دہلی ، ۱۹۸۸ ء، ص ۸۴
(۶) رسالہ تحقیق ، حیدر آباد سندھ ، شمارہ ۱۳۔۱۲ (۱۹۹۹۔۱۹۹۸)ص ۷۸۰
(۷) ایضا ص ۷۸۱
(۸) کربل کتھا ، ترتیب :مالک رام و مختارا لدین احمد ، ادارہ تحقیقات اردو ، پٹنہ ، اکتوبر ۱۹۶۵ ء ، مقدمہ ص ۳۰
(۹) پروفیسر مختارالدین احمد : محقق اور دانشور ، مرتبہ شاہد ماہلی ، غالب انسی ٹیوٹ ، نئی دہلی ، ۲۰۰۵ ، ص ۱۹۲۔۱۹۱
(۱۰) نذر مختار مرتبہ مالک رام ، مجلس نذ ر مختار نئی دہلی ، ۱۹۸۸ ء، ص ۸۴
(۱۱) انتخاب کربل کتھا مرتبہ حنیف نقوی ، اترپردیش اردو اکیڈمی ، لکھنو ، ۱۹۹۱ص ۹
(۱۲) نذر مختار مرتبہ مالک رام ، مجلس نذ ر مختار نئی دہلی ، ۱۹۸۸ ء، ص ۱۱۵
(۱۳) ایضا ص ۸۵۔۸۴
(۱۴) تجزیے از ڈاکٹر گیان چند جین ، مکتبہ جامعہ لیمیٹیڈ ، نئی دہلی بار اول ، اپریل ۱۹۷۳ء ص ۸۹۔۸۸
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
Karbal Katha ki Katha by: Abid Hassan
Leave a Reply
Be the First to Comment!