۱۹۸۰ کے بعد اردو افسانوں میں بین المذاہب شادی

عادل احسان

ریسرچ اسکالر، شعبہ اردو، دہلی یونی ورسٹی، دہلی

8802188589

adilehsan1@gmail.com

  بیسویں صدی کے آغاز سے اردو میں ایک نئی نثری صنف وجود میں آئی جسے ہم مختصر افسانہ یا افسانہ کہتے ہیں اوراس صنف نے تغیر پذیر تہذیبی ،سماجی،سیاسی ماحول میں بہت جلد اپنی جگہ مستحکم کرلی۔افسانہ ایک ایسی مختصر تخلیق ہے جس میں ایجازو اختصار کے ساتھ انسانی زندگی کے کسی ایک پہلو، واقعے یا کسی ایک حادثے کو وحدت تاثر اور فکری و فنی حسن کے سا تھ پیش کیا جاتاہے۔

  اردو افسانوں میں۱۹۸۰ کے بعد موضوعاتی سطح پر نت نئے تجربے کئے جا ر ہے ہیں جس سے یہ نئی وسعتوں کے ساتھ ادب میں جگہ پا رہا ہے۔جدید افسانہ نگاروںنے اپنے افسانوں میں احساس کی تنہائی ،محرومی ومایوسی،ماضی کی بازیافت، سیاسی، سماجی اور مذہبی بحران سے پیدا شدہ ذہنی انتشار،فساد کے تصادم،ہجرت ، فرد کی داخلی زندگی کی کشمکش اور اس کاخوف،قدروں کی شکست وریخت اور احساس عدم تحفظ وغیرہ کو اپنے افسانوں کا موضوع بنا یا ہے۔فکشن کے متعدد ناقدین نے منفرد انداز میں اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے۔اس ضمن میں ڈاکٹر ارشاد نیازی اپنے مضمون ’نئی صدی میں اردو افسانہ :موضوعات اور مسائل ‘میںکچھ یوں رقم طراز ہیں:

 ’’گلوبلا ئیزیشن کا عذاب مادیت کا زور ،علماکا اختلاف ،میڈیا کا رول ،سیاسی و اخلاقی قیادت کے ساتھ مسلمانوں کے دینی و دنیاوی علوم کا زوال ، اسلام فوبیا ،پہلے طالبان ،جیش محمد،القاعدہ،حزب المجاہدین اور اب داعش،الشباب ،بوکوحرام،نسل پرستی،ذات پرستی،اقلیتوں اور دلتوں پر زیادتی ،کسانوں کی خود کشی،لو جہاد ،گھر واپسی ،بہولاؤ بیٹی بچاؤ،چار بچے پیدا کرواور اب راشٹرواد،گلوبل وارمنگ،ایوارڈو انعام کی بے وقعتی،دانشوروں کی بھیڑ،کول بلاک گھپلہ،ٹوجی گھوٹالہ،آگستا ویسٹ لینڈ بل ،فرضی ڈگی،پاؤٹس،چل بیٹا سیلفی لے لے رے،کوئی روک کے دکھائے جس کے بم میں ہے دم،بے بی کو بیس پسند ہے،سماج دھدھک رہا ہے،معاشرہ کھول رہا ہے،انسان پک چکا ہے،سارا نظام شکست وریخت سے دو چار ہے۔پہلے ہندوستان کے ذرہ ذرہ میں رام بستے تھے اور اب ہواؤں،فضاؤں اور موسموں کے ساتھ کن کن میں بے ایمانی،بے ضمیری اور احسان فراموشی عام ہے یا یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ ان سب الفاظ کے معنی ،بے معنی ہو چکے ہیں۔انا،خودداری،عزت، عزت نفس اور وقار کے رنگ اتر چکے ہیں۔تہذیب و شائستگی نایاب نہیں تو کمیاب ضرور ہے۔حیا اور آنکھ کا پانی ختم ہو چکا ہے۔بے صبر ی،بے حسی اور بہت جلد سب کچھ حاصل کر نے کی جلدی اپنی انتہا پر ہے۔اخلاقی جرأت جو ادبی جرأت بنتی ہے ختم ہو گئی ہے۔ایسے وقت میں ایک کہانی کارکے سامنے کس طرح کے مسائل ہیں وہ خود اندازہ لگا سکتا ہے۔اکیسویں صدی فکشن نگاروں کے لیے ایک رزم گاہ کی صورت میں ابھرکر سامنے آئی ہے۔یہ صورت آج سے پہلے کبھی نہ تھی۔‘‘  ۱؎

  دنیا میں ہرانقلاب نے کسی نہ کسی تحریک کو جنم دیا۔اسی تحریک میں کچھ ایسے مسائل ومصائب اور موضوعات بھی ابھر کر سامنے آئے۔ جس کو زمانے نے تسلیم کیا اور انھیں میں سے کچھ کو رد کیا۔انھیں میں ایک مسئلہ بین المذاہب شادی کا بھی ہے جسے ہندوستانی سماج میں بہت معیوب سمجھا جاتا ہے۔کیونکہ یہ سماج کی نگاہ میں سب سے بڑا جرم ہے۔ان شادیوں کو موضوع بحث بنا کرفسادات بھی برپا کئے گئے ہیں۔جس میں ہزاروں بے قصور انسانوں کو اپنی جان سے ہاتھ دھونا پڑا۔ان فساد ات کی وجہ سے دونوں مذاہب میں دوریاں بھی پیدا ہو جاتی ہیں اور قدیم دور سے چلی آرہی آپسی محبت اور بھائی چارہ ، نفرت و کدورت میں تبدیل ہو جاتی ہے۔یہ دوریاں اب اس لیے بڑھ رہی ہیں کہ مذہب کی آڑ میں سیاست کی روٹیاں سینکی جارہی ہے اور لوگوں کے بیچ نفرت کے بیج بو ئے جار ہے ہیں۔اسی نفرت کی وجہ سے آپسی بھائی چارہ کا رشتہ ختم ہوتا جارہا ہے اور نفرت کی دیوار اونچی ہوتی چلی جا رہی ہے۔

  ہندوستان کی ہمہ جہت ترقی میں سبھی مذاہب کے لوگوں کا تعاون شامل ہے۔اگر سبھی مذاہب کا تعاون شامل نہیں رہے گا تو اس کی چاند پر حکمرانی کرنے کی خواہش بے کار ہو جائے گی اور اس کے جو ارادے ہیں وہ کبھی پورے نہیں ہو پائیں گے۔آج جنوبی ایشیا اور وسط ایشیا میں اس کی معاشی حالت بہت مضبوط ہے۔اس مضبوطی کا راز یہ ہے کہ ہندوستان میں ترقیاتی کاموں کی طرف سبھی لوگوں کا رجحان ہے۔مگر وہیں بڑے شہروں کے مقابلے چھوٹے شہروں کی بات کی جائے توان میں ایسی پست ذہنیت کے لوگ نظر آجائیں گے جو بین المذاہب شادی کے خلاف ہوتے ہیں۔ان کی بس یہی خواہش ہوتی ہے کہ اگر مسلم لڑکی غیر مسلم لڑکے سے شادی کرے گی تو ٹھیک ہے۔ وگرنہ کوئی غیرمسلم لڑکی مسلم لڑکے سے شادی کر لیتی ہے تو وہ لوگ ہائے توبہ مچانے لگتے ہیں اورچاروں طرف ایسی افواہیںپھیلا دیتے ہیں کہ ایک مسلم لڑکے نے زبردستی غیر مسلم لڑکی سے شادی کرلی ہے۔جس سے مشتعل ہوکر لوگ مسلمانوں کو سبق سکھانے کے لیے ہجومی تشدد کا راستہ اختیار کر لیتے ہیں۔لیکن انھیں میں سے کچھ سمجھدار لوگ بھی ہوتے ہیں جو انھیں روکنے کی کوشش کرتے ہیں۔ان دونوں نظریوں کو دیکھا جائے توان میںنئی عمر کے لڑکے زیادہ متشد د نظر آئیںگے اور وہی خون خرابہ کرنے پر زیادہ آمادہ ہو تے ہیں۔جس کی وجہ سے ان شہروں کی فضا خراب ہو جاتی ہے اور آپسی بھائی چارہ کا شیرازہ منتشر ہوتا دکھائی دینے لگتاہے۔

   آج کل ہندوستان میں بین المذاہب شادی کو لے کر نئی نئی افواہوں کا بازار گرم ہے۔جس میں’ لوجہاد‘ سب سے اہم ہے۔اسی لو جہاد کی وجہ سے اس وقت پورے ملک کی فضا خراب ہے۔اگر کسی غیرمسلم لڑکی نے مسلم لڑکے سے محبت کر لی یا شادی کر لی تو وہ غیر مسلم لوگوں کی آنکھوں میں چبھنے لگتا ہے پھر وہ اپنے مذہب یا سماج کی لڑکیوں کو بچا نے کے لیے مسلمانوں کے خلاف تحریروں اور تقریروں کے ذریعہ نفرت انگیز زہر اگلتے ہیں۔جس کی وجہ سے دونوں مذاہب کے ماننے والوںمیں تکرار پیدا ہو جاتی ہے۔اسی کا فائدہ اٹھا کر کچھ تنظیمیں اس لڑکے کے گھر والوں کے ساتھ اس لڑکی کو جان سے مار دیتے ہیں۔ ان کے اس عمل سے مسلمانوں کے اندر بھی جوش پیدا ہو جاتا ہے اور وہ رد عمل کے طور پر ان سے بدلہ لینے کے لیے نئی نئی ترکیبیں سوچنے لگتے ہیں اور موقع ملتے ہی ان کے لوگوں کو سبق سکھانے کی کوشش کرتے ہیں۔اس طرح دونوں فرقوں میں لڑائی جھگڑے شروع ہو جاتے ہیں۔بعد ازاں یہی لڑائی جھگڑے فسادات کا سبب بن جاتے ہیں۔اسی لوجہاد کے نام پر مظفر نگر میں فساد برپا ہوا جس کی گونج چہار سو سنائی دی۔

   ’گھر واپسی ‘آج کل سب سے زیادہ سرخیوں میں رہنے والا لفظ ہے۔اس لفظ نے جہاں پورے ہندوستان کی فضا کو متاثر کیا ہے وہیں اس لفظ کی وجہ سے خاص طور پرمسلمانوں میں دہشت پیدا ہو گئی ہے۔اس دہشت کی وجہ یہ ہے کہ کچھ تنظیموں کے نوجوان مسلم لڑکیوں کو اپنے پیار کے جال میں پھنسا کر ان سے شادی کرتے ہیں یا شادی کالالچ دے کر ان کے ساتھ جنسی تعلق قائم کرتے ہیں۔ان لڑکوں کی اس حرکت سے کچھ مسلم لڑکیاں ان کے جال میں پھنس جاتی ہیں اور ان کے ساتھ بھاگ کر شادی کر لیتی ہیں۔مگر جب ان کو حقیقت کا علم ہوتا ہے تو وہ اپنے فیصلہ پرپشیماںہوتی ہیں اوراپنی غلطی پر آنسو بہاتی اور ملال کرتی ہیں مگر اس وقت تک بہت دیر ہو چکی ہوتی ہے۔غیر مسلم تنظیموں کے لڑکے یہ کام جس تیزی سے کر رہے ہیں۔ اس سے یہی اندازہ ہوتا ہے کہ اب ہندو ستان میں کوئی نہ کوئی سوشل ریفارمر آئے گا اور اس سماجی برائی کا خاتمہ کرے گا۔

 اردو ادب میں جن افسانہ نگاروں نے اس موضوع پر قلم اٹھا یا ہے ان کی تعدادبہت کم ہے۔حالانکہ یہ ایسا موضوع ہے جس پر بہت زیادہ لکھا جا سکتا ہے۔مگر بعض افسانہ نگار اس موضوع پر لکھنے سے گریز کرتے ہیں۔ان کے اس موضوع سے دوری کی وجہ یہ ہے کہ وہ کسی پریشانی میں مبتلا نہیں ہونا چاہتے جس سے کہ بعد میں کوئی دشواری پیدا ہو۔اسی لیے وہ ایسے موضوع سے اپنی ذات کو دور رکھتے ہیں۔لیکن انھیں میں سے کچھ ایسے جیالے افسانہ نگار ہیں جنھوں نے اس موضوع پر اپنے افسانے تخلیق کیے۔جس میں بین المذاہب شادی کے ساتھ ساتھ ہندوستا نی تہذیب و تمدن کی سچی تصویر پیش کی گئی ہے۔ یہاں کچھ ایسے افسانوں کا مختصر جائزہ لیا جائے گا۔ جنھوں نے ۱۹۸۰ کے بعد اس موضوع پر اپنی کہانیاں لکھ کر قاری کو اس جانب متوجہ کیاہے۔

  ساجد رشید نے علامتی انداز میں افسانہ ’راکھ ‘تخلیق کیا۔اس افسانے میں جمال اور شمع کی محبت اور موت کو افسانہ نگار نے بڑے پر درد انداز میں بیان کیا ہے۔جس میں جمال مسلمان اور شمع ہندو مذہب سے تعلق رکھتی ہے۔یہ دونوں الگ الگ مذہب کے ہونے کے باوجود بھی شادی کر لیتے ہیںمگر مذہب کو کبھی بیچ میں نہیں لاتے۔ایک بارجب جمال شمع کا ہاتھ مانگنے اس کے گھر جاتا ہے تو شمع کے والدجمال سے کہتے ہیں کہ ہم برہمن ہیں اور اپنی بیٹی کی شادی ایک مسلم لڑکے سے نہیں کر سکتے۔اس پر جمال کہتا ہے کہ میں تبدیلی مذہب کرکے ہندو بننے کے لیے تیار ہوں تب شمع کے والد کہتے ہیں کہ ہم اس پر بھی راضی نہیں ہیں۔ان کا خیال ہے کہ برہمن سب سے اعلیٰ ذات ہوتی ہے۔اس لیے ہم سماج میں اپنی عزت خراب نہیں کر نا چاہتے۔شمع کے والد کی یہ بات سن کر جمال نامراد واپس آجاتا ہے لیکن چند دنوں بعد شمع جمال کے گھر آجاتی ہے اور اس سے کہتی ہے کہ مجھے مذہب کی پرواہ نہیں ہے اور میں تمہارے بغیر نہیں رہ سکتی۔ اس لیے میں اپنا مذہب بدل کر مسلمان ہو جاتی ہوں۔پھر یہ دونوں شادی کر کے اپنی زندگی کو آگے بڑھاتے ہیں۔شمع مسلمان ہونے کے باوجودہندو مذہب کی ساری روایت کو مانتی ہے اور اسی روایت کے مطابق ہر منگل کو روزہ رکھتی تھی۔جمال کو اس پر کوئی اعتراض نہیں تھا بلکہ وہ اس کا ہر طرح سے خیال رکھتاتھا۔اس طرح دونوں خوشی خوشی ساتھ رہتے ہیں۔مگر ان کی خوشیاں دیرپا ثابت نہ ہوئیں۔کیونکہ جب شمع پیٹ سے تھی تو اسے یرقان (Jaundice)ہو جاتا ہے اور اسی دوران اس کی موت واقع ہو جاتی ہے۔شمع کی موت سے جمال کی آنکھوںکے سامنے اندھیرا چھا جاتا ہے۔ جب جمال کے والد اسے قبرستان میں دفن کرنے کا وقت پوچھتے ہیں تو جمال اپنے والدسے کہتا ہے کہ اس کو دفن نہیں کرنا ہے بلکہ اس کو جلانا ہے، تبھی اس کی آتما کو سکون ملے گا۔جمال کے ان الفاظ سے اس کے والد کو غصہ آجاتاہے پھر وہ جمال کی والدہ کو لے کر اپنے گھر چلے جاتے ہیں اور پھر ایک ایک کرکے سارے رشتہ دار اس کے گھر سے چلے جاتے ہیں۔جمال شمع کی لاش کو جلا کر اس کی راکھ کو اس کے باپ کے حوالے کر دیتا ہے۔ساجد رشید نے اس افسانے کے ذریعہ ہم سب کوانسانیت کا پیغام دیاہے اور بتایا ہے کہ مذہب سے اوپر بھی کوئی چیز ہوتی ہے اور وہ ہے انسانیت۔اس افسانے کی چند سطریں ملاحظہ ہوں:

 ’’شمع اور میں شادی کرناچاہتے ہیں۔‘‘جمال کے اس جملے پر شمع کے بابا کا چہرہ ایک دم سرخ ہوگیا تھا۔انھوں نے اپنے جنیٔو میں انگوٹھا ڈال کر اسے دوبار اوپر نیچے کیا اور پھر موٹے چشمے کے پیچھے سے اسے گھورتے ہوئے بولے تھے۔’’تم جانتے ہو ہم لوگ پونیری برہمن ہیں میرے پتا جی پونے میں اس عمر میں بھی جنم لگن اور مرتیو کی رسمیں کرتے ہیں۔اور تم ایک مانسا ہاری مسلمان!‘‘

جمال اس سوال کے لیے پہلے سے ہی تیار تھا اس نے فوراًکہا ’’میں دھرم بدل لوں گا۔‘‘جمال کے اس جواب نے کچن میں ماں کے ساتھ چھپ کر دونوں کی باتیں سن رہی شمع کے دل کے بوجھ کو کم کر دیا تھا۔

 ’’کوئی بھی غیر ہندو۔ہندو نہیں بن سکتا۔‘‘ ۲؎

 جیلانی بانو نے افسانہ ’بھاگو۔۔۔بھاگو‘ میں فساد کو موضوع بنایا ہے لیکن اس میں بین المذاہب شادی کا ذکر بھی کثرت سے ملتا ہے۔آشا اس افسانے کا مرکزی کردا ر ہے جو ایک برہمن ذات سے تعلق رکھتی ہے وہیں سلطان مسلم مذہب سے تعلق رکھتا ہے۔یہ دونوں گھر سے بھاگ کر شادی کرلیتے ہیں لیکن محلے کے لوگ ان دونوں کی شادی کو نا پسندیدہ نگاہوں سے دیکھتے ہیں۔جس کی وجہ سے آشا کو ہمیشہ یہ ڈرسا لگا رہتا ہے کہ موقع ملتے ہی محلے والے ہم دونوںکا قصہ تمام کر دیں گے۔ اسی لیے آشا رات کو خواب میں بھی یہی بدبداتی رہتی تھی کہ مارو،مارو،بھاگو،بھوگونہیں تو یہ سب ہمیںمار ڈالیں گے۔اس کے دل میں یہ بات گھر کر گئی تھی کہ یہ دشمن سماج ہمیں یہاں چین سے جینے نہیں دے گا۔اس لیے وہ معاشرے سے دور نئی دنیا بسانا چاہتی تھی جہاں انسان اورانسانیت کی قدر کی جاتی ہو۔چونکہ آشا خودایک کھلے ذہن کی لڑکی تھی اور سلطان بھی ایک سائنٹسٹ تھا۔جس کی وجہ سے ان دونوں کے بیچ مذہب کو لے کر کوئی تکرار نہیں ہوتی تھی۔مگر ہندوستانی معاشرے میں کب اور کس بات کو لے فضا مکدر ہو جائے یہ کوئی نہیں جانتاہے۔ان فسادیوں کو صرف ہوا کی ضرورت ہوتی ہے جو موقع ملتے ہی اسے طوفان میں تبدیل کر دیتے ہیں۔اس طوفان میں بے شمار معصوم جانوں کے چراغ بجھ جاتے ہیں اور جسم معذور ومفلوج ہوجاتے ہیں۔جیلانی بانو نے اس افسانے میں جہاں فساد کی حقیقت کو بیان کیا ہے وہیں انھوں نے بین المذاہب شادی کے ذریعہ دو مذاہب کو ایک دوسرے سے قریب آنے پر زور دیا ہے۔افسانہ ’بھاگو۔۔۔بھاگو ‘کی چند مثالیں ملاحظہ ہو۔ جس میںسماج کے کچھ لوگ آشا اور سلطان پر طنز کرتے ہوئے کہتے ہیں:

 ’’اری پاگل بچوں کے ساتھ مسلمانوں کے محلے میں کیوں گھوم رہی ہے۔گھر میں چھپ جا۔‘‘

 ’’کون سے گھر چھپ جاؤں!کس سے کہوں کہ میرے بچے ہندو نہیں ہیں۔ان کا باپ مسلمان ہے۔مگر کالونی کے توسب ہندو مسلمان ان دونوں سے ناراض تھے۔۔۔برہمن لڑکی اورایک ملیچھ مسلمان کے ساتھ بھاگ گئی۔۔۔منحوس سید زادہ کافر عورت کو مسلمان کیے بغیر گھر میں ڈالے ہوئے ہے۔۔۔ ان دونوں کو سنگسار کر دینا چاہیے۔ ‘‘ ۳؎

  ذکیہ مشہدی نے افسانہ’قصہ جانکی رمن پانڈے ‘میں بین المذاہب شادی کے ساتھ ساتھ فسادات اور گھر کی جائیداد جیسے مسائل کو نہایت ہی خوبصورتی سے اٹھایا ہے۔اس افسانہ میں ایک طرف انسانی رشتوں کی بات کہی گئی ہے تو وہیںدوسری طرف ہندو مسلم کی بات بھی اٹھائی گئی ہے۔افسانہ نگار نے قدیم دور کے ساتھ جدید دور کے رشتوں کو جس شائستگی کے ساتھ بیان کیا ہے۔اس میں بڑی حد تک یکسانیت پائی جاتی ہے جو دونوں مذاہب میں دیکھنے کو ملتی ہے۔جانکی رمن پانڈے جو اس افسانے کا مرکزی کردار ہے۔ شادی شدہ ہونے کے باوجود بھی روشن سے شادی کرتا ہے۔چونکہ برہمنوں میں ایک روایت ہے کہ اگر ایک بیوی زندہ ہے تو دوسری شادی نہیں کر سکتے۔اس لیے جانکی رمن پانڈے نے روشن سے شادی کرنے کے لیے مسلم مذہب اختیار کر لیااور مسلم رسم و رواج کے ساتھ اپنا عقد کرایا۔ جانکی رمن پانڈے نے جب روشن سے شادی کی تو اس سے گھر کے سبھی لوگ چراغ پا ہوجاتے ہیں اور ان کی بہن دِدّا نے یہاں تک کہہ دیا کہ بھائی نے اپنا مذہب بھرسٹ کر دیا ہے۔ جب ان کی پہلی بیوی کو معلوم ہوتا ہے تووہ ان کے کھانوں کے برتنوں کو الگ کر دیتی ہے اور طنزیہ انداز میں جانکی رمن پانڈے سے کہتی ہے کہ اب تم ماس مچھلی بھی کھانے لگے ہوگے۔مگر جانکی رمن پانڈے اپنی بیوی کی باتوں کا برا نہیں مانتا بلکہ وہ دونوں کو ایک ہی نگاہ سے دیکھتا تھاجس سے کہ کسی کو تکلیف نہ ہو۔اس نے آنے والے کل کو دیکھتے ہوئے روشن کے بچوںکے ساتھ پہلی بیوی کے بچوں میں اپنی جائیداد تقسیم کر دی تھی اور یہ کہہ دیا کہ یہ میرے مرنے کے بعداس کے وارث ہوں گے۔جب جانکی رمن پانڈے کی موت ہو جاتی ہے تو اسے مسلم رسم و رواج کے ساتھ دفن کر دیا جاتا ہے مگر جب جانکی رمن پانڈے کے خاندان اور رشتہ داروں کو یہ بات معلوم ہوتی ہے تو وہ اس کی لاش کو دوبارہ باہر نکالتے ہیں اور روشن سے کہتے ہیں کہ جو جائیدادجانکی رمن پانڈے نے تمھیںلکھی ہے انھیں ہمیںواپس کر دو نہیں تو شہر میں فتنہ برپاہو جائیگا اور تم سب اس میںمارے جاؤگے۔افسانہ’قصہ جانکی رمن پانڈے‘کا ایک اقتباس ملاحظہ ہو:

 ’’اگلے ہفتے دونوں کا نکاح ہوگیا۔جانکی رمن پانڈے نکاح سے پہلے ایک مسکین صورت،ڈرے سہمے مولوی کی موجودگی میں مشرف بہ اسلام ہوئے۔نکاح کے وقت روشن کی نانی یعنی رجب علی کی بی بی بہت اداس تھیں اور بے حد پریشان۔ انھیں اپنی پریشانی میں یہ پروا ہ نہیں رہ گئی تھی کہ روشن نے ایک ہندو سے نکاح کیا ہے۔انہیں رنج یہ تھا کہ وہ اونکا ر ناتھ کی بہو کو کیا منھ دکھائیں گی۔کس منھ سے انہیں عید کی سویاں بھیجیں گی۔ان کا دماغ سن ہو رہاتھا۔اس خاندان سے اتنے پرانے تعلقات ہیں انہیں کا گھر رہ گیا تھا سیندھ لگانے کے لیے۔‘‘ ۴؎

 شائستہ فاخری کے افسانوں میں نسوانی مسائل کاتذکرہ خوب ملتا ہے۔یہ اپنے افسانوں میں ایسے ایسے موضوعات کو جگہ دیتی ہیں۔جس میں بڑی حد تک ان کی دشواریاں اور پریشانیاں شامل ہوتی ہے۔انھیں مسائل میں ایک مسئلہ بین المذاہب شادی بھی ہے جو دونوں مذاہب کے لوگوں کو آپس میں ملانے کا کام کرتاہے۔اسی محبت کی داستان کو افسانہ ’آخری پہر کا ڈوبتا منظر‘میں دیکھا جا سکتا ہے۔جہاں ارشد عیسائی لڑکی عینی سے رشتہ ازدواج میں منسلک ہو جاتا ہے۔یہ دونوں شادی کے بعد اپنی دنیا میں خوش رہتے ہیںمگرارشد کی ماں شاداب ہمیشہ عینی سے ناراض رہتی ہیں۔ان کا خیال تھا کہ عینی کے آجانے سے میری عزت ختم ہو گئی ہے۔اس لیے وہ عینی کو کسی نہ کسی بات پر ڈانتی اور طعنہ مارتی رہتی تھی مگرارشد عینی کو ہی سمجھا بجھا کر کمرے میں بھیج دیتا تھا تاکہ دونوں میں کوئی بات نہ ہو۔لیکن ارشد کی والدہ عینی میں کوئی نہ کوئی عیب نکال دیتی تھیں۔جب ان کے بیچ بات بہت زیادہ بڑھ گئی تو ارشد کی ماںناراض ہوکر Old Age Home میںچلی جاتی ہیں۔جہاں کی مالک مسز آہو جا تھی۔یہ Old Age Home میں ایسی عورتوں کو جگہ دیتی تھیں جن کی عمر ساٹھ برس سے اوپر ہو،جن کے گھر کا کوئی وارث نہ ہویا جن کو ان کے بچوں نے گھر سے نکال دیا ہو۔یہ سب یہاں آکر ایک خاندان کی طرح رہتی تھیں۔ان میں نہ توکوئی کدورت تھی اور نہ ہی کسی کے کام میں دخل اندازی کرتی تھیں۔ارشد کی والدہ یہاں رہ کر ارشد کو ہمیشہ یاد کرتی تھیں۔جب بھی ان کے دل میں اپنے بیٹے کے لیے کوئی غلط خیال آتے تو وہ فوراًجائے نماز اٹھا کر نماز پڑھنے لگتیں اور دعا مانگتیں کہ اے میرے پرور دگار تو ارشد کو ہمیشہ خوش رکھنا۔ ایک بار جب وہ ارشد کو بہت یاد کر رہی تھیں تبھی ارشد اس Old Age Home  میں اپنی ماں سے ملنے آتا ہے اور مل کر بہت خوش ہوتا ہے۔اس پر Old Age Homeکی مالک مسز آہوجا یہ سمجھتی ہیں کہ وہ اپنی ماں کو لینے آیا ہے۔ تب ارشد کہتا ہے کہ میں تو بس ماں سے ملاقات کے لیے آیا تھا اور مسز آہوجا سے کہہ رہاتھا کہ آپ کو جتنا پیسہ چاہیے میں دوںگا لیکن میں اپنی ماں کو اپنے گھر نہیں لے جاپا ؤں گا۔کیونکہ انھیں کی وجہ سے عینی دو بار ماں بننے سے محروم رہ گئی تھی اور اب میں تیسری بار یہ نقصان نہیں ہونے دینا چاہتا۔شائستہ فاخری نے اس افسانہ میں ایک طرف ماں کی ممتا کو دکھایا ہے تو دوسری طرف میاں بیوی کی محبت کو پیش کیا ہے اور یہ بتایا ہے کہ جب بچہ بڑا ہو جاتا ہے تو ان کے سامنے ماں کی کوئی قدر نہیں ہوتی ہے۔افسانہ’آخری پہر کا ڈوبتا منظر ‘کی چند سطریںملاحظہ ہو:

 ’’وہ ایک عیسائی لڑکی تھی عینی۔بے حد معصوم اور سادہ سی لڑکی۔بن ماں باپ کی بچی نے ہاسٹل میں اپنے ماموں کی سرپرستی میں تعلیم حاصل کی تھی۔ارشد کے لیے وہ اپنا مذہب تک بدلنے کے لیے تیار تھی۔ارشد کی نگاہ میں یہ بات خاصی اہمیت رکھتی تھی۔اس سلسلے میں اس سے بات کرتے ہوئے پہلی بار مجھے لگا کہ میرا بیٹا جوان ہے۔اپنی بات کہنے اور منوانے والا ایسا مرد جس کے آگے ازل سے عورت بے بس رہی ہے۔ ‘‘  ۵؎

 بانو سرتاج نے بین المذاہب شادی کو سامنے رکھ کر ’بے زمینی کا درد‘جیسا افسانہ تحریر کیا۔اس افسانے میں جدید دور کے والدین کے ساتھ ان کی بیٹی تاراکے کر دار کو افسانہ نگار نے بڑی خوبصورتی کے ساتھ کینوس پر اتا را ہے۔جس میں ایک بچی کو اس کے ماں باپ کا پیار اور مذہب نہیں مل پاتا ہے۔وہ بچی اس تذبذب میں رہتی ہے کہ آخر میں کس مذہب کی طرف جاؤں۔جہاں ایک طرف میری ماں ہندو اور دوسری طرف میرے والد مسلمان اور ان دونوں کا کوئی مذہب نہیں ہے۔یہ لوگ ہولی،دیوالی،عید،بقر عیدکے ساتھ سبھی تیوہار مناتے ہیں لیکن ان کا جھکاؤ کس مذہب کی طرف ہے وہ یہ سمجھ نہیں پاتی۔تب وہ اپنے والدین سے سوال کرتی ہے اور جاننے کی کوشش کرتی ہے کہ آپ لوگ کس مذہب کو مانتے ہیں۔جس کو دیکھ کر میں بھی اس مذہب کو مانوں۔تارا کے اس سوال سے ان کے والدین میں ایک بے چینی پیدا ہو جاتی ہے۔تب اس کے والدین تارا سے پوچھتے ہیں کہ تمہیں کسی نے کچھ کہا ہے یا کسی نے تمھارے دل میں مذہب کی باتیں بھر دیں ہیں۔ان سوالوں کو سننے کے بعد تارا کہتی ہے کہ آسیہ کے گھر کے سبھی لوگ اعلیٰ تعلیم کے باوجود اپنے مذہب کو مانتے ہیں اور اللہ کو یاد کرتے ہیں۔مزید میںجب امتحان دے کر نکل رہی تھی تو آسیہ خدا کا شکر ادا کررہی تھی تووہیں وندنا گنپتی باپا کا شکر ادا کررہی تھی۔تب میںیہ سوچ رہی تھی کہ میں کس خداکا شکر ادا کروں۔ کیونکہ میرے والدین تو سبھی مذاہب کو مانتے ہیں۔تاراکی باتوں سے اس کے والد ین سہیل خاں اور سیما پانڈے اس کشمکش میں مبتلا ہو جاتے ہیں کہ ہم نے شادی کے وقت یہ طے نہیں کیا تھا کہ اپنے بچوں کا کون سا مذہب ہوگا۔افسانہ ’بے زمینی کا درد‘کا ایک اقتباس ملاحظہ ہو:

 ’’تارا نے ایک طویل سانس لی اور زیر لب کہا’’آپ مسلمان ہیں،آپ ہندو تو میں کون ہوں؟میرا مذہب کیا ہے؟

 برتھ سرٹیفکیٹ میں تمہارا مذہب اسلام لکھا ہوا ہے‘‘سہیل نے کہا’’یہ تم نہیں جانتی ہو۔‘‘

’’مذہب کے کالم میں اسلام لکھوا دینے ہی سے کوئی مسلمان ہوجاتا ہے کیا؟‘‘تارانے بڑبڑاتے ہوئے خود سے دریافت کیا۔

’’رکو سہیل اس سوال کا جواب میں دوں گی‘‘سیما نے ہاتھ اٹھا کر سہیل کو روک دیا پھر تارا کی طرف رخ کرکے بولی’’جب ہم دونوں نے شادی کا فیصلہ کیا تھا۔اسی وقت یہ طے ہو گیا تھا ہم اپنے اپنے مذہب پر قائم رہیں گے۔‘‘

’’اولاد کے بارے میں نہیں سوچا تھا؟‘‘ ۶؎

’دشت حشت ‘میں دیپک بدکی نے بین المذاہب شادی کابہت خوبصورت تانا بانا بنا ہے۔اس افسانے میں ہندو اور سکھ مذہب کی شادی کے ساتھ ساتھ امرت کور سے امرت اگروال بنی انسان کی زندگی کو بڑے درد مند انداز میں بیان کیا ہے۔امرت اگروال جو اس افسانے کا مرکزی کردار ہے۔اس کو شروع سے ہر چیز حاصل کرنے کا جنون ہوتا تھا۔جب اس نے آئی۔ اے۔ ایس میں کامیابی حاصل کی تو ایٹا نگر اروناچل پردیش میں ڈسٹرکٹ کلکٹر کے عہدے پر مامورہوگئی اور کچھ دنوں بعد اپنے کالج کے دوست ونود اگروال سے شادی کرلی۔امرت اگروال کے اندر جنسی خواہشات کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔اسی لیے اس نے اپنی جنسی خواہشات پوری کرنے کے لیے ونود کو جیون ساتھی چنا تھا۔اس طرح یہ دونوں اپنی شادی سے خوش تھے اور ان کی زندگی میں گھر کو روشن کرنے والے دو چراغ بھی تھے۔مگر جب یہ بچے کچھ بڑے ہو ئے تو ونود گھر چھوڑ کر چلاگیا تھا۔ونود کے گھر چھوڑ نے کی وجہ یہ تھی کہ ا مرت اگروال شراب بہت زیادہ پینے لگی تھی اور اپنی جنسی خواہش کی تکمیل کے لیے ادھر ادھر جانے لگی تھی۔یہ کبھی ایم۔ ایل۔اے،کبھی کمشنر اور کبھی چیف منسٹر کے ساتھ داد عیش دیتی تھی۔اس کی اس حرکت سے اس کے قصے پورے شہرمیں مشہور ہوگئے۔لیکن جب امرت اگروال کا نشہ ٹوٹا تو بہت دیر ہو چکی تھی۔ایک طرف ونود گھر چھوڑ کر چلا گیا تھا اور دوسری طرف ان کے بچے اپنی دنیا میں نئی اونچائیوں کو چھونے میں لگ گئے تھے۔کیونکہ جب یہ بچے چھوٹے تھے تونہ انھیں ماں کی ممتا ملی اور نہ باپ کی پدرانہ شفقت نصیب ہوئی۔انھیں بس اس بات کا ملال تھا کہ آخر ہمیں کیوں دنیا میںلایا گیا جب ہم دونوں کو جہنم ہی میں ڈالنا تھا۔دیپک بدکی نے اس افسانے میں یہ خیال ظاہر کیا ہے کہ کس طرح لوگ اپنی انا کے لیے کیا سے کیا کرجاتے ہیں۔افسانہ ’دشت وحشت‘کی چند سطریں ملاحظہ ہوں:

’’جب وہ امرت کور سے امرت اگروال بنی،سارے گھر میں ہاہا کار مچ گیا۔ایک تو سردار نی کی ہندو سے شادی اور وہ بھی ایک بنیے کے ساتھ۔ سگے سمبندی کیا،اس کے سکھ افسر کو بھی یہ بات ناگوار گزری ،جبھی سے وہ ان کا دشمن بن گیا۔بڑھاپے میں وہ امرت کو رکوللچائی ہو ئی نظر وں سے دیکھتا تھا۔‘‘  ۷؎

  غزال ضیغم کے افسانوں میں احتجاج کی لو اپنی پوری روانی کے ساتھ چلتی ہوئی دکھائی دیتی ہے۔اسی احتجاج کو سامنے رکھ کر انھوں نے افسانہ ’سوریہ ونشی چند رونشی ‘تخلیق کیا۔اس افسانے میں ایک طرف جہاں مذہب کو دکھایا گیا ہے وہیں دوسری طرف بین المذاہب شادی کو بھی جگہ دی گئی ہے۔روحی خاںجو اس افسانہ کا مرکزی کردار ہے وہ اپنا شجرہ بھگوان رام چندر سے جوڑتی ہے۔کیونکہ اس کے خاندان کے پاس ایسا شجرہ موجود تھا جس میں پوری تفصیل لکھی تھی اور وہ خود کو سور ونشی خاندان سے جوڑتی ہے۔مگر اس کا خاندان پانچ پشت پہلے تبدیل مذہب کرکے مسلمان ہوگیا تھا۔یہ اسی خاندان کی چشم و چراغ تھی جو اپنی جاگیرداری کی وجہ سے پورے علاقے میں مشہور تھی۔لیکن اس کے اندر تعلیم حاصل کرنے کا ایک جنون تھا۔اسی جنون کی وجہ سے اس نے ایل۔ایل۔بی پاس کیا اور شہر کے مشہور وکیل وجے سنگھ کے ماتحتی میں ہائی کورٹ جوائن کر لیا۔پھر یہ دونوں اپنے کاموں میں مصروف ہوگئے جس کی وجہ سے روحی خاں بھی زیادہ ترقی کرنے لگی۔ایک بار جب وجے سنگھ اور روحی اپنے چیمبر میں بیٹھے تھے تو لائٹ چلی جاتی ہے۔اسی دوران وجے سنگھ روحی کے سامنے شادی کی تجویز رکھتے ہیں۔لیکن روحی کے سمجھ میں نہیں آتا کہ کیا کیا جائے تو وہ اپنی دوست سریتا سریواستو کو خط لکھ کر ساری باتیں بتاتی ہے۔اس پر سریتا کا جواب آتا ہے کہ ہاں کر دے ،کب تک اکیلی رہے گی۔تب روحی سریتا کی بات مان کر وجے سنگھ سے شادی کر لیتی ہے۔ مگر اس کا دل اپنی منزل کی تلاش میںلگا رہتا ہے۔افسانہ ’سوریہ ونشی چندر ونشی‘ کی چند سطریں عنایت ہیں:

 ’’کرانک بیچلر۔وجے سنگھ نے سرگوشی میں اس کو پرپوز کر دیا۔گھبراہٹ میں اس کے ہاتھ پیر ٹھنڈے ہوگئے۔یہ حادثہ بھی میری زندگی میںہوناتھا؟اس نے بے کسی سے سوچا۔اگلے دن اس نے سریتا کو ایک طویل خط میں یہ حادثہ لکھا۔فوراًہی جواب آگیا۔سریتا نے لکھا تم ۳۵ کے اوپر ہو چکی ہو۔فیصلہ کر لو بہتر ہے۔کب تک اکیلی زندگی سے جوجھتی رہوگی۔پھر ایک دن ہائی کورٹ میں چند دوستوں کی موجود گی میں روحی خاں مسز وجے سنگھ بن گئیںلیکن اپنی ضد کے لیے ہمیشہ روحی خاں ہی لکھتیں۔حالانکہ اس کو شکست کا احساس ہونے لگا تھا۔ ‘‘  ۸؎

  بین المذاہب شادی پر جن افسانہ نگاروں کے افسانوں کا یہاں جائزہ لیا گیا ہے۔ان میں بڑی حد تک دونوں تہذیبوں کے ساتھ ان کے رسم ورواج کو بھی جگہ دی گئی ہے۔جس کی وجہ سے ان فسانوں میں ایک طرح کی انفرادیت دیکھنے کو ملتی ہے جن میں انسانیت کا درس دیا گیا ہے۔مگر وہیں کچھ افسانوں میں ایسے مسائل کو اٹھا یا گیا ہے جس میں مذہبیت کی بات کی گئی ہے تو کچھ میں مذہب کی آڑ میں فساد جیسے اہم موضوع کو جگہ دی گئی ہے۔ان سب افسانوں کا موازنہ کرنے پر یہی اندازہ ہوتا ہے کہ ان افسانوں میں افسانہ نگار وں نے سماج کے مسائل کے ساتھ ساتھ معاشرے میں پھیلی ذہنی منافرت کو بھی بے نقاب کیا ہے۔اگر اس منافرت کویہیں نہیں روکا گیا تو وہ رفتہ رفتہ پورے ہندوستانی معاشرے کو سبوتاژکر دے گا۔جس سے آنے والی نسلوں پر بہت برا اثر پڑے گا اور وہ ذہنی الجھن میںہمیشہ مبتلا رہیں گے۔مزید بین المذاہب شادی سے جہاں دو تہذیبیں ایک پلیٹ فارم پر آئیں گی وہیں ان دونوں کے آپس میں ملنے سے نئے معاشرے کا جنم ہوگااور سماج میں نئی بیداری پیدا ہوگی۔ نیز ان افسانوں میں زبان و بیان کے ساتھ ساتھ اسلوب اور اس کے فن کو بھی بڑی خوبصورتی کے ساتھ پیش کیا گیا ہے جس سے ان افسانوں کی اہمیت اوروقعت بڑ ھ گئی ہے۔

حواشی

۱۔صفحہ۔۱۷۔ایوانِ اردو۔جلد۔۳۰۔شمارہ۔۸۔دہلی۔دسمبر۔۲۰۱۶؁ء

۲۔صفحہ۔ایک چھوٹا سا جہنم۔ساجد رشید۔کاک آفسیٹ پرنٹرس۔دہلی۔۲۰۰۴؁ء

۳۔صفحہ۔۱۲۲،۱۲۳۔بات پھولوں کی۔جیلانی بانو۔ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس۔دہلی۔۲۰۰۱؁ء

۴۔صفحہ۔۱۵۱۔صدائے باز گشت۔ذکیہ مشہدی۔ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس۔دہلی۔۲۰۰۳؁ء

۵۔صفحہ۔۱۷۷۔اداس لمحوں کی خود کلامی۔شائستہ فاخری۔ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس۔دہلی۔۲۰۱۱؁ء

۶۔صفحہ۔۲۷۔بے زمینی کا درد۔بانو سرتاج۔ایوانِ اردو۔جلد۔۲۶۔دہلی۔مئی ۲۰۱۲؁ء

۷۔صفحہ۔۱۶۷۔زیبراکراسنگ پر کھڑا آدمی۔دیپک بدکی۔ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس۔دہلی۔۲۰۱۸؁ء

۸۔صفحہ۔۲۴۔ایک ٹکڑا دھوپ کا۔غزال ضیغم۔یونائیٹیڈ بلاک پرنٹرس۔لکھنؤ۔۲۰۰۰؁ء

۔۔۔

1980 ke Baad Urdu afsanon men Bainal Mazahib SHadi: by Adil Ehsan

Leave a Reply

Be the First to Comment!

Notify of
avatar
wpDiscuz
Please wait...

Subscribe to our newsletter

Want to be notified when our article is published? Enter your email address and name below to be the first to know.