اردو میں ناول نگاری کی موجودہ صورتحال
توصیف احمد ڈار
ریسرچ اسکالر : شعبۂ اردو کشمیر یونیورسٹی
9622543998
’’ناول خواہ کسی زبان میں لکھا جائے وہ سماج تاریخ کا آئینہ ہوتا ہے۔ یہ جس عہد اور جس مقام کی بنیادوں پر لکھا جاتا ہے اس میں اس مقام کے افراد ، وہاں کا جغرافیائی پس منظر ، تاریخی آثار (اگر مقام کا تعلق تاریخی ہو تو)وہاں کے رسم و رواج ، تہذیب و تمدن ، معاشرتی ، سماجی طور طریقے ، زبان و بیان کا انداز ، بولی ٹھولی اور محاورہ ، بازار ہارٹ ، گلیاں اور چوبارے ، دشت و جنگل ، باغ و بن ، ندی نالے غرض اس مقام کی ہر طرح سے عکاسی کرتا ہے۔ ‘‘
( اردو ناول کی ایک صدی۔نورالحسنین۔ سہ ماہی فکر و تحقیق ، نئی دہلی۔ ص ۷۰)
اردو ادب کی نثری اصناف میں صنفِ ناول ایک اہم اور منفرد مقام کی حامل ہے۔ یہ صنفِ ادب زندگی کی مکمل تصویر کشی پیش کرتی ہے۔ اس میں زندگی کے مختلف حادثات ، حالات و واقعات اور مسائل و معاملات کو قدرے تفصیلاً اور نہایت ہی دلچسپ پیرائے میں بیان کیا جاتا ہے۔ اردو میں ناول کی صنف انگریزی ادب کی دین ہے ْ۔ اردو میں ناول کی تاریخ جیسا کہ ہم سب بخوبی واقف ہیں زیادہ قدیم اور پرانی نہیں ہے ، اسے ہم اس صنفِ ادب کی خوش نصیبی سے ہی تعبیر کرسکتے ہیں کہ ابتداء سے ہی اسے ایسے منجھے ہوئے تخلیق کاروں کی سر پرستی حاصل رہی کہ جنہوں نے فکر و فن ہر دو اعتبار سے ناول کو وقار اور بلندی عطا کی۔ پہلے پہل اگرچہ ناول پر داستانوی رنگ و آہنگ کا غلبہ رہا تاہم گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ یہ صنف اس طرز کے عناصر سے فرار اور آزاد ہونے میں کامیاب ہوئی۔ ڈپٹی نذیر احمد وہ پہلے شخص ہیں جنہوں نے اردو داں طبقے کو ناول کے فن سے آشنا کیا۔ انہوں نے جو ناول لکھے جن میں مراۃ العروس ، توبتہ النصوع ، بنات النعش ، وغیرہ شامل ہیں ، ان میں داستان کے غیر فطری ماحول اور فوق البشر کردار کی جگہ دنیائے آب و گل کے معاملات و مسائل کو موضوع بنایا گیا۔ رتن ناتھ سرشار نے معاشرتی جب کہ عبدالحلیم شرر نے تاریخی نوعیت کے ناول لکھ کر اردو ناول نگاری میں اپنا مقام بنالیا۔ مرزا ہادی رسواؔ نے پہلی بار موضوعی اور اسلوبی لحاظ سے ناول کو ایک نیا میدان عطا کیا۔ انہوں نے علمِ نفسیات سے فائدہ اٹھا کر پہلی بار ناول میں طوائف کو جگہ دی جس کی بدولت انہیں اردو ناول کی تاریخ میں ایک منفرد معنویت نصیب ہوئی۔ ان کے مشہورِ زمانہ ناول ’’ امراؤ جان ادا‘‘ کو جو شہرت و مقبولیت عطا ہوئی وہ اپنی مثال آپ ہے۔ منشی پریم چند اردو فکشن نگاروں کی فہرست میں کسی تعارف کے محتاج نہیں ہیں۔ انہوںنے اردو افسانہ اور ناول کی روایت میں ایک نئے اور منفرد ذہن کی ابتدا کی۔ پریم چند نے اپنی تخلیقات میں دیہاتوں کے مسائل ، وہاں کے رہن سہن ، بول چال اور رسم و رواج ، وغیرہ کو بڑی فنکاری سے سمویا ہے۔
ترقی پسند تحریک ، جسے اردو ادب بالخصوص اردو فکشن کے حوالے سے سب سے کار آمد اور فعال تحریک ہونے کا شرف حاصل ہے ، نے اردو کے افسانوی ادب پر چھائی ہوئی رومانیت کے اثر کو ختم کیا اور افسانہ و ناول کو سماجی مسائل کے ادراک اور ان کے حل کرنے کا ذریعہ ٹھہرایا۔ ہئیت واآرائش کے بجائے مواد و موضوع کی طرف زیادہ توجہ مرکوز کی گئی۔ کم و بیش بیس پچیس برس تک اردو ادب کی ہر ایک صنف خواہ و ہ منشور ہو کہ منظوم، اس تحریک سے متاثر رہی ایسے میں صنفِ ناول پر بھی اس تحریک کے اثرات مرتسم ہونا کوئی عجیب امر نہیں ہے۔ اس تحریک کے زیر اثر جو ناول نگار ادبی افق پر نمودار ہوئے اور جنہوں نے اردو افسانہ کے ساتھ ساتھ ناول کو بھی موضوعاتی اور ہئیتی و تکنیکی سطح پر نئے نئے تجربات سے نمایاں وسعت عطا کی ان میں سجاد ظہیر ( لندن کی ایک رات ) ، کرشن چندر ( شکست ، جب کھیت جاگے ) ، عصمت چغتائی ( ضدی ، ٹیڑھی لکیر ) ، عزیز احمد ( ایسی بلندی ایسی پستی ) ، حیات اللہ انصاری ( لہو کے پھول ) ، خواجہ احمد عباس ( انقلاب ) ، راجندر سنگھ بیدی ؔ ( ایک چادر میلی سی ) ، قرۃ العین حیدر ( میرے بھی صنم خانے ) ،وغیرہ قابل ذکر ہیں۔ مذکورہ تخلیق کاروں نے اپنے ناولوں میں نفسیاتی مطالعے اور فلسفیانہ مسائل کے ساتھ ساتھ ہماری سیاسی ، سماجی ، تہذیبی اور معاشی زندگی کے گوناں گوں پہلوؤں کو بڑی خوبصورتی کے ساتھ پیش کیا ہے۔ ترقی پسند تحریک کے اختتام کے ساتھ ہی جدیدیت کا بول بالا ہوا۔ اس رجحان کے زیر اثر اردو ادب بالخصوص اردو فکشن اور شاعری کئی طرح کی تغیر و تبدل سے آشکار ہوئی۔ علامتیت اور تجریدیت کا غلبہ ہوا۔ عینی نے برصغیر کی ہزار سالہ تہذیبی اور معاشرتی تاریخ کو تخلیقی ہنرمندی اور سنجیدہ مشاہداتی قوت کے ساتھ اردو کے ممتاز ناول ’’ آگ کا دریا ‘‘ میں پیش کرکے اردو ناول نگاری کا دھارا موڑ دیا۔اس دور میں اگرچہ ناول بھی لکھے گئے لیکن ان کی تعداد بہت کم ہے۔۷۵۔۱۹۷۰ء تک آتے آتے جدیدت کا رجحان اپنی اہمیت و معنویت کھونے لگا اور رفتہ رفتہ وہ تمام عناصر جنہوں نے کئی اعتبار سے ادب اور قارئین کے مابین ایک خلیج پیدا کیا تھا ، ذائل ہوگے اور وہ تمام عناصر جنہیں حاشے پر دھکیل دیا گیا تھا، پھر سے اپنی اہمیت و معنویت منوانے پر اصرار کرنے لگے۔
جدیدیت کے بعد اردو ناول اپنی نئی صورت حال سے متاثر نظر آتا ہے۔ اس دور میں ناول اپنے وہ عناصر جو کھوچکے تھے کے ساتھ ایک نئے رنگ و روپ میں ہمارے سامنے آیا جو اس کی اصل پہچان ہے۔ یہ دور اردو ناول کا خاص دور رہا ہے۔ہر طرح کے ادیبوں نے اس صنف کی طرف رخ کیا۔ پرانے ادیبوں کے ساتھ ساتھ بعض نئے تخلیق کار بھی اس فہرست میں شامل ہوتے گئے جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اس دور میں ناول نگاروں اور ناولوں کی اچھی خاصی تعداد ہمارے سامنے موجود ہے۔ جن میں موجودہ دور میں انسانی زندگی کو درپیش مسائل و معاملات کی سنگینیت کا نقشہ ابھارا گیا ہے اور آج کا ترقی یافتہ اور سائنسی و مشینی کلچر اپنے تمام آب و تاب کے ساتھ رقص کرتا نظر آتا ہے۔ بقولِ انور پاشا کے :
’’ معاصر ناول کا اصل سفر اس نسل کے ساتھ شروع ہوتا ہے جس نے ۸۵۔۱۹۸۰ کے بعد ناول نگاری کے میدان میں قدم رکھا اور گزشتہ ڈیڑھ دو دہائیوں میں اپنی شناخت بطورِ ناول نگار قائم کی ہے۔ اس نسل سے تعلق رکھنے والے ناول نگاروں نے اپنے ناولوں کے ذریعے اردو ناول نگاری کے افق کو وسعت عطا کرنے میں نمایاں کردار عطا کیا ہے۔ ان کے ناول فکری و موضوعی معنویت کے اعتبار سے اپنے پیش روؤں سے مختلف اور عصری تناظر کے ساتھ مکمل طور پر ہم آہنگ ہیں۔ ان کے یہاں ماضی کے بجائے حال اور صرف حال کا سیاق غالب ہے۔ انھوں نے اردو ناول کو عصری زندگی کے بعض ایسے گوشوں سے آشنا کیا ہے جو اب تک ہماری توجہ کا مرکز نہیں بن پائے تھے۔ ‘‘
( انور پاشا۔ بلونت سنگھ کا ایک یادگار ناول۔ ص ۶۱)
ہندوستان کے موجودہ ادبی منظر نامے پر جن تخلیق کاروں نے اپنی لازوال ا دبی نگارشات اور تخلیقی ہمہ جہتی کا مظاہرہ کرکے ادبی حلقوں میں نمایا ںپزیرائی حاصل کی ہے ان میں عبد الصمد ، مشرف عالم ذوقی ، پیغام آفاقی ، غضنفر علی ، شمس الرحمٰن فاروقی ، حسین الحق ، انیس اشفاق، نور الحسنین ، رحمٰن عباس ، کوثر مظہری ، سید محمد اشرف ، احمد صغیر ، وحشی سعید ، شموئل احمد ، ترنم ریاض ، شائستہ فاخری ، قمر جمالی وغیرہ کے علاوہ اور بھی بہت سارے نام شامل ہیں۔ ان میں سے بعض وہ فن کار ہیں جو پہلے ہی اردو کے ادبی حلقوں میں اپنا لوہا منوانے میں کامیاب ہوئے ہیں اور۶ بعض وہ ہیں جنہوں نے گزشتہ صدی کے آغاز سے ہی لکھنا شروع کیا ہے۔ ان تمام مصنفینِ ناول نے موجودہ دور کے مسائل و معاملات ، معاشرے میں پائی جانے والی بدعنوانیوں ، بے راہ روئیوں ، سیاسی و سماجی استحصال اور انفرادی و اجتماعی حادثات کو نہایت ہی فن کاری کے ساتھ اپنی تخلیقات میں اجاگر کیا ہے۔ گزشتہ کئی برسوں سے جو ناول منصہ شہود پر آگئے ہیںوہ اپنے پیش روؤں سے یقیناً بہت مختلف اور منفردہیں۔ان میں جن مسائل کی طرف انگلی اٹھائی گئی ہے وہ حقیقت سے زیادہ قریب اور ادیب کی سیاسی و سماجی بصیرتوں سے عبارت ہیں۔
موجودہ دور کی فکشن تاریخ میں عبد الصمد ایک معتبر نام ہے۔ ان کے اب تک کئی افسانوی مجموعے اور ناول شائع ہوچکے ہیں۔ دو گز زمین ، مہاتما ، خوابوں کا سویرا ، مہاساگر، شکست کی آواز اور دھمک عبد الصمدکے وہ ناول ہیں جن سے اردو ناول کی تاریخ کا ایک نیا باب شروع ہوتا ہے۔’’ دو گز زمین ‘‘ نہ صرف عبد الصمد بلکہ اردو ادب کا ایک شاہکار ناول ہے جس میں ۱۹۴۷ء کے فرقہ وارانہ فسادات اپنی تمام ہولناکیوں کے ساتھ موجود ہیں۔ اس کے علاوہ اس میں ہجرت کا سانحہ بڑے مؤثر طریقے سے پیش کیا گیا ہے۔ یہ ناول بظاہر ایک خاندان کی کہانی ہے لیکن عبدالصمد نے اپنے فن کارانہ شعور اور تخلیقی رویے سے اس کو برصغیر کے کم و بیش ہر اس خاندان کی داستان کے طور پر پیش کیا ہے جو تقسیم وطن کی خونی موجوں کی ذد میں آیا ہے۔ اس حوالے سے نور الحسنین کی یہ رائے پیش کی جاتی ہے وہ لکھتے ہیں کہ :
’’ دیکھا جائے تو یہ کہانی صرف بہار میں آباد کسی اختر حسین کی نہیں ہے بلکہ آزادی کے بعد یہاں رہنے والے سبھی مسلمانوں کی ہے۔ عبدالصمد نے اس ناول میں اسی کرب کو اجاگر کیا ہے۔ یہاں رہنے والے مسلمان خواہ مخواہ مشکوک ہیں تو وہاں جانے والے مسلمان بھی ابھی تک مہاجر کے لقب کا عذاب برداشت کر رہے ہیں۔‘‘
(نور الحسنین۔ اردوناول کی ایک صدی۔ ص ۸۰)
’’ مہاتما ‘‘ عبد الصمد کا وہ ناول ہے جس میں عصر حاضر کے ایک اہم مسئلے ’’ تعلیمی نظام کی بگڑی ہوئی صورت حال ‘‘ کو موضوع بنایا گیا ہے۔ آج کا تعلیمی نظام اقتدار پرست اور تاجرانہ ذہن کے مالک افراد کے ہاتھوں کھوکھلا بن چکا ہے۔ اس ناول میں مصنف نے اگرچہ صوبۂ بہار کی تعلیمی بد عنوانیوں اور وہاں کے دولت مند ٹھیکے داروں کی خود غرضانہ چالوں کا پردہ فاش کیا ہے لیکن اس کے پس پشت پورے ملک میں قائم نامور کالجوں ، یونیورسٹیوں اور دوسرے علمی اداروں میں جڑ پکڑے اس مہلک مسئلے کو بھی ابھارا گیا ہے۔ ناول نگار نے مرکزی کردار راکیش کے سہارے یہ تاثر قائم کیا ہے کہ کس طرح موجودہ دور میں ایک محنتی ، ذہین ، ایمان دار اور اصولوں و آدرشوں کا پابند طالب علم بعض شر پسند افراد کی منافقانہ سازشوں سے بے ضمیری اور غیر اخلاقی راہ اختیار کرنے پر مجبور ہوجا تا ہے۔
گزشتہ صدی میں جن قلم کاروں نے مختلف ادبی حوالوں سے اپنی شناخت قائم کی ،ان میں غضنفر ایک معتبر نام ہے۔ غضنفر نے نہ صرف اردو فکشن بلکہ شاعری ، تدریس و تنقید اور لسانیات کے موضوع پر بھی اپنی تخلیقات چھوڑ کر ادبی دنیامیں داد و تحسین وصول کی ہے۔ انہوں نے اب تک کم و بیش نو ناول جن میں پانی ، کہانی انکل ، دویہ بانی ، فسوں ، شوراب اور مانجھی وغیرہ شامل ہیں ، اردو دنیا کو تفویض کیے ہیں۔ غضنفر اپنے ناولوں میں اپنے عہد کے گوناگوں مسائل کو بڑے اختصار اور جامعیت کے ساتھ پیش کرتے ہیں۔ ان کے ناول اگرچہ ضخامت کے اعتبار سے کم ہوتے ہیں لیکن اپنی بات مکمل طور پر بیان کرنے میںہمیشہ کامیاب رہتے ہیں۔ موجودہ دور کے وہ مسائل جن سے آج کی نوجوان نسل یا تعلیم یافتہ نسل کافی پریشانی اور اکتاہٹ محسوس کررہی ہے ، میں سے ایک اہم اور سنجیدہ مسئلہ ’’ بے روزگاری ‘‘ ہے۔ آج کل کا ایک طالبِ علم جب اپنا تعلیمی مرحلہ طے کر کے روزی روٹی کی تلاش میں نکلتا ہے تو اسے مایوسی کے سوا اور کچھ ہاتھ نہیں آتا ہے۔ مایوسی کے عالم میں ہی وہ اس بے روزگاری سے نمٹنے کی خاطر بیرون ریاست اور بیرون ممالک ہجرت کرنے پر مجبور ہوجاتا ہے۔ غضنفر کا ناول ’’ شوراب ‘‘ عصرحاضر کے اسی پیچیدہ مسئلے کو پیش کرتا ہے۔ علاوہ اوہ ازیں یہ ناول اس بات کو بھی سامنے لاتا ہے کہ کس طرح ملک کے نظام تعلیم میں استادوں اور دوسرے اہم عہدوںکے تقررات کو لے جو تعلیمی ادارے سود و زیاں کا مسئلہ بے حیائی اور دیدہ دلیری سے طے کررہے ہیں اور جنہیں حکومتیںووٹ کی سیاست جان بوجھ کر نظر اندازکر رہی ہے۔ ناول کے کرداروں کے ذریعے غضنفر نے ان تمام مشکلات و مصائب کا بڑے دلکش انداز میں احاطہ کیا ہے جو ایک انسان کو اپنی ریاست یا اپنے وطن اور خلیجی ممالک کا رُخ کرنے کی صورت میں درپیش رہتے ہیں۔ ’’ دویہ بانی ‘‘ غضنفر کا ایک مشہور ناول ہے۔ اس ناول کی مقبولیت کا راز اس بات میں پوشیدہ ہے کہ یہ ناول ان کے باقی ناولوں سے موضوع اور زبان و بیان کے اعتبار سے مختلف بھی ہے اور منفرد بھی۔ اس ناول کا اسلوب استعاراتی اور علامتی ہے۔ یہ ناول ہمارے ملک میں گزشتہ کئی برسوں سے چلے آرہے مذہبی اور اقتداری ہوس پرستی اور اس کے نتیجے میں پیش آنے والے انسانی حقوق کی پامالی کا نہ صرف پردہ فاش کردیتا ہے بلکہ قارئین کو ان نامساعد سیاسی ، سماجی اور مذہبی عناصر سے واقف کرنے کے ساتھ ساتھ ان کے خلاف بغاوت پر بھی اکساتا ہے۔ یہ ناول لکھ کر غضنفر نے پہلی بار دلت طبقے سے وابستہ افراد اور ان کے درپیش مسائل و معاملات کی بڑی جرأت مندانہ اور مؤثر طریقے سے ترجمانی کی ہے۔ ناول کی شروعات ہی ظلم سے ہوتی ہے۔ پہلا ہی جملہ یوں ہے :
’’ ہون کنڈ کے چبوترے کے نیچے پتھریلی زمین پر جھگرو کسی بلی چڑھانے والے جانور کی مانند پچھاڑیں کھا رہا تھا۔آنکھوں کے ڈلے باہر نکل آئے تھے۔ چہرے کا رنگ زرد پڑگیا تھا۔ رگڑ سے جسم کی جلدجگہ جگہ چھل گئی تھی اور اس سے خون رس رہا تھا۔ اس کی کرب ناک چیخ دور دور تک گونج رہی تھی۔‘‘
( ناول۔ دویہ بانی۔ از۔ غضنفر علی )
اس کرب ناک، ظالمانہ اور حیوانیت سوز منظر کو دیکھ کر ایک معصوم بچہ( جو دنیاوی مسائل و معاملات سے بیگانۂ محض ہے )دیکھ کر تڑپ اٹھتا ہے اور معصومیت کی حالات میں سوال کر بیٹھتا ہے :
’’ بابا اسے پیڑت کیوں کیا گیا۔‘‘ ؟
’’ بیٹے اسے ڈنڈ دیا گیا۔‘‘؟
’’ ڈنڈ۔‘‘
’’ ہاں ڈنڈ۔ ‘‘
’’ پر کیوں بابا۔ ‘‘
’’ اس نے اپرادھ کیا ہے۔ ودھان کو توڑا ہے۔ مریادا کو بھنگ کیا ہے۔‘‘
’’ کون سا ودھان۔ کون سی مریادا۔‘‘
( ناول۔ دویہ بانی۔از۔ غضنفر علی )
دویہ بانی یعنی دیوی دیوتاؤں کے پاک اور مقدس ارشادات جو ایک انسان کو زندگی کے ہر ہر قدم پر کامیابی و کامرانی سے سرشار کرتے ہیں اور زندگی کو خوش اسلوبی سے جینے کا ایک سلیقہ سکھاتے ہیں لیکن اس طبقے ( دلت طبقے )سے اس قدر ظالمانہ رویہ رکھا گیا ہے کہ وہ ان مقدس ارشادات کو سماعت کرنے کے لیے بھی نا ہل قرار دیا جاتا ہے۔ اب اگر کوئی اچھوت کسی طرح سننے کی کوشش کرتا ہے تو انہیں دلدوز سزا دی جاتی ہے جیسا کہ ناول کے اہم کردار چمار اور بالو کے ساتھ کیا جاتا ہے۔ بقولِ علی احمد فاطمی:
’’ دویہ بانی اردو کا پہلا ناول ہے جو مکمل طور پر دلت نظام اور دلت مسائل پر لکھا گیا ہے جو ایک مخصوص سماجی ساخت ، تقسیم و تعریف ، ظلم اور عوامی انصاف ہی کی کہانی ہے۔ ‘‘
عصری آگہی رکھنے والے ایک اہم ناول نگار مشرف عالم ذوقی ہے۔ ان کا پہلا ناول ’’ عقاب کی آنکھیں‘‘ کے نام سے شائع ہواہے۔ اس ناول میں ذوقی نے انسانی فطرت کے فلسفے کو قاری کے سامنے پیش کیا کہ ہر مرد اور عورت کے اندر جنسی جذبات فطری طور پر موجود ہوتے ہیں۔ یہ ایک قدرتی فعل ہے جس سے ایک اگر انسان اگر لاکھ فرار حاصل کرنا چاہیے لیکن نہیں کرسکتا ہے۔ اس کے حصول کے لیے ہر ایک مذہب میں الگ الگ اصول و قوانین وضع کیے گئے ہیں۔ ایک انسان اپنے آپ کو کتنا ہی مارڑرن اور ترقی یافتہ کیوں نہ تصور کرے مذہبی قوانین سے کسی بھی صورت بغاوت نہیں کرسکتا۔
اس ناول کے بعد ذوقی کے یکے بعد دیگرے دس گیارہ ناول منظر عام پر آئے جن میں پوکے مان کی دنیا ،پروفیسر ایس کی عجیب داستان، آتش رفتہ کا سراغ، نالۂ شب گیر ، لے سانس بھی آہستہ اور آتش رفتہ کا سراغ وغیرہ ان کی تازہ اور قابلِ مطالعہ تخلیقات ہیں۔ ذوقی کے موضوعات عصرِ حاضر کے تغیر پزیر حالات سے ماخوذ ہوتے ہیں۔ ملک کے سیاسی ، سماجی ، معاشی اور اقتصادی و تہذیبی عناصر میں قدرے تیزی سے بدلاؤ ، سائنس و ٹیکنالوجی کے زیر اثر ہونے والی نئی نئی ایجادات ، تجربات و مشاہدات اور ہمارے سماج پر ان کے مرتب ہونے والے اثرات پر ان کی گہری نگاہ رہتی ہے۔ ان ہی کا نچوڑ وہ اپنے ناولوں میں پیش کرتے ہیں۔ ’’ پوکے مان کی دنیا ‘‘ اس تناظر میںذوقی کا ایک اہم ناول ہے جس میں انہوں نے موجودہ دور کی زندگی اور بدلتے تہذیب کی تصویر کشی کی ہے۔ پوکے مان کا تعارف کرکے ذوقی قارئین کی توجہ اس امر کی جانب مبذول کرتے ہیں کہ سائنسی ترقی اور گلوبلائزیشن کے پھیلاؤ سے کس طرح ایک چھوٹے اور مخصوص خطے کے افکار و خیالات اور جذبات و احساسات وغیرہ پوری کائنات کو کم و قلیل مدت میں اپنی گرفت میں لے لیتے ہیں۔ اس کے لیے انہوں نے جاپانی کمپنی کے بنائے ہوئے ایک سیریل کے مرکزی کردار ’’ پوکے مان ‘‘ کا احاطہ کیا ہے۔ یہ کردار نہ صرف ملکِ جاپان بلکہ کم و بیش دنیا کے ہر ایک حصے میں اس قدر مقبول ہوجاتا ہے کہ بچے اس جعلی کردار کے پوسٹر ، ٹیٹو اور کارڑ جمع کرنے کے لیے جنون کی حد سے بھی گزر جاتے ہیں۔
اس ناول میں ذوقی نے عہدِ حاضر کی تکنیکی ایجادات اور بچوں کی نفسیات میں آنے والی تبدیلیوں کو پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ پورا ناول ۱۲ سال کے ایک معصوم بچے ( روی کنچن ) کے گرد گھومتا ہے۔ روی کنچن باقی چھوٹے بچوں کی طرح معصوم ہے جس کا دنیاوی مسائل و معاملات سے کسی بھی طرح کا کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ روی کنچن ٹی وی سیریل پوکے مان دیکھ دیکھ کر پوکے مان کے کارڑ ، ٹیٹو اور پوسڑت جمع کرنے کا شوقین ہوجا تا ہے۔ بیلو فلم کا سی ڈی جسے بچوں کی دسترس سے دور رکھنا چاہیے تھا وہ اسے بہ آسانی دستیاب ہوجاتا ہے۔ اس طرح وہ اچھائی اور برائی کے مابین بلا کسی تمیز کے غلط کام کر بیٹھتا ہے۔ اس ناول سے متعلق ڈاکٹر مشتاق احمد اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ :
’’ پوکے مان اردو ناول کی دنیا کے لیے ٹرننگ پوئنٹ کی حیثیت رکھتا ہے۔ ایک وقت میں جہاں اردو ناول اقدار کی شکست و ریخت اور تہذیب کا مرثیہ لکھنے سے آگے نہیں بڑھ پا رہے ہیں ، ذوقی نے پوکے مان کی دنیا لکھ کر ایک ایسے موضوع کو سامنے رکھا جہاں سائنس اور ٹیکنالوجی کی ریس میں ایک پوری دنیا کا چہرہ تبدیل ہوچکا ہے۔ جہاں بچے اپنے وقت سے بہت آگے نکل چکے ہیں۔ جہاں خطرناک کھلونوں کا کھیل تھا اور بچوں کی تربیت کے پرانے راستے بند ہوچکے تھے۔‘‘
( جدیدحسیت کا ناول نگار۔ ذوقی۔ داکٹر مشتاق احمد۔ص ۳۷)
آج کی ادبی روایت میں شمس الرحمٰن فاروقی کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں ہے۔ آپ ایک ہمہ جہت شخصیت کے مالک ہیں۔اردو ادب میں آپ بحیثیت ایک نقاد ، محقق، افسانہ و ناول نگار کے اپنی اہمیت منوانے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ ’’ کئی چاند تھے سرِ آسماں ‘‘ فاروقی صاحب کا ایک اہم اور مقبول تخلیقی کارنامہ ہے جو اپنی اشاعت سے آج تک ادبی حلقوں میں بحث و مباحثہ کا حصہ بنی ہوئی ہے۔ اس ناول میں اٹھارویں صدی سے انیسویں صدی کے ہندوستان کی تہذیب ، معاشرت ، زبان،زندگی کی چہل پہل ، مستقل اور توانا اقدار ، وغیرہ کو نہایت تفصیل اور بھر پور جزیات کے ساتھ سامنے لایا گیا ہے۔ مشترکہ تہذیبی روایت کے ساتھ ساتھ زمانے اور سماں کی بدلتی کروٹ کو تاریخی پس منظر میں نہایت ہنرمندی سے پیش کیا گیا ہے۔ اس ناول سے متعلق چودری لیاقت علی لکھتے ہیں کہ :
’’ آخر کیا وجہ ہے کہ سوا سو برس گزر جانے کے بعد بھی ’’ آبِ حیات‘‘ کی شہرت ، مقبولیت اور ادبی اہمیت میں ذرہ برابر بھی کمی نہیں آئی ہے۔ محمد حسین آزاد نے اس کتاب میں ہمارے ادبی و تہذیبی ماضی کی جو تصویرکشی کی ہے وہ اس قدر زندہ اور متحرک ہے کہ ہم جب بھی اس پر نگاہ ڈالتے ہیں تو خود کو ایک نئی دنیا میں پاتے ہیں۔ اس لحاظ سے اگر دیکھا جائے تو ’’ کئی چاند تھے سرِ آسماں ‘‘ کو ایک معنی میں ’’ جدید آبِ حیات ‘‘ بھی کہا جاسکتا ہے۔ ‘‘
( شمس الرحمٰن فاروقی۔ کئی چاند تھے سرِ آسمان۔ایک مضمون: چودری لیاقت علی )
معاصر ناول نگاروں میں ایک اہم نام پیغام آفاقی کاہے۔ پیغام آفاقی نے شاعری اور افسانہ نگاری کے ساتھ ساتھ ناول نگاری کی صنف کو بھی اپنی قیمتی تخلیقات سے نوازا ہے۔ آپ کے اب تک دو ناول ’’ مکان ‘‘ اور ’’ پلیتہ ‘‘ اشاعتی مراحل سے گزر کر منظرِعام پر آچکے ہیں۔ اپنے ناولوں میں انہوں نے عصرِ حاضر میں راہ پانے والی غیر اخلاقیت ، قدروں کی شکست و ریخت ، سماجی برائیاں اور سیاسی بے راہ روی وغیرہ جیسے مسائل کی بڑی چابکدستی سے ترجمانی کی ہے۔ اپنے پہلے ناول ’’ مکان ‘‘ میں آفاقی نے ایک مکان اور اس کے کرایہ دار کی کہانی پیش کی ہے۔ پوری کہانی دو اہم کرداروں نیرا اور کمار کے گرد گھومتی ہے۔یہ دونوں کردار ایک دوسرے سے متضاد نظر آتے ہیں۔ نیرا جہاں ایک نڈر ، ذمہ دار اور باہمت نسوانی کردار کی صورت میں ہمارے سامنے آتی ہے وہیں کمار ایک خود غرض اور مکارانہ ذہنیت کا حامل ایک ایسا کردار ہے جو اپنی خود غرضی کے لیے بدترین حرکات کرنے سے بھی گریز نہیں کرتا ہے۔ اس ناول سے ایک اقتباس پیش کیا جاتا ہے جس سے نیرا کی صلاحیت اور ذہنیت کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے :
’’ تم سب مجھے کیا سمجھتے ہو ؟ تم سمجھتے ہو کہ میں ایک کمزور لڑکی ہوں ! میں عورت ہوں۔ میں ایک سمندر ہوں کہ جس میں پورا کا پورا پہاڑ غرقاب ہوسکتا ہے لیکن میں اپنے اندر جو کچھ سہتی ہوں اس سے نئی چیزیں جنم لیتی ہیں۔ میں کوکھ ہوں۔ میرے اندر جو عکس پیدا ہوتا ہے وہ محض خیال نہیں ہوتا۔‘‘
( مکان۔ پیغام آفاقی۔ ص ۷۷)
یہ اور اس طرح کے دوسرے حصے اس ناول کے مرکزی کردار کے اندر ہونے والی تبدیلی کوظاہر کرتے ہیں اور پیغام آفاقی کے اس ناول کو جہاں ایک طرف شخصیت کی تعمیر اور اثباتِ خودی کا ناول بناتے ہیں وہیں دوسری طرف سماج میں کمزور طبقوں کے ساتھ کی جانے والی ذیادتیوں ، سرکاری اداروں کی تباہی اور ان کی معنویت و افادیت ختم ہوجانے کو بھی سامنے لاتے ہیں۔
’’ پلیتہ ‘‘ پیغام آفاقی کا دوسرا مقبول ترین ناول ہے۔ جس کے مطالعے سے پیغام آفاقی کے گہرے وژن اور مختلف علوم پر ان کی کامل دسترس کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے۔ پلیتہ میں پیغام آفاقی نے انڈومان نکوبار میں واقع کالا پانی کو محور اور مرکزبنا کر ماضی سے لے کر تاحال کم و بیش تمام انسانی مسائل و معاملات کا محاسبہ کیا ہے۔ کالا پانی کو استعاراتی انداز میں پیش کر کے یہ طاہر کرنے کی سعی کی ہے کہ یہ جبر محض برصضیر میں ہی نہیں بلکہ پوری عالمِ انسانیت کو اپنی گرفت میں لیے ہوا ہے۔ اس ناول کے بارے میں حقانی القاسمی لکھتے ہیں :
’’ پلیتہ ایک انقلابی ناول ہے اور اس ناول کی روح زبان سے زیادہ اس کے ضمیر میں ہے۔ وہ ضمیر جس کا نام خالد سہیل ہے۔ یہ ری ویلویشن سے زیادہ ایویلویشن کا ناول ہے اس میں ناول نگار نے Periscopicوژن کا استعمال کیا ہے جو تخلیق کو عظمت عطا کرتا ہے۔ موضوعی اعتبار سے بھی اس ناول کے بارے میں رائے منفی نہیں ہوسکتی۔ ان کا اسلوب بھی انفرادی آہنگ لیے ہوئے ہے جو دیگر ناول نگاروں سے مختلف ہے۔ ‘‘ (پلیتہ۔ نئے عہد کی ریطوریقا۔ از۔ حقانی القاسمی )
ناول میں اقتداری نظام اور اس نظام کے ساتھ جڑے دوسرے شعبے جن میں پریس ، میڈیا ، پولیس وغیرہ شامل ہیں ، کے منافقانہ روئے پرسے پردہ اٹھایا گیا ہے۔ سیاسی ،سماجی اور مذہبی مفادات کی حصولیابی کی خاطر ذات پات ، اونچ نیچ ، چھوت چھات اور نچلے طبقے کے ساتھ بھید بھاؤ وغیرہ جیسے عناصر پر بھر پور طنز کیا گیا ہے اس لیے کہ یہی وہ ہتھیار ہے جسے استعمال میں لاکر انگریز اپنے قدم مضبوطی سے جمانے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ مثال کے طور پر ناول سے یہ اقتباس پیشِ خدمت ہے :
’’ ہم تم سے نفرت نہیں کرتا۔ہم تمہارے ہاتھ کا دیا ہوا پانی پی سکتا ہے اس لیے کہ ہم تم کو انسان سمجھتا
ہے لیکن تمہارا برہمن تم کو جانوروں سے بھی بدتر سور سمجھتا ہے۔‘‘
( پلیتہ۔ از۔ پیغام آفاقی )
اگرچہ اس ناول کا موضوع حاکم و محکوم کے رشتے کو پیش کرنا ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ سماجی ، سیاسی و معاشی قدروں کی گراوٹ اور سرمایہ داروں کا سماج میں پھیلتا ہوا ظلم و ستم اور غنڈہ گردی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے یہ ناول موجودہ دور کے تمام سیاسی حالات کو پیش کرتا ہے۔
عصری عہد کے مقبول ناول نگاروں میں شموئل احمد کا نام قابلِ ذکر ہے۔ ان کا پہلا ناول ’’ ندی ‘‘ ۱۹۹۳ء میں شائع ہوا ہے۔ یہ ناول جنسی نفسیات سے متعلق ایک اہم ناول ہے جس میں مصنف نے مرد اور عورت کے ہمہ جہت کردار کو ماضی اور حال کے تناظر میں پیش کیا ہے۔ مرد اور عورت کے بیچ قائم شدہ ازلی و ابدی رشتے اور ان کے جنسی تعلق کو فنی چابکدستی کے ساتھ روشن کیا ہے۔ موجودہ صدی میں ان کا ایک اہم ناول ’’ مہاماری ‘‘ کے نام سے منظرِ عام پر آچکا ہے۔ اس میں آج کے سیاسی ، سماجی اور سرکاری افسر شاہی کے پورے سسٹم کو بڑی بے باکی سے اجاگر کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ یہ ناول ملک کے سیاسی نظام کے خلاف ایک بھر پور پروٹسٹ ہے جس میں سیاسی لیڈروں کی بدعنوانیوں ، شیطانی چالاکیوں اور بد اخلاقیوں کو پیش کرکے اس بات کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ کس طرح کرپٹ لیڈر سیدھے سادھے اور غریب لوگوں کا بے جا استحصال کرتے ہیں۔ ناول نگار نے کانگریس اور بی جے پی کے آپسی اختلافات اور گروہ بندیوں کوبھی ہوا دی ہے۔
حسین الحق کے اب تک دو ناول شائع ہوئے ہیں۔ ان کا پہلا ناول ’’ بولو مت چپ رہو‘‘ جنریشن گیپ اور بدلتے ہوئے تہذیبی و معاشرتی اقدار سے پیدا شدہ صورت حال کو موثر انداز میں گرفت میں لاتا ہے۔ اس ناول میں مصنف نے آج کے تعلیمی نظام کی تبدیلیوں اور شاہی افراد کی خود غرضیوں اور غلط اندیشیوں کو موضوع بنایا ہے۔ ’’ فرات ‘‘ جو حسین الحق کا دوسرا اورمقبول ناول ہے ،میں انہوں نے ماضی کے پس منظر میں جدید عہد میں ذات پات سے طبقاتی کشمکش ، سیاسی اور سماجی بے راہ روی ، مسلمانوں کی زبوں حالی ، اخلاقی و روحانی قدروں کی شکست و ریخت وغیرہ جیسے مسائل کی پیش کش کی ہے۔ یہ ایسے لوگوں کی کہانی ہے جو چھوٹی چھوٹی خواہشات کے لیے زندگی میں پیش آنے والے مسائل اور اپنے جذبات و احساسات پورا کرنے کے لیے زندہ رہنے پر مجبور ہیں جو دریائے فرات کے کنارے پہنچ کر بھی پیاسے ہیں۔ حسین الحق نے اس ناول میں تین نسلوں کی زندگی کو سمیٹنے کی کامیاب سعی کی ہے جس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے انور پاشا لکھتے ہیں کہ:
’’ حسین الحق کا ’’ فرات ‘‘ معاصر ناولوں میں موضوعی اعتبار سے قدرے الگ جہتیں رکھتا ہے۔ یہ ناول جنریشن گیپ اور بدلتے تہذیبی و معاشرتی اقدار سے پیدہ شدہ صورتِ حال کو موثر انداز میں گرفت میں لاتا ہے۔ تین نسلوں کے درمیان موجود ذہنی بعد اور معاشرتی تہذیبی و اخلاقی قدروں کے تصادم سے ناول کا ہیولا تکمیل پاتا ہے۔ زبان و اسلوب میں رچاو ٔ اور چاشنی سادہ بیانیہ کو تازگی عطا
کرتی ہے۔‘‘
( معاصر اردو افسانہ کے تہذیبی وسماجی سروکار۔ از۔ انور پاشا۔ نیا سفر دہلی۔ ص ۲۴)
حسین الحق کا تازہ ناول ’’ اماوس میں خواب ‘‘ ادبی منظرنامے پر نہایت ہی خوبصورتی کے ساتھ سامنے آیا۔ یہ سالِ رواں میں شائع ہوکر ادبی حلقوں میں بحث و تمحیص کا موضوع بنا ہوا ہے۔
رحمٰن عباس عصر حاضر کے ایک ایسے ناول نگار ہے کہ جن کے ناول اردو ناول نگاری کی تاریخ میں ایک نئے باب کا اضافہ کرتے ہوئے انسان کے اُس روپ کو بے نقاب کرتے ہیں جسے برسوں سے اس نے اپنی شخصیت کے پردے تلے چھپائے رکھا تھا۔انہوں نے انسانی نفسیات اور انسانی حرکات و سکنات کے بیان میں اعلیٰ طرفی کا ثبوت فراہم کیا ہے اور ساتھ ہی یہ ثابت کیا ہے کہ انسان خیر و شر کا مجموعہ ہونے کے باوجود فطری طور پر بُرا نہیں ہوتا ہے بلکہ حالات اسے اچھا یا برا کرنے پر مجبور کرتے ہیں۔ ’’ نخلستان کی تلاش میں ‘‘ میں انہوں نے ان لوگوں کو موضوع بنایا ہے جو معصوم اور بے گناہ ہونے کے باوجود بھی مستحقِ سزا ٹھہرائے جاتے ہیں اور وہ لوگ پوری زندگی اپنی کوئی الگ اور منفرد پہچان قائم کرنے میں ناکام رہتے ہیں۔ ’’ ایک ممنوعہ محبت کی کہانی ‘‘ کوکن کے ایک دیہات ’’ سورل ‘‘ کے بدلتے ہوئے سماجی ، مذہبی ، معاشرتی سروکار کے پس ِ منظر میں ایک المیہ رومانی کہانی ہے۔ رحمٰن عباس نے عشق و محبت کے بیان میں ان تمام مسائل کو سمیٹ لیا ہے جو نہ صرف کوکن اور اس کے گرد و نواح تک ہی محدودہیں بلکہ دنیا کے بیشتر ممالک تک پہنچ چکے ہیں۔ ’’ خدا کے سائے میں آنک مچولی ‘‘ ان کا ایک اہم ناول ہے۔ جس نے معاشرے کی اُن رسوماتِ بد کو کھوجا ہے جنہوں نے انسان کی سماجی زندگی عذاب بنادی ہے۔ نفسیاتی اعتبار سے بھی یہ ناول ہے۔ رحمٰن عباس کا تازل ناول ’’ روحِزن‘‘ ادبی حلقوں میں مناسب داد و تحسین وصول کرنے میں کامیاب ہوا۔ یہ ناول دنیا کی دوسری اہم زبانوں بالخصوص جرمنی میں ترجمہ ہورہا ہے۔
موجودہ دور کے نت نئے مسائل و معاملات اور واقعات و حادثات کو خوش اسلوبی سے پیش کرنے والے فن کاروں میں نور الحسنین کا نام بھی ناقابلِ فراموش ہے۔ افسانوں کے علاوہ ان کے دو اہم ناول ’’ آہنکا ‘‘ اور ’’ ایوانوں کے خوابیدہ چراغ ‘‘ بھی منصۂ شہود پر آکر اپنی اہمیت منوانے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ ’’ آہنکا ‘‘ مادیت اور انسانی رشتوں کے ٹکراؤ کی کہانی ہے جب کہ ’’ ایوانوں کے خوابیدہ چراغ ‘‘ میں ۱۸۵۷ کے تاریخی واقعات اور جنگِ آزادی کا نقشہ بڑی خوبصورتی سے کھینچا گیا ہے۔ اس کے کردار وہ عام لوگ ہیں جو اس جنگ میں شریک ہوکر شہید ہوگئے لیکن جن کے کارناموں کو تاریخ آج تک دہرانے سے قاصر ہی نظر آرہی ہے۔ ڈاکٹر علی احمد فاطمی اس ناول سے متعلق اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے یوں رقمطراز ہیں :
’’نور الحسنین کا یہ ناول ان حوالوں سے کامیاب ناول ہے ، جو تاریخ کا ہی نہیں زندگی کے پیچ و خم اور کیف و کم کا مفکرانہ و فن کارانہ آئینہ دار ہے۔ اس عہد میں جب عام سماجی ، معاشرتی ناولوں کا ہی فقدان ہے ، نور الحسنین نے تاریخی بلکہ اور آگے بڑھ کر فلسفیانہ نوعیت کا ناول لکھ کر ایک بڑا کارنامہ انجام دیا ہے۔‘‘
( تضاد و تصادم کی داستان۔ ایوانوں کے خوابیدہ چراغ۔از۔ ڈاکٹر علی احمد فاطمی۔ص ۲۵)
ان کا تازل ناول ’’ تلک الایام ‘‘ ترتیب و تزئین کے آخری مراحل سے گزر رہا ہے اور امید کی جارہی ہے کہ اس کے دوسرے ناولوں کی طرح یہ ناول بھی ایک معیار قائم کرنے میں کامیاب ہوگا۔
ریاست جموں و کشمیر جہاں ایک طرف اپنے قدرتی حسن و دلکشی سے ملک اور بیرون ممالک کے افراد کو اپنی طرف کھینچتی ہے وہیں یہاں کے برسوں سے چلے آرہے نامساعد سیاسی و سماجی حالات بھی عام لوگوں کے ساتھ ساتھ ادباء و شعرا کی توجہ اپنی طرف مبذول کرتے ہیں۔ شاعر و ادیب چوں کہ ایک حساس ذہنیت کے مالک ہوتے ہیں۔ ایک مخصوص خطے سے وابستہ ہونے کے باوجود وہ ملک کے اطراف و اکناف میں پیدہ شدہ حالات و معاملات کا بغورمشاہدہ کر کے اپنی تخلیقات کا حصہ بناتے ہیں۔ اس ریاست میں برپا خون ریزی ، ظلم و تشدد ، کھلے عام قتل و غارت ، معصوم و بے گناہ لوگوں کے استحصال ، سیاسی اختلافات ، وغیرہ جیسے حیوانیت سوز عناصر کو کم و بیش ہر ایک فن کار نے اپنی اپنی جگہ پر پیش کیا ہے۔ موجودہ دور میں بھی یہ معاملہ پس پردہ ہونے کے بجائے مزید زور و شور سے سامنے آرہا ہے۔ علی امام نقوی کا ناول ’’ بساط‘‘ اس موضوع سے متعلق ایک اہم اضافہ ہے۔ یہ ناول اگرچہ زیادہ ضخیم نہیں ہے لیکن اس کا کینوس نہایت ہی جامع اور وسیع ہے۔ یہ ناول مذکورہ ریاست ( ریاستِ جموں و کشمیر )کے سیاسی تنازعات اور یہاں کے لوگوں کی بے کسی و بے بسی کو نہایت ہی مؤ ثر انداز میں بیان کرتا ہے۔ کشمیر کے اس الجھے مسئلے کو پیش کرنے اور اس کے پسِ پشت کارفرما عناصر کو پیش کرنے کے علاوہ یہاں کے لوگوں کے استحصال کی پوری تصویر کشی اس ناول میں بڑی فن کاری سے کی گئی ہے۔
آج کل کے دور میں جہاں مرد قلم کار حضرات نے اردو ادب کی اس مقبولِ عام صنف (ناول ) میں اپنی انفرادی تخلیقی صلاحیتوں اور گہرے وژن کی بدولت اپنا ایک مخصوص مقام قائم کیا ہے وہیں خواتین قلم کار بھی ناول کو معیار و وقار عطا کرنے میں پیش پیش ہیں۔ ترنم ریاض ، شائستہ فاخری ، قمر جمالی ، ثروت خان ، خوشنودہ نیلوفر، صادقہ نواب سحر، نجمہ سہیل ، نکہت حسن ، خالدہ حسین وغیرہ وہ نام ہیں جنہوں
نے اپنے وسیع مطالعے اور مشاہدے کا مظاہرہ کرتے ہوئے زندگی کی رنگا رنگیوں کو اپنے ناولوں میں کامیابی کے ساتھ پیش کیا ہے۔ ان کے ناولوں میں تجربات کی گونا گونی ملتی ہے وہ انسانی رشتوں کی پاکیزگی ، تنوع ، حرارت اور نزاکت کا احساس دلاتے ہیں اور ساتھ ہی ساتھ موجودہ دور میں سائنس اور ٹیکنالوجی کے غلبے کے زیر اثر انسانی اقدار کی بے حرمتی ، مردوں کی انسانیت کش بالادستی اور ناقدری ، ممتا کی بے حرمتی ، خونی رشتوں کی تضحیک جیسے مسائل ان کے ناولوں سے مستخرج ہوتے ہیں۔ اردو ادب میں ترنم ریاض کی اہمیت کئی حیثیت سے ہے وہ بیک وقت ایک افسانہ نگار ، تنقید نگار اور ناول نگار ہے۔ ان کا پہلا ناول ’’ مورتی ‘‘ ۲۰۰۴ء میں شائع ہوکر منظرِ عام پر آیا۔ اس ناول میں ترنم ریاض نے ازدواجی زندگی کے مسائل اور ناکام ازدواجی زندگی کے اسباب کو موضوع بنایا ہے۔
ترنم ریاض کا دوسرا اہم ناول ’’ برف آشنا پرندے ‘‘ کے نام سے ۲۰۰۹ء میں شائع ہوا۔ اس ناول میں مصنفہ نے شروع سے آخر تک کشمیر کی تہذیب اور یہاں کے حالات کی عکاسی بڑی فن کاری سے کی ہے۔ ترنم ریاض وادیٔ کشمیر کی صورت حال کا دانشورانہ تجزیہ کرتے ہوئے کشمیر کے ماضی اور حال کی عکاسی جرأت مندانہ اور حقیقت پسندانہ رویہ سے کرتی ہے۔ یہ ناول ایک مسلم کشمیری خاندان کے تہذیبی زوال کی خوب صورت و معنی خیز داستان ہے۔اس ناول میں مصنفہ کلی طور پر کشمیر کی تاریخ نہیں دوہرا رہی لیکن ناول کا مرکزچوں کہ کشمیر ہی ہے اس لیے یہاں کی تاریخ کے بعض اہم واقعات کو بڑی مہارت کے ساتھ ناول کے اصل قصے کے ساتھ جوڈا ہے جو آہستہ آہستہ ناول کے
اصل قصے یا نقطۂ نظر کو آگے بڑھانے کے ساتھ ساتھ تاریخی جہات کو بھی واضح کردیتا ہے۔ اس سے مصنفہ کی علمیت و ذکاوت اور تاریخ سے دلچسپی کا اظہار ملتا ہے :
’’ بارہ سو کے قریب چنار کے درختوں کا نسیم باغ شہنشاہ اکبر نے صدیوں پہلے ۱۵۸۶ء میں ڈل جیل کے کنارے بنوایا تھا۔ باغ یونیورسٹی سے منسلک تھا بلکہ یونیورسٹی کے کچھ انتظامیہ اور دو ایک شعبے قریب ہی تھے۔۔۔۔یہ ڈل جھیل کا مغربی کنارہ ہے۔ ‘‘
( ناول۔ برف آشنا پرندے۔ ڈاکٹر ترنم ریاض )
’’ کہانی کوئی سناؤ متاشا ‘‘ اور ’’جس دن سے ‘‘ ناولوںکی مصنفہ صادقہ نواب سحرنے اپنے ناول میں عورت کی مظلومیت کو ایک عورت کی زبانی بیان کر کے قارئین کے دل و دماغ پر سحر کی سی کیفیت طاری کی ہے۔ پوری کہانی ناول کے مرکزی کردار ’’ متاشا‘‘ کے گرد گھومتی ہے۔ جو ایک عورت کے استحصال اور اس کے دردو کرب کی بھر پور داستان موثر زبان میں پیش کرتی ہے۔ اسی موضوع سے متعلق شائستہ فاخری نے اپنا ناول ’’ نادیدہ بہاروں کے نشاں‘‘ تحریر کیا ہے جس میں انہوں نے مردوں کی بالادستی ، خود غرضی اور انانیت کے نتیجے میں عورتوں کی بے بسی اور مظلومیت کی داستان نہایت باریک بینی سے پیش کی ہے۔ تروت النساء کا ناول ’’ اندھیرا پگ ‘‘ اور ناول نگاری میں ایک اہم اضافہ ہے۔ اس ناول کا موضوع بیوہ عورت کی زندگی ہے۔ اس ناول کی کامیابی کا راز یہ ہے کہ مصنفہ نے موضوع کی نسبت سے ناول میں راجستھانی سوسائٹی کا خوبصورت مرقع پیش کیا ہے۔ وہاں کے پنڈتوں ، پروہتوں ، وہاں کی معاشرت ، رسم و رواج ، سماجی زندگی ، مذہب ، کلچر وغیرہ غرض وہاں کی پوری سوسائٹی اپنی خوبیوں اور خامیوں کے ساتھ ابھر کر سامنے آتا ہے۔ اس کے علاوہ نجمہ سہیل کا ناول ’’ اندھیرا ہونے سے پہلے ‘‘ ، نکہت حسن کا ’’ جاگنگ پارک ‘‘ ، خالدہ حسین کا ’’ کاغذی گھاٹ‘‘ ، صغرا مہدی کا ’’ دھند ‘‘ ، ساجدہ زیدی کا ’’ مٹی کے حرم ‘‘ وغیرہ جیسے اہم ناول اردو ادب کو موجودہ صدی کی ہی دین ہیں۔
موجودہ دور میں اردو ناول کے اس سرسری جائزے کو ملحوظ خاطررکھ کر یہ بات وثوق سے دہرائی جاسکتی ہے کہ اس صنفِ ادب کے حال کی طرح اس کا مستقبل بھی روشن و تابناک ظاہر ہوگا۔ مرد قلم کاروں کے ساتھ ساتھ خواتین تخلیق کار بھی اس صنف کو موضوعی اور ہئیتی اعتبار سے بلندی اور رنگا رنگی مہیا کرنے میں اپنا نمایاں رول کامیابی سے ادا کررہے ہیں۔ بدلتے زمانے میں جو نئے نئے مسائل انسان کو درپیش رہتے ہیں ،خواہ وہ سیاسی ہو یا سماجی ، معاشی ہو یا اقتصادی ، تہذیبی ہو یا نفسیاتی ، اردو ناول میں بڑی چابکدستی سے منصۂ شہود پر لائے جاتے ہیں۔
٭٭٭
Urdu mein Navel Nigari ki Maujooda Surate Hal by: Tauseef Ahmad Dar
Leave a Reply
Be the First to Comment!