بیگ احساس کا افسانہ ’’کھائی ‘‘ کا تجزیاتی مطالعہ

مہر فاطمہ

ریسرچ اسکالر جامعہ ملیہ اسلامیہ ،نئی دہلی

meharekta88@gmail.com

بیگ احساس اردو فکشن کی دنیا کا ایک ممتاز نام ہے ،وہ بیک وقت محقق ،نقاد ،استاد ،ادیب ، اور مقرر ہیں۔انھوں نے اپنے ادبی سفر کا آغاز افسانہ نگاری سے کیا اور گزشتہ تین دہائیوں میں جدید ڈکشن میں ایسی کہانیاں لکھی ہیں کہ جدید افسانے کے موضوع پر گفتگو بیگ احساس کے حوالے کے بغیر ادھوری رہ جائے گی۔’’خوشۂ گندم ‘‘، ’’حنظل ‘‘اور ’’دخمہ ‘‘ ان کے افسانوی مجموعہ ہیں۔دخمہ اور حنظل کے لفظ سے مجھے مجتبیٰ حسین کا مضمون ’’بیگ احساس تم ہی ہو ‘‘(’چہارسو‘مئی ،جون ۲۰۱۸) یاد آگیا۔مجتبیٰ حسین لکھتے ہیں :

’’جتنی محنت وہ خود افسانہ لکھنے میں کرتے ہیں اتنی ہی محنت وہ اپنا افسانہ پڑھنے والے قاری سے بھی کراتے ہیں کم از کم مجھ جیسے کم علم سے تووہ محنت ضرور کراتے ہیں۔جب سے میری عمر اسی برس کے قریب تک پہنچنے کے آثار دکھائی دینے لگے ہیں ،میں نے اپنی ساری ڈکشنریوں کو اٹھا کر الماری کے سب سے اوپر والے شیلف میں رکھوا دیا ہے ،بھلاا ب اس عمر میں کسی لفظ کے معنی جان کر میں کیا کروں گا،اور اگر معنی سمجھ میں آبھی گئے تو ان پر عمل پیرا کیونکر ہو سکوں گا۔تاہم بیگ احساس نے کم از کم دو مرتبہ مجھ جیسے ضعیف آدمی کو مجبور کیا کہ میں سیڑھی لگا کر جیسے تیسے ان ڈکشنریوں کو نیچے اتاروں اصل قصہ یہ ہیں کہ ان کے افسانہ کا عنوان تھا ’’حنظل ‘‘۔ اب میں پریشان کہ یہ حنظل کیابلا ہے۔ تلاش بسیار کے بعدپتہ چلا کہ حنظل کڑوے پھل کو کہتے ہے ،بتائیے میں تو صبر کے پھل کے انتظار میں ہوں اور بیگ احساس نے تو میری خدمت میں کڑوا پھل پیش کردیا۔ایک اورافسانہ کا عنوان تھا ’’دخمہ ‘‘ اس بار پھر وہی سیڑھی کی کشاکش اور محنت سے گزر کر معنی دیکھا تو معلوم ہوا کہ ’’پارسیوں کے قبرستان ‘‘ کو کہتے ہیں۔اب بھلا بتائیے عمر کی اس منزل میں قبرستان کا خیال اکثر آتاہے لیکن میں پارسیوں کی قبرستان کو لے کر کیا کروں گا۔مگر جب افسانہ پڑھا تو اس کے انوکھے بیانیہ اور طرز ادا کو پڑھ کر جی خوش ہو گیا۔چلو ڈکشنریوں والی کڑی محنت تو اکارت تونہیں گئی۔‘‘

بیگ احساس کے افسانوں کے عنوان چاہے کچھ بھی ہو لیکن بیگ احساس کے جملے نہایت مختصر اور سلیس ہوتے ہیں ،اس کی مثال اردو کے کسی دوسرے افسانہ نگار کے یہاں مشکل سے ہی ملتی ہے۔ایسا استعمال وہی استاد کرسکتا ہے جو سہل ممتنع پر قادر ہو۔بیگ احساس کی زبان میں برجستگی ہے سادگی اور تازگی ہے۔وہ اکثر مشکل اور پیچیدہ مسائل میں بھی بڑی آسانی سے گزر جاتے ہیں اور اپنے زبان بیان کے ایجاز واختصار اور سادگی پر آنچ نہیں آنے دیتے۔ریختہ پر موجود دس افسانے اجنبی اجنبی ،چکر ویو ،دخمہ،دھار، رنگ کا سایہ ،خس آتش سوار، سانسوں کے درمیاں،شکستہ پر ،کرفیواور کھائی خود دس بارہ صفحات سے زیادہ کے نہیں ہیں یہ اختصار کسی کمی یا واقعات وجزئیات سے احتراز یا بیانیہ میں عجزکے سبب نہیں کیونکہ جہاں کہیں بھی ایسا ہوتا ہے وہاں افسانہ عجلت نویسی کی تصویر بن جاتا ہے اور تشنگی کااحساس چھوڑ جاتاہے۔اس لیے کہا جا سکتا ہیں کہ ان کے یہاں اختصار اجمال کا حسن رکھتاہے ،ان کے یہاں ایک واقعہ میں بھی کسی بے جا تفصیل یا ایک جملہ اور یہاں تک کہ ایک لفظ بھی بھرتی کا نہیں ملے گا۔

بیگ احساس کا افسانہ ’’کھائی ‘‘معاشرے کی حقیقی تصویر پیش کرتا ہے۔ اس افسانے میں اتنی سچائی ہے کہ لگتا ہی نہیںہے کہ ہم افسانہ پڑھ رہے ہیں۔جاگیردارانہ نظام کے زوال پر مبنی یہ افسانہ نہ جانے کتنے گھروں کی کہانی معلوم ہوتاہے۔آج بھی ہم اپنے معاشرے میں کتنے ہی ایسے عالیشان گھروں اور نامور شرفا دیکھنے کو ملتے ہیں جن کے اندرونی حالات بالکل بر عکس دکھائی دیتے ہیں۔یہ افسانہ فلش بیک میں لکھا گیا مختصر افسانہ ہے۔افسانے کاآغاز اس طرح ہوتاہے :

’’برف کی سلوں کے درمیان شوکت میاں کی نعش رکھی تھی ،پنکھا تیزی سے چل رہا تھا ،برف پگھلنے کی وجہ سے پانی کی بوندیں فرز پر گر رہی تھی قرآن کی تلاوت کرتے ہوئے کفایت علی نے اپنے باپ کی نعش کی طرف دیکھا ،وہ فیصلہ نہیں کرسکا کہ اسے اپنے  باپ کے مرنے کا افسوس بھی ہے یا نہیں ؟ اتنا ضرور ہے کہ وہ آزادی محسوس کررہا تھا جیسے قید سے رہائی ملی ہے اس شخص کی موجودگی میں اسے اپنا وجود نظر ہی نہیں آرہا تھا۔‘‘

کہانی کا خلاصہ اس طرح ہے کہ شوکت علی کی نعش رکھی ہوئی ہے ،رجئیا ان کے قدموں کے پاس بیٹھا ہے جیسا کہ ان کی زندگی میں بیٹھتا تھا،اور مغموم ہو کر آنسو بہارہا ہے۔رجئیا کا بیٹا ڈاکٹر بن گیا ہے اور شوکت علی کی جانچ وغیرہ کا کام وہی کرتا ہے۔سب نے ساتھ چھوڑ دیا ہے لیکن رجئیا نے بیٹے کے ڈاکٹر بننے اور حالات کے بہتر ہونے کے باوجود ان کا ساتھ نہیں چھوڑا ،اور نواب صاحب کو نوابیت کا احساس دلاتا رہا۔  ان کا بیٹا کفایت علی تمام لوگوں کے درمیان بیٹھا ہے اور نہایت اطمینان محسوس کر رہا ہے کیونکہ اب اپنی مرضی سے جی سکے گا اور گھر کے تمام فیصلے لے سکے گا۔کفایت علی ایک نواب خاندان میں پیدا ہوتا ہے جس کی معاشی حالت انتہائی خراب ہو چکی ہے لیکن نواب شوکت علی کی زندگی میں کوئی تبدیلی نہیں آتی ہے۔ان کی غذا ،لباس ، رہن ،سہن اور اپنے آخری خدمت گار ’’رجئیا‘‘ کے ساتھ وہ اپنی خوابوں کی دنیا میں زندگی گذارتے ہیں اور اپنے تمام عسرتوں اور قرضوں سے بے نیاز نواب شوکت علی کہلاتے ہیں۔کفایت علی نے ابتدا ہی سے گھر میں پریشانیوں اور تنگیوں کا انبار دیکھا ہے۔وہ کفایت شعار ہو جاتا ہے اور گھر کی ضروریات پوری کرنے کے لئے کلرک کی ملازمت کرلیتا ہے۔شوکت علی نے گھر اور حالات کی طرح کفایت علی کی پڑھائی اور مستقبل کی کبھی خبر نہیں لی۔اور ہمیشہ اس کی کفایت شعاری اور معمولی زندگی کو حقارت کی نگا ہ سے دیکھا۔جب کہ کفایت علی کا بیٹا ’شہزادہ ‘مزاجا نواب واقع ہوتا ہے اور اسی وجہ سے باپ سے زیادہ دادا کے قریب ہو جاتا ہے کفایت علی اپنے بیٹے کی پڑھائی پر خاص توجہ دیتے ہے انھوں نے رجئیا سے پیسے لے کر اس کاداخلہ ایک اچھے اسکول میں کرایا لیکن میٹرک میں ہر دفعہ فیل ہونے پر ان کے پیروں تلے سے زمین نکل جاتی ہے حالانکہ پھر وہ گاؤں کے لڑکوں کے ساتھ سعودی چلا جاتا ہے اور اس طرح گھر کے حالات پھر بدل جاتے ہے۔دادا اس کی شادی نہایت امیر و جاگیردار خاندان میں کراتے ہیں۔شوکت علی کی طرح شہزادہ بھی کفایت علی کو حقارت کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔قاری کو دھکہ وہاں لگتا ہے کہ کفایت علی نے شوکت علی کے لیے قبر تیار کرالی ہوتی ہے اور شہزادہ کاانتظار ہوتا رہتا ہے ،برف کی سلی پگھل پگھل کر ختم ہوتی رہتی ہے جب شہزادہ آتا ہے تو اپنے امیر وکبیر سسرال والوں سے مل کر روتا ہے اور تسلیاںبٹورتا ہے ،انھیں کی مدد سے اعلیٰ قبرستان میں جگہ حاصل کرتا ہے لوگ شوکت علی کی شاندار تدفین پر عش عش کرتے ہیں۔اور پوتے کی تعریفوں کے پل باندھتے ہیں ، کہ جیسی شوکت علی نے زندگی گذاری ویسی ہی پوتے نے تدفین دی۔پھر جب کفایت علی کی تیار کروائی ہوئی قبر کی اجرت لینے والے جب پورے پیسے مانگتے ہے تو کفایت علی اپنی عادت کے مطابق کم پیسے دینے پر اصرار کرتا ہے آواز سن کر شہزادہ آ تا ہے جو کہ سسرالی رشتہ داروں اور مہمانوں کے درمیان بیٹھا تھا۔ پورے پیسے دے کر انھیں رخصت کرتا ہے ،کفایت علی جب بولتے ہیں کہ اس قبر کا کیا ہوگا تو بیٹا کہتا ہے کہ آپ جائیں گے۔یہ سن کر کفایت علی وہی برف کی سل پر گر کر برف ہو جاتے ہیں۔یہی کہانی کا اختتام ہے جو قاری کے ذہن کو مغموم اور سوچنے پر مجبور کر دیتا ہے۔

یہ کہانی جہاں ایک طرف نام اور دکھاوے کی زندگی سے بیزاری پیداکرتی ہے ،وہی دوسری طرف تعلیم کے سلسلے میں اس حقیقت کو بیان کرتی ہے کہ نوابوں اور جاگیرداروں کی اولادیں محتاج رہ جاتی ہے جب کہ تنگدستی میں پیدا ہوئی غریب کی اولایں محنت و مشقت سے آگے بڑھ جاتی ہے۔ اس کہانی میں دولت کی فراوانی ،عیاشی و عیاری اور دکھاوے کی طرف اشارہ کیاگیا ہے جب کہ نہ تو شوکت علی کے پاس شوکت ہے نہ شہزادے کے پاس کوئی ریاست سب دکھاوا ہے ،ہاں کفایت علی کے یہاں کفایت شعاری ضرور ملتی ہے۔ایک وہی سچا اور کھرا آدمی ہے ایک ایسا آدمی جو  زر پرستوں کی سفاک دنیا میں اپنی کردار کی مضبوطی کے زریعہ بہت سے طوفانوں سے گزر جاتا ہے۔جب کہ یہ بات بھی سامنے آتی ہے کہ آج کے معاشرے میں پیسہ ہی عزت دلوا سکتاہے بلکہ لوگ محبت و ہمدردی بھی عزت ودولت کی بنیاد پرکرتے ہیں۔خواہ وہ اولاد ہی کیوں نہ ہو ،وہیں قاری کے ذہن میں کئی سوالات بھی پیدا ہوتے ہیں مثلاکفایت علی کی کفایت شعاری نے اسے ویسے ہی انجام تک پہنچایا،جب کہ شوکت علی نہایت ہی شان و شوکت کے ساتھ دفن ہوئے تو کیاحالات سے سمجھوتہ کرنا غلط ہے یا لوگوں کی سوچ اور نظریہ نے اسے غلط بنا دیاہے ؟

اس کہانی کو پڑھنے کے بعداس طرح کے کئی سوالات ذہن میں ابھرتے ہیں ،ساتھ ہی ایک زبیر رضوی کی نظم ’’شریف زادہ ‘‘ ذہن میںگردش کرتی ہے ،جس کا ایک بند ملاحظہ فرمائیں۔

بزرگوں کی بانکی سجیلی وجاحت کو

تم نے سر عام یوں روند ڈالا

سلیقہ جوہوتا تمہیں لغزشوں کا

تو اپنے بزرگوں کی مانند تم بھی

گھروں میں کنیزوں سے پہلو سجاتے

پئے عشرت دل حویلی میں ہر شب

کبھی رقص ہوتا کبھی جام چلتے

کسی ماہ رخ پر دل وجاںلٹاتے

سلیقہ جوہوتا تمہیں لغزشوں کا

تو یوں خاندانی شرافت وضاحت

نہ مٹی میں ملتی نہ بدنام ہوتی

٭٭٭

Beg Ehsas ka Afsana ‘Khai ka Tajziyati Mutal’a by: Mehar Fatima

Leave a Reply

Be the First to Comment!

Notify of
avatar
wpDiscuz
Please wait...

Subscribe to our newsletter

Want to be notified when our article is published? Enter your email address and name below to be the first to know.