تجریدیت اور مختصر افسانہ

نثار احمد ڈار

لکچرار اردو، تاریگام، کولگام، کشمیر، پن کوڑ:192232

9906872752

 بیسویں صدی کی پہلی دہائی سے مختصر افسانہ اردو ادب میں منظر عام پر آیا۔ اس وقت سے لے کر 1955 ء تک اس میں بہت ساری تبدیلیاں رونما ہوئیں۔ مختلف تحریکات اور رجحانات کا اثر مختصر افسانے پر پڑے۔ تاہم 1955 ء کے بعد اس صنف میں ایک ایسا انقلاب آیا جس کی وجہ سے مختصر افسانے کی تعریف بدل سی گئی۔ افسانے کی کچھ اہم خصوصیات میں بھی ردوبدل ہوئی اور بڑی حد تک افسانہ اپنی شناخت کھو بیٹھا۔ یہی افسانہ بعد میں’’تجریدی یا تجرباتی‘‘ افسانہ کہلایا۔

 تجرید جسے انگریری میں Abstract کہتے ہیں کے معنی تجریدی، خیالی یا صرف اس کیفیت کے ہیں جسے صرف محسوس کیا جاسکے ، سوچا جاسکے لیکن چھو نہ سکیں۔ یہ دراصل فنون لطیفہ میں مصوری کا ایک خاص حصہ ہے جسے اپناتے وقت مصور صرف رنگوں کی زبان استعمال کرتا ہے۔ وہ بھی واضح نہیں، کہیں لال رنگ کے چھینٹے تشدد سے جوڑ دئیے ، کہیں کالے رنگ کو بھوک اور موت سے کہیں ہرا اور سفید رنگ خوش حالی اور امن سے مربوط کر دیا۔ اب ان مجرد اشیاء کو Concrete مادہ سے جوڑ کر افسانے کی پیکر میں ڈھالنا جو کہ خود بیانیہ کا محتاج ہے، وہاں پر بھلا کیسے پڑھنے والا ان موشگافیوں کو سمجھ سکے گا!

 اردو افسانے میں تجریدیت کو کیسے برتا گیا، اس کی وضاحت سے قبل یہ سمجھنا ہوگا کہ تجریدی افسانہ کیا ہے؟ اس کے لفظی معنی کیا ہیں اور اس سے داخلی یا خارجی کیا معنیٰ اخز کیے جاتے ہیں، جیسا کہ J.A.Cuddon نے Dictionary of literary terms and literary theory میں لکھا ہے:

’’Abstract is not concrete, a sentence is abstract if it deals with a class of things or persons; e;g, All men are lairs, on the other hand Smith is lair, is a concrete statement. the subject of  a sentence may also be an abstraction as in ‘the wealth of the ruling classes’ Some things may be said to be abstract if it is the name for aquality, like heat of fuith’’

)A Dictionary of literary terms and literary theory by John Anthony 4Th Edition, Published By Blackwei publishers Ltd,  1996, New York Page No 3(

تجریدیت مادہ نہیں ہوتی۔ وہ جملہ تجریدی ہوتا ہے جو ایشاء یاا شخاص میں رابطہ قائم کرتا ہے۔ مثال کے طور پر ہم یہ کہیں کہ تمام آدمی جھوٹے ہوتے ہیں بجائے اس کے کہ اسمتھ جھوٹا ہے تو یہ مادیاتی بیان ہوئے۔ کچھ چیزوں کو تجریدیت سے جوڑا جا سکتا ہے۔ اگر ہم کسی خصوصیت کو نام دیں ـ’’حکمراں طبقون کی دولت۔‘‘ کوئی بھی چیز تجریدیت کہی جاسکتی ہے اور اس کے نام سے اس کی خصوصیت سے اظہار ہو سکتا ہے جیسے حرارت یا عقیدہ۔

 مطلب تجریدیت عمومیت کی طرف مائل ہوتی ہے۔ تخصیص اس کا مزاج نہیں جیسے ہی تجرید تخصیص کی طرف جھکتی ہے کنکریٹ بن جاتی ہے اور افسانے میں برتنے پر یہ اصطلاح کچھ اور شکل اختیار کرتی لیتی ہے۔ دراصل تجریدی کہانیوں میں واقعات کوحقیقی شکل میں پیش نہیں کیا جاتا بلکہ ان کی وہ صورت پیش کی جاتی ہے جو فنکار کے لاشعورسے ابھرتی ہے۔ یہاں واقعات، موضوع یا کردار ریادہ اہمیت نہیں رکھتے بلکہ وہ تاثر یا ردعمل زیادہ اہمیت کا حامل ہوتاہے جو متعلقہ واقعات اور کیفیات کے نتیجے میں پیدا ہوتا ہے۔ تجریدی افسانے کو ایک خاص تاثر تلازمۂ خیال اور شعور کی رو کی تکنیک سے ملتا ہے۔ تجریدی افسانوں کے سلسلے میں سلیم اختر لکھتے ہیں:

’’اپنی خالص صورت میں تجریدی افسانے کو فلم ٹریلر سے مشابہ قرار دیا جاسکتا ہے۔ فلم کے برعکس ٹریلر میں نہ تو واقعات منطقی ربط میں ملتے ہیں اور نہ ہی اس میں وحدت زماں کو ملحوظ رکھا جاتا ہے۔ اس کے باوجود ٹریلر تمام فلم کا ایک مجموعی مگر مہم سا تاثر دے جاتا ہے۔ یہی حال تجریدی افسانے کا ہے۔ روایتی افسانے میں واقعات کی کڑیاں جوڑنے کے لیے پلاٹ اور ان میں منطقی ربط رکھنے کے لیے زمانی تسلسل برقرار رکھنا لازم ہے۔۔۔ تجریدی افسانے میں شعور (حال) اور تحت الشعور(ماضی) کے ساتھ ساتھ لاشعور بھی گڈمڈ نظر آتا ہے۔‘‘  ۱؎

گو کہ تجریدی افسانہ لکھنے والوں نے صرف اتنا سمجھا کہ تجریدی افسانے میں کوئی منطقی تسلسل نہیں ہوتا۔ وہ پلاٹ، کرداراور کہانی پن سے مبرا ہوتے ہیں۔ یہاں پر یہ بھی سمجھنا لازمی ہے کہ تجریدیت دراصل مصوری کی ایک اصطلاح ہے۔ تجریدی مصور جب تصویر بناتا ہے تو خطوط کی ہمواری اور اس کے منطقی ہونے پر زیادہ دھیان نہیں دیتا بلکہ آڑھی ترچھی لکیروں کے ذریعہ تاثر کی تخلیق کرتا نظ آتا ہے۔ کلیتا ً مصوری کی اس اصطلاح کو افسانہ نگار واقعتاً اپنی کہانی میں لاتا ہے تو پھر اس میں الفاظ کے شیڈس ہوں گے یعنی الفاظ کا وہی کام ہوگا جو مختلف رنگوں کا ہوتا ہے۔ کہانی کا ر تخیل کے برش سے الفاظ کا رنگ بھر گا۔ یہاں پر بھی دیگر اصطلاحات اور فنون کی طرح تخیل میں موضوع کا تعین کرتا ہے۔ تخیل ہی وہ سرجشمہ ہے جس سے فنکار کبھی اپنا رشتہ توڑ نہیں سکتا۔ سماج اور زندگی کے طور طریقے بدلے، لیکن تخیل کی قوت اور اس کا رول ہمیشہ ادیب پر حاوی رہا ہے۔ وہ اپنے تخیل کے زور سے نہ جانے کون کون سے جہانوں کی سیر کراسکتاہے۔ پھر یہاں تولکھنے کے طرز کی محض ایک اصطلاح ہے جسے وہ اپنے تخیل کے ذریعہ فکر میں ڈھال کر الفاظ کا جامہ پہناتا ہے۔

 سوال یہ پیدا ہوتا کہ افسانہ نگار ی کوئی مصوری تو ہے نہیں کہ آرٹ کی طرح اس میں آڑی ترجھی لکیروں سے مفہوم نکل آئے گا۔ ہاں تجریدیت کے تعلق سے افسانہ لکھنے والے نہ تو وحدت تاثر کا لحاظ رکھتے ہیں اور نہ واقعات کی کڑیاں جوڑنے کی شرط کو مدِنظر رکھتے ہیں۔ ان کے لیے پلاٹ اور وقت کا تسلسل بھی ضروری نہیں۔ جیسا کہ مرزا حامد بیگ نے تجرید کے بانی مصور مونےؔ کا یہ قول نقل کیا ہے:

’’تخلیق کار کا مقصد تشریح کرنا نہیں بلکہ محض اشیاء کے آہنگ سے مسرت حاصل کرنا ہے۔‘‘ ۲؎

اردو افسانے کے پسِ منظر میں اگر جائیں تومصوری کی اس اصطلاح ’تجرید‘ کا دور ساٹھ ستر سال قبل شروع ہوا۔ اسے فن برائے فن بھی کہہ سکتے ہیں۔ تجرید کے حامیوں نے فطرت سے منہ موڑنا شروع کرد یا۔ فطری قانون و قواعدہ سے وہ اس قدر باغی ہونے لگے کہ آنکھ کی جگہ اگر چہرے پر نہ ہو تو کوئی بات نہیں وہ بدن کے کسی دوسرے حصے پر بھی اُگ سکتی ہے، اسی قسم کی سوچ تصویر کاری سے تجرید تک پہنچ گئی۔

  انسان کی منتشر ، ٹوٹی کٹی زندگی کی عکاسی جس طرح مصور برش سے کرتا ہے، اسی طرح افسانہ نگار تجریدیت کے رنگ میں اپنی تخلیق پیش کرتا ہے۔ تجریدی آرٹ کی طرح تجریدی افسانہ بھی زندگی کی معنویت کے بجائے لغویت پر یقین رکھتا ہے اور اس کے اظہار کے لیے لکھا جارہا ہے۔ اس میں نہ عصریت تھی نہ آگہی اور نہ ہی افسانویت۔ تجریدیت کے تعلق سے افسانہ لکھنے والے نہ تو وحدت تاثر کا لحاظ کر رہے تھے اور نی واقعات کی کڑیاں جوڑنے کی شرط کع مدِ نظر رکھ رہے تھے۔ ان کے لیے پلاٹ اور وقت کا تسلسل بھی ضروری نہیں تھا، اسی لیے تجریدی افسانہ نگاروں نے بغیر پلاٹ کے افسانے لکھے اور اس کے لیے یہ دلیل دی کی ہماری زندگی کا کوئی ہموار پلاٹ نہیں اور افسانے میں زندگی کی تعبیر و تشریح ہوتی ہیم لہذا حقیقت کو گرفت میں لینے کے لیے پلاٹ سے اسے آزاد کرنا انتہائی ضروری ہے۔ پلاٹ سازی کی عدم توجہی بڑے بڑے افسانہ نگاروں کے یہاں نظر آنے لگی۔ کرشن چندر کا غالیچہ،چوراہے کا کنواں، احمد ندیم قاسمی کا سلطان، ممتاز ممفتی کا میگھ ملہار، منٹو کا پھندنے وغیرہ انہیں رجحانات کے تحت لکھے گئے۔ حالانکہ دیکھا جائے تو تجریدی فسانہ اپنی بے چہرگی اور لایعنیت کی وجہ سے مقبولیت کی اس منزل سے بہت دور رہا جس سے اردو افسانے نے ادب می اپنا مقام بنایا تھا۔ ناقدین نے تجریدی افسانے کی خامیوں کا اجاگر کیا۔ تجریدی افسانے پراپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے گیان چند جین لکھتے ہیں:

’’مجھے تجریدی افسانوں کے موضوع پر اعتراض نہیں ، لیکن میں نہیں جان سکتا کہ ان حضرات کو مبہم علامتوں، مہمل خود کلامی اور خواب کی زبان میں ہی بیان کیا جاسکتا۔ موجودہ صورت میں یہ افسانے افسانے نہیں مقالے ہیں۔ موجودہ عہد کے جس جوان کے لیے یہ لکھے گئے ہیں، وہ نہ انھیں سمجھ سکتا ہے اور نہ ان کی طرف توجہ کرتا ہے۔ انہیں تو صرف نقاد اورادبیات کے طالب علم پڑھتے ہیں۔ ان میں جو کہا جاتا ہے وہ غیر منتشر انداز میں بھی کہا جاسکتا تھا لیکن معلوم ہوتا ہے کہ نیا افسانہ نگار قصداً طبیعت پر جبر کرکے اس طرح لکھتا ہے۔‘‘  ۳؎

اس انداز سے لکنے والوں میں جدید افسانہ نگار بلراج مین را، سریندر پرکاش، دیوراسّر، انور سجاد، بلراج کومل، کمار پاشی، انتظار حسین، خالدہ حسین، احمد ہمیش، انور عظیم اور قمر احسن وغیرہ کے نام خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔

 مختصر یہ کہ تجریدی افسانہ کا رخ خارج سے داخل کی طرف ہے۔ یہ صرف ایک طرح کا اشارہ ہوتا ہے۔ باقی کام پڑھنے ولاوں کی ذہنی استعداد کا ہوتا ہے، جیسا کہ گیان چند جین نے آگے لکھا ہے:

’’جب علامتیں شخصی ہوجاتیں ہیں اور ایک ہی علامت سے کبھی کچھ اور کبھی کچھ مراد لیا جاتا ہے تو یہی افسانہ تجریدی ہوجاتا ہے، لیکن تجریدی افسانہ ’انٹی افسانہ‘ یعنہ کہانی ہے۔ اس کے تکڑوں میں تو افسانہ مل جاتا ہے لیکن پورے افسانے میں افسانہ پن غائب ہوجاتا ہے۔‘‘  ۴؎

اس سے جو نتائج اخذ کئے جاتے ہیں ان سے ہیں یہ سمجھنا چاہئے کہ:

۔تجریدی افسانے خارج سے اپنا توجہ ہٹا کر باطن کی دنیا کی طرف لے جاتے ہیں۔

۔ تجریدی افسانوں میں ذہنی مسائل، انتشار ذات، انتشار ذہن اور عرفان ذات پر زیادہ زور دیا جاتا ہے۔

۔ تجریدی افسانے میں لغوی معنیٰ صرف اشارہ کر دیتے ہیں۔

۔ تجریدی افسانہ انسان کی داخلی اور نفسیاتی کیفیات کا اظہار ہوتے ہیں۔

۔ تجریدی افسانہ لکھنے والے تکنیکی طور پر یہ محسوس کرتے ہیں کہ پلاٹ یا تو سرے سے ہوتی ہی نہیں اور اگر ہوتی بھی تو اس کی حیثیت ثانوی ہوتی۔

 یہاں یہ بات سوچنے کی ہے کہ افسانہ پڑھنے والے ہر قسم کے ذہن کے مالک ہوتے ہیں۔ ضروری نہیں کہ سب نفسایتی طور پر اتنے تیار ہوں کہ افسانے کے خارج اور باطن پر توجہ مرکوز کر سکیں۔ دراصل اس قسم کے افسانے کی بھول بھلیاں کو سمجھ لینا ایسے ذہن والوں کے لیے آسان ہے جو فن مصوری کے اس گوشے سے آشنا ہوں جس میں مصور کا فن اس کے برش سے نہیں بلکہ رنگوں کے انتخاب سے بوتا ہے چوں کہ اس کی تصویر کا مفہوم اور مقصد وہ رنگ کہہ دیتے ہیں جو اس نے استعمال کیے ہیں۔ گویا کہ تجریدی افسانہ مصوری یا آرٹ کی باریک بینی کی فہم وفراست رکھنے والے ہی سمجھ سکتے ہیں۔ تجریدی افسانہ نگاروں نے مصوری کی اس شاخ سے استفادہ کیا اور بقول منٹو یہ دلیل دی کہ:

’’حسین چیزیں ایک دائمی حسرت ہے۔ آرٹ جہاں کہیں بھی ملے ہمیں اس کی قدر کرنی چاہیے۔آرٹ خواہ تصویر کی صورت میں ہو یا مجسمے کی شکل میں، سوسائٹی کے لیے قطعی طور پر ایک پیش کش ہیچاہئے اس کا موضوع غیر مستور ہی کیوں نہ ہو۔‘‘  ۵؎

اس قول کی روشنی میں آرٹ اگر لفظوں کی بازی گری میں پڑھنے والے کو الجھا دے تو اس کی قدوقیمت کا تعین کیسے کیا جاسکتا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے جب افسانہ قصے اور بیانہ کو نظر انداز کرد ے گا تو عام قاری کہا نی کے سرے کو کہاں سے پکڑے گا؟ اور جب افسانے کی عمومی صورت مسخ ہو جائے گی تو اس کے بدلے ہوئے منظرنامے سے پریشان ہوجا یقینی ہے۔ بقول جمیل اختر محبی:

ــ’’اس تصور کے تحت افسانہ Concrete سے Abstract کی طرف مائل ہے۔ اس کی حدسے بڑھی ہوئی تجریدیت اسے جدید مصوری سے قریب کردیتی ہے۔ افسانہ بھی  Abstractآرٹ کے زمرہ میں آرہا ہے۔  Art Abstract کی تفہیم آسان نہیں۔ چنانچہ نئے افسانے کی تفہیم بھی اتنی ہی مشکل ٹھہرتی ہے۔‘‘ ۶؎

 اسی طرح تجریدی افسانے کے سلسلے میں یہ تسلیم کر لینا چاہیے کہ اس میں واقعات کو صحیح شکل میں پیش نہیں کیا جاتا بلکہ ان کی وہ صورت پیش کی جاتی ہے جو فنکار کے لاشعور سے ابھرتی ہے۔ ان کے یہاں واقعات ، موضوع یا کردار زیادہ اہمیت نہیں رکھتے بلکہ وہ تاثر یا ردِ عمل زیادہ اہمیت کا حامل ہے جو متعلقہ واقعات یا کیفیات کے نتیجے میں پیدا ہوتا ہے مثال کے طور پر خالد حسین افسانہ ’’ہزار پایہ‘‘ میں تجریدی اظہار کا سہارا لیتے ہوئے وجودیت کے فلسفے کو اپنی کہانیوں کا جزو بنا دیتے ہیں، جیسا کہ تجریدیت ی تعریف میں کہا گیا ہے کہ رنگ ہی اپنا مدعا بیان کر دیتے ہیںتو یہاں ہندوستا ن سے پاکستان بننے کے عمل کو سرخ اندھیرے سے تعبیر کیا گیا اور ہرے رنگ سے پاکستان بننے کا کے اظہار کے ساتھ زرد روشنی کے دھبوں کے سیاہی مائل نیلے اور کبھی سفید ہونے کے عمل کو وہاں کے تبدیل ہوتے ہوئے نظام سلطنت کے روپ میں پیش کیا گیا۔ جلتے بجھتے اندھیرے احساس کی شدت کو خاطر نشان کرتے ہیں۔

 یہاں پر تجریدیت کے جنم لینے کے اسباب کو نظر انداز نہیں کر سکتے۔ جدیدیت کے نام پر غیر محفوظیت، تنہائی ،موت اور خوف کے جن احساسات کو تجریدی افسانے میں پیش کرنے کا رواج بڑھا، وہ دوسرے جنگ عظیم کی خوفناک تباہی کی دین تھے۔ نئی نسل کے جدید افسانہ نگاروں نے تمام خارجی اور داخلی عوامل کو اپنے فنی اںداز سے برتا۔ بد امنی،ایزا، تشدد، استحصال، نسلی امتیازات، گاؤں کا شہروں میں بدلنا جیسی تبدیلیاں افسانہ نگار کی نگاہ سے کیوں کر اوجھل رہ سکتی تھیں۔ نتیجہ یہ ہوا کہ تمام خارجی اور داخلی عوامل تجریدیت کے انوکھے خطوط کے ساتھ سامنے آئے لیکن اس انوکھے انداز نے افسانے کی شکل کو پیچیدہ بنانے کی کوشش کی۔ بقول سلام بن رزاق:

’’ترقی پسند افسانے کے زوال کے بعد جدیدیت ایک طاقتور رجحان کی شکل میں ابھری مگرجلد ہی تجریدیت اور ابہام کے نام پر جو چیستاں تخلیق کیا گیااس نے اردو افسانے کے ارتقاء میں ایک زبردست دراڑ ڈال دی۔‘‘۷؎

البتہ اس تکنیک سے افسانے نے کئی کرٹیں بدلیں۔ فارم اور اسلوب کے لحاظ سے اس کارنگ روپ بدلا اور اس میں نکھار بھی پیدا ہوا۔ اگر چہ اس میں ٹھوس ہونے کی وہ کیفیت نہیں پائی جاتی جو منطقی افسانے کی خصوصیت ہے۔ اس میں زماں اور مکاں کا واقعاتی احساس بھی نہیں ملتا بلکہ زماں اور مکاں دونوں ذہنی تجرید کی سطح پر واقع ہوتے ہیں۔ جیسا کہ گوپی چند نارنگ نے اپنے مضمون ’اردو میں علامتی اور تجریدی افسانہ‘ میں تحریر کیا ہے:

’’تجریدی افسانہ ہمارے افسانے کے اس سفر کی نشاندہی کرتا ہے جس کا رخ خارج سے داخل کی طرف ہے، یہ انسان کے ذہنی مسائل، اس کے کرب اور حقیقت کے عرفان کی تلاش کا اظہار ہے۔ وہ بھی صرف فکر یا ذہنی سوچ کی سطح پر۔ افسانہ علامتی ہو یا تجریدی، اس میں لغوی معنی صرف ایک طرح کر اشارہ کر دیتے ہیں، باقی کام پڑھنے والوں کی ذہنی استعداد کا ہے۔‘‘۸؎

اس قسم کی تصویرں ’آخری آدمی‘ ، کایاکلپ،(انتظار حسین) ، مرگی، چوراہا، چوراہا، کونپل، گائے، پرندے کی کہانی(انور سجاد) ،لمحے کی موت، وہ سرگوشی(غلام الثقلین)، پوٹریٹ ان بلیک اینڈ بلڈ، کمپوزیشن سریز (بلراج مینرا)، رونے کی آواز، خشت وگل، تلقارمس، جنگل سے کاٹی ہوئی لکڑیاں(سریندر پرکاش)، نچاہوا البم، پرچھائیاں ، زمین کادرد،(اقبال متین)، کوبڑ، اپناگوشت، کوّا، (شوکت حیات ) جیسے افسانوں میں مل جاتی ہیں۔

 اس طرح ہم دیکھتے ہیں کہ اگر ان تجریدی افسانوں میں کبھی موضوع ہوتا بھی ہے لیکن فنکار جان بوجھ کرموضوع نہیں بناتا بلکہ اسفسانہ مکمل ہونے کے بعد کچھ نہ کچھ پہلو اس میں سے نکل آتا ہے، وہی تجریدی افسانے کا موضوع بن جاتا ہے۔

 اس طرح کے افسانوں میں فنکار خیال کا وہ پہلو بیا ن کرتا ہے جو کسی چیز سے متاثر ہونے کے بعد افسانہ نگار کے ذہن پر اپنا اثر چھوڑتا ہے جسے فنکار چاہ کر بھی نہیں جھٹلا سکتا۔ اور وہ اثر اس کے ذہن میں تجریدی حالت میں ہوتا ہے یعنی ابھی وہ اسے کوئی ہیئت دے نہیں سکا ہے ، خیال کو وہ اس کی اسی خام حالت میں لفظوں کے سانچے میں ڈھال کر بیان کر دیتا ہے۔ جس وقت تجریدی افسانے لکھے گئے افسانہ نگار تذبذب کی حالت میں تھا۔ ہر طرف انیشار کا ماحول تھا۔ ایسے مشکل دور میں افسانہ نگار اپنے مختصر افسانے میں کسی ایک چیز کو موضوع بنا کر پیش نہیں کر پارہا تھا۔ اسی لیے تجریدی افسانوں میں وحدت تاثر کی بجائے مجموعی تاثر نظر آتا ہے۔

 افسانہ نگار تجریدی افسانے میں جن موضوعات کا استعمال کرتا ہے وہ اس طرح سے ہیں: کرپشن، فرد کی تنہائی، دہشت گردی، مشینی اور میکانکی زندگی، اخلاقی قدروں کی گراوٹ  وغیرہ۔یہ تمام موضوعات فرداً فرداً ایک افسانے میںبھی ملتے ہیں اور تمام موضوعات یا بیشتر موضوعات ایک افسانے میں بھی مل جاتے ہیں کیوں کی افسانہ نگر ان موضوعات میں ذہنی طور پر الجھ چکا تھا اور وہ ان سے بہار نکلنے کی لیے ان کی تخلیق کرتا تھا۔ اسی تخلیق کو تجریدی افسانہ کہتے ہیں۔

 جیسا کہ پہلے بھی بیان ہوچکا ہے کہ تجریدی افسانوں میں موضوع نہیں ہوتا کیوں کہ افسانہ نگار افسانہ لکھنے سے پہلے سونچتا ہی نہیں کہ اسے کس چیز کو موضوع بنا کر افسانہ تخلیق کرنا ہے۔ یہاں تو افسانہ نگار متاثرہ واقعہ کا تاثر بیان کرتا ہے وہ بھی شعر میں داخل ہوئے بغیر۔ افسانہ نگار یہاں صرف اپنے احساسات کو جوں کا توں بیان کر دیات ہے اس کے لیے اسے نہ الفاظ کی تلاش ہوتی ہے اور نہ ہی خیالات کی۔

 اگر کوئی افسانہ صرف اور صرف تجرید کی بنیاد پر لکھا جارہاہے تو پھر اس کا کوئی موضوع پہلے سے طے نہیں ہوتا۔ وہ صرف افسانہ نگار کا ادھورا احساس ہوگا۔

 تجریدی افسانوں میں باطنی واقعیت پسندی ہوتی ہے۔ افسانہ نگار واقعات کو خارجی زندگی کی نظر سے نہیں بلکہ اپنی باطنی زندگی کے حوالے سے دیکھتا ہے اور اسے جوں کا توں بیان کر دیتا ہے۔

 باطنی زندگی کا بیان کرتے وقت اسے نہ پلاٹ اور کرداروں کے ارتقاء میں دلچسپی ہوتی ہے اور نہ ہی زماں و مکاں کی۔ یہاں وہ بے ہنگم اور منتشر زندگی کی ترجمانی کرتا ہے یعنی بے ربط واقعات کا بیان ہی ’تجریدی افسانہ‘ ہے۔ جمال آرا نظامی نے تجریدی افسانے کی واقعیت پسندی پر اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے لکھا ہے:

’’تجریدی افسانہ نگار کو پلاٹ کی تعمیر اور کرداروں کے ارتقاء سے کوئی دلچسپی نہیں ہوتی۔ زندگی کی وہ ترجمانی کرتا ہے لیکن وہ زندگی کو جس طرح بے ہنگم پاتا ہے اسی روپ میں پیش کر دیاتا ہے۔ پہلے افسانہ نگار زندگی کی بے ربط واقعات کو ایک مربوط سلسلہ میں پروکر ایک خاص تاثر ابھارتا ہے اس طرح دیکھا جائے تو تجریدی افسانہ واقعیت پسندی کے ذیل میں آجاتا ہے۔ لیکن یہ واقعیت پسندی خارجی نہیں بلکہ باطنی ہے۔‘‘۹؎

افسانہ نگار کے ذاتی تجروبات و احساسات ہی تجریدی افسانے کے واقعات کہلاتے ہیں۔ ان افسانوں میں واقعات کسی قصے سے نہیں ابھرتے۔ ایسے افسانوں میں پلاٹ کی تنظیم داخلی سطح پر کی جاتی ہے جس کو ہم صرف محسوس کر سکتے ہیں۔

 شمیم احمد کے خیالات اس سارے بحث کے برعکس ہی معلوم ہوتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ افسانہ چاہیے کتنا بھی تجریدی اور علامتی کیوں نہ ہو، واقعات کو ایک دوسرے سے جوڑ کر ہی پیش کیا جاتا ہے۔ وہ لکھتے ہیں:

’’افسانہ چوں کہ نثر کی صنف ہے اس لیے وہ شعر کے مقابلے میں اجمال کے بجائے تفصیل کا علمبردار ہوگا۔ چاہے وہ کتنا ہی تجریدی یا علامتی کیوں نہ ہو۔ اس میں واقعات کی کڑیاں پوری اور مربوط ضرور ہوں گی جب کہ وہ کڑیاں شعر میں ہر جگہ غائب ہیں۔ شعر میں محض چند کلیدی الفاظ سے یہ افسانویت ابھری مگر افسانے میں ساری کڑیوں کے مربوط ہونے کے بعد ابھرتی ہے۔‘‘۱۰؎

شمیم احمد نے افسانے اور شعر کا تقابل کرتے ہوئے افسانے میں واقعے کی اہمیت اجاگر کرنے کی کوشش کرتے ہوئے کہا ہے کہ واقعہ کتنا بھی تجریدی ہو، وہ مربوط ہوگا کیوں کہ افسانے میں مجموعی تاثر ہی کی اہمیت ہوتی ہے لیکن جب کوئی واقعہ صرف فنکار کے باطنی اظہار سے تعلق رکھتا ہوں اور وہ الفاظ کے ذریعہ افسانے میں اور الجھا رہا ہوں تو وہ مجموعی تاثر پیش کرنے میں بھی ناکام ہو سکتا ہے اور اکثر تجریدی افسانوں میں یہی ہوتا ہے۔

 واقعے کی تجرید دراصل یہ ہوتی ہے کہ ایسا واقعہ جو فطری یا غیر فطری طور پر واقع ہوا ہو اور جس کی ترتیب غیر منظّم طریقے سے انجام دی گئی ہوں اور اس واقعے کے زماں و مکاں کا بھی کوئی ذکر نہ ہو تو یہ تجریدی واقعہ کہلاتا ہے۔

 پلاٹ مختصر افسانے کی بہت اہم کڑی ہے لیکن تجریدی افسانوں میں پلاٹ بھی نہیں ہوتا۔ یہاں افسانے میں آغاز کب ہوتا ہے، ارتقاء کیسے ہوتا ہے اور انجام کیا ہوتا ہے۔ ان سولات کے جواب خود افسانہ کے پاس بھی نہیں ہوتے تو وہ پلاٹ کی تعمیر کس بنیاد پر کر سکتا ہے۔ تجریدی افسانوں میں پلاٹ کس طرح کا ہوتا ہے اس بات کا ذکر عزیز فاطمہ نے بہت ہی واضح انداز میں کیا ہے:

’’تجریدی افسانہ نگارکو پلاٹ کی تعمیر اور کرداروں کے ارتقاء سے کوئی دلچسپی نہیں ہوتی وہ زندگی کو جس بے ہنگم اور منتشر طریقہ پر دیکھتا ہے اسی طرح پیش کر دیتاہے۔ یعنی انتشار کی تصویر کشی کے ذریعہ ہی کرتا ہے۔‘‘۱۱؎

یہاں یہ بات صاف ہوجاتی ہے کہ افسانہ نگار منتشر زندگی کی عکاسی منتشر طریقے ہی سے تخلیق کرتا ہے۔ اس میں وہ اپنے خیال کو بناؤٹی انداز کے بغیر پیش کر دیتا ہے۔

 افسانہ نگر جب کسی واقعہ سے متاثر ہوتا ہے تو وہ اس واقعے کے جس پہلو سے متاثر ہوتا ہے اس کا بیان افسانے میں خالص طریقے سے تخلیق کرتا جاتا ہے۔ ایسا کرتے وقت وہ یہ نہیں سوچتا کہ یہ چیز قاری کو پیش کرنے کے لیے مناسب ہوگی یا نہیں۔ افسانہ نگار صرف اپنے ذہن کا دباؤ کم کرنا چاہتا ہے۔ متاثرہ واقعات کو اس کی اصل حالت میں پیش کرنے ہی کو تجرید کا اہم جز مانا جاتا ہے۔

 کہانی پن کی اہمیت افسانے میں بہت زیادہ ہوتی ہے لیکن تجریدی افسانوں میں کہانی پن موجود نہیں ہے۔ کہانی کے بغیر افسانہ ، افسانہ نہیں لگے گا۔ اگر افسانے میں کہانی نہ ہو تاافسانہ پڑھنے والے کو اپنے طرف متوجہ کرنے میں ناکام ہو جاتا ہے۔ اگر قاری مجبوری میں ایسے افسانوں کو پڑھ بھی لے تو وہ سمجھ میں نہیں آتے۔ اسی سلسلے میں شہزاد منظر نے مشتاق قمر کے خیال کو اس طرح پیش کیا ہے:

’’ جہاں تک کہانی پن کا تعلق ہے افسانہ تجریدی ہو یا روایتی، اس میں ایک کہانی یا کہانی کی فضا کا پایا جانا ضروری ہے لیکن جدید افسانہ نگاروں کا المیہ یہ کہے کہ ان کا افسانہ قطعی ان ریڈایبل ہوتا ہے اور اگر دل و دماغ پر جبر کر کے پڑھا جائے تو بھی وہ کسی کی سمجھ میں نہیں آتا۔‘‘۱۲؎

کہانی پن سے خالی افسانے زیادہ تر قاری کو پسند نہیں آتے کیوں کہ قاری اس میں اپنے آپ کو تلاش کرتا ہے۔ اگر وہ اس کی سمجھ میں نہ آئے تو اس کے پڑھنے کا کیا مقصد ہو سکتا ہے۔

 کہانی پن تجریدی افسانوں میں بھی بعض اوقات ہوتا توہے لیکن روایتی مختصر افسانے کی کہانی کی طرح نہیں۔ یہاں کہانی کے صرف شیڈس دکھائی دیں گے۔ تجریدی افسانہ پڑھنے کے بعد جب پڑھنے والا اس افسانے کو دوسروں کو سنانے جاتا ہے تو وہ کہانی کو اپنے طور پر ترتیب دے کر کسی نہ کسی طرح واقعات کو ایک دوسرے سے جوڑ کر سنا ہی دے گا۔اسی طرح طارق چھتاری بھی لکھتے ہیں:

’’کسی افسانے میں کہانی پن ہے یا نہیں۔۔۔۔ اسے پرکھنے کے لیے یہ ضروری ہے کہ جب کوئی کہانی پڑھ چکے تو اس افسانے کی کہانی زبانی سنانے کو کہا جائے، اگر اس میں کہانی پن ہوگاتو خواہ کیسی بھی تجریدی کہانی کیوں نہ ہو اور واقعات کو کتنا ہی توڑمروڑ یا ان کی ترتیب بگاڑ کر کیوں نہ پیش کیا گیا ہو۔۔۔۔ زبانی بیان کرتے وقت سنانے والا لاشعوری طور پر اپنے حساب سے واقعات کو ترتیب دے کر سنادے گا جیسے انور سجاد کی کہانی ’’مرگی‘‘ جو ایک تجریدی کہانی ہے اور بظاہر اس کی کوئی ہیئت نظر نہیں آتی۔۔۔۔ لیکن اس میں کہانی پن موجود ہے اور اس کو زبانی سنانہ ممکن ہے۔‘‘۱۳؎

 تجریدی افسانوں میں بھی اگر کہانی پن موجود ہوں تو یہ بھی دلچسپ معلوم ہوتے ہیں لیکن زیادہ تر تجریدی افسانے کہانی پن سے خالی ہیں۔

 کردار بھی مختصر افسانے کا اہم عںصر ہوتے ہیں جس کے ذریعے افسانہ نگار مکالمے ادا کرواتا ہے۔ ان ہی مکالموں کے ذریعے افسانہ آگے بڑھتا ہے۔ لیکن تجریدی افسانوں میں کردار کو اکثر نظر انداز کر دیا گیا ہے۔ کچھ تجریدی افسانوں میں تو کردار ہی نہیں ہوتے اور اگر کردار ہوں بھی تو انہیں واضح طور پر سامنے نہیں لایا جاتا۔

 تجریدی افسانوں میں کردار نہیں بھی ہوں تو افسانہ نگار بیانہ انداز میں افسانے کو آگے بڑھاتاہے۔ اگر افسانے میں کردارکی ضرورت محسوس ہوں تو افسانہ نگار ’’میں‘‘ کا استعمال کر کیافسانے میں داخل ہوتا ہے۔بے شناخت کردار اکثر تجریدی افسانوں میں استعمال کیے جاتے ہیں۔ ان ہی کرداروں سے افسانے میں تجرید قائم رہتی ہے۔ سلیم شہزاد نے کردار کی تجرید کے سلسلے میں لکھا ہے:

’’کرداروں کی تجرید یہ ہے کہانسانی یا حیوانی صفات سے جدا صفات رکھنے والے بے شناخت کردار افسانے میں لائے جائیں۔ یعنی کالوبھنگی یا محمد بھائی کی بجائے حقیقت سے اعتراض کرتے ہوئے الف۔بے۔جیم یا بے سر کا آدمی ان کے نام ہوں۔‘‘۱۴؎

کرداروں کے اگر نام نہیں ہے تو پھر انہیں ہم کردار نہیں کہہ سکتے۔ کرداروں کی شناخت نام سے ہوتی ہے لیکن اگر کردار کی صرف صفت کا بیان ہو رہا ہے تو اس کا تعلق ذات سے ہوتا ہے۔ کردار کی ذات اور صفات کی بات کرتے ہوئے وارث علوی ایک مثال پیش کرتے ہیں:

’’جب کردار نے ذات اور صفات پیدا کر لیں تو وہ اپنے طبقے کے دوسرے کرداروں ممیّز ہو گیا۔ مثلاً اگر باپ کا کردار بے نام ہے، اس کی کوئی صفات ذاتی نہیں تو وہ محض ایک باپ ہے جو باپ کے نمائندہ رویوں کی علامت ہے لیکن اگر باپ جابر ہے، سخت گیر ہے، بے رحم ہے تو وہ دوسرے باپوں سے مختلف ہے اور اسی لیے وہ اب نمائندہ یا ٹائپ یا علامت کی سطح سے بلند ہو کر کردار کی سطح میںداخل ہوتا ہے۔‘‘۱۵؎

وارث علوی کے خیال میں کردار جب اپنی صفات سے بلند ہوتا ہے تب ہی اسے ایک کرار کی شکل دی جاتی ہے۔

  تجریدی افسانوں میں کرداروں کے نام الف، بے، جیم، لام، میم رکھے جاتے ہیں کیوں کہ ان کرداروں کو اگر چہ کوئی معروف نام رکھ دیا جائے تو افسانہ پڑھتے وقت ہمارا ذہن کسی ایک انسان کے بارے ہی میں سوچ سکتا ہے لیکن اگر ان کرداروں کے نام حروف ِ ابجد میں رکھے جائیں تو افسانہ پڑھنے والے قاری کے خیالات وسیع ہوجائیں گے اور وہ اپنے ذہن میں واقعہ کے کسی ایک پہلو کو نہیں دیکھے گا بلکہ ہزاروں خیلالات اس کے ذہن میں ابھریں گے، اسی طرح ایک افسانے میں کرداروں کے ذریعہ تجرید واقع ہوتی ہے۔

 منجملہ ہم یہی کہیے گے کہ تجریدی افسانوں کی پہچان کے لیے جو باتیں سب سے اہم نظر آتی ہیں وہ یہی ہے کہ ان افسانوں میں پلاٹ کو ترتیب نہیں دیا جاتا کیوں کہ یہاں افسانہ نگار متاثر ہ واقعہ کی کیفیات کا بیان باطنی ذہن سے کرتا ہے۔ موضوع کے انتخاب کی تو یہاں ضرورت ہی محسوس نہیں کی جاتی ، یہاں افسانے میں کئی موضوعات پر اظہار خیال ملتا ہے۔ کرداروں کے بھی باقاعدہ نام نہیں ہوتے بلکہ ایسے ناموں کا استعمال کیا جاتا ہے جن سے افسانے میں پیچیدگی قائم رہے اور کوئی بھی مکالمہ واضح طور پر سمجھ میں نہ آئے۔ زیادہ تر تجریدی افسانوں میں کرداروں کے ناموں کے لیے حرف تہجی کا استعمال یا پھر بے سر کا آدمی، پہلا آدمی، دوسرا آدمی وغیرہ رکھے جاتے ہیں۔ افسانہ نگار یہاں زماں و مکاں کی قید سے بالکل آزاد ہے۔ یعنی تجریدی افسانوں میں ماضی یا حال کی کوئی قید نہیں۔ وقت اور مقام کے بغیر ہی تمام کیفیات کا بیان ہو جاتا ہے۔ اسلوب تجریدی افسانے کا اہم عنصر ہے واحد متکلم کا بیان یعنی افسانے میں ’’میں ‘‘ کا استعمال زیادہ تر ملتا ہے۔ پیچیدہ زبان اور غیر معیاری جملے استعمال کیے جاتے ہیں جس سے مفہوم سمجھنا مشکل ہوتا ہے۔ تجریدی افسانوں میں شاعری کا استعمال بھی عام بات ہے۔ وحدت تاثر کے بجائے مجموعی تاثر اور مبہم تاثر پر انحصار کیا جاتا ہے۔ ریاضی کا استعمال جیسے جیومیٹری، مثلت، دائرے، بریکٹیں وغیرہ کے لیے بھی افسانوں میں جگہ دی گئی۔ سائنسی خاکے اور آڑی ترچھی لکیریں بھی تاثرات کو ابھارنے میں مدد کرتی ہیں جیسے کہ تجریدی مصوری میں بھی ان کو جگہ دی گئی۔ ان ہی سارے عناصر سے تجریدی افسانہ ترتیب و تخلیق پاتا ہے۔

حوالہ جات:

۱۔ڈاکٹر سلیم اختر؛ افسانہ حقیقت سے علامت تک۔ص:۱۰۹

۲۔ارد افسانے کا منظر نامہ؛مرزا حامد بیگ،: اردو رائٹرس گلڈ،الہ آباد۔ص:۱۷۴

۳۔ذکر و فکر، انٹی افسانے، گیان چند جین؛ ص:۱۰۰۔۹۹، ۱۹۸۰

۴۔ذکر وفکر،انٹی افسانہ؛ گیان چند جین ص:۹۷،۱۹۸۰

۵۔لذت سنگ،منٹو،ساقی بک ڈپو، اردو بازار دہلی؛ ص:۲۶،۱۹۸۸

۶۔فلسفہ ٔ وجودیت اورجدید اردوافسانہ ، ڈاکٹرجمیل اجمیر اختر محبی ،۲۰۰۲، ایجو کیشنل پبلشنگ ہاؤس دہلی،ص:۱۲۸

۷۔آج کا معاشرہ اور افسانہ؛ سلام بن رزاق،بشمولہ نیا افسانہ مسائل اور میلانات،ص؛۹۷

۸۔فکشن ،شعرات:تشکیل وتنقید، گوپی چند نارنگ،ص:۲۵۱

۹۔اردو افسانوی ادب؛ جمال آرا نظامی،ص:۵۱

۱۰۔مضمون ’’عصری آگہی‘‘ عصری افسانے کی تنقید کے مسائل؛ص:۱۲۲

۱۱۔اردو افسانہ، سماجی و ثقافتی پس منظر؛ص:۲۳۴

۱۲۔جدید افسانہ؛ شہزادہ منظر،ص: ۵۰

۱۳۔جدید افسانہ؛ طارق چھتاری؛ ص:۷۵۔۷۴

۱۴۔قصہ جدید افسانے کا؛۔ سلیم شہزاد ،ص:۱۲۸

۱۵۔فکشن کی تنقید کا الیہ؛وارث علوی،ص:۵۷

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Tajreediyat aur Mukhtasar Afsana by: Nisar Ahmad Dar

Leave a Reply

Be the First to Comment!

Notify of
avatar
wpDiscuz
Please wait...

Subscribe to our newsletter

Want to be notified when our article is published? Enter your email address and name below to be the first to know.