صوفی اور سنتوں کا روحانی کلام : دورِ حاضر کے تناظر میں
عبدالکریم
ریسرچ اسکالر، شعبہ اردو، پنجاب یونیورسٹی چنڈی گڑھ
عالم ِانسان امن و سکون اور محفوظ و روشن مستقبل کے خواہاں ہیںحتیٰ کہ عالمی دہشت گرد حکومتیں جو مہلک اسلحہ سے انسانیت کا خون پانی کی طرح بہاکر بھی سیر نہیں ہو رہی ہیں، عورتوں ، بچوں ،بوڑھوں اور جوانوں کی لاشوں اور ہڈیوں پر اپنے ظلم کا محل تعمیر کر نا چاہتی ہیں وہ بھی امن کی مدعی ہیں۔ دورِ حاضر کی خدا بے زار قوتیں یہ سمجھتی ہیں کہ عالمی امن کا راستہ بارود کے ڈھیروں اور ایٹمی ہتھیاروں کے انباروں کے نیچے سے گذرتا ہے لیکن جیسے جیسے اس راستے پر پیش قدمی ہو رہی ہے انسانیت ظلم و ستم اورغارت گری میں پِس رہی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ایٹمی ترقیات آج سے ہزار گنا زیادہ بھی ہو جائیں تو بھی انسان کو چین و سکون نصیب نہیں ہوگا۔ چین و سکون خارجی چیزوں میں نہیں بلکہ امن و سکون کے سرچشمے ’’ من کی دنیا ‘‘ اور اعلیٰ صفات سے پھوٹتے ہیں۔ سائنس دان آلات و مشینیں بناتے ہیں، ہر صاحبِ فن اپنے فن وکاریگری کے اعتبار سے اشیاء بناتے ہیں، اسی طرح صوفی و سنت ’’ انسان ‘‘ ۱؎ (انسانِ کامل)بناتے ہیں۔ انسانیت کی حقیقی بہاریں من کی دنیاآباد ہونے سے پیدا ہونگی اور دل بنے گا تو انسان بنے گا اور جب انسان بنے گا تو ایک صالح معاشرہ وجود میں آئے گا، جس سے انسانیت کو امن و سکون حاصل ہوگا۔ اس کائناتِ فانی میں انسان کو ساری تخلیقِ باری پر اور اپنے جیسوں پر غلبہ پانے کی ایک فطری خواہش ہے، انسان ان ساری خواہشات کا مجموعہ ہونے کے بعد بھی ایک عجیب شئے کا خواہش مند ہے اور وہ ہے سکونِ قلب۔ ساری مخلوق مسافر ہے، مسافر کو اطمینان چاہئے تو اس کے لئے ضروری ہے کہ اپنی منزل کی بھی خبر ہو۔ سوال یہ ہے کہ انسانیت کی منزل کیا ہے؟ انسان کی منزل معرفتِ الٰہی ۲؎ ہے اور یہ اس شخص کو حاصل ہوتی ہے جو اپنے آپ کو بارگاہِ ایزدی میں نچھاور کر دیتے ہیں اور اس کی مخلوق سے محبت و مساوات کے ساتھ پیش آتے ہیں۔
آج تک جتنے بھی پیر، صوفی، سنت و مہاتمہ نمودارا ہوئے ،ان کی حیات و تعلیمات کا بغور مطالعہ کیا جائے تو اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان سب کے پاس ایک ہی علم اور ایک ہی رازِ معرفت تھا۔ انہوں نے بلا لحاظ مذہب و ملت ، قوم و نسل تمام بنی نوع کو فیضیاب کیا۔ یہ سچ ہے کہ دنیا کے ملکوں کی زبانیں اور اظہارِ بیان کے طر یقے مختلف رہے ہیں لیکن دنیا کے جس بھی حصہ میں یہ عظیم الشان ہستیاں وقتاً فوقتاً نمودار ہوئیں ، ان علاقوں کی ہی زبانوں میں انہوں نے لوگوں کو تعلیم دی، ان کو راستہ بتلایا اور خدا کی حقیقی پہچان کروائی، لیکن ان عظیم الشان ہستیوں کے اس دنیا سے رخصت ہو جانے کے بعد ان کے مواعظ، تصنیفات و تعلیمات جو آج ہمارے پاس موجود ہیں ، اس سے استفادہ کرتے ہوئے ایک پلیٹ فارم پر یکجاہو کر امن و انسانیت اور پیغامِ وحدت دے سکتے ہیں جو دورِ حاضر کی اہم ضرورت ہے۔
اس دنیا میں جتنے بھی دانشور ، فلسفی،عالم، صوفی، سنت، مہاتمہ اور سائنس دان گزرے ہیں ، ان سب حضرات نے انسانی اقدار اور فلاح و بہبود کی بات کہی ہے اور اس کے لئے کام کیا ہے، چاہے وہ انسان کے کسی پہلو سے متعلق ہو۔ان حضرات کامختلف انداز و طریقہ کار رہا ہے ، کوئی اپنی قلم کے ذریعے کوئی طاقت و دانائی سے خدمت انجام دیتا رہاہے، مگر مقصد سب کا ایک ہے ، وہ یہ کہ انسانیت کی ترقی و ترویج کے لئے راہیں ہموار کرنا۔مثلاً سائنس دان نئی ایجادات کے ذریعے انسان کو آرائش و آرام دینا چاہتا ہے، مدرس ہر کسی کو تعلیم یافتہ بنانا چاہتا ہے،فلسفی و عالم نئی راہیںدِکھانا اور زندگی کے ہر پہلو سے آشنا کرانا چاہتا ہے، اسی طرح صوفی اور سَنت ومہاتمہ اِسے روحانی سکون دینا چاہتا ہے اور اسے صحیح اور سیدھا راستہ دکھانا چاہتا ہے۔
صوفیائے کرام اور سَنت و مہاتمہ کے اظہار کاطریقہ بھی مختلف رہا ہے کوئی اپنے پیغام کو تقریر کے ذریعہ پہنچاتا ہے اور کوئی تصنیف کے ذریعے، لیکن ان سب میں اب تک جو پر اثر اور پر کیف طریقہ ثابت ہوا وہ اظہارِ بیان و کلام ہے، اس کے ذریعے انہوں نے وقت و حالات کا جائزہ لیتے ہوئے اپنا پیغام لوگوں تک پہنچایااور ان کو صحیح تعلیم سے آراستہ کیا۔آپ حضرات کے کلام کو روحانی کلام کہا جاتا ہے ، کیوں کہ یہ انسان کی روح سے تعلق رکھتا ہے۔ روحانی کلام جو کہ قلبی جذبات و کیفیات ، محبت و عقیدت اور والہانہ ربط و تعلق کے اظہار کا مؤثر ترین ذریعہ ہے کیونکہ نظم و اشعار کی دنیا پر کیف بھی ہے اورپر تاثیر بھی، دلوں میں ہلچل مچانے، رنج و غم کو خوشی میں ، تذبذب کو عزم میں ، کمود کو بیداری میں تبدیل کرنے میں کلام واشعار کے چند بند کو بڑا دخل حاصل ہے۔ شعر و سخن کے چند مصرعے محبت کی چنگاری کو شعلہ اور تخم ِعشق کو مہکتا پھول بنا دیتے ہیں۔ گویا کلامِ معرفت انسان کے اخلاق و کردار، افکار و خیالات اوررفتار و گفتار میں ایک انقلاب برپا کر دیتا ہے، فہم و دانائی ، عقل و دانش کو تازگی بخشتا ہے اور الفاظ کے پردے میں لعل و گوہر بکھیرتا ہے اوریہ تما م تر جواہرات وگواہرات ہمیں اپنے اکابر ، صوفیائے کرام اور سنت و مہاتمہ کے ملفوظات و تعلیمات سے حاصل ہو سکتے ہیں۔ آپ حضرات کی قدر ومنزلت کو مولانا رومیؒ اس طرح بیان کرتے ہیں:
’’ یک زمانہ صحبتِ با اولیا
بہتر از صد سالہ طاعتِ بے ریا ‘‘ ۳؎
یعنی اللہ کے ولی کی صحبت کے چند لمحے انسان کی سو سال کی بے ریاعبادت( جس میں کو ئی دِکھاوا نہ ہو خالص اللہ کے لئے کی گئی عبادت) سے بھی بہتر ہے۔ اور دوسری جگہ یوں فرماتے ہیں:
’’ صحبتِ صالح ترا صالح کند
صحبتِ طالح ترا طالح کند ‘‘ ۴؎
یعنی نیک لوگوں کی صحبت انسان کو نیک بنا دیتی ہے اور برے لوگوں کی صحبت برا بنا دیتی ہے۔
اسی بات کو سَنت کبیر داس جی اس طرح بیان کرتے ہیں کہ:
’’ کبیرسنگت سادھ کی دن دن دونا ہیت
ساکت کاری کانبری دھوئے ہوئے نہ سیت ‘‘ ۵؎
کبیر جی کہتے ہیں کہ گرمکھ کی سنگت میں رہنے سے ہر روز خدا کے ساتھ محبت میں اضافہ ہوتا رہتا ہے ، لیکن اللہ والوں سے دور ہوا انسان کالی کمبلی پر لگے داغ کی مانند ہو جاتا ہے کہ اسے معلوم بھی نہیں ہوتا کے مجھ میںبرائی ہے یا نہیں۔
صوفی اور سَنتوں کی تعلیمات انسان کی قدرومنزلت بیان کرتی ہے اور دشمنی اور خون ریزی کے ماحول سے باہر نکالتے ہوئے امن وانسانیت کا پیغام دیتی ہیں اور ایک نئے سماج کی بنیاد ڈالتی ہے، جس میں پیار و محبت کے سر چشمے پھوٹتے ہیں اور عداوت ونفرت کا تصور تک نہیں ہوتا۔ انہیں تخیلات و تفکرات کو بغیر کسی فرقے یا مذہبی جنگ سے دور ایک ڈوری میں باندھتے ہوئے ایک دوسر ے سے اخوت و محبت اور عاجزی و انکساری کا رویہ اختیار کرنے کے لئے آپ حضرات کے کلام کے چندنمونے پیشِ خدمت ہیں:
’’ فریدا برے دا بھلا کر غصّہ من نہ ہنڈھائے
دیہی روگ نہ لگئی پلے سب کچھ پائے ‘‘ ۶؎
اے فرید ! تو بد انسان سے بھی نیکی کا برتاؤ کر۔ اس کے لئے دل میں کسی قسم کا کینہ اور بغض نہیں رکھنا چاہئے۔ اگر تو اس طرح کرے گا تو تُو کسی بھی مرض میں مبتلا نہیں ہوگا، ہمیشہ تندرست رہے گا اور اپنے حصول کو پائے گا۔ بابا فرید گنج شکرؒ دوسری جگہ فرماتے ہیں:
’’ اِک پھکا نہ گالاے سبھنا میں سچاّدھنی
ہیاؤ نہ کیہی ٹھاہِ مانک سبھ امولوے ‘‘ ۷؎
کسی کے ساتھ بے رخی سے مت بولو، ہر انسان میں وہ سچا مالک بستا ہے۔ کسی کا دل مت توڑو کیوں کہ سب انسان بیش بہا موتی ہیں۔
تلسی داس جی کہتے ہیں کہ:
’’ تلسی ؔ یا سنسار میں ، بھانت بھانت کے لوگ
سب سے رَل مِل بیٹھئے، ندی ناؤ سنجوگ ‘‘ ۸؎
تلسی داس جی فرماتے ہیں کہ اس دنیا میں ہر طرح کے لوگ آباد ہیں اور سب کی عادتیں جدا جدا ہیں، اس لئے چاہئیے کہ سب سے نہایت اخلاق اور محبت سے ندی اور ناؤ کے سنجوگ کی طرح پیش آئیں اور اپنی زندگی بسر کریں۔
اسی پیار و محبت اور انسانیت کے پیغام کو بابا بلھے شاہؒ یوں بیان کرتے ہیں کہ:
’’ مسجد ڈھا دے مندر ڈھا دے ڈھا دے جو کج ڈھیندا
اک بندے دا دل نا ڈھاویں رب دلاں وچ ریہندا ‘‘ ۹؎
بلھے شاہ جی کہتے ہیں کہ تم چاہے مندر گرا دو یا مسجد اور جو کچھ آپ توڑ سکتے ہو توڑدو، لیکن ایک بات یاد رکھنا کہ کسی انسان کا دل مت توڑنا کیوں کہ انسان کی دل میں خدا رہتا ہے۔
شیخ سعدیؒ فرماتے ہیںکہ:
’’ مذہب ِعشق از ہمہ مذہب است
عاشقاں را مذہب و ملت خدا است ‘‘ ۱۰؎
شیخ سعدی کہتے ہیں کہ عشق کا مذہب سب مذہبوںسے بالا تر ہے اور اس کا تعلق ہر مذہب کے ساتھ ہے،عاشقوں کا تعلق اور اس کا مذہب خدا کے ساتھ ہے۔
اورمولانا رومی کہتے ہیں کہ:
’’ دل بہ دست آور کہ حج ِ اکبر است
از ہزاراں کعبہ یک دل بہتر است
کعبہ بنا گاہِ خلیل آزراست
دل گزر گاہِ جلیل اکبر است ‘‘ ۱۱؎
کسی کا دل رکھنا یا اس کی دلجوئی کا سبب بنناحجِ اکبر کے ثواب کے برار ہے اور ہزار کعبوں سے بہتر ایک انسان کا دل ہے ، کیوں کہ کعبہ خلیل اللہ کا بنایا ہوا ہے اور انسان کی عبادت گاہ ہے ، لیکن آدمی کا دل ربِ ذوالجلال کی گزرگاہ ہے۔
علامہ اقبالؒ کہتے ہیں کہ:
’’ آدمیت احترامِ آدمی
با خبر شو از مقامِ آدمی ‘‘ ۱۲؎
آدمی کو چاہئے کہ وہ انسانیت کا احترام کرے اور انسان ہی انسان کی مقام و قدر جان سکتا ہے۔
اس کی وضاحت مولانا الطاف حسین حالیؔ اس طرح سے کرتے ہیں کہ:
یہی عبادت یہی دھرم و ایمان
کہ کام آئے دنیا میں انسان کے انسان
رنگ ونسل ، زبان وملک سے بالاتر ہوکر صوفی اور سنت حق پرستی ، حق شناسی وحق گوئی پر آمادہ کرتے ہیں اور انسان کے اس جوہرِ اصلی کی جانب توجہ دلاتے ہیں،جس میں مادیت اور مفاد پرستی سے زیادہ آدمیت و انسانیت کو ترجیح دینے کا سبق ملتا ہے۔
آبِ دریائے مقدس قلب دھو سکتا نہیں
بے محبت عمر بھر دل پاک ہو سکتا نہیں
افسوس!کہ آج خالق سے اتنے عظیم رُتبے پانے والا اِنسان کس قدر ذلت و رسوائی کا شکار ہے۔ ہزاروں انسانوں کا روزانہ قتل عام کیا جا رہا ہے اور خالق کائنات کی اس اشرف مخلوق کا خون گلی کوچوں میں پانی کی طرح بہتا ہے۔معاشرتی درجہ بندی کی وجہ سے درمیانی طبقہ اور نچلا طبقہ کے لوگ کافی پریشان حال ہیں۔ انسانیت کی اس سے بڑھ کر اور کیا تذلیل ہو سکتی ہے کہ یہ سب ہمارے ترقی یافتہ معاشروں میں اقتدار کی ہوس کی وجہ سے ہے۔ انسانی زندگی کے دو پہلو ہیں مادی پہلو اورروحانی پہلو- ہم صرف ایک پہلو کو سامنے رکھتے ہوئے زندگی گزارتے ہیں، جس کی وجہ سے آج کے دور میں، انسان کی شخصی آزادی،اس کی بہترین ذات،قبل اس کا معاشرتی مقام اور اعلیٰ تمدن حتیٰ کہ اس کی اپنی حقیقی بنیاد انسان سے چُھوٹ چکی ہے اور انسان انتشار کا شکار ہوگیا ہے۔ انسان اپنے انتشار سے باہر آنا چاہتا ہے مگر یہ معلوم نہیں کہ کس طرح سے نکلا جائے کیونکہ دنیا کا اقتصادی نظام، اس کی ذاتی اَنا اس کے ظاہری علم کی بے مطلب حقیقت اس کے راستے میں بڑی رکاوٹیں ہیں۔ ایسی صورت حال میں ڈاکٹر بدر منیر کایہ شعر صادق آتا ہے:
بن گئے انسان اپنی ذات میں جنگل منیر
اُڑ گئی ہے بستیوں سے بوئے آدم زاد تک
سنت ومہاتماؤں اور اولیائے کاملین کی زندگیوں کا مطالعہ کیا جائے تو انہوں نے مادی، روحانی دونوں تقاضوں کو بیک وقت پورا کیا۔ وہ انسانیت کی عملی مثال ہیں، جس کے اثرات ہماری زندگی میں نظر آتے ہیں۔ جہاں جہاں ایسی ہستیوں کا بسیرا رہا ہے وہاں انسانی بقاء کو اولین حیثیت دینے کی کوشش جاری رہی ہے اور سماج میں اخوت،تحمل، بردباری اور مساوات کو فروغ دیا جاتا رہاہے۔ حقیقی معنوں میں انہی چیزوں کی وجہ سے ایک زندہ معاشرہ کا وجود ممکن ہے۔ جس سے انسانیت کے مقاصد کی تکمیل ہو سکتی ہے۔تلسی داس جی اخوت و محبت کی اہمیت کو بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ:
’’ پوتھی پڑھ پڑھ جگ مُوا، پنڈت بھیا نہ کوئے
ڈھائی آکھر پریم کے، پڑھے سو پنڈت ہوئے ــ ‘‘ ۱۳؎
ازل سے لے کر آج تک دنیا پڑھتی چلی آ رہی ہے ، کسی نے زیادہ کسی نے کم پڑھا ہے، مگر اصلیت سے کوئی واقف نہیں ہوا اور سارے عالم فاضل نہیں ہوئے۔ علم تو محبت کے ڈھائی حروف میں حاصل ہوتا ہے۔جس نے اس کا راز جانا وہ کامیاب ہو گیا۔
تلسی داس جی شفقت و محبت اور مساوات کا درس دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ:
’’ دیا دھرم کا مول ہے، پاپ مول ابھیمان
تلسی ؔ دیانہ چھوڑئے، جب لگ گھٹ میں پران ‘‘ ۱۴؎
دیا یعنی رحم دلی اور مہربانی مذہب کی بنیاد ہے اور پاپ یعنی گناہ تکبر اور نخوت کی بنیاد ہے۔ تلسی داس جی کہتے ہیں کہ جب تک جسم میں جان ہے تب تک دیا (رحم ) کو ہاتھ سے نہیں چھوڑنا چاہئے۔دوسری جگہ آپ غریب اور لاچار انسان پر ظلم و ستم کے متعلق فرماتے ہیں کہ:
’’ تلسی آہ غریب کی ، کبھی نہ خالی جائے
موئے بکرے کی خال سے لوہ بھسم ہو جائے ‘‘ ۱۵؎
مفلس و خستہ حال یعنی غریب کی آہ کبھی رنگ لائے بغیر نہیں جاتی۔ ظالم کے انتہائی مظالم سے تنگ آکر اس کا ہر عضو خدا کے پاس فریاد کرتا ہے۔ جس طرح مردہ بکرے کی خال بھی اپنا لہو پینے والے لوہے کو بھسم یعنی خاک سیاہ بنا دیتی ہے۔
گرو نانک دیو جی سماجی مساوات اور انسانی اہمیت کو یوں بیان کرتے ہیںکہ:
’’ مُندا سنتوکھ سرم پت جھولی دھیان کی کرہِ بھَبھُوت
کنتھا کال کواری کائیب ا جگتِ ڈنڈا پر تیت
آئی پنتھی سگل جماتی من جیتے جگ جیت
آویس تسے آویس آوِاینل انا داناہتِ جگ جگ ایکو ویس ‘‘ ۱۶؎
یعنی اطمنانِ نفس کے بالے کان میں ڈال ریاضت کی جھولی اور کشکول لے اور دھیان کا بھبھوت تن پر مل کر تیرا جسم کنواری لڑکی کی طرح پاک ہو اور موت کی کفنی تیرے گلے میں ہو ، صدق و یقن کا تازیانہ اٹھا اور شک کو اپنے دل سے مار نکال دے ، سب فرقوں کو ایک سمجھ کہ حق کے ماننے والوں کی یہی ریت ہے۔ اگر تونے کسی کا دل جیت لیا ہے تو تیری یہ جیت اصلی جیت ہے۔ ہمیشہ سے اس کا یہی فرمان ہے جو پاک و طاہر ہے، اول و آخر ہے ، ازلی و ابدی ہے اور سدا سے اس کا ایک ہی بھیس ہے۔ بابا شیخ فریدؒجی برائی کا بدلہ بھلائی سے دینے اور امن ِ انسانیت اور اس کی قدر ومنزلت کو اجاگر کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ:
’’ سبھناں من مانک، ٹھاہن مول مچانگوا
جے تو پریہ دی سِک ہیؤ نہ ٹھاہے کہی دا ‘‘ ۱۷؎
اگر تجھے اللہ کی چاہ ہے تو اے انسان! کسی بھی آدمی کا دل نہ توڑ ، کیوں کہ وہ انسان کا دل ایک انمول موتی کی مانند ہے اور اس میں اللہ تعالیٰ رہتے ہیں۔ روی داس جی یوں فرماتے ہیں کہ:
’’ سب میں ہری ہے ہری میں سب ہے، ہری اپنو جن جانا
ساکھی نہیں او ر کوئی دوسر ، جاننا ہار سیانا ‘‘ ۱۸؎
روی داس جی کہتے ہیں کہ سب انسانوں میں خدا ہے اور یہ ساری مخلوق خدا کی ہے ، جس نے خدا کو اپنا جان لیا وہ جس سے بڑا بزرگ ہے کیوں کہ خدا ہی انسان کا سب سے سچا دوست ہے۔میاں محمد بخشؒ اپنے نفس کی اصلاح اور دوسروں سے رواداری کا سبق دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ:
’ ’ برے بندے نو ں لبن ٹریا برا نہ لبھا کوئی
جد من اندر جھاتی پائی من توں برا نہ کوئی ‘‘ ۱۹؎
آپ حضرات کا امن و شانتی اور بقائے باہم کے لئے ایک اہم اصول یہ رہا ہے کہ انسان بحیثیتِ انسانیت کے ہر فرد و ملت کے ساتھ شگفتہ تعلقات رکھے، ہر اس چیز سے بے زاری کا اظہار کرے جو بد امنی و انتشار کی دعوت دیتی ہے اور جو اخوت و بھائی چارہ کے علاوہ بقائے باہم کے لئے خطرہ کا باعث ہو، مطلب یہ کہ:
گرم رکھتے ہیں ملاقات بد و نیک سے ہم
تیرے ملنے کے لئے ملتے ہیں ہر ایک سے ہم
آج کا دور کمپیوٹر، ٹیکنالوجی اور سائنس کا دور ہے، مادی طور پر انسان ترقی کی کئی منازل طے کر چکا ہے،دنیا کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک رسائی حاصل کر چکا ہے، اس کی قوت ِ تسخیر محض زمین تک محدود نہیں ہے بلکہ ستاروں اور سیاروں پر بھی اپنی کمندیں ڈال چکا ہے، علم کے شعبہ جات اور وسعتوں کے باعث تقسیم در تقسیم ہو چکی ہیں، تحقیق کے شعبہ میں قابل قدر کارنامے انجام دیئے جا چکے ہیں، ایجادات کے شعبہ میں نئے اقدامات اور منازل طے کر رہے ہیں۔ مادی طور پر انسان بہت مضبوط اور مستحکم ہو چکا ہے لیکن اخلاقی طور پر اسی قدر پست اور کمزور ہوتا جا رہا ہے۔ مادی ترقی کے باوجود عقلی اور اخلاقی طور پر آج کے انسان میں نہ تو عصبیت اور تعصب کے جراثیم ختم ہوئے ہیں اور نہ ہی اس کی عقلی حدود نے دوسرے انسانوں کو کم تر کرنے، کمزور کرنے اور شکست سے دوچار کرنے میں کوئی کمی کی ہے۔ عہدِ حاضر میں جس قدر مادی استحکام حاصل ہوا ہے اس سے کئی گنا زیادہ اخلاقی پستی نے بھی انسان کو اندھیروں کی طرف دھکیل دیا ہے۔ صوفی اورسنتوںکے نزدیک روحانیت ہی بقائے انسانی کا واحد ذریعہ ہے، تقلیدِ غیر سے جہاں اپنی اخلاقی اقدار کا بیڑا غرق ہوتا ہے وہیں ایک ایسی تہذیب کی ترویج ہوتی ہے جو نہ صرف دین و مذہب کے سراسر منافی ہے بلکہ انسانی فطرت سے بھی کسی طرح ہم آہنگ نہیں ہے۔ ان پاک پوِتر لوگوں کا پیامِ ’’ وحدت‘‘ سب تعلیمات و پیغامات میں اول درجہ رکھتا ہے ، جس میں تمام تر مقصد پنہا ہے۔کیوںکہ وحدانیت میں وحدتِ انسانی ،وحدت الوجود ، وحدت الشہود اوران سب سے انسان کی بقا اور بہبود مقصود ہے۔روی داس جی کہتے ہیں کہ:
’’ روی داس ہمارو سائیاں، راگھو رام رحیم
سب ہی رام کو روپ ہیں،کیسو کرسن کریم ‘‘ ۲۰؎
کبیر داس جی کہتے ہیں:
’’ اوّل اللہ نور اپایا قدرت دے سب بندے
اِک نور تے سب گج اپجیا کؤ بھلے کو مندے ‘‘ ۲۱؎
سلطان باہو کہتے ہیں:
’’ الف احد جد دتی دکھائی از خود ہویا فانی ہو
قرب وصال مقام نہ منزل نہ اتھ جسم نہ جانی ہو
نہ اتھ عشق محبت کائی، نہ اتھ کون مکانی ہو
عینوں عین تھیو سے باہو ، سِر وحدت سبحانی ہو ‘‘ ۲۲؎
روحانی کلام کے لفظوں میں جو طلسم ہے اس سے خود الفاظ سیّال ہو کر بہنے لگتے ہیں ، جو ان الفاظ کے جادو سے ذرا بھی آشنا ہوتا ہے ان کے دلوں تک پہنچنے لگتے ہیں۔ روحانی کلام کے ذریعہ صوفی اور سنتوں کے داخلی تجربوں کی وہ شعائیں سامنے آتی ہیں، جو ان کے باطن کی تیز تر روشنی کا احساس عطا کرتی ہیں ، پہلی آواز ہی سے محسوس ہونے لگتا ہے کہ بس ایک ہی سچائی کا عرفان ہے ، جسے پانے کے لئے دل و دماغ دونوں ایک دوسرے میں جذب ہو جاتے ہیں۔ ان شعاعوں میں وہی کیفیت ہے جو صبح کی لطیف اور خوش گوار ہوا میں ہوتی ہے، جیسے جیسے مطالعہ کرتے جاتے ہیں تومحسوس ہوتا ہے کہ تلاش و جستجو کا ایک طویل سلسلہ قائم رہا ہے، جس سے بنیادی سچائی کی پہچان ہوئی اور پھر ایک ایسا انفرادی داخلی تجربہ اور بے مثال کلام کی تخلیق ہوئی ہے جس کی مثال کہیں نہیں ملتی۔
گوتم بدھ ہوں، بابا نانک ہوں، بلھے شاہ ہوں ،بابا فرید ہوں یا پھر کوئی بھی صوفی و سنت بزرگ وہ کبھی منطق لے کر نہیں آتے۔وہ تو اپنے وجود کو پیش کر دیتے ہیں تاکہ ہم سعادت حاصل کریں اور ان کے اس مبارک سفر میں شامل ہو جائیں ، کیوں کہ یہ سب ایک ہی بنیادی سچائی اور اس کی پر نور جہتوں کے ساتھ ساتھ یکسانیت کی باتیں کرتے ہیں اور ہر ایک کے کلام میں بار بار نئی تازگی کا احساس ملتا ہے۔ بابا نانک فرماتے ہیں:
’’ ایکو ایک کہے سب کوئی ہومے گرب ویاپے
انتر باہر ایک پچھانے ایوں گھر محل سنیاپے ‘‘ ۲۳؎
اور دوسری جگہ یوں فرماتے ہیں کہ:
’’ پربھ نیڑے ہر دور نہ جانیو ایکو سرسٹ سبائی
ایکنکار اور نہیں دوجا نانک ایک سمائی‘‘ ۲۴؎
کبیر داس جی کہتے ہیںکہ:
’’ صاحب میرا ایک ہے دوجا کہا نہ جائے
دوجا صاحب جو کہوں صاحب کھرا رسائے ‘‘ ۲۵؎
شاہ حسینؒ اسی ضمن میں کہتے ہیں کہ:
’’ اندر باہر اکّو سائیں ، کس نوں آکھ سائیں
اکّو دلبر سب گھٹ رویا، دوجا نہیں کدائیں
کہے حسین فقیر نمانا، ست گر توں بل جائیں ‘‘ ۲۶؎
فلسفہ سے کہیں زیادہ صوفی اور سنتوں کی دین سماجی اور ثقافتی میدانوں میں ہے۔ انہوں نے انتہائی دلیری سے ایک طرف تو ہندوؤں کے طبقاتی نظام اور ذات پات کی تفریق کا طلسم توڑ دیا اور دوسری طرف ہندوؤں اور مسلمانوں کی مذہبی ظاہر داریوںکو دور کرتے ہوئے مذہبی تفریق کی بنیادیں ہلا دیں اور ایک ایسا مساویانہ سماجی تصور پیدا کردیا جس کی روایت موجودہ زمانے میں قومی اورسماجی یکجہتی کی بنیاد ہے۔
صوفیا ئے کرام اور سنت مہاتماؤں کاتمام تر پیغام محبت وانسانیت ہے۔ آپ لوگوں کا یہ پیغام ہے کہ اگر صوفی بننا چاہتے ہیں تو اللہ سے محبت کریں اور کسی لالچ خواہ وہ روحانی طاقت حاصل کرنے کا ہی کیوں نہ ہو، کا خیال دل سے نکال دیں، اللہ سے محبت کرنے کا طریقہ اپنائیں اور اللہ کے بندوں سے محبت کریں ، بندوں سے محبت کے معنی ان کی خدمت ہے۔ بقول علامہ اقبال کہ:
ہیں لوگ وہی جہاں میں اچھے
آتے ہیں جو کام دوسروں کے
ان بزرگوں کی زبان ایک جیسی ہوتی ہے کیونکہ وہ عالمگیر زبان بولتے ہیں اور یہ عالمگیر زبان انگریزی، اردو یا فارسی نہیں بلکہ محبت کی زبان ہے۔ اس لئے بابا شیخ فریدؒ جی کہتے ہیں کہ:
’’ فریدا خالق خلق میہہ خلق وسے ربّ ماہہ
مندا کس نو آکھی اے جاں تس بن کوئی نہہ ‘‘ ۲۷؎
اسی بات کو تلسی داس جی کہتے ہیں کہ:
’’ تلسی ؔ یا سنسار میں سب سے ملئے دھائے
نہ جانے کس بھیس میں ناراین مل جائے ‘‘ ۲۸؎
شیخ سعدی فرماتے ہیں کہ:
’’ ہر کہ خدمت کرد او مخدوم شد
ہر کہ خود را دید او محروم شد ‘‘ ۲۹؎
اور کبیر جی کہتے ہیں کہ:
’’ سبئہ رساین میں کیا، پریم سمان نہ کوئے
رتی اک تن میں سنچرئے، سب تن کنچن ہوئے ‘‘ ۳۰؎
محبت کی یہ عالمگیر زبان اس وقت حاصل ہوتی ہے جب کوئی ذاتی مفادات کو قربان کرنا سیکھ لیتا ہے، بلکہ اپنی ہستی کی نفی بھی کر لیتا ہے۔ محبت کی اس عالمگیر زبان کے حصول کے لئے معین الدین چشتیؒ فرماتے ہیں کہ:
’’ جس شخص میں یہ تین چیزیں پائی جائیں سمجھ لو کہ وہ اللہ اور اس کے بندوں کا دوست ہے۔ اول سورج کی سی شفقت کہ وہ اپنے پرائے اچھے برے کی تخصیص کئے بغیر سب کو روشنی اور گرمی پہنچاتا ہے۔ دوسرے دریا کی سی سخاوت کہ اس کے کنارے سب کے لئے کھلے رہتے ہیں۔ تیسرے زمین کی سی تواضع کہ اسی سے سب پرورش پاتے ہیں اور وہ پیروں میں بچھتی رہتی ہے۔‘‘ ۳۱؎
مذکورہ بالا تین چیزیں اللہ اور اس کے بندوں دونوں سے دوستی اور محبت کا ثبوت فراہم کرتی ہیں اور ان کے پیچھے جو جذبہ ہے وہی حقیقی کامیابی ہے۔ حضرت سلطان باہوؒ کہتے ہیں۔
’’ الف ایمان سلامت ہر کوئی منگے، عشق سلامت کوئی ہُو
منگن ایمان شرماون عشقوں دل نوں غیرت ہوئی ہُو ‘‘ ۳۲؎
سلطان باہو انسان کی نیک صفات کی اہمیت اور اخلاص کو بیان کرتے ہیں کہ:
’’ دل کالے توں منہ کالا چنگا جے کوئی اس نوں جانے ہو
منہ کالا دل اچھا ہووے تاں دل یار پچھانے ہو ‘‘ ۳۳؎
اگر ہم صوفی اور سنتوں کے پیغامِ محبت پرمکمل عمل نہیں بھی کر سکتے تو کم از کم نفرت کو ترک کر کے ایک دوسرے کا خون بہانا تو چھوڑ سکتے ہیں اور یہی ہمارے انسان ہونے کی چھوٹی سی دلیل ہو گی۔ بقول تلسی داس:
’’ تلسی میٹھے بچن تے ، سکھ اپجت چہوں اور
بسی کرن یہ منتر ہے ، پر ہر وچن کٹھور ‘‘ ۳۴؎
بابا فرید کہتے ہی کہ:
’’ فریدا جوتے بارن مکیاں تنا نہ ماریں گھمّ
آنپڑے گھر جائی اے پیر تناں دے چمّ ‘‘ ۳۵؎
کبیر داس کہتے ہیں کہ:
’’ ایسی بانی بولئے من کا آپا کھوئے
اوروں کو شیتل کرے آپوشیتل ہوئے ‘‘ ۳۶؎
ہندوستان میں’ بھکتی تحریک ‘ اور ’ صوفی واد ‘ کے اثرات تقریباً ہر شہری میں موجود ہیں۔ بھگتوں نے اپنی بانیوں کے ذریعہ صوفیانہ خیالات کو عوام تک پہنچایا ہے۔ خاص طور پر سنت کبیر داس ، گرونانک دیو جی، سورداس ، تلسی داس، میرا بائی، رس خان جیسے سنتوں اور سادھوؤں نے محبت ، یگانگت ، اتحاد اور انسانی دوستی کی جو تعلیمات اپنے دوہوں ، گیتوں اور نظموں کے ذریعہ عوام تک پہنچائی ہے وہ ہمارے لئے مشعلِ راہ اور باعثِ نجات ہیں۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ ہندی ساہتیہ کے بھکتی کال کے سنتوں اور سادھوؤں نے اپنے کلام کے ذریعہ جو تعلیمات دی ہیں ان میں صوفیائے کرام کی تعلیمات کا عکس بھی جلوہ گر ہے اور اس طرح تصوف اور بھکتی میں انسانی فلاح و بہبود کا احساس اور انسانی دوستی کا جذبہ مشترک نظر آتاہے۔ نام اور نسبتوں کے اعتبار سے ہندوستان میں تصوف کے مختلف سلسلے قائم ہوئے اور شاخ در شاخ ملک کے گوشہ گوشہ میں پھیلتے رہے۔ رشیوں ، منیوں ، سنتوں اور سادھوؤںکی اس دھرتی کے باسیوں کو روحانیت اور اخلاقیات، بھائی چارہ اورمحبت و ہمدردی کا درس دیتے رہے۔ انہوں نے کبھی انسان اور انسان میںفرق نہیں سمجھا۔ غریبوں اور امیروں ، بادشاہوں اور فقیروں سب کو ایک نظر سے دیکھا۔ بلاتفریق مذہب و ملت ہر ذات اور فرقے کے لوگوں کواپنے روحانی اور اخلاقی فیض و کرم کے سرچشمہ سے سیراب کیا۔ تصوف کی بنیاد انسان کی قدروں کی تحفظ کی جن مقدس تعلیمات پر رکھی گئی تھی، اس کا اندازہ بر صغیر کے صوفی خواجہ نظام الدین اولیاءؒ کے اس قول سے لگایا جا سکتا ہے کہ:
’’ اگر راہ میں کانٹے بچھانے والوں کا کانٹے بچھا کر جواب دیا جائے گا تو پوری دنیا کانٹوں سے بھر جائے گی اس لئے کانٹے بچھانے والوں پر پھولوں کی برسات کرو اور دنیا کو کانٹوں کی ازیت رسانی سے محفوظ رکھو۔‘‘ ۳۷؎
یہ جملہ صوفی ازم اور بھکتی وادکی تحریک و تعلیم کی پوری طرح عکاسی کرتا ہے۔ اسی فطرتِ جاذبیت سے صوفی ازم کو ہندستانی کلچر اور قوم و سماج نے پوری شان و سمان کے ساتھ اپنایا اورکشمیر سے کنیا کماری تک، بنگال سے گجرات تک ہی نہیں بلکہ پورے بر صغیر کی عوام ان کی تعلیمات میں ڈھلتے چلے گئے۔
حاصل گفتگو یہ ہے کہ آج جبکہ دنیا امن و سکون کی پناہگاہوں کی تلاش اور فتنہ و فسادوقتل و غارتگیری کی تباہ خیزیوں سے خود کو محفوظ کرنے کی جستجو میں ٹھوکریں کھاتی پھر رہی ہے ایسے میں ہر محب ِوطن کی ذمہ داری ہے کہ سنت ومہاتماؤں اور صوفیائے عظام کے عالم گیر پیغام امن و انسانیت کو عام کرنے اور ان کی تعلیمات کو برادران وطن تک پہنچانے کی ذمہ داری نبھاکر حب الوطنی کا فریضہ انجام دیں۔صوفیائے کرام کا مشن پوری دنیا کے لئے ایک امن دوست ، امن پروری ، امن آفرین مشن ہے جس کا ہر پہلو محبت و اخوت ،بھائی چارہ ،ہمدردی اور ہم آہنگی کو اپنے پہلو میں اس طرح لئے ہوئے ہے جیسے گلاب میں خوشبو اور اس کے ہر جز کو بدامنی انتشار، نفرت اور تعصب سے اس طرح دور رکھاہے کہ جس طرح سورج سے اندھیرا۔ نفرت سے نفرت نہیں مٹتی، آگ سے آگ نہیں بجھتی، تشد سے تشدد نہیں ختم ہوتا ، نفرت کی آگ کو محبت کے پانی سے ، تشدد کی یلغار کو عدم تشدد کے ہتھیار ہی سے قابو میں لایا جا سکتا ہے۔ اس لئے دنیا میں امن قائم کرنے ، بد امنی کا خاتمہ کرنے ، نفرت اور دہشت کا خاتمہ کرنے ، حقوق انسانی کا شعور بیدار کرنے اور اس کے لئے انسانوں میں بیداری لانے کے لئے ضرورت اس بات کی ہے کہ ان حضرات کی تعلیمات کو عام کیا جائے ، ان کے طور طریقوں کو دنیا کے سامنے پیش کیا جائے اور یہ پیغام عام ہو جائے تاکہ ہمارے عمل و زبان سے انسانیت اور امن کا پیام جاری و ساری رہے۔
ایک شجر ایسا محبت کا لگایا جائے
جس کا ہمسایہ کے آنگن میں بھی سایہ جائے
حوالے/ حواشی
۱ ’’انسان‘‘ سے مراد یہاں انسانِ کامل ہے ، جو تمام تر خوبیوں کا مالک ہو، جس کے ہر فعل و عمل سے انسانیت جھلکتی ہو اور جس کے کسی بھی فعل سے انسان کو تکلیف نہ پہونچے، اللہ کی مخلوق کو اپنے علم و عمل سے فیضیاب کرے اورسب کے لئے راحت کا سبب بنیں۔
۲ ’’ معرفت‘‘ عام زندگی میں اکثر استعمال کیا جانے والا لفظ ہے،جس کے معنی جاننا، استعراف یا عارف کے ہوتے ہیں۔مگر اس کا علمی مفہوم اس مفہوم سے بہت وسیع ہے کہ جس میں یہ روزمرہ زندگی میں آتا ہے۔ اس میں مذہب سے زیادہ فلسفے اور انسانی نفسیات کی ملاوٹ شامل ہوچکی ہے اور اگر یہ کہا جائے کہ یہ دراصل وجدان اور تصوف سے بہت قریب ہے تو بیجا نہ ہوگا۔مختصراً یہ کے علمِ تصوف میں معرفت یا معرفتِ الٰہی کہتے ہیں انسان کی آخری منزل کو ،جس میں وہ اللہ کا قرب حاصل کرلیتا ہے اوردنیا کے تمام تقاضوں سے دور بلند و اعلیٰ مرتبہ پر پہنچ جاتا ہے۔
۳ کلیدی مثنوی۔جلد اول، مولانا جلال الدین رومیؒ (مرتبہ: مولانا اشرف علی تھانوی)، ادارہ تالیفات اشرفیہ
ملتان،۲۰۰۵ ء صفحہ ۱۹۰
۴ مثنوی مولوی معنوی۔جلد اول،مولانا جلال الدین رومیؒ (مترجم:قاضی سجاد حسین)، اسلامی کتب خانہ لاہور، صفحہ ۳۹
۵ انگ 1364، شری گرو گرنتھ صاحب
۶ انگ 1381، شری گرو گرنتھ صاحب
۷ انگ 1383، شری گرو گرنتھ صاحب
۸ تلسی داس دوہا ولی، دیہاتی پستک بھنڈار دہلی، صفحہ۱۲
۹ کلام حضرت بلھے شاہؒ، ضیاء القرآن پبلی کیشنز لاہور، صفحہ ۲۳
۱۰ گلستان ِسعدی ،شیخ سعدی(مترجم مولانا نعیم احمد)مکتبہ حکیم الامت سہارنپور ۲۰۰۵ء صفحہ ۵۸
۱۱ مثنوی مولوی معنوی۔جلدسوم،مولانا جلال الدین رومیؒ (مترجم:قاضی سجاد حسین)، اسلامی کتب خانہ لاہور، صفحہ ۱۴۹
۱۲ فکرِ اقبال، ڈاکٹر خلیفہ عبدالحکیم، ایجوکیشنل بک ہاؤس علی گڑھ،۲۰۰۲ء صفحہ ۴۸۲
۱۳ تلسی داس دوہا ولی، دیہاتی پستک بھنڈار دہلی، صفحہ۳
۱۴ تلسی داس دوہا ولی، دیہاتی پستک بھنڈار دہلی، صفحہ۱۱
۱۵ ایضاً۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔صفحہ ۳
۱۶ جب جی صاحب اردو، مترجم شکیل الرحمان، عرفی پبلی کیشنز گڑگاؤں ۱۹۹۶ء صفحہ ۹۸
۱۷ شلوک ۱۳۰، انگ 1383، شری گرو گرنتھ صاحب
۱۸ سنت کاویہ سنگرہ، پد سنکھیا ۴
۱۹ عارفانہ کلام انسائکلوپیڈیا، یوسف مثالی، اعتقاد پبلیشنگ ہاؤس دہلی، صفحہ ۶۵
۲۰ سنتوں کی وانی، رادھا سوامی ست سنگ ویاس، صفحہ ۳۸۵
۲۱ انگ 1348، شری گرو گرنتھ صاحب
۲۲ کلامِ سلطان باہو، لطف الرحمان آزاد، اعتقاد پبلشنگ ہاؤس نئی دہلی ۲۰۱۲ء صفحہ ۱۰
۲۳ انگ 929، شری گرو گرنتھ صاحب
۲۴ انگ 929، شری گرو گرنتھ صاحب
۲۵ کبیر وچناولی،ہری اودھ(ترجمہ سرسوتی سرن کیف)، ساہتیہ اکادمی دہلی، ۱۹۸۶ء صفحہ ۸۷
۲۶ عارفانہ کلام انسائکلوپیڈیا، یوسف مثالی، اعتقاد پبلیشنگ ہاؤس دہلی، صفحہ ۵۵
۲۷ انگ 1381، شری گرو گرنتھ صاحب
۲۸ تلسی داس دوہا ولی، دیہاتی پستک بھنڈار دہلی، صفحہ۸
۲۹ پند نامہ، شیخ سعدی، رحمت عالم فاؤ نڈیشن صفحہ ۶۱
۳۰ کبیر وچناولی،ہری اودھ(ترجمہ سرسوتی سرن کیف)، ساہتیہ اکادمی دہلی، ۱۹۸۶ء صفحہ ۲۳۴
۳۱ حالات وخدمات مشائخ چشتیہ صابریہ، ڈاکٹر رضی احمد کمال، مکتبہ جامعہ نئی دہلی، ۱۹۹۷ء صفحہ ۱۷۷
۳۲ عارفانہ کلام انسائکلوپیڈیا، یوسف مثالی، اعتقاد پبلیشنگ ہاؤس دہلی، صفحہ۲۳
۳۳ کلام حضرت بلھے شاہؒ، ضیاء القرآن پبلی کیشنز لاہور، صفحہ۶۶
۳۴ سنتوں کی بانی ، رادھا سوامی ست سنگ بیاس، صفحہ ۲۵۹
۳۵ حضرت شیخ فرید گنج شکر حیات و تعلیمات، سردار گربچن سنگھ خالصہ، صفحہ ۶۳
۳۶ کبیر وچناولی،ہری اودھ(ترجمہ سرسوتی سرن کیف)، ساہتیہ اکادمی دہلی، ۱۹۸۶ء صفحہ ۱۹۸
۳۷ فوائد الفواد (اردو)، امیر حسن، ناشر و مترجم خواجہ حسن ثانی نظامی ۲۰۰۷ء صفحہ ۲۵۷
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
Sufi Aur Santon Ka rohani Kalam by: Abdul Kareem
Leave a Reply
Be the First to Comment!