اردوشاعرات کی نظموں میں مزاحمتی عناصر
ارم صبا
ریسرچ سکالر ، شعبہ اردو، وفاقی اردو یونیورسٹی ، سیکٹر G-7/1 نزد زیرو پوائنٹ، اسلام آباد
0321-7681707
خواتین شعراء کے متعلق یہ تاثر پایاجاتا ہے کہ وہ رومانوی اور عشقیہ جذبات کے موضوعات کو ہی شاعری میں پیش کر سکتی ہیں۔لیکن اس حقیقت سے بھی انکار ممکن نہیں کہ خواتین مردوں کے مقابلے میں حساس ہوتی ہیں۔وہ حالات کی نزاکت کا احساس اور معاشرے میں ہونے والی سیاسی اور سماجی تبدیلیوں کا ادراک رکھتی ہیں۔اردو نظم نگار شاعرات نے اپنی نظموں کو حیات کے کسی ایک پہلو تک محدود رکھنے کی بجائے حیات وممات اور کائنات کی متنوّع کیفیات سے آراستہ کیا ہے۔ان شاعرات کی شاعری ذاتی کیفیات کی ترجمانی سے کے کر عہد حاضر کے تمام معاشرتی اور سیاسی مسائل کواپنے دامن میں سمیٹتی ہے۔ترقی پسند تحریک نے جہاں مرد اہل قلم کو متاثر کیا اور فکر و اسلوب کی نئی راہیں متعین کیں وہیں خواتین کو بھی حیات و کائنات کے مسائل پرنئے زاویے سے سوچنے پر آمادہ کیا۔زندگی کی رواں دواں حقیقتوں پر نظر ڈالنے سے خود بینی و جہاںبینی کا ایک نیا انداز وجود میں آیا۔اور ادب و شعر کو وہ آگہی نصیب ہوئی جو اس سے پہلے نہ تھی۔ حالات کے کرب کو خواتین شعراء نے نہ صرف شدت سے محسوس کیا بلکہ اپنی نظموں کا موضوع بھی بنایا۔
ہر سماج میںبالا دست طبقے عوام کا استحصال کرتے چلے آ رہے ہیںکبھی ریاست اور کبھی مذہب کے نام پر،کبھی سیاست اور کبھی معیشت کے نام پر۔ان استحصالی قوتوں کے ہاتھ جھٹک دینے کے لئے مزاحمتی عمل جاری رہتا ہے۔ادب تخلیق کرنا بذات خود ایک مزاحمتی عمل ہے کیونکہ ادیب اپنے گرد و پیش سے Conformنہیں کر پاتا اور اسی کشمکش کی بنیاد پر وہ ادب تخلیق کرتا ہے۔(۱)قیام پاکستان کے بعد حکومتیں عوامی توقعات پر پورا نہ اتر سکیں ایوان شاہی میں سازشوں کے جال بچھنا شروع ہو گئے۔اکتوبر ۱۹۵۸ء میں آمریت کے دور کا آغاز ہوا۔یحیی خان اور ضیا حکومت عوام کو قبول نہ تھی۔ملک میں جمہوریت کا جنازہ نکل چکا تھا ہر حساس شخص اپنے اپنے انداز میں مزاحمت کر رہا تھا۔خواتین شعراء نے بھی ان حالات کو دیکھا ،محسوس کیا اور لفظوں میں بیان کر دیا۔
ادا جعفری کا شعری سفر تقریبا نصف صدی پر محیط ہے۔ترقی پسندانہ نظریات رکھنے والی اس شاعرہ کی نظمیں سیاسی اور معاشرتی شعور کی آئینہ دار ہیں۔ان کی ابتدائی شاعری میں رومانوی عناصر نظر آتے ہیں۔ لیکن دوسرے مجموعے’’شہر درد‘‘ تک آتے آتے ان کے ہاں فنّی ارتقاء کے ساتھ موضوعات و خیالات میں بھی تبدیلی نظر آتی ہے۔جذباتی مسائل کی بجائے ان کی نظر بڑے مسائل تک پہنچتی ہے۔آزادی وطن سے قومی تہذیب اور نظام نو تک ایک بڑا افق ان کی شاعری میں در آتا ہے۔ادا جعفری مشینوں کے شور ،کارخانوں کے دھویں ، توپوں کی گھن گرج غرض سرمایہ دارانہ نظام کی ہر چیز سے نالاں ہیں۔وہ زخم کھائے ہوئے ،کچلے ہوئے ،ٹھکرائے ہوئے انسانوں کی نمائندگی کرتی ہیں:
یہ احتیاج کے پھندوں میں آرزو کا گلا
یہ میرے ہاتھ میں بے باک زندگی کا عصا
قدم قدم پہ سسکتی ہیں ان گنت لاشیں
کہ بک رہی ہیں سر راہ روح کی قاشیں
یہ رہ گزر مرے پائے جنوں کو راس نہیں
یہ تیرگی مری تعمیر کی اساس نہیں ( ۲)
ادا جعفری انقلاب کے نغمے سبک اور شیریں لے میں گاتی ہیں۔وہ ملکی اور عالمی حالات سے دلبرداشتہ ہیںخصوصًامسلمانوں کی کسمپرسی انہیں خون کے آنسو رلاتی ہے انہیں امید ہے کہ ایک دن ضرور آئے گاجب دکھ ،غم،استحصال اور غلامی ختم ہو جائیں گے۔
اک نہ اک شکل سے اک نہ اک روش میں
تیرگی میں کبھی اور کبھی دھوپ میں
زندگانی کے ماتھے کا ٹیکا صدا جگمگاتا رہا
سچ کہو دوستو، سچ کہو ساتھیو(۳)
ادا جعفری نے کشمیر اور اہل کشمیر کے دکھ کو شدت سے محسوس کیا ہے وہ مظلوم کشمیریوں کو حوصلہ نہ ہارنے اور جدوجہد جاری رکھنے کا پیغام دیتی ہیں:
ظلم تھا کل بھی خوار و زبوں
ظلم اور جبر ہو گا ہمیشہ نگوں
ارض کشمیر کی دل نشیں وادیو
اے حسیں اور اندوہ گیں وادیو! (۴)
ادا جعفری کے کلام میں قدیم اور فرسودہ نظام زندگی کے خلاف بغاوت کا جذبہ کار فرما ہے۔ان کی آواز سراپا احتجاج ہے۔ان کے انداز بیان سے ایک ایسی قوت ارادی متشرح ہے جس کے بغیر جدید ادب کے کسی معمار کا پیام موثر نہیں ہو سکتا۔(۵) ادا جعفری نے جب شاعری کا آغاز کیا وہ دور سیاسی ،سماجی اور ادبی ہر لحاظ سے ہنگامہ خیز دور تھا۔ہر طرف انتشار اور بے اطمینانی تھی۔برطانوی طاقت کا سورج گہنا رہا تھا۔موت کی ارزانی کا احساس کمزور قوموں کی رگوں میں خون کی طرح سرایت کر چکا تھا۔ادا جعفری اس صورت حال کو شدت سے محسوس کرتے ہوئے رحمت للعالمین ﷺسے التجا کرتی ہیں:
پھر زندگی ویران ہے دھندلا گئی ہے پھر نظر
اے مہرباں،اے راز داں،اے راہ نما، اے راہبر
کیوں راستے کملا گئے،کیوں منزلیں کھو گئیں
صرف دعائے کامراں
اے رحمت للعالمیںﷺـ (۶)
پروین فنا سیدایک واضع نظریاتی وابستگی کی شاعرہ ہیں۔انھوں نے شہر آشوب اور ذات آشوب کے امتزاج سے اپنی شاعری کا خمیر تیا رکیا ہے۔فرد کے آشوب سے لے کر اجتماعی آشوب تک بہت سے مسائل ان کی نظموں میں موجود ہیں۔موضوعات کے حوالے سے ان کی شاعری ایک مجموعی فضا کی نمائندگی کرتی ہے۔یہ فضا سیاسی اور سماجی جبر کے خلاف آواز کی فضا ہے۔
جاگیردارانہ نظام کی وجہ سے ہمارا معاشرہ بے روزگاری،بد حالی اور پسماندگی کا شکار ہے۔جاگیردار امیر سے امیر تر ہوتا جا رہا ہے اور مزدور،کسان غربت کا شکار ہیں۔اردو شاعرات کی تخلیقات میں شدت سے اس بات کا احساس پایا جاتا ہے۔اردو شاعرات نے اپنی منظومات میں معاشرے کے محروم اور مظلوم طبقے کی تصویریں بڑے موثر انداز میں پیش کی ہیں۔پروین فنا سید معاشرے کے پسے ہوئے مظلوم اور پسماندہ طبقے کی ترجمانی کرتی ہیں۔انہیں اس بات کا یقین ہے کہ ایک دن ان مظلوم طبقے کو ان کا حق ضرور ملے گااور حرص وہوس کا انبوہ جبر اس پسے ہوئے طبقے کے تن نحیف سے ہار جائے گا:
تن نحیف سے انبوہ جبر ہار گیا
سنو کہ حرص وہوس قہر و زہر کا ریلا
غبار و خار و خس و خاک ہی نے تھام لیا
سیاہیاں ہی مقدر ہوں جن نگاہوں کا
خدا بچائے ان آنکھوں کی شعلہ بازی سے
ڈرو کہ ذردہ جاں ،نیم جاں،خستہ تناں
ہزار بار مرے اور لاکھ بار جئے(۷)
زہرہ نگاہ کی نظم میں مزاحمتی رنگ واضع نظر آتا ہے۔ان کے ہاں ابتدا ء ہی سے پختہ فکر کے آثار ملتے ہیں۔عالمی جنگوں نے دنیا کو تباہی کے علاوہ کچھ نہیں دیا۔بارود کی بو اور بموں کے دھماکوں نے زندگی کو خوف اور وسوسوں میں مبتلا کر دیا ہے۔زہرہ نگاہ امن کی خواہش مند ہیں اپنی اس خواہش کو نظم ’’ویت نام‘‘ میں بچوں کی خواہش بنا کر پیش کرتی ہیں:
جب سے میری آنکھ کھلی ہے
میں نے اپنی اس دنیا میں
آگ برستی دیکھی ہے
خندق کی اس گود میں ،میں نے
جینا سیکھا،رہنا سیکھا
ہر دکھ درد کو سہنا سیکھا
جب سے میں نے کہنا سیکھا
میرے لبوں سے ہی نکلا
میری بستی پر چھائی یہ چھت آخر کب نیلی ہو گی
کب اس میں تارے چمکیں گے؟
اور کب دودھ سے بادل جو میں سوچوں گا وہ بن جائیں گے
اور کب روشن دھوپ کے ذرے میری مٹھی میں آئیں گے؟
(۸)
فہمیدہ ریاض کی نظموں کا موضوعاتی دائرہ بہت وسیع ہے۔فہمیدہ کے ہاں جسم اور جذبے کی پکار نمایاں اور بلند آہنگی کے ساتھ سنائی دیتی ہے۔لیکن۱۹۷۷ء کے مارشل لاء کے بعد ان کی شاعری میں ایک بڑی تبدیلی آئی اور انھوں نے سیاسی ،سماجی جبر کے خلاف آواز بلند کی۔اس دور کی شاعری میں فہمیدہ ریاض کے موضوعات ہی تبدیل نہیں ہوئے بلکہ مجموعی رویوں میں بھی تبدیلی کا احساس ہوتا ہے اور جذبات و احساسات کی بجائے مزاحمت کا رنگ غالب آ جاتا ہے:
بلند سر بے کسوں کی حرمت
یہی تو تھی جسم و جاں کی قیمت
متاع انمول ہاتھ آئی
لٹا کے دامن سے ساتھ آئی
وہی گھٹی آہ چیخ بن کر ضمیر عالم ٹٹولتی ہے
بہت نمک خوار مضطرب ہیں کہ برملا راز کھولتی ہے
یہی غیرت خاک ہے
کہ جو میرے نطق میں ڈھل کے بولتی ہے (۹)
ہمارا معاشرہ طبقاتی اور جاگیردارانہ معاشرہ ہے جس میں سرمایہ دار اور جاگیر دار ہمیشہ مضبوط ،طاقت ور اور با اختیار رہا ہے۔نچلا طبقہ کمزور سے کمزور تر ہوتا چلا گیا۔صدیوں سے اس طبقے کا استحصال جاری ہے۔پاکستانی شاعرات نے اس صورت حال کو محسوس بھی کیا اور اپنی تخلیقات کا موضوع بھی بنایا۔فہمیدہ ریاض نے سرمایہ دار طبقے کے خلاف آواز اٹھائی اور استحصالی طبقے کی حمایت میں ان کے لہجے میں گہرا طنز نظر آتا ہے:
کوئی نیا پیغام نہ سن لیں
ننگے پاوں بھوکے ہاری
گلی گلی بے حیا بھکاری
موٹی گردن والے افسر
توندیں سہلاتے بیوپاری
جیون بھر ذلت اور خواری
اس کے بدلے نان شبینہ(وہ بھی کسی کسی کو ملے گی)
تم بھی میاں کس دھیان میں بیٹھے
نیر بہاتے ہو بے کار
اس دھرتی پر۔۔۔۔۔۔(۱۰)
کشور ناہید انسانی حقوق کی علم بردار ہیں۔’’لب گویا‘‘کی شاعری میں کشور ناہید پرجذبہ تفکر پر حاوی نظر آتا ہے۔’’لب گویا‘‘ کی شاعری می ہلکا پھلکا رومانوی انداز ہے جبکہ ’’بے نام مسافت‘‘ میںفکری دائرہ حقوق نسواں کی جنگ سے بڑھ کے مظلومیت کی اجتماعی داستان تک آ پہنچتا ہے۔’’بے نام مسافت،نظمیں،گلیاں دھوپ اور دروازے اور ملامتوں کے درمیان‘‘ کی نظموں کا بنیادی مزاج مزاحمتی ہے۔ابتدا میں ان کی جنگ اپنے عورت پن سے تھی بعد میں یہی جنگ پورے نظام کے خلاف لڑائی میں تبدیل ہوگئی۔ جب وہ دیکھتی ہیں کہ لوگ معاشرتی زوال کے گرداب میں پھنستے جا رہے ہیں اور آزادی کے لئے کوشش نہیں کرتے تووہ جھنجھلا کر طنز کے تیر چلاتی ہیں:
ہم گونگے پن کے متلاشی
تالی بجانے والے آواز استعمال نہیں کرتے
آواز،آزاد ہو تو نعرہ منصور
اور گھٹ جائے توحسن ناصر بن جاتی ہے
مگر گونگے چیخ تو سکتے ہیں
یہ کیوں۔۔۔۔یہ کیوں ممکن ہے (۱۱)
ابتدا میں کشور ناہید کی بغاو ت اپنے عورت پن سے تھی لیکن بعد میں یہی جنگ ذات کی تنگنائے سے نکل کرپورے نظام کے خلاف ایک بڑی لڑائی میں تبدیل ہو گئی۔عالمی منظر نامے پر بھی کشور ناہید کی بڑی گہری نظر ہے۔دنیا تیسری جنگ عظیم کی طرف جا ری ہے۔ کشورناہید کے ہاں یہ المیہ ایک بہت بڑا دکھ بن کر سامنے آتا ہے:
اٹھو اماں!
بچے بھوک سے چیخ رہے ہیں
چولہا کیسا!
اب تو ہمارا سارا گھر ہی سلگ اٹھا ہے
دھواں بھرا ہے (۱۲)
کشور ناہید کی طرح پروین شاکر بھی جذباتی کیفیت سے فکری منزل کی طرف سفر کرتی ہیں۔پروین شاکر کا پہلا مجموعہ’’خوش بو‘‘ان کی شخصیت کا استعارہ بن گیا۔’’خوش بو اور خود کلامی‘‘ کے بعدصد برگ اور انکار کی شاعرہ ایک الگ روپ میں نظر آتی ہے۔ پروین شاکر اپنے جذبے کی اسیری سے نکل کرجس راہ کی مسافر بنی اس نے انہیں صد برگ اور خود کلامی سے انکار تک پہنچا دیا اور ان کے اندر موجود کے خلاف مزاحمت کا رویہ پید اہو گیا۔’’انکار‘‘ کی بیشتر نظمیں سیاسی اور مزاحمتی رنگ میں ہیں۔پروین شاکر کے مزاحمتی رویے کا اظہار ان کی نظموں’’شام غریباں، علی مشکل کشا،ظل الہی کے پرابلم،ایک نکاح اور کتوں کا سپاس نامہ‘‘ میں واضع نظر آتا ہے۔سیاسی و مزاحمتی نظموں میں پروین شاکر کا طنزیہ اسلوب صاف دکھائی دیتا ہے:
راج پاٹ کرنے والوں کی جان
ہتھیلی پر رہتی ہے
بے چاروں کے مسائل کیسے عجیب ہوتے ہیں
حرم سرا میں پلنے والی چھوٹی بڑی ریاست
بالاعلان بغاوت،در پردہ سازش
دشمن جلد ہی کھل جاتے ہیں
ان سے نپٹنا اتنا مشکل کام نہیں
الجھاو تو پاوں چومنے والوں سے پڑتا ہے
اور ان کی بھی دو قسمیں ہیں
ایک تو کہتے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اپنی وفا داری میں شہرت عام رکھنے والے
جب تک جی چاہے پیروں میں لوٹتے ہیں
پھر اپنی ہڈی لے کر الگ ہو جاتے ہیں
دوسری قسم پیروں پر چلتی ہے
دیکھنے میں انسان مگر باطن کے ریچھ
تلوے چاٹتے چاٹتے پیارے آقا کو ایسا کر دیتے ہیںکہ
ایک سہانی صبح کو جب
اپنی کنیز خاص کی بھیرویں سن کرآنکھیں کھولتے ہیں تو
ظل الہی
اپنے پاوں ڈھونڈتے رہ جاتے ہیں(۱۳)
’’ صد برگ اور انکار ‘‘ میں بحثیت شاعرہ پروین شاکر کا اجتماعی شعور بیدار ہوتا محسوس ہوتا ہے۔صد برگ کاتیز لہجہ او ر کسی حد تک پر خشونت اسلوب میں لکھا گیاپیش لفظ’’رزق ہوا‘‘نئی پروین شاکر کی شاعری کے منشور کی حیثیت رکھتا ہے۔(۱۴) صد برگ سے انکار تک کا عرصہ پروین شاکر کی تخلیقی شخصیت کی پختگی کا عہد ہے۔پروین نے اپنے لئے جس نصب العین کا انتخاب کیا اسے عمر بھر نبھایا۔ایسا نصب العین جس میں وطن کی محبت ،حرمت قلم اور جمہوری رویوں سے کمٹمنٹ کو اساسی حیثیت حاصل تھی۔ آمریت کے دور میںپروین شاکر کی شاعری کا ذائقہ تلخ سے تلخ تر ہوتاچلا گیا۔ پروین شاعری میں سوالات اٹھاتی ہیں ایسے سوالات جن کے جواب آج بھی تشنہ ہیں۔پروین شاکر کی ذات ،حسن اور پیار کی خوش بو سے چلی مگر ہماری تاریخ کے عہد جبر اور عہد احتساب نے اسے شہر کے مرثیہ پر مامور کر دیا۔(۱۵)
شبنم شکیل کے ہاں مزاحمت کی دبی دبی آواز سنائی دیتی ہے یہ مزاحمت ذات کے حصار سے نکل کراجتماعی سماجی حقیقتوں کی ترجمان بن جاتی ہے۔ثمینہ راجا کی بہت سی نظمیں’’ ایتھوپیا،جنگ تو ہم نے لڑی اور گینگ ریپ ‘‘ وغیرہ ان کے عصری شعور کی عکاسی کرتی ہیں۔ناہید قاسمی دور حاضر کے جبر و استبداد کو شدت سے محسوس کرتی ہیں اور اس اندھیرے میں اجالے کی تمنا کرتی ہیں۔ یاسمین حمید کے ہاں بھی عالمی و ملکی سیاسی و معاشرتی حالات کے خلاف احتجاج اور اپنے حقوق کے تحفظ کے لیے گونج سنائی دیتی ہے:
لوگ خاموش ہو گئے
اپنی اپنی قسمتوں سے صلح کرنے والے
جبر کو تسلیم کر کے
نمک کی کانوں میں گم ہو گئے
اور خود کو دیوار چاٹنے پر مجبور کر لیا(۱۶)
اردو کی نظم نگار شاعرات نے صرف اپنی رومانی آرزو مندی،ذہنی اور نفسیاتی تطابق،سپردگی او ر بیگانگی جیسے موضوعات پر ہی سخن فرمائی نہیں کی بلکہ وقتا فوقتا پروان چڑھنے والے رجحانات،محرکات اور اسالیب فکر و فن سے بھی آگاہی حاصل کی۔ان شاعرات کے شعری تجربات اپنے عہد سے ہم آہنگ ہیں۔ اپنے عہد کے انسانوں کے داخلی و خارجی،نفسیاتی و روحانی مسائل کا مشاہدہ و مطالعہ ان کی منظومات کا موضوع رہے۔ان شاعرات کی حسیت عصری اور جدید ہے۔شاعرات کے ہاں ہمیں انقلاب کی آواز بھی سنائی دیتی ہے اور انقلاب برپا کرنے کے لئے دعوت عمل بھی ملتی ہے۔ادا جعفری سے لے کر دور جدید کی شاعرات تک کی منظومات میں مزاحمت کے عناصر دکھائی دیتے ہیں ان شاعرات کی تخلیقات میں محب وطن پاکستا نی کاسوچتا ہوا دماغ اور دھڑکتا ہوا دل نظر آتا ہے۔
حوالہ جات
۱۔ ابرار احمد،مزاحمتی ادب،اسلام آباد،اکادمی ادبیات،۱۹۹۴ء،ص۱۰۷۸
۲۔ ادا جعفری،میں ساز ڈھونڈتی ہوں،مقام اشاعت ندارد،۱۹۵۰ء،ص۹
۳۔ ادا جعفری، شہر درد،کراچی گلڈ اشاعت گھر،اشاعت اول،ستمبر ۱۹۶۷ء ،ص ۱۸۲
۴۔ ادا جعفری،شہر درد،کراچی گلڈ اشاعت گھر،اشاعت اول ستمبر ۱۹۶۷ء ص۱۴۶
۵۔ ادا جعفری،میں ساز دھونڈتی ہوں،مقام اشاعت ندارد،۱۹۵۰ء ، پیش لفظ
۶۔ ادا جعفری،ساز سخن بہانہ ہے، لاہور،غالب پبلشرز،پہلا ایڈیشن مئی ۱۹۸۲ء، ص۱۵۷
۷۔ پروین فنا سید،حرف وفا،مکتبہ فنون ،بار اوّل ،۱۹۷۵ء ،ص ۳۹
۸۔ زہرا نگاہ، شام کا پہلا تارا،نئی دہلی،مکتبہ جامع لمیٹڈ،جولائی ،۱۹۹۰ء، ص۱۳۵
۹۔ فہمیدہ ریاض،میں مٹی کی مورت ہوں،لاہور،سنگ میل پبلی کیشنز،۱۹۸۸ء ص۲۷۳
۱۰۔ فہمیدہ ریاض،میں مٹی کی مورت ہوں،لاہور،سنگ میل پبلی کیشنز،۱۹۸۸ء، ص۴۷
۱۱۔ کشور ناہید،فتنہ سامانی دل،گلیاں،دھوپ اور دروازے،لاہور،سنگ میل پبلی کیشنز،بار اول،۱۹۸۵ء،ص ۵۳۱
۱۲۔ کشور ناہید،بصرہ کی مردہ ماں کے لئے بچے کی لوری،ادبی سلسلہ دنیا زاد،شمارہ ۱۰،ص۲۶۷
۱۳۔ پروین شاکر،ماہ تمام،صد برگ،دہلی ایجوکیشنل پبلشنگ ہاوس،۱۹۹۶ء، ص۱۹۱
۱۴۔ سلیم اختر،ڈاکٹر،پاکستانی شاعرات ،تخلیقی خدوخال،لاہور،سنگ میل پبلی کیشنز،۲۰۰۸ء،ص۲۶۱
۱۵۔ سلیم اختر ،ڈاکٹر،پاکستانی شاعرات ،تخلیقی خدوخال،لاہور،سنگ میل پبلی کیشنز،۲۰۰۸ء،ص۲۶۲
۱۶۔ یاسمین حمید، ہم دو زمانوں میں پیدا ہوئے،مشمولہ،ادبیات،اسلام آباد،،نثری نظم نمبر
،شمارہ ۷۷۔۷۸،جلد ۱۸،اکتوبر ۲۰۰۷ تا مارچ ۲۰۰۸،ص ۲۰۱
٭٭٭
Urdu Shairaat ki Namoon mein…By: Iram Saba
Leave a Reply
Be the First to Comment!